جناب جب میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے جرم کیا ہے تو آپ کیوں نہیں مانتے۔' اس نے انسپیکٹر کو ایک مرتبہ پھر سمجھانے کی کوشش کی جو اس وقت اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔
اچھا تو تم نے اپنی بیوی کو مارا ہے؟' انسپیکٹر نے لاپرواہی سے پوچھا۔
جی انسپکٹر صاب۔ کل رات میری اس سے لڑاںٔی ہوںٔی اور میں نے غصے میں آ کر اس کا قتل کر دیا اور اس کی لاش نہر میں پھینک دی'۔'
جاؤ اپنا کام کرو جا کر۔ ہمارا وقت برباد مت کرو' انسپیکٹر نے اسے ڈانٹتے ہوۓ کہا
۔
مگر انسپکٹر صاب آپ مجھے گرفتار کیوں نہیں کرتے۔ جب میں اپنے جرم کا اقرار کر رہا ہوں تو پھر آپ مجھے گرفتار کریں'۔'
ہم تمہیں یونہی گرفتار کر لیں ایسے ہی کسی کو گرفتار نہیں کیا جاتا'۔
'تو پھر کیسے۔۔۔'
اچھا ٹھیک ہے چھوڑو۔ تم یہ بتاؤ تم نے کیوں مارا اپنی بیوی کو؟' انسپیکٹر نے قطع کلامی کرتے ہوۓ اس سے پوچھا۔
وہ انسپکٹر صاب! دراصل میری بیوی بڑی نافرمان تھی جناب۔ بلکل بھی بات نہیں مانتی تھی۔ اوپر سے بڑھ بڑھ کر باتیں کرتی تھی۔ رات کو مجھے غصہ آگیا اور میں نے گملا اٹھا کر اسے دے مارا۔ وہ وہیں پر ڈھیر ہو گئ۔ پھر میں ڈر گیا اور اس کی لاش اٹھا کے لے جا کر نہر میں پھینک دی۔'
تو اب پھر تم کیوں آۓ ہو یہاں، اگر تم نے یہاں آنا ہی تھا تو لاش نہر میں کیوں پھینکی؟' انسپیکٹر نے پوچھا۔
مجھے اس کا بہت افسوس ہے جناب اسی لیۓ میں خود حاضر ہو گیا ہوں اپنا جرم قبول کرنے کے لیۓ۔ بس آپ اب مجھے جلدی سے گرفتار کر لیں'۔
نہیں کہہ جو دیا ہے تمہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ جاؤ یہاں سے۔' انسپیکٹر نے درشتی سے کہا۔
انسپیکٹر صاحب۔ یہ سب چھوڑیں اور میرا کچھ کریں۔ بھئی مجھے روز روز یہاں آنا پسند نہیں۔' ایک فربہ آدمی جو انسپیکٹر کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا بولا۔ اس نے شلوار قمیض کے اوپر واسکٹ پہن رکھی تھی اور سر پر سفید رنگ کی بڑی سی پگڑی تھی۔ اس کی مونچھیں لمبی اور گھنی تھیں جنھیں وہ بڑی اکڑ سے بیٹھا تاؤ دے رہا تھا۔ انسپیکٹر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
دیکھیۓ چوہدری صاحب آپ کے نام کی وجہ سے ہم نے آپ کے خلاف پرچہ نہیں کاٹا کیونکہ ہم جانتے ہیں وہ آپ پر جتنا مرضی الزام لگاںٔیں کہ آپ نے ان کے بیٹے کو قتل کروایا ہے لیکن ہم تو جانتے ہیں کہ آپ کتنے شریف اور عزت دار آدمی ہیں۔ مگر چوہدری صاحب کچھ دن تک تو آپ کو یہاں آنا پڑے گا نا'۔
چوہدری کے ملازم نے جو اس کی کرسی کے ساتھ کھڑا تھا نے کہا۔ 'لگتا ہے آپ چوہدری صاحب پر پوری طرح بھروسہ نہیں کرتے آپ نہیں جانتے چوہدری صاحب کتنے شریف اور ہمدرد انسان ہیں۔ کچھ دن پہلے کا ہی قصہ سن لیجیۓ، ہمارے گاؤں میں ایک غریب کسان ہے اس نے ایک دفعہ چوہدری صاحب سے قرضہ لیا تھا جسے وہ واپس نہیں کر پا رہا تھا۔ چونکہ وہ کافی مفلس تھا اس لیۓ اس کی بیٹی کی شادی کہیں بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ بس پھر چوہدری صاحب کے اندر ہمدردی کا جذبہ جاگا تو انہوں اس کا سارا قرضہ معاف کر دیا اور اس کی بیٹی سے شادی بھی کر لی۔ شروع میں تو وہ بالکل نہیں مان رہا تھا کہہ رہا تھا میری بیٹی تو بہت چھوٹی ہے اور چوہدری صاحب کی عمر تو کافی زیادہ ہے، ان کی تو اپنی دو بیٹیاں میری بیٹی سے بڑی ہیں۔ میں کیسے اپنی جوان بیٹی کی شادی ان سے کر دوں۔ مگر پھر چوہدری صاحب نے دو رائیفل بردار آدمی اس کے گھر لے جا کر اسے ایسا سمجھایا کہ وہ فوراً مان گیا۔ اب آپ ہی بتایۓ کون ایسا آدمی ہے جو کئ زمینوں اور مربعوں کا مالک ہو ایسے لوگوں میں شادی کرتا ہے۔ یہ تو ان کی دریا دلی اور فیاضی ہے کہ اس کا قرضہ بھی معاف کر دیا اور اس کے خاندان میں رشتہ بھی کر لیا۔ اسی طرح کا ایک قصہ اور سن لیجیۓ ہمارے گاؤں میں ایک بہت غریب آدمی ہے اس کی تھوڑی بہت زمین ہے جس سے اس کی گزر بسر ہوتی ہے۔ اس کی زمین کا کسی سے جھگڑا چل رہا تھا۔ اس کا مقدمہ کئ سال تک کچہری میں چلتا رہا، بیچارا کچہری کے پھیرے لگا لگا کے عاجز آ گیا تھا۔ پھر بھلا اس کی مدد کس نے کی؟ پوچھیۓ پوچھیۓ'۔
کس نے کی؟' انسپیکٹر نے معصومیت سے پوچھا۔
آپ بھی کمال کرتے ہیں انسپیکٹر صاحب، اور کس نے کرنی تھی اپنے چوہدری صاحب نے اور کس نے۔ انہوں نے اس سے کہا کہ اپنی آدھی زمین تم اگر مجھے دے دو تو میں تمہیں باقی آدھی زمین دھلا سکتا ہوں۔ اس نے کہا چوہدری صاحب میری تو تھوڑی سی زمین ہے وہ بھی اگر آپ آدھی لے لیں گے تو میں کیا کروں گا۔ مگر چوہدری صاحب کو تو بس اندر سے خدمت کا جذبہ ستا رہا تھا انہوں نے اسے سمجھایا کہ بھئ تمہارے مخالفین طاقت ور لوگ ہیں تم ان سے زمین حاصل نہیں کر سکو گے اس لیٔے آدھی پر ہی راضی ہو جاؤ۔ ان سے اور عدالت سے میں خود نپٹ لوں گا۔ بس پھر کیا تھا وہ راضی ہو گیا۔ اب آپ بتائیں کہاں ہو تے ہیں ایسے نیک دل، خدمت گزار اور رحم دل انسان'۔
بس انسپیکٹر صاحب مجھ سے لوگوں کا دکھ دیکھا نہیں جاتا جی۔' چوہدری نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوۓ کہا۔
جی ہاں بیشک جی بے شک۔ ہم بھلا آپ کو جانتے نہیں اسی لیٔے تو مخالف پارٹی کے لاکھ کہنے پر بھی ہم نے آپ کے خلاف پرچہ نہیں کاٹا'۔
انسپیکٹر خاموش ہوا تو چوہدری اٹھ کر جانے لگا، اچھا انسپیکٹر صاحب اب میں چلتا ہوں آپ کوشش کریں ہمیں زیادہ پھیرے نہ لگانے پڑیں۔ ہمیں کام وام بھی ہوتے ہیں اگر ہم اسی میں لگے رہے تو کام کون کرے گا'۔
جی آپ فکر ہی نہ کریں بس ذرا ہمارا خیال رکھیۓ گا۔' انسپیکٹر نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کرتے ہوۓ کہا۔
آپ کا تو ہمیں بڑا خیال ہے انسپیکٹر صاحب۔ بس ہمارا کام ہو جاۓ آپ کا بھی کر لیں گے کچھ'۔ چوہدری اپنے ملازم کے ساتھ باہر نکل گیا۔
وہ آدمی جس نے اپنی بیوی کا قتل کیا تھا ان کی گفتگو کے دوران پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا گیا تھا۔ اب چوہدری لوگوں کے جانے کے بعد اٹھ کر پھر انسپیکٹر کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔
'تو انسپکٹر صاب کیا فیصلہ کیا جی آپ نے میرا؟'
انسپیکٹر جو کسی سوچ میں گم تھا اسے دیکھ کر چونکا۔ 'کیسا فیصلہ؟ تم ابھی تک یہیں ہو دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔'
انسپیکٹر نے اسے ڈانٹا تو وہ سر جھکاۓ چپ چاپ باہر نکل گیا۔ باہر نکلتے ہی ایک پولیس والے نے جو دفتر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کھڑا تھا اسے روک لیا اور اس سے کہا۔ 'تم چاہتے ہو کہ انسپیکٹر صاحب تمہیں گرفتار کرنے کا حکم دیں؟
ہاں چاہتا تو میں یہی ہوں'۔
تو ٹھیک ہے جیسے میں تمہیں بتاتا ہوں ویسا کرو تو وہ تمہیں گرفتار کر لیں گے۔ لاؤ کان ادھر لاؤ۔' پولیس والے نے اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ سن کر واپس دفتر میں گھس گیا۔ اپنی جیب سے کچھ نکالا، مٹھی میں رکھا اور انسپیکٹر کے ہاتھ میں رکھ کر بولا۔ اب تو مجھے گرفتار کریں گے نا جناب۔
انسپیکٹر نے اپنا ہاتھ دیکھا، مسکرایا اور بلند آواز میں کہا، 'اسے گرفتار کر لو اسی نے اپنی بیوی کا قتل کیا ہے'۔

Post a Comment
Thank you for your comment