Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




 آج نجانے کیوں اسے یہ خیال آیا، اس نے صندوق سے اپنے پرانے کپڑے نکالے کچھ دیر انہیں غور سے دیکھا اور ان پر نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر انہیں سینے سے لگایا اور پہن لیۓ۔ اس کے بعد سائیکل پکڑی اور گھر سے باہر نکل آیا۔ اس نے جونہی پیڈل پر پاؤں مارا اسے ہلکے سے درد کا احساس ہوا۔ اس کی بوڑھی ہڈیوں میں وہ پہلے کی سی چستی و تندرستی نہیں رہی تھی۔ وہ اپنے عہدِ شباب میں کئ کئ میل تک ساںٔیکل چلایا کرتا تھا لیکن اب اسے ساںٔیکل پر بیٹھے کئی برس بیت گۓ تھے۔ وہ بمشکل اسے سنبھال پا رہا تھا مگر وہ اس سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ لڑکپن سے لے کر بعد کی عمر تک سینکڑوں ہزاروں سفر تھے جو اس نے سائیکل پر کیۓ تھے اور جو ابھی اس کے ذہن کی شاہراہ پر خیالوں کی صورت بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا جسے وہ کسی لیٹر  بکس میں ڈالنا چاہتا تھا مگر شہر بھر میں ایک بھی لیٹر بکس نہیں تھا۔ اس نے ڈاکخانے جانے کا فیصلہ کیا اور سائیکل کو اس جانب موڑ لیا۔ ڈاکخانے میں خط پوسٹ کرنے سے پہلے اس نے خط کو کھول کر دیکھا اور اسے اچھی طرح سونگھا، اس سے ابھی تک وہ خوشبو آرہی تھی جو اس نے آنے سے پہلے اس پر چھڑکی تھی۔ اس کے بعد اس نے پڑھنا شروع کر دیا۔ اس میں کچھ پیار بھری باتیں تھیں، کچھ وعدے تھے، التجاںٔیں تھیں، شکوے تھے جو شاید اس نے عہدِ جوانی میں کسی سے کیۓ تھے۔ یہ خط اس نے ساری رات جاگ کر تحریر کیا تھا اور اب اپنی آخری تسلی کر چکنے کے بعد اس نے ایک بار خط کو چوما اور پوسٹ کر دیا۔ اس کے بعد وہ خوشی خوشی گھر آیا اور بے صبری سے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ پھر اس نے سوچا تو اسے اپنے آپ پر ہنسی آگئ۔


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post