Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

   




کردار

طاہر= میچور عمر کا ایک لڑکا یا آدمی۔

فری= اصلی نام فرخندہ۔ طاہر کی بیوی۔

احمر= طاہر اور فرخندہ کا نو دس برس کا چھوٹا بیٹا۔ 

اسجد= احمر کا بڑا بھائی۔

ثانیہ= احمر اور اسجد کی تین چار برس کی چھوٹی بہن۔

آنٹی شعمونہ= ہمسائی۔

ٹیپو= آنٹی شمعونہ کا بیٹا۔ احمر کا ہم عمر دوست۔

شاہد= طاہر کا چھوٹا بھائی۔

سعدیہ= شاہد کی منگیتر۔

شاہزیب= اسجد کا دوست۔

امی= طاہر کی امی۔


پہلا منظر


دن کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


ایک بڑا سا لوِنگ روم ہے۔ فرخندہ کمرے میں کھڑی جھاڑ پونچھ کر رہی ہے اور بے ترتیب چیزوں کو درست کر رہی ہے۔ وہ گھر کے روزمرہ کے کاموں میں پوری طرح مصروف نظر آرہی ہے۔ جبکہ ایک طرف طاہر صوفے پر بیٹھا کسی اخبار یا کتاب کی ورق گردانی کر رہا ہے۔ 


فرخندہ: (اپنا کام کرتے ہوۓ ذرا بلند آواز سے) احمر۔۔۔اسجد۔۔۔آجاؤ جلدی پڑھائی کا وقت ہو گیا ہے۔ کھیلنا بند کرو۔۔۔اور کمرے میں جاکر دیکھو ثانیہ ٹھیک سے سوئی ہوئی ہے، کہیں اٹھ کر رونا نہ شروع کر دے۔


طاہر: (کتاب سے نظریں اٹھا کر) ویسے بیگم صاحبہ بچوں کی آپ کو بڑی فکر ہے۔۔۔


فرخندہ: (بات کاٹ کر) تو کیا نہ کروں؟


طاہر: نہیں وہ تو اچھی بات ہے مگر آپ شاید بھول رہی ہیں اس گھر میں آپ کا ایک عدد نادار و ناچار قسم کا شوہر بھی پایا جاتا ہے۔


فرخندہ: جی۔۔۔! آپ نادار اور ناچار؟ ایسی ناداری اور ناچاری کے تو کیا کہنے۔


طاہر: بات دراصل یہ ہے بیگم صاحبہ! ہمارا مطالبہ بس اتنا ہے بچوں کے ساتھ اگر ہمیں بھی تھوڑا سا 'ٹریٹ' کر لیا جاۓ تو کیا ہی اچھا ہو۔


فرخندہ: آپ کے مطالبات تو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایک پورا کرو تو دوسرا شروع، دوسرا پورا کرو تو تیسرا شروع۔ اور پھر اتنا تو بچے نخرے نہیں کرتے جتنا آپ کرتے ہیں۔ یہ چیز ایسی نہیں ایسی ہونی چاہیۓ، یہ اس طرح کیوں ہے اس طرح کیوں نہیں، اِس میں میٹھا زیادہ ہے اٌس میں نمک کم ہے۔ بچوں سے زیادہ تو آپ تنگ کرتے ہیں۔


طاہر: میں نے تو 'ٹریٹ' کرنے کو بولا تھا تم تو 'ڈیفیٹ' کرنے پر اتر آئی۔ 


فرخندہ: شکر کریں ابھی صرف ڈیفیٹ کر رہی ہوں ورنہ میں 'بیٹ' بھی کر سکتی ہوں۔


طاہر: اچھا جی! یہ ہنر تم نے کب سیکھا؟


فرخندہ: شادی سے پہلے سیکھ کر آئی تھی مجھے معلوم تھا شادی کے بعد اس کی ضرورت پڑے گی۔


طاہر: اچھا تو تمہیں مجھ پر اس قدر شک تھا؟


فرخندہ: (شرارت سے) نہیں مجھے تو آپ پر پورا بھروسہ تھا۔  


(ہنستا ہے)


طاہر: تو تمہیں پورا بھروسہ تھا میں ایسی حرکتیں ضرور کروں گا کہ تمہیں مجھے 'کوٹنا' پڑے گا۔۔۔ تو پھر ابھی تک تم نے اپنا یہ ہنر مجھ پر آزمایا کیوں نہیں؟ اس کا تو مطلب یہ ہوا میں نے ابھی تک ایسی ویسی کوئی حرکت نہیں کی؟


فرخندہ: (شرارت سے) نہیں! حرکتیں تو آپ کی بہت ساری ایسی ہیں بس ذرا زمانے کا خیال آجاتا ہے۔ لوگ کیا کہیں گے۔



طاہر: (ہنس کر) بس بیگم صاحبہ بس۔ تم جیتی ہم ہارے۔۔۔ بیگم اگر جملے باز ہو تو اس کے بھی اپنے کچھ 'پراز اینڈ کانز' ہوتے ہیں۔


فرخندہ: مثلاً کیا؟


طاہر: ہیں کچھ۔ ذرا تفصیل طلب ہیں کسی دن فرصت میں بتاؤں گا۔


(دروازے کی گھنٹی بجتی ہے)


فرخندہ: (بلند آواز سے) اسجد۔۔۔! باہر دیکھو کون ہے۔


(جانے لگتی ہے)


طاہر: کہاں جا رہی ہو؟ بات تو سنو۔


فرخندہ: کچن میں جا رہی ہوں۔ خوب  سمجھتی ہوں آپ نے اپنی یہ جو (خصوصی پر زور دے کر) خصوصی توجہ کتاب سے ہٹا کر میری جانب کی ہے تو کیوں کی ہے۔ 


طاہر: کیوں کی ہے؟


فرخندہ: کیونکہ آپ کا چاۓ پینے کا وقت ہو گیا ہے۔


طاہر: ارے واہ! سیانے کہتے ہیں اچھی بیگمات کی ایک نشانی یہ ہے وہ خاوند کے بغیر کہے ہی اس کی من کی بات جان لیتی ہیں۔


فرخندہ: آپ اور آپ کے سیانے۔ 


(چلی جاتی ہے)


(احمر اندر آتا ہے)


احمر: ماما آنٹی شعمونہ آئی ہیں۔ اور ساتھ ٹیپو بھی آیا ہے۔


فرخندہ: (اندر کچن سے) اچھا بٹھاؤ انہیں میں آتی ہوں۔


(آنٹی شعمونہ اور احمر دروازے سے اندر کمرے میں داخل ہوتے ہیں)


آنٹی شعمونہ: اسلامُ علیکم طاہر بھائی صاحب! کیا حال چال ہیں آپ کے؟


طاہر: اللہ کا شکر ہے ٹھیک ٹھاک آپ سنائیں؟


آنٹی: (صوفے پر بیٹھ کر) کیا بتاؤں بھائی صاحب۔ (ٹیپو کی طرف اشارہ کرکے) اس لڑکے نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ 


طاہر: کیوں کیا ہوا؟


شعمونہ: ہونے کیا ہے بس اس نے مجھے بہت پریشان کیا ہوا ہے۔


(فرخندہ آتی ہے)


فرخندہ: کیا کر دیا شمعونہ ہمارے اس چھوٹے سے ٹیپو نے جو تم اتنا پریشان ہو رہی ہو۔


شعمونہ: کچھ نہ پوچھو فری! اسی بات کی تو پریشانی ہے یہ ابھی بہت چھوٹا ہے اسے زندگی کی سمجھ نہیں۔ مگر ڈرتی ہوں اگر یہ ابھی نہ سیکھا تو آگے جا کر اسے مشکل ہو گی۔


طاہر: لیکن بہن جی کچھ تو بتائیں آخر اس نے کیا کیا ہے؟


شعمونہ: بات یہ ہے بھائی صاحب یہ نارمل بچوں کی طرح نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں یہ نارمل بچوں کی طرح بی ہیو کرے۔ اب دیکھیں نا یہ چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بھی نہیں بولتا۔ معمولی سے معمولی بات بھی پوچھو تو سچ سچ بتا دیتا ہے۔ گھر آکر سکول کی باتیں بالکل ٹھیک ٹھیک بتاتا ہے اور سکول میں ٹیچرز کے ساتھ بھی یہی 'سلوک' کرتا ہے۔ کلاس میں چاہے خراب مارکس بھی آۓ ہوں یہ ہمیں بالکل ٹھیک بتاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے یہ کوئی نارمل بی ہیویئر ہوا؟ بچے اتنا تو جھوٹ بول دیتے ہیں۔


 (طاہر اپنی بیوی کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے۔ وہ بھی اسکی طرف دیکھ کر ہنستی ہے)


طاہر: (طنزیہ انداز میں) ہاں یہ بات تو ہے یہ نارمل تو بالکل نہیں ہے۔


شعمونہ: یہی تو۔۔۔آپ تو جانتے ہیں اس دور میں جھوٹ بولے بغیر آدمی  ترقی کر سکتا ہے، ترقی تو چھوڑیں اگر آدمی تھوڑا بہت ڈپلومیٹ نہ ہو تو سروائیو نہیں کرسکتا۔ میں تو سوچ سوچ کر پریشان ہوتی ہوں یہ بڑھا ہو کر کیا کرے گا۔اسے اتنا سمجھایا ہے مگر یہ سمجھے تب نا۔


طاہر: (طنزیہ انداز میں شرارت سے) ہاں بات تو واقعی پریشانی والی ہے۔


شعمونہ: میں نے اس کے پاپا کو کہا ہے اسے کسی سائیکائٹرسٹ کو دکھائیں وہ اس کی کاؤنسلنگ کرے گا تو ہو سکتا ہے یہ دوسرے بچوں کی طرح نارمل بی ہیو کرنے لگے۔


طاہر: (طنزیہ انداز میں) ہاں ہاں آپ اسے ضرور کسی سائیکائٹرسٹ کو دکھائیں۔ اگر ابھی سے اسے نہ روکا تو اس کی عادت پختہ ہو جاۓ گی اور پھر اسے سنبھالنا مشکل ہو جاۓ گا۔


شعمونہ: بالکل یہی بات میں اس کے پاپا کو کہہ رہی تھی۔


فرخندہ: اور کوئی مسئلہ بھی ہے اس میں یا صرف یہی ہے؟


شعمونہ: ایک دو باتیں اور بھی ہیں جیسے کہ یہ ہر ایک سے بڑی پولائٹنس سے بات کرتا ہے۔ اب اگر آدمی میں رعب دبدبہ نہ ہو، اس کی آواز میں کرختگی اور خوف نہ ہو تو وہ مرد کیا ہوا۔ یہ تو ہر ایک سے ایسے بات کرتا ہے جیسے یہ لڑکا نہیں لڑکی ہے۔


فرخندہ: لیکن شعمونہ میں نے تو اسے کبھی لڑکیوں کی طرح باتیں کرتے نہیں سنا یہ تو بالکل ٹھیک ٹھاک بولتا ہے جیسے لڑکے بولتے ہیں۔


شعمونہ: بولتا تو لڑکوں کی طرح ہی ہے میرے کہنے کا مطلب تھا کہ یہ اتنی شائستگی اور پولائٹنس سے بولتا ہے یوں لگتا ہے جیسے لڑکا نہیں لڑکی بات کر رہی ہو۔ لڑکوں کا بھلا شائستگی، پولائٹنس یا کائنڈنس سے کیا کام۔۔۔ آج کل تو لڑکیاں بھی ایسے بات نہیں کرتیں یہ تو پھر لڑکا ہے۔


فرخندہ: تو ٹھیک ہے تم یہ بات بھی ڈاکٹر کو بتانا وہ اس کی کاؤنسلنگ بھی کرے گا اور شاید دوا بھی دے  جس سے یہ بالکل ٹھیک ہو جاۓ گا۔


شعمونہ: ہاں بتاؤں گی یہ بھی بتاؤں گی۔۔۔اچھا میں باتوں میں لگ کر بھول گئ کہ میں یہاں آئی کس مقصد سے تھی۔ میں اصل میں تمہیں صوفیہ کی منگنی کی دعوت دینے آئی تھی۔


فرخندہ: اچھا صوفیہ کی منگنی طے ہو گئ۔ کہاں ہوئی؟


شعمونہ: وہیں جہاں میں نے تمہیں بتایا تھا کہ اس کے رشتے کی بات چل رہی ہے۔


فرخندہ: پھر تو مبارک ہو۔ 


شعمونہ: خیر مبارک۔۔۔(اٹھنے لگتی ہے) اچھا میں اب چلتی ہوں۔ 


فرخندہ: ارے ایسے کیسے آئی ہو تو چاۓ پانی کچھ تو پی کر جاؤ۔


شعمونہ: نہیں مجھے دیر ہو رہی ہے میں نے ابھی رخشندہ کی طرف بھی جانا ہے۔


فرخندہ: تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ پھر چلے جانا اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ میں اِن کے لیۓ چاۓ بنا رہی تھی تمہارے لیۓ بھی بنا کر لاتی ہوں۔


شعمونہ: نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ تم آکر بیٹھ جاؤ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ میں بس تھوڑی دیر بیٹھوں گی۔


(فرخندہ بھی جا کر بیٹھ جاتی ہے)


دوسرا منظر


رات کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


سب افراد کھانے کی میز پر بیٹھے ہیں جبکہ فرخندہ کوئی چیز ہاتھ میں پکڑے باورچی خانے سے نکل کر آتی ہے اور لاکر میز پر رکھتی ہے۔ واپس پلٹنے لگتی لیکن باہر سے کسی کی آواز سن کر رک جاتی ہے۔ کچھ ہی پل میں شاہد فون پر باتیں کرتا ہوا اندر آتا ہے۔


شاہد: (فون پر) ہاں ہاں ٹھیک ہے کر دوں گا، فون بند کرو میں پہنچ گیا ہوں۔ بعد میں بات کرتا ہوں۔ (فون بند کر دیتا ہے) (بچوں سے) کیا حال ہے بچہ لوگ؟


بچے: (ایک ساتھ چلا کر) شاہد چاچو۔۔۔شاہد چاچو آگۓ۔


(شاہد آگے بڑھ کر ثانیہ کو گود میں بٹھا لیتا ہے) 


شاہد: ثانیہ میڈیم کیا کھا رہی ہے؟


ثانیہ: چاچو کٹڈ کھا رئی ہوں۔


شاہد: کیا کھا رہی ہو؟


ثانیہ: (چلا کر) کٹڈ۔۔۔


شاہد: اچھا کسٹرڈ کھا رہی ہو۔


ثانیہ: کٹڈ نہیں۔۔۔کٹڈ


شاہد: (ہنس پڑتا ہے) ٹھیک ہے کٹڈ کھا رہی ہو۔


ثانیہ: جی۔ سمجھ ہی نہیں آتی آپ کو۔


(دوبارہ ہنستا ہے)


فرخندہ: شاہد کھانا لاؤں تمہارے لیۓ؟


شاہد: ہاں بھابھی لے آئیں بڑی بھوک لگی ہے۔


طاہر: (کھانا کھاتے ہوۓ) اچھا کیا تم آگۓ۔ میں تمہیں فون کرنے والا تھا۔


فرخندہ: ابھی تو وہ آیا ہے اسے کھانا تو کھا لینے دیں آپ کو تو اپنے کام کی پڑ جاتی ہے۔


طاہر: میں بس بات کر رہا ہوں بعد میں بھول نہ جاؤں اس لیۓ ابھی بتا رہا ہوں۔


شاہد: آپ نے مجھے پھر سے گھمن صاحب کی طرف تو نہیں بھیجنا؟


طاہر: ہاں وہیں جانا ہے۔


شاہد: یار بھائی خدا کے لیۓ میں نہیں جانا والا اس کی طرف۔ وہ آدمی اتنا پکاتا ہے کہ پوچھو مت، اتنی باتیں کرتا ہے اتنی باتیں کرتا ہے بندہ تنگ پڑ جاتا ہے۔


طاہر: یار تم نے کون سا اس کے پاس پورا مہینہ رہنا ہے۔ پانچ منٹ کا کام ہے کرکے نکل آنا۔


شاہد: پانچ منٹ میں وہ آدمی پچاس منٹ کی باتیں کر جاتا ہے۔


طاہر: چل یارا تھوڑی دیر سن لینا پھر کیا ہے۔


شاہد: ہاں جی پھر کیا ہے۔ سننا تو مجھے پڑنا ہے آپ کو کیا۔ (بھابھی سے)  بھابھی قسم سے اگر آپ تھوڑی دیر اس کی باتیں سن لیں تو دو دن تک آپ کے کان درد کرتے رہیں گے۔ 


فرخندہ: (شرارت سے) اس معمالے میں تھوڑا بہت تو تمہارے بھائی پر گیا ہے۔


( جانے لگتی ہے)


شاہد: جی ہاں اور اسے جھیل بھی یہ ہی سکتے ہیں۔ مجھ میں وہ صلاحیت  نہیں۔  


طاہر: تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے کسی اور دنیا سے آۓ ہو۔ تم سے اس شخص کی پانچ منٹ کی باتیں برداشت نہیں ہو رہیں حالانکہ پوری قوم دن رات باتوں میں مشغول ہے۔ ،چیختے چنگھاڑتے ٹی وی چینلز ہیں جہاں دن رات بحث و تکرار جاری ہے، چوبیس گھنٹے بھک بھک چلتی ہے، چوکوں چوراہوں میں، منبر و محراب پر، جلسے جلوسوں میں ہر جگہ لمبے لمبے بھاشن ہیں، تقریریں ہیں، خطابات ہیں۔ اتنا شور ہے، اتنی چیخ و پکار ہے، کسی کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ہمارا کل اثاثہ باتیں ہی تو ہیں۔



شاہد: یہ بات تو تم نے ٹھیک کہی بھائی! مجھے لگتا ہے اس کرۂ ارض پر نائیز پولوشن (شور کی آلودگی) کے ذمے دار ہم لوگ ہی ہیں۔


اسجد: (آنکھوں سے احمر کی طرف اشارہ کرکے) کچھ اور لوگ بھی ہیں چاچو!


شاہد: کون احمر! کیوں آج اس نے کیا کیا ہے؟


اسجد: صبح سے مجھ سے آٹھ دفعہ وڈیو گیم ہار چکا ہے اور ہر دفعہ ہارنے کے بعد چیخنا شروع کر دیتا ہے۔


احمر: وہ اس لیۓ چاچو بھائی ہر دفعہ چیٹنگ کرتا ہے۔


اسجد: ہاں یہ اچھا ہے خود جیتنے نہیں ہوتا اور دوسروں کو کہتا ہے چیٹنگ کرتا ہے۔


(فرخندہ باورچی خانے سے نکل کر آتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں برتن اور روٹیاں وغیرہ ہیں)


فرخندہ: (دور سے) چیٹنگ تو تم کرتے ہو اسجد! میں نے خود تمہیں دیکھا ہے۔


اسجد: کیا ماما! کبھی تو میری سائیڈ لے لیا کریں۔


فرخندہ: (پاس آکر برتن رکھتے ہوۓ) بیٹا جو سچ ہے وہ تو سچ ہے۔ جب تم صحیح ہو گے تو تمہاری سائیڈ لوں گی۔ 


احمر: (منہ بگاڑ کر بھائی کو چڑاتا ہے)  


اسجد: (چڑ کر) دیکھا!۔۔۔ دیکھا ماما پھر آپ کہتی ہیں میں اسے کیوں کچھ کہتا ہوں۔ خود مجھے چڑا رہا ہے۔


فرخندہ: (ڈانٹ کر) انسان بنو احمر بڑا بھائی ہے تمہارا۔


تیسرا منظر


رات کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


فرخندہ اور طاہر ایک بڑے سے ٹیرس میں بیٹھے ہیں۔ فرخندہ ہاتھوں پر نیل پالش لگا رہی ہے اور طاہر موبائل دیکھ رہا ہے۔ ثانیہ اپنی چھوٹی سی سائیکل چلا رہی ہے۔


فرخندہ: طاہر! میں سوچ رہی تھی پرسوں امی کی طرف ہو آؤں۔


طاہر: (اس کی طرف دیکھے بغیر) کیوں، پرسوں کیا ہے؟


فرخندہ: (چڑ کر) ولیمہ ہے۔


طاہر: کس کا؟


فرخندہ: میرے شوہر کا۔


طاہر: اچھا واہ۔ پھر تم کیوں جا رہی ہو تمہارا شوہر ادھر ہے تو ولیمہ بھی تو ادھر ہی ہو گا اٹینڈ کرکے جانا۔


فرخندہ: نہیں کر سکتی مجھے آپ نے انوائیٹ نہیں نہ کیا۔


طاہر: تو کوئی بات نہیں ابھی تمہیں لائیو انویٹیشن دے تو رہا ہوں۔


فرخندہ: مجھے آپ کا انویٹیشن نہیں چاہیۓ۔ آپ اپنا ولیمہ انجواۓ کریں اور مجھے جانے دیں۔


طاہر: (سنجیدگی سے) ابھی کیسے جا سکتی ہو تم فری، امی بھی گھر نہیں ہیں تم بھی چلی جاؤ گی تو پیچھے سے گھر اور بچوں کو کون سنبھالے گا۔


فرخندہ: آپ اپنی بات کریں بچے اور گھر سنبھل جائیں گے۔


طاہر: یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔ابھی ٹھہر جاؤ امی کو آلینے دو پھر چلے جانا۔


فرخندہ: امی تو اگلے ہفتے آئیں گی۔


طاہر: تو اگلے ہفتے چلی جانا تم نے کون سا ابھی جا کر وہاں حساس اور نازک ملکی معاملات پر میٹنگ کرنی ہے۔ تم نے غیبتیں اور بد خویاں وغیرہ کرنی ہیں اگلے ہفتے کر لینا۔


فرخندہ: (ناراضی سے) آپ سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے۔


(اٹھ کر چلی جاتی ہے۔ طاہر ہنس کر دوبارہ موبائل دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔ اسجد آتا ہے)


اسجد: پاپا۔۔۔! 


طاہر: جی۔


اسجد: میری ایک بات مانیں گے؟


طاہر: کیا؟


اسجد: ماما سے کہیں مجھے صبح ایک دوست کی پارٹی میں جانے دیں۔ 


طاہر: خود جا کر کہو۔ خود کیوں نہیں کہتے؟ 


اسجد: وہ مجھے اجازت نہیں دیں گی آپ جاکر بات کریں۔


طاہر: بیٹا جی اگر اس وقت میں نے بات کی تو تمہارا دوست کے گھر جانا تو رہا ایک طرف ہم دونوں اس گھر سے ضرور باہر جائیں گے۔ اس لیۓ بہتری اسی میں ہے ابھی خاموش رہو جب فریقِ مخالف کا پارہ ذرا زوال پذیر ہو گا اور حالات کچھ سازگار ہوں گے تو بات کریں گے۔


اسجد: بزدلی چھوڑیں پاپا! ہمت کریں اور آگے بڑھ کر اپنے شوہرانہ اختیارات کا استعمال کریں۔


طاہر: نہ بچہ جی نہ۔۔۔بہادری اور بیوقوفی میں بڑا باریک سا فرق ہوتا ہے اور علما اور فضلا کا کہنا ہے ایسی سچوایشنز میں قدم آگے بڑھانا بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔ رہی بات شوہرانہ اختیارات کی تو اس میں مسئلہ یہ ہے ان کے پاس بھی بیگمانہ اختیارات ہیں جو ہمارے برابر ہیں۔ 


اسجد: تو پھر اب؟


طاہر: پھر اب یہ کہ صبح ہونے تک انتظار کرو تاکہ یہ رات ڈھل جاۓ جاۓ اور تاریکی چھٹ جاۓ۔


اسجد: تو اگر صبح حالات بہتر ہوۓ تو آپ بات کریں گے؟


طاہر: نہ۔۔۔! میدانِ جنگ میں تو تمہیں ہی اترنا پڑا گا البتہ میں پیچھے سے تمہیں کمک پہنچا دوں گا۔


اسجد: چلیں ٹھیک ہے۔ صبح پھر آپ میدانِ جنگ کے آس پاس رہنا یہ نہ ہو آپ دور دور تک کہیں دکھائی نہ دیں۔


طاہر: وہ تو حالات پر منحصر ہے۔ اگر حالات میں بہتری دکھائی نہ دی تو۔۔۔


اسجد: (چڑ کر) کیا پاپا آپ بھی!


(چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد ثانیہ سائیکل چلاتے ہوۓ گرتی ہے۔ رونے لگتی ہے)


طاہر: (اٹھ کر اسے سیدھا کرتے ہوۓ) کچھ نہیں ہوا۔۔۔اٹھ جاؤ۔۔۔رونا نہیں کچھ بھی نہیں ہوا۔


چوتھا منظر


صبح کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


ناشتے کی میز پر احمر، اسجد، ثانیہ اور طاہر بیٹھے ناشتہ کر رہے ہیں۔ فرخندہ اندر باورچی خانے میں ہے۔ احمر ناشتہ کرکے اٹھتا ہے۔


احمر: (بلند آواز سے) ماما جلدی کریں دیر ہو رہی ہے۔


فرخندہ: (اندر سے) اچھا!۔۔۔ناشتہ کرلیا ہے؟


احمر: جی کر لیا ہے۔


(سکول بیگ اٹھاتا ہے، ٹائی درست کرتا ہے۔ فرخندہ کچن سے ٹفن باکس ہاتھ میں لیۓ آتی ہے)


فرخندہ: یہ لو اپنا ٹفن باکس اور اگر لنچ سارا نہیں کرنا ہوتا تو ٹفن میں کیوں رہنے دیتے ہو، ٹفن میں پڑا پڑا خراب ہو جاتا ہے۔ ضائع کرنے سے بہتر ہے تم نے جتنا کھانا ہوتا ہے کھا لیا کرو اور باقی کا کسی کو دے دیا کرو کوئی اور کھا لے گا۔


احمر: (آئینے میں بال درست کرتے ہوۓ) اچھا ماما۔ 


(ٹفن ہاتھ سے لے لیتا ہے اور دوبارہ آئینے میں دیکھ کر بال درست کرنے لگتا ہے)


فرخندہ: اسجد تمہیں کچھ چاہیۓ؟


اسجد: نہیں ماما کافی ہے۔


فرخندہ: ٹھیک ہے جلدی سے ناشتہ کرلو گاڑی آنے والی ہو گی اور اوپر کمرے میں تمہاری بکس پڑی ہوئیں ہیں وہ یاد سے لے لینا۔


اسجد: اچھا ماما۔


(فرخندہ واپس چلی جاتی ہے)


اسجد: (سرگوشی کے انداز میں) پاپا حالات نارمل لگ رہے ہیں میں ایسا کروں گا سکول سے آکر بات کروں گا اگر ضرورت پڑی تو آپ کی بھی فون پر بات کروا دوں گا۔


طاہر: اچھا ٹھیک ہے دیکھ۔۔۔


اسجد: (بات کاٹ کر) آگے کچھ مت کہنا۔۔۔مجھے پتہ ہے آپ نے کیا کہنا ہے۔


طاہر: (ہنس کر) اچھا نہیں کہتا۔


(گاڑی کے ہارن کی آواز آتی ہے) 


اسجد: (کھڑے ہو کر) ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں۔ (بلند آواز سے) ماما ہم لوگ جا رہے ہیں۔ 


فرخندہ: (اندر سے) دھیان سے جانا اور بھائی کا خیال رکھنا۔


اسجد: اچھا ماما۔


فرخندہ: اپنی بکس لے لی ہیں؟


اسجد: (بیگ اٹھا کر) نہیں ماما آج ان کی ضرورت نہیں آکر لے لوں گا۔


(دونوں باہر نکل جاتے ہیں)


ثانیہ: پاپا میں نے بھی بھائی ساتھ 'ستول' جانا ہے۔


طاہر: (اسی کے انداز میں) آپ نے بھی بھائی ساتھ 'ستول' جانا ہے؟ ٹھیک ہے جب بڑی ہو جاؤ گی تو آپ بھی بھائیوں ساتھ سکول جانا۔


ثانیہ: تو میں بڑی تو ہو گئ ہوں۔۔۔(اٹھ کر کھڑی ہوجاتی ہے) دیکھیں میں کتنی بڑی ہو گئ ہوں۔


طاہر: (ہلکا سا ہنس کر) ہاں بس تھوڑی سی اور بڑی ہو جاؤ پھر تم بھی سکول جانا۔ (بلند آواز سے) فری میرا سامان کہاں ہے میں بھی نکلوں نہیں تو دیر ہو جوۓ گی۔


فرخندہ: (اندر سے) کمرے میں پڑا ہے میز کے اوپر لے لیں۔


(طاہرکرسی سے اٹھ کر جانے لگتا ہے)


پانچواں منظر


دن کا وقت۔ ایک وسیع و عریض باغ۔


شاہد اور سعدیہ باغ میں گھوم پھر رہے ہیں۔ دونوں ایک پگڈنڈی پر چلتے ہوۓ آرہے ہیں۔ موسم خوشگوار ہے۔ رش زیادہ نہیں ہے۔ چڑیوں اور دوسرے پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ 



شاہد: (چلتے ہوۓ) بس یہی تھی ان دونوں کی دکھ بھری کہانی۔ اب وہ دونوں کہاں ہیں کس شہر میں ہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں۔


سعدیہ:  ہاۓ شاہد! محبت میں سچ میں اتنے دکھ اور غم ملتے ہیں؟


شاہد:  (ایک جگہ رک کر) تم یہ بات کیوں کر رہی ہو ہماری منگنی ہو چکی ہے اور کچھ عرصے بعد ہماری شادی بھی ہو جاۓ گی۔ تمہارے ذہن میں تو یہ بات نہیں آنی چاہیۓ۔


سعدیہ: ویسے ہی۔۔۔ میں بس تمہاری راۓ جاننا چاہ رہی ہوں۔


شاہد: (دوبارہ چلتے ہوۓ) اچھا جی۔۔۔ (سوچتے ہوۓ) میری راۓ۔۔۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ اس کا تعلق ملنے اور بچھڑنے سے ہے اگر محبت مل جاۓ تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر نہ ملے تو پھر ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ سارا چکر ہجر و وصال کا ہے میڈم!


سعدیہ: بڑی بات کی ہے۔ یہ بات تو ظاہر سی ہے بات کرنے سے پہلے سوچا تو ایسے تھا جیسے بڑی اعلیٰ بات کرنے لگے ہو۔


طاہر: ہاں تو تم نے خود ہی مجھ سے پوچھا تھا۔ تم نے میری راۓ پوچھی تھی وہ میں نے بتا دی۔ میں کوئی فلاسفر تھوڑی ہوں جو محبت کے موضوع پہ سیر حاصل گفتگو کر سکوں۔


سعدیہ: سوچ تو ایسے رہے تھے جیسے بہت بڑے فلسفی ہو۔


شاہد: وہ تو تم نے پوچھا تھا اس لیۓ۔۔۔


سعدیہ: اچھا چھوڑو۔۔۔۔ (چلتے چلتے  رک کر) تو تمہاری راۓ کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوا اگر ہم بھی نہ ملتے اور بچھڑ جاتے تو تمہیں دکھ ہوتا؟


شاہد: ظاہر سی بات ہے ہوتا اور تمام عمر رہتا۔ کیا تمہیں نہیں ہوتا؟۔۔۔پر نہیں تمہیں اتنا نہیں ہوتا لڑکیوں کو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ وہ جلد سب کچھ بھلا کر دنیا کے دیگر دھندوں میں مگن ہو جاتی ہیں۔


سعدیہ: جناب آپ کو میں نے محبت پہ راۓ دینے کو کہا تھا لڑکیوں پہ راۓ زنی کرنے کو نہیں بولا تھا۔


شاہد: ہاں تو یہ راۓ میں نے بونس کے طور پر اپنی طرف سے دے دی ہے۔ ایک کے ساتھ ایک فری۔


سعدیہ: آپ اپنی قیمتی راۓ اپنے پاس رکھیں۔ لڑکیوں کو اچھی طرح پتہ ہے وہ کیا ہیں۔ آپ تو جیسے بہت ساری لڑکیوں کو جانتے ہیں۔


شاہد: (مذاق سے) نہیں زیادہ کو نہیں، البتہ دو چار سے میری شناسائی ہے۔


سعدیہ: اچھا جی تو میرے علاوہ اور بھی ہیں؟


شاہد: (پاس آکر رازداری کے انداز سے) ہاں ہیں کچھ بتانا نہیں کسی کو۔


(دونوں ہلکا سا ہنستے ہیں)


سعدیہ: (دوبارہ چلتے ہوۓ) اچھا مذاق چھوڑو۔ یہ بتاؤ شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟


شاہد: اس کے بارے میں کیا سوچنا ہے جب تم بولو گی کر لیں گے۔ کہو تو ابھی جاتے ہوۓ راستے میں کر لیتے ہیں۔


سعدیہ: پھر مذاق۔۔۔


(ہنستا ہے)


شاہد: (سنجیدگی سے) ابھی اس کے بارے میں کیا بتاؤں۔۔۔ میری نئ نئ جاب شروع ہوئی ہے۔۔۔میرا خیال ہے پرمانینٹ ہو جاؤں تو پھر کوئی ارادہ کریں گے۔ 


سعدیہ: ہاں۔۔۔ ٹھیک ہے یہ بھی اچھا ہے۔ 


شاہد: ویسے تمہیں بتاؤں شادی کے اپنے کچھ 'سائیڈ ایفیکٹ' ہوتے ہیں جو ہر ایک کو جھیلنے پڑتے ہیں چاہے آپ محبت کی شادی کریں یا بغیر محبت کی۔


سعدیہ: اچھا جی!


شاہد: ہاں! لیکن لڑکیوں کو عموماً کم جھیلنے پڑتے ہیں۔ 


سعدیہ: وہ کیوں؟


شاہد: اس لیۓ کہ لڑکیوں کی کون سا کوئی بیوی ہوتی ہے۔


سعدیہ: (ہنستے ہوۓ) دو منٹ بھی تم  سیرئیس نہیں رہ سکتے۔ 


شاہد: سیریئس رہ کر کرنا بھی کیا ہے۔ اس سے آدمی کے مسائل حل ہونے سے تو رہے الٹا سنجیدگی مصیبتوں اور تکلیفوں کی شدت میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اس لیۓ سعدیہ صاحبہ! جتنا وقت ہنسی مذاق میں گزر جاۓ اتنا بہتر ہے۔


(دونوں باتیں کرتے ہوۓ کچھ دور تک چلتے جاتے ہیں)


چھٹا منظر


دن کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


فرخندہ کچن میں کھڑی کام کر رہی ہے۔ اسجد اندر آتا ہے۔


اسجد: ماما!


فرخندہ: ہونہہ۔


اسجد: مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔


فرخندہ: ہاں کرو۔


اسجد: آج شام کو شاہ زیب کے گھر پارٹی ہے تو (ٹھہر ٹھہر کے) میں۔۔۔چلا۔۔۔ جاؤں۔


فرخندہ: ایک تو تمہاری اور تمہارے دوستوں کی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں آۓ روز تم کوئی نہ کوئی پارٹی رکھ لیتے ہو۔ پڑھائی کی تم لوگوں کو ذرا بھی فکر نہیں۔ ایگزیمز تمہارے سر پر ہیں۔


اسجد: ماما ایک دن پارٹی پر جانے سے کیا ہو جاۓ گا۔ ایگزیمز کی تیاری کر تو رہا ہوں۔


فرخندہ: ہاں جانتی ہوں کتنی اچھی تیاری کر رہے ہو پچھلے ہفتے کا ٹیسٹ یاد ہے یا بھول گۓ؟


اسجد: ماما اس کے بعد میرے اتنے اچھے ٹیسٹ ہوۓ ہیں وہ آپ کو یاد نہیں آپ بس اس ایک ٹیسٹ کو لے کر بیٹھے رہنا۔


فرخندہ: تو ایک ٹیسٹ بھی کیوں خراب ہوا ہے اور تو کسی کا نہیں ہوا تمہارا کیوں ہوا ہے۔


اسجد: ماما اب بس بھی کریں۔ پلیز جانے دیں تھوڑی دیر کی تو بات ہے۔


فرخندہ: ٹھیک ہے کرو اپنی مرضی جو دل چاہے کرو مجھ سے مت پوچھو تم جانو اور تمہارا باپ جانے جس نے تمہیں بگاڑا ہوا ہے۔ میری اس گھر میں سنتا ہی کون ہے۔


(کام چھوڑ کر باہر چلی جاتی ہے۔ چند لمحے اسجد یونہی کھڑا دیکھتا رہتا ہے)


ساتواں منظر


دن کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


اسجد ایک کمرے میں اکیلا ہے۔ فون اٹھا کر ملاتا ہے اور طاہر سے بات کرتا ہے)


اسجد: ہیلو پاپا!


طاہر: ہاں جی!


اسجد: پاپا بات ہاتھ سے نکل گئ ہے اور حالات مزید بگڑ گۓ ہیں۔


طاہر: تو پھر؟


اسجد: پھر کیا۔۔۔ آپ بات کریں۔


طاہر: لیکن ہوا کیا پہلے کچھ بتاؤ تو؟


اسجد: ہونا کیا ہے بس وہی پرانا ڈائیلاگ۔۔۔ کرو اپنی مرضیاں، میری سنتا کون ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔


طاہر: (مسکرا کر) اور آخر میں یہ بھی کہا ہو گا تمہارے باپ نے تمہیں بگاڑا ہے۔


اسجد: جی ہاں یہ بھی کہا ہے۔


طاہر: تو ٹھیک ہے کرو پھر اپنی مرضی۔


اسجد: پاپا یہ کیا بات ہوئی ایسے کیسے کروں، آپ ان سے بات تو کریں۔


طاہر: اچھا میں شام کو گھر آؤں گا تب بات کریں گے۔


اسجد: آج شام کو تو میں نے جانا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں شام کو بات کروں گا۔


طاہر: چل یار ٹھیک ہے میں جلدی آجاؤں گا میں نے شام کو ایک جگہ جانا ہے تو گھر سے ہو کر جاؤں گا۔


اسجد: ٹھیک ہے پھر جلدی آجانا۔


طاہر: ہاں ہاں آجاؤں گا۔ چل اب بند کر مجھے کام ہے۔


اسجد: ٹھیک ہے خداخافظ۔ 


(فون بند کر دیتا ہے)


آٹھواں منظر


شام سے پہلے کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


احمر اور ٹیپو چھت پر کھڑے گیند سے کھیل رہے ہیں۔ ان کے اردگرد چاروں طرف دور دور تک پھیلے مکان دکھائی دے رہے ہیں۔ دونوں گیند زمین پر مار کر ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔


ٹیپو: میرے تو ابھی دونوں کام رہتے ہیں ٹیچر سامعیہ نے صبح دونوں چیک کرنے ہیں۔


احمر: میرا تو ایک ہی رہتا ہے رات کو بیٹھ کر کروں گا۔


ٹیپو: کروں گا تو میں بھی رات کو پر سمجھ نہیں آرہی دونوں ایک دن میں کیسے کروں۔ 


احمر: تو ایک رات کو کر لینا اور ایک صبح جلدی اٹھ کر کر لینا۔


ٹیپو: نہیں کر سکتا۔ صبح سویرے تو میرے فرشتے بھی نہیں اٹھتے وہ بھی اس وقت اٹھتے ہیں جب سکول کی گاڑی دروازے پر ہارن بجا رہی ہوتی ہے۔ صبح اٹھ کر تو مجھ سے یہ کام نہیں ہونے والا۔


 (بیزاری سے گیند ایک طرف پھینک کر منڈیر پر کہنیاں ٹکا کر کھڑا ہو جاتا ہے) 


کیا یار! پتہ نہیں یہ ہوم ورک نام کی چیز کس نے بنائی تھی۔ یہ نہ ہوتا تو پڑھائی کتنی آسان ہوتی۔


احمر: (منڈیر کی دیوار کے ساتھ اسی کی طرح کہنیاں ٹکا کر افسردگی سے) تم نے ٹھیک کہا میں بھی ہوم ورک سے بہت تنگ آجاتا ہوں۔۔۔لیکن میں نے سنا ہے بڑی کلاسوں میں ہوم ورک نہیں کرنا پڑتا۔


ٹیپو: سنا تو میں نے بھی ہے۔ 


احمر: میں نے تو دیکھا بھی ہے۔ بھائی کو ہوم ورک نہیں ملتا میں نے اسے ایک دن بھی ہوم ورک کرتے نہیں دیکھا۔


ٹیپو: (خیرت سے) کیا بات ہے یار اس کی تو موجیں ہوں گی۔ اسی لیۓ اس کے پاس کھیلنے کے لیۓ اتنا وقت بچ جاتا ہے۔۔۔ اور ایک ہم ہیں! ہم تو سکول سے آنے کے بعد بس سارا دن یہی کرتے رہتے ہیں جیسے دنیا میں ہمیں اور کوئی کام نہیں۔


احمر: ہاں ٹھیک کہا۔۔۔ (افسردگی سے) ہمارے پاس تو کھیلنے کے لیۓ اور ٹی وی دیکھنے کیلۓ بھی وقت نہیں بچتا۔ 


ٹیپو: میں تو اپنا فیورٹ کارٹون شو سنڈے والے دن دیکھتا ہوں۔


احمر: سنڈے والے دن بھی ہمارے پاس وقت کہاں بچتا ہے اس دن تو اور بھی زیادہ کام ملتا ہے۔ سارا دن بس یہی تو کرتے رہتے ہیں۔


ٹیپو:  یہ تو بڑی زیادتی ہے ہمارے ساتھ۔۔۔ بڑے بچوں کی صحیح موجیں لگتی ہیں جب تک ہم بڑے نہیں ہو جاتے اور بڑی کلاسوں میں نہیں چلے جاتے ہمارے ساتھ اسی طرح ہوتا رہے گا۔ 


احمر: ہاں یہ تو ہے لیکن اب ہم چپ نہیں بیٹھیں گے ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے ہم چھوٹے ہیں تو کیا ہوا آخر ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں۔


ٹیپو: بالکل ٹھیک کہا تم نے (پرجوش انداز میں) ہم اپنے حق کے لیۓ لڑیں گے اور ہر حال میں اپنا حق لے کر رہیں گے۔


احمر: (پرجوش انداز میں مکہ لہرا کر) ہاں لے کر رہیں گے۔


ٹیپو: تو کیوں نہ آج سے ہی شروع کریں۔ آج ہم اپنی ممیوں کو بتا دیں گے ہم کسی صورت بھی ہوم ورک نہیں کریں گے (پرجوش انداز میں بازو ہوا میں لہرا کر) چاہے آپ ہمارے سر تن سے جدا کردیں۔ 


احمر: اور کل سکول جا کر بھی احتجاج کریں گے اور انہیں بتا دیں گے آئندہ ہم کسی قسم کا ظلم برداشت نہیں کریں گے۔


ٹیپو: (پرجوش انداز میں) ہاں بلکل نہیں کریں گے۔۔۔ ملاؤ ہاتھ۔


(دونوں اپنے ہاتھ فضا میں بلند کرکے بڑے جوش و جذبے سے ملاتے ہیں)


نواں منظر


رات کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


لونگ روم میں اسجد بیٹھا پڑھ رہا ہے۔ ثانیہ کھیل رہی ہے اور فرخندہ گھر کا کوئی کام کر رہی ہے۔


فرخندہ: (بلند آواز سے) احمر! کدھر رہ گۓ ہو آجاؤ آکر تم بھی سکول کا کام کر لو۔


(احمر اندر آتا ہے)


احمر: (فرخندہ کے پاس آکر سینہ تان کر) ماما! میں ہوم ورک نہیں کروں گا۔


فرخندہ: تو ابھی پڑھائی کر لو ہوم ورک کچھ دیر بعد کر لینا۔


احمر: نہیں میں کچھ دیر بعد بھی نہیں کروں گا۔


فرخندہ: کیا مطلب کچھ دیر بعد بھی نہیں کرو گے؟


احمر: میں آئندہ ہوم ورک کبھی نہیں کروں گا۔


فرخندہ: تو وہ کون کرے گا، تمہارے پاپا۔


احمر:  میں سکول میں بھی بات کروں گا اور اگر ہم بچوں کو ہوم ورک دینا بند نہ کیا گیا تو ہم اختجاج کریں۔


(اسجد اس کی بات سن کر مسکراتا ہے)


فرخندہ: دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا کیسی باتیں کر رہے ہو۔


اسجد: ماما لگتا ہے اس نے آج کوئی فلم دیکھی ہے اسی لیۓ ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔


احمر: (اسجد سے) تم چپ رہو تمہیں بیچ میں بولنے کے لیۓ کس نے کہا ہے۔ 


فرخندہ: تمیز سے بات کرو بھائی ساتھ۔۔۔ چپ چاپ آکر بیٹھ کر کام کرو میرے پاس تمہاری فالتو باتوں کے لیۓ وقت نہیں ہے۔


احمر: میں نے کہہ جو دیا میں ہوم ورک نہیں کروں گا۔


فرخندہ: احمر مجھے غصہ مت دلاؤ مجھے ابھی بہت سے کام ہیں میرا موڈ پہلے ہی ٹھیک نہیں یہ نہ ہو ساری کسر تم پر نکل جاۓ۔ خاموشی سے بیٹھ کر کام کرو فضول باتیں نہ کرو۔


احمر: نہیں کروں گا میں نے کہا نا نہیں کروں گا۔


(تھپڑ مارنے کے لیۓ ہاتھ فضا میں بلند کرتی ہے) 


فرخندہ: (چلا کر) احمر!



دسواں منظر


شام سے کچھ دیر پہلے۔ طاہر کا گھر۔


احمر اور ٹیپو گھر کی چھت پر منڈیر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ بیٹھے ہیں۔ دونوں کے منہ لٹکے ہوۓ ہیں اور دونوں افسردہ دکھائی دے رہے ہیں۔ احمر ایک ہاتھ سے اپنا گال سہلا رہا ہے۔


احمر: کیا بتاؤں یار جتنا جوش و جذبہ پیدا ہوا تھا ماما نے سارا ایک جھٹکے میں ختم کر دیا۔ ابھی تک میرا گال درد کر رہا ہے۔ صبح تک تو انگلیوں کے نشان بھی تھے سکول میں ہر کوئی پوچھ رہا تھا گال پہ کیا ہوا گال پہ کیا ہوا۔ 


ٹیپو: تمہیں تو صرف مار پڑی ہے مجھے تو ماما نے کھانا بھی نہیں دیا اور آدھی رات تک جگاۓ بھی رکھا بولا جب تک ہوم ورک مکمل نہیں کرو گے تمہیں سونے نہیں دوں گی۔


احمر: سچ کہتے ہیں جو بھی حق کے لیۓ آواز اٹھاتا ہے اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ اس کی آواز کو اسی طرح دبا دیا جاتا ہے۔ 


ٹیپو: ہاں وہ تو ہے۔۔۔ (جوش سے اٹھتے ہوۓ) لیکن ہم ہار نہیں مانیں گے اب ہم سکول میں اختجاج کریں گے۔


احمر: سکول میں ایسا کریں گے تو ڈبل مار کرے گی گھر سے بھی اور سکول سے بھی۔


ٹیپو: (دوبارہ بیٹھتے ہوۓ)  مار تو سچ میں ڈبل پڑے گی۔۔۔


احمر: (گال پر ہاتھ رکھ کر) میرا تو ابھی تک گال درد کر رہا ہے۔


(دونوں دوبارہ منہ لٹکا کر بیٹھ جاتے ہیں)



گیارواں منظر


دن کا وقت۔ سڑک۔


اسجد موٹرسائیکل پر اپنے دوست شاہزیب کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ سڑک سے اتر کر کچے پر موٹر سائیکل روکتا ہے۔ دونوں اترتے ہیں۔ اسجد وہیں موٹرسائیکل کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کا رخ سڑک کی مخالف سمت ہے۔ جبکہ شاہزیب چند قدم چل کر ایک کھوکھے سے سگریٹ خریدتا ہے۔ سڑک بالکل سنسان ہے اور پورے ایریا میں دور دور تک صرف اس دکان کے اور کوئی دکان اور کوئی عمارت دکھائی نہیں دے رہی۔ سڑک کے دونوں اطراف وسیع میدان ہیں۔ اس کا دوست ایک سگریٹ سلگا لیتا ہے اور واپس آکر ایک سگریٹ اسجد کو دیتا ہے۔ دونوں کھڑے ہو کر سگریٹ پینے لگتے ہیں۔


شاہزیب: پھر کیا سوچا ہے؟


اسجد: نہیں یار ابھی ٹرپ کا پلان مت بناؤ۔ بڑی مشکل سے تو پارٹی کی اجازت ملی تھی ٹرپ کی کسی بھی صورت نہیں ملے گی۔


شاہزیب: آسانی سے تو مجھے بھی نہیں ملے گی مگر کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا لیں گے۔


اسجد: ان دنوں کوئی جگاڑ نہیں لگے گا۔ میری مان تو ابھی اس خیال کو جانے دو ایگزیمز کے بعد دیکھیں گے۔ ابھی بات کی تو یہ نہ ہو باہر نکلنا بھی بند ہو جاۓ۔


شاہزیب: بات تو تمہاری ٹھیک ہے پر یار اتنا عرصہ ہو گیا ہے کہیں نہیں گۓ ایک ٹوؤور تو بنتا ہے۔ 


اسجد: بنتا تو ہے مگر تم غلط وقت پر پلان بنا رہے ہو۔ صبر کر لو دو تین مہینے کی تو بات ہے پیپروں کے بعد چلیں گے۔


شاہزیب: لیکن یار اسجد۔۔۔ (سامنے سڑک پر کچھ دیکھ کر) یہ کہاں سے آگۓ۔۔۔اسجد بھاگو۔۔۔سگریٹ پھینکو اور بھاگو۔۔۔ پیچھے مت دیکھنا بس بھاگو۔


 (خود بھی سگریٹ پھینک کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے)


اسجد: (خیرت سے) کیا ہوا؟


شاہزیب: (بھاگتے ہوۓ) میرے پیچھےآؤ جلدی۔۔۔ بھاگو اور پیچھے بالکل مت دیکھنا۔


(اسجد بھی اس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ بھاگتے بھاگتے دونوں دکان کے عقب میں کسی جگہ رک جاتے ہیں چھپ کر سڑک کی جانب دیکھتے ہیں)


اسجد: (ہانپتے ہوۓ) کچھ بتاؤ گے ہوا کیا ہے؟


شاہزیب: (سانس بحال کرکے) وہ ہوا ہے جو نہیں ہونا چاہیۓ تھا۔ تمہارے چاچو ادھر سے گزر کر گۓ ہیں اور مجھے لگتا ہے انہوں نے ہمیں سگریٹ پیتے ہوۓ دیکھ لیا ہے۔


اسجد: کیا بکواس کر رہے ہو وہ یہاں کیسے آگۓ؟


شاہزیب: وہ بھی سگریٹ پینے آۓ ہوں گے۔۔۔ عجیب آدمی ہو ہم مریخ پہ تو نہیں آۓ کہ یہاں کوئی نہیں آسکتا۔ ظاہر ہے کسی کام سے ہی آۓ ہوں گے۔


اسجد: پکی بات ہے وہی تھے؟


شاہزیب: ہاں یار پکی بات ہے وہی تھے میں نے انہیں دیکھا ہے اور ان کے موٹرسائیکل کی بھی مجھے پہچان ہے۔ 


اسجد: انہوں نے ہمیں دیکھا ہے؟


شاہزیب: پتہ نہیں شاید دیکھ لیا ہو۔


اسجد: یار اب کیا کریں گے اگر انہوں نے دیکھ لیا ہوا تو۔۔۔


شاہزیب: تو پھر ہم نے کیا کرنا ہے پھر تو جو کرنا ہے انہوں نے کرنا ہے۔ آج تو پکا ہم دونوں گھر سے باہر سونے والے ہیں۔ بس ایک بات یاد رکھنا جب وہ گھر سے نکالیں تو کسی طرح ایک موٹی سی چادر یا کھیس وغیرہ نکال لانا بڑی سردی ہے اس کے بغیر رات نہیں کٹے گی۔


اسجد: بکواس نہیں کرو۔ کچھ سوچو۔


شاہزیب: میں کیا سوچوں اگر انہوں نے دیکھ لیا ہے تو پھر سوچنے کو کیا رہ جاتا ہے۔


اسجد: (چند لمحے خاموش رہنے کے بعد) ویسے مجھے لگتا ہے انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا ہو گا اور اگر دیکھ بھی لیا ہو گا تو ہمارے ہاتھ میں سگریٹ نہیں دیکھا ہو گا۔ ورنہ وہ رکتے ضرور۔


شاہزیب: بس یہی ایک بات ہے جو ہمارے حق میں جارہی ہے۔ کیا پتہ انہوں نے ہمیں واقعی نہ دیکھا ہو۔ 


اسجد: وہ تمہارے موٹرسائیکل کو تو نہیں پہچانتے؟


شاہزیب: پتہ نہیں۔ شاید پہچانتے ہوں۔


اسجد: (کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد) پھر اب؟


شاہزیب: پھر اب گھر چلتے ہیں اور جاکر دیکھتے ہیں کیا سین ہے۔ 


(دونوں واپس اپنے موٹرسائیکل کی طرف جاتے ہیں)


اسجد: (چلتے ہوۓ) یار ابھی گھر نہیں جاتے کچھ دیر بعد چلتے ہیں ابھی بالکل بھی ہمت نہیں ہو رہی۔



شاہزیب: کچھ دیر بعد جانے سے کیا ہو گا جانا تو پھر بھی پڑے گا بہتر ہے ابھی چلتے ہیں جو ہونا ہے اسی وقت ہو جاۓ۔


اسجد: یار کبھی چاچو ماما کو نہ نہ بتائیں کیونکہ ماما اتنی سی بات کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیں گی۔ وہ تو کہیں گی پتہ نہیں یہ باہر اور کیا کیا گل کھلاتا ہے ضرور یہ چرس، شراب بھی پیتا ہو گا اسی لیۓ اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا۔ پتہ نہیں یہ اور کون کون سے نشے کرتا ہے۔ وہ تو مجھے پورا نشئی بنا دیں گی۔


شاہزیب:  ہاں یہ تو ہے میرے بھی پاپا تک بات رہے تو ٹھیک ہے پاپا تو صرف ڈانٹیں گے  لیکن ماما!۔۔۔ ماما تک بات گئ تو بہت دور تک جاۓ گی۔


(دونوں چلتے ہوۓ موٹرسائیکل تک پہنچ جاتے ہیں)


اسجد: چل میں سگریٹ کے پیسے دے کر آتا ہوں تو موٹرسائیکل سٹارٹ کر)



بارہواں منظر


شام کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


اسجد اور اس کا دوست موٹرسائیکل پر گھر کے دروازے کے باہر آکر رکتے ہیں۔ اسجد اترتا ہے۔ 


شاہزیب: نارمل رہنا بالکل ایسا نہ لگے کہ تم کسی بات سے گھبرا رہے ہو کیونکہ ہو سکتا ہے انہوں نے ہمیں نہ دیکھا ہو خوامخواہ انہیں شک ہو جاۓ گا۔ اور کچھ بھی ہو مجھے فون کرکے بتا دینا۔


اسجد: اچھا۔


شاہزیب: ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔


(چلا جاتا ہے۔ اسجد ڈرتے ڈرتے آگے بڑھتا ہے گھنٹی پر ہاتھ رکھتا ہے مگر گھنٹی بجاۓ بغیر اٹھا لیتا ہے۔ دوبارہ ہمت کرکے ہاتھ رکھتا ہے ابھی بجانے لگتا ہے تبھی اس کے پیچھے ایک موٹرسائیکل آکر رکتا ہے۔ موٹرسائیکل پر شاہد ہے۔ اسجد اسے دیکھ کر گبھرا جاتا ہے۔ وہ ڈرے ہوۓ انداز میں کچھ بولنے لگتا ہے مگر اس سے پہلے شاہد اس کے آگے ایک بڑا سا ڈاک کا لفافہ کر دیتا ہے)


شاہد: اسجد یہ پیکٹ لے جاؤ اور پاپا کو دے دینا کہنا دو ملے ہیں تیسرا ابھی نہیں ملا۔


(اسجد گم سم کھڑا رہتا ہے جیسے اس نے اس کی آواز سنی ہی نہیں)


شاہد: (بلند آواز سے) اسجد۔۔۔! (اسجد چونکتا ہے) کیا سوچ رہے ہو؟


اسجد: (سنبھل کر) وہ۔۔۔کچھ نہیں میں بس ایسے ہی۔۔۔آپ اندر نہیں آئیں گے؟


شاہد: نہیں مجھے کام ہے میں ابھی جارہا ہوں۔ تم یہ پاپا کو یاد سے دے دینا۔


اسجد: ٹھیک ہے دے دوں گا۔


(شاہد چلا جاتا ہے۔ اسجد اسے جاتا ہے ہوا دیکھتا ہے۔ جب وہ آنکھ سے اوجھل ہو جاتا ہے تو اسجد گہرا سانس لیتا ہے۔ اک نظر ہاتھ میں پکڑے پیکٹ پر ڈالتا ہے اور مسکرا اٹھتا ہے۔ پھر خوشی سے چھلانگ لگاتا ہے اور دروازے کی گھنٹی بجا دیتا ہے)



تیرہواں منظر


رات کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


اسجد اپنے کمرے میں بیٹھا فون پر شاہزیب سے بات کر رہا ہے۔


اسجد: بس پھر انہوں نے پیکٹ دیا اور چلے گۓ۔


شاہزیب: کوئی ایک لفظ بھی نہیں بولا۔


اسجد: نہیں کچھ بھی نہیں کہا۔


شاہزیب: اس کا مطلب ہے انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا۔


اسجد: ہاں۔


شاہزیب: چلو شکر ہے بچ گۓ۔ پر ہمیں جگہ بدل لینی چاہیۓ آج تو بچت ہو گئ یہ نہ ہو کل کو پکڑے جائیں۔


اسجد: میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ سڑک پر کھڑے ہو کر پینے کی بجاۓ اب ہم دکان کے پیچھے جا کر پیئیں گے۔ 


(باہر سے فرخندہ کے چلانے کی آواز آتی ہے)


فرخندہ: اسجد۔۔۔اسجد


اسجد: جی ماما! میں یہاں ہوں کمرے میں!


فرخندہ: جلدی ادھر آؤ۔۔۔ یہ تمہاری جیب میں سگریٹ کہاں سے آیا؟


اسجد: کیا۔۔۔کون سا سگریٹ؟


شاہزیب: اوہ خدایا! ایک سگریٹ اس وقت میں نے تمہاری جیب میں ڈالا تھا سوچا تھا جانے سے پہلے پی کر جائیں گے پر اس ہڑبڑی میں نکالنا بھول گیا۔


اسجد: کیا۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو؟


(فرخندہ غصے سے دروازہ کھول کر اندر آتی ہے اس کے ہاتھ میں سگریٹ ہے)



چودھواں منظر


رات کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


کمرے میں فرخندہ الماری سے کپڑے نکال کر بیگ میں رکھ رہی ہے۔ طاہر ایک طرف بیٹھا موبائل استعمال کر رہا ہے۔


طاہر: یہ اتنے سارے کپڑے کیوں رکھ رہی ہو تم نے کیا پورا سال رہنا ہے؟


فرخندہ: (کام کرتے ہوۓ) پورا سال بے شک نہیں رہنا پر ایک ہفتہ تو ضرور رہوں گی اس سے پہلے میں آنے والی نہیں۔


طاہر: اچھا ٹھیک ہے ہفتہ رہ لینا پر ابھی سے سامان کیوں پیک کر رہی ہو۔ ابھی کل تو امی آئیں گی۔


فرخندہ: ہاں تو کل دن کے وقت امی آ جائیں گی اور شام کو میں چلی جاؤں گی۔


طاہر: اتنی بھی کیا جلدی ہے ایک دو دن بعد جانا۔


فرخندہ: نہیں مشکل سے میں نے ایک ہفتہ انتظار کیا ہے اب اور نہیں رکوں گی۔ پیچھے سے سنبھالنا گھر اور بچوں کو آپ کو بھی پتہ چلے بچے کیا کر رہے ہیں۔ کسی کو پڑھائی سے تکلیف ہے اور کسی کی جیب سے سگریٹ نکل رہے ہیں پر آپ کو کیا پرواہ آپ تو اپنی دنیا میں مگن ہیں۔


طاہر: اچھا ٹھیک ہے چلی جانا پر جاؤ گی کیسے؟


فرخندہ: آپ چھوڑ آنا کل چھٹی ہے نا آپ کو؟


طاہر: میں تو نہیں جانے والا۔ دفتر سے چھٹی ہے لیکن مجھے اور بھی بڑے کام ہیں۔


فرخندہ: پوچھا تو آپ نے ایسے تھا جیسے آپ کو بڑی فکر ہے۔ خود چلی جاؤں گی میں آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔


طاہر: (ہلکا سا ہنس کر) اچھا چلو خود نہ جانا اسجد کو بولوں گا وہ تمہیں چھوڑ آۓ گا۔


فرخندہ: وہ تو پھر مجھے چھوڑ ہی آۓ گا آپ کو مشورہ دینے کی ضرورت نہیں۔


(باہر نکل جاتی ہے۔ طاہر ہنستا ہے اور دوبارہ موبائل دیکھنا شروع کر دیتا ہے)


پندرھواں منظر


دن کا وقت۔ طاہر کا گھر۔


فرخندہ آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی ہے۔


فرخندہ: (کانٹا پہنتے ہوۓ) احمر! ثانیہ کو لے کر آؤ بولو ماما بلا رہی ہیں۔ میں اسے بھی تیار کر دوں۔


(طاہر اندر آتا ہے اس کے ہاتھ میں اخبار ہے جسے وہ فولڈ کرتا ہوا آتا ہے)


طاہر: (فرخندہ کو دیکھ کر خیرت سے) یہ کیا تم تو تیار بھی ہو گئ پر امی تو ابھی آئیں نہیں۔


فرخندہ: (لپ سٹک لگاتے ہوۓ) تو کیا! بس آنے والی ہوں گی۔ وہ آجائیں گی تو ہم تھوڑی دیر بعد چلے جائیں گے۔


طاہر: (چل کر صوفے پر بیٹھ کر) تمہیں تو یوں جانے کی پڑی ہے جیسے ہمیشہ کے لیۓ جا رہی ہو۔


فرخندہ: ہاۓ! کاش جا سکتی۔ مگر کیا کروں زندگی بھر کے لیۓ نصیب آپ کے ساتھ جو جڑ گۓ ہیں۔


طاہر: لگتا ہے تمہیں کافی افسوس ہے اس بات کا۔


فرخندہ: (شرارت سے) جی! بہت سی باتوں پر انسان سواۓ افسوس کے اور کیا کر سکتا ہے۔


(فون کی گھنٹی بجتی ہے)


فرخندہ: اسجد دیکھو کس کا فون ہے۔


(اسجد فون اٹھاتا ہے)


اسجد: ہیلو۔۔۔جی دادو۔۔۔جی۔۔۔اچھا ٹھیک ہے۔۔۔بتا دوں گا۔۔۔ جی ہاں ٹھیک ہے۔۔۔خدا خافیظ۔


(فون رکھ دیتا ہے)


اسجد: ماما دادو کا فون تھا وہ کہہ رہی تھیں دو تین تک کسی ہڑتال کی وجہ سے گاڑیاں بند ہیں۔ اس لیۓ وہ نہیں آسکتیں۔


(فرخندہ تیزی سے مڑ کر اسجد کو دیکھتی ہے، پھر طاہر کو دیکھتی ہے۔ چند لمحے خاموشی رہتی ہے)


طاہر: (کندھے اچکا کر، شرارت سے) بہت سی باتوں پر انسان سواۓ افسوس کے اور کیا کر سکتا ہے۔










































































































































  








 

















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات