Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




 کردار


شاداب

تنزیلا

چھٹکی= اصل نام جمیلہ (تنزیلا کی چھوٹی بہن جو تنزیلا سے چند برس چھوٹی ہے)

امی (تنزیلا کی امی)

کھجلی۔ اصل نام احسن (تنزیلا کا چھوٹا بھائی، سات آٹھ برس کا بچہ)

فرنینڈس= شاداب کا دوست اور کولیگ۔

ہمہ= تنزیلا کی دوست

تانیہ

عاصم= چھٹکی کا شوہر

شاداب کے چند دوست اور گھر والے امی، ابو، بہن، بھائی وغیرہ اور کولیگز۔ تنزیلا کے کولیگز اور چند جاننے والے۔




پہلا منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


 گھر زیادہ بڑا نہیں لیکن صاف ستھرا اور خوبصورت ہے۔ صحن پکے فرش کا ہے جس کے درمیان ایک چھوٹا سا درخت ہے۔ دیوار کے ساتھ کیاری میں چند پودے لگے ہیں، ایک جگہ پر ایک لمبی سی سر سبز بیل ہے۔ جب منظر کھلتا ہے تو بیل دکھائی دیتی ہے جو دیوار پر چلتے چلتے دوسری طرف نکل گئ ہے۔ اس کے بعد صحن کے درمیان میں تنزیلا درخت کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے سامنے دیوار پر بل کھاتی ہوئی بیل کو دیکھ رہی ہے۔ شاداب اندر کمرے سے باہر آتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں چند کتابیں ہیں۔


شاداب: تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو تنزیلا؟


تنزیلا: (مڑ کر دیکھتی ہے) کچھ نہیں ایسے ہی کھڑی تھی۔۔۔تم کہاں جا رہے ہو؟


شاداب: دوست کے گھر جا رہا ہوں ہم نے آج اکٹھے تیاری کرنے کا پروگرام بنایا ہے، آخری پرچہ رہ گیا ہے اس کے بعد جان چھوٹ جاۓ گی۔


تنزیلا: اس کے بعد تو تمہاری ہم لوگوں سے بھی جان چھوٹ جاۓ گی۔


شاداب: کیسی باتیں کر رہی ہو تم لوگوں سے کیوں جان چھوٹ جاۓ گی؟


تنزیلا: تم چلے جو جاؤ گے واپس اپنے شہر۔۔۔


شاداب: میں تم لوگوں سے ملنے آتا جاتا رہوں گا۔ 


تنزیلا: یہ صرف کہنے کی باتیں ہوتی ہیں جانے والے لوٹ کے نہیں آیا کرتے۔


شاداب: لیکن میں ان جانے والوں میں سے نہیں ہوں۔


(اندر سے تنزیلا کی امی باہر آتی ہیں)


امی: کون کہاں جا رہا ہے؟


شاداب: کہیں نہیں آنٹی۔۔۔یہ تنزیلا کہہ رہی ہے جب میں امتحان کے بعد اپنے گھر چلا جاؤں گا تو پھر آپ لوگوں کو بھول جاؤں گا۔ لیکن میں نے اس سے کہا کہ میں تم لوگوں سے ملنے آتا جاتا رہوں گا۔


امی: ضرور آنا بیٹا تمہارا اپنا گھر ہے۔ جب بھی تمہارا دل کرے تم آجانا۔


تنزیلا: (معنی خیز انداز سے شاداب کی طرف دیکھتے ہوۓ) دل ہی کی تو بات ہے امی ۔۔۔ پتہ نہیں بعد میں دل کرے نہ کرے۔کیا پتہ دل کہیں اور لگ جاۓ۔


شاداب: (اپنی طرف اشارہ کرکے، شوخی سے) یہ دل ایسا نہیں تنزیلا میڈم۔۔۔ یہ جہاں پر ایک دفعہ لگ جاۓ پھر وہاں سے ہٹتا نہیں۔ 


تنزیلا: ایسے دعوے تو بہت لوگ کرتے ہیں مسٹر شاداب بیگ! مگر ان پر پورا کوئی نہیں اترتا۔


امی: ( کسی موڑھے یا کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر) چھوڑو بھی۔۔۔ اب جانے بھی دو اسے۔۔۔ جاؤ شاداب بیٹا ورنہ یہ تو یونہی بولتی رہے گی اور تمہیں دیر ہو جاۓ گی۔


شاداب: جی آنٹی! مجھے واقعی چلنا چاہیۓ کیونکہ آج آپ کی بیٹی کسی اور ہی بحث کے موڈ میں ہے اس لیۓ بہتر یہی ہے کہ میں یہاں سے کھسک جاؤں۔ (تنزیلا کو مخاطب کرکے) ٹھیک ہے ابھی تو چلتا ہوں شام کو ملاقات ہو گی۔ 


تنزیلا: تو یہ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹے گا؟


شاداب: جی ہاں ارادہ تو کچھ یہی ہے باقی جو منظورِ خدا۔۔۔


(آگے چل پڑتا ہے)


دوسرا منظر


شام کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


ایک بڑا سا حال جس میں تنزیلا، اس کی امی اور بہن بھائی بیٹھے ہیں۔ اس کا بھائی سکول کا کام کر رہا ہے جبکہ تنزیلا، اس کی بہن اور امی ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ تنزیلا ساتھ ساتھ اپنے موبائل پر بھی نظر ڈال لیتی ہے۔ حال سادہ ہے لیکن اچھا ہے چیزیں قرینے سے رکھی ہیں، آرائش کا سامان بہت زیادہ نہیں۔ اس کی بہن کھڑکی میں سے شاداب کو باہر سے آتا ہوا دیکھتی ہے۔


چھٹکی: وہ شاداب بھائی آگۓ۔


(تنزیلا یکدم باہر دیکھتی ہے اور کھل اٹھتی ہے۔ شاداب اندر آتا ہے)


شاداب: (صوفے پر بیٹھتے ہوۓ) کیا ہو رہا ہے؟


چھٹکی: کچھ نہیں شاداب بھائی! بس آپ ہی کا انتظار ہو رہا تھا۔


شاداب: میرا انتظار۔۔۔واہ! پھر تو میں بہت خوش نصیب ہوں میرا انتظار کرنے والا بھی کوئی ہے۔ (وہ مسکرا کر تنزیلا کی طرف دیکھتا ہے)


امی: کیسی رہی بیٹا تمہاری تیاری؟ 


شاداب: ٹھیک ہو گئ ہے آنٹی۔ بس دعا کریں یہ پرچہ بھی اچھا ہو جاۓ۔


تنزیلا: (شرارت سے) ویسے امی میں نے سنا ہے یہ جو لڑکے پڑھائی کے بہانے اکٹھے ہوتے ہیں وہ پڑھائی کم ہی کرتے ہیں بلکہ ان کی سرگرمیاں کچھ اور ہوتی ہیں۔


شاداب: اچھا جی! تو پھر تو آپ کو یہ بھی پتہ ہو گا وہ سرگرمیاں کون سی ہیں لگے ہاتھ وہ بھی بتا دیں تا کہ یہاں بیٹھے سب لوگ آپ کی معلومات سے مستفید ہو سکیں۔


تنزیلا: مثلاً پہلے نمبر پر تو لڑکیوں کی باتیں ہیں۔ لڑکوں کی گروپ اسٹڈی میں اور کچھ ہو نہ ہو لڑکیوں کی باتیں ضرور ہوتی ہیں۔ فلاں کو تم نے دیکھا کمال لگ رہی تھی، کل میں نے کالج جاتے ہوۓ فلاں کو دیکھا کیا لگ رہی تھی اور وہ تو۔۔۔


شاداب: یہ تم لڑکیوں کو اس قدر زعم کیوں ہے کہ ہم لڑکے ہر وقت تم لوگوں کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ خوش فہمیاں آپ نے کیوں پال رکھی ہیں؟


تنزیلا: اس لیۓ کہ ہمیں لڑکوں کی نیچر کا پتہ ہے آپ لوگ ہر وقت اسی چکر میں تو رہتے ہیں۔


امی: تنزیلا تم پھر شروع ہو گئ۔ ابھی وہ بیچارا آکر بیٹھا ہے سانس تو لینے دو اسے۔۔۔ جاؤ اس کے لیۓ کھانا لے آؤ اسے بھوک لگی ہو گی۔


چھٹکی: اچھا کیا امی جو آپی کو یہیں روک دیا ورنہ آپی جب شاداب بھائی سے کسی بحث میں پڑ جائیں تو سمجھیں دو گھنٹے گۓ۔۔۔ ابھی پرسوں ہی ہم لوگ شاداب بھائی کے ساتھ لڈو کھیل رہے تھے کہ کسی بات کو لے کر آپی اور شاداب بھائی کی اتنی بحث ہوئی کہ ہمارے سارے کھیل کا ستیاناس ہو گیا۔


امی: میں بھی کیا کروں ہزار دفعہ تو اسے سمجھایا ہے کہ لڑکیاں اتنا بولتے ہوۓ اچھی نہیں لگتیں پر یہ میری مانتی ہی نہیں، تمہارے ابو کو کل فون کرکے بتاؤں گی وہی اسے سمجھائیں گے میری تو یہ بالکل نہیں سنتی۔


تنزیلا: اوہ ہو امی۔۔۔آپ بھی اتنی سی بات کا بتنگڑ بنا دیتی ہیں میں تو مذاق کر رہی تھی۔


چھٹکی: آپی آپ تو مذاق کرتی ہیں پر ہمارا تو کباڑا ہو جاتا ہے ناں۔۔۔


تنزیلا: چل چھٹکی تو آرام سے بیٹھ تیرا کون سا کباڑا کیا میں نے۔۔۔آج تک تجھ سے کبھی بحث کی ہے؟


چھٹکی: مجھ سے نہیں مگر شاداب بھائی سے تو کرتی ہیں ان کے چکر میں ہم بھی مارے جاتے ہیں۔


شاداب: یہ بات تو تم نے ٹھیک کہی چھٹکی۔۔۔پورے گھر میں میڈم کو صرف میں ہی ملتا ہوں کباڑا کرنے کے لیۓ، تم میری حالت نہیں دیکھ رہی کیا ہو گئ ہے۔


(تنزیلا کا بھائی اپنا ہوم ورک کرتے ہوۓ سر اوپر اٹھاۓ بغیر یوں دھیرے سے بولتا ہے جیسے اپنے آپ سے بات کر رہا ہو)


کھجلی: آخر آدمی ایسے مذاق، ایسی باتیں اور ایسی حرکتیں کرتا ہی کیوں ہے جس سے دوسروں کا کباڑا ہوتا ہو؟


تنزیلا: (ڈانٹتے ہوۓ) تو چپ کر کھجلی تجھے بڑی باتیں آگئی ہیں۔


شاداب: (ہنستے ہوۓ) باتیں کیوں نہ آئیں آخر بھائی کس کا ہے۔۔۔ تم نے بالکل ٹھیک کہا کھجلی! تمہاری بات دل کو لگی ہے۔


تنزیلا:  (ناراضی سے) ٹھیک ہے میں اب کبھی نہیں بولوں گی چپ رہوں گی پھر تم لوگوں کو پتہ چلے گا۔


(اٹھ کر چلی جاتی ہے)


چھٹکی: آپی آپ تو ناراض ہو گئیں۔ (اٹھتے ہوۓ) میری آپی ناراض ہو گئیں میں جاتی ہوں اپنی آپی کو منا کر لاتی ہوں۔


شاداب: (شرارت سے) ناراض ہی رہنے دو چھٹکی! تھوڑی دیر تک سکون تو رہے گا۔ 


(اندر سے تنزیلا کی آواز آتی ہے)


تنزیلا:  میں نے سن لیا ہے۔۔۔


شاداب: اوہ تیری۔۔۔اب تو میری شامت آئی۔



تیسرا منظر


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


تنزیلا اور شاداب اپنے صحن میں بیٹھے ہیں۔ صحن نیم تاریک ہے۔ چاند کی چاندنی صحن پر پڑ رہی ہے جس سے صحن کچھ کچھ روشن دکھائی دے رہا ہے۔ سب سے پہلے بیل دکھائی دیتی ہے جو چاند کی چاندنی سے چمک رہی ہے۔ اس کے بعد شاداب اور تنزیلا نظر آتے ہیں، شاداب ایک طرف بیٹھا موبائل دیکھ رہا ہے جبکہ تنزیلا اس کے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہے۔ چند لمحے خاموشی رہتی ہے۔ 


تنزیلا: شاداب۔۔۔


شاداب: (موبائل سے نظریں ہٹاۓ بغیر) ہونہہ۔۔۔


تنزیلا: خاموش کیوں بیٹھے ہو؟


شاداب: (اسی انداز سے) بس ایسے ہی۔۔۔


تنزیلا:  موبائل کو چھوڑتے کیوں نہیں دیکھو تو کتنی پیاری چاندنی صحن میں پھیلی ہے۔ 


شاداب: (نظریں اوپر اٹھا کر) ہاں پھیلی تو ہے۔


تنزیلا: تو اسے محسوس کرو کیا پتہ یہ لمحے ہماری زندگی میں دوبارہ کبھی آئیں یا نہیں۔ یہ چاندنی میں لپٹی حسین رات پھر کبھی نصیب ہو یا نہیں۔


شاداب: (موبائل بند کرکے جیب میں رکھ لیتا ہے) دوبارہ کیوں نہیں آئیں گے؟ ہم کہیں شفٹ ہو رہے ہیں کیا؟۔۔۔یا تم نے کسی اور ملک کا ویزہ اپلائی کیا ہوا ہے، کل تم جا تو نہیں رہی ہم سب کو بتاۓ بغیر۔۔۔ صبح جب ہم سو کر اٹھیں تو پتہ چلے جی تنزیلا صاحبہ تو (ہاتھ سے جہاز اڑانے کا اشارہ کرتا ہے) اڑان بھر کر جا چکی ہیں۔ 


تنزیلا: مذاق نہیں شاداب۔۔۔میں سنجیدہ ہوں۔


شاداب: تم سنجیدہ کیوں ہو یہ بھی تو بتاؤ۔۔۔ اتنی خیرت انگیز تبدیلی یکدم تمہاری زندگی میں کیسے آگئ۔ ابھی چند گھنٹے پہلے تک تو تم بالکل ٹھیک تھی یہ اچانک تمہاری طبعیت کیسے خراب ہو گئ۔


تنزیلا: پتہ نہیں! شاید اس لیۓ کہ چند دن تک تم چلے جاؤ گے اور پھر۔۔۔ (بات کرتے کرتے رک جاتی ہے)


شاداب: پھر کیا؟


تنزیلا: پھر یہ کہ تم لوٹ کر نہیں آؤ گے اور میں یہاں اکیلی بیٹھی رہ جاؤں گی۔


شاداب: (قہقہہ لگا کر) تم بھی ایک الگ  نمونہ ہو۔ میں یہاں کیوں نہیں آؤں گا میں اپنے شہر اپنے گھر جا رہا ہوں ملک سے باہر نہیں جا رہا۔ تم میرا خیال ہے آج کل کچھ زیادہ سوچنے لگی ہو۔ اس سے بہتر تو وہی تنزیلا ہے جو سوچتی کم  اور بولتی زیادہ ہے۔


تنزیلا: (خوش ہوتے ہوۓ) ہاں تو تم نے مانا کہ میں ویسی ہی ٹھیک ہوں۔ میں بھی یہی کہتی ہوں مگر تم لوگ  کہتے ہو تھوڑی کم بولا کرو، سنجیدہ رہا کرو اور یوں رہا کرو یوں نہ رہا کرو۔


شاداب: (ہاتھ جوڑتے ہوۓ، مذاق سے) ہماری توبہ اگر ہم دوبارہ تمہیں ایسا کہیں۔ اس سے بہتر ہے تم ویسی ہی رہو۔۔۔ ویسے میں نے تمہیں کبھی سنجیدہ رہنے کو نہیں بولا بس یہ کہا ہے کہ بحث تھوڑی کم کیا کرو۔


تنزیلا: سچی میں زیادہ سنجیدگی مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی۔ 


شاداب: مجھے بھی اچھی نہیں لگتی۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کسی بھی چیز کی زیادتی یا کمی تکلیف دہ اور تقصان دہ ہوتی ہے۔ بہت سی ایسی محفلیں ہیں جو سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہیں جہاں مجبوراً سہی مگر سنجیدہ رہنا پڑتا ہے، لیکن اگر آپ کو ہر محفل میں ایسا رہنا پڑے تو مصیبت ہو جاۓ گی۔ اسی طرح اگر آدمی ہر وقت تنہائی میں رہے تو وہ اس کے لیۓ اذیت ناک بن جاتی ہے اور اگر زیادہ بھیڑ بھاڑ میں یا لوگوں میں گھرا رہے تو بھی اس کے لیۓ مشکل ہو جاتی ہے۔ 


تنزیلا: تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیۓ؟



شاداب: کچھ خاص نہیں! بس آدمی کو چاہیۓ اپنی روزمرہ زندگی کا کچھ حصہ وہ رونق اور چہل پہل میں گزارے اور کچھ حصہ تنہائی سے محذوز ہو۔ انسان کو اچھی محفل اور اچھی تنہائی دونوں سے لطف اندوز ہونا چاہیۓ اور دونوں سے سیکھنا بھی چاہیۓ۔


تنزیلا: اچھی تنہائی ؟۔۔۔۔اچھی محفل تو چلو ٹھیک ہے یہ اچھی تنہائی کیا بلا ہے؟


شاداب: جس طرح اچھی محفل اور بری محفل ہوتی ہے اسی طرح اچھی تنہائی اور بری تنہائی بھی ہوتی ہے۔


تنزیلا: اچھا جی! تو پھر یہ کون سی محفل ہے جہاں ہم اس وقت بیٹھے ہیں، اچھی یا بری؟


شاداب: یہ تو یقیناً بہت اچھی محفل ہے۔ ایسی محفل تو نصیب والوں کو میسر آتی ہے۔ 


تنزیلا: چلو شکر ہے تمہیں کچھ تو پسند آیا۔


شاداب: مجھے تو ہمیشہ بہت کچھ پسند آجاتا ہے اکثر ناپسندیدگی کا اظہار تمہاری طرف سے ہوتا ہے۔


تنزیلا: میری طرف سے ہوتا ہے؟۔۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تم خود اتنے اچھے لمحات کو چھوڑ کر اپنے موبائل میں گم تھے۔


شاداب: موبائل تو میں یونہی وقت گزاری کے لیۓ دیکھ رہا تھا۔۔۔ ویسے ایک بات عجیب ہے تم آج کل کی ماڈرن لڑکی ہو کر بھی سوشل نیٹ ورک یوز نہیں کرتی۔


تنزیلا: ہاں میں نے آج تک فیس بک اکاؤٹ نہیں بنایا بس ایک بار میری ایک دوست نے میرے لیۓ میرے نام کا ایک اکاؤنٹ بنایا تھا لیکن شاید ہی میں کبھی اس پر آن لائن آئی ہوں۔


شاداب: خیرت ہے آج کل تو دور دراز کے گاؤں کی لڑکیاں بھی فیس بک اور انسٹا وغیرہ یوز کرتی ہیں اور تم ہو کہ تمہارا اکاؤنٹ بھی نہیں۔


تنزیلا:  بس کچھ ایسا ہی ہے۔ 


شاداب: لیکن میرے خیال سے تمہیں کم سے کم فیس بک تو ضرور یوز کرنی چاہیۓ۔  


تنزیلا: تو تم چاہتے ہو میں بھی ان لوگوں کی طرح ہر چھوٹی چھوٹی بات کو سوشل نیٹ ورکس پر شئیر کروں جس کا کوئی تک نہیں۔ جس سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی نہ ہونی چاہیۓ۔ (طنزیہ انداز میں) تمہارا دل ہے میں بھی یہ بتاؤں آج مجھے دو چھینکیں آئیں آئی ایم فیلنگ کولڈ۔۔۔ یا اس طرح کروں، یار آج میں نے صبح ناشتے میں دو پراٹھے کھاۓ تھے قسم سے مزا آگیا پر واٹس ایپ سٹیٹس لگانا بھول گئ۔۔۔ یا یوں۔۔۔ ٹھہرو میں نے آج پاؤں کے ناخن کاٹے ہیں میں ذرا انسٹا گرام پر اسٹوری لگا لوں۔


شاداب: (ہنستا ہے) ہاں اور میں سٹیس لگاؤں گا۔ میں دکان سے دودھ لاتے ہوۓ۔


تنزیلا: نہیں اس کا تو وی لاگ بنے گا۔ اور نیچے کیپشن دینا ٹریولنگ ٹو بازار اینڈ وزٹنگ ملک شاپ۔ 


(شاداب ہنستے ہوۓ اٹھتا ہے)


شاداب: ہم بھی کیسے نمونے ہیں۔ کوئی اگر ہماری باتیں سن لے تو ہمیں کیا سمجھے؟


تنزیلا: (اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے) جو مرضی سمجھے لوگوں کی تو مجھے ذرا بھی نہیں پڑی۔


شاداب: اچھا جی! تم خود کو اتنی جرات مند اور بہادر سمجھتی ہو کہ تمہیں لوگوں کی ذرا بھی نہیں پڑی؟


تنزیلا: ہاں میں ایسی ہوں۔


شاداب: تم جیسی بہت ہیں جو جرات مندی اور دلیری کا دعویٰ تو کرتی ہیں مگر جب وقت آتا ہے تو ان کی ساری بہادری ریت کا محل ثابت ہوتی ہے جو بادِ مخالف کے ہلکے سے جھونکے سے زمین بوس ہو جاتا ہے۔


تنزیلا: لیکن میرا محل ریت کا محل نہیں شاداب احمد۔۔۔ یہ بڑا مظبوط ہے، اسے طوفان باد و باراں چھو بھی نہیں سکتا۔


شاداب: ہونہہ۔۔۔ چلو وقت آنے پر دیکھیں گے۔۔۔ فی الحال آؤ تمہاری اس حسین چاندنی کی سیر کریں۔


تنزیلا: (خوش ہوتے ہوۓ) ہاں یہ اچھا ہے۔



(دونوں صحن میں ٹہلنے لگتے ہیں۔ چاندنی نے پورے صحن کو روشن کر رکھا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ ایک چکر لگاتے ہیں بادل کا ٹکڑا چاند کے آگے آجاتا ہے)


تنزیلا: لو کر لو سیر۔۔۔چندہ ماموں تو روٹھ گۓ۔


شاداب: شاید اسے گوارا نہیں کہ ہم اس کی چاندنی میں سیر کریں۔


تنزیلا: (ہاتھ جوڑ کر چاند سے) چاند بھیا مہربانی کرکے تھوڑی دیر کے لیۓ اپنے درشن کروائیے ہم بس آپ کی چاندنی سے چند باتیں کریں گے اور لوٹ جائیں گے۔


شاداب: (درخت کے پیچھے چھپ کر رعب دار آواز میں) خبردار ہمارے گھر کی بہو بیٹیوں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی پراۓ مرد سے گپیں لڑاتی پھریں۔ ہم اپنی چاندنی کو ہرگز یہ اجازت نہیں دے سکتے یہ ہماری خاندانی روایات اور اقدار کے خلاف ہے۔ ہم آفتاب نہیں جس کی دھوپ دن کے وقت نہ جانے کہاں کہاں گلچھرے اڑاتی پھرتی ہے۔ ہم اسی لیۓ رات کے پردے میں آتے ہیں تاکہ ہماری چاندنی پر زیادہ لوگوں کی نظریں نہ پڑیں۔ 


تنزیلا: (چاند کی طرف ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر) اے ماہِ روشن! میں تو پرایا مرد نہیں آپ مجھے تو اپنی چاندنی سے ہم کلام ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ ہم آپ کی لاڈلی چاندنی کی ہر دلعزیز سہیلی ہیں۔ یقین مانیۓ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے تب سے آپ کی چاندنی اور میں ، دونوں ہم جولیوں کی طرح رہی ہیں۔


شاداب: ٹھیک ہے ہم تمہیں چاندنی سے ملنے کی اجازت دیتے ہیں۔ مگر وہ لڑکا جو تمہارے ساتھ ہے وہ چاندنی سے ہر گز نہیں مل سکتا۔ وہ ہمیں ایک نمبر کا لوفر اور آوارہ دکھائی دیتا ہے۔



تنزیلا: (مسکرا کر) وہ تو آپ بالکل ٹھیک پہچانے ہیں وہ لڑکا سچ میں ایک نمبر کا لوفر اور آوارہ ہے، اور۔۔۔اور میں آپ سے کیا کہوں۔۔۔ بس جانے دیں۔ لیکن آپ بے فکر رہیں ہم آپ کی چاندنی کا بہت خیال رکھیں گے ایسے لوفر قسم کے لوگ آپ کی چاندنی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پائیں گے۔


(چاند نکل آتا ہے)


تنزیلا: (شاداب سے) آجاؤ! چاند نے ہماری سفارش پر تمہیں بھی اپنی چاندنی میں سیر کی اجازت دے دی ہے۔


(درخت کے پیچھے سے نکل آتا ہے)


شاداب: (طنزیہ انداز میں) بہت بہت شکریہ آپ کا اگر آپ سفارش نہ کرتیں تو ہمیں تو یہ شرف حاصل ہی نہ ہوتا۔


(اندر کمرے سے تنزیلا کا بھائی آتا ہے)


تنزیلا: (بھائی کو دیکھ کر) کھجلی تم اس وقت کیا کر رہے ہو ابھی تک سوۓ نہیں۔ صبح سکول بھی جانا ہے۔


کھجلی: آپی میں ادھر صحن میں تھوڑی دیر اپنی نئی سائیکل چلا لوں؟


تنزیلا: توبہ ہے تم اس وقت سائیکل چلانے کے لیۓ اٹھے ہو۔


(شاداب ہنستا ہے)


تنزیلا: نئی سائیکل کے چاؤ میں جناب آدھی رات کو اٹھ بیٹھے ہیں۔ (ہلکا سا ڈانٹ کر) چلو بھاگو اور جا کر سو جاؤ۔ کل سکول سے آکر چلانا صبح پھر تم مشکل سے اٹھتے ہو۔


(کھجلی منہ بنا کر واپس چلا جاتا ہے۔ شاداب سائیکل کی طرف جاتا ہے)


شاداب: تو اس سائیکل کے لیۓ جناب اس وقت اٹھیں ہیں۔ (اوپر بیٹھ کر) دیکھوں تو سہی کیسی ہے۔


تنزیلا:  یہ ابو نے باہر سے بھیجی ہے۔ کافی عرصے سے امی سے ضد کر رہا تھا میں نے سائیکل لینی ہے تو ابو نے باہر سے بھجوا دی۔


(شاداب پیڈل مار کر سائیکل آگے بڑھاتا ہے۔ سائیکل چھوٹی ہے شاداب کی ٹانگیں بڑی مشکل سے اس پر پوری آتی ہیں اور وہ تقریباً پیچھے جھک کر سائیکل چلاتا ہے)


شاداب: آؤ تمہیں اپنی شاہی سواری کی سیر کراؤں۔


تنزیلا: نہیں تم گرا دو گے۔


شاداب: نہیں گراؤں گا بھروسہ رکھو۔


تنزیلا: نہیں مجھے نہیں کرنی۔


شاداب: اوفو آؤ تو سہی تم تو خواہ مخواہ ڈر رہی ہو۔ تم یوں سمجھو تمہارے خوابوں کا شہزادہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر دور دیس سے چلا آیا ہے۔ 


تنزیلا: (ہنس کر) واہ خوابوں کا شہزادہ! خوابوں کے شہزادے ایسے ہوتے ہیں؟


شاداب: آج کل کے شہزادے ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور یہ شہزادہ تھوڑا بیمار شمار بھی رہا ہے اس لیۓ ایسا ہو گیا۔ 


تنزیلا: بیمار کیوں ہوا تھا۔۔۔ شہزادی کی جدائی میں؟


شاداب: ( ہنستے ہوۓ سر ہلا کر) ہاں۔۔۔ تم بس فرض کر لو تمہارے خوابوں کا شہزادہ جس کا انتظار تم برسوں سے کر رہی تھی اپنے شاہی گھوڑے پر تمہیں لینے آگیا ہے۔


(تنزیلا اس کے پیچھے سائیکل کے چھوٹے سے کیریئر پر بیٹھ جاتی ہے۔ شاداب صحن میں سائیکل چلانے لگتا ہے)


شاداب: (سائیکل چلاتے ہوۓ) تو شہزادی صاحبہ! بادلوں میں اڑنا پسند کریں گی؟ یہ ہمارا شاہی گھوڑا آپ کو بادلوں کی سیر کراتا ہوا اپنے دیس لے جاۓ گا۔


تنزیلا: اے شہزادہ محترم! ہم آپ کے ساتھ آپ کے گھوڑے پر سوار ہو گۓ ہیں اب آپ جہاں بھی لے جائیں گے ہمیں منظور ہو گا۔ بس ایک بات کا دھیان رکھیۓ گا۔۔۔بیچ سفر میں آپ کا ارادہ نہ بدل جاۓ یہ نہ ہو ہمیں راستے میں کہیں چھوڑ دیں۔


(شاداب سائیکل روک لیتا ہے اور پیچھے مڑ کر تنزیلا کو دیکھتا ہے)


شاداب: (جذباتی انداز میں) آپ شاید بھول رہی ہیں شہزادی صاحبہ! ہم نے اتنی دور تک سفر صرف آپ کے لیۓ کیا ہے آپ ہی تو ہماری منزل ہیں پھر راستے میں چھوڑنے کا سوال ہی نہیں بنتا۔ 


تنزیلا: (اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ) منزلیں بدلی بھی جا سکتی ہیں شہزادۂ محترم۔


(دونوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر دیوار پر سر سبز بیل دکھائی دیتی ہے۔)


چوتھا منظر


 دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


تنزیلا کچن میں کھڑی کام کر رہی ہے اور اپنا موبائل سامنے رکھے وڈیو کال پر اپنی دوست ہمہ سے باتیں کر رہی ہے۔


ہمہ: تو پھر شادی کے بارے میں کیا سوچا؟


تنزیلا: شادی کا تو ابھی دور دور تک کچھ پتہ نہیں ابھی تو اس کے  ایگزیمز ختم ہوۓ ہیں۔ 


دوست: ایگزیمز ختم ہو گۓ ہیں تو تم لوگوں کو کم سے کم منگنی ضرور کر لینی چاہیۓ۔ 


تنزیلا: اس کے بارے میں بھی ابھی کچھ سوچا نہیں آج  اس کا آخری پیپر تھا اب دیکھیں گے آگے کیا کرنا ہے۔ 


دوست: بہتر یہی ہے جلدی کچھ کر لو لڑکوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا ان کا کیا پتہ آج یہاں تو کل وہاں۔ 


تنزیلا: (شرارت سے) تمہیں بڑا پتہ ہے لڑکوں کا تمہارے وہ انجینئر کا دل کسی اور پہ تو نہیں آگیا؟


دوست: اس کا دل کسی اور پہ آۓ تو اس کا منہ نہ توڑ دوں۔ میں نے تو اسی لیۓ ہمارے ملتے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھ سے کوئی تعلق رکھنا ہے تو فوراً منگنی کرو تاکہ اس کے لیے کہیں اور جانا اتنا آسان نہ رہے اب کہیں جا کر تو دکھاۓ۔ جٹنی ہوں جٹنی زندہ گاڑھ دوں گی۔


(تنزیلا اس کی بات سن کر ہنستی ہے)


پانچواں منظر 


دن کا وقت


شاداب کالج یا یونیورسٹی کے ایگزیمینیشن سنٹر سے باہر نکل رہا ہے ایک لڑکا آتا ہے اور اسے دور سے آواز دیتا ہے۔


لڑکا: شاداب۔۔۔


(شاداب آواز کی سمت دیکھتا ہے اور رک جاتا ہے)


لڑکا: (قریب آکر) کیسا ہوا پیپر؟


شاداب: اچھا ہو گیا ہے۔ اور تمہارا؟


لڑکا: میرا بھی اچھا ہو گیا ہے۔ تو پھر آگے کیا ارادے ہیں؟


شاداب: (خیرت سے) کیسے ارادے؟


لڑکا:  تم واپس پنڈی جارہے ہو تو جانے سے پہلے کچھ ہو جاۓ۔ میرا مطلب ہے پیپرز ختم ہوۓ ہیں کوئی پارٹی شارٹی ہو جاۓ۔


(ایک اور لڑکا آتا ہے)


دوسرا لڑکا: کیا ہو رہا ہے یارو کیسا ہوا پیپر؟ بڑا مشکل تھا یار جو کچھ میں یاد کرکے آیا تھا ان میں سے ایک بھی سوال نہیں آیا۔ اب تو مجھے اوپر والا ہی بچا سکتا ہے۔ کل میں نے بابا نانگے شاہ کے مزار پر جا کر منت بھی مانی تھی اور ایک تعویز بھی لے کر بازو سے باندھا تھا (بازو دکھاتے ہوۓ) یہ دیکھو یہ بندھا ہے۔ مگر پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔


(شاداب اور پہلا لڑکا دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر دھیرے سے ہنستے ہیں)


پہلا لڑکا: (شرارت سے) یار تم گبھرا کیوں رہے ہو تمہارا پیپر اچھا نہیں ہوا تو پھر کیا ہے تم پھر بھی پاس ہو جاؤ گے۔ بابا نانگے شاہ کے مزار کی منت کوئی عام منت تھوڑی ہے اور بابا جی کا دیا ہوا تعویز کوئی معمولی تعویز ہو سکتا ہے تم دیکھنا پیپر چیک  کرنے والے کو تمہاری غلطیاں نہیں دکھیں گی اور اسے تمہارے غلط سوال بھی ٹھیک نظر آئیں گے۔


شاداب: (شرارت سے) اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم جو پیپر چھوڑ کر آۓ ہو وہ بابا جی کی کرامت سے خود بہ خود بدل جاۓ اور تمہارا غلط پیپر درست ہو جاۓ۔


دوسرا لڑکا: ہاں ایسا ہو تو سکتا ہے۔


شاداب: تو بس پھر بابا جی کی کرامت سے مایوس مت ہو اور صبر رکھو نتیجہ تو آنے دو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے۔


دوسرا لڑکا: ہاں یارا تم بالکل ٹھیک کہتے ہو میں ایسے ہی برا سوچ رہا تھا۔ ابھی جاتے ہوۓ راستے میں میں بابا جی کو سلام کرکے جاؤں گا۔۔۔ ٹھیک ہے میں چلتا ہوں پھر ملاقات ہو گی۔


(چلا جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد دونوں  قہقہہ لگاتے ہیں۔)



چھٹا منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


تیز بارش ہو رہی ہے شاداب دروازے سے گھر میں داخل ہو رہا ہے۔ بھاگ کر صحن عبور کرتا ہے آگے برآمدے میں اسے چھٹکی کھڑی مل جاتی ہے۔


شاداب: کیا ہو رہا ہے چھٹکی؟ 


چھٹکی: کچھ نہیں شاداب بھائی۔


شاداب: اور وہ کہاں ہیں۔۔۔ہمارے دشمن؟


چھٹکی: آپی اندر کچن میں ہیں۔ آپ بڑے اچھے وقت پر آۓ ہیں شاداب بھائی! آپ کے لیۓ پکوڑے بن رہے ہیں۔


شاداب: ارے واہ! آج یہ خاص عنایت ہم پر کس لیۓ؟



چھٹکی: آپی کو پتہ ہے آپ کو پکوڑے پسند ہیں اور آج تو بارش کی وجہ سے موقع بھی ہے۔


شاداب: اور دستور بھی ہے۔


(دونوں اندر چلے جاتے ہیں)


ساتواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


شاداب ہاتھ میں پکوڑوں کی پلیٹ لیۓ برآمدے میں کھڑا پکوڑے کھا رہا ہے۔ سامنے صحن میں تیز بارش برس رہی ہے۔ بارش کے برسنے کی آواز مسلسل آرہی ہے۔ تنزیلا آتی ہے۔


تنزیلا: اور چاہیئں؟


شاداب: نہیں کافی ہیں۔


(تنزیلا واپس جانے لگتی ہے)


شاداب: (دھیرے سے) تنزیلا؟


تنزیلا: (واپس پلٹ کر) ہاں!


شاداب: کل میں جا رہا ہوں۔


تنزیلا: (دکھ سے) جانتی ہوں۔


شاداب: (سنجیدگی سے) معلوم نہیں کیوں مجھے بڑی گبھراہٹ ہو رہی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے تنزیلا میں کسی ایسی وادی میں اتر رہا ہوں جہاں لینڈ سلائیڈنگ سے واپسی کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ جہاں شام ہوتے ہی اتنا اندھیرا چھا جاتا ہے کہ چلتے ہوۓ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہو پاتی۔


تنزیلا: (سنجیدگی سے) سچ بتاؤں... مجھے بھی کل سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میرے ہاتھ سے کچھ چھوٹ رہا ہے، کوئی بہت ہی قیمتی چیز بند مٹھی میں ریت کی طرح پھسل رہی ہے۔ میں جتنا مٹھی کو بند کرتی ہوں ریت اتنی تیزی سے پھسل کر مٹھی سے نکل جاتی ہے۔ یا جیسے کوئی گاڑی چھوٹ رہی ہے میں پلیٹ فارم پر اس کے پیچھے بھاگتی ہوں مگر وہ گاڑی آہستہ آہستہ رفتار پکڑے جا رہی ہے۔


(شاداب چند لمحے اسے خاموش کھڑا سنجیدگی سے دیکھتا رہتا ہے پھر ایک دم قہقہہ لگاتا ہے)


شاداب: (ہنستے ہوۓ) تم بھی کمال ہو میں تو مذاق کر رہا تھا۔ 


(تنزیلا برا سا منہ بناتی ہے)



شاداب: (جاری رکھتے ہوۓ) تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں کسی دوسری دنیا میں جا رہا ہوں۔ اور آج کل تو ویسے بھی موبائل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے دوری تو بالکل دوری لگتی ہی نہیں۔ جس وقت چاہے دیکھ لو جس وقت چاہے بات کر لو۔ اس ٹیکنالوجی نے تو قسم سے فراق اور ہجر میں بڑی کمی واقع کر دی ہے۔ 


تنزیلا: ٹیکنالوجی سے کچھ نہیں ہوتا لوگ تو ویسے ہی ہیں اگر آدمی خود نہ چاہے تو پھر کیا موبائل اور کیا انٹرنیٹ۔


(جانے لگتی ہے)


شاداب: کہاں جا رہی ہو... بات تو سنو۔


تنزیلا: مجھے تم سے بات نہیں کرنی۔


شاداب: ٹھہرو تو سہی ، اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے۔۔۔رکو تو۔


تنزیلا: نہیں میں جا رہی ہوں مجھ سے بات مت کرنا۔ 


شاداب: لیکن۔۔۔


(چلی جاتی ہے)


(شاداب مسکراتا ہوا پکوڑے کھانے لگتا ہے)


آٹھواں منظر


رات کا وقت۔


شاداب اور اس کے چند دوست کسی گھر کی چھت پر کھلے آسمان کے نیچے پارٹی کر رہے ہیں۔ باربی کیو ہو رہا ہے۔ گپیں لگائی جا رہی ہیں ،قہقہے لگ رہے ہیں۔


شاداب: یار ظہیر ویسے گھر کی چھت پر پارٹی کرنے کا تیرا آئیڈیا خوب تھا۔


ظہیر: دیکھا میں کہہ رہا تھا نا کہ یہاں مزا آۓ گا۔


دوسرا لڑکا: سچ میں یار ایسا مزا کہیں اور بالکل نہ آتا۔ میں غلط تھا مجھے لگ رہا تھا بہت بورنگ ہو گا۔


تیسرا لڑکا: اچھا چلو سب اپنے اپنے آگے کے پلینز بتاؤ۔ پڑھائی ختم ہو گئ ہے اب آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟


ظہیر: میں تو ابھی آگے ماسٹرز کروں گا اور شاید ایم فل بھی کروں۔


چوتھا لڑکا: یارا مجھ سے تو پڑھائی وائی نہیں ہوتی میں تو اب کوئی نوکری کروں گا۔


تیسرا لڑکا: اور شاداب تم۔۔۔تم کیا کرو گے؟


شاداب: معلوم نہیں ابھی کچھ سوچا نہیں شاید میں بھی نوکری ہی کروں۔


پانچواں لڑکا: (پلیٹ ہاتھ میں پکڑے کچھ کھاتا ہوا ایک طرف سے چلتا آتا ہے) تم لوگ جو مرضی کرو نوکری، پڑھائی، کاروبار یا کچھ اور۔۔۔ تمہارا بھائی تو سیدھا شادی کرے گا۔


شاداب: کس سے۔۔۔ اپنی اس گاؤں والی سے؟


دوسرا لڑکا: گاؤں والی۔۔۔یہ کیا سین ہے؟


ظہیر: اس کی منگنی اس کی ایک کزن سے ہوئی ہے جو گاؤں میں رہتی ہے۔


دوسرا لڑکا: گاؤں والی ہے۔۔۔پھر تو تیری خیر نہیں۔


پانچواں لڑکا: نہیں یار بڑی سیدھی سادھی ہونہار لڑکی ہے۔


شاداب: بیٹا اکثر لڑکیاں شادی سے پہلے ہونہار ہی لگتی ہیں لیکن بعد میں خونخوار ہو جاتی ہیں۔


( ایک لڑکا گٹار لے آتا ہے۔ سب اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔)


دوسرا لڑکا: ہاں یہ ٹھیک ہے گٹار سنتے ہیں۔


گٹار والا لڑکا: نہیں میں گٹار اس شرط پر بجاؤں گا جب تم میں سے کوئی ساتھ گانا گاۓ گا۔


ظہیر: ٹھیک ہے میں گاتا ہوں۔


سب ایک ساتھ: نہیں۔ 



تیسرا لڑکا: ایسا نہیں ہو سکتا ہم اپنے آپ پر اس قسم کا ٹارچر تو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے۔


ظہیر: جو بھی ہو جاۓ گانا تو میں ہی گاؤں گا۔


شاداب: تو ہم احتجاج کریں گے۔


ظہیر: جو مرضی کرو گانا میں ہی گاؤں گا۔


گٹار والا: چلو یار آج اسے ایک چانس دے دو کیا پتہ سدھر گیا ہو۔



دوسرا: ٹھیک ہے دیا۔ لیکن پہلے ہمیں سیمپل کے طور پر کسی گانے کے دو بول سناؤ۔ اگر تم اس میں پاس ہو گۓ تو تمہیں گانے کا پورا موقع ملے گا۔ نہیں تو۔۔۔۔


چوتھا لڑکا: ہم تمہیں اٹھا کر چھت سے نیچے پھینک دیں گے۔


ظہیر: ٹھیک ہے منظور ہے۔ 


(ظہیر بڑے قرینے سے دو زانو ہو کر بیٹھتا ہے، گلا کنگھارتا ہے اور گانا شروع کرتا ہے۔ انتہائی بدی آواز میں بہت بے سرا گانا گاتا ہے۔ سب چلاتے ہیں)


سب ایک ساتھ: (چلاتے ہوۓ،) بس۔۔۔


چوتھا لڑکا: بس خدا کے لیۓ یہیں رک جاؤ۔ اگر آگے بڑھے تو ہم زندگی میں کہیں آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔


تیسرا لڑکا: میں تو کہتا ہوں ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔


دوسرا لڑکا: سنتے آۓ تھے موسیقی روح کی غذا ہے مگر تمہارا گانا سن کر لگتا ہے یہ روح کی نہیں بد روح کی غذا ہے۔


ظہیر: تم لوگوں کو تو ٹیلنٹ کی قدر ہی نہیں۔


شاداب: تم اپنا ٹیلنٹ فلی الحال اپنے تک محدود رکھو (ہنس کر) اسی میں انسانیت کی بھلائی ہے۔ (گٹار والے سے)  تم گٹار بجاؤ گانا رہنے دو۔


(لڑکا گٹار بجاتا ہے)


نواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


شاداب کمرے میں اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف ہے۔ تنزیلا کا بھائی بھاگتا ہوا اندر آتا ہے۔


کھجلی: شاداب بھائی آج آپ جا رہے ہیں؟


شاداب: ہاں جا رہا ہوں۔


کھجلی: بھائی پلیز آج نہ جائیں۔


شاداب: کیوں کیا ہوا؟


کھجلی: ہم سب کا آج پکنک کا پروگرام بن رہا ہے لیکن امی کہتی ہیں شاداب بھائی تو آج جا رہے ہیں تم لوگ اکیلے کیسے جاؤ گے۔ آپ پلیز آج رک جائیں کل چلے جانا۔


شاداب: لیکن یار میری تو ساری تیاری مکمل ہے۔


(چھٹکی اندر آتی ہے)


چھٹکی: تو کوئی بات نہیں آپ کی تیاری یہیں رہے گی کہیں بھی نہیں بھاگے گی۔


شاداب: اچھا چلو ٹھیک ہے پر ایک شرط ہے۔


کھجلی: کیا؟


شاداب: تمہیں میرے ساتھ وہ ڈھولی والا جھولا لینے پڑے گا۔


کھجلی: ٹھیک ہے میں لوں گا۔


شاداب: دیکھ لینا پچھلی دفعہ کی طرح بھاگنے نہیں دوں گا اس بار اٹھا کر زبردستی جھولے پر بٹھا دوں گا۔


کھجلی: آپ چلیں تو سہی شاداب بھائی دیکھنا اس بار میں بالکل نہیں ڈروں گا۔


چھٹکی: کھجلی تم ادھر بڑی بڑی باتیں کر رہے ہو وہاں جا کر تم نے بھیگی بلی بن جانا ہے۔


کھجلی: نہیں آپی اس بار میں پکا جھولا لوں گا۔


شاداب: تو چلو ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں۔


کھجلی: (خوش ہو کر نعرہ لگاتا ہے) یا ہو۔۔۔میں ابھی جا کر آپی کو بتاتا ہوں شاداب بھائی مان گۓ۔ 


(بھاگ جاتا ہے۔ وہ دونوں ہنستے ہیں)


دسواں منظر


دن کا وقت۔ 


ایک پارک میں چھٹکی اور کھجلی کسی جھولے پر جھولا لے رہے ہیں ان کے بالکل سامنے کچھ فاصلے پر شاداب اور تنزیلا بیٹھے ہیں۔ شاداب ان کو جھولا لیتے ہوۓ دیکھ رہا ہے جبکہ تنزیلا کا دھیان جینز پہنے ہوۓ چند لڑکیوں کی طرف ہے۔


تنزیلا: شاداب؟


شاداب: (اس کی طرف دیکھے بغیر) ہونہہ۔


تنزیلا: ایک بات پوچھوں؟


شاداب: (اسی انداز میں) ہاں پوچھو۔


تنزیلا: کیا تم شادی کے بعد مجھے جینز پہننے دو گے؟


(شاداب اس کی طرف دیکھتا ہے)


تنزیلا: (جاری رکھتے ہوۓ) مجھے بہت شوق ہے جینز پہننے کا لیکن کبھی ہمت نہیں ہوئی۔ بس ایک بار گھر والوں سے چھپ کر جینز خریدی تھی اور اندر اپنے کمرے میں دروازہ بند کرکے پہنی تھی۔۔۔ تم شادی کے بعد مجھے پہننے دو گے؟


شاداب: ہاں پہن لینا اس میں کیا ہے۔


تنزیلا: سچ میں تمہیں ذرا بھی اعتراض نہیں ہو گا؟


شاداب: ہاں بابا نہیں ہو گا۔ 


تنزیلا: تو کیا میں اپنی مرضی سے کوئی بھی لباس پہن سکتی ہوں؟


شاداب: ہاں بھئ جو مرضی پہننا میں اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہوں مجھے یہ حق کسی نے نہیں دیا۔


تنزیلا: تو تمہارا مطلب ہے میں سب کے سامنے جو کچھ مرضی پہن کر گھوم سکتی ہوں چاہے بکنی (bikni) پہن کر گھوموں تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟


شاداب: میں نے تمہیں اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت دی ہے برہنہ ہوکر گھومنے کے لیۓ نہیں بولا۔


تنزیلا: کیا مطلب ابھی تو تم نے کہا کہ جو مرضی پہن سکتی ہو۔



شاداب: میرا مطلب ہے تم اپنی مرضی سے جو بھی لباس پہننا چاہو پینٹ شرٹ، شلوار قمیض یا کچھ اور پہن سکتی ہو لیکن ننگے ہونے کی اجازت میں تمہیں کیسے دے سکتا ہوں؟ اور اس میں میری کوئی برتری بھی ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ اگر میں بھی صرف انڈر وئیر پہن کر یا ننگا ہو کر باہر نکلوں گا تو تم بھی مجھ پر اعتراض کر سکتی ہو اور یقیناً کرو گی۔


تنزیلا: تم سے قدامت پسندی کی بو آرہی ہے۔


شاداب: ننگا ہونا کہاں کا ماڈرن ازم ہے مجھے بتاؤ ذرا۔۔۔آج سے ہزاروں لاکھوں سال پہلے کا قدیم انسان جو غاروں میں رہا کرتا تھا پتھر کے دور کا آدمی وہ ننگا رہا کرتا تھا کیونکہ اس کے پاس لباس نہیں تھا۔ پھر اس نے دیگر بہت سی ایجادات کی طرح لباس بھی ایجاد کر لیا۔ آج بھی دنیا میں بیشتر قبائل ایسے ہیں جن میں عورتیں مرد اور بچے بالکل الف ننگے رہتے ہیں انہیں تو ہم قدیم قبائل کہتے ہیں جہاں نئ تہذیب کی روشنی نہیں پہنچی انہیں تو ہم ماڈرن نہیں کہتے۔ تو پھر تم بتاؤ عریانی اور برہنگی ماڈرن ازم ہے یا قدامت پسندی؟


(چھٹکی اور کھجلی دونوں بھاگتے ہوۓ آتے ہیں)


کھجلی: (بھاگتے ہوۓ دور سے ہی) شاداب بھائی ہم آگۓ۔ (قریب آکر) میں نے جھولا لے لیا۔


شاداب: بچو یہ والے جھولے کی تو میں بات نہیں کر رہا تھا میں تو دوسرے والے جھولے کی بات کر رہا تھا وہ والا جھولا لو تو مانیں۔


کھجلی: تو چلیں آئیں وہ بھی لیتے ہیں۔


شاداب: (اٹھتے ہوۓ) ٹھیک ہے لیکن تمہاری آپی تنزیلا بھی وہ جھولا لیں گی۔


تنزیلا: (چونک کر) میں۔۔۔! نہیں میں بالکل نہیں لوں گی۔ میری توبہ میں تو کبھی بھی نہ لوں۔


شاداب: تمہیں آج چلنا پڑے گا ہمارے ساتھ۔ (ہاتھ پکڑ کر اٹھاتا ہے)


تنزیلا: نہیں میں بالکل نہیں لوں گی۔ خدا کی قسم شاداب میری جان نکل جاۓ گی۔ 


شاداب: کچھ نہیں ہو گا تمہیں۔۔۔ یہ چھوٹا سا بچہ ہو کر جھولا لے رہا ہے اور تم ڈر رہی ہو۔


تنزیلا: نہیں میں نہیں لے سکتی۔


(کھینچ کر لے جاتا ہے)


شاداب: آج تو لینا ہی پڑے گا۔


(چھٹکی ہنستی ہوئی ان کے پیچھے چلتی ہے)



گیارواں منظر


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


شاداب کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا باہر دیکھ رہا ہے۔ کھڑکی سے باہر برستی بارش دکھائی دے رہی ہے۔ بارش کی آواز اندر کمرے تک آرہی ہے۔ کمرے کے ایک طرف کھجلی بیٹھا ہوم ورک کر رہا ہے اور تنزیلا اس کے پاس بیٹھی ہے۔


شاداب: (باہر دیکھتے ہوۓ) چار سال بیت گۓ پتہ ہی نہیں چلا۔ (پلٹتا ہے) 


تنزیلا: ہاں بہت تیزی سے بیت گۓ۔


شاداب: تم جانتی ہو!۔۔۔ میں یہاں بالکل بھی نہیں آنا چاہتا تھا لیکن گھر والوں کے اصرار پر مجھے یہاں رہنا پڑا۔ میرا ارادہ تو تھا کہ کچھ دن یہاں رہ کر ہاسٹل میں چلا جاؤں گا لیکن پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔۔۔ اس سے پہلے تو میں بہت چھوٹا تھا جب ایک بار تمہارے گھر آیا تھا۔


تنزیلا: میں بھی تمہارے گھر تو شاید ایک دو بار ہی گئ ہوں گی لیکن میں نے تمہیں شادیوں میں کئی بار دیکھا تھا۔


(شاداب واپس کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتا ہے)


تنزیلا: (کھجلی سے) ٹھیک طرح سے لکھو یہ کیسے لکھ رہے ہو۔ (اس کی کاپی پر انگلی رکھ کر) اس کو دوبارہ لکھو۔


کھجلی: آپی آپ بھی کام ختم نہ ہونے دینا۔۔۔ بار بار کہتی جا رہی ہیں دوبارہ لکھو دوبارہ لکھو۔


تنزیلا: (ہلکا سا ہنستی ہے) بدتمیز! پہلی دفعہ ٹھیک طرح لکھ لو تو دوبارہ تمہیں نہ لکھنا پڑے۔


شاداب: تمہیں یاد ہے جب میں پہلے دن یہاں آیا تھا تب بھی بارش ہو رہی تھی اور آج جب میں واپس جا رہا ہوں تب بھی بارش ہو رہی ہے۔ اس دن موسم کی پہلی بارش تھی اور آج اس موسم کی آخری بارش ہے۔۔۔ (پلٹ کر) اس کے بعد موسم بدل جاۓ گا۔


تنزیلا: موسموں میں یہی تو برائی ہے وہ بدل جاتے ہیں۔


شاداب: لیکن موسموں میں اچھائی بھی تو ہے وہ دوبارہ لوٹ آتے ہیں۔


تنزیلا: تو پھر وعدہ کرو۔۔۔


شاداب: کیا؟


تنزیلا: تم موسموں کی طرح بدلو گے نہیں۔۔۔ اور اگر کبھی چلے گۓ تو لوٹ آؤ گے۔


شاداب: وعدہ رہا۔۔۔


بارہواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


شاداب اپنے کمرے سے نکلتا ہے اس کے کندھے پر اور ہاتھ میں بیگ ہے۔ باہر حال میں آنٹی، کھجلی اور چھٹکی سے ملتا ہے۔


شاداب: اچھا آنٹی میں چلتا ہوں۔ 


(اس کے سر پر پیار دیتی ہے اور اسے دعا دیتی ہے)


شاداب: ٹھیک ہے کھجلی پھر تم آؤ گے  مجھ سے ملنے؟


کھجلی: جی شاداب بھائی ضرور آؤں گا۔ بس سکول سے چھٹیاں ہوں لیں۔


چھٹکی: شاداب بھائی ہمیں بھول نہ جانا آپ بھی ہم سے ملنے آتے رہنا۔


شاداب: بھول کیسے سکتا ہوں مجھے تو یہ گھر بالکل اپنا گھر لگنے لگا ہے۔  اب تو وہاں جاکر میرا دل نہیں لگے  گا۔ میں تو آتا رہوں گا لیکن تم لوگ بھی ضرور آنا۔۔۔ اچھا میں چلتا ہوں پہلے ہی بہت دیر ہو گئ ہے۔ خدا خافظ۔


(باہر نکل جاتا ہے۔ باہر تنزیلا درخت کے پاس کھڑی ہے۔ شاداب چل کر اس کے پاس آتا ہے۔ گلا کھنگارتا ہے۔ تنزیلا مڑ کر پیچھے دیکھتی ہے)


شاداب: تو شہزادی صاحبہ آپ ہمارے ساتھ بادلوں میں اڑ کر ہمارے دیس جانا چاہیں گی؟


تنزیلا: فی الحال تو آپ اکیلے جائیں شہزادہ محترم۔۔۔ہم پھر کبھی چلیں گے آپ کے ساتھ۔۔۔جب آپ پورے پروٹوکول کے ساتھ ہمیں لینے آئیں گے۔


شاداب: ٹھیک ہے شہزادی صاحبہ! پر آپ اس وقت تک ہمارا انتظار کریں گی؟


تنزیلا: ہم آپ کا انتظار آخری سانس تک کریں گے۔


شاداب: واہ یہ تو کمال ہو گیا (ہلکا سا ہنستا ہے)۔۔۔ اچھا مذاق چھوڑو تم نے رات کو مجھ سے ایک وعدہ لیا تھا تو اب تم ایک وعدہ کرو؟


تنزیلا: کیسا وعدہ؟


شاداب: گھبراؤ نہیں میرا وعدہ بڑا آسان ہے۔ تمہیں بس ایک چھوٹا سا کام کرنا ہے.


تنزیلا: کیسا کام؟


شاداب: خط لکھنے کا کام۔


(تنزیلا خیرت سے دیکھتی ہے)


شاداب: وعدہ کرو تم ہر موسم کی پہلی بارش کو مجھے ایک خط لکھو گی۔


تنزیلا: (خیرت سے) یہ کیا بات ہوئی۔ میں تمہیں فون کروں گی خط کیوں لکھوں گی؟


شاداب: فون پر تو ہم اکثر بات کر لیا کریں گے پر یہ خاص اہتمام تم موسم کی پہلی بارش پر کرنا۔


تنزیلا:  ٹھیک ہے وعدہ رہا۔


شاداب: تو پھر صحیح ہے میں چلتا ہوں بعد میں بات ہو گی۔ خدا خافیظ۔


(چل کر دروازے تک جاتا ہے تنزیلا بھی اس کے پیچھے جاتی ہے۔)


تنزیلا: (دھیرے سے) خدا خافیظ۔


(شاداب باہر نکل جاتا ہے۔ تنزیلا دروازے پر کھڑے ہو کر اسے جاتا ہوا دیکھتی ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر  سرسبز بیل دکھائی دیتی ہے)


تیرھواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


تنزیلا حال میں ایک طرف کپڑے استری کر رہی ہے اور اس کی امی سبزی کاٹ رہی ہیں۔ جبکہ کھجلی ٹی وی کے بالکل پاس زمین پر بیٹھا بڑے انہماک سے ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہا ہے۔ کارٹون پر کسی مزاحیہ منظر کو دیکھ کر بلند آواز سے ہنستا ہے۔ امی اسے ٹوکتی ہیں۔


امی: احسن بیٹا تمہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے ٹی وی کے قریب ہو کر مت بیٹھا کرو نظر پہ برا اثر پڑتا ہے۔ ادھر پیچھے صوفے پر آکر بیٹھو۔ 


(کھجلی بات پر دھیان بالکل بھی نہیں دیتا۔ امی سبزی کاٹنے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ باہر گھنٹی بجتی ہے)


امی: جاؤ احسن دیکھو باہر کون ہے۔


(وہ ابھی بھی بات پر دھیان نہیں دیتا جیسے اس نے بات سنی ہی نہیں۔ گھنٹی دو تین بار بجتی ہے)


امی: (قدرے بلند آواز سے) احسن دیکھو کون ہے باہر۔


(وہ اب بھی ٹی وی دیکھنے میں مگن رہتا ہے)


تنزیلا: (ڈانٹ کر) کھجلی تمہیں سنائی نہیں دے رہا امی کیا کہہ رہی ہیں۔ جاؤ باہر جا کر دیکھو کون آیا ہے۔۔۔ چھٹکی آئی ہو گی۔ بے چاری کب سے باہر کھڑی ہو گی۔


(کھجلی برا سا منہ بنا کر اٹھتا ہے)


کھجلی: مجھے ہی سارے کام کہتے رہتے ہیں خود کچھ بھی نہیں کرتے۔ اچھا تھا مجھے سکول سے چھٹی نہ ہوتی۔


(تنزیلا اس کی بات سن کر مسکراتی ہے۔ کھجلی باہر نکل جاتا ہے۔)


امی: تنزیلا کپڑے استری کرکے ذرا ابو کو فون تو ملانا کل بھی ان سے بات نہیں ہوئی۔


تنزیلا: اچھا امی۔


(کھجلی اندر آتا ہے اس کے ہاتھ میں ڈاک کا کوئی لفافہ ہے)


کھجلی: آپی یہ کوئی خط آیا ہے۔


(تنزیلا لفافہ پکڑ کر دیکھتی ہے)


تنزیلا: (خیرت سے) خط۔۔۔


امی: کس کا خط ہے؟


تنزیلا: (لفافہ پڑھ کر)  میری یونیورسٹی سے کوئی لیٹر ہے امی۔


(لفافہ پھاڑ کر خط کھول کر پڑھتی ہے)


امی: (سبزی کاٹتے ہوۓ) کیا لکھا ہے؟


تنزیلا: (تقریباً اچھلتے ہوۓ) میرے لاسٹ سمیسٹر کا ریزلٹ ہے۔۔۔ میں پاس ہو گئ۔


(امی سے لپٹ جاتی ہے) 


تنزیلا: بڑی ٹینشن لگی ہوئی تھی شکر ہے آج ہی آگیا۔۔۔میں ابھی جا کر ابو کو بتاتی ہوں۔


(بھاگ کر کمرے سے نکل جاتی ہے)


امی: (پیچھے سے آواز دے کر) میری بات بھی کروانا ابو سے۔۔۔


چودھواں منظر


وہی وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


تنزیلا موبائل کان ساتھ لگاۓ کمرے سے باہر نکل رہی ہے۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہی ہے۔


تنزیلا: (فون پر) جی ابو جی۔۔۔ جی ہاں بھیج دوں گی۔۔۔ہاں جی آخری سمیسٹر تھا۔۔۔ (چل کر اسی حال میں واپس آجاتی ہے جہاں پہلے تھی) ٹھیک ہے۔۔۔یہ لیں امی سے بات کر لیں۔ 


(امی کو موبائل پکڑا دیتی ہے)


امی: (فون پر) مبارک ہو آپ کو۔۔۔


(تنزیلا بھاگ کر دوبارہ کمرے سے نکل جاتی ہے)


پندرھواں منظر


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


تنزیلا کا کمرا۔ تنزیلا وڈیو کال پر شاداب سے باتیں کر رہی ہے۔


شاداب: تمہارا ریزلٹ صبح کا آگیا ہوا ہے اور تم مجھے ابھی بتا رہی ہو؟


تنزیلا: تمہیں بتانے والی تھی لیکن وقت نہیں ملا۔ جن دوستوں کا ریزلٹ آیا تھا پہلے ان کے ساتھ بات کرتی رہی پھر گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئ۔ ابھی فارغ ہوئی ہوں تو تم سے رابطہ کیا ہے۔


شاداب: ہاں جی اب تو میں صرف فراغت پر ہی یاد آتا ہوں ویسے تو تمہیں میرا خیال نہیں آتا۔


تنزیلا: (شرارت سے) تو تم کون سا اتنے اہم ہو جو مجھے مصروفیت میں بھی یاد آؤ گے۔ شکر کرو فراغت میں بھی یاد آگۓ۔


شاداب: اور اگر زندگی میں تمہیں کبھی فراغت نہ ملی تو۔۔۔؟


تنزیلا: تو بس پھر صبر شکر کر کے گزارا کر لینا۔


شاداب: یہ اچھا ہے پہلے خود ہی کسی کے منہ سے نوالا چھین لینا اور پھر اسے صبر کی تلقین کرنا۔



تنزیلا: اف خدایا۔۔۔ ڈائیلاگ بازی کوئی تم سے سیکھے۔


شاداب: میں نے تو سچ بات کی ہے اور تاریخ گواہ ہے لوگوں کو سچی باتیں ہمیشہ کڑوی لگی ہیں۔


تنزیلا: قربان جاؤں آپ کی سچی باتوں پر۔


شاداب: تم قربان بے شک نہ جاؤ فی الحال اپنے ذاتی جیب خرچ سے چند پیسوں کی قربانی دے دو۔


تنزیلا: اے ہے۔۔۔وہ کیوں؟


شاداب: تم نے مجھے ٹریٹ جو دینی ہے۔


تنزیلا: کس بات کی ٹریٹ؟


شاداب: یہ جو تم نے اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔۔۔ پاس ہونے کا۔۔۔ اس کی ٹریٹ۔


تنزیلا: اچھا وہ۔۔۔تو جناب ٹریٹ کے لیۓ تو آپ کو اپنا ناپاک جسم بمع اپنی ناپاک روح کے یہاں لانا پڑے گا کیونکہ فون پر تو میں کچھ کھلانے سے رہی۔


شاداب: کھلاؤ بے شک کچھ نہ مگر میری معصوم روح پر ایسا گھناؤنا الزام تو نہ لگاؤ۔ 


تنزیلا: معصوم اور آپ۔۔۔اتنا بڑا جھوٹ۔۔۔


شاداب: یہ بالکل سچ ہے میں بے گناہ ہوں۔


تنزیلا: تو ٹھیک ہے آپ یہاں آکر اپنی بے گناہی ثابت کر دیں۔


شاداب: ہم آئیں گے۔۔۔ ضرور آئیں گے اور آپ کا لگایا ہوا ایک ایک الزام جھوٹا ثابت کریں گے۔


تنزیلا: اچھا! کب آئیں گے آپ؟


شاداب: جلد آئیں گے۔۔۔ ثبوتوں کے ساتھ حاضر ہوں گے۔


تنزیلا: (سنجیدگی سے) سچ میں شاداب! اگر تم آجاؤ تو بڑا مزا آۓ۔ پھر ہم سب مل کر اچھی سی پارٹی کریں گے۔


شاداب: ٹھیک ہے جب آؤں گا تو کریں گے پارٹی۔


تنزیلا: جب سے کیا مراد ابھی آؤ۔


شاداب: نہیں ابھی ابھی تو گھر آیا ہوں کچھ دن بعد چکر لگاؤں گا۔


تنزیلا: (ناراضی سے) تو پھر ٹھیک ہے مجھ سے اسی دن بات کرنا جب آؤ گے۔


شاداب: اب یہ کیا بات ہوئی؟


تنزیلا: تو اور کیا۔۔۔اتنی سی بات تم میری مان نہیں سکتے۔۔۔


شاداب: اس لیۓ کہ ابھی آنا مناسب نہیں چند دن بعد چکر لگاؤں گا۔


تنزیلا:  ٹھیک ہے پھرا میں جا رہی ہوں مجھ سے بات مت کرنا۔


شاداب: سنو تنزیلا۔۔۔سنو۔۔۔تنز۔۔۔لا


(فون بند کر دیتی ہے اور کچھ سوچ کر شرارت سے مسکراتی ہے)


سولہواں منظر


دن کا وقت۔ سڑک۔


سڑک کے کنارے ریڑھی والا سبزی بیچ رہا ہے۔ تنزیلا کی امی اس کے پاس کھڑی سبزی خرید رہی ہے۔ ریڑھی والا ایک دو سبزی تول کر شاپر میں ڈال کر رکھتا ہے۔


ریڑھی والا: جی باجی کلو بھیگن ہو گۓ، آدھا کلو ٹماٹر بھی ہو گۓ اور کچھ۔۔۔


امی: اور ایسا کرو دو کلو آلو بھی تول دو۔


ریڑھی والا: آلو پرانے چاہیں یا نۓ؟


امی: نۓ تول دو۔


ریڑھی والا: جی اچھا۔۔۔


(تول کر شاپر میں ڈالتا ہے اور پکڑا دیتا ہے)


ریڑھی والا: یہ لیں باجی آپ کے آلو بھی ہو گۓ۔ اور کوئی چیز؟۔۔۔


امی: نہیں کافی ہے۔ کتنے پیسے ہوۓ ان کے؟


ریڑھی والا: (سوچتے ہوۓ) آلو دوکلو اور۔۔۔بھیگن۔۔۔ٹماٹر۔۔۔جی باجی جی آپ کے ہو گۓ تین سو روپے۔


(امی ہاتھ میں پکڑے پرس میں سے پانچ سو روپے نکال کر دیتی ہے۔ ریڑھی والا جیب سے پیسے نکال کر پانچ سو ان میں رکھتا ہے اور دو سو نکال کر بقایا امی کو پکڑا دیتا ہے۔ امی پیسے لیتی ہے اور چل پڑتی ہے مگر ابھی دو قدم بھی نہیں اٹھاتی کہ ایک عورت اس کے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔)


عورت: کیا حال ہے باجی؟


امی: ٹھیک ٹھاک رشیدہ تم سناؤ؟


عورت: میں بھی ٹھیک ہوں باجی تنزیلا کے نتیجے کی مبارک ہو۔


امی: خیر مبارک۔


عورت: اور کیسی طبیعت ہے۔ کل آپاں آپ کے گھر سے ہو کر گئ تھیں بتا رہیں تھیں آپ کی طبعیت خراب ہے۔


امی: نہیں زیادہ کچھ نہیں بس گھٹنے میں تھوڑا سا درد ہے۔ بڑی مشکل سے چل کر یہاں تک آئی ہوں۔ تنزیلا کہہ بھی رہی تھی امی آپ رہنے دیں میں لے آتی ہوں لیکن میں نے کہا تم اتنی دوپہر کو اکیلی کہاں جاؤ گی میں خود ہی لے آتی ہوں۔



عورت: اچھا کیا آپ نے۔۔۔اور بھائی صاحب کب آرہے ہیں اس دفعہ تو انہوں نے کچھ زیادہ دن لگا دیۓ۔ پہلے تو تقریباً ہر دو سال بعد آجاتے تھے اب تو یہ چوتھا سال ہونے کو آیا ہے۔


امی: ہاں رشیدہ بس کیا بتاؤں۔ کوئی کاغذات کا مسئلہ بنا ہوا ہے پتہ نہیں کیا بتا رہے تھے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آئی۔ کہہ رہے تھے ایک دو مہینے تک مسئلہ حل ہو جاۓ گا پھر آجائیں گے۔


عورت: چلیں جیسے اللّٰه‎ کو منظور۔


امی: ہاں ٹھیک کہا۔۔۔اچھا میں اب چلتی ہوں کافی دیر ہو گئ ہے تنزیلا انتظار کر رہی ہو گی۔ احسن اور جمیلہ بھی آنے والے ہوں گے۔


عورت: ٹھیک ہے باجی۔ میں بھی چلتی ہوں۔


امی: (آگے بڑھتے ہوۓ) اور سکندر کا فون آتا رہتا ہے۔ دل لگ گیا ہے اس کا؟


عورت: ہاں کام مل گیا ہے اسے وہ بہت خوش ہے وہاں جا کر۔


امی: چلو پھر تو ٹھیک ہے اللہ اسے کامیاب کرے۔


(امی آگے بڑھ جاتی ہے)


سترھواں منظر


تنزیلا حال میں بیٹھی کوئی کتاب پڑھی رہی ہے تبھی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ تنزیلا اٹھ کر فون کا رسیور اٹھاتی ہے۔


تنزیلا: (فون پر) ہیلو۔۔۔جی ہاں! یہ مشتاق صاحب کا ہی گھر ہے۔۔۔جی میں ان کی بیٹی بول رہی ہوں۔ 


(اسی وقت امی ہاتھ میں سبزی پکڑے دروازے میں داخل ہوتی ہیں۔)


تنزیلا: (فون پر) ہاں جی تقریباً پندرہ سال پو گۓ ہیں۔۔۔جی۔۔۔جی۔۔۔(چونک کر) کیا؟۔۔۔کیا کہا آپ نے۔۔۔؟


(اس کے ہاتھ سے رسیور گر جاتا ہے)


اٹھارواں منظر


صبح کا وقت۔ شاداب کا گھر


ایک خوبصورت سا بیڈ روم ہے جس میں شاداب کمبل اوپر سر تک لپیٹے سو رہا ہے۔ اس کی شکل دکھائی نہیں دے رہی لیکن اندازہ ہو رہا ہے کہ کمبل کے اندر کوئی سو رہا ہے۔ ایک طرف دیوار پر گھڑی لگی ہے جس پر آٹھ بجے ہیں۔ کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور تنزیلا اندر داخل ہوتی ہے۔


تنزیلا: (آتے ہی) شاداب آپ ابھی تک اٹھے نہیں۔ اوپر سے وقت دیکھیں کیا ہو گیا ہے۔ (میز پر بے ترتیب چیزوں کو درست کرنے لگتی ہے) اٹھ جائیں نہیں تو دفتر سے دیر ہو جاۓ گی۔ چیزیں دیکھیں کیسی بکھری ہوئیں ہیں ایک تو دفتر کا کام گھر پر لے آتے ہیں اور سارا گند پھیلا دیتے ہیں۔ بندے کو کام ختم کرکے چیزیں تو سمیٹ لینی چاہئیں۔۔۔اب اٹھ بھی جائیں ورنہ آج پھر ناشتہ کیۓ بغیر چلے جائیں گے۔ (پیچھے مڑ کر اسے دیکھتی ہے وہ ابھی تک منہ سر لپیٹ کر پڑا ہے) ایسے نہیں اٹھیں گے آپ۔ (آگے بڑھ کر کمبل اوپر سے کھینچ لیتی ہے)


شاداب: کیا ہے یار سونے دو۔ ابھی اٹھ جاتا ہوں۔


تنزیلا: ذرا آنکھیں کھول کر گھڑی پر تو نظر ڈالیں آپ کو پتہ چلے کیا وقت ہو گیا ہے۔


شاداب: اچھا بولا تو ہے اٹھ جاتا ہوں تھوڑی دیر سونے دو۔ (کمبل دوبارہ اوپر لینے لگتا ہے۔ تنزیلا آگے بڑھ کر کمبل چھین لیتی ہے)


تنزیلا: پھر سے کمبل اوپر لے رہے ہیں میں کہہ رہی ہوں اٹھ جائیں دیر ہو جاۓ گی۔ 


(اکتا کر اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)


شاداب: (بیزاری سے) کیا مصیبت ہے کیوں شور کیۓ جا رہی ہو۔


تنزیلا: وقت دیکھیں آپ کو خود ہی معلوم ہو جاۓ گا میں کیوں شور کر رہی ہوں۔


شاداب: گھڑی دیکھنے کی ضرورت نہیں تم جو ہو میرا الارم کلاک جو صبح صبح ٹھیک وقت پر بجنے شروع ہو جاتا ہے۔


تنزیلا: ہاں جی اگر میں نہ ہوں تو آپ تو سارا دن یہیں پڑے رہیں۔


شاداب: (آہ بھر کر) ہاۓ وہ دن پتہ نہیں کب آۓ گا۔


تنزیلا: کیا کہا؟


شاداب: کچھ نہیں۔ ویسے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے۔


تنزیلا: کیا؟


شاداب: شادی کے بعد تم مجھ پر کچھ زیادہ ہی حکم نہیں چلانے لگ گئ؟


تنزیلا: بیویاں اور ہوتی کس لیۓ ہیں۔۔۔ پر آپ تو جیسے میرے سارے حکم مان لیتے ہیں۔


شاداب: تو اور خاوند کس لیۓ ہوتے ہیں۔


تنزیلا: کس لیۓ؟


شاداب: حکم عدولی کے لیۓ۔


تنزیلا: (ہنس کر) باتیں بنانے میں تو آپ ماہر ہیں۔۔۔اب اٹھ کر تیار ہو جائیں ناشتہ ٹھنڈا ہو جاۓ گا۔


(جانے لگتی ہے)


شاداب: جا کہاں رہی ہو بات تو سنو۔۔۔


تنزیلا: آپ کی باتیں تو ختم نہیں ہونیں لیکن مجھے اور بھی کام ہیں۔ 


شاداب: تو ٹھیک ہے تم جاؤ میں پھر سے سو جاؤں گا۔


تنزیلا: اگر اب آپ سوۓ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔


شاداب: وہ تو ویسے بھی تم سے برا کوئی نہیں۔ 


تنزیلا: اب آپ سوئیں ٹھنڈے پانی کی بالٹی میں نے اوپر نہ گرائی تو کہنا۔


شاداب: توبہ۔۔۔یہ کوئی طریقہ ہے اٹھانے کا۔۔۔بندہ پیار سے بھی اٹھا سکتا ہے۔


تنزیلا: پیار سے اٹھنے والے آپ نہیں۔


شاداب: چلو ٹھیک ہے تم جاؤ میں بس پانچ منٹ تک اٹھتا ہوں۔


(کمبل اوپر لے کر دوبارہ لیٹ جاتا ہے)


تنزیلا: (آگے بڑھ کر) شاداب خدا کے لیۓ اب نہ سونا۔ اگر ابھی آپ سو گۓ تو پھر اتنی جلدی نہیں اٹھتے۔۔۔ کل کی طرح پھر سے آفس سے دیر ہو جاۓ گی۔


(کمبل کھینچنے لگتی ہے)


تنزیلا: اٹھ جائیں جلدی سے۔


( شاداب اپنا منہ کمبل میں لپیٹ کر کمبل کو دونوں ہاتھوں سے زور سے کھینچتا ہے۔ کمبل پھٹنے کی آواز آتی ہے)


انیسواں منظر


وہی وقت۔ شاداب کا کمرا۔


شاداب اپنے کمرے میں منہ سر لپیٹ کر سویا ہے۔ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہوش میں آنے پر اسے دروازے پر زور زور سے دستک کی آواز سنائی دیتی ہے۔اس کے بعد باہر سے کسی لڑکی کی آواز آتی ہے۔


لڑکی: (باہر سے دروازہ بجاتے ہوۓ) شاداب بھائی اٹھیں۔جلدی اٹھیں جلدی دروازہ کھولیں۔


شاداب: (اپنے آپ سے) اتنا مزیدار خواب دیکھ رہا تھا اسے بھی ابھی آنا تھا۔ (بلند آواز سے) کیا مسئلہ ہے کیوں چلا آرہی ہو۔ آرہا ہوں۔


(اٹھ کر دروازہ کھولتا ہے۔ باہر سے ایک  لڑکی اندر آتی ہے۔)


لڑکی: شاداب بھائی اتنی دیر لگاتے ہیں دروازہ کھولنے میں۔۔۔ دوپہر کو اتنی گہری نیند کون سوتا ہے۔


شاداب: تم بتاؤ کیا آفت آگئ ہے اتنی زور سے کیوں دروازہ پیٹ رہی تھی؟


لڑکی: وہ بڑی افسوسناک خبر ہے شاداب بھائی!۔۔۔تنزیلا لوگوں کے گھر سے فون تھا ان کے ابو کی ڈیتھ ہو گئ ہے۔


شاداب: (چونک کر) کیا۔۔۔کیا بکواس کر رہی ہو؟


لڑکی: ہاں شاداب بھائی! ان کو بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کسی نے کویت سے فون کرکے اطلاع دی تھی۔۔۔آپ باہر آئیں امی آپ کو بلا رہیں ہیں۔


شاداب: اچھا میں آتا ہوں تم جاؤ۔


(لڑکی چلی جاتی ہے۔ شاداب منہ لٹکاۓ افسردہ چہرا لیۓ بستر پر آکر بیٹھ جاتا ہے)



بیسواں منظر


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


تنزیلا اور شاداب دونوں کمرے کے دروازے میں کھڑے ہیں۔ تنزیلا دروازے سے کندھا ٹکاۓ کھڑی ہے اور دوسری طرف شاداب کھڑا ہے۔ وہ شاداب کی طرف دیکھنے کی بجاۓ باہر دیکھ رہی ہے۔


تنزیلا: میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ابو یوں اتنی جلدی اچانک چلے جائیں گے۔ مجھے ذرا سا بھی خیال آتا ہے کہ ابو نہیں ہیں تو میں گبھرا جاتی ہوں۔ رات کو سوۓ ہوۓ بار بار آنکھ کھل جاتی ہے اور اٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ اندھیرے میں مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہی ابو کے بنا ہم کیسے پوری زندگی گزاریں گے۔


شاداب: تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیۓ تنزیلا! زندگی میں بعض اوقات ہمارے ساتھ ایسے حادثے پیش آجاتے ہیں جن سے ہمیں بہت تکلیف پہنچتی ہے لیکن  ہمیں ہر حال میں اپنا حوصلہ برقرار رکھنا چاہیۓ۔ تمہیں تو ہمت سے کام لینے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے، اگر تم ہمت ہار گئ تو آنٹی اور بچوں کو کون سنبھالے گا۔


تنزیلا: (چند لمحے خاموش رہنے کے بعد) میں سوچتی تھی میں بہت حوصلہ مند لڑکی ہوں، بہت ہمت والی ہوں۔ دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں جو ذرا ذرا سی بات پر رونے لگ جاتی ہیں، لیکن سچ بتاؤں تو اب مجھے لگنے لگا ہے میں دنیا کی کمزور ترین اور پست حوصلہ لڑکی ہوں۔ اگر مجھے کوئی ہلکی سی چیخ مار کر بھی ڈراۓ گا تو وہیں پر جان دے دوں  گی۔


(چھٹکی داخل ہوتی ہے)


چھٹکی: آپی امی آپ کو بلا رہی ہیں۔


(تنزیلا پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے۔ بولتی نہیں بلکہ سر کی ہلکی سی جنبش سے جواب دیتی ہے اور باہر کی طرف چل پڑتی ہے) 


اکیسواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


تنزیلا کسی کمرے میں گم سم بیٹھی ہے۔ شاداب آتا ہے۔


شاداب:  میں چلتا ہوں۔۔۔ چند دن اور رک جاتا لیکن پرسوں میرا جاب کے لیۓ انٹرویو ہے۔ تم پریشان نہ ہونا میں چکر لگاتا رہوں گا اور اگر کوئی ضرورت پڑی تو مجھے بلا لینا۔۔۔(چند لمحے خاموش ہوتا ہے) ٹھیک ہے، میں ایک دفعہ آنٹی سے مل آؤں پھر نکلتا ہوں۔ 


(تنزیلا صرف سر ہلا کر جواب دیتی ہے۔ شاداب چلا جاتا ہے۔) 


بائیسواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


تنزیلا کی امی اس عورت کے ساتھ حال میں بیٹھی ہیں جو انہیں سبزی لیتے وقت سڑک پر ملی تھی۔


امی: میں تو یہی سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہتی ہوں کہ اب بچوں کا کیا بنے گا۔


(تنزیلا اس دوران کمرے کے دروازے پر آتی ہے۔ دونوں عورتوں کا رخ دوسری طرف ہے اس لیۓ وہ تنزیلا کو دیکھ نہیں پاتیں۔ تنزیلا وہیں کھڑے ہو کر ان کی باتیں سنتی ہے۔)


امی: (جاری رکھتے ہوۓ) جمیلہ اور احسن کی تعلیم کا بندوبست کیسے ہوگا اور تنزیلا کی تو اب شادی کی عمر ہے۔ میں تو اس قابل بھی نہیں کہ کہیں کوئی ملازمت کر سکوں ، ماں باپ نے تعلیم دلائی نہیں اور گھر کے کام کاج کے سوا کچھ سکھایا نہیں۔ سمجھ نہیں آتی اس عمر میں میں اکیلے یہ سب کیسے کروں گی۔


عورت: آپ پریشان نہ ہوں باجی اللہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا۔ آپ بس اپنی صحت کی طرف دھیان دیں۔ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو پھر انہیں کون سنبھالے گا۔ آپ فکر مت کیا کریں سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا۔


(تنزیلا آتی ہے۔)


تنزیلا: امی یہ لیں دوائی کھا لیں۔ 


(پانی کا گلاس اور دوا اسے پکڑاتی ہے)


تنزیلا: (عورت سے) آنٹی آپ کے لیۓ کھانا لاؤں؟


عورت: (اٹھتے ہوۓ) نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ چاۓ تم نے پلا دی ہے یہ ہی کافی ہے۔ میں اب چلتی ہوں بہت دیر ہو گئ ہے سائرہ کہہ رہی ہو گی امی جا کر بیٹھ ہی گئیں ہیں۔ (امی سے) اچھا باجی میں چلتی ہوں آپ زیادہ پریشان نہ ہوں اللہ بہتر کرے گا۔ (تنزیلا سے گلے مل کر) ٹھیک ہے تنزیلا بیٹا دھیان رکھنا امی کا میں پھر کسی دن چکر لگاؤں گی۔ 


تنزیلا: ضرور لگائیے گا اور سائرہ کو بھی لے کر آئیے گا کسی دن۔


(دونوں باتیں کرتی ہوئی باہر نکل جاتی ہیں)



تائیسواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


تنزیلا اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی ہے۔ اس کی امی کے کہے ہوۓ الفاظ دوبارہ اس کے کانوں میں گونجتے ہیں۔


(جمیلہ اور احسن کی تعلیم کا بندوبست کیسے ہو گا اور۔۔۔)


کچھ سوچ کر وہ موبائل اٹھاتی ہے اور اپنی سہیلی ہمہ کو کال ملاتی ہے۔ 


تنزیلا: ہیلو۔۔۔ کیا حال ہے؟


ہمہ: میں ٹھیک ہوں تنزیلا تم کیسی ہو؟


تنزیلا: ہمہ میرا ایک کام کرو گی؟


ہمہ: ہاں بولو کیا کام ہے؟


(دونوں کچھ دیر تک باتیں کرتی  رہتی ہیں)


چوبیسواں منظر


دن کا وقت۔


ایک دفتر ہے جس میں شاداب بیٹھا انٹرویو دے رہا ہے۔ انٹرویو لینے والا ٹائی سوٹ میں ملبوس پچاس ساٹھ سال کا ایک خوش شکل آدمی ہے۔ پہلے چند لمحے دونوں باتیں کرتے یا سوال وجواب کرتے دکھائی دیتے ہیں پھر انٹریو لینے والے کی آواز آتی ہے۔


آدمی: ٹھیک ہے شاداب صاحب آپ کل سے جوائن کر سکتے ہیں۔ اپنے آئی ڈی کارڈ کی کاپی باہر کاؤنٹر پر جمع کروا جانا اور صبح ٹھیک وقت پر آپ یہاں ہوں۔


شاداب: (کھڑے ہو کر) بہت شکریہ سر۔۔۔میں وقت پر پہنچ جاؤں گا۔ 


(ہاتھ ملا کر باہر نکل جاتا ہے)


پچیسواں منظر 


دن کا وقت. 


شاداب دفتر سے باہر نکل رہا ہے۔ بہت خوش دکھائ دے رہا ہے۔ سڑک پر پہنچ کر جیب سے موبائل نکالتا ہے اور تنزیلا کو کال ملاتا ہے۔ وہ فون نہیں اٹھاتی، پھر میسج بھیجتا ہے،           (I got a job)۔ موبائل جیب میں رکھتا ہے اور سڑک پر سے گزرتے ہوۓ ایک رکشے کو ہاتھ کے اشارے سے رکواتا ہے۔ رکشہ پاس آکر رکتا ہے، وہ رکشے میں بیٹھتا ہے اور چلا جاتا ہے۔


چھبیسواں منظر


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


تنزیلا صحن میں بے چینی سے ٹہل رہی ہے جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ موبائل کی گھنٹی بجتی ہے، ہاتھ میں پکڑا ہوا موبائل جلدی سے دیکھتی ہے۔ موبائل کی اسکرین پر اس کی دوست ہمہ کا نام ابھرتا ہے۔ فوراً کال رسیو کرتی ہے۔ 


تنزیلا: ہیلو۔۔۔


ہمہ: مبارک ہو تمہارا کام ہو گیا ہے۔ صبح بلایا ہے انہوں نے۔۔۔ نو بجے چلی جانا۔


تنزیلا: تھینک یو سو مچ ہمہ۔۔۔تمہارا بہت بہت شکریہ تم نے میرا یہ کام کر دیا مجھے اس وقت جاب کی اشد ضرورت تھی۔


ہمہ: شکریہ کی ضرورت نہیں جلدی سے جاؤ اور اپنی امی کو بتاؤ تا کہ ان کی پریشانی کچھ کم ہو۔


تنزیلا: ہاں میں ابھی جاتی ہوں۔۔۔بہت شکریہ تمہارا۔


ہمہ: جلدی جاؤ شکریے کی ضرورت نہیں۔


(فون بند کر دیتی ہے اور اندر چلی جاتی ہے)



ستائیسواں منظر


وہی وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


امی کمرے میں بستر پر لیٹی ہیں تنزیلا داخل ہوتی ہے۔ 


تنزیلا: امی جاگ رہی ہیں؟


امی: ہاں جاگ رہی ہوں، کیا بات ہے؟


تنزیلا: (پاس بیٹھ کر) امی!۔۔۔ کل میں نے اپنی دوست ہمہ کو اپنی جاب کے لیۓ کہا تھا تو اس نے اپنے ابو سے بات کی تھی۔ ابھی اس کا فون آیا تھا کہہ رہی تھی اس کے ابو نے اپنے ایک دوست  کے دفتر میں میری جاب کے لیۓ بات کی ہے انہوں نے مجھے صبح بلایا ہے۔


امی: یہ تو بڑی اچھی بات ہے بیٹا اب یہ گھر تم نے ہی چلانا ہے۔ تمہارا کوئی بڑا بھائی ہوتا تو اور بات تھی مگر اب یہ گھر اور تمہارے چھوٹے بہن بھائی تمہاری ذمہ داری ہیں۔ مجھے اگر کچھ آتا ہوتا تو میں خود کچھ کر لیتی۔۔۔ (آبدیدہ ہو کر) مگر میں کیا کروں میں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔


تنزیلا: امی آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ ہمہ کہہ رہی تھی وہ انٹرویو نہیں لیں گے بس تم کل چلی جانا اور وہ تمہیں جاب پر رکھ لیں گے۔ اس کے ابو نے ان سے بات کر لی ہے اس لیۓ کوئی بھی مسئلہ نہیں ہو گا۔


امی: ٹھیک ہے بیٹا اللہ تمہیں کامیاب کرے۔


اٹھائیسواں منظر


رات کا وقت۔ شاداب کا کمرا۔


شاداب اپنے کمرے میں سر پر تولیہ پھیرتے ہوۓ واش روم سے باہر نکلتا ہے۔ تولیہ ایک طرف پھینکتا ہے اور میز پر پڑے ہوۓ موبائل کو اٹھا کر دیکھتا ہے۔ سکرین پر ایک بھی کال اور میسج نہیں ہے۔ سکرین دیکھ کر موبائل نیچے رکھنے لگتا ہے لیکن دوبارہ اٹھا لیتا ہے۔ تنزیلا کا نمبر نکالتا ہے اور ڈائل کرتا ہے۔ ایک دو رنگ کرتا ہے مگر کال رسیو نہ ہونے پر خیران ہوتا ہے اور موبائل واپس اسی جگہ رکھ دیتا ہے۔ پھر کمرے سے نکل جاتا ہے۔


انیسواں منظر


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


کمرے میں چھٹکی سو رہی ہے۔ اس کے ساتھ بستر پر تنزیلا لیٹی چھت کو گھور رہی ہے۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں موبائل تھام رکھا ہے موبائل کی سکرین پر شاداب کا بھیجا ہوا میسج واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ (I got a job)۔


تنزیلا میسج ٹائپ کرتی ہے چند الفاظ لکھنے کے بعد مٹا دیتی ہے۔ کچھ سیکنڈ بعد دوبارہ ٹائپ کرتی ہے اور پھر چند الفاظ لکھ کر مٹا دیتی ہے۔ تیسری مرتبہ پھر سے ٹائپ کرتی ہے اور صرف (congrats) لکھ کر بھیج دیتی ہے۔ میسج بھیجنے کے بعد موبائل اپنے سرہانے رکھتی ہے اور کروٹ بدل کر آنکھیں بند کرلیتی ہے۔



بیسواں منظر 


رات کا وقت۔ شاداب کا کمرا۔


شاداب کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ میز کے پاس جا کر موبائل اٹھا کر دیکھتا ہے۔ سکرین پر تنزیلا کا (congrats) والا میسج دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اسے جوابی میسج بھیجتا ہے۔


شاداب: (میسج میں) تھینکس۔۔۔کہاں تھی اور تم فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی؟


میسج بھیج کر موبائل بیڈ پر پھینکتا ہے اور میز پر پڑی ہوئی ایک فائل اٹھا کر دیکھنے لگتا ہے۔ فائل کھول کر اندر ڈاکومنٹس کو چند سیکنڈ ادھر ادھر کرکے دیکھتا ہے پھر اسے دراز میں رکھ دیتا ہے۔ پھر کھڑکی کی جانب بڑھتا ہے پردہ پیچھے کرتا ہے اور کھڑکی کھول دیتا ہے۔ کھڑکی سے جھانک کر اک نظر باہر دیکھتا ہے اور پلٹ آتا ہے۔ بستر میں لیٹتا ہے اور دوبارہ موبائل اٹھا کر میسج چیک کرتا ہے، سکرین پر کوئی میسج نہیں ہوتا۔ کچھ سوچ کر تنزیلا کو کال ملاتا ہے۔ 



اکیسواں منظر


وہی وقت۔ تنزیلا کا گھر


تنزیلا اور چھٹکی کمرے میں لیٹی ہیں۔ کمرے میں اندھیرا ہے۔ چھٹکی سوئی ہے جبکہ تنزیلا کی آنکھیں کھلی ہیں۔ اس کے سرہانے موبائل پڑا ہے۔ موبائل کی سکرین روشن ہے جس پر 'شاداب کالنگ' لکھا آرہا ہے، موبائل سائلنٹ موڈ میں ہے۔ تنزیلا ایک طرف لیٹے ہوۓ مسلسل اسکرین کو دیکھے جا رہی ہے مگر کال رسیو نہیں کر رہی۔ 


بائیسواں منظر


وہی وقت۔ شاداب کا کمرا۔


شاداب نے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہے اور تنزیلا کو کال کر رہا ہے۔ دو تین کالز کے بعد جب کال موصول نہیں ہوتی تو موبائل سائڈ ٹیبل پر رکھ کر بتی بجھا کر لیٹ جاتا ہے۔


تئیسواں منظر


دن کا وقت۔ شاداب کا دفتر۔


شاداب ایک دروازے کے سامنے کھڑا ہے۔ دروازے پر دستک دیتا ہے۔ اندر سے 'کم ان' کی آواز آتی ہے شاداب دروازہ کھول کر اندر چلا جاتا ہے۔ اندر شاداب کا باس بیٹھا ہے۔ یہ باس وہی آدمی ہے جس نے شاداب سے انٹرویو لیا تھا۔ 


باس: آؤ آؤ شاداب۔۔۔کیا حال ہے؟


شاداب: بالکل ٹھیک ہوں سر۔۔۔آپ کیسے ہیں؟


باس: میں بھی ٹھیک ٹھاک ہوں۔۔۔اچھا آج تمہارا پہلا دن ہے تو ایسا کرو۔۔۔(سوچتے ہوۓ) کیا کرو۔۔۔ ایسا کرو تھوڑی دیر باہر بیٹھ کر ویٹ کرو میں ابھی تمہیں بتاتا ہوں۔ 


شاداب: جی ٹھیک ہے سر۔ 


(پلٹنے لگتا ہے، باس اسے پھر سے آواز دے کر روک لیتا ہے)


باس: اچھا ٹھہرو۔۔۔میں ایسا کرتا ہوں تمہیں فرنینڈس سے ملاتا ہوں۔ وہ تمہیں سب کچھ سمجھا دے گا۔ 


(رسیور اٹھا کر انٹر کام کا بٹن دباتا ہے۔)


باس: (فون پر) فرنینڈس کو ذرا بھیجنا۔


(رسیور رکھ دیتا ہے)


باس: (شاداب سے) فرنینڈس بڑا اچھا لڑکا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک وہ بھی یہی کام کرتا تھا جس کے لیۓ ابھی تمہیں اپوائینٹ کیا گیا ہے۔ اس کو اس کام کا کافی تجربہ ہے کچھ بھی مشکل ہو تو اس سے پوچھ لینا۔۔۔ اور پھر میں تو یہاں ہوں ہی کچھ زیادہ مشکل پیش آجاۓ تو میرے دفتر میں چلے آنا۔


شاداب: جی سر۔۔۔بہت شکریہ۔


(دروازے پر دستک ہوتی ہے)


باس: کم ان۔


(ایک گھنگریالے بالوں والا لڑکا اندر داخل ہوتا ہے)


باس: آؤ فرنینڈس اس سے ملو یہ شاداب ہے۔ (فرنینڈس شاداب سے ہاتھ ملاتا ہے) آج اس کا پہلا دن ہے۔ تم اسے اس کا ٹیبل دکھا دو اور اسے سمجھا دو اسے کیا کر کرنا ہے۔ 


فرنینڈس: جی سر سمجھا دوں گا۔


باس: اس کو سارا کام سمجھا دینا اور جہاں کہیں اسے مشکل پیش آۓ اس کی مدد کر دینا۔ 


فرنینڈس: سر آپ فکر نہ کریں اسے کوئی مشکل پیش نہیں آۓ گی۔


باس: ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ۔


فرنینڈس: جی سر۔۔۔(شاداب سے) چلو یار تمہیں میں تمہاری جگہ دکھا دوں۔


(دونوں باہر آجاتے ہیں۔ باہر دفتر کا ماحول ہے۔ لوگ اپنے اپنے ڈیسکوں پر بیٹھے کام کر رہیں ہیں۔ کچھ ادھر ادھر آجا رہے ہیں۔ دونوں باتیں کرتے کرتے چلنے لگتے ہیں۔)


فرنینڈس: تو برادر۔۔۔ ویلکم ٹو آور آفس... یہ ہمارا چھوٹا سا دفتر ہے۔ چھوٹا سا مطلب جو اس فلور پر ہے ورنہ تو دو نچلے فلور بھی اسی دفتر کے ہیں۔ یہاں تم بے فکر ہو کر کام کرو تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ لیکن صرف دو کام نہ کرنا۔۔۔بلکہ تین نہ کرنا۔۔۔ایک تو دیر سے مت آنا اور چھٹیاں زیادہ نہ کرنا کیونکہ فاروق صاحب کو اس سے بڑی چڑ ہے۔ اور تیسرا۔۔۔ سگریٹ اپنے لے کر پینا مجھ سے کبھی مت مانگنا۔۔۔ (قریب آکر سرگوشی کے انداز میں) اس سے صاحب کو نہیں مجھے چڑ ہے۔


(شاداب مسکرا اٹھتا ہے۔ دونوں ایک میز کے آگے رک جاتے ہیں)


فرنینڈس: یہ ہے تمہاری جگہ۔۔۔ (آگے جا کر اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوۓ) اور اس کے بالکل ساتھ یہ ہے میری جگہ۔۔۔


(ایک آدمی ایک طرف سے تیزی سے چلا آتا ہے۔ آدمی کا آدھا سر گنجا ہے اور منہ پر چھوٹی سی مونچھیں ہیں۔)


فرنینڈس: (آدمی سے) کدھر کی دوڑیں لگی ہیں شکیل صاحب۔۔۔ بھاگتے ہی چلے جا رہے ہیں۔


آدمی: (فرنینڈس کے پاس رک کر) کہیں کی بھی دوڑیں نہیں لگیں یار! آج پھر دفتر میں ہنگامہ ہو گیا ہے۔


فرنینڈس: کیوں کیا ہوا؟ کون لڑ پڑا؟


آدمی: لڑا کوئی نہیں۔ وہ اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کی مس شازیہ ہیں ناں؟


فرنینڈس: ہاں۔


آدمی: اس کی سیلری چوری ہو گئ ہے۔


فرنینڈس: اوہ! وہ کیسے؟


آدمی: پتہ نہیں کیسے۔۔۔ کیشیئر سے سیلری وصول کر کے اس نے اپنے بیگ میں رکھی تھی اور بیگ اپنے ٹیبل پر رکھ کر دو منٹ کے لیۓ نادیہ کے پاس گئ تھی۔ ان دو منٹوں میں ہی کسی نے اپنا کام دکھایا ہے۔


فرنینڈس: اس کو کسی پہ شک ہے؟


آدمی: شک اسے تو کسی پہ نہیں لیکن مجھے تھوڑا سا شک ہے۔


فرنینڈس: اچھا! کس پہ؟


آدمی: (قریب آکر رازداری سے) ایک سویپر پہ شک ہے۔ بعد میں بتاؤں گا کون ہے وہ۔۔۔(شاداب کی طرف دیکھ کر) یہ لڑکا کون ہے؟


فرنینڈس: یہ شاداب ہے نیا آیا ہے، آج ہی جوائن کیا ہے۔


آدمی: ٹھیک ہے تم لوگ کام کرو میں ذرا احتشام صاحب سے مل کر آتا ہوں۔۔۔آج دیکھنا لنچ بریک میں انکوائری بیٹھے گی۔


فرنینڈس: اختشام صاحب تو ابھی آۓ نہیں البتہ فاروق صاحب ہیں اپنے دفتر میں۔


آدمی: اچھا۔۔۔ اکیلے ہی ہیں کہ کوئی ساتھ ہے؟


فرنینڈس: نہیں اکیلے ہی ہیں۔


فرنینڈس: تو پھر ٹھیک ہے میں مل کر آتا ہوں۔


(چلا جاتا ہے)


فرنینڈس: (شاداب سے) آؤ یار بیٹھو، تم کیوں کھڑے ہو یہاں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک موبائل چوری ہو گیا تھا اور آج کوئی پوری کی پوری سیلری لے اڑا۔۔۔تم اپنی چیزوں کا دھیان رکھنا۔


(شاداب آکر بیٹھ جاتا ہے)


چوبیسواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا دفتر۔


ایک دفتر میں تنزیلا ایک ڈیسک پر بیٹھی سر جھکاۓ کمپیوٹر پر کام کر رہی ہے۔ ایک لڑکی ایک طرف سے آتی ہے۔


لڑکی: (تنزیلا کے پاس رک کر) بس کرو لڑکی پہلے ہی دن اتنا کام کرو گی۔۔۔لنچ بریک ہو گیا ہے چلو آؤ کھانا کھائیں، کام تو ہوتا رہے گا۔


تنزیلا: بس دو منٹ! یہ ایک پیچ مکمل کر لوں جو شروع کیا ہوا ہے۔


لڑکی: ٹھیک ہے میں نیچے کیفے ٹیریا میں تمہارا انتظار کرتی ہوں، تم جلدی سے کام ختم کرکے آجاؤ۔ آج تمہارا پہلا دن ہے تمہیں یہاں کی اسپیشل چاٹ کھلاتی ہوں۔ 


تنزیلا: تم چلو میں تمہارے پیچھے پیچھے آتی ہوں۔


لڑکی: (جاتے ہوۓ) اوکے۔۔۔جلدی آنا دیر نہ لگا دینا۔


(چلی جاتی ہے۔ تنزیلا کے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔ وہ موبائل اٹھا کر دیکھتی ہے، اسکرین پر 'شاداب کالنگ' لکھا آتا ہے۔ دیکھ کر فون دوبارہ واپس رکھ دیتی ہے)


پچیسواں منظر


دن کا وقت۔ شاداب کا دفتر۔


شاداب اپنے دفتر میں بالکنی میں کھڑا ہے، نیچے سڑک پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ اس نے فون کان کے ساتھ لگا رکھا ہے۔ چند سیکنڈ تک انتظار کرتا ہے کال موصول نہ ہونے پر فون کان سے ہٹا لیتا ہے اور نیچے سڑک پر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کو بلامقصد دیکھنے لگتا ہے۔ 


چھبیسواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


تنزیلا کی امی حال میں بیٹھی ہیں۔ چھٹکی کو آوازیں دیتی ہیں۔


امی: جمیلہ۔۔۔جمیلہ۔۔۔ادھر آؤ ذرا میری بات سنو۔


(اندر سے چھٹکی کی آواز آتی ہے)


چھٹکی: جی امی۔۔۔آئی۔۔۔ ابھی آئی۔


(اندر آتی ہے)


چھٹکی : جی امی کیا بات ہے؟


امی: ذرا تنزیلا کو فون تو لگاؤ آج اس کا دفتر میں پہلا دن ہے خیریت تو پوچھو اس کی۔۔۔پتہ نہیں کس حال میں ہو گی۔


چھٹکی: (واپس جاتے ہوۓ) اچھا میں کرتی ہوں۔ آپ کی بھی بات کرواتی ہوں۔


(چلی جاتی ہے۔ باہر دروازے کی گھنٹی بجتی ہے)


امی: باہر دیکھو کون ہے۔۔۔ احسن آیا ہو گا۔ 


چھٹکی: (اندر آکر) اچھا امی دیکھتی ہوں۔


(چھٹکی دوبارہ اندر حال میں آتی ہے اور ایک طرف سے گزر کر دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتی ہے)


ستائیسواں منظر


شام کا وقت۔ سڑک۔


شاداب بس اسٹاپ پر کھڑا بس کا انتظار کر رہا ہے۔ سٹاپ پر تھوڑی سی بھیڑ ہے۔ چند عورتیں اور مرد بنچوں پر بیٹھے ہیں، کچھ کھڑے ہیں۔ ایک طرف سے فرنینڈس چلا آتا ہے۔


فرنینڈس: (قریب آکر) کیا یار بڑے دغا باز ہو۔۔۔ چھٹی ہوئی اور بھاگ نکلے، مجھے بھی ساتھ لے چلتے۔


شاداب: مجھے کیا پتہ تھا تم بھی بس سے گھر جاتے ہو۔


فرنینڈس: تو تمہیں کیا لگا میں اپنی مرسیڈیز سے جاتا ہوں گا۔ اگر میں اتنا رئیس قسم کا آدمی ہوتا تو سوچو تمہارے ساتھ اس دفتر میں کام کر رہا ہوتا۔ 



شاداب: گاڑی کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں آنے جانے کے لیۓ۔۔۔


فرنینڈس: ہاں جی۔۔۔ ہم جیسوں کے لیۓ وہ طریقہ یہ ہے۔ (ہاتھ سے پیدل چلنے کا اشارہ کرتا ہے) بس کے علاوہ اپنی ٹانگیں ہیں جن پر سوار ہو کر ہم کہیں جا سکتے ہیں۔


شاداب: (ہنستے ہوۓ) یار میرا مطلب ہے آدمی کے پاس موٹر سائیکل بھی تو ہو سکتا ہے۔ میں نے یہی سوچا کہ تمہارے پاس موٹر سائیکل ہو گا۔


فرنینڈس: ہاں یہ تم نے ٹھیک کہا۔ موٹر سائیکل تو ایک تھا میرے پاس۔۔۔ کچھ عرصے پہلے تک میں اسی پر دفتر آیا جایا کرتا تھا لیکن پھر ایک دن میں نے اس سے یا اس نے مجھ سے جان چھڑا لی۔ اس نے چلنا بند کر دیا اور میں نے چلانا۔


(بس آکر رکتی ہے۔ دو تین لوگ بس سے اترتے ہیں۔ بہت سے لوگ بس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ جنہیں جگہ ملتی ہے وہ بیٹھ جاتے ہیں۔ شاداب اور فرنینڈس بھی باتیں کرتے کرتے بس میں سوار ہوتے ہیں۔ سیٹ نہ ملنے پر کھڑے رہتے ہیں۔ بس چل پڑتی ہے۔ بس میں سوار ہونے سے لے کر چلنے تک فرنینڈس لگاتار باتیں کرتا چلا جاتا ہے)


فرنینڈس: ( سوار ہوتے وقت) ویسے تمہیں بتاؤں میرے پاس اپنی ایک گاڑی تھی۔۔۔مطلب میرے پاس نہیں میرے والد کے پاس تھی، میں تب بہت چھوٹا تھا۔ کافی پرانے ماڈل کی کوئی کار تھی لیکن میرے والد نے اسے اچھی طرح رکھا ہوا تھا۔ پھر انہیں کسی وجہ سے پیسوں کی ضرورت آن پڑی تو بیچنی پڑگئ۔ میرے بڑے بہن بھائی بتاتے ہیں انہوں نے کار پر کافی سیریں کی ہیں پر جب میری باری آئی تو۔۔۔ یارا میرے بچپن میں فیملی میں بہت پنگے ہوۓ ہیں۔ ایک پنگا تو ایسی بات پر ہوا ہے جو آج تک کسی خاندان میں نہیں ہوا ہو گا۔ تمہیں سناؤں؟ ۔۔۔پر نہیں تم ہنسو گے۔ پہلے کہو کہ ہنسو گے نہیں پھر سناؤں گا۔


شاداب: اگر میں کہوں ہنسو گا تو پھر کیا نہیں سناؤ گے؟


فرنینڈس: نہیں سناؤں گا تو پھر بھی۔۔۔


شاداب: تو پھر ٹھیک ہے سناؤ۔


فرنینڈس: ہوا کیا کہ جب میں پیدا ہوا تو میری والدہ بتاتی ہیں کہ میرے والد میرا نام عارف مسیح رکھنا چاہتے تھے لیکن انہیں یعنی میری والدہ کو منظور نہیں تھا۔ انہوں نے کہا ہم اس کا کوئی اچھا سا نام رکھیں گے۔ دونوں کی اس بات کو لے کر خوب بحث ہوئی۔ پھر میری والدہ نے میرے ماموں کو کینیڈا فون کیا انہوں نے تجویز کیا کہ اس کا نام فرنینڈس رکھ دیں۔ بس پھر کیا تھا میری والدہ پکی ہو گئیں انہوں نے کہا  جو بھی ہو میں تو اس کا نام فرنینڈس ہی رکھوں گی۔ اس بات کو لے کر میرے والد اور والدہ میں جھگڑا ہو گیا اور نوبت یہاں تک آگئ کہ میری والدہ گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔ کچھ دنوں بعد آخر کار میرے والد کو ہار ماننا پڑی اور پھر وہ میری والدہ کو منا کر گھر واپس لے آۓ۔ میری دادی اماں بتاتی ہیں انہوں نے بھی ایک نام تجویز کیا تھا 'تارا مسیح'۔۔۔ میں شکر کرتا ہوں وہ گھر چھوڑ کر نہیں گئیں۔ 


(شاداب بات سن کر ہنستا ہے۔ کنڈکٹر ہاتھ میں پینسل اور رسید بک پکڑے آتا ہے)


کنڈکٹر: کہاں جانا ہے؟


اٹھائیسواں منظر


رات کا وقت۔ شاداب کا کمرا۔


شاداب اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑا نیچے گلی یا سڑک میں جھانک رہا ہے۔ رات کافی ہو چکی ہے لیکن اسٹریٹ لائٹس کی وجہ سے سڑک روشن ہے۔ سڑک پر مکمل طور پر خاموشی اور ویرانہ ہے۔ اس نے ہاتھ میں موبائل پکڑ رکھا ہے اور وقفے وقفے سے موبائل کی اسکرین پر نظر ڈالتا ہے۔ دور کہیں کتوں کے بھوکنے کی آواز آتی ہے۔ کافی دیر تک ہاتھ باندھے یونہی کھڑا رہتا ہے۔ 


انتیسواں منظر


رات کاوقت۔ تنزیلا کا گھر۔


رات گہری اور خاموش ہے۔ سب سے پہلے اوپر آسمان پر چمکتا چاند دکھائی دیتا ہے اس کے بعد تنزیلا جو اپنے کمرے کی بڑی سی کھڑکی کے ساتھ لگ کر کھڑی ہے اور چاند کو دیکھ رہی ہے۔ باہر صحن چاند کی چاندنی سے روشن ہے۔ کمرا نیم تاریک ہے۔ تنزیلا کے پیچھے بستر پر چھٹکی سوئی ہے جو چند لمحوں بعد اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور تنزیلا کو آواز دیتی ہے۔


چھٹکی: (خیرت سے) آپی۔۔۔


(تنزیلا آواز نہیں سنتی۔ چھٹکی دوبارہ آواز دیتی ہے)


چھٹکی: (قدرے بلند آواز سے) آپی۔۔۔


تنزیلا: (چونک کر پیچھے دیکھتی ہے) ہونہہ۔۔۔


چھٹکی: وہاں کیا کر رہی ہیں سوئی کیوں نہیں ابھی تک؟


تنزیلا: کچھ نہیں نیند نہیں آرہی تھی تو تھوڑی دیر کے لیۓ تازہ ہوا لے رہی تھی۔ (پاس آکر) تم سو جاؤ میں بھی سونے لگی ہوں۔ 


(آکر بستر پر لیٹ جاتی ہے)


تیئسواں منظر


دن کا وقت۔ شاداب کا دفتر۔


شاداب دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہے۔ فرنینڈس اپنی سیٹ سے غائب ہے۔ آدھے گنجے سر والا آدمی جس کا نام شکیل ہے آتا ہے۔ 


آدمی: (شاداب سے) فرنینڈس کہاں ہے؟


شاداب: وہ اختشام صاحب کے کیبن میں ہے۔ 


(آدمی سر ہلاتا ہے اور چلا جاتا ہے،  شاداب کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور موبائل سے وقت دیکھتا ہے۔ پھر موبائل رکھ کر تھکاوٹ سے آنکھوں پر  ہاتھ پھیرتا ہے۔)


اکتیسواں منظر


تھوڑی دیر بعد۔ شاداب کا دفتر۔


شاداب دفتر کی بالکنی میں کھڑا ریلنگ پر جھک کر کہنیاں ٹکاۓ کھڑا ہے۔ فرنینڈس آتا ہے۔


فرنینڈس: تم یہاں کھڑے ہو میری تو آج مت 'وج' گئ ہے۔ اختشام صاحب نے آج کھپا دیا ہے۔


شاداب: کیوں کیا ہوا؟


فرنینڈس: وہ یارا کچھ دن پہلے ایک لڑکا چھوڑ کر گیا ہے اس کا کچھ کام پینڈنگ پڑا ہوا تھا وہ کر رہے تھے۔ اس کے پرانے کام میں اتنی غلطیاں تھیں اسے ٹھیک کرنے میں سارا وقت لگ گیا۔(جیب سے سگریٹ نکال کر سلگاتا ہے) خیر چھوڑو۔۔۔ تم بتاؤ کل کیا کر رہے ہو؟


شاداب: کیا مطلب کیا کر رہا ہوں؟


فرنینڈس: میرا مطلب ہے کل چھٹی ہے تو کیا کرو گے سارا دن؟


شاداب: میں آج شام کو لاہور جا رہا ہوں۔ 


فرنینڈس: ہونہہ۔۔۔!چلو پھر تو ٹھیک ہے۔ میرا ارادہ تھا کل چھٹی ہے تو ہم کہیں باہر ملتے ہیں۔ پر چلو کوئی نہیں اگلے سنڈے کا پروگرام بناتے ہیں۔


(اشارے سے اسے سگریٹ آفر کرتا ہے)


فرنینڈس: پیو گے؟


(وہ نفی میں سر ہلاتا ہے)


بتیسواں منظر


شام کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


حال میں سب گھر والے موجود ہیں۔ چھٹکی اور کھجلی باتوں کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کر رہے ہیں۔


امی: (تنزیلا سے) مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تمہاری معمولی سی تنخواہ سے کیسے گزارہ گا۔ اس سے تو بمشکل گھر کا خرچہ چلے گا جبکہ بچوں کی فیسیں اور دیگر اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟


تنزیلا: امی ہو جاۓ گا کچھ نہ کچھ آپ گبھرائیں نہیں۔ 


چھٹکی: امی میں کالج سے آکر گھر پر ٹیوشنز پڑھا لیا کروں گی، اور کچھ نہیں تو کم سے کم اپنی کالج کی فیس ہی نکل آۓ گی۔


امی: جتنی تمہاری کالج کی فیس ہے صرف ٹیوشنز پڑھا کر تو پوری نہیں ہو گی بیٹا اور پھر تمہاری پڑھائی کا بھی تو حرج ہو گا۔ 


چھٹکی: پوری ہو جاۓ گی امی اور اگر میری نہ بھی ہوری ہوئی تو کم سے کم کھجلی کی فیس اور کتابوں وغیرہ کا بندوبست تو ہو جاۓ گا اور رہی میری پڑھائی کی بات تو اس کے لیۓ میں وقت نکال لوں گی۔


تنزیلا: چھٹکی ٹھیک کہہ رہی ہے امی آپ پریشان نہ ہوں وہ مینج کر لے گی۔


(دروازے کی گھنٹی بجتی ہے)


امی: (خیرت سے) اس وقت کون آیا ہو گا۔


چھٹکی: (اٹھتے ہوۓ) میں دیکھتی ہوں۔


(باہر چلی جاتی ہے)


کھجلی: (تنزیلا سے) آپی یہ سوال مجھ سے حل نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیسے کرنا ہے۔


تنزیلا: لا ادھر میں بتاتی ہوں۔


(اٹھ کر کاپی لے کر تنزیلا کے پاس جاتا ہے)


تنزیلا: (کاپی پکڑ کر) کون سا ہے؟


کھجلی: (اوپر انگلی رکھ کر) یہ والا۔


(باہر سے چھٹکی اور شاداب حال میں داخل ہوتے ہیں)


چھٹکی: کھجلی دیکھو تو کون آیا ہے۔


کھجلی: (بلند آواز سے نعرہ لگاتا ہے) شاداب بھائی۔ 


(بھاگ کر اس سے لپٹ جاتا ہے۔ تنزیلا اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے اور بغیر کچھ کہے اندر چلی جاتی ہے۔ شاداب خیرت سے اس کو جاتے ہوۓ دیکھتا ہے۔ پھر وہ جھک کر آنٹی سے ملتا ہے، لیکن دھیان اس کا تنزیلا کی طرف ہے)


آنٹی: آؤ شاداب بیٹا کیا حال ہے گھر میں سب کیسے ہیں۔ امی ٹھیک ہیں؟


 (ان کے پاس صوفے پر بیٹھ جاتا ہے)


شاداب: سب ٹھیک ٹھاک ہیں آنٹی آپ سنائیں آپ کی طبعیت اب کیسی ہے؟


آنٹی: میں ٹھیک ہوں بیٹا بس ذرا گھٹنے میں تکلیف رہتی ہے۔


شاداب: آپ کے گھٹنے کے لیۓ امی نے ایک تیل بھیجا ہے اس میں پتہ نہیں کیا ملایا ہوا ہے، انہوں نے بتایا تو تھا پر میں بھول گیا ہوں۔ کہہ رہیں تھیں آنٹی کو کہنا صبح شام اس سے گھٹنے کی مالش کیا کریں۔


آنٹی: ضرور بیٹا ضرور کروں گی۔ شاید اس سے کچھ بہتری آجاۓ۔ اس گھٹنے کے ہاتھوں اتنی تنگ ہوں اب تو ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ 


چھٹکی: اور شاداب بھائی سنائیں کیسے ہیں آپ، اتنی دیر سے کیوں آۓ ہیں؟


شاداب: دیر سے اس لیۓ آیا ہوں کیونکہ آج دفتر سے چھٹی نہیں تھی اس لیۓ شام کو چھٹی کے بعد وہاں سے نکلا ہوں۔ 


(ان سب باتوں کے دوران شاداب کی نظریں مسلسل اسی کمرے کا تعاقب کرتی رہتی ہیں جس طرف تنزیلا گئ ہے۔)


کھجلی: شاداب بھائی میں نے اپنے دوست سے ایک نئ ویڈیو گیم لائی ہے آپ میرے ساتھ کھیلیں گے؟


شاداب: ہاں کھیلوں گا پر اس وقت نہیں بعد میں۔


چھٹکی: اسے تو اور کوئی کام نہیں سکول سے آکر سارا دن ویڈیو گیم کھیلتا رہتا ہے۔


(شاداب مسکراتا ہے)


تینتیسواں منظر


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


تنزیلا اور شاداب کمرے میں موجود ہیں۔ دونوں کے درمیان باتیں ہوتی ہیں مگر تنزیلا پورے مکالمے کے دوران 

 مختلف کاموں میں مصروف نظر آتی  ہے۔ کبھی بستر کی چادر بدلتی ہے کبھی صوفے کی گدیوں کی ترتیب درست کرتی ہے اور کبھی کھڑکی کے پردے ٹھیک کرنے لگتی ہے۔ ایسے ظاہر کرتی ہے جیسے اسے بات کرنے میں دلچسپی نہیں۔


شاداب: تمہیں ہوا کیا ہے نہ تم میری کال اٹینڈ کر رہی ہو نہ کسی میسج کا جواب دے رہی ہو۔


تنزیلا: بس ایسے ہی آج کل مصروفیت  اتنی ہے وقت نہیں ملتا۔


شاداب: اتنی بھی کیا مصروفیت ہے کہ تم ایک میسج کا جواب بھی نہیں دے سکتی۔


تنزیلا: سارا دن جاب پر اور پھر گھر آکر گھر کے کاموں میں کسی اور بات کی طرف دھیان ہی نہیں رہتا۔


شاداب: جاب میں بھی کرتا ہوں تنزیلا۔


تنزیلا: جانتی ہوں۔


شاداب: اور تم نے مجھے اپنی جاب کا بتایا بھی نہیں۔ جب میں انٹرویو میں پاس ہوا تھا تو باہر نکلتے ہی سب سے پہلے تمہیں اس کے بارے میں اطلاع دی تھی اور تم نے مجھے آگاہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔


تنزیلا: مجھے تمہیں بتانا یاد نہیں رہا۔


(طنزیہ انداز میں ہنستا ہے)


شاداب: تم جانتی ہو تنزیلا میں آج یہاں صرف تمہارے لیۓ آیا ہوں۔ کل میں چلا جاؤں گا اس کے بعد اتنی جلدی دوبارہ نہیں آ پاؤں گا۔ (چند قدم چل کر پاس جاتا ہے) خدا کے لیۓ مجھے بتاؤ تم کیا چاہتی ہو؟


تنزیلا: میں کیا چاہتی ہوں۔۔۔کچھ بھی تو نہیں۔


شاداب: تو پھر تم مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی؟


تنزیلا: وہ میں نہیں کر سکتی۔


شاداب: لیکن کیوں؟


تنزیلا: اس کیوں کا جواب میرے پاس نہیں۔۔۔ تم اب جاؤ باہر سب گھر والے تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے۔


شاداب: میں کہیں نہیں جاؤں گا جب تک تم مجھے بتاؤ گی نہیں کیا بات ہے میں کہیں نہیں جاؤں گا۔


تنزیلا: کیا جاننا چاہتے ہو تم؟


شاداب: یہی کہ تم مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی؟


تنزیلا: کہا تو ہے وہ میں نہیں کر سکتی۔


شاداب: وہی تو پوچھ رہا ہوں کیوں نہیں کر سکتی؟


تنزیلا: بس نہیں کر سکتی۔ نئ نئ جاب ہے اس لیۓ مصروفیت زیادہ ہے۔


شاداب: اچھا تو صرف یہ بات ہے۔۔۔تو ٹھیک ہے تم کچھ دنوں بعد بات کر لینا۔۔۔بولو کتنا وقت چاہیۓ تمہیں۔۔۔ہفتہ، مہینہ یا دو مہینے۔۔۔؟


 (پہلی مرتبہ کام چھوڑ کر رک کر اس کی طرف توجہ دیتی ہے)


 تنزیلا: شاید برسوں۔۔۔ یا شاید پوری زندگی۔


شاداب: تو یوں کہو تم مجھ سے کوئی رابطہ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ 


تنزیلا: یہی سمجھ لو۔


شاداب: ہونہہ۔۔۔(آہ بھر کر) ایسا مجھے کبھی نہیں لگا تھا کہ کوئی دن ایسا بھی آۓ گا کہ تم خود میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہو گی۔ میں نے سوچا تھا آندھی آۓ یا طوفان تم ثابت قدم رہو گی۔ مگر تمہارے پاؤں تو ہوا کے ایک معمولی سے جھونکے سے ہی اکھڑ گۓ۔


تنزیلا: شاید ہماری تقدیر میں یہیں تک ساتھ چلنا لکھا تھا شاداب۔


(دوبارہ طنزیہ انداز میں ہنستا ہے)


تنزیلا: (جاری رکھتے ہوۓ) یہاں سے ہم دونوں کو الگ الگ راستوں کا انتخاب کرنا پڑے گا۔


شاداب: میں کسی اور راستے کا انتخاب نہیں کر سکتا تنزیلا۔


تنزیلا: (سمجھانے کے انداز میں) تم کر سکتے ہو شاداب! تم اس سے بہتر راستے کا انتخاب کر سکتے ہو۔۔۔ اور شاید ہم سفر کا بھی۔


شاداب: مشورے کا شکریہ۔۔۔ مجھے کسی اور کا انتخاب نہیں کرنا، نہ راستے کا اور نہ ہمسفر کا۔۔۔چلتا ہوں۔ خدا خافیظ۔


(باہر نکل جاتا ہے۔)


چونتیسواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


شاداب واپس جانے کی تیاری میں ہے۔ حال میں امی، کھجلی اور چھٹکی سے ملتا ہے۔


شاداب: اچھا آنٹی میں چلتا ہوں۔


امی: (سر پر ہاتھ پھیر کر) کچھ دن رک جاتے بیٹا ابھی کل تو آۓ ہو۔


شاداب: نہیں رک سکتا آنٹی کل دفتر جانا ہے چھٹی بالکل نہیں کر سکتا۔ پھر کسی دن آؤں گا۔


امی: ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی۔ امی کو کہنا کسی دن چکر لگا جائیں۔


شاداب: جی ضرور آنٹی۔ (کھجلی سے) چلو آؤ کھجلی باہر سے دروازہ بند کر لو۔


چھٹکی: چلیں شاداب بھائی میں کر لیتی ہوں۔


شاداب: نہیں تمہیں جانے کی ضرورت نہیں یہ جو ہے اس سے کام کروایا کرو یہ کس لیۓ ہے بس ٹی وی دیکھنے اور کھیلنے کے لیۓ۔۔۔ چل آجا کھجلی۔


 (ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے جاتا ہے۔ دونوں چل کر دروازے کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ شاداب دروازہ کھول کر باہر نکلنے سے پہلے اک نظر تنزیلا کے کمرے کی طرف دیکھتا ہے)



پینتسواں منظر


وہی وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


تنزیلا اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی اسے جاتا ہوا دیکھتی ہے۔ شاداب کھجلی سے سلام لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے پھر اس کے کمرے کی طرف آخری مرتبہ نگاہ ڈالتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے۔ تنزیلا کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔


چھتیسواں منظر


رات کا وقت۔ شاداب کا گھر۔


شاداب چھت پر اکیلا ہے۔ اپنی بازو کا تکیہ بناۓ کسی چیز پر سیدھا لیٹا اوپر تاروں بھرے خوبصورت آسمان کو دیکھ رہا ہے۔ بادلوں کے بیچ میں سے تنزیلا کا مسکراتا ہوا چہرا نمودار ہوتا ہے۔ شاداب اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ چند لمحے اسے دیکھتا رہتا ہے، پھر تنزیلا کا چہرا بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے۔ شاداب ایک دم سے ہلکا سا ہاتھ اٹھاتا ہے جیسے اسے پکڑنے لگا ہو۔ ساتھ ہی موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔ فون اٹھاتا ہے۔


شاداب: (فون پر) ہیلو۔۔۔


(دوسری طرف شاداب کے کالج کا دوست ظہیر ہے)


ظہیر: ہیلو کے بچے تم نے یہ اچھا نہیں کیا۔


شاداب: (خیرت سے) کیا اچھا نہیں؟


ظہیر: تم لاہور آۓ ہوۓ تھے اور مجھ سے مل کر بھی نہیں گۓ۔


(مسکراتا ہے)


شاداب: کیا کرتا وقت ہی نہیں ملا بس تھوڑی دیر کے لیۓ آیا تھا۔


ظہیر: ہاں جی تمہارے پاس اب ہمارے لیۓ وقت کیسے ہو گا۔۔۔ تم تو بس سیدھے اپنے سسسرال جانا اور وہاں سے واپس لوٹ جانا۔


شاداب: (ہنس کر) سسرال۔۔۔؟


ظہیر: چل ہوا نہیں تو ہو جاۓ گا۔ ہونے والا سسسرال کہہ لو۔ پر تجھے ذرا شرم نہیں آئی تو اپنے اتنے پرانے دوست کو بھول گیا۔ 


شاداب: بھولا نہیں ہوں یارا۔۔۔ کہہ تو رہا ہوں بس تھوڑی دیر کے لیۓ ایک کام سے  گیا تھا۔ شام کو گیا تھا اور صبح واپس آگیا۔۔۔پر تمہیں پتہ کیسے چلا کہ میں وہاں گیا ہوا تھا؟ میں نے تو کسی کو بھی نہیں بتایا تھا۔


ظہیر: وہ رضوان کسی کام سے پنڈی گیا ہوا تھا اس کی کسی ریسٹورنٹ میں تمہارے بھائی سے اتفاقاً ملاقات ہو گئ انہوں نے بتایا کہ تو لاہور گیا ہوا تھا۔ اگر مجھے وہاں سے پتہ نہ چلتا تو تو کبھی بھی نہ بتاتا۔


شاداب: چل چھوڑ یار کیا فرق پڑتا ہے بتایا یا نہیں ملاقات تو تم سے پھر بھی نہ ہو سکتی۔ اگلی بار ایک دو دن کی چھٹی لے کر آؤں گا پھر تم سے مل کر جاؤں گا۔


ظہیر: چلو اس بار معاف کیا لیکن اگلی بار ایسی حرکت کی تو تمہیں جرمانہ ہو گا۔


شاداب: (دھیرے سے ہنس کر) ٹھیک ہے۔ میں جرمانہ بھر دوں گا۔


سینتسواں منظر


دن کا وقت۔ شاداب کا دفتر۔


دفتر میں سات آٹھ لڑکے لڑکیاں اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول ہیں۔ کچھ ایک آدھ فائل دیکھ رہے ہیں۔ کچھ کے ہاتھ میں موبائل ہیں۔ شاداب اور فرنینڈس بھی ہیں۔ ایک دبلا سا لڑکا کھڑا ہے۔ ریسیپشن کاؤنٹر پر ایک لڑکی لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھی ہے۔ نظریں اس کی لیپ ٹاپ پر ہیں مگر وہ  محفل میں پوری طرح سے شریک بھی ہے۔


دبلا لڑکا: یار جو بھی ہے میں تو لو میرجز (love marragies) کے خلاف ہوں۔ 


فرنینڈس: ہاں تم تو خلاف ہو گے کیونکہ تمہیں کسی نے پسند جو نہیں کرنا۔


دبلا لڑکا: مزاق کی بات نہیں میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔


فرنینڈس: میں نے تو سنجیدگی سے ہی کہا ہے تم ہی اسے مذاق سمجھ رہے ہو۔ (ہنس کر ساتھ والے کے ہاتھ پر پنجا مارتا ہے)


دبلا لڑکا: یارا سنو تو سہی۔ میں واقعی اسے اچھا نہیں سمجھتا۔


دوسرا لڑکا: تمہارے اندر لگتا ہے میرے دادا پڑدادا کی روح آگئ ہے کیونکہ تم انہی کی طرح ان کے زمانے کی باتیں کر رہے ہو۔


پہلی لڑکی: ہاں صحیح بات ہے میری نانی اماں بتاتی ہیں جب ان کی شادی ہوئی تو انہوں نے میرے نانا کو دیکھا تک نہیں تھا۔ انہوں نے پہلی بار انہیں شادی والے دن ہی دیکھا تھا۔


تیسرا لڑکا: میرے اپنے والد صاحب کی شادی صرف ایک تصویر دیکھ کر ہوئی تھی وہ بھی بلیک اینڈ وائٹ کیونکہ رنگین تصاویر تب اتنی عام نہیں ہوئی تھیں۔


فرنینڈس: اور اگر تمہاری خواہش ہے کہ تم بھی اسی طرح لڑکی کو شادی والے دن ہی دیکھو تو کوئی مسئلہ نہیں تمہاری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے لیکن بھیا ہم سب کو تو نہ مرواؤ۔ ہم تو اسی لڑکی سے شادی کریں گے جو ہمیں پسند آۓ گی۔


دبلا لڑکا: یار تم سب لوگ بات کو کدھر لے کر جا رہے ہو۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کسی کو دیکھے بنا شادی کر لو میں بس اتنا کہہ رہا ہوں شادی اگر ماں باپ کی پسند سے کی جاۓ تو غلطی اور دھوکا نہیں ہوتا۔


تیسرا لڑکا: یہ تم کس طرح سے کہہ سکتے ہو؟ اگر ایسا ہوتا تو جتنی ارینج میرجز ہیں سب کامیاب ہوتیں۔ مگر ان کے انتخاب میں بھی غلطی ہو جاتی ہے اور دھوکا بھی ہوتا ہے۔


دبلا لڑکا: میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ غلطی اور دھوکے کے چانسز کم ہوتے ہیں۔۔۔کیوں شاداب میں ٹھیک کہہ رہا ہوں تم ایگری کرو گے مجھ سے؟


شاداب: (چونک کر) مجھ سے پوچھ رہے ہو؟


دبلا لڑکا: میرا خیال ہے شاداب تمہارا ہی نام ہے۔


شاداب: یار میں کیا بتاؤں۔۔۔ تم نے پوچھا ہے تو میں اتنا ہی کہوں گا میں تم سے اتفاق نہیں کرتا۔ بلکہ میرا خیال تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں ارینج میرجز میں زیادہ غلطی کا امکان ہے۔


دبلا لڑکا: اچھا جی! وہ کس طرح سے  ذرا اس کی وضاحت بھی فرما دو۔


شاداب: وہ ایسے کہ زیادہ تر ارینج میرجز ایسے ہوتی ہیں کہ لڑکا، لڑکی اور ان کے گھر والے ایک دوسرے کو بالکل نہیں جانتے ہوتے۔ وہ کسی تیسرے آدمی کے ذریعے ملتے ہیں۔ یعنی کسی رشتے دار، جاننے والے یا رشتہ کرانے والی عورت کے ذریعے۔۔۔ایسا ہی ہے؟


دبلا لڑکا: ہاں ایسا ہی ہے۔


شاداب: تو ایسے میں کیا ہوتا ہے وہ بیچ والا آدمی یا عورت دونوں طرف بات کرتا ہے اور ان کی میٹنگ طے کرتا ہے۔ بس دونوں خاندان باری باری ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں اور ایک ہی ملاقات پر ایک چاۓ کی پیالی پر رشتہ طے ہو جاتا ہے۔ ایک چاۓ کی پیالی پر ایک ہی ملاقات میں لڑکا یا لڑکی اور ان کے گھر والوں کے چال چلن، طور طریقے اور رویے وغیرہ کو کوئی کیسے جان سکتا ہے؟ لیکن لو میرجز میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ اب خود ہی اندازہ لگا لو غلطی کے چانسز کہاں زیادہ ہیں؟


فرنینڈس: لڑکے کی بات میں دم تو ہے بھائی، یہ بات تو ماننی پڑے گی۔ لو میرجز میں ایک ہی ملاقات میں تو کوئی بھی کسی سے شادی کا فیصلہ نہیں کرتا۔ 


دبلا لڑکا: (ہاتھ جوڑ کر) ٹھیک ہے جناب (آگے جھک کر) ہم سر تسلیم خم کرتے ہیں۔


ریسپیشنسٹ لڑکی: یہ سب باتیں فضول ہیں میرا تو کہنا ہے بندے کے رزق سے لے کر شادی تک سب فیصلے اوپر ہوتے ہیں۔ آدمی جتنا مرضی ہاتھ پاؤں مار لے ہونا وہی ہے جو اوپر والے نے چاہنا ہے۔ کس نے کس کو کب ملنا ہے، کب بچھڑنا ہے، کس کو کتنا رزق ملنا ہے یہ سب وہ طے کرتا ہے لہذا سب کچھ اس پر چھوڑ دینا چاہیۓ۔ تم نے اکثر بزرگوں سے یہ جملہ سنا نہیں 'جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں'۔ میں تو سمجھتی ہوں یہ بات ٹھیک ہے۔


فرنینڈس: لو جی ابھی ایک قضیہ حل نہیں ہوا تھا یہ مخترمہ کچھ نیا لے آئی ہیں۔


شاداب: اگر اس بات کو ٹھیک مان لیا جاۓ تو پھر تو بڑی مشکل ہو جاۓ گی۔ اگر ایسا ہوتا کہ آدمی کے رزق اور شادی بیاہ کے سب فیصلے آسمانوں پر ہوتے تو پھر کوئی بھوکا نہ سوتا، کوئی فاقہ کرنے پر مجبور نہ ہوتا، کوئی جوڑا غلط نہ بنتا، اور کوئی شادی ناکام نہ ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتی؟ کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی؟


(ایک لمبے قد والا لڑکا اندر آتا ہے)


لمبا لڑکا: آج تو سارے گپیں لگا رہے ہو کوئی بھی کام نہیں کر رہا۔


ریسپیشنسٹ لڑکی: ہمارے فلور پر بھی بھی وہی انٹرنیٹ سسٹم ہے جو نیچے تم لوگوں کے پاس ہے۔ سارا سسٹم ہی ڈاؤن ہوا ہوا ہے کام کیسے کریں۔


دبلا لڑکا: خود تم سارا دن گھومتے رہتے ہو اور ہمیں کہہ رہے ہو کام نہیں کر رہے۔


لمبا لڑکا: وہ۔۔۔میں تو کسی کام سے آیا تھا۔


پہلی لڑکی: اچھا! کس کام سے آۓ تھے بتاؤ ذرا؟


لمبا لڑکا: وہ مجھے۔۔۔میں۔۔۔مجھے صدیق صاحب نے بھیجا ہے۔


ریسپشنسٹ لڑکی: تو بتاؤ کس لیۓ بھیجا ہے۔


لمبا لڑکا: وہ۔۔۔میں بھول گیا ہوں۔


دبلا لڑکا: ہاں دیکھا نا کوئی کام نہیں تمہیں۔


( موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔)


لمبا لڑکا: (جیب سے موبائل نکال کر دیکھ کر) مجھے صدیق صاحب بلا رہے ہیں میں چلتا ہوں۔


(بھاگ جاتا ہے۔ سبھی ہنستے ہیں)


فرنینڈس: دیکھنا اب نیچے اکاؤنٹس والوں کے پاس چلا جاۓ گا۔ اپنے دفتر میں کبھی بھی ٹک کر نہیں بیٹھتا۔



اٹھتیسواں منظر


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


تنزیلا اپنے صحن میں بیٹھی ہے اور موبائل پر اپنی دوست ہمہ سے باتیں کر رہی ہے۔ 


تنزیلا: اس دن کے بعد میری اس سے کوئی بات نہیں ہوئی۔


ہمہ: لیکن تمہیں اس سے ایسے تو پیش نہیں چاہیۓ تھا۔


تنزیلا: تو اور کیا کرتی۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ میرے انتظار میں بیٹھا رہے۔ مجھ پر اب بہت ذمہ داریاں ہیں گھر ہے، بوڑھی ماں ہے، دونوں بہن بھائی ابھی بہت چھوٹے ہیں ان کی پڑھائی ہے، دیکھ بھال ہے۔ جب تک وہ بڑے نہیں ہو جاتے اور اپنے لیۓ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے تب تک میں انہیں چھوڑ کر تو کہیں نہیں جا سکتی۔ اس وقت تک کیا وہ میرا انتظار کر پاتا؟ میں نے اسی لیۓ اس سے ایسا برتاؤ کیا۔


ہمہ:  یہ بات تمہیں اسے کلیئرلی بتا دینی چاہیۓ تھی۔ اس کے بعد تم کہہ سکتی تھی اگر تم اس وقت تک میرا انتظار کر سکتے ہو تو کر لو۔ پھر اس پر تھا کہ وہ تب تک تمہارا انتظار کرتا یا نہیں۔


تنزیلا: نہیں ہمہ۔۔۔میں اس سے کہوں تو وہ شاید زندگی بھر انتظار کرنے کے لیۓ تیار ہو جاۓ مگر میں ایسا نہیں چاہتی۔ میں چاہتی ہوں وہ کسی اور کا انتخاب کر لے کیونکہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔ اس راستے پر چل کر اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ شاید ہمارا نہ ملنا مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔   


انتالیسواں منظر


رات کا وقت۔ سڑک


شاداب سڑک پر کسی فٹ پاتھ کے کنارے تنہا بیٹھا ہے۔ سڑک پر کافی گہما گہمی اور رونق ہے۔ ٹریفک ہے، لوگ  آجا رہے ہیں۔ گاڑیوں کے ہارنز کی اور لوگوں کی ملی جلی آوازیں آرہی ہیں۔ سڑک کے ایک طرف مختلف کھانے پینے کی ریڑھیاں اور ٹھیلے لگے ہیں جن کے اردگرد گاہکوں کا کافی رش ہے۔ ایک فقیر شاداب کے پاس آکر بھیک مانگتا ہے۔


فقیر: رب کے نام پہ کچھ دو بھائی وہ تمہارے من کی مراد پوری کرے گا۔


(شاداب سر اٹھا کر اک نظر اسے دیکھتا ہے۔ ہلکا سا ہنستا ہے۔ جیب سے چند روپے نکال کر اسے دے دیتا ہے۔ فقیر دعائیں دیتا ہوا چلا جاتا ہے۔


 ایک طرف سے ایک نوجوان جوڑا اک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہنستے کھیلتے، باتیں کرتے ہوۓ چلا آرہا ہے۔ شاداب ان کو دیکھتا ہے۔ اس کو اپنا اور تنزیلا کا خیال آجاتا ہے۔ اس جوڑے کی جگہ شاداب اور تنزیلا لے لیتے ہیں۔ کچھ دور جا کر وہ جوڑا آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ شاداب اٹھتا ہے اور جیبوں میں ہاتھ ڈالے سر جھکاۓ فٹ پاتھ پر ایک طرف کو چل پڑتا ہے۔)


چالیسواں منظر


وہی وقت۔ سڑک۔


شاداب فٹ پاتھ پر چلا آرہا ہے۔ یہاں سڑک ویران اور سنسان ہے۔ اچانک سے ایک گاڑی آکر کھمبے یا کسی درخت سے ٹکراتی ہے۔ گاڑی کا آگے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ شاداب ایک دو لمحے کھڑا ہوتا ہے پھر تیزی سے گاڑی کی سمت بھاگتا ہے۔ اندر ایک لڑکی ڈرائیونگ سیٹ پر حواس باختہ بیٹھی ہے۔ لیکن بے ہوش نہیں ہے۔


شاداب: کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں،  چوٹ تو نہیں آئی؟


(لڑکی کوئی جواب نہیں دیتی وہ ابھی بھی اسی حالت میں ہے۔ وہ لڑکی کو گاڑی سے باہر نکالتا ہے)


شاداب: آئیے آپ گاڑی سے باہر آئیے۔ 


(باہر نکال کر فٹ پاتھ پر بینچ پر بٹھاتا ہے)


شاداب: یہاں بیٹھیۓ۔ آپ کی طبعیت ٹھیک ہے۔ پانی لاؤں؟


(اردگرد دیکھتا ہے۔ گاڑی کے اندر پڑی ہوئی پانی کی ایک بوتل دکھائی دیتی ہے وہ بوتل نکال کر لڑکی کو پانی پلاتا ہے۔ پانی پی کر لڑکی کے حواس بحال ہونے لگتے ہیں۔)


شاداب: اب کیسی طبعیت ہے کہیں چوٹ وغیرہ تو نہیں آئی؟ اگر ہاسپٹل جانا چاہتی ہیں تو۔۔۔


لڑکی: نہیں اس کی ضرورت نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بس تھوڑا گبھرا گئ تھی۔


شاداب: لیکن ہوا کیا تھا یہاں تو بھیڑ بھی نہیں آپ کو اچانک حادثہ کیسے پیش آگیا؟


لڑکی: حادثہ پیش آنے کے لیۓ کسی وجہ کا ہونا ضروری ہے؟


شاداب: (خیرت سے) جی۔۔۔! کیا مطلب؟


لڑکی: کچھ نہیں۔ وہ دراصل مجھے چکر آگیا تھا۔ پتہ ہی نہیں چلا کب گاڑی بے قابو ہو گئ اور سیدھا کھمبے سے جا ٹکرائی۔ آپ کا بہت شکریہ اگر آپ نہ ہوتے تو شاید میں بے ہوش ہو جاتی اور پتہ نہیں کتنی دیر تک یہاں پڑی رہتی۔


شاداب: شکریے کی ضرورت نہیں۔۔۔ویسے آپ جا کہاں رہی تھیں؟


لڑکی: (مذاق سے) ابھی تو گھر جارہی تھی۔ مگر شاید قدرت چاہتی تھی راستے میں آپ سے مل کر جاؤں۔


( آہستہ سے ہنستا ہے)


شاداب: (گاڑی پر اک نظر ڈال کر) میرا خیال ہے یہ گاڑی تو آپ کو گھر پہنچانے کے قابل نہیں رہی۔ بہتر ہے آپ گھر میں کسی کو فون کرکے اطلاع دے دیں۔


لڑکی: اطلاع دے تو دوں مگر اس سے فائدہ کچھ نہیں ہوگا الٹا پریشانی بڑھے گی۔


شاداب: (خیرت سے) وہ کیوں؟


لڑکی: وہ اس لیۓ کہ میرے گھر میں صرف دو افراد رہتے ہیں۔ میں اور میری امی۔ میں تو آپ کے سامنے ہوں اور امی یہاں نہیں آسکتیں۔۔۔کیونکہ وہ پیرالائزڈ ہیں۔


شاداب: اوہ!۔۔۔تو پھر آپ۔۔۔


لڑکی: تو پھر یہ کہ۔۔۔میری ٹانگیں تو سلامت ہیں میں تو چل کر جا سکتی ہوں۔


شاداب: آپ پھر ایسا کریں یہاں سے کچھ فاصلے پر جو چوک ہے وہاں سے آپ کو رکشہ یا ٹیکسی مل جاۓ گی آپ کو بس وہاں تک چل کر جانا ہے۔


لڑکی: ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔۔ کیا آپ وہاں تک مجھے چھوڑ آئیں گے؟ میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتی مگر یہ جگہ کافی سنسان ہے اور رات بھی کافی ہو گئ ہے۔ 


شاداب: کوئی مسئلہ نہیں آپ آئیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔


(لڑکی اٹھتی ہے، چلنے لگتی ہے مگر لڑکھڑا جاتی ہے)


شاداب: آپ چل تو لیں گی؟


لڑکی: جی ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں چل لوں گی۔


(ایک دو قدم چلنے کے بعد سنبھل کر چلنے لگتی ہے۔ دونوں آگے بڑھ جاتے ہیں۔)


اکتالیسواں منظر


وہی وقت۔ سڑک۔


شاداب اور لڑکی دونوں سڑک پر چلے آرہے ہیں۔


لڑکی: اس کے بعد میں اور امی یہاں آگۓ کیونکہ پہلے والا گھر تو میرے بابا کو گورنمنٹ کی طرف سے عارضی طور پر ملا ہوا تھا لیکن جب بابا ہی نہیں رہے تو وہ گھر ہمیں خالی کرنا پڑا۔۔۔ اور آپ۔۔۔آپ شروع سے یہیں سے ہیں؟


شاداب: جی ہاں میں یہیں کا رہنے والا ہوں۔ 


(بس سٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک بس کھڑی ہے)


شاداب: بس پر جانا پسند کریں گی؟۔۔۔ رکشے یا ٹیکسی کے لیۓ آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔


لڑکی: کوئی مسئلہ نہیں میں چلی جاؤں گی۔


شاداب: ٹھیک ہے پھر آئیے۔


(دونوں بس کے پاس پہنچ جاتے ہیں)


لڑکی: آپ کا بہت شکریہ آپ نے میری اتنی مدد کی۔ آپ کسی دن میرے گھر آئیے گا میری امی آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔


شاداب: جی ضرور۔۔۔ میں کسی دن ملنے آؤں گا۔


لڑکی: اچھا میں اب چلتی ہوں۔ نام تو یاد رہے گا کہ بھول جائیں گے؟


شاداب: (مذاق کے انداز سے) کیا نام تھا آپ کا؟۔۔۔۔ہاں ہاں تانیہ۔ یاد آگیا، بس بھولنے ہی والا تھا۔


(ہنستی ہے)


تانیہ: چلیں ٹھیک ہے۔ خدا خافیظ۔


(شاداب سر ہلاتا ہے۔ لڑکی بس میں سوار ہو جاتی ہے۔ شاداب واپس پلٹ جاتا ہے۔ لڑکی اسے کچھ دیر تک جاتا ہوا دیکھتی ہے۔)


بیالیسواں منظر


رات کا وقت۔ شاداب کا گھر۔


شاداب کے امی، ابو بہن بھائی سب گھر والے کھانا کھا رہے ہیں۔ 


ابو: (شاداب سے، کھانا کھاتے ہوۓ) یار یہ تم کیا معمولی سی نوکری کے چکر میں پڑے ہو۔ کیا ملتا ہے تمہیں اس نوکری سے؟ اپنا کاروبار ہے وہ کیوں نہیں سنبھالتے۔ ٹھیک ہے کاروبار چھوٹا ہے مگر اپنا تو ہے۔۔۔ اور اتنا چھوٹا بھی نہیں، پورے بازار میں سب سے زیادہ چلنے والی دکان ہماری ہے۔ مارکیٹ میں کسی سے بھی پوچھ لینا تمہیں پتہ چلے گا شارق کلاتھ ہاؤس کی کیا ویلیو ہے۔ اگر تم بھی بھائی کے ساتھ دکان پر بیٹھو تو میں جلدی گھر آکر کچھ دیر آرام کر لیا کروں۔


شاداب: ابو آپ پھر اس بات کو لے کر بیٹھ گۓ۔ میں نے بتایا تو ہے مجھے اس کام میں ذرہ بھی دلچسپی نہیں۔


ابو: عجیب آدمی ہو، لوگ اپنا کاروبار کرنے کے لیۓ مرتے ہیں اور تم ہو کہ تمہیں دلچسپی ہی نہیں۔ اگر تم ہاں کرو تو میں سوچ رہا ہوں ساتھ والی چھوٹی سی دکان لے کر اس کے ساتھ ملا لوں۔ یہ دکان بڑی ہو جاۓ گی۔ ایک دو سال بعد جب نوید کی پڑھائی ختم ہو گی تو وہ بھی تم دونوں بھائیوں کے ساتھ آکر بیٹھ جایا کرے گا۔


شاداب: ابو آپ نوید کو بے شک کامران بھائی کے ساتھ دکان پر بٹھا دیں لیکن مجھے معاف ہی رکھیں، مجھے اس کام سے ذرا بھی دلچسپی نہیں۔ آپ خود سوچیں جس کام میں میرا بالکل بھی انٹرسٹ نہ ہو وہ کام میں کتنا کر اچھا کر لوں گا۔ ظاہر ہے اسے میں خراب ہی کروں گا۔ کیونکہ وہ کام میں دل سے تو کروں گا نہیں۔۔۔ اور ویسے بھی آپ کو اعتراض تب ہونا چاہیۓ جب میں کوئی کام نہ کروں تو۔۔۔آپ اس بات پر اعتراض نہیں کر سکتے کہ میں یہ کام نہ کروں۔ ہاں اگر میں کوئی غلط اور ناجائز کام کر رہا ہوں تو آپ کہہ سکتے ہیں۔


ابو: یہ کیسا زمانہ آگیا ہے۔ آج کل کے بچوں کی مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آتی۔ میرا دل نہیں اس کام میں اس لیۓ میں نہیں کروں گا۔ مجھے جو پسند ہو گا میں وہ کروں گا۔۔۔ ہمیں تو جو کام مل جاتا تھا ہم کر لیا کرتے تھے ہم تو بس یہ دیکھتے تھے پیسے کس کام میں زیادہ مل رہے ہیں۔ 


امی: چھوڑیں بھی جانے بھی دیں،  بیچارا کام کر تو رہا ہے ۔۔۔کرنے دیں اسے جس کام میں بھی وہ خوش ہے۔ کون سا کوئی غلط کام کر رہا ہے۔


ابو: کرے جی کرے مجھے کیا ہے ابھی تو اکیلا ہے کل کو جب بیوی آۓ گی  خرچہ مانگے گی تو پتہ چلے گا۔ اس نوکری سے کرتے رہنا اس کے خرچے پورے۔


بہن: ابو جب بھائی کی شادی ہو گی تب تک ان کی تنخواہ اتنی تھوڑی رہے گی وہ بھی تو بڑھے گی۔


ابو: ہاں بڑی بڑھ جاۓ گی تنخواہ اس کی۔


(ایک پانچ چھ سال کا بچہ کمرے سے نکل کر دوڑتا ہوا آتا ہے)


بچہ: دادا میں آگیا۔


ابو: او میرا شہزادہ آگیا۔۔۔ کہاں تھا اتنی دیر کا؟


(بچہ بھاگ کر ابو کے پاس آتا ہے وہ اسے گود میں بٹھا لیتے ہیں)


بچہ: دادا میرے کپڑے گندے ہو گۓ تھے تو ماما میرے کپڑے بدل رہیں تھیں۔ میری کھلونے والی پستول کہاں ہے آپ نے کہا تھا کل لے کر آؤں گا۔


ابو: او یارا بھول گیا ہوں کل لے کر آؤں گا پکا۔


بہن: (شرارت سے) کوئی نہیں لانی دادا نے پستول۔۔۔ بیٹا جی کوئی نہیں ملنی۔


بچہ: دادا پھپھو کہتی ہے کوئی نہیں لانی دادا نے پستول۔۔۔


ابو: نہیں نہیں میں اپنے شہزادے کے لیۓ کل پستول ضرور لے کر آؤں گا۔


بچہ: (منہ بگاڑ کر پھپھو کو چڑانے کے انداز میں) دادا لے کر آئیں گے۔ 


(سبھی بچے کے انداز سے مخذوز ہوتے ہیں)


تینتالیسواں منظر


دن کا وقت۔ پارک۔


شاداب کسی پارک یا باغ میں بینچ پر تنہا بیٹھا ہے۔ پارک میں لوگ جاگنگ اور ورزش وغیرہ کر رہے ہیں۔ کچھ مختلف فاصلوں پر نیچے زمین پر بیٹھے ہیں۔ ایک طرف کچھ فاصلے پر تھوڑی دور تانیہ بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہے۔ وہ کتاب سے نظریں ہٹا کر ایک طرف  دیکھتی ہے اچانک اس کی نظر شاداب پر پڑتی ہے۔ وہ دور سے ہی اسے پہچان لیتی ہے۔ اٹھ کر اس کے پاس جاتی ہے۔


تانیہ: (قریب آکر، مذاق سے) یہ محض ایک اتفاق ہے یا آپ میرا پیچھا کرتے ہوۓ یہاں تک پہنچے ہیں؟


(شاداب اسے دیکھ کر مسکراتا ہے)


شاداب: جیسا آپ بہتر سمجھیں۔


تانیہ: تو پھر ٹھیک ہے میں یہی سمجھتی ہوں کہ آپ میرا پیچھا کرتے ہوۓ یہاں تک پہنچے ہیں۔ 


شاداب: ہاں جی آپ کے قدموں کے نشان مجھے یہاں تک لے آۓ ہیں۔


تانیہ: ہونہہ! تو میرے قدموں کے نشان اتنے واضح ہیں۔


شاداب: شاید۔۔۔



تانیہ: ہونہہ۔۔۔ اس کا مطلب ہے ان کا کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔ ویسے اگر آپ کو پریشانی نہ ہو تو میں یہاں تھوڑی دیر کے لیۓ بیٹھ جاؤں۔


شاداب: جی ہاں آپ کا جہاں دل چاہے بیٹھ سکتی ہیں۔ میں اس پارک کا مالک تو نہیں ہوں۔


( بنچ پر بیٹھ جاتی ہے)


تانیہ: یہ بھی ٹھیک کہا۔۔۔ آپ آج یہاں پہلے دن آۓ ہیں؟


شاداب: نہیں اکثر آتا ہوں خاص کر چھٹی والے دن ضرور چکر لگاتا ہوں۔


تانیہ: میں تو یہاں روز آتی ہوں لیکن آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔


شاداب: دیکھا آپ نے پہلے بھی ہو گا لیکن پہلے آپ مجھے جانتی نہیں تھیں اس لیۓ نوٹس نہیں کیا ہو گا۔


(تانیہ اثبات میں سر ہلاتی ہے)


تانیہ: ہاں ایسا ہی ہے۔۔۔ ویسے ایک بات تو بتائیں، میں تو اپنی تنہائی سے بھاگ کر یہاں آتی ہوں۔ آپ کیوں آتے ہیں؟


شاداب: میں۔۔۔میں شاید تنہائی کے لیۓ  ہی آتا ہوں۔


تانیہ: یہ خیرت کی بات نہیں؟ دو مختلف لوگ ایک ہی مقام پر دو متضاد اشیاء کے حصول کے لیۓ آتے ہیں۔


شاداب: ہاں خیرت کی بات تو ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی خیرت کی بات یہ ہے کہ اسی جگہ پر دونوں کو ان کی مطلوبہ چیز مل بھی جاتی ہے۔


تانیہ: شاید یہ اس جگہ کا کمال ہے، یہاں بیک وقت دونوں میسر ہو جاتی ہیں۔ تنہائی بھی اور رونق بھی۔ 


شاداب: جی ایسا ہی ہے۔


(چند لمحے خاموشی رہتی ہے)


شاداب: (اس کے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر) لگتا ہے آپ کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ اس دن بھی جب میں آپ کی گاڑی میں پانی لینے جھکا تھا تو میں نے پچھلی سیٹ پر تین چار کتابیں پڑی ہوئی دیکھیں تھیں۔ دو ایک تو سیٹ کے نیچے بھی گری ہوئی تھیں۔


تانیہ: جی ہاں وہ میرے بابا کی لائیبریری کی کتابیں تھیں۔ پچھلے گھر میں جہاں ہم رہتے تھے میرے بابا کی اپنی لائیبریری تھی ان میں سے بہت سی کتابیں تو میں یہاں لے آئی ہوں لیکن بہت ساری لانی ابھی باقی ہیں۔۔۔انہوں نے مجھے ایک بات سکھائی تھی جس پر میں ہمیشہ عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔


شاداب: کیا؟


تانیہ: وہ اکثر کہتے تھے انسان کو اپنی زندگی میں چار طرح کے کام لازمی کرنے چاہییں۔ ان میں سے دو تو مادی ہیں اور دو روحانی ہیں۔۔۔مادی میں سے ایک تو معاشی ہے۔ وہ کہتے تھے ہر انسان کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنی معاشی یا مالی حالت کو بہتر کرنے کے لیۓ کام کرنا چاہیۓ۔ کوئی نوکری، کاروبار یا کچھ اور۔۔۔ کاروبار کو کیسے پھیلانا ہے، نوکری میں کیسے ترقی کرنی ہے، اپنی فنانشل پوزیشن میں بہتری لانے کے لیۓ جو بھی جائز طریقے اختیار کیۓ جا سکتے ہیں ضرور کرنے چاہیئں۔ اسی طرح دوسرا یہ کہ اپنی جسمانی اور دماغی یا ذہنی حالت کی بہتری کے لیۓ جو بھی  طریقے اور اصول ہیں وہ اپنانے چاہیئں۔ مثلاً مناسب خوراک، ورزش اور پراپر نیند وغیرہ یا اس کے علاوہ سڑیس اور پریشانی سے بچنا۔۔۔اس کے بعد دو روحانی کام ہیں۔ اخلاقی اور شعوری۔ اپنی شعوری اور فکری استعداد کو بڑھانے کے لیۓ آدمی کو مطالعہ اور غورو فکر کرنا چاہیۓ۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ اور غورو فکر انسان کی ڈیلی روٹین کا حصہ ہونا چاہیۓ۔ اور اس کے بعد آجاتی ہے اخلاقی حالت۔ اس کو بہتر کرنے کے لیۓ آدمی کو چاہیۓ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہر حال میں جھوٹ بولنے سے بچے اور سچ بولنے کی کوشش کرے۔ ایمانداری اور دیانتداری سے کام لے اور روزانہ کی بنیاد پر غور کرتا رہے کہ اس کی کسی بات یا کسی حرکت سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ، کسی کو ٹھیس تو نہیں پہنچی، کسی کو کوئی نقصان تو نہیں ہوا، کسی کی حق تلفی تو نہیں ہوئی۔ اسی طرح دوسری بہت سی اخلاقی اقدار پر ہر ممکن حد تک چلنے کی کوشش کرے۔۔۔ میں معافی چاہتی ہوں میرا خیال ہے بات تھوڑی لمبی ہو گئ۔ آپ بور تو نہیں ہوۓ؟


شاداب: نہیں ایسا نہیں آپ کی بات  بڑی اچھی اور دلچسپ تھی۔ 


تانیہ: پھر بھی! آپ بھی کہہ رہے ہوں گے یہ کیا اپنے بابا کی باتیں لے کر بیٹھ گئ۔ اصل میں جب سے وہ گۓ ہیں کسی نہ کسی بہانے ان کی باتیں کرکے انہیں یاد کر لیتی ہوں۔ اس سے  دل کچھ بہل جاتا ہے۔


شاداب: شاید ایسا ہی ہو، جانے والوں کی باتیں کرکے دل بہل جاتا ہو۔ یا شاید یہ بھی ہماری خام خیالی ہو۔۔۔(موضوع بدل کر) اچھا آپ کی گاڑی ٹھیک ہو گئ؟


تانیہ: جی ہاں آپ نے جو مکینک بھیجا تھا اس نے اگلے دن گاڑی ٹھیک کرکے بھیج دی تھی۔


شاداب: پھر تو ٹھیک ہے۔ (اٹھتے ہوۓ) میں اب چلتا ہوں شام بھی ہونے والی ہے۔


تانیہ: (اٹھ کر) میں بھی بس جانے ہی والی تھی۔۔۔ آپ پھر کب آئیں گے؟


شاداب: معلوم نہیں۔ جب تنہائی کی یاد ستائی گی چلا آؤں گا۔


تانیہ: پھر تو میں دعا کروں گی آپ کو تنہائی کی یاد جلد ستاۓ۔


شاداب: (آہستہ سے ہنستا ہے)  ٹھیک ہے چلتا ہوں، اگر آپ کی دعا میں اثر ہوا تو جلد  آؤں گا۔


(آگے چل پڑتا ہے)


چوالیسواں منظر


صبح کا وقت۔ بس سٹاپ۔


فرنینڈس بس سٹاپ پر کھڑا ہے۔ بار بار وقت دیکھتا ہے۔ بس آکر رکتی ہے لیکن وہ سوار نہیں ہوتا۔ بس چند سواریاں اتار کر چلی جاتی ہے۔ اس کے جانے کے بعد شاداب ایک طرف سے چلا آتا ہے۔


فرنینڈس: آگۓ جی افسر صاحب۔۔۔ اتنا انتظار تو وہ بھی نہیں کرواتے۔ اوپر سے ایسے ٹہلتے ہوۓ آرہے ہو جیسے ابھی بڑا وقت پڑا ہوا ہے۔ یہ تیسری بس ہے جو گئ ہے۔ تمہاری وجہ سے آج کل میں آفس میں دیر سے پہنچ رہا ہوں ورنہ میرا ریکارڈ تھا میں آفس کا وقت شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ جایا کرتا تھا۔


شاداب: ہاں جانتا ہوں تمہیں اتنی جلدی دفتر جانے کا کیوں شوق ہے۔


فرنینڈس: ہاں ہاں تو ٹھیک ہے۔ بندے کے پاس کوئی motive ہونا چاہیۓ۔ جب آدمی کے پاس کوئی موٹیو ہو تو وہ زیادہ مستعدی سے کام کرتا ہے۔


شاداب: تو تمہاری اطلاع کے لیۓ عرض ہے کہ تمہارا وہ موٹیو اگلے تین دن تک دفتر نہیں آۓ گا۔


فرنینڈس: کیا۔۔۔کیا بکواس کر رہے ہو؟ تمہیں کس نے کہا۔


شاداب: کل میں منظور صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب اس نے تین دن کی چھٹی کی درخواست دی تھی۔ 


فرنینڈس: لیکن کیوں کیا ہوا؟ اس نے کیوں اتنی چھٹیاں لیں؟


شاداب: وہ کہتی ہے کہ دفتر میں فرنینڈس نام کا جو لڑکا ہے وہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے اس لیۓ میں کچھ دنوں تک ذہنی سکون کے لیۓ دفتر سے چھٹیاں لے رہی ہوں۔


فرنینڈس: (منہ بگاڑ کر) جی۔۔۔بہت مزاحیہ بات تھی۔ اب اصلی بات بتاؤ۔


شاداب: اس کی کسی کزن کی شادی ہے اس لیۓ وہ تین دن تک نہیں آۓ گی۔ 


فرنینڈس: تو یہ تم مجھے اب بتا رہے ہو؟۔۔۔پتہ ہے رات کو میں اتنی دیر سے سویا تھا پھر بھی صبح جلدی اٹھ گیا اور اٹھ کر میں نے پورا ایک گھنٹہ لگا کر اتنی محنت سے کپڑے استری کیۓ ہیں تاکہ آفس جلدی پہنچ سکوں۔ اور تم مجھے اب بتا رہے ہو۔


شاداب: اس بات کا مجھے بے حد افسوس ہے تمہاری ساری محنت ضائع گئ۔


فرنینڈس: تم۔۔۔تم مجھے۔۔۔ یہ بات میں ایسے نہیں جانے دوں گا۔ اب اس کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو میں تمہارے ساتھ دوستی چھوڑ دوں یا اگلے تین دن تک میرا بس کا کرایہ تم دو گے۔ بولو تمہیں کون سا آپشن منظور ہے؟


شاداب: (شرارت سے) میرا خیال ہے وہ دوستی چھوڑنے والا آپشن بہتر رہے گا۔


(بس آکر رکتی ہے۔ شاداب مسکراتا ہوا بس پر سوار ہو جاتا ہے۔ فرنینڈس وہیں کھڑا رہ کر اسے دیکھتا رہتا ہے۔)


شاداب: اب کیا سوچ رہے ہو اندر آجاؤ ورنہ یہ بس بھی چھوٹ جاۓ گی۔


فرنینڈس: میں سوچ رہا ہوں میں نے غلط آدمی سے دوستی لگا لی ہے۔


(بس میں سوار ہو جاتا ہے)


پینتالیسواں منظر


دن کا وقت۔ شاداب کا دفتر


شاداب اپنے دفتر میں کام میں مگن دکھائی دیتا ہے۔ ایک لڑکی کی آواز آتی ہے جو ریسیپشنسٹ سے باتیں کر رہی ہے۔ ریسیپشنسٹ اور لڑکی دونوں کی صرف آواز آتی ہے۔

 

لڑکی: ایکسکیوز می! کیا آپ بتا سکتی ہیں جاب کے لیۓ انٹرویو اسی فلور پر ہو رہے ہیں؟


ریسیپشنسٹ: جی ہاں۔۔۔آپ کا نام؟


لڑکی: تنزیلا۔


(لڑکی کے نام پکارنے پر شاداب چونک کر ایک دم مڑ کر دیکھتا ہے۔ اب لڑکی کا چہرا دکھائی دیتا ہے۔ وہاں کوئی اور لڑکی ہے۔


ریسیپشنسٹ: (ٹائپ کرتے ہوۓ) پورا نام بتائیے پلیز۔


لڑکی: تنزیلا ثقلین۔ 


ریسیپشنسٹ: ٹھیک ہے میں نے آپ کی انٹری کر دی ہے۔ آپ بیٹھیں جب باری آۓ گی تو میں آپ کو بلا لوں گی۔ 


لڑکی: جی شکریہ۔


(لڑکی پیچھے جا کر بیٹھ جاتی ہے۔ شاداب کچھ دیر تک لڑکی کو دیکھتا ہے پھر نظریں ہٹا لیتا ہے۔)


چھیالیسواں منظر


دن کا وقت۔ سڑک


موسلادار بارش ہو رہی ہے۔ شاداب سڑک کے کنارے کسی عمارت کے سامنے سائبان کے نیچے گم سم کھڑا ہے۔ تانیہ ایک طرف سے آتی ہے مگر شاداب اسے دیکھ نہیں پاتا اس کا دھیان دوسری طرف ہے۔


تانیہ: لگتا ہے آپ کو بارش بڑی پسند ہے۔ 


(چونک جاتا ہے)


شاداب: جی۔۔۔جی آپ؟


تانیہ: جی ہاں میں۔۔۔ مگر شاید آپ کسی اور کی توقع کر رہے تھے۔


شاداب: جی۔۔۔وہ۔۔۔میں اپنے ایک دوست کا انتظار کر رہا تھا۔


تانیہ: وہ تو آپ کی آنکھوں میں دکھتا ہے۔


شاداب: کیا؟


تانیہ: انتظار!۔۔۔کسی کا انتظار۔


(شاداب جواب نہیں دیتا بلکہ سڑک پر دیکھنے لگتا ہے)


تانیہ: (مغموم انداز میں) کاش آپ کو کسی کا انتظار نہ ہوتا۔


شاداب: (خیرت سے) جی۔۔۔؟


تانیہ: کچھ نہیں۔۔۔ وہ آپ دوست کا انتظار کر رہے تھے؟


شاداب: جی۔


تانیہ: شاید اسے کافی دیر ہو گئ ہے۔


شاداب: (کلائی پر بندھی گڑھی کو دیکھ کر) جی ہاں۔۔۔اب تک تو اسے آجانا چاہیۓ تھا پتہ نہیں کہاں رہ گیا۔ فون کرکے پوچھنا پڑے گا۔


تانیہ: ٹھیک ہے آپ کریں فون میں چلتی ہوں۔ 


شاداب: (پیچھے عمارت کی طرف اشارہ کرکے) آپ یہاں۔۔۔ 


تانیہ: یہاں میری ایک دوست کام کرتی ہے اس سے ملنے آئی تھی۔


شاداب: (سر ہلاتا ہے) ہونہہ۔۔۔


تانیہ: میری امی آپ سے ملنا چاہ رہی تھیں وہ کافی دنوں سے کہہ رہی ہیں آپ سے کہوں کہ کسی دن ملاقات کرے۔۔۔ مگر آپ شاید۔۔۔


شاداب: جی ضرور ان سے کہنا میں ضرور کسی دن ملنے آؤں گا۔


تانیہ: ہونہہ۔۔۔ٹھیک ہے میں چلتی ہوں بہت دیر ہو گئ ہے۔


شاداب: جی۔


(تانیہ آگے چل پڑتی ہے)


سینتالیسواں منظر


دن کا وقت۔ تنزیلا کا گھر


کھڑکی کے شیشے پر بارش پڑ رہی ہے جسے تنزیلا کمرے کے اندر سے دیکھ رہی ہے۔ وہ کمرے میں بالکل اکیلی ہے۔ شاداب کی آواز ابھرتی ہے۔ اس کی کہی ہوئی بات اسے یاد آتی ہے۔


شاداب: وعدہ کرو تم ہر موسم کی پہلی بارش کو مجھے خط لکھو گی۔


تنزیلا: خط کیوں؟میں تمہیں فون کروں گی۔


شاداب: فون پر تو ہم اکثر بات کر لیا کریں گے یہ خاص اہتمام تم موسم کی پہلی بارش پر کرنا۔


(فوراً اٹھتی ہے اور کاغذ پینسل لے کر لکھنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے ہونٹ نہیں ہلتے مگر آواز مسلسل آتی ہے۔)


تم نے کہا تھا موسم کی پہلی بارش کو مجھے خط لکھنا۔ آج موسم کی پہلی بارش ہے. میری کھڑکی کا شیشہ بارش کی بوندوں کے باعث دھندلا گیا ہے جس سے باہر کا منظر غیر واضح ہو گیا ہے۔ اس دھندلاہٹ کے پار کچھ  دکھائی نہیں دیتا۔ ہماری زندگیاں بھی اسی طرح دھندلاہٹ کا شکار ہو گئ ہیں اردگرد کے سارے مناظر غیر واضح ہو گۓ ہیں۔


سوچ رہی ہوں تمہیں کیا لکھوں۔ وہ بات جو تم سننا چاہتے ہو یا وہ بات جو میں کہنا چاہتی ہوں مگر کہہ نہیں سکتی۔۔۔میں نے کبھی نہیں سوچا تھا زندگی اس ڈگر پر چل نکلے گی۔ وقت ہمیں اس موڑ تک لے آۓ گا۔ مگر شاید یہی تقدیر کا کھیل ہے جو مسافروں کو راستہ بدلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔



(اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ کچھ توقف کے بعد آواز دوبارہ آنے لگتی ہے)



میں ہر موسم کی پہلی بارش کو تواتر سے تمہیں خط لکھوں گی۔ یہ خط شاید تم تک کبھی پہنچ نہ پائیں۔ ان میں کہی گئ باتیں، ان میں بیان کیۓ گۓ جذبات تم کبھی نہ جان پاؤ۔ لیکن جب تک موسم بدلتا رہے گا، جب تک برسات آتی رہے گی اور جب تک میری کھڑکی کا شیشہ بارش کی بوندوں سے دھندلاتا رہے گا میں تمہیں خط لکھتی رہوں گی۔


اڑتالیسواں منظر


دن کا وقت۔ سڑک۔


شاداب اسی جگہ پر سڑک کے کنارے کھڑا ہے جہاں پہلے کھڑا تھا۔ بارش ابھی بھی برس رہی ہے۔ ایک طرف سے فرنینڈس آتا ہے۔اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے۔ وہ چونک کر پیچھے دیکھتا ہے، فرنینڈس اس سے کچھ کہتا ہے مگر آواز سنائی نہیں دیتی صرف اشارہ دکھائی دیتا ہے۔ اشارے سے یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے وہ پوچھ رہا ہو 'کہاں کھوۓ ہو یا کیا ہوا۔' شاداب صرف سر ہلا کر جواب دیتا ہے۔ فرنینڈس اسے چلنے کو کہتا ہے شاداب چپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے۔


انچاسواں منظر


دن کا وقت۔ سڑک۔


تیز بارش برس رہی ہے۔ تنزیلا بس سٹاپ پر کھڑی ہے۔ ایک جوڑا بارش میں چلتا ہوا سڑک پر جا رہا ہے۔ لڑکے کے ہاتھ میں چھتری ہے۔ وہ شرارت سے چھتری کو لڑکی کے اوپر سے ہٹاتا ہے۔لڑکی بارش میں بھیگنے لگتی ہے۔ وہ تیزی سے لڑکے کو مارنے یا اس سے چھتری چھیننے کے لیۓ آگے بڑھتی ہے اور پھسل کر نیچے گر جاتی ہے۔ لڑکا ہاتھ آگے بڑھا کر اسے اٹھانے لگتا ہے لیکن خود بھی پھسل کر گر جاتا ہے۔ دونوں ہنسنے لگتے ہیں۔ تنزیلا یہ سب دیکھ کر مسکرا اٹھتی ہے۔ وہ ان دونوں کو بڑھے پیار اور انہماک سے دیکھتی ہے۔ اس کے کچھ فاصلے پر اسے وہ اور شاداب سڑک پر بارش میں چلتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں۔ شاداب نے ہاتھ میں چھتری پکڑی ہے۔ اچانک بس ہارن بجاتی ہوئی آکر رکتی ہے۔ تنزیلا آواز سن کر چونک جاتی ہے۔


پچاسواں منظر


رات کا وقت۔ تانیہ کا گھر


تانیہ کمرے میں تنہا بیٹھی ہے۔ اس کی امی ویل چئیر پر اندر آتی ہے۔ 


امی: تانیہ بیٹی ایسے کیوں بیٹھی ہو؟ کیا ہوا؟


تانیہ: کچھ نہیں امی ویسے ہی بیٹھی ہوں۔


امی: تم نے شاداب کو میرا پیغام دیا تھا؟


تانیہ: جی دیا تھا۔


امی: تو کیا کہا اس نے؟


تانیہ: کچھ نہیں کہنا کیا ہے۔۔۔پر امی آپ جو خواب دیکھ رہی ہیں وہ نہ دیکھیں تو بہتر ہے۔ میں آپ کو پہلے  بتا چکی ہوں آپ کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔


امی: تو کیا یہ صرف میری خواہش ہے؟


تانیہ: (بیزاری سے) جو بھی ہے امی!۔۔۔خواہشوں سے کیا ہوتا ہے۔


امی: تو پھر اس کے خواب کیوں دیکھتی ہو؟


تانیہ: خواب دیکھنے سے کسی کا کیا جاتا ہے۔ بس دل ذرہ بہل جاتا ہے۔ اور میرے لیۓ یہی کافی ہے۔


امی: پھر بھی میں ایک دفعہ ضرور بات کروں گی۔


تانیہ: (اٹھ کر، بیزاری سے) ٹھیک ہے امی آپ کر لینا بات! فی الحال میں جا رہی ہوں۔


(باہر نکل جاتی ہے)


 منظر#اکیاون


دن کا وقت۔ تنزیلا کا دفتر۔


ایک کیبن ہے جس میں ایک لڑکا جس کا نام طعیب ہے کھڑکی سے باہر تنزیلا کو کام کرتے دیکھ رہا ہے۔ تنزیلا اپنی سیٹ سے اٹھتی ہے اور ایک فائل لے کر دوسری سیٹ پر بیٹھی لڑکی کے پاس جاتی ہے۔ فائل دکھا کر اس سے کوئی بات کرتی ہے اور واپس اپنی سیٹ پر چلی جاتی ہے۔ ایک دوسرا لڑکا کیبن کے اندر داخل ہوتا ہے۔ 


ؐلڑکا: (اندر آکر) کیا دیکھ رہے ہو باہر؟ 


(کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)


طعیب: (وہیں کھڑے کھڑے) کچھ نہیں۔۔۔اچھا سنو۔۔۔(بھاگ کر اس کے پاس جاتا ہے) ایک کام تو کرو۔


لڑکا: کیا؟


طعیب: وہ جو لڑکی نہیں باہر بیٹھتی؟


لڑکا: کون سی لڑکی؟


طعیب: ارے یار وہ جو میرے کیبن کے سامنے والے ٹیبل پر بیٹھتی ہے۔


لڑکا: تنزیلا؟


طعیب: ہاں۔ تم پتہ تو کرو اس کی کہیں شادی یا منگنی وغیرہ تو نہیں ہوئی یا ہونے والی۔


لڑکا: دیکھا مجھے لگا ہی تھا یہ ہی چکر ہو گا۔۔۔پر تمہیں اس کی منگنی یا شادی سے کیا لینا دینا۔ اگر وہ لفٹ کرواتی ہے تو قدم بڑھاؤ اور کام چلاؤ۔ شادی ہوئی ہو یا منگنی تمہیں کیا۔


طعیب: نہیں یار وہ ایسی لڑکی نہیں اور نہ میرا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ 


لڑکا: اچھا تو یہاں معمالہ سیریئس ہے۔ جناب لو (love) وغیرہ کے چکر میں ہیں۔


طعیب: (مسکرا کر) ہاں ایسا ہی کچھ ہے۔


لڑکا: آۓ ہاۓ کیا بات ہے۔۔۔بس تو پھر ٹھیک ہے! سمجھو تمہارا کام ہو گیا وہ تو پھر اپنی بھابھی ہوئی تم فکر نہ کرو تمہارا بھائی اپنی بھابھی کی ساری معلومات لے کر آۓ گا۔۔۔ پر یاد رکھنا تمہاری اس کامیاب لو سٹوری میں تمہارے بھائی کا بھی ہاتھ تھا یہ نہ ہو کل کو بھول جاؤ۔


طعیب: پہلے کامیاب ہو تو لینے دو۔


لڑکا: ہو جاۓ گی ہم جو ہیں۔ کامیاب کروا دیں گے ہم کس لیۓ بیٹھے ہیں۔


طعیب: فی الحال بیٹھو نہیں اٹھ کر جاؤ اور مجھے کام کرنے دو۔


(اسے زبردستی اٹھاتا ہے)


لڑکا: ارے یار ٹھہرو تو۔۔۔۔مجھے بیٹھنے تو دو تھوڑی دیر۔


طعیب: نہیں جاؤ۔


(اسے باہر دھکیلتا ہے)


لڑکا: ٹھیک ہے معلومات بھی آدھی ہی لاؤں گا۔


طعیب: اچھا پہلے جاؤ تو۔۔۔


(باہر دھکیل کر دروازہ بند کر دیتا ہے)


منظر#باون


رات کا وقت۔ شاداب کا کمرا


شاداب اپنے کمرے میں بستر پر لیٹا چھت کو گھور رہا ہے۔ دروازہ پر دستک ہوتی ہے۔ اٹھ کر دروازہ کھولتا ہے۔ باہر اس کی امی ہیں۔ 


امی: (اندر آکر) سوۓ ہوۓ تھے؟


شاداب: نہیں جاگ رہا تھا۔


امی: لگ تو رہا ہے سوۓ ہوۓ تھے۔۔۔اچھا ادھر آؤ میری بات سنو۔ (چل کر بیڈ پر بیٹھ جاتی ہیں) (کمرے کا جائزہ لے کر) یہ کمرے کا کیا حال بنا رکھا ہے کوئی چیز سلیقے سے نہیں رکھی ہوئی۔ تولیہ دیکھو صوفے پر پڑا ہے، کپڑے تمہارے ادھر ادھر بکھرے ہیں۔ ابھی صبح ہی کمرے کی صفائی کی تھی۔


شاداب: (پاس آکر بیٹھتے ہوۓ) امی آپ جو بات کرنے آئی ہیں وہ کریں۔


امی: ٹھیک ہے میری بات دھیان سے سنو پھر۔۔۔تمہیں غفور ماموں کا تو پتہ ہے؟


شاداب: کون غفور ماموں؟ میرے ماموں یا آپ کے ماموں؟


امی: بیوقوف میرے ماموں کہاں سے ہو گۓ تمہارے ماموں ہیں۔ وہ جو تمہارے ابو کے کزن ہیں سکھر والے۔


شاداب: (بیزاری سے) جی امی پتہ ہے۔ آگے بولیں۔


امی: ان کی بیٹی کا رشتہ آیا ہے تمہارے لیۓ۔ مجھے اور تمہارے ابو کو تو منظور ہے۔ تم بتاؤ تمہیں منظور ہے یا نہیں؟



شاداب: نہیں امی مجھے نہیں منظور۔


امی: کیوں تمہیں کیوں نہیں منظور تم کہیں اور شادی کرنا چاہتے ہو؟


شاداب: نہیں فی الحال میں شادی کرنا نہیں چاہتا۔


امی: تو ابھی شادی کرنے کے لیۓ کون کہہ رہا ہے تم رشتے کے لیۓ ہاں کر دو شادی ہم کچھ سال بعد کر لیں گے۔ 


شاداب: نہیں امی میں نے بتایا ہے میں ابھی شادی یا کسی بھی قسم کا کوئی رشتہ نہیں کرنا چاہتا۔ آپ بس اس موضوع کو مت چھیڑنا۔


امی: ٹھیک ہے ابھی بات نہیں کرتی لیکن میں تمہیں بتا دوں تم اتنے اچھے رشتے کو ٹھکرا کر بیوقوفی کرو گے۔ اس لیۓ ایک دفعہ اچھی طرح سوچ لو پھر کوئی جواب دینا۔ (اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے) ابھی چلتی ہوں بعد میں تم سے دوبارہ پوچھوں گی۔ ٹھیک طرح سوچ سمجھ لو۔ (جاتے ہوۓ) اور یہ کمرے کی چیزیں درست کرو کتنا گندا لگ رہا ہے۔


(چلی جاتی ہے)


منظر#ترپن


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


چھٹکی فون پر کسی سے بات کر رہی ہے۔ کمرے میں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں۔


چھٹکی: یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔۔۔ہاں سچ میں۔۔۔نہیں اور تو کسی کو نہیں بتاؤں گی صرف آپی کو بتاؤں گی۔۔۔نہیں یار وہ کیوں کسی کو بتانے لگیں۔۔۔ہاں واقعی۔۔۔ (تنزیلا اندر آتی ہے)

چلو ٹھیک ہے میں بعد میں بات کرتی ہوں۔۔۔ہاں صحیح ہے۔۔۔ٹھیک ہے۔


(فون بند کر دیتی ہے)


چھٹکی: (پرجوش انداز میں) آپی ایک مزے کی بات پتہ لگی ہے۔


تنزیلا: کیا؟


چھٹکی: شاداب بھائی کا رشتہ آیا ہے مجھے ان کی بہن بتا رہی تھی۔


(تنزیلا سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتی ہے۔ پھر نظریں جھکا لیتی ہے)


تنزیلا: (لاپرواہی سے) تو میں کیا کروں۔


چھٹکی: آپی آپ کو بالکل بھی ایکسائٹمنٹ نہیں ہوئی۔


تنزیلا: (اٹھ کر میز پر پڑی ہوئی چیزوں کو درست کرنے لگتی ہے) اس میں ایکسائٹمنٹ والی کون سی بات ہے  سینکڑوں، ہزاروں لوگوں کی روزانہ شادی ہوتی ہے۔  


چھٹکی: آپی یہ کسی اور کی نہیں  شاداب بھائی کی بات ہے۔۔۔ اپنے شاداب بھائی کی۔


تنزیلا: تو کیا کروں بنگڑا ڈالوں۔۔۔جاؤ جا کر امی کی بات سنو تمہیں بلا رہی تھیں۔


(چھٹکی خیران ہو کر کمرے سے باہر نکل جاتی ہے۔ تنزیلا چل کر کھڑکی کے پاس جاتی ہے اور باہر دیکھنے لگتی ہے۔ اس کی پلکیں بھیگ جاتی ہیں)


منظر#چون


دن کا وقت۔ تنزیلا کا دفتر۔ 


طعیب اپنے کیبن میں بیٹھا کام کر رہا ہے۔ اس کا دوست اندر آتا ہے۔ آکر اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔


لڑکا: (داخل ہوتے وقت) مبارک ہو۔


طعیب: کس بات کی؟


لڑکا: تمہاری شادی کی۔


طعیب: اس بات پر ہنسوں؟


لڑکا: نہیں خوش ہو۔ 


طعیب: یار سیدھی طرح بکواس کرو کیا بات ہے۔


لڑکا: یارا مبارک باد اس لیۓ دے رہا تھا کہ تم پہلے مرحلے میں کامیاب ہو گۓ ہو۔ بھابھی کے متعلق سب کچھ پتہ کر کے آیا ہوں۔ نہ تو اس کی منگنی ہوئی ہے اور نہ اس کی شادی کی کہیں کوئی بات چل رہی ہے۔


طعیب: پکی انفارمیشن ہے؟ 


لڑکا: ہاں پکی ہے بلکہ پکی پکور ہے۔


طعیب: ہونہہ۔


لڑکا: میں نے اپنا کام کر دیا ہے اب تمہاری باری ہے۔ تم اس سے بات کرو۔


طعیب: میں۔۔۔میں کیا بات کروں؟


لڑکا: فارن پالیسی ڈسکس کر لینا۔۔۔عجیب آدمی ہو! اس سے بات کرو اور اسے بتاؤ کہ تم اسے پسند کرتے ہو اور اس سے شادی کرنا چاہتے ہو۔


طعیب: ہاں وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔ پر یار یہ بڑا مشکل کام ہے۔


لڑکا: مشکل تو ہے پر کرنا پڑے گا۔


(اٹھ کر ایک طرف جاتا ہے کچھ سوچ کر واپس پلٹتا ہے)


طعیب: ایک اور بات ہے جو مجھے کھٹک رہی ہے۔


لڑکا: کیا؟


طعیب: یہ تو پتہ چل گیا کہ اس کی شادی وغیرہ کی بات کہیں نہیں چل رہی۔ پر اس بات کا خدشہ ہے کہیں وہ  کسی اور کو پسند نہ کرتی ہو اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہو۔


لڑکا: اب اگر ایسا ہے تو۔۔۔ اس کا تو کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ پھر تمہارا نصیب۔ پر تم ابھی سے ایسا کیوں سوچ رہے ہو پہلے اس سے بات تو کرو پھر دیکھا جاۓ گا۔


(دوبارہ پلٹ کر پیچھے جاتا ہے اور کسی سوچ میں گم ہو جاتا ہے)


منظر#پچپن


رات کا وقت۔ تنزیلا کا گھر۔


کمرے میں چھٹکی اور تنزیلا ہیں۔ چھٹکی ایک طرف بیٹھی پڑھ رہی ہے جبکہ تنزیلا بھی کسی کام میں مگن ہے۔ چھٹکی سر اٹھا کر تنزیلا کی طرف دیکھتی ہے۔ چند لمحے خاموشی سے اسے کام کرتا دیکھتی ہے۔


چھٹکی: آپی۔۔۔


تنزیلا: (اس کی طرف دیکھے بغیر) ہاں؟


چھٹکی: شاداب بھائی نے اس رشتے سے انکار کر دیا ہے۔


(تنزیلا سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتی ہے)


چھٹکی: (جاری رکھتے ہوۓ) ہاں صحیح بات ہے۔ مجھے ان کی بہن نے آج بتایا ہے۔ 


(تنزیلا دوبارہ اپنا کام کرنے لگتی ہے)


تنزیلا: انکار کر دیا ہے تو کیا ہوا، اسے نہیں منظور ہو گا کہیں اور شادی کرنا چاہتا ہو گا۔


چھٹکی: (معنی خیز انداز سے) جی آپی آپ نے ٹھیک کہا وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں شاید۔۔۔لیکن آپ کو کیسے پتہ؟


تنزیلا: (اس کی طرف دیکھ کر) مجھے۔۔۔مجھے کیسے پتہ ہو گا۔ میں تو ویسے ہی کہہ رہی۔ یہی وجہ ہو گی ورنہ وہ کیوں انکار کرتا۔


(دوبارہ کام کرنے لگتی ہے)


چھٹکی: (معنی خیز انداز سے) ہونہہ۔۔۔ٹھیک کہا آپ نے آپ کو بھلا  کیسے پتہ ہو گا۔ 


تنزیلا: (نظریں چرا کر) ہاں ہاں وہی تو کہہ رہی۔


چھٹکی: (مسکرا کر) ہونہہ۔۔۔


منظر# چھپن



رات کا وقت۔ طعیب کا گھر۔


طعیب کمرے میں ٹہل رہا ہے۔ موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔ میز پر رکھے فون کو اٹھاتا ہے۔ فون پر اس کا وہی دوست ہے۔


طعیب: ہیلو۔۔۔


دوست: کدھر ہو آۓ نہیں ابھی تک؟


طعیب: کہاں نہیں آیا؟


دوست: فرحان کی طرف اور کہاں۔


طعیب: نہیں یار میرا بالکل موڈ نہیں ہے۔


دوست: ہاں جی اب ہم دوستوں سے ملنے کے لیۓ تمہارا موڈ کہاں کیا کرے گا۔ اب تو سارا وقت بھابھی کے لیۓ ہو گا۔ اچھا بات کی اس سے؟


طعیب: ہاں کی۔


دوست: نہ یار۔۔۔ واقعی۔۔۔سچی میں بات کی؟


طعیب: ہاں ہاں کی۔


دوست: واؤ! مجھے تو یقین نہیں آرہا۔ تم نے اتنی جلدی بات بھی کر لی۔  کیسے کی؟


طعیب: کیا کیسے کی جیسے کرتے ہیں ویسے کی۔


دوست: میرا مطلب ہے کیا بات ہوئی اور اس نے کیا کہا؟


طعیب: بس میں نے اس سے باتوں باتوں میں بتا دیا۔ اور آخر میں یہ کہہ کر چلا آیا کہ میں اس کے جواب کا منتظر رہوں گا۔


دوست: تو اس کا جواب آیا؟


طعیب: نہیں ابھی تک تو نہیں شاید کچھ دنوں تک کوئی جواب آۓ۔


دوست: واہ میرے یار شیر لگے ہو۔ تم نے تو میدان مار لیا۔


طعیب: ابھی کہاں ابھی تو اس کا جواب آنا باقی ہے اور جب تک جواب نہیں آۓ گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔


دوست: آجاۓ گا یار تم ریلیکس کرو۔ یہ میدان سر کر لیا ہے وہ بھی ہو جاۓ گا۔


طعیب: چل ٹھیک ہے میں تمہیں بعد میں کال کرتا ہوں۔


(فون بند کر دیتا ہے)


منظر#ستاون


دن کا وقت۔ تنزیلا کا دفتر۔


طعیب اپنے کیبن میں ہے۔ اس کے سامنے ایک لڑکی بیٹھی ہے جو تنزیلا کی کولیگ اور دوست ہے۔


لڑکی: میں تمہارے پاس تنزیلا کا پیغام لے کر آئی ہوں۔


طعیب: (خوش ہوتے ہوۓ) مجھے اسی کا انتظار تھا۔ اور جانتا تھا کہ وہ خود نہیں آئی گی بلکہ کسی اور کے ذریعے پیغام بھیجے گی۔ تو کہو کیا بولا ہے اس نے۔


لڑکی: دیکھو طعیب تم پتہ نہیں کیا سوچو اور کیا سمجھو مگر کوئی بھی بات کرنے سے پہلے میں تمہیں تنزیلا کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ وہ ان قسم کی لڑکیوں کی طرح نہیں ہے جن سے تم۔۔۔


طعیب: میں جانتا ہوں۔ تم جو کہنا چاہتی ہو بے فکر ہو کر کہو۔


لڑکی: بات دراصل یہ ہے طعیب! وہ تم سے شادی نہیں کر سکتی۔


طعیب: کیوں؟ کیا میری وجہ سے وہ۔۔۔


لڑکی: نہیں تمہارا مسئلہ نہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کے گھر کے حالات کچھ ایسے ہو گۓ ہیں کہ وہ اگلے کئ برسوں تک شادی نہیں کر سکتی اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور جب کبھی بھی وہ شادی کرے گی اسی سے کرے گی۔


 (طعیب اٹھتا ہے اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو جاتا ہے) 



لڑکی: (جاری رکھتے ہوۓ) وہ تو بدقسمتی سے حالات کچھ ایسے بن گۓ ورنہ اب تک شاید۔۔۔


(لڑکی اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے)


لڑکی: میں امید کروں تم بات کو سمجھو گے؟


(طعیب اثبات میں سر ہلاتا ہے)


لڑکی: ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔


(لڑکی چلی جاتی ہے۔ طعیب کھڑکی سے باہر تنزیلا پر افسردگی سے اک نظر ڈالتا ہے اور کھڑکی بند کر دیتا ہے) 



منظر#اٹھاون


دن کا وقت۔ ایک کمرا۔


چھٹکی جو اب کچھ بڑی عمر کی دکھائی دے رہی ہے اپنے بیڈ روم میں آئینے کے سامنے بیٹھی بال بنا رہی ہے۔ ایک طرف اس کا شوہر بیٹھا ہے۔ اس کے ہاتھ میں میگزین ہے جس کے صفحے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہے۔


چھٹکی: (کنگھی کرتے ہوۓ) جب سے ہماری شادی ہوئی ہے آپی بالکل اکیلی ہو گئ ہیں۔ امی کے گزرنے کے بعد میں اور احسن تھے اب تو احسن بھی باہر چلا گیا ہے۔۔۔عاصم چلیں آج آپی کی طرف؟۔۔۔ میرا دل بڑا گھبرا رہا ہے پتہ نہیں آپی کس حال میں ہوں گی آج کل بیمار بھی رہنے لگی ہیں۔ 


عاصم: تو انہیں فون کر کے حال چال پوچھ لو۔


چھٹکی: فون نہیں اٹھا رہیں اسی لیۓ تو اور زیادہ پریشانی لگ گئ ہے۔۔۔ خدا کے لیۓ چلیں عاصم تھوڑی دیر کے لیۓ ہو آتے ہیں۔


عاصم: اچھا بابا چلو ہو آتے ہیں۔


چھٹکی: (خوش ہوتے ہوۓ) ٹھیک ہے آپ نکلیں میں آتی ہوں۔


منظر#انسٹھ


دن کا وقت۔تنزیلا کا گھر۔


تنزیلا اپنے کمرے میں بیٹھی کچھ لکھ رہی ہے۔ اس کے بال سفید ہو چکے ہیں اور وہ کچھ ادھیڑ عمر کی اور بیمار دکھائی دے رہی ہے۔


تنزیلا: (لکھتے ہوۓ) معاف کرنا پرسوں موسم کی پہلی بارش تھی لیکن میں تمہیں خط نہیں لکھ سکی۔ (کھانستی ہے) آج طبعیت کچھ سنبھلی ہے تو سوچا موقع کا فائدہ اٹھایا جاۓ۔ کتنے برس بیت گۓ، کتنے موسم گزر گۓ آج تک تمہیں خط لکھنے میں کبھی کوتاہی نہیں ہوئی۔ لیکن اس ڈھلتی عمر اور گرتی صحت کے آگے کس کی چلی ہے۔ توانا سے توانا انسان بھی اس کے آگے بے بس ہے۔ امید ہے میرے اس عذر کو تم خوش دلی سے قبول کرو گے اور خط تاخیر سے لکھنے کی معافی دے دو گے۔ 


(دوبارہ کھانسنا شروع کر دیتی ہے۔ اٹھتی ہے اور میز پر پڑے ہوۓ جگ سے پانی گلاس میں ڈال کر پینے لگتی ہے۔ پانی پیتے ہوۓ اس کی نظر کھڑکی کے باہر جاتی ہے۔ باہر دیوار پر بیل دکھائی دیتی ہے جو تقریباً سوکھ چکی ہے۔ جلدی سے باہر نکلتی ہے۔ صحن میں آکر کیاری کے پاس ٹونٹی کے نیچے سے پانی کا برتن اٹھاتی ہے اور بیل کو پانی دینے کے لیۓ آگے بڑھتی ہے۔ پاؤں پھسلتا ہے اور نیچے گر جاتی ہے۔ برتن گرنے سے کچھ پانی بیل پر جا کر گرتا ہے۔


منظر#ساٹھ


دن کا وقت۔ 


ایک ادھیڑ عمر کا آدمی جو کہ شاداب ہے چلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی شکل دکھائی نہیں دے رہی۔ چلتے ہوۓ تنزیلا لوگوں کے گھر کے پاس رکتا ہے۔ ڈور بیل بجانے لگتا ہے مگر رک جاتا ہے۔ دوبارہ سے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے اور اس بار گھنٹی بجاتا ہے۔ رک کر انتظار کرتا ہے دروازہ نہ کھلنے پر دروازے پر ہاتھ رکھتا ہے وہ کھل جاتا ہے۔ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر جاتا ہے۔ اندر فرش پر تنزیلا گری پڑی ہے۔ اب اس کا چہرا دکھائی دیتا ہے۔ جلدی سے اس کے پاس جاتا ہے اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور خود بھی گر جاتا ہے۔ دیوار پر بیل دکھائی دیتی ہے جو دوبارہ سے ہری بھری ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

















































 














 
























 






















































 


 






 































 

















  











 




 




 




 












 





  






 

















 















 







  







Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات