Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




ماجد پچھلے دو گھنٹوں سے چھت پر بیٹھا دھوپ سیک رہا تھا۔ آج اتوار کا دن تھا مگر وہ عام طور پر اس دن گھر پر نہیں ہوتا تھا کیونکہ اسے جمعے والے دن چھٹی ہوتی تھی۔ لیکن آج اس کا کام پر جانے کو بالکل جی نہیں چاہ رہا تھا اس لیۓ اس نے کام سے ایک مناسب سا بہانہ لگا کر چھٹی کر لی اور چھت پر آکر بیٹھ گیا۔ پچھلے کئ دنوں سے اس کی کیفیت کچھ عجیب سی تھی کام پر اس کا بالکل بھی دل نہیں لگ رہا تھا اس لیۓ وہ کسی نہ کسی بہانے سے ہر دوسرے چوتھے روز چھٹی کر لیا کرتا تھا اور پورا دن چھت پر دھوپ میں پڑا رہتا تھا۔ اسے دھوپ میں بڑی طمانیت کا احساس ہو رہا تھا۔ اس نے ایک بڑی سی چوکی پر بیٹھے تقریباً اونگتے ہوۓ اردگرد نظر دوڑائی فضا میں بڑی پر سکون خاموشی چھائی تھی۔ آج چھٹی کا دن تھا اس لیۓ محلے کے تقریباً سبھی گھروں کی چھتوں کی منڈیروں پر گیلے کپڑے پڑے سوکھ رہے تھے، ان میں سے کچھ سوکھ گۓ تھے اور اتارے جانے کے منتظر تھے لیکن کچھ میں پانی ابھی ننھے ننھے قطروں کی صورت رس رہا تھا جو چھت کے فرش اور نیچے گلیوں میں گر گر کر جذب ہو رہا تھا۔ تاحدِ نگاہ چھتوں پر سواۓ گیلے کپڑوں کے  کوئی بھی آدمی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک دو گلیاں چھوڑ کر آگے ایک مکان کی چھت پر ایک چھوٹی سی بچی گیلے کپڑوں کی تار پر لٹکی جھولا جھول رہی تھی۔ وہ اپنی دونوں کہنیاں تار پر ٹکاۓ خود پوری طرح اس پر جھک کر تار کو آگے پیچھے دھکیل رہی تھی۔ ایک طرف ایک اونچے مکان کی چھت کی منڈیر پر ایک کوا کہیں سے اڑتا ہوا آکر بیٹھا اور کچھ دیر سستانے کے بعد دوبارہ اڑ گیا، جیسے کوئی تھکا ماندہ مسافر راستے میں کوئی بڑا سا پتھر دیکھ کر بیٹھ جاتا ہے اور کچھ دیر سستانے کے بعد آگے بڑھ جاتا ہے۔ اوپر آسمان کی وسعتوں میں چند چیلیں اور کوے ہوا میں مستی سے غوطے لگا رہے تھے۔ مطلع یوں تو صاف تھا مگر کافی بلندی پر بادلوں کے چند سفید ٹکڑے کہیں کہیں دکھائی دے رہے تھے۔ پرسکون خاموشی میں کسی پرندے کی اکا دکا چہکار کسی وقت سنائی دے جاتی تھی۔ دور سڑک پر گاڑیوں اور ٹریفک کا ہلکا سا بے ضرر شور کبھی کبھی سنائی دیتا تھا جس سے خاموش پرسکون جھیل میں چند لہریں پیدا ہوتیں اور کچھ لمحوں بعد دوبارہ ساکن ہو جاتی تھی۔ چند گلیاں پرے کہیں سے کسی پھیری والے کی صدا بلند ہوئی اور خاموش ہو گئ۔ ماجد اپنی جگہ سے اٹھا اور منڈیر کی دیوار کے ساتھ پڑی چارپائی پر آکر بیٹھ گیا جہاں سے ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ اٹھ کر چوکی پر جا بیٹھا تھا۔ چارپائی پر لیٹنے سے پہلے اس نے دو تین مکان چھوڑ کر چوتھے مکان کی طرف جھانکا جہاں ساجدہ رہتی تھی۔ وہ ساجدہ کے متعلق سوچنے لگا۔ ساجدہ کو وہ اچھی طرح جانتا تھا مگر آج سے پہلے اسے کبھی اس کا یوں بیٹھے بیٹھے خیال نہیں آیا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ ابھی اسی وقت وہ اسے دکھائی دے جاۓ۔ چند لمحے وہ یونہی ساجدہ کے گھر کی طرف دیکھتا رہا پھر چارپائی پر سیدھا لیٹ گیا اور اپنا ایک بازو سر کے نیچے رکھ کر تکیہ بنا کر اوپر آسمان پر اڑتے پرندوں کو ہوا میں تیرتے اور غوطے لگاتے دیکھنے لگا۔ سامنے والے گھر کی ٹنکی پر دو سفید پرندے آکر بیٹھے اور ان کے پیچھے مزید چند پرندوں نے آکر ٹنکی پر ڈیرے جما لیۓ۔ 


ماجد دیر تک وہاں لیٹا ساجدہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ جب چھوٹا تھا تو اکثر اوقات ساجدہ کے گھر جایا کرتا تھا تب ساجدہ کی امی زندہ تھیں اور اس کا اکثر و بیشتر اپنی امی کے کہنے پر ساجدہ کی امی کے پاس کسی نہ کسی کام سے جانا ہوتا رہتا تھا۔ اسے ساجدہ کے گھر میں کھیلنا اچھا لگتا تھا کیونکہ ایک تو ساجدہ کے گھر کی چھت سے دوسرے گھر پھلانگ کر جانا آسان تھا اس لیۓ اگر کھیلتے ہوۓ بال ان کے گھر گر جاتی تھی تو مانگنا نہیں پڑتی تھی بلکہ پھلانگ کر ان کی چھت سے آسانی سے لائی جا سکتی تھی۔ اور یہ کہ ساجدہ کی امی روزانہ کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز بچوں میں بانٹتی تھیں اس لیۓ سب بچوں کو ان کے گھر کھیلنا پسند تھا۔ لیکن ایک چیز تھی جو ساجدہ کے گھر اسے سخت ناپسند تھی اور جو اس کو اس کے گھر جانے سے روکتی تھی، وہ اندھیرے والا کمرا تھا جس کے بارے میں بچوں میں مشہور تھا کہ یہاں ایک بابا رہتا ہے جو بچوں کو پکڑ لیتا ہے۔ بلکہ کئ بچوں کے بقول انہوں نے تو اسے دیکھا بھی ہے۔ بالے نے تو ایک واقعہ سنا کر اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ اس کمرے میں ضرور ایک عدد بابا پایا جاتا ہے۔ اس کی بات کو جھٹلانا یوں بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ بالے کا گھر ساجدہ کے گھر کے ساتھ ملحق تھا اس لیۓ اس کی بات میں سچائی ہو سکتی تھی کہ اس نے یقیناً رات کے وقت جب وہ باتھ روم میں جانے کے لیۓ اٹھا تھا تو اس نے ساجدہ کے گھر  کے اس اندھیرے کمرے کے باہر ایک بابے کو ٹہلتے ہوۓ دیکھا تھا جو کچھ دیر ٹہلنے کے بعد واپس اس اندھیرے کمرے میں لوٹ گیا تھا۔ تب وہ اتنا ڈر گیا تھا اور اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ کبھی ساجدہ کے گھر کھیلنے نہیں جاۓ گا مگر اگلے دن کھیل کا شوق اسے دوبارہ وہاں لے گیا۔ پھر وہ بڑا ہو گیا اور اس کا ساجدہ کے گھر کھیلنا اور آنا جانا بھی بند ہو گیا تھا۔ کچھ عرصے تک ساجدہ اپنی امی کے ساتھ اس کے گھر آتی جاتی رہی مگر جب اس کی امی فوت ہوگئیں تو اس کے بعد ساجدہ نے اس کے گھر آنا جانا بند کر دیا۔ لیکن گلی سے گزرتے ہوۓ اور کہیں آتے جاتے ہوۓ ماجد نے اسے کئ بار دیکھا تھا مگر اسے کبھی بھی ساجدہ کا خیال نہیں آیا تھا۔ جب ان کا راستے میں کہیں آمنا سامنا ہوتا تو دونوں چپ چاپ گزر جاتے اور اپنے گھر کی راہ لیتے، نہ کبھی ماجد نے اس پر زیادہ دھیان دیا اور نہ ہی ساجدہ نے اس کے بارے میں کبھی سوچا۔ لیکن آج ماجد کو بار بار ساجدہ کا خیال آرہا تھا اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کہیں سے اس کی جھلک دکھائی دے جاۓ۔


ماجد محلے کے دوسرے لڑکوں کی طرح بالکل ایک عام سا لڑکا تھا۔ مناسب شکل و صورت تھی، گھنگریالے بال تھے جو ہر وقت بکھرے رہتے تھے۔ رنگ گندمی تھا۔ چہرے پر ہلکی سی باریک داڑھی اور مونچھ تھی، جس پر آج تک استرا یا مشین نہیں پھری تھی۔ گلے میں ایک تعویز ہر وقت لٹکتا رہتا تھا۔ ہمیشہ لمبے سے کڑتے کے نیچے جینز پہنی رکھتا تھا۔ پڑھنے لکھنے کا شوق بچپن سے ہی نہیں تھا بلکہ اسے گاڑیوں کا بے حد شوق تھا اس لیۓ ایف اے کے بعد پڑھائی چھوڑ کر اس نے ورک شاپ پر کام سیکھنا شروع کر دیا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ کام سیکھ کر وہ اپنی ورک شاپ بنا لے گا، شوق کی وجہ سے اس نے کچھ ہی عرصے میں بہت سا کام سیکھ لیا تھا۔


اس کے برعکس ساجدہ کافی اچھی شکل و صورت کی مالک تھی۔ ہمیشہ شلوار قمیض پہنتی تھی اور جب باہر جاتی تھی تو بڑی سی چادر اوڑھ لیتی تھی۔ انگلی پر ایک سرخ رنگ کی انگوٹھی ہر وقت پہنے رکھتی تھی، کسی فنکشن پہ جاتی یا کوئی تہوار کا دن آتا تو ہاتھوں پہ مہندی لگا لیتی اور کانوں میں کانٹے پہن لیتی تھی۔ اس سے زیادہ کبھی تیار نہیں ہوئی تھی۔ پڑھائی کا شوق تھا مگر امی کی وفات کے بعد گھر سنبھالنے کی ذمہ داری کے باعث اسے کالج چھوڑنا پڑا۔ کچھ عرصہ تک اس نے گھر بیٹھ کر تیاری کرکے پرائیویٹ امتحان دیا لیکن کام کے بوجھ اور وقت کی کمی کے باعث اسے آگے تک نہ لے جا سکی ۔بڑی بہن کی شادی کے بعد وہ گھر میں اکیلی ہو گئ اس لیۓ اس نے وقت گزاری کے لیۓ گھر پر ہی سینے کاڑھنے کا کام شروع کر لیا۔ اس کے باپ کی محلے سے باہر سڑک پر سگریٹوں کی دکان تھی ، اپنی بیوی کے فوت ہو جانے کے بعد ساجدہ کے گھر میں اکیلے ہونے کے باعث اس نے دکان پر ایک لڑکا رکھ لیا تا کہ شام کو دکان اس کے حوالے کرکے گھر جلدی لوٹ سکے۔ 


دھوپ ڈھل گئ تھی مگر ماجد ابھی تک وہیں پڑا تھا۔ جب سردی بڑھ گئ تو اٹھ کر اس نے پہلے ساجدہ کے گھر کی طرف دیکھا اور پھر نیچے چلا آیا۔ نیچے جا کر اس نے باہر جانے کا ارادہ کیا مگر پھر ارادہ ملتوی کرکے باہر جانے کی بجاۓ دوبارہ سیڑھیاں چڑھ کر نیچے والی چھت پر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ آتے ہی بستر پر گر گیا۔ ماجد کا کمرا زیادہ بڑا نہیں تھا آرائش کی چیزیں بھی کم تھیں۔ ایک طرف الماری تھی جس کا ایک کنڈا ٹوٹا ہوا تھا اور یوں نیچے لٹک رہا تھا جس طرح چھت سے یا اونچی دیوار سے چھلانگ لگانے کے لیۓ لٹکا جاتا ہے۔ وہ کنڈا بھی شاید چھلانگ لگانے کے لیۓ تیار تھا دیکھنے والے کو یوں ہی لگتا کہ ابھی ہلکی سی ٹھوکر یا ہوا کے کسی جھونکے سے گر پڑے گا مگر وہ پچھلے دو تین ماہ سے بڑی مستعدی سے اسی حالت میں لٹکا تھا۔ کمرے کے دوسری طرف دو بوسیدہ کرسیاں پڑی تھیں جن پر دھول اس بات کی نشاندہی کر رہی تھی کہ آج پورا دن ان کرسیوں پر کوئی نہیں بیٹھا تھا۔ جہاں دروازہ تھا اس کے دائیں ہاتھ دیوار کے ساتھ بستر لگا تھا جس پر ماجد اس وقت اوندے منہ لیٹا تھا۔ بستر کے بالکل اوپر کھڑکی تھی جو نیچے گلی میں کھلتی تھی مگر اس وقت بند تھی۔ باہر اندھیرا ابھی نہیں ہوا تھا اس لیۓ دروازے سے روشنی کا چھوٹا سا ٹکڑا اندر کمرے کے وسط تک آرہا تھا۔ ماجد کی لیٹتے ہی آنکھ لگ گئ۔


دوسری طرف ساجدہ باورچی خانے میں اپنے اور اپنے والد کے لیۓ کھانا بنا رہی تھی۔ وہ خود تو کھانا دیر سے کھاتی تھی مگر اس کا باپ گھر آتے ہی کھانا کھا لیا کرتا تھا۔ اس نے کھانا لاکر اپنے والد کے سامنے رکھا اور اس سے باتیں کرنے لگی۔ جب اس نے کھانا کھا لیا تو ساجدہ نے برتن اٹھاۓ اور باہر نکل آئی۔ اس کا والد ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہو گیا اور وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔ بستر پر لیٹ کر اس نے کچھ دیر تک موبائل استعمال کیا اور پھر اکتا کر اپنے سرہانے رکھ لیا۔ یہ مخض اتفاق تھا یا کیا تھا آج ساجدہ کی کیفیت بھی ماجد کی طرح ہی کی تھی۔ وہ بھی آج پورا دن بجھی بجھی اور گم سم سی رہی۔ لیٹے لیٹے اس نے کھلی کھڑکی سے باہر صحن میں جھانکا۔ باہر رات تھی لیکن چاند کی روشنی نے صحن کے آدھے حصے کو منور کر رکھا تھا۔ ساجدہ نے کھڑکی کے قریب ہو کر اوپر چاند کو دیکھنا چاہا مگر اندر کمرے سے چاند دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اس چاند کو دیکھنا چاہتی تھی جس کی دلاآویز چاندنی نے اس کے آنگن کے آدھے حصے کو پرنور بنا دیا تھا۔ 


ساجدہ کا گھر چھوٹا سا تھا۔ صحن نہ ہونے کے برابر  تھا درمیان میں تھوڑا سا خالی میدان تھا جس کے اردگرد کمرے تھے۔ البتہ چھت کچھ بڑا اور کھلا تھا۔ وہ جس کمرے میں لیٹی تھی وہ بڑا کمرا تھا جس میں کافی سارا سامان پڑا تھا۔ ایک طرف الماریاں تھیں اور دوسری طرف پیٹیاں تھیں جس میں بستر اور رضایاں وغیرہ رکھی تھیں۔ گھر میں مہمان آجاتے تو انہی پیٹیوں میں سے رضایاں اور بستر نکال کر مہمانوں کو دیۓ جاتے تھے۔ ایک طرف ایک دروازے کے ساتھ برتنوں کی الماری تھی جس میں طرح طرح کے برتن سجے تھے۔ اس کمرے کے پیچھے وہ کمرا تھا جو اندھیرا کمرا کہلاتا تھا جس سے بچے ڈرا کرتے تھے۔ 


ساجدہ کچھ دیر تک بے حس و حرکت پڑی کھڑکی سے باہر چاندنی میں بھیگتے صحن کو دیکھتی رہی، پھر اٹھی اور گرم شال اوڑھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس نے اپنے والد کے کمرے کی طرف دیکھا کمرے کا دروازہ بند تھا اور ٹی وی کی آواز نہیں آرہی تھی اس کا مطلب تھا کہ وہ سو گیا ہے۔ اس نے آہستہ سے صحن عبور کیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چھت پر آگئ۔ چھت پر پہنچتے ہی ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس سے ٹکرایا جس سے وہ ٹھٹر کر رہ گئ۔ سارا چھت چاندنی سے نہایا تھا۔ اپنے آپ کو گرم شال میں پوری طرح سے لپیٹ کر وہ آگے بڑی اور منڈیر کی دیوار پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئ۔ ہاتھ رکھتے ہی اسے ٹھنڈک کا احساس ہوا دیوار کافی ٹھنڈی تھی اور شبنم کے قطروں سے تھوڑی بہت بھیگی ہوئی بھی تھی۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ اٹھا کر دیکھا اس کی ہتھیلی میں نمی آگئ تھی۔ دور دور تک گھروں کی بتیاں روشن تھیں لیکن ان گھروں میں کوئی بھی انسان دکھائی نہیں دے رہا تھا یوں لگتا تھا یہ جیتے جاگتے انسانوں کا محلہ نہیں بلکہ ایک قبرستان ہے جہاں قبروں پر دیۓ جل رہے ہیں۔ ابھی رات اتنی زیادہ نہیں ہوئی تھی لیکن سردی کے باعث لوگ اپنے لحافوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ ساجدہ کو اندر کمرے کی نسبت یہاں زیادہ اچھا لگ رہا تھا وہ وہیں چھت پر ٹہلنے لگی۔


ماجد کی آنکھ کھلی تو اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ جیب سے موبائل نکال کر اس نے وقت دیکھا ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ تبھی ایک بارہ تیرا سال کا لڑکا جو ماجد کا چھوٹا بھائی تھا کمرے میں داخل ہوا۔ وہ آتے ہی بولا۔ 'بھائی جان امی کہہ رہی ہیں نیچے آکر کھانا کھا لو۔'


امی سے کہو میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا مجھے بھوک نہیں ہے۔' اس نے اپنے بھائی کو بھگا دیا اور بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پہلے غسل خانے گیا اور پھر کمرے سے نکل کر سیڑھیاں چڑھ کر دوبارہ اوپر والی چھت پر آگیا۔ چھت پر آکر اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور لائیٹر کے لیۓ اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ اپنی ساری جیبیں دیکھنے کے بعد واپس پلٹا اور نیچے اپنے کمرے میں آگیا، بستر سے لائیٹر اٹھایا اور دوبارہ چھت پر پہنچ گیا۔ منڈیر کی دیوار کے ساتھ آگے بڑھے ہوۓ چھوٹے سے ستون پر بیٹھ کر وہ اطمینان سے سگریٹ پینے لگا۔ سگریٹ پیتے ہوۓ اس نے نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا گلی کی نکڑ میں کھمبے پر میو نسپیلٹی والوں کا بڑا سا بلب سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لگایا، آہستہ سے دھواں فضا میں چھوڑا اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، چاند بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں مگن تھا۔ ان کے اردگرد بہت سے چمکدار ستارے اس کھیل کو دیکھ کر مخذوز ہو رہے تھے۔ ماجد بھی ان تماشائیوں میں شامل ہو گیا۔ رات زیادہ نہیں ہوئی تھی لیکن ہر شے پر سکوت طاری تھا۔ اسے  ساجدہ کا خیال آنے لگا۔ غیر ارادی طور پر اس کی نظریں ساجدہ کے گھر کی طرف گئیں مگر وہاں سواۓ اندھیرے کے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ 



ساجدہ کافی دیر تک منڈیر کی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی رہی۔ سردی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی لیکن اس کا یہاں سے جانے کو بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ کبھی وہ ٹہلنے لگ جاتی اور کبھی کھڑے ہو کر سامنے دور تک تاریکی میں پھیلے روشن گھروں کو دیکھنے لگتی۔ اچانک اس کی نظریں ایک گھر کے آگے آکر ٹھہر گئیں اسے وہاں باریک سا ایک نقطے کے سائز کا شعلہ دکھائی دیا۔ یہ ماجد کا گھر تھا۔ وہ خیران ہو رہی تھی کہ اتنی سردی میں اس وقت ماجد کی چھت پر کون ہے اور یہ نقطے کے برابر سرخ رنگ کی روشنی کس چیز کی ہے؟ کچھ دیر سوچنے پر اسے یاد آیا کہ جب اس کا باپ رات کو اپنے کمرے میں اندھیرے میں سگریٹ پیتا ہے تو اسے اپنی کھڑکی سے اسی قسم کا شعلہ دکھائی دیتا ہے۔ کچھ ہی پل میں وہ سمجھ گئ کہ یہ سگریٹ کا شعلہ ہے۔ لیکن اسے خیرت ہو رہی تھی کہ اس وقت ماجد لوگوں کی چھت پر سخت سردی میں سگریٹ کون پی رہا ہے؟ بغیر کسی تردد کے اس کا دھیان ماجد کی طرف گیا کیونکہ اس گھر میں سواۓ ماجد کے اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا جو اتنی رات گۓ سردی میں چھت پر جاۓ۔ اسے اس بات کا علم تھا کہ ماجد کا کمرا چھت پر ہے لہذا وہ سمجھ گئ کہ یہ ماجد کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن ماجد اس وقت اوپر والی چھت پر کیا کر رہا تھا جبکہ اس کا کمرا تو نیچے والی چھت پر ہے۔ اسے خیال آیا ہو سکتا ہے اسے بھی میری طرح نیند نہ آرہی ہو۔۔۔یا شاید وہ بھی چاند کو دیکھنے آیا ہو۔ کیا پتہ چاند کی سنہری چاندنی نے میری طرح اس کے تاریک آنگن کو بھی منور کر دیا ہو۔ وہ ماجد کے بارے میں سوچنے لگی جب ماجد بچپن میں اس کے گھر آکر کھیلا کرتا تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ 'ماجد کتنا ڈرپوک تھا اندھیرے والے کمرے سے سب سے زیادہ ماجد ڈرا کرتا تھا۔ جس اونچائی پر سب بچے بڑی آسانی کے ساتھ چڑھ جایا کرتے تھے اور وہاں سے چھلانگ لگا لیا کرتے تھے یہاں تک کہ لڑکیاں تک چھلانگ لگا لیتی تھیں لیکن ماجد وہاں بھی چڑھ نہیں پاتا تھا۔ اسے وہ دن یاد آیا جب ساتھ والے ایک خالی مکان میں شام کے وقت سب بچوں نے ماجد کو اکیلا بند کر دیا تھا تو وہ اندر ڈر کے مارے بے ہوش ہو گیا تھا۔ اس دن کا خیال آتے ہی ساجدہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئ۔ اسے بچپن کی ماجد کی بہت سی باتیں یاد آنے لگیں۔ پھر وہ سوچنے لگی اس نے ماجد کو قریب سے کب دیکھا تھا۔ اسے یاد آیا ابھی چند برس پہلے جب وہ اپنی آپی کے ساتھ ماجد کی بڑی بہن کی شادی پر شرکت کے لیۓ اس کے گھر گئ تھی تب اس نے ماجد کو بچپن کے بعد پہلی مرتبہ ٹھیک طرح سے دیکھا تھا۔ تب ماجد نے اس کا اور اس کی بڑی بہن کا کتنا خیال رکھا تھا اور ان کی بڑی اچھی خاطر مدارت کی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے اس دن بھی بڑے سے کڑتے کے نیچے جینز پہن رکھی تھی۔ تب اس نے چپکے سے ماجد کی بڑی بہن سے کہا تھا 'یہ تمہارے بھائی کو آج کے دن بھی پہننے کے لیۓ یہی لباس ملا ہے؟' اس کی بہن بولی۔ 'ہم سب نے تو بہت کہا کہ شادی پہ کوئی ڈھنگ کے کپڑے پہننا مگر وہ مانا ہی نہیں۔ اس نے تو شادی کے تینوں دنوں کے لیۓ مختلف رنگ کے کڑتے اور جینز خریدیں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے یہ اپنی شادی پہ بھی یہی کچھ پہنے گا۔' ساجدہ اس کی بات سن کر مسکرا دی۔


سگریٹ کا شعلہ بجھ چکا تھا اور اب ساجدہ کو وہاں اندھیرے کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ساجدہ کچھ دیر اور وہاں ٹھہرنے کے بعد نیچے چلی آئی۔


اگلا پورا دن اسے ماجد کا خیال آتا رہا۔ وہ جتنی بار کسی کام سے چھت پر گئ اس نے ماجد کے گھر کی طرف ضرور دیکھا لیکن ماجد اسے ایک بار بھی دکھائی نہ دیا۔ شام سے کچھ دیر پہلے جب ابھی ہلکی سی دھوپ باقی تھی ساجدہ چھت پر سلائی کے کام میں مصروف تھی تبھی اس نے سر اٹھا کر ماجد کے گھر کی طرف دیکھا۔ جتنی تیزی سے اس نے ماجد کے گھر کی طرف گردن اٹھا کر دیکھا اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ گردن واپس جھکا لی کیونکہ ماجد وہاں کھڑا اسی طرف دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے بغیر سر اٹھاۓ کن اکھیوں سے ماجد کے گھر کی طرف دیکھا ماجد ابھی بھی وہاں کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ اب کیا کرے اٹھ کر چلی جاۓ یا بیٹھی رہے۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے نیچے چلے جانا چاہیۓ ویسے بھی شام ہو رہی تھی سورج بس ڈھلنے ہی والا تھا۔ اس نے اٹھنے کا فیصلہ تو کر لیا تھا لیکن اس کا دل نیچے جانے کو بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔ چند لمحے وہ اسی تذبذب میں رہی اور پھر  اس نے سوچا کہ ابھی کچھ دیر رک جانا چاہیۓ۔ اس کے ہاتھ کپڑے پر سوئی دھاگے سے کچھ کاڑھنے پر لگے تھے  لیکن دھیان اس کا پوری طرح ماجد کی چھت پر تھا۔ کسی کسی وقت وہ سر اٹھا کر ماجد کی طرف نظر ڈال لیتی تھی اور دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہو جاتی۔ ماجد اسی طرح منڈیر کی دیوار کے ساتھ کھڑا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ دو تین بار ساجدہ نے بس ایک لمحے کے لیۓ اس کی طرف نگاہ کرکے گردن جھکا لی لیکن اس بار جب اس نے ماجد کی طرف دیکھا تو ماجد نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر اٹھایا اور تین انگلیوں کو آگے پیچھے کرکے اسے کوئی اشارہ کیا۔ جیسے کہہ رہا ہو ہاۓ یا ہیلو۔۔۔ساجدہ اس کا اشارہ دیکھ کر مسکرائی۔ اس کے بعد کافی دیر تک دونوں بغیر کچھ بولے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ جب دھوپ ڈھل گئ تو ساجدہ نے سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر نیچے جانے سے پہلے اسے اپنی آنکھوں سے اس کی آنکھوں تک آخری پیغام پہنچایا اور نیچے چلی گئ۔ 


ماجد اس کے جانے کے کافی دیر بعد بھی چھت پر رہا اور مغرب کی جانب غروبِ آفتاب کے منظر کو بڑے انہماک سے دیکھتا رہا۔ وہ آج بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ برسوں بعد اس کے چہرے پر ایسی بشاشت آئی تھی اور یہ سب ساجدہ کی بدولت ہوا تھا۔ اگرچہ آج اس کی ساجدہ سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی نہ ہی انہوں نے ایک دوسرے سے کسی قسم کا کوئی اظہار کیا تھا لیکن ساجدہ کی طرف سے آنکھوں ہی آنکھوں میں جو خاموش پیغام اسے موصول ہوا تھا یہ کسی بھی قسم کے تقریری پیغام سے بڑھ کر تھا۔ یہ ایسا اظہار تھا جو الفاظ کا مختاج نہیں تھا، دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ زبان بھی اس کے آگے ہیچ تھی۔  جب سورج آسمان کی وسعتوں میں کہیں روپوش ہو گیا تو وہ اپنے کمرے میں چلا آیا۔ 



رات کے وقت ساجدہ اپنے کمرے میں لیٹی اس پہر کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی جس پہر کل رات وہ چھت پر گئ تھی۔ اسے یقین تھا کہ ماجد آج پھر چھت پر آۓ گا حالانکہ وہ جانتی تھی کہ ماجد کو اس بات کا بالکل بھی علم نہیں کہ کل رات جب ماجد چھت پر سگریٹ پی رہا تھا تو وہ بھی اس وقت وہاں موجود تھی لیکن پھر بھی اس کا دل کہتا تھا کہ ماجد آج بھی ضرور آۓ گا۔ کافی دیر تک وہ وقت کاٹنے کے لیۓ موبائل پر مختلف ویڈیوز دیکھتی رہی اور جب وہ گھڑی آگئ جس کا اسے انتظار تھا تو اٹھ کر شال اوڑھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ اک نظر سامنے کمرے کی طرف ڈال کر دھیرے سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچ گئ۔ آج بھی پورا چھت چاندنی سے نہایا تھا۔ وہ آگے بڑھی اور منڈیر کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ماجد کے گھر کی طرف دیکھنے لگی لیکن وہاں سواۓ اندھیرے کے کچھ بھی نہیں تھا وہ چھت پر ٹہلنے لگی۔ اس کا دھیان مکمل طور پر ماجد کی چھت کی طرف تھا وہ انتظار کر رہی تھی کہ جلدی سے چھوٹا سا شعلہ دکھائی دے اور اسے علم ہو جاۓ کہ ماجد وہاں آگیا ہے۔ مگر کافی دیر انتظار کرنے کے بعد اسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ وہ مایوس ہونے لگی۔ اس نے سوچا شاید وہ آج نہ آۓ، اسے تھوڑی علم ہے کہ میں اس وقت چھت پر ہوں اور اس کا انتظار کر رہی ہوں۔ کل تو شاید وہ یونہی کسی وجہ سے آگیا ہو گا ورنہ وہ اتنا پاگل تھوڑی ہے کہ اتنی سخت سردی میں رات کو روز چھت پر آۓ۔ اس نے موبائل سے وقت دیکھا اور سوچا کہ مزید پانچ منٹ انتظار کرکے دیکھ لینا چاہیۓ اگر وہ نہ آیا تو وہ بھی نیچے چلی جاۓ گی۔ پانچ منٹ تک وہ بے چینی سے ٹہلتی رہی لیکن اسے وہاں کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ چھت پر نہیں آیا یا اگر آیا بھی تھا تو اس کے آنے سے پہلے واپس چلا گیا تھا۔ وہ نیچے جانے کے لیۓ جیسے ہی پلٹنے لگی اسے ماجد کی چھت پر ہلکی سی روشنی ہوتے دکھائی دی۔ یہ روشنی اس لائیٹر کی تھی جس سے ماجد نے سگریٹ جلایا تھا۔ جونہی وہ روشنی بجھی اس کے بعد وہی شعلہ ساجدہ کو دکھائی دیا جو اس نے کل رات دیکھا تھا۔ اسے تو یہ معلوم ہو گیا کہ ماجد چھت پر آگیا ہے مگر ماجد کو ابھی تک علم نہیں تھا کہ ساجدہ بھی اس وقت چھت پر ہے۔ چاند کی روشنی بہت تھی مگر اتنی نہیں تھی کہ دور سے ساجدہ اسے دکھائی دے جاتی۔ اس نے اپنا موبائل آن کیا اور موبائل کی سکرین کو دوسری طرف موڑ کر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گھمانے لگی۔ ماجد نے جب ساجدہ کی چھت پر روشنی ہوتے دیکھی تو ایک ہی پل میں وہ سمجھ گیا کہ یہ موبائل کی روشنی ہے اور کوئی موبائل کو ادھر ادھر گھما رہا ہے۔ لیکن اسے خیرت ہوئی کہ اس وقت ساجدہ کی چھت پر کون ہو سکتا ہے۔ وہ بڑی اچھی طرح جانتا تھا کہ ساجدہ کے گھر میں صرف دو لوگ رہتے ہیں ایک خود ساجدہ اور ایک اس کا باپ، اس کا باپ اس وقت چھت پر کیوں آۓ گا۔۔۔ تو پھر کیا ساجدہ؟ لیکن ساجدہ اس وقت اتنی رات گۓ؟۔۔۔وہ اسی سوچ میں تھا کہ ساجدہ نے موبائل کی سکرین اپنی طرف گھمائی موبائل کی روشنی جب ساجدہ کے چہرے اور سر پر پڑی تو ماجد کو ساجدہ کی واضح شکل تو نظر نہ آئی لیکن اسے اس کے بالوں اور چہرے کا دنھدلا سا سایہ نظر آگیا۔ بال اس کے پیچھے جوڑے کی شکل میں بندھے تھے جس سے اسے معلوم ہو گیا کہ یہ کوئی لڑکی ہے۔ اس گھر میں صرف وہی ایک لڑکی تھی اس لیۓ اسے یقین ہو گیا کہ یہ ساجدہ ہی ہے۔ اس نے بھی اپنا موبائل نکالا اور ٹارچ آن کر کے روشنی والا حصہ ساجدہ کے گھر کی طرف کرکے موبائل کو یہاں وہاں گھمانے لگا۔ ساجدہ نے دیکھا تو مسکرا دی اس نے بھی موبائل کو دوبارہ اسی طرح گھمانا شروع کر دیا۔ دونوں کافی دیر تک ہنستے ہوۓ اس کھیل سے مخذوذ ہوتے رہے۔ ساجدہ کو اس کا چہرا تو دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ وہ بھی دوسری طرف یقیناً ہنس رہا ہو گا۔ یہی اندازہ ماجد بھی لگا رہا تھا۔ کافی دیر تک دونوں چھت پر رہے اور موبائل کی روشنی سے ایک دوسرے کو خاموش پیغام پہنچاتے رہے۔ رات کافی ہو گئ تھی اور سردی بھی بہت بڑھ گئ تھی۔ انہوں نے سوچا کہ اب نیچے چلے جانا چاہیۓ ساجدہ نے اپنا ہاتھ روشنی کے آگے کرکے اسے جانے کا اشارہ کیا ماجد نے اشارہ سمجھتے ہوۓ خود بھی بالکل اسی طرح ہاتھ ہلایا، اس کے بعد ساجدہ نیچے چلی گئ۔ ماجد کچھ دیر تک چھت پر کھڑا سگریٹ پیتا رہا جب اپنا بچا ہوا آدھا سگریٹ اس نے ختم کر لیا تو نیچے اپنے کمرے میں چلا آیا۔


اگلے دن ماجد کو کسی وجہ سے کام سے چھٹی تھی اس لیۓ وہ اگلا پورا دن چھت پر رہا۔ ساجدہ کئ بار اپنی چھت پر آئی اور کئ بار گئ۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے بات ہو سکے مگر اتنی دور سے دونوں صرف ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے بات نہیں کر سکتے تھے۔ آخر کار ماجد کسی طرح اپنا نمبر ساجدہ تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد سارا دن وہ ساجدہ کی طرف سے کال یا میسج کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔ شام ہو گئ تو وہ اپنے کمرے میں آگیا۔ موبائل اس کے ہاتھ میں تھا وہ بے چینی سے ساجدہ کی طرف سے کسی پیغام کا انتظار کر رہا تھا۔ ابھی وہ اپنے کمرے میں لیٹا تھا تبھی اس کے چھوٹے بھائی نے آکر کہا کہ امی اسے نیچے بلا رہی ہیں۔ وہ نیچے چلا گیا۔ گھر کے کسی کام سے باہر گیا اور جلدی کام ختم کرکے لوٹ آیا، ابھی اپنے کمرے میں پہنچا ہی تھا کہ اسے کسی انجان نمبر سے کال موصول ہوئی اس نے سوچا یہ ساجدہ ہی ہوگی اس نے فوراً کال اٹھائی لیکن ساجدہ نہیں تھی بلکہ کسی اور کی کال تھی۔ اس نے بد دلی سے کال سنی اور جلدی سے بات ختم کرکے فون بند کر دیا۔ اس کے بعد دو ایک بار اسے پھر کسی کام سے باہر جانا پڑا۔ رات ہو گئ تھی اور سردی بھی بہت بڑھ گئ تھی واپس اپنے کمرے میں آتے ہی وہ فوراً بستر میں گھس گیا۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد اسے موبائل پر ایک پیغام موصول ہوا، یہ ساجدہ کا میسج تھا۔ ماجد کا اترا ہوا چہرا کھل اٹھا۔


اس دن کے بعد دونوں کی باقاعدگی سے بات ہونے لگی، دونوں نے ایک دوسرے سے بہت سی باتیں کیں اور بہت سی باتیں بتائیں۔ وہ باتیں جو وہ پہلے سے جانتے تھے اور وہ جو وہ بالکل نہیں جانتے تھے۔ کسی تہوار کے دن یا دونوں میں سے کسی کی سالگرہ پر مختلف حیلے بہانوں سے چھپ چھپا کے تحائف بھی پہنچاۓ جانے لگے۔ رات کے وقت دونوں ابھی بھی اکثر چھت پر چلے جایا کرتے تھے، موسم بدل رہا تھا اس لیۓ اب وہ رات دیر تک اپنی اپنی چھت پر بیٹھے موبائل پر اک دوسرے سے باتیں کیا کرتے تھے۔ سردی میں وہ شدت باقی نہیں رہی تھی لیکن ابھی بھی اندھیرا پھیلتے ہی محلے کی گلیاں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔ اک رات دونوں اپنی اپنی چھت پر تاروں بھرے ٹھنڈے آسمان کے نیچے بیٹھے تھے۔ ساجدہ اسے شرارتاً کہہ رہی تھی 'آپ بچپن میں کتنے ڈرپوک تھے معمولی سے اندھیرے سے اور ذرا سی اونچائی سے ڈر جایا کرتے تھے، مجھے لگتا ہے ابھی بھی آپ ڈرپوک ہی ہو۔'


جی نہیں۔ وہ تو بچپن کی بات تھی اب تو ایسا نہیں ہے۔' اس نے جواب دیا۔



لیکن مجھے تو نہیں لگتا۔' وہ مذاق سے بولی۔ 'آپ تو ابھی بھی ڈرپوک ہو اور بہت ڈرپوک ہو۔'


اگر میں اس وقت ثابت کر دوں کہ میں بالکل نہیں ڈرتا تو؟' 


کیسے کریں گے؟'


میں ابھی اسی وقت اپنی چھت پھلانگ کر تمہاری چھت پر تمہارے پاس آسکتا ہوں۔'


 آپ بالکل نہیں آسکتے۔' وہ ہنستے ہوۓ بولی۔



آسکتا ہوں۔' اس نے اعتماد سے کہا۔


کیسے آئیں گے درمیان میں گلی ہے اور تین چار گھر ہیں اس کے بعد ہمارا گھر آتا ہے، آپ وہ سب کیسے پھلانگو گے؟'


وہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔'


 'آپ نہیں آسکتے اگر آپ گلی سے ہو کر آؤ گے تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔'


میں گلی سے نہیں آرہا بتایا تو ہے میں چھتیں پھلانگ کر آؤں گا۔'


وہ پھر سے ہنسی۔ 'وہ تو آپ پھلانگ ہی نہیں سکتے۔'


چلو ٹھیک ہے پھر دیکھ لینا۔ لگی شرط؟' وہ اٹھتے ہوۓ بولا۔



لگی۔'


تیار رہنا پھر، میں آیا۔'


اچھا... کتنی دیر انتظار کروں' اس نے مسکراتے ہوۓ طنزیہ کہا 'پندرہ منٹ، بیس منٹ یا آدھا گھنٹہ؟'


بس دس منٹ انتظار کرو بلکہ ایسا کرو سو تک گنتی گنو، گنتی ختم ہوتے ہی میں تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔'


وہ کھل کھلا کر ہنسی پڑی۔ 'اوہ اچھا جی! اتنی جلدی پہنچ جائیں گے آپ۔۔۔ تو یہ بھی بتا دیں گنتی آہستہ گنو یا تیزی سے؟'


 تھوڑی تیز گننا کیونکہ آہستہ گننے سے تو میں آدھی گنتی میں ہی پہنچ جاؤں گا۔ ایسے میں تمہیں شرمندگی ہو گی کہ تم اتنی آسانی سے شرط ہار گئ۔


وہ مسکرائی، 'ٹھیک ہے پھر پندرہ منٹ کے بعد میں نیچے چلی جاؤں گی اور اگر آپ کی ہڈی پسلی، ہاتھ پاؤں سلامت رہے تو کل آپ کو اسی چھت پر نظر آؤں گی تب تک کے لیۓ گڈ باۓ۔' ساجدہ نے فون بند کر دیا۔ اسے یقین تھا کہ ماجد نہیں آۓ گا وہ ابھی تھوڑی دیر بعد فون کرکے کہے گا کہ میں نے کوشش کی لیکن کافی فاصلہ تھا اور یوں تھا، ایسا تھا، ویسا تھا۔ اس نے تو ایسے ہی شرط قبول کر لی تھی کیونکہ وہ تو اسے ایک مذاق سمجھ رہی تھی۔ دوسری طرف ماجد نے مذاق مذاق میں ہی سہی مگر اب ارادہ بنا لیا تھا کہ وہ چھتیں پھلانگ کر وہاں جاۓ گا۔ لیکن یہ سب کہنا آسان تھا مگر کرنا بڑا مشکل تھا۔ ساجدہ سے تو اس نے یہ کہہ دیا تھا مگر اب وہ کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیا کرے، درمیان میں گلی تھی جو زیادہ کشادہ تو نہیں تھی مگر اسے پھلانگ کر دوسری چھت پر جانا خاصا دشوار تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اگر ذرا سا ہاتھ یا پاؤں پھسلا تو سیدھا دو منزل نیچے زمین پر گروں گا اور اگر کسی کو پتہ نہ چلا تو رات بھر ایسے ہی پڑا رہنا پڑے گا کوئی اٹھانے بھی نہیں آۓ گا۔ 'لیکن ماجد بیٹا دعویٰ تو کردیا ہے اب اسے پورا بھی کرنا پڑے گا۔' وہ اپنے آپ سے بڑبڑایا۔ مسئلہ صرف گلی والا نہیں تھا اس سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جن گھروں کی چھتوں کو اس نے پھلانگنا تھا اگر ان میں سے کسی نے اسے دیکھ لیا تو معاملہ بڑا خطرناک ہو سکتا تھا۔ ایک دفعہ تو اس کے ذہن میں آیا کہ رہنے دیتا ہوں مگر پھر اس نے سوچا کہ چلو آج ہو ہی جاۓ، جو بھی ہو گا دیکھا جاۓ گا۔ اس نے اللّٰه‎ کا نام لیا اور دیوار پر چڑھ گیا۔ ایک طرف جہاں گلی تھوڑی تنگ تھی اور دونوں گھروں کے درمیان فاصلہ ذرہ کم تھا وہ وہاں تک چل کر گیا اور کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ جس جگہ وہ کھڑا تھا اس کے بالکل سامنے دوسرے گھر پر ایک کمرے کی دیوار تھی جس میں ایک کھڑکی تھی، اس کھڑکی کے اوپر ایک چھوٹی سی پرچھتی (شیڈ) تھی جو کچھ آگے تک بڑھی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی منڈیر پر کھڑے ہو کر تھوڑا آگے جھک کر پرچھتی کو پکڑ لیا اور نیچے گلی میں جھانکا اونچائی دیکھ کر اس کے ماتھے پر پسینہ آگیا مگر ہمت کرکے وہ آگے بڑھا اور چند قدم چل کر اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں سے اس نے پھلانگ کر دوسری طرف جانا تھا۔ کچھ دیر جگہ کا ٹھیک طرح سے معائنہ کرنے کے بعد نیچے جھکا اور اپنی منڈیر کی دیوار کو مضبوطی سے پکڑ کر نیچے لٹک گیا۔ سامنے والے گھر کی دیوار کے ساتھ ایک بڑا سا پائپ دیوار کے ساتھ ساتھ آگے تک جارہا تھا وہ اپنا پاؤں اس پر جمانے کی کوشش کرنے لگا۔ تین چار بار کوشش کرنے پر اس نے اپنا پاؤں ٹھیک طرح سے پائپ پر جما لیا۔ اب یہاں سے وہ مرحلہ تھا جس کو پار کرنا اصل کام تھا، معمولی سی چوک اسے نیچے گلی میں گرا سکتی تھی جس سے ٹانگ، بازو، گردن کچھ بھی ٹوٹ سکتا تھا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ اس کا پاؤں ٹھیک طرح سے پائپ پر جم گیا ہے تو اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنے جسم کو آگے کی طرف دھکیلا اور جلدی سے سامنے والی منڈیر کی دیوار کو پکڑ لیا، دیوار کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑنے کے بعد اس نے دوسرا پاؤں بھی لوہے کے پائپ پر رکھا اور زور لگا کر اوپر دیوار پر چڑھ گیا۔ اسے لگا کہ اس نے ایک بھپرتے ہوۓ طغیاں دریا کو عبور کیا ہے۔ دریا اس نے عبور کر لیا تھا  اب صرف چھوٹی چھوٹی ندیاں رہ گئ تھیں جو اسے پار کرنی تھیں مگر یہ ندیاں دریا سے زیادہ پر خطر ہو سکتی تھیں کیونکہ دریا پر تو صرف جان جانے کا اندیشہ تھا لیکن اگر یہ ندیاں بپھریں تو جان کے ساتھ عزت آبرو سب کچھ بہا کے لے جائیں گی۔ وہ بڑی آہستگی سے نیچے اترا اور چھت پر جھک کر آرام آرام سے چلنے لگا۔ چھت پر صرف چاند اور تاروں کی روشنی پہنچ رہی تھی۔ اردگرد کے مکانوں کی بتیاں جل رہی تھیں مگر ان کی روشنی گھر کے نچلے حصے تک پڑ رہی تھی اوپر چھت پر مشکل ہی سے پہنچ رہی تھی۔ چل کر وہ چھت کے دوسرے کنارے پہنچا اور منڈیر کی دیوار پر چڑھ گیا۔ اگلا مکان اس مکان کے ساتھ جڑا تھا اس لیۓ اسے اگلی چھت پر جانے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ اس چھت پر بھی اس نے ایسے ہی کیا اور بڑی آہستگی سے اتر کر جھک کر بڑے آرام سے چلتے ہوۓ وہ یہ والی چھت بھی عبور کر گیا۔ اس سے اگلے مکان کی منڈیر کی دیوار کے پاس پہنچا اور اوپر دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دیوار پر بیٹھے ہوۓ اردگرد نظر دوڑائی دور دور تک نیم تاریکی میں ڈوبے مکانوں کا جنگل پھیلا تھا جن کے مکین اپنی دن بھر کی بے ایمانیوں، مکاریوں، چلاکیوں، جھوٹ اور فریب کی تھکان لیۓ اپنے گرم کمروں اور نرم لحافوں میں سوۓ پڑے تھے۔ کوئی تھا جس نے دن بھر کم قیمت چیز کے زیادہ دام وصول کیۓ تھے، کسی نے ہسپتال میں مریضوں کو معمولی سے اپریشن کے عوض لوٹ لیا تھا، کسی نے کچہری میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ  ثابت کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملاۓ تھے، کسی نے اپنے ہی رشتے داروں سے دھوکا کیا تھا اور کوئی اپنے دوستوں اور سگے بہن بھائیوں سے رنجشیں بڑھا کر سویا تھا۔ ایک نے دوسرے سے جھوٹ بولا تھا اور دوسرے نے کسی تیسرے سے مکر کیا تھا۔ یقیناً اس اجڑے ہوۓ چمن میں چند مہکتے پھول بھی تھے جنہوں نے چمن کی شادابی کو کسی حد تک باقی رکھا تھا۔ 



 ماجد منڈیر کی دیوار سے اتر آیا اور آہستہ سے چل کر یہ چھت بھی عبور کر گیا۔ جب وہ آخری چھت پر پہنچا تو دیوار پر بیٹھ کر اس نے ساجدہ کے گھر کی طرف دیکھا اسے وہاں ایک سایہ سا دکھائی دیا۔ اسے علم ہو گیا کہ یہ ساجدہ ہی ہے۔ وہ دیوار سے اتر کر آگے بڑھا۔ یہ چھت ساجدہ کی چھت سے کچھ نیچے تھی، ساجدہ اوپر تھی اس کی نظر ابھی تک ماجد پر نہیں پڑی تھی۔ وہ بے چینی سے ٹہل رہی تھی اور بار بار وقت دیکھ رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی ماجد نے اسے ابھی تک فون کیوں نہیں کیا۔ کہیں وہ سچ مچ تو نہیں آرہا؟ لیکن وہ اتنا بیوقوف تو نہیں کہ ایسے ہی چلا آۓ۔ پھر ابھی تک اس نے فون کیوں نہیں کیا؟ بیس منٹ گزر چکے تھے اس نے سوچا وہ اسے خود کال کر لیتی ہے۔ اس نے مڑ کر ماجد کے گھر کی طرف دیکھا اور نمبر ڈائل کرنے ہی والی تھی کہ اس کی نظر نیچے والی چھت پر پڑی وہاں ایک سایہ سا جھک کر چلتا ہوا اسی طرف آرہا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا تو اسے ماجد کا چہرا دکھائی دیا۔ وہ گبھرا گئ۔ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا ماجد یوں چلا آۓ گا۔  جب وہ اس کے گھر کے قریب آیا اور اوپر چھت پر چڑھنے لگا تو وہ دھیرے سے یوں بولی کہ آواز صرف ماجد تک پہنچ سکے۔ 'یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟'


ماجد وہیں رک گیا۔ 'اپنی شرط پوری کر رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں۔'


خدا کے لیۓ آپ چلے جائیں اگر کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجاۓ گی۔' وہ گھبراۓ ہوۓ انداز سے بولی۔


اب اتنا بڑا خطرہ مول لے کر آ ہی گیا ہوں تو کچھ دیر تو مجھے رکنا چاہیۓ ۔' اس نے اوپر چڑھنے کے لیۓ ہاتھ دیوار سے اٹکاۓ۔


نہیں آپ ابھی واپس چلے جائیں۔ آپ یہاں تک پہنچ گۓ ہیں شرط پوری ہو گئ، آپ شرط جیت گۓ ہیں اب زیادہ دیر یہاں نہ رکیں اردگرد سے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔'


اس وقت اتنی سردی میں کون چھت پر آۓ گا۔ میں اسی جگہ کھڑا رہتا ہوں اوپر نہیں آتا۔ میں تمہارے لیۓ ایک چھوٹا سا تحفہ لایا ہوں بس تمہیں وہ دکھانا ہے اس کے بعد چلا جاؤں گا زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ رکوں گا۔' ماجد نے اصرار کیا تو ساجدہ مان گئ۔ وہ بولی۔ 'اچھا ٹھیک ہے بس پانچ منٹ۔۔۔دیں کون سا تحفہ دینا ہے؟'


ماجد نے جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی اور تھوڑا سا اوپر چڑھ کر ساجدہ کو پکڑا دی۔


یہ کیا ہے؟' ساجدہ نے ڈبیا پکڑتے ہوۓ پوچھا۔


کھول کر دیکھو۔' 


ساجدہ نے ڈبیا کھولی اندر ایک چھوٹی سی خوبصورت انگوٹھی تھی۔ ساجدہ اسے دیکھ کر خیران رہ گئ۔ یہ کس لیۓ؟' اس نے پوچھا۔


یہی دینے کے لیۓ تو میں اتنا خطرہ مول لے کر یہاں آیا ہوں۔ اور تمہیں ایک اور بات بتاؤں صبح میں اپنے گھر والوں سے ہمارے بارے میں بات کرنے والا ہوں اس کے بعد تو تمہیں انگوٹھی پہنانے وہ آئیں گے۔ لیکن ایسے نہیں جیسے میں آیا ہوں وہ سیدھے راستے سے آئیں گے۔' اس کی بات سن کر ساجدہ کے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ پھیل گئ۔ 


 یہ سب تو آپ مجھے فون پر بھی بتا سکتے تھے۔' وہ بولی۔ 'اور انگوٹھی بھی صبح کسی دوسرے طریقے سے بھجوا سکتے تھے یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟'


اگر ایسا نہیں کرتا تو یہ مزا کیسے آتا جو اب آیا ہے۔ تم ہی بتاؤ میرا اس طرح انگوٹھی دینا تمہیں زندگی بھر یاد رہے گا کہ نہیں؟'


ساجدہ مسکرا دی۔ خوشی کے مارے کچھ دیر تک وہ بالکل بھول گئ کہ وہ کس جگہ کھڑی تھی۔ بلکہ دونوں ہی چند لمحوں تک اردگرد سے یکسر بے خبر ہو گۓ تھے۔ دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ خوبصورت چاندنی کی، محبت کی باتیں، خوشنما رنگوں کی باتیں، خوشگوار گیتوں کی باتیں، خوش رنگ پھولوں کی باتیں۔ 



ابھی وہ وہیں کھڑے تھے تبھی کسی کے چلانے کی آواز آئی۔ 'چور چور پکڑو۔۔۔کوئی چور ہے، ہماری چھت پر کوئی چور ہے۔' 


ماجد نے گبھرا کر پیچھے دیکھا اس کے پیچھے دروازے کے پاس جہاں سیڑھیاں تھیں کوئی عورت کھڑی چلا رہی تھی اس کی آواز سن کر نیچے سے ایک دو آدمی چھت پر آگۓ انہوں نے اوپر ساجدہ کو بھی دیکھ لیا تھا۔ وہ ماجد کو بھی جانتے تھے۔ کچھ ہی پل میں وہ سمجھ گۓ کہ یہ معاملہ چوری کا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ لیکن یہ کچھ اور معمالہ ان کی نظر میں چوری سے زیادہ سنگین تھا۔ چوری کے معمالے کو شاید وہ ان دونوں کو بچے سمجھ کر معاف کردیتے مگر یہ معماملہ کسی کے گھر کی آبرو کا تھا لہذا وہ کیوں خاموش رہتے۔ کسی کی عزت اچھالنے کا اتنا سنہری موقع ان کے ہاتھ لگا تھا اسے وہ کیسے ضائع کر سکتے تھے۔ صبح تک یہ بات پورے محلے تک پھیل چکی تھی۔ ہر کوئی جس کا دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں تھا وہ بھی اس بات پر تبصرے کر رہا تھا۔ ایک عورت راستے میں دوسری عورت سے ملی اور کہہ رہی تھی۔ 'پتہ چلا تمہیں ساجدہ والا قصہ؟'


ہاں سنا ہے۔' دوسری بولی۔ 'کیا بتاؤں آپاں مجھے تو پہلے ہی شک تھا آخر لڑکی سارا سارا دن اکیلی گھر میں ہوتی ہے کوئی نہ کوۂی گل تو اس نے کھلانا تھا۔'


بالکل ٹھیک کہا۔ پہلی نے جواب دیا۔ 'ماں جو نہیں ہے اس پر نظر رکھنے کے لیۓ ماں سر پر نہ ہو تو لڑکیاں بگڑ ہی جاتی ہیں۔ میں تو کہتی ہوں اس کے باپ کو چاہیۓ کوئی رشتہ دیکھ کر فوراً اسے رخصت کردے یہ نہ ہو کوئی اور چن چڑھا دے۔'


ٹھیک کہا آپاں۔ یہاں رہے گی تو محلے کو ہی بدنام کرے گی اور پھر ہماری بچیاں بھی تو ہیں اس کے یہاں رہنے سے ہماری بچیوں پر برا اثر پڑے گا۔' 


تقریباً اسی قسم کی باتیں ہر گھر میں ہو رہی تھیں۔ ہر کسی کو زبان لگ گئ تھی یہاں تک کہ گونگے بھی بولنے لگے تھے اور وہ لوگ بھی جن کی اپنی عزت ریت کے اس گھروندے کی طرح تھی جسے ایک معمولی سی لہر بہا لے جاتی ہے۔ وہ اسے بڑی محنت سے دوبارہ تعمیر کرتے ہیں تو دوسری لہر آکر پھر سے اسے بہا لے جاتی ہے۔ ان کی اپنی آبرو کا حال دیۓ کی اس ٹمٹماتی لو کی طرح تھا جو تیز آندھی میں جل رہا ہو۔ ایسے لوگ سب سے آگے تھے اور عزت و آبرو کے وعظ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔


ساجدہ نے اپنے آپ کو کمرے تک محدود کر دیا تھا۔ وہ سارا سارا دن کمرے میں پڑے آنسو بہاتی رہتی تھی۔ اس کے باپ نے اس کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی تھی جبکہ اس کی بڑی بہن کچھ دن کے لیۓ اس کے پاس رہنے کے لیۓ آگئ تھی۔ وہ ماجد اور ساجدہ کے درمیان تعلق کو بہت پہلے سے جانتی تھی، ساجدہ نے اسے شروع دن سے سب کچھ بتا دیا تھا۔ بلکہ اس نے ساجدہ سے کہا تھا کہ وہ کسی دن ابو سے ان کی شادی کی بات کرے گی مگر وہ چاہتی تھی کہ ماجد پہلے اپنے گھر والوں سے بات کرلے اس کے بعد وہ ابو سے بات کرے گی پر جو حرکت ابھی ان دونوں نے کی تھی اس کے لیۓ وہ ساجدہ سے سخت ناراض ہوئی تھی اور اسے خوب ڈانٹا تھا۔ وہ اسے تسلیاں بھی دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی 'یہ حرکت کرکے تم لوگوں نے اپنا کام خود خراب کیا ہے اب کچھ دن تک صبر کرو جب معماملہ تھوڑا ٹھنڈا ہو گا تو پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔'


دوسری طرف ماجد کا حال بھی ساجدہ سے زیادہ الگ نہیں تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس پر کہیں آنے جانے پر پابندی نہیں لگی تھی۔ وہ صبح چپ چاپ کام پر جاتا تھا اور شام کو گھر آکر اوپر اپنے کمرے میں چلا آتا تھا۔ اس کے بعد کہیں نہیں جاتا تھا۔ اس نے گھر والوں سے کہا تھا کہ وہ ساجدہ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ وہ اس کا رشتہ ساجدہ کے گھر لے کر جائیں مگر کوئی بھی اس کی بات نہیں مان رہا تھا۔ وہ شام کو گھر آیا اور اوپر اپنے کمرے میں آکر ٹہلنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر سوچ بچار کے بعد وہ نیچے گیا جہاں سب گھر والے بیٹھے تھے۔ اس نے جاتے ہی پوچھا۔


مجھے بتائیں آخر آپ کو اس شادی سے کیوں انکار ہے؟'



کس منہ سے ہم ان سے شادی کی بات کرنے جائیں۔' اس کا باپ بولا۔ 'تم نے کہیں جانے لائق چھوڑا ہو تو ہم جائیں۔'



مجھے سمجھ نہیں آتی آپ کو اعتراض کس بات پر ہے ہمارے اس رات چھت پر ملنے پر یا ہم دونوں کے تعلق پر؟ اگر وہ رات والا واقعہ نہ پیش آیا ہوتا تو میں آپ کو بتانے ہی والا تھا۔ کیا تب بھی آپ اس رشتے سے راضی نہ ہوتے؟۔۔۔اور اگر ایسی بات نہیں تو پھر اب کیا ہے؟ ٹھیک ہے ہم سے وہ غلطی ہوئی مجھے اس طرح اس کی چھت پر نہیں جانا چاہیۓ تھا مگر کیا اسے آپ ایک بچکانہ شرارت یا غلطی سمجھ کر معاف نہیں کر سکتے؟'


ایسی غلطی کی کوئی معافی نہیں۔' اس کا باپ بولا۔  میں تو تمہیں بالکل معاف نہیں کروں گا تمہیں یہ سب کرنے سے پہلے سوچنا چاہیۓ تھا۔ اور رہی بات اس لڑکی کے باپ کی تو وہ تو تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گا۔' 


آپ ان کے گھر جائیں تو سہی میں ان سے معافی مانگنے کے لیۓ بھی تیار ہوں۔ وہ مان جائیں گے آخر ان کی اپنی لڑکی کی بھی تو یہی خواہش ہے۔' 


میں تو کبھی نہ جاؤں' اس کا باپ اٹھتے ہوۓ بولا 'پہلے ہی تمہاری وجہ سے اتنا شرمندہ ہونا پڑا اب مزید   شرمندہ ہونے کی مجھ میں ہمت نہیں۔' وہ اٹھ کر باہر نکل گیا۔ اس کے بعد ماجد نے امی کو راضی کرنے کی کوشش کی مگر اس کی امی بولیں۔ 'ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ ابھی یہ معمالہ تازہ ہے چند دن گزر جانے دو پھر بات کرنا۔' وہ کچھ سوچ کر واپس اپنے کمرے میں چلا آیا۔'


اگلے کئ دن تک اس نے گھر والوں سے اس بارے میں کوئی بات نہ کی۔ وہ بڑی بے صبری سے کسی مناسب وقت کا انتظار کر رہا تھا۔ ساجدہ سے اس کا بالکل بھی کوئی رابطہ نہیں تھا اور اس کو ذرہ برابر بھی علم نہیں تھا کہ ساجدہ کے گھر اس وقت کیا حالات ہیں اور یہ کہ وہ خود کس حالت میں ہے۔ اسے ساجدہ کو دیکھے ہوۓ بھی کافی دن بیت گۓ تھے کیونکہ اب وہ چھت پر نہیں آتی تھی۔ کام سے واپس آنے کے بعد وہ روز شام کے وقت چھت پر بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کرتا تھا کہ شاید اس کی ایک جھلک دکھائی دے جاۓ۔ اس نے کئ بار کوشش کی کہ کسی طرح سے اسے ساجدہ کے بارے کچھ پتہ چل سکے مگر اس کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے اسے اس کے بارے میں کوئی جانکاری مل سکتی۔ اس نے مختلف نمبروں سے ساجدہ کے نمبر پر کالز کیں مگر اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور ماجد کی بے چینی مایوسی میں بدلتی جا رہی تھی۔ اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے۔


 شام کے وقت ورکشاپ سے چھٹی ہوئی تو سارے کاریگر گھر کی طرف روانہ ہوۓ مگر ماجد اکیلا کام کرتا رہا۔ اس نے اپنے دوست رضوان کو بھی اپنے ساتھ ٹھہرا لیا تھا جو اس کے ساتھ ہی کام کرتا تھا۔ اس نے اپنے دوست سے کہا تھا 'یار آج میرا گھر جانے کو بالکل بھی جی نہیں چاہ رہا اس لیۓ کچھ دیر ٹھہر کے چلتے ہیں تب تک یہ گاڑی کا کام جو رہ گیا ہے وہ بھی ہو جاۓ گا۔'


 'چلو ٹھیک ہے ٹھہر جاتے ہیں کچھ دیر۔' اس کے دوست نے کہا۔


 رضوان ماجد کا اکلوتا دوست تھا۔ دونوں نے اکٹھے تعلیم حاصل کی تھی مگر رضوان پڑھائی میں ماجد سے زیادہ تیز تھا اس نے ماجد کے برعکس ایف اے کے بعد تعلیم چھوڑنے کی بجاۓ بی اے میں داخلہ لیا لیکن بی اے کا صرف ایک سال ہی مکمل کر پایا اور اس کے بعد ماجد کے ساتھ ہی ورکشاپ میں کام سیکھنا شروع کر دیا تھا۔


'یہ آج تمہارا اتنے عرصے بعد یہاں دیر تک رکنے کا پروگرام کیسے بن گیا؟' وہ پاس پڑے لکڑی کے بنچ پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔


ماجد نے انجن پر جھکے ہوۓ کہا' ایسے ہی آج گھر جانے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا۔'


جی ہاں دل کیسے کرے گا جناب کا۔۔۔اب گھر جاکر وہ فون والی مصروفیت تو رہی نہیں۔۔۔ یار تم نے خواہ مخواہ وہ بیوقوفانہ حرکت کی اچھا بھلا تو چل رہا تھا اور شاید اب تک تمہاری شادی کی بات بھی چل پڑتی۔ کیا ضرورت تھی تمہیں بیٹھے بٹھاۓ ہیرو بننے کی۔'


ماجد نے سر اوپر اٹھایا۔ 'ہیرو بننی والی اس میں کوئی بات نہیں تھی میں نے تو ایسے ہی شرارت میں آکر شوخی سے وہ حرکت کر دی مجھے کیا پتہ تھا یہ سب کچھ ہو جاۓ گا۔' وہ مڑا اور گاڑی کے بانٹ کے ساتھ ہلکی سی ٹیک لگا کر پیچھے بانٹ پر اپنے ہاتھ ٹکا کر کھڑا ہو گیا اور اوپر چھت پر کہیں دیکھتے ہوۓ خود کلامی کے انداز میں بولا۔ 'کتنے خوشگوار دن تھے وہ، ہم روزانہ باتیں کرتے تھے۔ اس رات جب میں نے اسے انگوٹھی دی تھی تو وہ کتنی خوش لگ رہی تھی، ہم دونوں ہی بہت خوش تھے مگر ایک پل میں سب کچھ بدل گیا۔ چند لمحوں میں خوشی غم میں تبدیل ہو گئ۔ سچ کہا ہے کسی نے خوشی کی مدت بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ اب معلوم نہیں اس غم سے کب نجات ملے گی، ملے گی بھی کہ نہیں۔'


غم سے نجات تو کبھی نہیں ملتی میرے دوست۔ غم، دکھ، اداسی یہ زندگی کا حصہ ہی سمجھو۔ یہ کسی نہ کسی شکل میں آدمی کے دل تک پہنچ ہی جاتے ہیں چاہے آدمی اس کے آگے جتنے مرضی بندھ باندھ لے،  جتنے مرضی آہنی دروازے لگا کر کنڈیاں چڑھا لے یہ کسی نہ کسی درز سے داخل ہو ہی جاتے ہیں۔ اسی لیۓ تو کہتے ہیں،


موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاۓ کیوں؟


ویسے میرا خیال تمہیں ایک بار پھر گھر والوں سے بات کرنی چاہیۓ اتنے دن گزر گۓ ہیں آخر اب تک وہ بات بھول گۓ ہوں گے۔ تم اپنے گھر والوں سے کہو کہ وہ خود اس کے گھر جائیں یا کسی کو بھیج کر یہ پتہ کریں کہ اس کے گھر والے کیا چاہتے ہیں۔ آخر اس نے بھی تو اپنے گھر کچھ نہ کچھ بتایا ہوگا تھوڑی بہت تو ان کی بھی کوئی نہ کوئی راۓ بنی ہو گی۔'



ہاں یہ ہو سکتا ہے کسی اور کو بھیج کر ان سے بات کی جاۓ۔' ماجد آگے بڑھا اور بنچ پر پڑے ہوۓ سگریٹ کے پیکٹ میں سے سگریٹ نکال کر سلگا لیا پھر واپس اپنی جگہ پر آیا اور کچھ سوچتے ہوۓ بولا۔ 'یہ بات ٹھیک ہے کسی اور کو بھیجا سکتا ہے مگر اس سے پہلے میرے گھر والے تو رضا مند ہوں تبھی تو وہ کسی کو بھیجیں گے ابھی تو وہ خود ہی نہیں مان رہے۔'


 کافی دن گزر گۓ ہیں اب دوبارہ بات کرکے دیکھو کیا پتہ مان جائیں۔' رضوان بھی سگریٹ سلگاتے ہوۓ بولا۔


ماجد نے سگریٹ کا کش لگایا اور سوچتے ہوۓ بولا۔ ہاں دیکھتے ہیں۔'


رات کو گھر پہنچنے سے پہلے ہی اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ آج وہ گھر والوں سے دوبارہ بات کرے گا اور انہیں کہے گا کہ اگر وہ ساجدہ کے گھر خود نہیں جاسکتے تو کسی ایسے آدمی کو بھیج دیں جو ساجدہ کے گھر والوں کے لیۓ بھی قابل قبول ہو۔ اس نے گھر پہنچتے ہی بات چھیڑ دی مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی تفصیل بیان کرتا اس کا باپ بولا۔ 'اب وہاں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔' ماجد نے خیران ہو کر دیکھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا اس کا باپ ماجد کی بہن کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ 'لاکر دکھاؤ اسے تاکہ اس کی تسلی ہو جاۓ۔'


اس کی بہن نے ایک طرف میز پر پڑے ہوۓ کارڈ کو اٹھایا اور لاکر ماجد کو پکڑاتے ہوۓ بولی۔ 'ساجدہ کی شادی کا کارڈ ہے دو ہفتوں بعد اس کی شادی ہے۔'


ماجد خیرت سے کبھی کارڈ کو اور کبھی اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔


ایسا کیسے ہو سکتا ہے' اس نے کارڈ کھول کر سرسری نظر ڈالتے ہوۓ کہا۔ 'ابھی اس بات کو گزرے زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا پھر ایک دم سے اچانک کیسے۔۔۔؟'


تو کیا تم سے پوچھ کر کرتے۔' اس کا باپ بولا۔  


ماجد نے کوئی جواب نہ دیا اور کارڈ لے کر اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ کافی دیر تک وہ بغیر کسی حرکت کے ایک جگہ پر بیٹھا رہا۔ اس کے سامنے میز پر شادی کا کارڈ پڑا تھا اس نے دھیرے سے کارڈ کھولا وہاں ساجدہ اور جس سے اس کی شادی ہو رہی تھی اس کا نام جلی حروف میں لکھا تھا۔ اس نے فوراً کارڈ بند کر دیا اور کمرے سے  باہر نکل کر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والے چھت پر آگیا۔ آج دن کے وقت بارش کے باعث فضا میں حنکی تھی مگر ماجد کا دھیان کہیں اور ہونے پر اسے سردی کا زیادہ احساس نہیں ہو رہا تھا یا اگر ہو بھی رہا تھا تو اس نے زیادہ پرواہ نہیں کی تھی۔ آسمان پر بادل ابھی بھی چھاۓ تھے اور چاند ان بادلوں کے پردے کے پیچھے جا چھپا تھا۔ اس نے ساجدہ کے گھر کی طرف دیکھا وہاں سواۓ تاریکی کے اور کوئی نہیں تھا۔ غیر ارادی طور پر اس نے موبائل نکالا اور ٹارچ آن کرکے دائیں بائیں گھمانے لگا۔ مگر وہاں سے اسے کوئی جواب کوئی اشارہ موصول نہ ہوا، کوئی روشنی اسے دکھائی نہ دی۔ اس نے ٹارچ بند کرکے موبائل جیب میں رکھ لیا۔ وہ جانتا تھا اب وہاں سے کبھی کوئی روشنی اسے دکھائی نہیں دے گی اب وہاں صرف تاریکی کا راج ہو گا۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا۔ نہ جانے کتنی دیر تک وہ وہاں بیٹھا رہا۔ جب سردی حد سے بڑھ گئ اور اس کے لیۓ وہاں بیٹھنا ناممکن ہو گیا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ رات بہت گہری ہو گئ تھی اسے بالکل بھی دھیان نہیں رہا تھا کہ اسے یہاں بیٹھے ہوۓ کتنا وقت گزر گیا ہے۔ اس نے آخری بار ساجدہ کے گھر کی طرف دیکھا اور نیچے اپنے کمرے میں چلا آیا۔


یہ محض اتفاق تھا کہ جب ماجد نے موبائل سے اسے اشارہ کیا تھا تو اس وقت ساجدہ چھت پر ہی تھی اس نے اسے دیکھ لیا تھا لیکن وہ کوئی جواب نہیں دے سکتی تھی کیونکہ ایک ہفتے بعد اس کی شادی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ ماجد کو آخری بار ایسے اشارہ کرتے ہوۓ دیکھ رہی ہے اس کے بعد وہ اسے کبھی نہیں دیکھ پاۓ گی۔ لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا اب وقت گزر گیا تھا۔ جب وقت تھا تب اس کی بڑی بہن نے اپنے وعدے کے مطابق ابو سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتی اس کے باپ نے پہلے ہی اس سے کہہ دیا کہ اس نے ساجدہ کے لیۓ ایک لڑکا ڈھونڈ لیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جلد سے جلد ساجدہ کی شادی ہو جاۓ۔ اس کی بہن نے ماجد اور ساجدہ کی بات چھیڑی مگر اس نے کہہ دیا کہ وہ ساجدہ کی شادی ہر گز ایسے لڑکے سے نہیں کرے گا جس کو اس کی اور اس کے گھر والوں کی عزت کا ذرا بھی خیال نہ ہو۔ اور یہ کہ جس لڑکے سے اس نے ساجدہ کا رشتہ طے کیا ہے اس کی بازار میں اپنی بہت بڑی کپڑے کی دکان ہے ماجد سے وہ کئ گناہ بڑھ کر کمائی کرتا ہے اور گھر بار بھی اس سے بہتر ہے۔ اس کے بعد اس کی بہن کو مزید کچھ کہنے کی ہمت ہی نہ ہوئی اس لیۓ وہ خاموش ہو گئ۔ ساجدہ کو جب پتہ چلا تو اس نے بھی خاموشی اختیار کر لی۔ آج جب اس نے ماجد کو چھت پر موبائل لہراتے دیکھا تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا مگر اس نے پلٹ کر ایک بار بھی جواب نہ دیا اور خاموش لب اور نم آنکھیں لیۓ نیچے چلی آئی۔


ماجد رات بھر ٹھیک طرح سے سو نہ سکا تھا مگر صبح سویرے جلدی اٹھ کر کام پر چلا گیا۔ وہ ورکشاپ پر پہنچا تو ابھی کوئی بھی کاریگر کام پر نہیں آیا تھا۔ اکثر رضوان اور وہ اکٹھے ہی آتے تھے مگر آج چونکہ ماجد وقت سے پہلے آگیا تھا اس لیۓ وہ اکیلا ہی چلا آیا۔ ہلکی سی دھوپ نکل آئی تھی ماجد باہر ہی لوہے کے بنچ پر بیٹھ گیا جو ایک زنجیر کے ساتھ کھمبے سے بندھا تھا۔ بیٹھتے ہی اس نے سگریٹ سلگا لیا۔ وہ اس طرح بیٹھا تھا کہ سورج اس کے عقب میں تھا اور دھوپ اس کی کمر پر پڑ رہی تھی۔ اس کے بالکل سامنے ایک ٹوٹی پھوٹی خراب گاڑی کھڑی تھی جس کی کھڑکیاں دروازے نہیں تھے اور باڈی مکمل طور پر ایسے اندر دھنسی ہوئی تھی جیسے اس کے اوپر سے کوئی رولر گزر گیا ہو۔  پچھلے کئ برسوں سے وہ یہیں کھڑی تھی جس سے گزرنے والوں کو دور ہی سے دیکھ کر معلوم ہو جاتا تھا کہ یہاں ورکشاپ ہے۔ گاڑی کے ساتھ ایک چھوٹا سا پودا تھا جو معلوم نہیں کیسے خود بخود اگ آیا تھا اور ہر آنے جانے والا کا استقبال کیا کرتا تھا۔ یوں تو اس کا یہاں کوئی بھی استعمال نہیں تھا مگر اکثر کاریگر کام کے دوران یا گزرتے ہوۓ اس میں تھوکا کرتے تھے، جو پان کھاتے تھے وہ پان کی پیک پھینکتے تھے یا پھر گلاس میں جھوٹا پانی یا کپ میں بچی ہوئی چاۓ جسے پھینکنا مقصود ہو اس جھاڑی نما پودے میں پھینک دی جاتی تھی۔ اس کے بالکل ساتھ ایک ٹرک یا بس کا بڑا سا ٹائر پڑا تھا۔ مہینوں یہاں پڑا رہنے کی وجہ سے اس کے نیچے زمین پر ایک گڑا سا بن گیا تھا جس کے اندر اس وقت گزشتہ دن کی بارش کا پانی کھڑا تھا۔ ورکشاپ کا گیراج زیادہ بڑا نہیں تھا ایک وقت میں دو تین گاڑیاں ہی اندر کھڑی کی جاسکتی تھیں لیکن اس کے پیچھے ایک کھلا ڈھلا احاطہ تھا۔ جب گاڑیاں زیادہ تعداد میں آجاتیں تو انہیں پیچھے احاطے میں بھیج دیا جاتا تھا۔ گیراج کے اندر ہر وقت گاڑیوں کے تیل اور گریس وغیرہ کی عجیب سی بو پھیلی رہتی تھی جو باہر سے آنے والوں کو کچھ ناگوار سی محسوس ہوتی تھی مگر وہاں کام کرنے والے کاریگروں کو اس کا زیادہ احساس نہیں ہوتا تھا۔ 


ماجد نے ایک ہاتھ سے سگریٹ پیتے ہوۓ دوسرے ہاتھ سے جیب سے موبائل نکالا اور ساجدہ کے وہ پرانے پیغامات دیکھنا شروع کر دیۓ جو اس کے پاس محفوظ رہ گۓ تھے۔ پیغامات پڑھتے ہوۓ کبھی وہ مسکرا دیتا اور کبھی اس کا چہرا سنجیدہ ہو جاتا تھا۔ تمام پیغامات پڑھ کر اس نے موبائل جیب میں رکھا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ سڑک پر گاڑیوں کی آمدروفت شروع ہو چکی تھی اور ٹریفک کا دھیما سا شور سنائی دینے لگا تھا۔ جیسے ہی اس نے آخری کش لگا کر سگریٹ پھینکا اسے دور سڑک پر دو کاریگر آتے ہوۓ نظر آۓ جو اس کے ساتھ کام کرتے تھے۔ انہوں نے بھی ماجد کو دیکھ لیا تھا۔ وہ قریب آۓ تو ایک نے خیران ہو کر ماجد سے پوچھا 'خیر ہے آج بڑی جلدی آگۓ ہو؟'


ہاں بس آج جلدی اٹھ گیا تھا تو جلدی آگیا۔'


اور رضوان کہاں ہے؟' دوسرے نے پوچھا۔


وہ بھی آتا ہی ہو گا۔' ماجد نے جواب دیا۔


انہوں نے اندر آکر کپڑے بدل کر کام والے کپڑے پہنے تو اتنی دیر میں رضوان بھی پہنچ گیا۔ وہ پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ ضرور کوئی بات ہے اسی لیۓ ماجد آج اس سے پہلے آگیا ہے ورنہ عموماً دونوں اکٹھے ہی آیا کرتے تھے۔ اس نے ماجد سے پوچھا تو اس نے رات والی بات اسے سرسری طور پر بتا دی۔ دوپہر کو کھانے کے بعد ماجد اکیلا احاطے میں کسی گاڑی کے انجن پر جھکا گاڑی ٹھیک کر رہا تھا جب رضوان اس کے پاس آیا اور اس کے بالکل ساتھ والی گاڑی کے بانٹ پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔ 'ہاں اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟'


بتایا تو ہے اور کیا بتاؤں۔' ماجد نے اپنا کام کرتے ہوۓ جواب دیا۔


میرا مطلب ہے کچھ تفصیل تو بتاؤ کیسے ہوا اور۔۔۔'


تفصیل کیا بتاؤں؟ رضوان بولا۔ 'بس جب کل یہاں سے میں ارادہ بنا کر گیا کہ آج گھر والوں سے بات کروں گا اس لیۓ گھر پہنچتے ہی میں نے بات شروع کی لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ اور بولتا انہوں نے کارڈ میرے سامنے رکھ دیا۔ اس کے بعد میں کیا کہتا۔' 


 خیرت کی بات ہے اتنی جلدی انہوں نے رشتہ کرکے شادی کی تاریخ بھی طے کر دی کسی کو پتہ بھی نہیں چلنے دیا؟'


اتنی بھی جلدی نہیں' وہ بولا۔ 'کافی دن گزر گۓ ہیں اور پھر اگر کرنا ہو تو کیا نہیں ہو سکتا۔'


یہ بات تو ٹھیک ہے پر یار ساجدہ نے گھر والوں سے کوئی بات نہیں کی؟ آخر اس نے کچھ تو کوشش کی ہی ہو گی۔'


اب یہ تو وہی بتا سکتی ہے۔ شاید اس نے بھی کوشش کی ہو یا شاید۔۔۔' وہ کہتے کہتے رک گیا۔


ویسے یارا تمہیں وہ حرکت نہیں کرنی چاہیۓ تھی تمہیں علم ہونا چاہیۓ ہمارے ہاں عزت کا معیار کیا ہے لوگ کس چیز کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ لوگوں کے نزدیک ذحیرہ اندوزی، ناجائز کمائی، دھوکے بازی زیادہ بڑا گناہ نہیں بلکہ ایسے کاموں سے تو ان کی عزت بڑھتی ہے۔ سب کہتے ہیں دیکھو کتنا تیز اور ہشیار آدمی ہے اسے کاروبار کا فن آتا ہے گاہک سے کیسے پیسے نکلوانے ہیں یہ سب اسے آتا ہے۔ بڑا ہی ہونہار، قابل اور چالاک آدمی ہے۔ مگر ان کے لیۓ یہ گناہ زیادہ بڑا ہے کہ ایک لڑکا اور لڑکی اکیلے ملیں اور آپس میں باتیں کرتے ہوۓ پاۓ جائیں۔ اس سے ان کی عزت کو بہت ٹھیس پہنچتی ہے۔ تمہیں وہاں جانے سے پہلے یہ سب سوچنا چاہیۓ تھا۔' وہ چھلانگ لگا کر نیچے اتر آیا۔ 'چل ٹھیک ہے پھر بات ہوتی ہے میں ذرہ گھمن صاحب والی گاڑی دیکھ لوں اس کا ابھی سارا کام رہتا ہے۔' 


رضوان چلا گیا تو ماجد دوبارہ گاڑی کے انجن پر جھک گیا لیکن اس کا دھیان پوری طرح ساجدہ کی طرف تھا۔ 


 چند دن مزید گزر گۓ۔ موسم کافی حد تک تبدیل ہو گیا تھا اس لیۓ ماجد شام کو گھر دیر سے لوٹا کرتا تھا، ورکشاپ سے چھٹی کے بعد وہ اور رضوان ایک ڈھابہ نما ریستوران پر رات دیر تک بیٹھا کرتے تھے۔ گھر آکر وہ ابھی بھی روزانہ چھت پر چڑھ جاتا تھا۔ منڈیر کے پاس کھڑے ہو کر ساجدہ کے گھر کی طرف دیکھتے ہوۓ اس کا کئ بار دل چاہا کہ وہ ایک بار پھر چھتیں پھلانگتا ہوا اس کے گھر جاۓ مگر اس نے اپنے آپ کو روکے رکھا۔ لیکن آج رات کو وہ چھت پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ اسے ایک بار ضرور اس کے گھر جانا چاپیۓ اور کسی نہ کسی طریقے سے ساجدہ سے ملاقات کر کے پوچھنا چاہیۓ کہ اس نے آخر خاموشی سے ہاں کیوں کر دی، اب جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا تھا اب کی بار وہاں پکڑے جانے سے زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا تھا۔ اس نے منڈیر کی دیوار پر کہنیاں ٹکائیں اور اس بارے میں غور کرنے لگا۔ اچانک معلوم نہیں اسے کیا ہوا، ایک دم سے اس میں کیسے ہمت آگئ وہ میکانکی انداز میں اٹھا اور چھلانگ لگا کر منڈیر پر چڑھ گیا۔ چل کر آگے تک گیا اور پچھلی بار کی طرح لٹک کر دوسری چھت پر چلا گیا۔ باقی چھتیں بھی اس نے پھلانگیں اور آخری چھت عبور کرکے ساجدہ کی چھت کی دیوار پر چڑھ گیا۔ دیوار پر بیٹھ کر اس نے سامنے دیکھا سامنے ساجدہ اکیلی کھڑی تھی اس کا رخ دوسری طرف تھا۔ وہ دیوار سے چھلانگ لگا کر نیچے اتر آیا اس کے قدموں کی چاپ سن کر ساجدہ نے رخ بدلا وہ اسے دیکھ کر خیران رہ گئ اور بولی۔ 'ماجد آپ؟ آپ یہاں کیسے؟'


میں تم سے ملنے آیا ہوں ساجدہ۔' وہ آگے بڑھتے ہوۓ بولا۔ 'میں تم سے پوچھنے آیا ہوں کہ تم اس شادی کے لیۓ کیسے رضا مند ہو گئ؟ تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟'


مجھے رضامند ہونا پڑا، انسان کو بعض باتیں مجبوراً ماننا پڑتی ہیں ماجد۔ بہت سے فیصلے آدمی خود نہیں کرتا اس سے کرواۓ جاتے ہیں، کئ کام انسان اپنی مرضی سے نہیں کرتا بلکہ وہ انسان پر اپنی مرضی چلاتے ہیں۔'


یہ بہانے ہیں، یہ صرف اور صرف عذر ہیں جو تم اپنے دل کو تسلی دینے کے لیۓ گڑھ رہی ہو۔' وہ مڑا اور منڈیر کی دیوار کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا۔ 'میں اتنا پڑھا لکھا تو نہیں ہوں ساجدہ! نہ ہی مجھے پڑھائی لکھائی سے کوئی زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ میں بہت سے معمالات کو زیادہ گہرائی سے تو نہیں سمجھتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس معاملے میں ایسے عذر نہیں چلا کرتے۔ مجبوری تو رہی ہو گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تم نے اس مجبوری کو توڑنے کے لیۓ، اسے ختم کرنے کے لیۓ کیا کیا ہے؟ تم نے راستہ ڈھونڈنے کے لیۓ کوئی سفر طے کیا ہے یا نہیں؟ یا تم نے منزل ہی بدل لی ہے؟۔۔۔بتاؤ ساجدہ تم نے کیا کیا ہے؟'


میں کیا کر سکتی تھی ماجد!' وہ آبدیدہ ہو گئ۔ 'میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ میں۔۔۔' اس نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کی آواز اس کے حلق میں اٹک کر رہ گئ۔ پھر سنبھل کر بولی۔ 'لیکن اگر میں تب کچھ نہیں کر سکی تو اب کر سکتی ہوں۔'


کیا؟' ماجد نے پوچھا۔


شادی کو تین دن رہ گۓ ہیں اگر ہم خود ہی چھپ کر شادی کر لیں تو؟' 

ماجد نے خیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا۔ 'یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟'


میں سوچ سمجھ کر کہہ رہی ہوں ماجد! میں کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی میں نے زندگی بھر آپ کے سوا کسی اور کے بارے میں کبھی ایسا نہیں سوچا نہ کبھی کچھ محسوس کیا ہے۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتی کہ میں کسی اور سے۔۔۔'وہ کہتے کہتے رک گئ۔ پھر بولی 'اب اس کے سوا کوئی چارا نہیں کہ ہم دونوں خود ہی شادی کر لیں۔ وقت بہت کم رہ گیا ہے ہمیں جلد سے جلد کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔'


ماجد سوچنے لگا۔ چند قدم آگے جا کر پلٹ کر بولا۔ 'ٹھیک ہے! تمہاری شادی کو صرف تین دن رہ گۓ ہیں لہذا ہم کل ہی شادی کر لیتے ہیں۔ کل صبح میں سارا بندوبست کر لوں گا اور دن کو کسی وقت میں تمہیں کال کروں گا پھر ہم کسی مسجد میں یا کورٹ میں جا کر شادی کر لیں گے۔'


 مجھے کل کا انتظار رہے گا۔' ساجدہ نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔


میں اب چلتا ہوں کل کیسے اور کس جگہ ملنا ہے یہ  ساری تفصیل میں تمہیں کل بتاؤں گا۔' جیسے ہی وہ واپس جانے کے لیۓ پلٹا بارش ہونے لگی۔ وہ دونوں بھاگ کر ایک پرچھتی کے نیچے جا کھڑے ہوۓ۔ بھاگنے سے ساجدہ کے بالوں کی لٹیں بکھر کر آگے چہرے پر آگئیں تھیں۔ ماجد نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ ساجدہ نے انگلیوں سے بالوں کی لٹیں اپنے کان کے پیچھے کیں اور ماجد کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔



ماجد کو ہوش آیا تو وہ منڈیر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ نیچے زمین پر بیٹھا تھا۔ بارش حقیقت میں شروع ہو گئ تھی۔ جب بارش کی بوندیں اس پر پڑیں تو وہ چونک کر اپنے خیالوں سے باہر آگیا۔ اسے اپنے آپ پر ہنسی آگئ۔ 'لوگ سوتے ہوۓ خواب دیکھتے ہیں تم بھی ماجد حسین کمال آدمی ہو! تمہیں جاگتے ہوۓ خواب آنے لگے ہیں۔' وہ اپنے آپ سے بڑبڑایا۔


اگلے دو دن ایسے ہی گزر گۓ۔ جیسے جیسے وقت قریب آرہا تھا ماجد کا دل ڈوبتا چلا جا رہا تھا وہ ورکشاپ جا تو رہا تھا مگر اس کا دل وہاں بالکل نہیں لگ رہا تھا اس کا دل کہیں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا جب ساجدہ اس سے ہمیشہ کے لیۓ دور جا رہی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا آج کے بعد وہ اسے کبھی بھی دیکھ نہیں پاۓ گا، آج وہ دونوں ہمیشہ کے لیۓ بچھڑ رہے تھے۔ وہ سویرے سویرے جلدی اٹھ کر ورکشاپ آگیا تھا لیکن اب اس کا کام  پر بالکل بھی جی نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے کام سے چھٹی لے لی اور گھر آگیا۔ موٹر سائیکل کھڑا کرنے کے بعد وہ سیدھا چھت پر چلا آیا۔ گھر والے گھر پر موجود نہیں تھے شاید وہ ساجدہ کی شادی میں شرکت کے لیۓ گۓ تھے۔ اس نے ساجدہ کی چھت پر نگاہ ڈالی اس سے کی ہوئی تمام باتیں اور اس کی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔ ساجدہ سے منسلک تمام واقعات اس کی آنکھوں کے آگے چلنے لگے۔ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا آیا اور گھر سے باہر نکل آیا۔ گلیوں سے گزر کر وہ سڑک پر آگیا اور ایک طرف چلنے لگا۔ 


 کافی دیر تک وہ چلتا رہا۔ چلتے چلتے وہ بے دھیانی میں اس جگہ پہنچ گیا جہاں ساجدہ کی شادی ہو رہی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچا تو ساجدہ کی رخصتی کا وقت تھا وہ دور کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ اس نے ساجدہ کو دیکھ لیا تھا، ساجدہ نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ چند لمحے وہاں  کھڑا رہنے کے بعد نم آنکھوں کے ہمراہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ ساجدہ بھیگی پلکے لیۓ گاڑی میں بیٹھ گئ۔ 


ماجد چلتا ہوا بہت دور تک آگیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت قریب آئی تو وہ بلا مقصد اندر پلیٹ فارم پر چلا آیا۔ ایک گاڑی روانگی کے لیۓ تیار کھڑی تھی اسے نہ جانے کیا سوجھی وہ گاڑی میں سوار ہو گیا گاڑی نے سیٹی بجائی اور آہستہ سے چل پڑی۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ گاڑی کہاں جا رہی ہے۔ معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی، اسے کہیں بھی نہیں پہنچنا تھا اسے تو بس چلتے جانا تھا۔







 




 



















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات