Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 






 حارث احمد کے کیفے میں آجانے سے کیفے کی رونق بڑھ گئ تھی۔ روزانہ کی طرح وہ اپنے مخصوص انداز میں کتاب ہاتھ میں پکڑے اپنی خاص مسکراہٹ کے ساتھ کیفے میں داخل ہوا تو اس کے پیچھے اس کے طالب علموں کی فوج بھی آدھمکی۔ وہ معمول کے مطابق اپنی منتخب کی ہوںئ کھڑکی والی نشست پر بیٹھا، بیرے کو کافی یا چائے کا آرڈر دیا، اک نظر کھڑکی سے باہر جھانک کر نظارہ کیا اور کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ باہر ہر چیز برف سے نہاںئ تھی۔ درختوں نے سبز لباس اتار کر کفن جیسا سفید لباس پہن لیا تھا۔ اسے یہ منظر بلکل پسند نہ تھا۔ دور دور سے لوگ اس شہر میں برف باری کے اس منظر سے لطف اندوز ہونے آتے مگر اسے اس موسم سے سخت کوفت ہوتی۔ اسے یہ گھُٹا گھُٹا موسم بلکل بھی نہ بھاتا ایسے موسم میں اس کا جی چاہتا کہ یہاں سے کسی گرم علاقے میں بھاگ جائے۔ مگر جییسے ہی موسم بدلتا، درختوں پر بہار کے نئے پھول کھلتے, ہریالی ہر طرف پھیلی برف کو نگل لیتی، جمی ہوںئ نہریں اور آبشاریں پگھلتیں تو وہ بھی کھلکھلا اٹھتا اور  گرتے جھرنوں اور بہتے ندی نالوں کو دیکھ کر خود بھی ساتھ بہتا رہتا۔


کیفے میں اس وقت طالب علموں کے علاوہ مختلف جگہوں سے آئے چند سیاح اور کچھ استاد تھے جو حارث کے کولیگز تھے. اس کیفے کو بنے ہوئے چند ہی سال ہوئے تھے مگر شروع سے ہی اس نے شہر کے استادوں، دانشوروں، صحافیوں، شاعروں، ادیبوں، آرٹسٹوں اور دوسرے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا. شہر کے امراء اور کاروباری لوگ  یہاں کا رخ کم ہی کیا کرتے تھے۔ یہ کیفے شاید ان کے لیئے بنایا بھی نہیں گیا تھا. شروع شروع میں چند ایک کاروباری امیر لوگ جنہیں اپنے معیار کے گرنے کی زیادہ پرواہ نہیں تھی نے یہاں کا رخ کیا مگر یہاں کے ماحول اور علم و دانش کی بحث مباحثوں کے باعث زیادہ دیر یہاں ٹھہرے نہیں. یہاں اشیا کی قیمتیں خاصی کم تھیں اور اس کی عمارت بھی کافی چھوٹی تھی. فرنیچر بھی بس مناسب سا تھا زیادہ قیمتی نہیں تھا۔ مگر پھر بھی کافی خوبصورت اور دلکش تھا۔ اندرونی اور بیرونی دیواروں کا رنگ سیاہ تھا جس پر انتہاںئ دلکش نقش و نگاری کی گئ تھی. دیواریں خوبصورت تصویروں سے مزین تھیں جو کہ وال آرٹ(wall art) کا ایک شاندار نمونہ تھا. سیاہ دیواریں رات کی سیاہی سے مل کر اور بھی جاذب نظر لگتی تھیں.


دوسری وجہ جس نے لوگوں کو زیادہ متاثر کیا وہ اس کا علاقہ تھا جہاں پر یہ تعمیر کیا گیا تھا۔ شہر کے مرکزی شور شرابے والے حصے سے ہٹ کر ایک پرسکون اور کم گنجان علاقے پر اسے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ چونکہ شہر کے عقب میں واقع تھا اس لیے اسی مناسبت سے کیفے کا نام بیک  سٹریٹ کیفے(Back street cafe) رکھا گیا. یہ انگریزی نام پروفیسر خارث احمد نے ہی تجویز کیا تھا. معلوم نہیں کہ یہ افواہ ہے کہ سچ مگر اس میں کسی حد تک سچاںئ یوں نظر آتی ہے کہ اس کیفے کا مالک پروفیسر خارث کا اچھا دوست ہے تو شاید اسی کے کہنے پہ حارث نے نام تجویز کیا ہو. کیفے کی خوب صورتی کی ایک اور بڑی وجہ جھیل ہے جو اس کے پاس سے بہتی ہوںئ گزرتی ہے. بہت سے سیاح اس جھیل کو دیکھنے آتے ہیں اور اس کیفے میں بھی کچھ دیر وقت گزارتے ہیں.


پروفیسر حارث زمانہ طالب علمی میں بھی استادوں اور اپنے ساتھیوں میں خاصا مقبول رہا تھا اور اب بھی طالب علموں کا پسندیدہ تھا۔ اسی کو دیکھ کر بہت سے طالب علموں نے کیفے آنا شروع کیا تھا۔ کالج یونیورسٹی میں اس نے بہت سے ڈراموں وغیرہ میں حصہ لیا تھا اور کئ ایوارڈ حاصل کیۓ تھے اس کے علاوہ وہ موسیقی کا بھی اچھا ذوق رکھتا تھا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ وہ آگے جا کر کمال کا اداکار بنے گا یا موسیقار مگر اس نے تدریس کے میدان کو چنا۔ یہ پیشہ اس نے کیوں اختیار کیا یہ کوںئ نہیں جانتا تھا شاید خود خارث احمد بھی نہیں۔ کیفے میں طرح طرح کی گفتگو ہوتی، کبھی کسی موضوع پر بحث چھڑتی کبھی کسی پر۔ خارث بخث میں شریک ہوتا تو ضرور مگر اک خاص حد تک زیادہ تر نظر انداز کرتا۔ مگر اپنے طالب علموں سے کھل کر بات کرتا تھا اور دیر تک ان سے باتیں کرتا رہتا تھا۔ ان کے سوالوں کے جواب دیتا، ان کی راۓ لیتا، اپنی راۓ دیتا اور ان سے سوال بھی پوچھتا۔


وہ کتاب پڑھ رہا تھا کہ کچھ طالب علم اس کے پاس آکر بیٹھ گۓ۔ ایک نے سوال کیا 'سر خوشی کا حصول کیسے ممکن ہے؟' اس نے گرم گرم کافی کا گھونٹ بھرا جو بیرا ابھی ابھی رکھ کر گیا تھا اور چند لمحے توقف کے بعد بولا،  ہوں۔۔۔ خاصا مشکل ہے یہ بتانا بہرحال میرا خیال ہے خوشی کا تعلق کامیابی سے ہے۔ کامیابی سے مراد جو کچھ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اگر آپ حاصل کر لیتے ہیں تو آپ کو خوشی ملےگی۔ یعنی کہ یوں سمجھو، خوشی کا تعلق آپ کی اچیومنٹس (achievements) کے ساتھ ہے۔ اگر آپ اپنے مقاصد اپنے گولز جو کچھ بھی وہ ہیں، گھر، نوکری یا جو بھی کچھ، اگر آپ حاصل کر لیتے ہیں تو آپ خوشی حاصل کریں گے۔ جیسے جیسے آپ اپنے ان مقاصد میں کامیاب ہوتے جاںئیں گے آپ کو خوشی حاصل ہوتی جاۓ گی۔ اور جیسے جیسے آپ ناکام ہوتے جاںئں گے آپ مایوس اور اداس ہوتے جاںٔیں گے۔ ?Am I right Amjad"



   اس نے امجد سے پوچھا جس نے اس سے سوال کیا تھا۔


"جی ہاں سر! مگر سر یہ سب کچھ مرضی کا بھی تو ہونا چاہیۓ یعنی نوکری یا شادی وغیرہ اگر آپ کی مرضی یا پسند کی ہو گی تب ہی تو آپ خوشی محسوس کریں گے؟'


"ہاں بھئ وہ ہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ جو بھی آپ چاہتے ہیں، جو بھی آپ کی ambitions ہیں اگر آپ وہ پوری کر لیتے ہیں تو آپ خوشی حاصل کرتے ہیں۔ اب یہ تو کسی کے اپنے مقصد پر ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ ممکن ہے کوںئ بس اچھی سی نوکری چاہتا ہو جونسی بھی ہو جیسی بھی ہو۔ یا شادی کے متعلق کسی کی کوںئ خاص ڈیمانڈ نہ ہو۔ پس تو ثابت ہوا خوشی کا حصول آپ کی اچیومنٹس پر ہے آپ جیسے جیسے اپنے گولز achieve کرتے جاتے ہیں آپ کو خوشی ملتی رہتی ہے اور جوں جوں ناکام ہوتے جاتے ہیں توں توں اداس۔' اس نے بات ختم کر کے کھڑکی سے باہر جھانکا باہر برف باری پھر سے شروع ہو گئ تھی اور اندھیرے چھا گیا تھا جس سے کیفے اور اردگرد کی بتیاں جلنے لگی تھیں جن کی روشنی میں سفید روںئ کے گالے چمک رہے تھے۔



سر پر یہ سب کچھ تو نصیب اور قسمت سے ہی ملتا ہے۔ ہر ایک کو تو ملتا نہیں۔' اس بار تانیہ نے سوال کیا۔ 
               اس نے کافی کا کپ نیچے رکھا اور بولا۔ 'نصیب کا یا قسمت کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کی پیداںٔش کس معاشرے میں ہوںئ ہے۔ اگر تو آپ کسی خوشحال معاشرے میں پیدا ہوۓ ہیں جہاں لوگوں کو حقوق اور آزادیاں حاصل ہیں، جہاں انصاف ہے، مساوات ہے وہاں تو خوشی کا حصول آسان ہے مگر اگر آپ کسی ایسے معاشرے میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں استحصال ہے، جبر ہے وہاں خوشی حاصل ہونا خاصا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ جبر کئ قسم کا ہو سکتا ہے مثلا خاندان کا جبر، رسوم ورواج کا جبر، معاشرے کا جبر، غلط مذہبی عقائد کا جبر اور سب سے بڑھ کر ریاست کا جبر۔ اس قسم کے معاشروں میں جہاں لوگوں کو حقوق اور آزادیاں حاصل نہ ہوں معاشی اور معاشرتی نا انصافیاں ہوں وہاں خوشی یا کامیابی مشکل سے ہی ملتی ہے۔ وہ مسکرایا۔ 'کیوں ہے نا ایسی بات'؟         


  باہر اندھیرا گہرا ہو گیا تھا اور باقاعدہ رات ہو گئ تھی۔ طالب علم چلے گۓ تو دروازے سے اسد اندر داخل ہوا۔ اسد اس کا واحد گہرا دوست تھا اور اس کیفے کا مالک بھی تھا۔  دونوں اسکول کے زمانے سے ساتھ تھے۔ دونوں نے تعلیم  اکھٹے ہی حاصل کی تھی اور شروع شروع میں دونوں نے ملازمت بھی اکھٹے ہی کی تھی۔ دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے مگر اسد کو نہ جانے کیا خیال آیا اور نہ جانے کیوں آیا اس نے ملازمت چھوڑی اور کیفے بنا لیا۔ پہلے پہل کچھ مشکلات پیش آںئیں مگر چونکہ دونوں شہر میں جانےپہچانے جاتے تھے ان کا اٹھنا بیٹھنا شہر کے پڑھے لکھے اور دانشور لوگوں میں تھا اور اسد تو بہت اچھا مصور بھی تھا۔ اس کی تصویروں کی نمائش اکثر شہر میں لگتی تھی جن کی بڑی مانگ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جلد ہی شہر کے آرٹسٹوں، ادیبوں اور پڑھے لکھے لوگوں سے یہ کیفے بھر گیا۔


" کہاں رہ گۓ تھے آج کافی دیر لگا دی۔ اوپر سے فون بھی اٹھا نہیں رہے تھے۔'


"بس یار ذرا کام تھا ایک چھوٹا سا۔ کسی آدمی سے ملنے گیا تھا۔'

'

"کسی آدمی سے یا۔۔۔۔!' حارث نے شرارت سے چھیڑا۔


وہ ہنسا۔ 'اس عمر میں ایسے نصیب کہاں۔۔۔ بہرحال اب تمہیں کچھ سوچنا چاہیۓ۔' 


"مجھے کیا سوچنا چاہیۓ؟' خارث نے جان بوجھ کر انجان بنتے ہوۓ کہا۔


"وہی شادی کے بارے میں'۔


"نہیں اس عمر میں کہاں اب تو بال بھی سفید ہو گۓ ہیں اور ویسے بھی ایک ناکام تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔'


"یار یہ کیا بات ہوںئ بھلا اگر پہلی شادی ناکام ہو گئ تو کیا ہوا ضروری تو نہیں کہ ہر دفعہ ایسا ہو اور ویسے بھی سب جانتے ہیں تم نے نبھانے کی پوری کوشس کی تھی۔ تم طلاق دینا نہیں چاہتے تھے لیکن اگر دوسرا فریق ہی ایسا کرنے پر تلا ہو تو پھر کوںئ کیا کر سکتا ہے۔'


"نہیں یار اب نہیں ہو سکتا اب میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ اچھا چھوڑو چلو چلیں آج تو ویسے ہی کافی وقت ہوگیا۔' اس نے بات ٹالتے ہو ۓ کہا۔


"ہاں ہاں چلتے ہیں بس ذرا ایک کپ چاۓ پی لوں۔ تم پیو گے؟' 


"نہیں میں کافی پی چکا ہوں۔'


"عرفان چاۓ لانا ایک کپ۔' اس نے بیرے کو چاۓ کے لیۓ بلند آ آواز لگانے کے بعد دوسرے کونے پر بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو لگاتار باتیں کر رہا تھا اور لوگ اس کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ 'اس آدمی کو جانتے ہو؟'


"حارث نے مڑ کر دیکھا۔ 'نہیں، کون ہے وہ؟'


"وہ ایک ماہرِ نفسیات ہے۔ اتفاق سے مجھے اس کا ایک سیشن اٹینڈ کرنے کا موقع ملا تھا۔ ایک جاننے والا زبردستی اس کا لیکچر سننے کے لیۓ ساتھ لے گیا تھا۔ ہم حال میں داخل ہوۓ تو دیکھا حال لوگوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا ہے۔ اس دن یہ خوشگوار ازدواجی زندگی کے متعلق لیکچر دے رہا تھا اور لوگ اس کی باتوں پر تقریبا" اچھل اچھل کر تالیاں بجا رہے تھے۔ بعد میں مجھے اس کے بارے میں پتہ چلا موصوف کی دو شادیاں ناکام گئ ہیں اور اب تیسری کے حالات بھی کچھ ٹھیک نہیں۔ سنا ہے تیسری بیوی بھی طلاق مانگ رہی ہے۔'


اس کی بات سن کر خارث ہنسنے لگا۔ 'تو پھر تو میں بھی زیادہ نہ سہی تھوڑا بہت تو خوشگوار ازدواجی زندگی بارے ٹپس دے ہی سکتا ہوں۔ آخرکار میرا بھی کم سے کم ایک شادی کے ناکام ہونے کا تجربہ تو ہے۔ ویسے یار یہ ماہر نفسیات لوگ بھی کچھ عجیب قسم کی مخلوق ہوتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے یہ نفسیات کے ماہر ہونے سے زیادہ خود نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے آدمی کو خواہ مخواہ الجھنوں میں ڈال کر اسے کوںئ پیچیدہ مریض ظاہر کرتے ہیں پھر اس کا علاج کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ میرے خیال میں انہیں اپنے آپ کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔'


" میرا بھی خیال کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ لوگوں کے ڈپریشن کا علاج کرتے پھرتے ہیں جبکہ میرا ماننا ہے کہ جب تک ڈپریشن پیدا کرنے والے عوامل معاشرے سے ختم نہیں ہوں گے تب تک یہ بیماری ختم نہیں ہو گی۔'


چاۓ پینے کے بعد دونوں باہر نکل آۓ۔ تاریکی نے سارے شہر کو ڈھانپ رکھا تھا۔ رات کی سیاہی میں سفید برف گاڑیوں اور دکانوں کی روشنیوں میں چمک رہی تھی۔ باہر نکلتے ہی خارث نے گرم کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال لیۓ۔ اسد نے بھی اپنے جیکٹ کی زپ اوپر چڑھالی۔ دونوں کے پاس اپنی اپنی گاڑیاں تھیں۔ گاڑی تک جاتے جاتے ہی سردی نے اپنا آپ خوب دکھا دیا تھا۔ 'یار تم اپنی گاڑی یہیں چھوڑ جاؤ اور میرے ساتھ ہی آجاؤ دونوں ساتھ میں چلتے ہیں۔' خارث نے اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ کہا۔


 'وہ تو ٹھیک ہے پر میں صبح کیسے آؤں گا۔ تم تو چلے جاؤ گے صبح صبح اپنی یونیورسٹی۔'


"اپنے کسی کیفے کے لڑکے کو کہنا گاڑی تمہارے گھر چھوڑ جاۓ گا۔'


"یہ بھی صحیح ہے۔ تو چلو پھر۔' وہ بھی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔ 


دونوں کا یہ معمول تھا دونوں کیفے میں رات کو اکٹھے آتے تھے اور اکٹھے ہی شہر کی گلیوں میں آوارہ گردی کرتے گھر جاتے تھے۔ دونوں کا گھر تھوڑے ہی فاصلے پر تھا اس لیۓ انہیں کوںئ زیادہ دقت پیش نہ آتی تھی۔  آج چونکہ اسد کسی کام سے چلا گیا تھا اس لیۓ خارث اکیلے ہی کیفے آیا تھا۔


کچھ دیر سڑکوں پر گھومنے کے بعد اس نے اسد کو اس کے گھر اتارا اور خود اپنے گھر آگیا۔ پہنچتے ہی اس کی والدہ نے روزانہ کی طرح اپنا مخصوص جملہ دہرایا۔ 'اگر تمہاری بیوی ہوتی تو رات کو گھر جلدی تو آجاتے اسی لیۓ تو میں کہتی رہتی ہوں کہ کر لو شادی مگر تم مانتے ہی نہیں۔' وہ بھی ہزاروں دفعہ سنی ہوںئ بات کو حسبِ معمول مسکرا کر ٹال دیتا۔ 'اور وہ تمہارا دوست! وہ تو شادی شدہ ہے وہ کیوں دیر سے گھر آتا ہے؟'


"امی جب میں شادی شدہ تھا تب بھی میں اسی وقت گھر آتا تھا اور ابھی تو اتنا وقت ہوا ہی نہیں۔ آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے میں کوںئ چودہ پندرہ سال کا میٹرک میں پڑھنے والا لڑکا ہوں۔ میں چالیس سے اوپر کا ہو چکا ہوں اور اب تو بال بھی سفید ہونے شروع ہو گۓ ہیں۔' اس نے سامنے رکھے آںئینے میں دیکھ کر اپنی کنپٹیوں کا معاںٔنہ کرتے ہوۓ کہا جہاں کافی سفیدی آگئ تھی۔ سامنے کے چند بالوں پر بھی چاندی اتر آںئ تھی مگر ابھی بھی وہ بوڑھا بلکل نہیں لگتا تھا۔ بوڑھا وہ حقیقت میں تھا بھی نہیں، چوالیس پینتالیس سال کی عمر کا ایک خوبصورت اور صحت مند آدمی تھا مگر اس کی ماں کو یہ فکر تھی کہ اس کی عمر کافی ہوگئ ہے اور اسے اب شادی کر لینی چاہیۓ۔ وہ خود خاصی بوڑھی ہو چکی تھی اور اس کے جانے کے بعد اس کا بیٹا بلکل اکیلا ہو جاۓ گا کیونکہ اس کے خاوند کی کچھ سال پہلے وفات ہو گئ تھی اور خارث کی صرف ایک بہن تھی جو شادی کے بعد کینیڈا اپنے خاوند کے ساتھ رہتی تھی۔


"اسی لیۓ تو کہتی ہوں کر لو شادی اس کے بعد تو کوںئ لڑکی دے گا بھی نہیں تمہیں۔ میرے بعد بلکل اکیلے ہو جاؤ گے اس لیۓ ابھی کر لو تو بہتر ہے۔' وہ بار بار اصرار کرتی مگر خارث اسے ہمیشہ ٹالتا رہتا۔ وہ دراصل ایک شادی ناکام ہونے کے بعد دوسری شادی کرنے سے گبھراتا تھا اسی لیۓ اب وہ جلد بازی میں کوںئ فیصلہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پہلی شادی اس نے جلدی سے اپنے والد کے اصرار پر کر لی تھی۔ لڑکی بھی اس کے والد اور والدہ نے ہی تلاش کی تھی۔ مگر اب وہ اول تو شادی کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا تھا اور اگر رکھتا بھی تھا تو چاہتا تھا کہ کسی لڑکی کو جانے بغیر شادی نہیں کرے گا۔ جس لڑکی کو وہ جانتا نہیں ہو گا اس سے شادی بھی نہیں کرے گا۔ پہلی دفعہ بھی وہ چاہتا تو یہی تھا مگر اپنے والد کے اصرار پر اسے یہ شادی کرنی پڑی۔ شادی کے بعد اس نے کوشس کی مگر اس رشتے کو بچا نہیں سکا۔


یونیورسٹی سے واپسی پر وہ گھر آرہا تھا کہ بارش شروع ہو گئ۔ اسے نہ جانے کیا خیال آیا اس نے گاڑی ندی کی طرف جانے والی سڑک پر موڑ دی۔ سڑک پر چند ہی گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔ ندی برف سے ڈھکی ہوئی تھی اس نے ایک جگہ گاڑی کھڑی کر دی اور باہر جمی ہوںئ ندی پر پڑتی بارش کو دیکھنے لگا۔ وہ گرمیوں میں اکثر یہاں آتا اور دیر تک یہاں بیٹھا رہتا تھا۔ اور بہت سے لوگ سیر کی غرض سے ادھر آتے مگر آج اس موسم میں یہاں کوںئ بھی نہیں تھا۔


  'میں نے فیصلہ کر لیا ہے خارث! میں بس علیحدگی چاہتی ہوں۔'


"تم جو فیصلہ بھی کرو گی مجھے منظور ہو گا۔ آخری فیصلہ تمہارا ہی ہو گا۔ میں بس یہ کہہ رہا ہوں ایک دفعہ دوبارہ سوچ لو۔ دیکھو میں جانتا ہوں کہ تم اس شادی پہ رضامند نہیں تھی۔ اپنے گھر والوں کے دباؤ میں آکر تم نے شادی کی۔ اور سچی بات ہے کہ میں بھی اس طرح کسی سے بھی بغیر اسے جانے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر مجھے بھی گھر والوں کے اصرار پر یہ شادی کرنی پڑی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب جب یہ شادی ہو ہی گئ ہے تو اگر تم چاہو تو ہم ساتھ رہ سکتے ہیں۔ میری طرف سے تمہیں کسی قسم کی کوںئ تکلیف پیش نہیں آۓ گی۔ بہرحال آخری فیصلہ تمہارا ہی ہو گا جیسا تم چاہو۔'


"نہیں میں فیصلہ کر چکی ہوں۔ میں امریکہ جا رہی ہوں میں اب یہاں مزید نہیں رہ سکتی۔ تمہیں شاید برا لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ جنگل کی خطرناک آزادی میں تو رہا جا سکتا ہے مگر چڑیا گھر کی محفوظ قید میں ایک دن رہنا مشکل ہوتا ہے۔'


 اپنی ان سوچوں میں گم اس نے سامنے کھڑے درخت کودیکھا جس کے پتے جھڑ چکے تھے اور ٹہنیاں بارش سے نہا گئی تھیں۔ اس پر کہیں سے سردی سے ٹھٹھرتا کانپتا پرندہ آکر بیٹھ گیا۔ حارث کو بہت خیرت ہوںئ کیونکہ اس موسم میں پرندے یہاں سے ہجرت کر جاتے تھے مگر یہ واحد پرندہ  نہ جانے کیسے ادھر رہ گیا تھا۔ وہ بہار کے موسم کا تصور کرنے لگا جب اس درخت پر پھر سے پتے اور پھول وغیرہ لگیں گے اور یہ درخت دوبارہ ہرا بھرا ہو جاۓ گا تو اس پر رنگ رنگ کے پرندے آکر بیٹھیں گے جو کںئ اقسام کی بولیاں بولیں گے اور خوشی کے گیت گایئں گے۔ 'مگر ابھی وہ بہار بہت دور ہے اس لیۓ اے نادان پرندے تم اس وقت تک یہاں اکیلے بیٹھے خزاں کے گیت گاؤ۔'


شام کو اسد اور وہ دونوں اکھٹے ہی کیفے میں آۓ تھے مگر اسد کسی کام میں مصروف ہو گیا اور وہ اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا۔ چند طالب علم جو کیفے میں پہلے سے موجود تھے کچھ دیر بعد اس کے پاس آکر بیٹھ گۓ اور اس سے گپ شپ کرنے لگے۔ 'سر ایک تو آپ یہ بتایۓ کہ تمام ٹیچر امتخانوں کی تیاری کے لیۓ کتابیں recommend کرتے ہیں پر آپ کیوں نہیں کرتے؟'


" کرتا تو ہوں۔ پچھلے سمیسٹر میں بھی چند کتابیں بتاںئ تو تھیں۔'


"کہاں سر وہ تو آپ کو اتنی بار کہا تھا پھر جا کر کہ آپ نے چند نام بتاۓ۔'



تیاری کے لیۓ تو پہلے ہی اتنی کتابیں تمہاری کورس آؤٹ لائن میں بتا دی جاتی ہیں مزید کیا بتانی وہی پڑھ لو تو بڑی بات ہے۔'


"پھر بھی سر کچھ تو مدد مل ہی جاتی ہے دوسری کتابوں سے بھی۔'


اچھا چلو اس سمیسٹر میں بتاؤں گا چند ایک۔۔۔" اس نے ہنستے ہوۓ کہا۔


" سر کلاس میں جو آپ بات کر رہے تھے وہ تو بیچ میں ہی رہ گئ۔ معاشرے کے بارے میں تو آپ بات کر رہے تھے مگر سسٹم کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں کہا؟'۔ ایک لڑکے نے پوچھا۔ 


"بھئ جہاں تک نظام یا سسٹم کی بات ہے تو وہ کون بناتا ہے؟'


"سر ۔۔۔لوگ۔۔۔ یا حکومت وغیرہ۔ ایک لڑکے نے سوچتے ہوۓ کہا۔


" ہاں تو وہ لوگ یا حکومت کہاں سے آتی ہے۔ کوںئ بیرونی حملہ آور تو نہیں آیا جس نے یہاں پر آکر حکومت بنا لی ہو جیسا پہلے ہوا کرتا تھا کسی زمانے میں۔ ایسا تو نہیں ہے نا؟' 


"جی سر ایسا تو نہیں ہے۔'


"اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ 'یعنی معاشرے کے افراد ہی ہوتے ہیں جو حکومت بناتے ہیں یا ریاست کے دوسرے اداروں مثلاً فوج اور عدلیہ وغیرہ میں جاتے ہیں۔ ہم میں سے ہی کچھ لوگ سیاستدان بنتے ہیں یا بیوروکریسی میں جاتے ہیں یا اسی طرح دیگر شعبوں میں جاتے ہیں۔ تو جیسے یہ لوگ ہوں گے اسی طرح کا سسٹم بناںٔیں گے۔ جیسا معاشرہ ہو گا ان کا نظام بھی تو ویسا ہی ہو گا۔ کیونکہ اس کو بنانے والے تو لوگ ہی ہوتے ہیں۔ خود بخود تو بن نہیں جاتا نا سسٹم۔'


چند دن بعد وہ یونیورسٹی سے  نکلا تو گھر جانے کی بجاۓ سیدھا اسد کے گھر گیا۔ اسے معلوم تھا اسد اس وقت گھر پر ہی ہو گا۔ اسد کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر اس نے گھنٹی بجانے کی بجاۓ اسے کال کی اور جلدی باہر آنے کو کہا۔ وہ گبھرایا ہوا باہر آیا تو اس نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور ایسے ہی ویران سڑک پر گاڑی بھگانے لگا۔ 'آخر بتاؤ گے کہ ہوا کیا ہے؟' اس نے سامنے رکھا لفافہ اٹھا کر اسے دیا۔ اس نے لفافہ کھول کر خط پڑھا۔ 'چلو اچھا ہی ہو گیا۔ یہ تو کافی دیر پہلے ہی ہو جانا تھا انہوں نے خواہ مخواہ دیر کی۔' خط یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے تھا۔ انہوں نے خارث کو یونیورسٹی سے نکال دیا تھا۔ پہلے بھی کئ دفعہ اسے تنبیہ کی گئ تھی کہ وہ اپنے نظریات اپنے تک محدود رکھے طلبہ سے ان کا اظہار مت کرے صرف وہی پڑھاۓ جو سلیبس میں ہے مگر کئ بار کہنے کے باوجود بھی وہ نہ مانا۔ اسے تھوڑا بہت اندازہ تو تھا کہ ایسا ایک دن ہو سکتا ہے مگر پھر بھی اس نے کوںئ زیادہ دھیان نہیں دیا۔


"اسی لیۓ میں نے ان کے نکالنے سے پہلے خود ہی استعفیٰ دے دیا تھا کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ ایک دن ایسا ہو جانا ہے۔ تم جانتے ہو جب مجھے پہلی دفعہ ان کی طرف سے تنبیہ کی گئ تو میں نے اسی وقت یونیورسٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسد اسے یاد دلا رہا تھا اور وہ خاموشی سے سامنے دیکھتے ہوۓ بس گاڑی چلا رہا تھا۔ 'چلو ویسے اچھا ہی ہو گیا جان چھوٹی۔ اب کچھ اور بہتر سوچ لیں گے۔'


"میں نے سوچ لیا ہے۔'


"اچھا سوچ بھی لیا، کیا سوچا ہے؟'


"میں کینیڈا شفٹ ہو رہا ہوں۔' 


"کیا مطلب! اتنی جلدی فیصلہ ٹھیک نہیں تھوڑا سوچ لو اچھی طرح۔'


"نہیں جلدی کا فیصلہ نہیں ہے کافی پہلے کا میں اس بارے میں سوچ رہا تھا اور اب بہانہ بھی خود ہی بن گیا ہے۔'


"ویسے یار سوچ لو ادھر کسی اور یونیورسٹی میں اپلاںئ کر دو تو بہتر ہے۔'


"نہیں اب مجھے سمجھ آگئ ہے کہ اس نے ٹھیک کہا تھا کہ چڑیا گھر کی محفوظ قید سے جنگل کی خطرناک یا غیر محفوظ آزادی بہتر ہے۔'


"وہ تو ٹھیک ہے پھر بھی کسی نئ جگہ جا کر سیٹ ہونا کافی مشکل ہوتا ہے۔' اسد نے اسے قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ چڑیا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ 


دو ماہ بعد خارث تصویروں کی ایک نمائش میں کھڑا اسد کا انتظار کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد وہ آگیا۔ 'یار اتنی دیر لگا دی۔ میں نے اسی لیۓ کہا تھا میں تمہیں خود ایٔرپورٹ لینے آجاتا ہوں مگر تمہی نے کہا نہیں میں خود آجاؤں گا۔'  خارث کی بات سن کر وہ مسکرایا اور بولا۔ 'وہ یار ایک چھوٹا سا کام تھا مجھے کہیں اور جانا تھا۔ خیر اب تو آگیا ہوں اب تو ہمیشہ کے لئیے تمہارے ساتھ ہی ہوں۔'


"ہمیشہ کے لیے! کیا مطلب؟' اس نے خیرت سے پوچھا۔


"مطلب یہ کہ میں نے بھی سوچا کہ چڑیا گھر سے تو جنگل بہتر ہے۔ جہاں کی آزادی خطرناک خد تک ہے مگر ہے تو۔۔۔'


"اچھا تو تم ہمیشہ کے لیۓ کینیڈا آگۓ۔' اس نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔ 'تو مجھے بتایا کیوں نہیں پہلے کہ تم اس طرح کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہو۔'


"بس سمجھو اچانک ہی بنا'۔


"تو وہ تمہارے کیفے کا کیا ہو گا؟'


"وہ بھی چلے گا ساتھ ساتھ۔۔۔ اور اب میں ادھر بھی اسی طرح کا کیفے کھولوں گا۔ اس میں بھی وہی ماحول ہو گا جو ادھر تھا۔ اسی نام سے۔۔۔ "Back Street Cafe"


"یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ ایسے کیفے تو ہر جگہ کھلنے چاہیئں'۔ اس نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔


"ہاں یہ تو ہے۔' اسد نے کہا۔ 'پر یار ایک بات میں سوچ رہا ہوں۔ ہم تو آگۓ چڑیا گھر چھوڑ کر کہ ہم آسکتے تھے مگر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نہیں آ سکتے۔'


خارث نے کوںئ جواب نہ دیا اور سامنے دیوار پر لٹکی پینٹنگ دیکھنا لگا۔ جس پر ایک بحری جہاز سمندری طوفان میں گرا ڈوب رہا تھا۔










Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post