گرمیوں میں حبس کا موسم مجھے بالکل بھی پسند نہیں۔ اس موسم میں طبعیت میں اک عجیب سی بیزاری پیدا ہو جاتی ہے اور مزاج بھی کچھ بوجھل سا ہو جاتا ہے۔
مگر کبھی کبھار اس موسم میں ایسا خوشنما، خوش رنگ، خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے کہ آدمی کی ساری بیزاری رفع ہو جاتی ہے اور طبعیت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔
ایک دن صبح میں اپنے دفتر کے لیۓ گھر سے نکلا تو آسمان ابرآلود تھا اور حبس پہلے سے بہت بڑھ گیا تھا جو اس بات کا غماز تھا کہ بارش ہونے والی ہے۔ مجھے دیر ہو گئی تھی اس لیۓ میرا دوست احسن میٹرو اسٹیشن پر کھڑا بار بار کال پہ کال کرتا چلا جا رہا تھا۔ میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا چل رہا تھا۔ تقریباً پانچ سات منٹ کے بعد میں میٹرو اسٹیشن پہنچ گیا۔ میں نے جلدی سے اوپر جا کر ٹوکن خریدا اور دوسری طرف سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ احسن مجھے وہیں سے نظر آرہا تھا۔ وہ اپنی معمول کی جگہ پر کھڑا میرا انتظار کر رہا تھا جہاں سے ہم دونوں نے اپنی مطلوبہ گاڑی میں سوار ہو کر دفتر کی طرف روانہ ہونا تھا۔ میں جب اس کے پاس پہنچا تو وہ مجھے گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ تم کیوں اتنی دیر سے آۓ ہو۔ میں کب سے کھڑا تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں رات کو شادی کے ایک فنکشن سے کافی دیر سے آیا تھا اس لیۓ صبح آنکھ نہیں کھل رہی تھی۔ جب ہم ان باتوں سے فارغ ہوۓ تو ایک گاڑی آکر سٹاپ پر لگی۔ یہ ہماری مطلوبہ گاڑی نہیں تھی جس پر سوار ہو کر ہم نے جانا تھا۔ چند مسافر گاڑی سے اترے اور چند دیگر مسافر جو ہمارے ساتھ کھڑے تھے اس گاڑی میں سوار ہو گۓ۔
میٹرو اسٹیشن کے اندر بھی بہت گرمی اور حبس تھی۔ میں نے اپنی ٹائی کو ڈھیلا کیا اور قمیض کا اوپر کا بٹن کھول دیا۔ چند لمحوں بعد میں نے گردن گما کر سیڑھیوں سے کسی کو اترتے ہوۓ دیکھا۔ میری نظر وہیں کی وہیں ٹھہر گئی۔ وہ ایک ایسی صورت تھی جو صرف خوابوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اک ایسی صورت جو صرف کہانیوں اور داستانوں میں ملتی ہے۔ مجھ پر اک خواب کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ اسی خواب آلود کیفیت میں میں نے شیشے کی دیوار سے باہر جھانک کر دیکھا باہر بارش شروع ہو گئی تھی اور ہوا چلنے لگی تھی۔ موسم کا حبس جاتا رہا تھا۔ مزاج کی بیزاری دور ہو گئی تھی۔ وہ صورت سیڑھیوں سے اتر کر میرے قریب آکر کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔ یہ فاصلہ میلوں کا فاصلہ تھا۔ یہ دوری برسوں کی دوری تھی۔ ابھی مجھے جسے طے کرنا تھا۔ میں اس صورت کا نام نہیں جانتا تھا مگر اسے دیکھتے ہی نام پتہ سب جاننا چاہتا تھا۔ میرا دوست چند قدم پر کھڑا نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا۔ وہ ایسی باتوں کو بالکل نہیں مانتا تھا۔ وہ کہتا تھا یہ تو نہایت پاگل پن ہے کہ بندہ کسی شخص کو بس اک نظر دیکھے اور اس سے اتنی محبت کر بیٹھے کہ اس سے شادی کرنے پر آجاۓ۔ اس کا کہنا تھا میں شادی سے پہلے محبت کے خلاف نہیں لیکن بھلا شادی اور محبت جیسا ذمہ داری والا کام محض کسی کو اک نظر دیکھ کر کیا جا سکتا ہے؟ وہ کہتا تھا مجھے تو 'لو ایٹ فرسٹ سائٹ' اور 'ارینج میرجز' میں کوئی زیادہ فرق معلوم نہیں ہوتا۔ دونوں میں اک دوسرے کو بس اک تصویر یا اک نظر دیکھ کر پسند کر لیا جاتا ہے۔ لیکن کیا کسی کو پسند کرنے کا معیار صرف شکل و صورت ہے؟ دو لوگ جنہوں نے پوری زندگی ایک ساتھ رہنا ہے اگر وہ ایک دوسرے کی شخصیت کو جانے بغیر محض ایک تصویر دیکھ کر یا اک دوسرے کو ایک نظر دیکھ کر شادی کا فیصلہ کر لیں تو کیا یہ احمقانہ پن نہیں؟ کیا اس طرح کا انتخاب درست انتخاب ہو سکتا ہے؟
میرا دوست جو بھی راۓ رکھتا ہو سچ پوچھیں تو میں نے ان باتوں پہ کبھی غور نہیں کیا۔ عہدِ شباب میں تو رہا ایک طرف۔۔۔ اب جب کہ میں میں ایک پختہ عمر کو پہنچ چکا ہوں ابھی تک ان باتوں پر کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا۔
میٹرو اسٹیشن پر کھڑا میں اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا۔ سچی بات ہے میں ایسا کرنا چاہتا بھی نہیں تھا مجھے لگا میری نظر ہٹی تو وہ صورت کہیں غائب ہو جاۓ گی۔ میں خواب سے بیدار ہو جاؤں گا اور ایک بار پھر حبس زدہ موسم میں گھر جاؤں گا۔
اس کی نظر مجھ پر ابھی تک نہیں پڑی تھی یا شاید اس نے مجھے دیکھ لیا تھا اور نظر انداز کیا تھا۔ غالباََ وہ مردوں کی ایسی نظروں کی عادی تھی۔ مجھے جونہی یہ خیال آیا میں نے فوراً اپنی نظریں اس سے ہٹا لیں۔ میں اسے اپنے بارے میں کوئی غلط تاثر نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں نے سوچا ہم مرد بھی عجیب مخلوق ہیں دن بھر بیسیوں لڑکیوں کو بلا وجہ تاڑتے رہتے ہیں لیکن جہاں معاملہ دل کا ہو تو نظریں فوراً ہٹا لیتے ہیں۔ اگر یہاں بات کسی خوبصورت لڑکی کو بلاوجہ تاڑنے کی ہوتی تو میں اب تک بلا خوف و خطر اسے تاڑتا چلا جاتا اور مجھے ذرا سا بھی خیال نہ آتا کہ اسے کیسا محسوس ہو رہا ہوگا لیکن یہاں بات دوسری تھی۔ میرے دوست کی راۓ سے قطع نظر میں اسے اسی لمحے اپنے دل میں بھسانے اور اپنا جیون ساتھی بنانے کا ارادہ کر چکا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اور لوگ بھی آنے شروع ہو گۓ اور رش پہلے سے بہت بڑھ گیا۔ وہ ایک طرف چپکے سے کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ میرا دوست اس 'قلبی واردات' سے بے خبر اپنی ہی کسی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔ کچھ لمحوں بعد ہماری گاڑی بھی آ گئ۔ میرے دوست نے میری طرف دیکھا اور گاڑی کی طرف قدم بڑھاۓ۔ میں نے اس لڑکی کی طرف دیکھا وہ اپنی جگہ پر کھڑی رہی اس کا مطلب تھا اس نے اس گاڑی میں نہیں جانا تھا۔ غالباََ وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ ابھی ابھی اس نے کسی سے فون پر بات کی تھی۔ گاڑی کے دروازے کھلے تو میرے دوست نے پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا مجھے وہیں کھڑا پایا تو خیرت سے چلایا۔ 'آ بھی جاؤ وہاں کیوں کھڑے ہو۔' میں نے اس سے کہا کہ تم چلے جاؤ میں اگلی گاڑی میں آتا ہوں۔ اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوۓ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے اسے فون کا اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ تمہیں فون پر سمجھاتا ہوں تم جاؤ۔ گاڑی کے دروازے بند ہونے والے تھے اس لیۓ وہ جلدی سے گاڑی میں سوار ہو گیا۔ اس لڑکی کو شاید اندازہ ہو گیا تھا کہ میں کیوں اپنے دوست کے ساتھ گاڑی میں سوار نہیں ہوا۔ اس نے ایک اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈالی لیکن اس کے چہرے سے کسی قسم کا کوئی ثاثر نہ ابھرا۔ وہ جیسے پہلے کھڑی تھی ویسے ہی خاموشی سے کھڑی باہر برستی بارش کو دیکھنے لگی۔
ابھی ایک منٹ سے زیادہ نہیں گزرا تھا کہ میرے دوست کی کال آگئی۔ میں نے فون اٹھا کر اسے ساری تفصیل بتائی تو اس نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور طنزیہ انداز میں بولا۔ 'تم نے فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں کر دی۔ شادی کا فیصلہ وہ بھی صرف پندرہ منٹ میں۔۔۔تمہیں تو اس کے نظر آتے ہی یہ فیصلہ کر لینا چاہیۓ تھا۔' اپنے دوست کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوۓ میں نے اس کی طرف دیکھا وہ موبائل پر کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔ میں نے فون بند کر دیا۔ کچھ دیر بعد سیڑھیوں سے اتر کر ایک لڑکی اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ شاید وہ اسی کا انتظار کر رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگیں۔ میں نے سننے کی کوشش کی مگر مجھے ایک بھی لفظ سنائی نہ دیا۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی آگئی وہ آگے بڑھیں تو میں بھی ان کے پیچھے چل دیا۔ وہ گاڑی کے خواتین والے حصے میں چلی گئیں اور میں دوسرے حصے میں داخل ہو گیا۔ رش کافی تھا لیکن خوش قسمتی سے مجھے خواتین والے حصے کے قریب ہی کھڑے ہونے کی جگہ مل گئی۔ یہاں سے میں ان پر آسانی سے نظر رکھ سکتا تھا۔ گاڑی چل پڑی۔ راستے میں جب بھی گاڑی کسی سٹاپ پر رکتی میں فوراً ان کی طرف دیکھتا۔ بالاآخر جب وہ سٹاپ آیا جہاں پر وہ گاڑی سے اتریں تو میں بھی وہاں پر اتر گیا۔ گاڑی سے اتر کر وہ میٹرو اسٹیشن کے باہر جانے والے راستے کی طرف چل پڑیں۔ میں کھڑا ہو کر انہیں کچھ دیر تک دیکھتا رہا جب ان کے اور میرے درمیان فاصلہ مناسب ہو گیا تو میں ان کے پیچھے چل پڑا۔ میٹرو اسٹیشن سے باہر نکل کر میں نے دیکھا تو وہ سڑک عبور کرکے دوسری طرف جا چکی تھیں۔ دوسری جانب ایک بڑی سی عمارت تھی وہ اس میں داخل ہو گئیں۔ اس عمارت میں بہت سارے دفاتر تھے شاید وہ ان دفاتر میں سے کسی دفتر میں کام کرتی تھی۔ میں جلدی سے آگے بڑھا اور بارش میں بھیگتا ہوا سڑک عبور کرکے دوسری طرف عمارت میں گھس گیا۔ میں نے اردگرد دیکھا وہ کہیں نہیں تھیں۔ اتنی بڑی عمارت میں اسے تلاش کرنا بہت مشکل تھا اور مجھے اپنے دفتر سے بھی بہت دیر ہو گئی تھی۔ لہٰذا میں واپس چلا آیا۔
مجھے اس بات کی تسلی تو تھی کہ میں نے اس کے دفتر کا پتہ لگا لیا تھا لیکن ایک خدشہ بھی تھا۔ یہ میرا صرف اندازہ تھا کہ وہ اس دفتر میں کام کرتی ہے یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ آج اس دفتر میں کسی کام کی غرض سے گئ ہو۔ وہ خود وہاں کام نہ کرتی ہو۔ اگر ایسا ہوا تو کل وہ میٹرو اسٹیشن پر بھی نہیں آۓ گی۔ پھر اس کے بعد یہ تو یقینی تھا کہ وہ مجھے کبھی دکھائی نہیں دے گی۔ پورا دن میں اسی فکر میں غلطاں رہا۔
اگلے دن میں جلدی میٹرو اسٹیشن پہنچ گیا۔ میں نے سوچا یہ نہ ہو وہ مجھ سے پہلے بس میں سوار ہو کر چلی جاۓ اور مجھے پتہ بھی نہ چلے کہ وہ آئی تھی کہ نہیں۔ میرا دوست احسن ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ میں اپنی کل والی جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اس وقت صبح صبح بھی اتنی بھیڑ تھی یوں لگتا تھا پورا اسلام آباد میٹرو اسٹیشن کی طرف امڈ آیا ہو۔ ان میں مختلف سرکاری و نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین بھی تھے اور مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جانے والے طلبہ و طالبات بھی۔ دیہاڑی دار مزدور بھی تھے اور دور دراز سے آۓ ہوۓ مسافر بھی۔ روزانہ سینکڑوں ہزاروں لوگ اس اسٹیشن پر اترتے تھے اور تقریباً اتنے ہی سوار ہو جاتے تھے۔ سب کو کہیں نہ کہیں پہنچنا تھا۔ سب زندگی کی دوڑ دھوپ میں شامل ہونے کے لیۓ صبح سویرے گھروں سے نکل آتے تھے۔ تھکے ہارے، بے بس، لاچار لوگ، ماتھے پر تفکر و پریشانی کی شکنیں سجاۓ، مسکراہٹیں اور قہقہے بکھیرتے اپنی اپنی منزل کی جانب گامزن تھے۔ یہاں زندگی کس قدر سانس لیتی محسوس ہوتی تھی۔ کتنے رنگ برنگے کردار تھے جو زندگی کے کینوس پر ایک ساتھ نمودار ہو گۓ تھے۔ سب کے اپنے اپنے مسائل تھے، اپنی اپنی پریشانیاں تھیں، اپنے اپنے دکھ اور غم تھے۔ سینکڑوں کہانیاں تھیں جو یہاں اردگرد ہر سو بکھری پڑی تھیں۔ یہ بھی ایک دنیا تھی۔ یہ بھی ایک زندگی تھی۔ جو یوں تو سب کے سامنے تھی مگر حقیقت میں سب کی نظروں سے اوجھل تھی۔
کچھ دیر بعد میرا دوست بھی آ گیا۔ وہ مجھے اتنی جلدی دیکھ کر خیران ہوا لیکن پھر خود ہی سمجھ کر ہنسنے لگا۔ 'لگتا ہے آج بھی دفتر دیر سے پہنچیں گے۔' ہم وہاں کھڑے ہو کر اپنی گاڑی کی بجاۓ اس کا انتظار کرنے لگے۔ کافی وقت بیت گیا تھا۔ یہاں تک کہ جس وقت وہ کل آئی تھی وہ وقت بھی گزر گیا تو میرے دوست نے کہا۔ 'مجھے لگتا ہے چلنا چاہیۓ اس نے آنا ہوتا تو اب تک آجاتی۔' میں نے اسے تھوڑی دیر اور انتظار کرنے کو کہا اور خود سیڑھیاں چڑھ کر میٹرو اسٹیشن کے باہر جا کر انتظار کرنے لگا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ نہیں آنے والی تو میں واپس چلا آیا۔ بس میں سفر کے دوران اور دفتر میں کام کرتے ہوۓ بھی مجھے بار بار اسی کا خیال آرہا تھا۔ اس کی صورت ہر دوسرے تیسرے پل میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی تھی۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میں نے اسے ملنے سے پہلے کھو دیا ہے۔ اب وہ مجھے کبھی دکھائی نہیں دے گی۔ شام کو دفتر سے گھر واپس آکر بھی اسی کا تصور میرے دل و دماغ پر چھایا رہا۔ اگلے دن میں میٹرو اسٹیشن میں بالکل بددل سا افسردہ سا کھڑا تھا۔ میرا دوست میرے ساتھ تھا۔ ہماری گاڑی آچکی تھی اور ہم بس سوار ہونے والے تھے۔ لیکن ہمارے سوار ہونے سے چند لمحے پہلے میں نے سیڑھیوں سے اس کو نیچے اترتے ہوۓ دیکھا۔ اس کے ساتھ اس کی دوست بھی تھی۔ میرا دوست میری طرف دیکھ کر دھیرے سے ہنسا۔ میں بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا اٹھا۔ اس نے مجھے اشارہ سے کہا میں جارہا ہوں تم اگلی بس میں آجانا۔ میرا دوست چلا گیا اور وہ دونوں میرے سامنے کچھ فاصلے پر آکر کھڑی ہو گئیں۔ اپنی دوست سے باتیں کرتے ہوۓ اس نے اپنی لانبی پلکیں اٹھائیں اور اک اچٹتی سی نگاہ مجھ پر ڈالی۔ اس کے دیکھنے کے انداز سے مجھے لگا جیسے وہ مجھے پہچان گئی ہو۔ گاڑی آئی اور ہم تینوں اس میں سوار ہو گۓ۔ آج گاڑی میں پہلے سے اتنا رش تھا کہ مجھے اس کے قریب جگہ نہ ملی جہاں سے میں اسے دیکھ پاتا۔ میں بے چینی سے اس سٹاپ کا انتظار کرنے لگا جہاں اس نے اترنا تھا۔ کوئی بیس پچیس منٹ کے بعد اس کا سٹاپ آگیا۔ یہاں بھیڑ بالکل نہیں تھی۔ گاڑی سے اترتے ہی وہ مجھے نظر آگئی۔ اس بار میں نے وقت ضائع نہ کیا اور ان کے ساتھ ساتھ میٹرو اسٹیشن سے باہر نکل آیا۔ وہ سڑک عبور کرکے عمارت کی جانب بڑھیں تو میں بھی ان کے بالکل پیچھے اس عمارت میں داخل ہو گیا۔ ان کا دفتر اوپر کی کسی منزل پر تھا اس لیۓ انہوں نے لفٹ کی جانب قدم بڑھاۓ۔ میں نے ان کے ساتھ لفٹ میں جانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ میں انہیں کسی قسم کے شک و شبہ میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں ان پر کسی طرح بھی یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا کہ میں ان کے تعاقب میں ہوں۔ میں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا اور ان کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن مجھے یہ فکر لاحق تھی کہ اگر وہ اوپر جا کر میرے پہنچنے سے پہلے کسی دفتر میں گھس گئیں تو میں انہیں کیسے تلاش کروں گا۔ ابھی میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ لفٹ نچلی منزل پر آکر رکی اور اس میں سے ایک لڑکا باہر نکل کر آیا۔ وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا۔ انہوں نے آپس میں کوئی چھوٹی سی بات کی جو میں اتنی دور سے سن نہیں پایا لیکن ان کے انداز سے یوں ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے اک دوسرے کو سلام کیا ہے۔ لڑکے نے میری طرف قدم بڑھاۓ اور وہ دونوں لڑکیاں لفٹ میں گھس گئیں۔ اس لڑکے کو میں پہچانتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ یہاں کس دفتر میں کام کرتا ہے۔ لڑکیوں کا اس طرح اس سے بات کرنے کا مطلب تھا کہ وہ اس سے شناسا ہیں جس کا یقیناً مطلب تھا کہ وہ تینوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں۔ میری پریشانی دور ہو گئی تھی اب مجھے اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں اطمینان سے اس دفتر میں جا کر اس کی تصدیق کر سکتا تھا۔ وہ لڑکا میرے قریب پہنچا تو میں لوگوں کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ بھی مجھے پہچانتا تھا اس لیۓ میں نے اس کے سوالوں سے بچنے کے لیۓ اسے گزر جانے دیا۔ وہ جلدی میں لگ رہا تھا شاید وہ دفتر سے باہر اس وقت کسی کام کے لیۓ نکلا تھا۔ اس کے باہر نکل جانے کے بعد میں نے لڑکیوں کی طرف دیکھا وہ جا چکی تھیں۔ میں لفٹ کی طرف بڑھا اور اس منزل پر آ گیا جہاں اس کا دفتر تھا۔ چند قدم کے فاصلے پر ایک بڑا سا شیشے کا دروازہ تھا۔ میں دروازہ کھول کر اندر چلا گیا وہ ایک طرف کھڑی کسی عورت سے بات کر رہی تھی۔ اس کی نظر مجھ پر نہیں پڑی تھی۔ میں چند سیکنڈ وہاں کھڑا رہا پھر واپس پلٹ آیا۔
ایک مرحلہ تو میں نے سر کر لیا تھا۔ لیکن اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ بات کو آگے کیسے بڑھایا جاۓ۔ میں نے احسن سے پوچھا تو اس نے کچھ مذاق سے اور کچھ سنجیدگی سے فضول قسم کے مشورے دیۓ جنہیں میں نے فوراً رد کر دیا۔
رات کو میں اور احسن ایک چھوٹے سے ریستوران کی اوپری منزل پر کھلے میں بیٹھے تھے۔ یہاں ہم اکثر آیا کرتے تھے۔ یہ ایک درمیانے درجے کا ریستوران تھا جہاں پر زیادہ تر اردگرد کے نجی ہاسٹلز میں رہنے والے طلبہ کا رش لگا رہتا تھا۔ اس وقت بھی قریب کے کسی ہاسٹل کے چند طلبہ ہمارے کچھ فاصلے پر بیٹھے تھے۔ ان میں سے تین تو اپنے کالج یا یونیورسٹی کے کسی موضوع پر بحث کر رہے تھے جبکہ ان میں سے ایک اپنے دونوں پاؤں کرسی کے اوپر ٹکا کر خاموشی سے فضا میں کہیں دیکھتے ہوۓ سگریٹ کے کش پہ کش لگاۓ جا رہا تھا۔ اس کے ساتھی نے ایک دو بار اسے مخاطب کرکے گفتگو میں شریک کرنا چاہا مگر اس نے ایک آدھ جملے سے زیادہ کوئی بات نہ کی اور ایک سگریٹ ختم ہونے کے بعد اسی سے دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔ یہ والا سگریٹ بھی ختم کرنے کے بعد اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ لیۓ اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔ مجھے وہ کوئی سادھو قسم کا آدمی لگا جو چونکڑی مار کر ہاتھ جوڑ کر اور آنکھیں بند کرکے کسی پراتھنا میں مصروف ہو۔
فضا میں اس وقت حدت تھی مگر ریستوران کی چھت پر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں اور احسن دونوں خاموش بیٹھے تھے وہ موبائل پر شاید کسی سے 'چیٹ' کرنے میں مگن تھا اور میں نیچے سڑک پر گزرتی ٹریفک کو بلا مقصد دیکھے چلا جا رہا تھا۔ دیر تک ہم دونوں میں خاموشی رہی۔ پھر احسن نے موبائل سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا۔ 'کہاں کھوۓ ہو۔' میں نے اس سے کہا کہیں نہیں کھویا تم یہ بتاؤ آگے کیا کرنے چاہیۓ۔ اس نے موبائل نیچے رکھ دیا اور پہلو بدل کر بولا۔ 'یار میں تمہیں یہ مشورہ تو نہیں دوں گا کہ اس کے گھر کا پتہ لگاؤ اور رشتہ بھیجو۔ کیونکہ تم جانتے ہو میں صرف صورت دیکھ کر محبت یا شادی کرنے کے خلاف ہوں اور دوسرا یہ کہ جیسی تمہاری شکل ہے مجھے نہیں لگتا وہ تمہیں صرف تمہاری شکل دیکھ کر پسند کرے گی۔'
میری شکل والی بات اس نے یوں تو مذاق میں کہی تھی مگر اس میں کافی حد تک صداقت بھی تھی۔ میں نے اسے اک نظر دیکھ کر پسند کر لیا تھا وہ بھی مجھے اس طرح پسند کر لے ایسا ضروری نہیں تھا۔
تو پھر کیا کیا جاۓ؟' میں نے اس سے پوچھا۔
'مجھے لگتا ہے کچھ فلمی قسم کے کام کرنے پڑیں گے۔ جیسا کہ تم کسی آدمی کو بھیجو وہ اس کا پرس چھین کر بھاگے اور تم ہیرو بن کر چور کو پکڑ لو اور اسے اس کا پرس واپس دلا دو۔ اس سے وہ تم سے متاثر ہو جاۓ گی۔ یا پھر کچھ کراۓ کے غنڈے بھیجو جو اسے چھیڑیں اور تم عین موقع پر جا کر غنڈوں کو مار کر ہیرو بن جاؤ۔
میں اس کی بات سن کر ہنسنے لگا۔ ہمیں کوئی بھی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی اس لیۓ ہم دونوں کافی دیر تک ہنسی مذاق کرتے رہے۔
گھر آ کر لیٹتے ہی مجھے نیند آ گئ۔ تقریباً نصف شب کے بعد میری آنکھ کھل گئ اس کے بعد مجھے دیر تک نیند نہیں آئی۔ کچھ وقت تک میں کروٹیں بدلتا رہا پھر اٹھ کر چھت پر چلا آیا۔ ہوا چل رہی تھی اور موسم خوش گوار تھا۔ چار سو خاموشی کا پہرا تھا بس کبھی کبھار گلی میں کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل چنگھاڑتا ہوا گزر جاتا تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ تارے اپنے معمول کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور سامنے والے مکان کے عقب میں آسمان کے ایک کونے پر چودھویں کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہوا نے ہلکی آندھی کی صورت اختیار کر لی اور آسمان پر کہیں کہیں بادلوں کے سفید ٹکڑے نمودار ہونے لگے۔ معلوم نہیں کتنی دیر تک میں چھت پر ٹہلتا رہا پھر نیچے اپنے کمرے میں آکر سو گیا۔
صبح میرے گھر والوں نے مجھے جنجھوڑ جنجھوڑ کر اٹھایا۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو سورج سر پر چڑھ آیا تھا۔ جلدی سے تیار ہو کر میں دفتر کے لیۓ نکل کھڑا ہوا۔ احسن کی کال پہ کال آتی چلی جا رہی تھی جسے میں بار بار کاٹ رہا تھا۔ میں جب اسٹیشن پہنچا تو وہ تپا ہوا کھڑا تھا اسے دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ میری ہنستے ہوۓ کی نقل اتار کر بولا۔ 'ہنسو زور سے ہنسو پر اب جو میں تمہیں بتاؤں گا تمہاری ساری ہنسی دم توڑ دے گی۔' میں نے پوچھا ایسا کیا ہوا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ آکر چلی بھی گئی ہے۔ مجھے اس کی بات پر یقین نہ آیا کیونکہ ابھی اس کے جانے کا وقت نہیں ہوا تھا۔ احسن شاید بھانپ گیا تھا کہ میں کیا کہنے والا ہوں اس لیۓ میرے پوچھنے سے پہلے ہی وہ بول پڑا۔ 'آج اس کی دوست جلدی آگئی تھی لہذا وہ جلدی چلی گئیں۔' میں خاموشی سے ایک طرف جا کر کھڑا ہو گیا۔ پہلے ہی اس سے ملنے اور بات آگے بڑھانے کا موقع نہیں مل رہا تھا اوپر سے یہ جو پانچ دس منٹ کی ہلکی سی ملاقات ہو جاتی تھی آج کے دن میں نے وہ موقع بھی گنوا دیا تھا۔ اب مجھے کل تک کا انتظار کرنا پڑنا تھا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ سیڑھیوں سے اترتی ہوئی دکھائی دی۔ احسن میری طرف دیکھ کر زور سے ہنسا۔ میں اسے ایک بڑی سی گالی دینا چاہتا تھا مگر اردگرد لوگوں کا خیال کر کے میں نے اسے دل ہی دل میں چھ سات گالیاں دیں اور کہا تم سے میں بعد میں نپٹوں گا۔ گاڑی آ چکی تھی اس لیۓ وہ ہنستے ہنستے جلدی سے بھاگ کر گاڑی میں سوار ہو گیا۔
وہ میرے سامنے کچھ فاصلے پر بالکل اسی جگہ آکر کھڑی ہو گئی جس جگہ وہ روز کھڑی ہوتی تھی۔ آج اس نے پہلی بار مجھے ٹھیک طرح سے دیکھا تھا۔ میرا خیال تھا یہی طریقہ بہتر ہے اگر میں روز اس کے دفتر تک اس کے ساتھ جاؤں تو یقیناً وہ میری طرف متوجہ ہو گی یا میں اس کی نظروں میں آؤں گا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی دوست بھی پہنچ گئ اور اس کے آتے ہی گاڑی بھی آگئ جس میں انہوں نے سوار ہو کر جانا تھا۔ آج مجھے خوش قسمتی سے ان کے قریب ہی جگہ مل گئی تھی۔ مجھے سیٹ بھی مل رہی تھی لیکن میں کھڑا رہا اور اپنی جگہ کسی اور کو دے دی تا کہ وہ مجھے آسانی سے نظر آتی رہے۔ میں کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی دوست نے اک نظر میری طرف دیکھا اور اس کے کان میں کوئی بات کی شاید انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ میں ان پر نظر رکھے ہوۓ ہوں اور ان کا پیچھا کر رہا ہوں۔ یہ ایک بری حرکت تھی اگر انہوں نے کسی سے شکایت کر دی تو یقیناً میرے لیۓ مصیبت کھڑی ہو سکتی تھی مگر اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
گاڑی اسٹیشن پر آ لگی تو وہ باہر نکل آئیں میں بھی ان کے ساتھ گاڑی سے باہر نکل آیا۔ وہ اسٹیشن سے باہر جانے والے راستے کی طرف چل پڑیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوۓ میٹرو اسٹیشن سے باہر آگیا۔ سڑک پار کر کے وہ عمارت میں داخل ہوئیں تو میں ان کے چند سیکنڈ بعد عمارت میں داخل ہوا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ میں نے انہیں اردگرد تلاش کرنا شروع کر دیا۔ جب وہ کہیں دکھائی نہ دیں تو میں نے اوپر کی منزل میں ان کے دفتر جا کر دیکھا وہ وہاں بھی نہیں تھیں۔ میں خیران تھا کہ وہ ایک دم کہا چلی گئیں تھیں۔ عمارت کے اندر آکر وہ کہاں غائب ہو گئیں۔ مجھے بہت دیر ہو گئ تھی اس لیۓ میں خیران و پریشان عمارت سے نکلا اور اپنے دفتر کی جانب چل دیا۔ ابھی میں چند قدم چلا تھا کہ پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔۔۔! رک جاؤ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہی دونوں تھیں۔ میں چل کر ان کے پاس گیا تو اس کی دوست سختی سے بولی۔ 'تم روز ہمارا پیچھا کیوں کرتے ہو۔ کون ہو تم؟' میں نے بہانہ بنا کر بات کو ٹالنا چاہا مگر وہ دوبارہ اسی انداز سے بولی۔ 'دیکھو جھوٹ مت بولنا وہ جو سامنے چوکیدار ہیں ہم ان سے کہہ دیں گی تم روز ہمارا پیچھا کرکے ہمیں تنگ کرتے ہو۔' میں سوچنے لگا کہ انہیں کیا جواب دوں پھر میں نے فیصلہ کیا کہ انہیں سچ سچ بتا دیتا ہوں بعد میں جو بھی ہو گا دیکھا جاۓ گا۔ میں نے انہیں ا سے لے کر ے تک سارا قصہ بیان کر دیا جب سے میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا اور جب سے میں اس کا پیچھا کر رہا تھا تب تک سب کچھ بتا دیا۔ میں اپنی ختم بات کرکے خاموش ہوا تو اس کی دوست چند لمحوں بعد بولی۔ 'تمہیں شرم نہیں آتی لڑکیوں کا پیچھا کرتے ہوۓ اب یہاں سے چلے جاؤ اور اگر دوبارہ ایسی حرکت کی تو پھر دیکھنا تمہارے ساتھ کیا خشر ہوتا ہے۔' میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ آئندہ میں آپ لوگوں کا پیچھا نہیں کروں گا۔ میں سر جھکاۓ خاموشی سے واپس پلٹ آیا۔ اس پوری گفتگو کے دوران اس نے ایک لفظ بھی نہ کہا بس خاموش کھڑی میری طرف دیکھتی رہی۔
میں دفتر پہنچا تو احسن مجھے دیکھ کر صبح میٹرو اسٹیشن والی بات کو لے کر ہنسنے لگا اسے لگا میں آتے ہی اسے دو چار گالیاں دوں گا مگر جب اس نے میرا لٹکا ہوا منہ دیکھا تو کہا۔'خیریت ہے منہ پر بارہ کیوں بجے ہوۓ ہیں۔' میں نے اسے ساری بات بتائی تو اس نے کہا 'چلو ایک لحاظ سے اچھا ہی ہو گیا ہے تم نے اسے سب کچھ تو بتا دیا ہے تمہیں یہی پریشانی تھی بات آگے کیسے بڑھے گی۔ اسے بتائیں گے کیسے اب اسے سب کچھ پتہ چل چکا ہے اب سب کچھ اس پر ہے۔'
سارا دن میں اسی بات پر غور کرتا رہا کہ یہ ٹھیک ہوا ہے کہ نہیں اسے میں نے بتا تو دیا تھا میں چاہتا بھی یہی تھا لیکن جس انداز سے اسے پتہ چلا تھا اس سے شاید اس پر میرا کچھ اچھا تاثر نہیں پڑا تھا۔ اگلے دن وہ اسٹیشن نہیں پہنچی تھی۔ مجھے لگا میری وجہ سے اس نے دفتر جانے کا راستہ یا وقت بدل لیا ہے۔ غالباََ اس نے سوچا ہو کہ میں پھر سے اس کا پیچھا کروں گا یا اپنی کسی حرکت سے اسے پریشان کروں گا۔ مجھے کل کا انتظار تھا اگر وہ کل بھی نہ آئی تو اس بات کی تصدیق ہو جاۓ گی کہ اس نے اپنا راستہ بدل لیا ہے۔ وہ دن گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ خدا خدا کرکے میں نے وہ دن کاٹا۔ اگلی صبح میں بہت جلدی اپنے دوست سے بھی کتنی دیر پہلے میٹرو اسٹیشن پہنچ گیا تھا۔ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی میری جلدی آنکھ کھل گئی تھی اور کوشش کے باوجود بھی دوبارہ نیند نہیں آرہی تھی اس لیۓ میں جلدی اٹھ کر تیار ہو کر اسٹیشن آ گیا تھا۔ احسن آیا تو وہ مجھے دیکھ کر بہت خیران ہوا۔ کہنے لگا 'لگتا ہے آج خواب میں تمہیں وہ نظر آئی تھی۔' میں اس کی بات سن کر مسکرا دیا۔ ہم دونوں گاڑی کا انتظار کر رہے تھے جب اچانک میری نظر سیڑھیوں کی طرف گئی میں نے اسے نیچے اترتے دیکھا۔ وہ چل کر بالکل اسی جگہ پر آکر کھڑی ہو گئی جہاں روز کھڑی ہوتی تھی۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو میں نے نظریں جھکا لیں اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔ اس کے بعد جتنی دیر تک میں وہاں کھڑا رہا میں نے اس کی طرف ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی دوست بھی آگئ۔ ہماری گاڑی پہنچ چکی تھی میرے دوست نے مجھ سے اشارے سے پوچھا۔ 'چلنا ہے کہ۔۔۔' میں اسے کوئی جواب دیئے بغیر خاموشی سے جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ میں نے اک اچٹتی سی نگاہ اس کی جانب ڈالی وہ یہیں میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے فوراً منہ دوسری طرف پھیر لیا تاکہ اسے یہ نہ لگے کہ میں وعدہ کرنے کے باوجود ابھی بھی اسے تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اگلا پورا ہفتہ یونہی گزر گیا۔ وہ میرے سامنے آکر اسی جگہ کھڑی ہو جاتی تھی اور میں اپنی گاڑی آنے پر سوار ہو کر چل دیتا۔ لیکن اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ رفتہ رفتہ مجھ میں دلچسپی لینے لگی تھی۔ اس کی توجہ کچھ تو میری جانب مبذول ہوئی تھی۔ میں نے اس سے بات کرنے یا اس کی طرف زیادہ دھیان دینے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ایسا ممکن تھا کہ یا تو وہ اسٹیشن پر کسی سے میری شکایت لگا دیتی یا اپنے آنے جانے کا رستہ بدل لیتی۔ لیکن ایک دن اس نے مجھے خیران کر دیا۔ میں اور احسن اسٹیشن پر کھڑے اپنی بس کا انتظار کر رہے تھے اور وہ اپنی سہیلی کے ساتھ ہم سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ میں نے ذرا سی نگاہ اس کی طرف گما کر اسے دیکھا۔ اس کی دوست نے اس سے کچھ کہا جس کا جواب اس نے سر کی ہلکی سی جنبش سے دیا۔ اس کے بعد اس کی دوست اگے بڑھی اور سیدھا میری جانب چلی آئی۔ میں گھبرا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ وہ میرے پاس آکر بولی۔ 'آپ سے ایک بات کرنی ہے کیا آپ اسی جگہ مل سکتے ہیں۔۔۔ ہمارے دفتر کے باہر۔'
میں خیران تھا کہ اس کو آخر مجھ سے کیا بات کرنی ہے۔ 'آپ نے کیا کہنا ہے اب تو میں نے آپ کا پیچھا نہیں کیا۔'
وہ بات نہیں آپ بس یہ بتائیں آپ شام کو چھ بجے مل سکتے ہیں۔'
ہاں مل سکتا ہوں لیکن۔۔۔'
تو پھر ٹھیک ہے۔' اس نے میری بات مکمل نہ ہونے دی اور کہا۔ 'آپ آج شام کو چھ بجے ہمارے دفتر کے باہر آجائیے گا۔'
وہ چلی گئی تو میں نے احسن کی طرف دیکھا جو مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا میری طرف خیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے شاید ہماری باتیں نہیں سنی تھیں کیونکہ ہم بہت آہستگی سے بات کر رہے تھے۔ بس میں بیٹھ کر میں نے اسے ساری بات بتائی جو اس کی سہیلی نے مجھ سے کہی تھی۔
شام کو ٹھیک چھ بجے میں ان کے دفتر کے باہر پہنچ گیا۔ وہ پہلے سے وہاں ایک درخت کی چھاؤں میں کھڑی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ میں نے سلام دعا کے بعد ان سے اپنے یہاں بلاۓ جانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہاں نہیں چھٹی کا وقت ہے اور دفتر کے لوگ گزر رہے ہیں یہاں بات کرنا مناسب نہیں وہاں چلتے ہیں۔ اس کی دوست نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔ وہاں ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا ہم چل کر باغیچے میں آگۓ۔ یہاں اونچے اونچے اور گھنے درختوں کی وجہ سے دفتر کی عمارت بالکل چھپ سی گئی تھی۔
جی تو کیا کہنا چاہتی ہیں آپ؟' میں نے ان سے پوچھا تو اس سے پہلے اس کی دوست کچھ بولتی وہ چند قدم چل کر کچھ فاصلے پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ میں اس کی اس حرکت پر خیران ہو رہا تھا کہ اس کی دوست نے اپنی بات شروع کر دی۔ 'بات یوں ہے۔۔۔ایک منٹ۔۔۔ پہلے آپ اپنا نام تو بتائیں۔' میں نے اسے اپنا نام بتایا۔ تو وہ کہنے لگی۔ 'جی تو آپ یہ بتائیں آپ نے جو اس دن کہا تھا وہ بالکل سچ تھا۔ آپ واقعی مہوش کو پسند کرتے ہیں اور اس سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟'
تو اس کا نام مہوش تھا۔ کتنا پیارا نام تھا آج مجھے پہلی بار اس کا نام پتہ چلا تھا۔ 'جی میں یہی ارادہ رکھتا ہوں۔' میں نے اس سے کہا۔
دیکھئیے میں آپ کو بتا دوں مہوش ایسی ویسی لڑکی نہیں اگر آپ کا ارادہ سچ میں نیک ہے تو پھر تو بات بن سکتی ہے لیکن اگر آپ محض وقت گزاری کرنا چاہتے ہیں تو براۓ مہربانی ابھی اس بات کو یہیں ختم کر دیں۔'
میں نے اس سے کہا 'آپ بتائیں مجھے اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے لیۓ کیا کرنا ہو گا۔
وہ بولی۔ 'کچھ کرنے کی ضرورت نہیں وہ تو پتہ چل ہی جاۓ گا۔ فی الحال میں آپ کو یہ بتا دوں کہ مہوش کو بھی آپ اچھے لگے ہیں۔
یہ بات سن کر میرا دل اچھلنے لگا۔ قریب تھا کہ میں ابھی ناچنے لگتا لیکن میں نے اپنے آپ پر قابو رکھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا وہ کچھ گبھرائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔ اس کی دوست نے اسے آواز دے کر اپنے پاس بلا لیا۔ کچھ دیر وہاں ٹھہرنے کے بعد ہم وہاں سے چلے آۓ۔
ہمارا باتوں اور رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے آغاز میں ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم دونوں جلد از جلد کوئی مناسب وقت دیکھ کر اپنے والدین سے بات کریں گے اور منگنی وغیرہ کرکے اس رشتے کو مضبوط کریں گے۔ اس کا کہنا تھا اگر ہماری نیت میں کوئی فتور نہیں تو ہم اس بات کو کیوں لٹکائیں اور جان بوجھ کر تاخیر کیوں کریں۔ جہاں تک میری بات ہے میں تو اسے دیکھتے ہی پہلے دن یہ فیصلہ کر چکا تھا۔
چند روز یونہی گزر گۓ۔ تقریباََ ایک ماہ بعد ہم نے طے کیا کہ اب اپنے والدین سے بات کر لینی چاہیۓ۔ لہذا سارا دن میں دفتر میں احسن کے ساتھ مل کر یہ سوچتا رہا کہ گھر والوں کو کیسے اعتماد میں لینا ہے۔ مہوش سے بات ہوئی تو وہ بھی یہی کہہ رہی تھی کہ وہ بہت بے چین ہے پتہ نہیں گھر والے کیا کہیں گے۔ وہ بھی اپنی دوست سے اسی بارے میں بات کر رہی تھی۔
شام کو میں دفتر سے نکلا تو مجھے اس کا فون آیا میں نے کال اٹھائی تو اس کی دوست بول رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ ہمارے دفتر کی عمارت میں آگ لگ گئی ہے اور بہت سے لوگ زخمی ہو گۓ ہیں۔ مہوش بھی زخمی ہے اور اس وقت ہسپتال میں ہے۔ میں اور احسن جلدی سے ہسپتال پہنچے۔ ایمرجنسی میں بے تخاشا رش تھا بہت سے لوگ زخمی ہوۓ تھے ان کو دیکھ کر مجھے مہوش کا خیال آیا تو میں پریشان ہو گیا اور ادھر ادھر بھاگ کر اسے ڈھونڈنے لگا۔ اچانک میری نظر اس کی دوست پر پڑی وہ ایک وارڈ کے دروازے پر کھڑی کسی سے باتیں کر رہی تھی۔ اس نے ہمیں دیکھ لیا تھا اور ہمیں اشارے سے وہیں رکنے کو کہا تھا۔ شاید اندر اس کے گھر والے تھے۔تھوڑی دیر بعد اس کی دوست ہمارے پاس آگئی اس نے بتایا کہ دفتر میں اچانک آگ لگی تو ایک دم بھگدڑ مچ گئ وہ اتفاق سے اس وقت دفتر کے باہر نچلی منزل پر کسی کام سے آئی تھی اس لیۓ وہ تو بچ گئی مگر مہوش بری طرح سے جل گئی تھی۔ اس کے چہرے کا آدھا حصہ پوری طرح سے جھلس گیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کہ کچھ دیر تک میں تمہیں اندر لے جاؤں گی تم مل لینا۔
وہ چلی گئی تو میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور احسن بالکل میرے سامنے ایک بنچ پر جہاں پہلے سے ایک آدمی اور ایک بزرگ عورت بیٹھے تھے ان کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی، بھاگ دوڑ تھی۔ جن کے عزیز اس حادثے میں جاں بحق ہو گۓ تھے یا بری طرح زخمی تھے وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر میں اور بھی زیادہ بے چین ہو گیا تھا۔ میں جلدی سے مہوش کو دیکھنا چاہتا تھا تاکہ کچھ اطمینان حاصل ہو۔ اس کی دوست آئی اور وہ مجھے اور احسن کو اندر وارڈ میں لے گئی۔ جانے سے پہلے اس نے ہمیں بتایا کہ اس وقت اس کے پاس صرف اس کی والدہ ہوں گی تم کہنا تم لوگ ہمارے دفتر میں ہمارے ساتھ کام کرتے ہو اور بہت سے کولیگز جو اس حادثے میں زخمی ہوۓ ہیں انہیں دیکھنے کے لیۓ آۓ ہو۔ ہم اندر پہنچے تو اس کی والدہ سر جھکاۓ اس کے پاس بیٹھی تھیں۔ ان کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ ان کی اس وقت کیا حالت ہو گی۔ اس کی دوست نے ہمارا تعارف کرایا اور ہم سلام کرکے ایک طرف کھڑے ہو گۓ۔ میں نے اسے دیکھا اس کا آدھا چہرہ بالکل خراب ہو گیا تھا۔ وہ اس وقت نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی لیکن جیسے اس نے ہمیں دیکھ کر پلکیں جھپکی تھیں اس سے لگتا تھا کہ اس نے ہمیں پہچان لیا ہے۔ احسن اس کی والدہ سے اس کی طبعیت کے بارے میں پوچھنے لگا۔ مجھ سے اس کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی اس لیۓ میں نے احسن کو اشارہ کیا اور ہم اس کی امی کو سلام کرکے باہر آگئے۔
رات بھر مجھے نیند نہ آئی۔ اس کا آدھا جلا ہوا چہرہ بار بار میری آنکھوں کے سامنے آجاتا تھا۔ کئ روز تک میری یہی کیفیت رہی۔ کچھ دن وہ ہسپتال میں رہنے کے بعد اپنے گھر واپس آگئی۔ اس کی دوست مجھے اس کے بارے میں اطلاع دیتی رہی اور کبھی کبھی وقتاً فوقتاً میری اس سے بات بھی ہو جاتی تھی۔ چند دن بعد جب وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئی تو میں نے دیکھا اس کے زخم تو مندمل ہو چکے تھے مگر اس کے چہرے کا آدھا حصہ مکمل طور پر بگڑ گیا تھا۔ اس پر بہت ہی بدنما داغ بن گۓ تھے۔ مجھے اس کی وہ صورت یاد آگئی جب میں نے اسے پہلی بار میٹرو اسٹیشن کی سیڑھیاں اترتے دیکھا تھا اور دیکھتے ہی اسے پر فدا ہو گیا تھا۔ لیکن اب وہ صورت کہانیوں اور افسانوں والی صورت نہیں رہی تھی۔ خوابوں کی اس حسین و جمیل دوشیزہ کا حسن و جمال کہیں کھو گیا تھا۔
میری اس میں دلچسپی رفتہ رفتہ کم ہونے لگی۔ آہستہ آہستہ میں اس سے پیچھے ہٹتا گیا اور اتنا پیچھے ہٹ گیا کہ وہ کہیں دور بہت دور رہ گئی۔ یہ دوری لمحوں کی دور نہیں تھی یہ تو میلوں کی دوری تھی۔ وہ فاصلہ جو ہم نے صرف چند دنوں میں طے کر لیا تھا اب اس میں برسوں کی مسافت تھی۔
میں سمجھ نہیں پایا تھا کہ ایسا کیوں ہے چند دن پہلے تک میں اپنی تمام عمر اس کو دینے کو تیار تھا اور اب ایسا اچانک کیا ہو گیا تھا کہ میں اسے تہنا چھوڑ کر بھاگ آیا تھا۔
درحقیقت میں نے جس بنیاد پر محبت کی فلک بوس عمارت تعمیر کرنا چاہی تھی وہ اس قدر کمزور تھی کہ محض ہوا کے اک جھونکے سے زمیں بوس ہو گئی تھی۔
میں میٹرو اسٹیشن پر کھڑا اس واجبی سی صورت والے عمر رسیدہ جوڑے کو دیکھے چلا جا رہا تھا جو اس وقت سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جا رہا تھا۔ دونوں ہاتھ میں ہاتھ دیۓ اک دوسرے کو سہارا دیتے کتنی سہولت سے زینہ طے کر گۓ تھے۔ لیکن میں پہلی سیڑھی سے پھسل کر نیچے آرہا تھا۔ ایسا کیوں تھا۔ شاید اس لیۓ کہ انہوں نے محبت کی جس بنیاد پر یہ رشتہ استوار کیا تھا وہ خاصی مظبوط تھی۔
Post a Comment
Thank you for your comment