نادیہ نے چوبارے کی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا تو شمشیر علی گلی میں سے گزر رہا تھا۔ اس نے ایک چھوٹا سا ڈھیلا اٹھایا اور نیچے لڑھا دیا۔ ڈھیلا شمشیر علی کو ہلکا سا چھو کر آگے زمین پر جا گرا۔ شمشیر علی نے رک کر اوپر دیکھا اس سے پہلے وہ کچھ دیکھ پاتا نادیہ فوراً نیچے جھک گئی۔ اس کی چھوٹی بہن نعیمہ اور خالہ زاد بہن سدرہ جو اس کے ساتھ دوسری کھڑکی میں کھڑی تھیں فوراً نیچے بیٹھیں اور دبی دبی ہنسی ہنسنے لگیں۔ نادیہ نے اپنے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر دونوں بچیوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور خود دھیرے سے سر اوپر اٹھا کر کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا۔ شمشیر علی ابھی وہیں کھڑا تھا اس نے چادر کی بکل کو اپنے دائیں ہاتھ سے اٹھا کر بائیں کندھے پر پھینکا اور اپنی مونچھوں کو انگلیوں سے سہلاتا ہوا اک نظر اوپر کھڑکی کی جانب دیکھ کر آگے بڑھ گیا۔ نادیہ، نعیمہ سدرہ تینوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ابھی وہ وہیں تھیں جب ڈھول کی تھاپ کی آواز فضا میں گونجی۔ تینوں بھاگ کر دوسری طرف اس کھڑکی کے پاس گئیں جہاں سے گاؤں کا میدان صاف دکھائی دیتا تھا جہاں اس وقت میلا لگا تھا۔ یہ میدان خاصا وسیع تھا جس کے بالکل درمیان میں دو آدمی ڈھول پیٹ رہے تھے اور چند بچے ڈھول کی تھاپ پر ناچ رہے تھے۔ کچھ آدمی ان کے اردگرد کھڑے بچوں کو ناچتے اور اچھلتے کودتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ میدان میں جگہ جگہ اشیاۓ خورونوش کی دکانیں سجی تھیں۔ کچھ خوانچہ فروش کھانے پینے کے علاوہ بچوں کے کھلونے، باجے اور رنگ برنگی ٹوپیاں لیۓ کھڑے تھے۔ ڈھول کی آواز کے علاوہ متعدد اقسام کے باجوں اور سیٹیوں کی آوازوں سے فضا اٹی پڑی تھی۔ کچھ فاصلے پر بچوں کے بے شمار جھولے لگے تھے جن پر اس وقت بے انتہارش دکھائی دے رہا تھا۔
'آپی ہم بھی چلیں میلے میں؟' سدرہ جھولے کی طرف دیکھ کر بولی۔
ہاں آپی چلیں جھولے بھی لے کر آئیں گے۔' نعیمہ نے اس کی تائید کی۔
دماغ خراب ہے ہم کیسے جا سکتی ہیں۔' نادیہ تنک کر بولی۔ 'ہمیں کون جانے دے گا۔
آپی آپ نہیں جا سکتیں پر ہم تو جا سکتی ہیں۔' سدرہ نے کہا۔ 'آپ میری امی کو بولیں کہ وہ بھائی اعظم سے کہیں ہمیں میلے میں لے جائیں۔'
میں کیوں بولوں تم دونوں خود جا کر خالہ سے بات کرو۔' نادیہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چاکلیٹ کا ریپر اتارا اور چاکلیٹ منہ میں رکھتے ہوۓ کہا۔
نادیہ آپی مان جائیں قسم سے آپ کہیں گی تو امی بات نہیں ٹالیں گی۔' سدرہ نے اس کی منت کرتے ہوۓ کہا۔
ہاں آپی آپ اجازت لے دیں امی سے بھی اور خالہ سے بھی۔' اس بار نعیمہ بولی۔
اچھا چلو فرض کیا امی اور خالہ دونوں مان بھی گئیں تو تمہارا کیا خیال ہے بھائی اعظم تمہیں لے کر جائیں گے؟'
نعیمہ نے نادیہ کو نرم پڑتے ہوۓ اور ذرا سی رضا مندی ظاہر کرتے ہوۓ دیکھا تو جھٹ سے بولی۔ 'اگر بھائی اعظم نہ لے کر گۓ تو بھائی آصف سے بولیں گے وہ ہمیں لے جائیں گے۔'
نادیہ سوچ میں پڑ گئی۔ 'آپی کیا سوچ رہی ہیں بتائیں بھی کچھ۔' سدرہ نے اسے کندھے سے پکڑ کر تقریباً جھنجھوڑتے ہوۓ پوچھا۔
چلو ٹھیک ہے میں بات کروں گی امی اور خالہ سے لیکن ایک شرط پر۔۔۔'
کیا شرط ہے جلدی بتائیں۔ 'نعیمہ بے چینی سے بولی۔
وہ میں تمہیں بعد میں بتاؤں گی۔' نادیہ کچھ سوچ کر زیرِ لب مسکرائی۔
تینوں کے درمیان جب معاہدہ طے پا گیا تو تینوں بھاگ کر نیچے آ گئیں۔ ان کی امی فرش پر سلائی مشین رکھے کچھ سینے میں مصروف تھیں۔ نعیمہ بولنے کے لیۓ اپنا منہ کھولنے ہی والی تھی کہ نادیہ نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا اور خود کہا۔ 'امی ہم خالہ کے گھر جا رہی ہیں ابھی آجائیں گی پانچ منٹ میں۔'
خالہ کے گھر تم لوگوں نے اس وقت کیا کرنے جانا ہے۔۔۔' امی قینچی سے کپڑے کا ایک سرا کاٹتے ہوۓ بولیں۔ 'تم بھی نادیہ ان بچیوں کے ساتھ بالکل بچی بن جایا کرو۔ ہنڈیا چڑھا لو اوپر سے وقت دیکھو کیا ہو گیا۔ تمہارے ابو کو کھانا بھی بھجوانا ہے۔'
اچھا امی بس پانچ منٹ میں آئی۔'
تینوں بھاگ کر گھر سے باہر نکل گئیں۔
ایک تو اس لڑکی کی مجھے سمجھ نہیں آتی ابھی ہانڈی روٹی کرنے والی رہتی ہے اور کتنے سارے کام پڑے ہوۓ ہیں پر اسے بالکل بھی فکر نہیں۔' امی بڑبڑاتی ہوئی اپنے کام میں مگن ہو گئیں۔
خالہ کے گھر سے نعیمہ اور نادیہ اکیلی واپس آرہی تھیں کیونکہ سدرہ کو اس کی امی نے وہیں روک لیا تھا۔ گھر سے کچھ دور جب وہ ایک تنگ گلی سے گزر رہی تھیں تو دوسری طرف سے شمشیر علی آتا ہوا دکھائی دیا۔ قریب پہنچ کر وہ ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور قدرے درشت لہجے میں بولا۔ 'سچ سچ بتاؤ وہ پتھر والی شرارت تم لوگوں نے کی تھی نا؟'
کون سی پتھر والی شرارت ہمیں کیا پتہ آپ کس پتھر کی بات کر رہے ہیں۔' نادیہ نے معصومیت کے سے انداز سے جواب دیا۔
تم بتاؤ نعیمہ۔۔۔ سچ سچ بتانا ورنہ ابھی چاچی رقعیہ کو جا کر بتا دوں گا پھر وہ تم لوگوں کو ٹھیک کریں گی۔' شمشیر نے نعیمہ کو ڈانٹتے ہوۓ کہا۔
نعیمہ پہلے ان سے پوچھو' نادیہ بیچ میں بول پڑی۔ 'چچی سے یہ بات کرنے کے لیۓ بھی جو ہمت چاہیۓ وہ آپ میں ہے؟'
نعیمہ دھیرے سے زیر لب مسکرائی۔ شمشیر علی کچھ جھینپ سا گیا پھر بولا۔ 'ٹھیک ہے ٹھیک ہے ابھی چھوڑتا ہوں آئندہ اگر ایسی خرکت کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔'
وہ تو ویسے بھی نہیں۔' نادیہ سرگوشی کے انداز سے بولی۔
کیا کہا'؟ شمشیر علی اس کی بات سن کر فوراً بولا۔
کچھ نہیں۔ ہم جائیں؟' نادیہ نے پوچھا۔
ہاں ٹھیک ہے جاؤ۔'
دونوں ہنستی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔
شمشیر بھائی بھی کیا ڈرپوک بندے ہیں آپی ان کی بزدلی کے بارے میں تو سارا گاؤں جانتا ہے۔' نعیمہ بولی۔
تو چل اب زیادہ باتیں نہ کر۔' نادیہ نے اسے ایک چپت رسید کرتے ہوۓ کہا۔
شمشیر علی وہیں کھڑا انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ جب وہ دونوں موڑ مڑنے لگیں تو نادیہ پیچھے مڑ کر اسے دیکھ کر مسکرائی۔ وہ بھی مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔
گلی سے نکلنے کے بعد شمشیر علی اینٹوں سے بنے ایک کشادہ راستے پر چلنے لگا اور تھوڑا چلنے کے بعد ایک موڑ مڑ کر کچے راستے پر آگیا جہاں اس کے دوست ارشاد کا ڈیرہ تھا۔ راستے میں اسے مودا مل گیا جس کے ساتھ اس کی ایک نہیں بنتی تھی۔ جب وہ قریب پہنچا تو مودے نے اسے آنکھیں نکال کر گھور کر دیکھا۔ شمشیر علی اسے دیکھ کر مسکرایا اور آگے بڑھ گیا۔
وہ ڈیرے میں داخل ہوا تو ارشاد بھینسوں کے لیۓ چارا کاٹ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر بولا۔ 'کہاں رہ گیا تھا تم نے کہا تھا میں پانچ منٹ تک آرہا ہوں اور پورے آدھ گھنٹے بعد آۓ ہو۔'
وہ یارا ایک کام چلا گیا تھا۔'شمشیر علی پاس پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
ارشاد نے زمین پر پڑے پٹھوں کے ڈھیر میں سے کچھ پٹھے اٹھاۓ اور انہیں ٹوکے پر رکھ کر درست کیا۔ پھر دستے کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑا اور گھمانا شروع کر دیا۔ پٹھے کتر کتر کر آگے فرش پر پڑی چادر پر گرنے لگے۔
اچھا بتا مودے سے تو پھر ملاقات نہیں ہوئی؟' ارشاد نے پوچھا۔
ابھی راستے میں ملا ہے۔'
کچھ کہا اس نے؟'
کیا کہنا تھا۔' شمشیر بولا۔ 'بڑا گھور رہا تھا میں ہنس کر اس کے پاس سے گزر آیا۔'
تو بیوقوف ہے۔ گھور رہا تھا تو اسے روک لیتا اور گریبان سے پکڑ کر پوچھتا کیوں گھور رہے ہو۔'
چھوڑ یار دفعہ کر وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ لڑائی ہو۔'
تو کیسا بندہ ہے یارا۔' ارشاد نے پٹھوں کے ڈھیر میں سے مزید پٹھے ٹوکے میں رکھتے ہوۓ کہا۔ 'میں کہتا ہوں بزدلی چھوڑ دے۔ سارا گاؤں پتہ ہے تیری بزدلی کی وجہ سے کیا کیا باتیں کرتا ہے'
کہنے دے یار کیا فرق پڑتا ہے۔' شمشیر نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
تیرا کچھ نہیں ہو سکتا۔ چل چھوڑ تو لسی پی پہلے ہی ٹھنڈا بندہ ہے اور تھوڑا ٹھنڈا ہو جا۔'
کہاں ہے لسی؟' شمشیر نے اردگرد دیکھ کر پوچھا۔
وہ گڈوی میں پڑی ہے خود بھی پی اور مجھے بھی ڈال کے دے۔'
شمشیر نے اٹھ کر لسی کے دو گلاس بھرے اور واپس آکر ایک گلاس ارشاد کو پکڑایا اور دوبارہ اسی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ ارشاد نے ایک گھونٹ میں آدھا گلاس پی کر ایک طرف رکھا اور کترے ہوۓ پٹھے اٹھا کر کچھ فاصلے پر بندھی ہوئی دونوں بھینسوں کے آگے ڈال دیۓ پھر واپس آکر دوبارہ لسی کا گلاس اٹھایا اور باقی لسی پی کر پھر سے پٹھوں کے ڈھیر میں سے اپنے دونوں بازوؤں میں کافی سارے پٹھے بھرے اور اسے ٹوکے پر رکھ کر جھکا اور دستہ پکڑ کر ٹوکا چلانا شروع کر دیا۔ شمشیر لسی پی کر چارپائی پر یوں لیٹ گیا کہ اس کی ایک ٹانگ چارپائی کے اوپر تھی اور دوسری چارپائی کے ایک طرف نیچے زمین پر تھی۔ جبکہ اس نے ایک بازو اپنے سر کے نیچے رکھ کر تکیہ بنا لیا اور اوپر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ دیر تک ان دونوں کے درمیان خاموشی رہی پھر ارشاد بولا۔ 'یار شمشیر ایک بات تو بتا۔'
ہاں پوچھو۔' وہ اسی انداز میں لیٹے ہوۓ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔
تجھے کبھی اپنی مونچھوں کا خیال نہیں آیا؟'
کیا مطلب؟' اس نے ابھی بھی آسمان پر نظریں گاڑھے ہوۓ جواب دیا۔
تم نے مردوں کی طرح مونچھیں تو رکھ لی ہیں۔' ارشاد بولا۔ 'بے شک چھوٹی ہیں پر رکھی تو ہوئیں ہیں۔ لیکن تمہیں کبھی ان مونچھوں کی لاج رکھنے کا خیال نہیں آیا۔'
تو کیا کہہ رہا یارا سیدھا سیدھا بول۔'
تو اتنا ڈرپوک کیوں ہے اتنی تو لڑکیاں ڈرپوک نہیں جتنا تو ڈرپوک ہے۔ یار مرد بن۔ کچھ پتہ چلے پنڈ میں کوئی مرد کا بچہ رہتا ہے۔'
شمشیر نے اس کی بات سن کر کروٹ بدلی اور اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ 'اچھا! تیرا پورے پنڈ کو پتہ ہے کہ تو مرد کا بچہ ہے؟'
ہاں پتہ ہے پتہ کیوں نہیں۔' اس نے ٹوکا گھماتے ہوۓ ہاتھ روک لیۓ اور سیدھا ہو کر بولا۔ 'یاد کر پچھلے سال جب میری فانے اور بالے کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی تو دونوں کو میں نے کیسا پینجا لگایا تھا۔ اگر لوگ بیچ میں آکر چھڑاتے نہیں تو ان کی ہڈیاں سک جانی تھی۔ نال آلے پنڈ تک یہ بات گئی تھی۔
او رہنے دے یار تو رہنے دے۔ مجھے نہ ایسی پٹیاں پڑھا۔' شمشیر دوبارہ سیدھے ہو کر لیٹ گیا۔
چل تو میری چھوڑ تو پا سفیر کی مثال لے لے۔ کیسا جگرا ہے اس آدمی کا پچھلے دنوں اس نے کیا پھینٹا لگایا تھا۔'
رہن دے تو۔۔۔ پھینٹا لگایا تھا۔۔۔ تو مجھے ایک بات بتا۔' شمشیر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ 'لڑائی کرنا بھی کوئی دلیری ہے۔ یہ بھی کوئی بہادری کا کام ہے؟'
تیرے نزدیک پتہ نہیں پھر بہادری کیا ہے۔' ارشاد بالٹی اٹھا کر بھینسوں کے لیۓ پانی لینے چلا گیا۔ شمشیر علی دوبارہ سیدھا لیٹ کر اوپر آسمان پر اڑتے پرندوں کو تکنے لگا۔
رات کو نادیہ نے اپنی امی سے نعیمہ اور سدرہ کے میلے پر جانے کی اجازت طلب کی اور انہیں بتایا کہ خالہ سے وہ پہلے ہی اجازت لے چکی ہیں۔ یہ سن کر امی نے بھی انہیں اجازت دے دی۔
اگلے دن جب وہ میلے سے واپس لوٹیں تو نادیہ نے انہیں اپنی شرط یاد دلائی۔ 'ہمیں یاد ہے آپی! پر شرط کیا ہے؟' سدرہ نے پوچھا۔
تم دونوں میرے ساتھ شہر جاؤ گی ابھی۔ بس میرے کالج تک جانا ہے۔' نادیہ نے کہا۔
نہیں آپی اس وقت نہیں!' نعیمہ تھکے ہوۓ انداز سے بولی۔ 'آپ بہت پھراتی ہیں ہم پہلے ہی تھکی ہوئی ہیں۔'
نہیں پھراؤں گی بس ایک دو کتابیں اور ایک آدھ چیز اور لینی ہے۔'
پر آپی۔۔۔' سدرہ بولی۔
دیکھو تم لوگوں نے وعدہ کیا تھا۔ آئندہ پھر یاد رکھنا میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گی۔' نادیہ دھمکی آمیز لہجے میں بولی۔
اچھا آپی ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں۔' نعیمہ نے بددلی سے کہا۔
ٹھیک ہے تم یہی رکو میں چادر اور بیگ لے لوں اور امی کو بتا کر آتی ہوں۔'
وہ دونوں ابھی پوری طرح بیٹھی بھی نہیں تھی کہ نادیہ چادر لیۓ اور کندھے پر بیگ لٹکاۓ آگئی۔
چلو چلیں۔' نادیہ نے باہر نکلتے ہوۓ کہا۔
وہ دونوں بھی اس کے پیچھے باہر نکل گئیں۔
شہر پہنچ کر نادیہ نے دو تین دکانوں پر گھوم پھر کر کچھ کتابیں اور چند دیگر اشیاء خریدیں پر جب وہ ایک اور دکان میں گھسنے لگی تو نعیمہ بول اٹھی۔ 'آپی خدا کے لیۓ بس کریں ہم مرنے والی ہو گئیں ہیں۔ ہمیں بھوک بھی بڑی سخت لگ رہی ہے۔'
یہ بس آخری دکان اس کے بعد کچھ کھائیں گی اور پھر واپس گھر'۔ نادیہ نے دکان میں گھستے ہوۓ کہا۔
آپی پہلے کچھ کھا لیتے ہیں۔' سدرہ بولی۔ 'پھر ادھر سے جو بھی لینا ہوا لے لینا۔'
ندیدیو صبر نہیں ہوتا تم لوگوں سے چلو آؤ مرو پہلے کچھ کھا لو یہ نہ ہو یہیں بے ہوش ہو جاؤ۔' نادیہ دکان میں گھسنے کی بجاۓ دوسری طرف چل پڑی۔
وہاں جگہ جگہ کھانے پینے کے چھوٹے چھوٹے ریستوران، دکانیں اور ٹھیلے تھے۔ ایک چھوٹے سے ریستوران میں گھسنے کے بعد نادیہ نے ان دونوں کو ایک جگہ بٹھایا اور خود ان سے ذرا دور جا کر بیگ سے موبائل نکال کر کال ملائی۔ تقریباً ایک آدھ منٹ بات کرنے کے بعد وہ واپس آگئی۔
کھانا کھانے کے بعد وہ جونہی باہر نکلیں تو سامنے انہیں شمشیر علی دکھائی دیا۔
شمشیر بھائی آپ یہاں؟' سدرہ نے خیرت سے پوچھا۔
ہاں وہ میں یہاں کسی کام سے آیا تھا۔ آپ لوگ یہاں کیسے؟' شمشیر نے انجان بنتے ہوۓ کہا۔
نادیہ اس کی بات سن کر مسکرائی۔
آپی کو کچھ چیزیں لینی تھیں تو اس لیۓ۔' سدرہ نے جواب دیا۔
ہونہہ! تو لگتا ہے کھانا وغیرہ کھا چکے ہیں آپ لوگ؟' شمشیر ان کے پیچھے ریستوران کی طرف دیکھ کر بولا جہاں سے وہ ابھی نکل کر آئیں تھیں۔
جی کھانا کھا کر اب بس نکلنے ہی والے تھے۔' نعیمہ بولی۔
اچھا۔۔۔! تو آؤ میری طرف سے ایک ایک آئس کریم ہو جاۓ۔' شمشیر آئس کریم والے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔
نہیں رہنے دیں آپ کا شکریہ ہمیں پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے۔' اس بار نادیہ بولی۔
کوئی بات نہیں بس پانچ منٹ کی تو بات ہے یہیں کھڑے کھڑے تو کھانی ہیں۔ آپ رکیۓ میں ابھی لے کر آتا ہوں۔' شمشیر انہیں وہیں کھڑا کرکے آئس کریم لینے چلا گیا۔ کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے سیمنٹ کا ایک بنچ نصب تھا نعیمہ اسے دیکھ کر بولی۔ 'آپی ہم وہاں بیٹھ جائیں ہم بہت تھک گئی ہیں۔'
ہاں بیٹھ جاؤ۔' نادیہ نے جواب دیا۔
کچھ دیر بعد شمشیر دونوں ہاتھوں میں آئس کریم تھامے آیا اور نعیمہ اور سدرہ کو آئس پکڑا کر نادیہ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کو آئس کریم دینے کے بعد بولا۔ 'ہاں اب بتاؤ مجھے یہاں کیوں بلایا'؟
بات کرنے کے لیۓ بلایا تھا۔'
کون سی بات؟'
یہی کہ آپ اپنے گھر والوں سے کب بات کریں گے؟' نادیہ نے پوچھا۔
میری بات کی تمہیں بڑی فکر ہے میں بات کر لوں گا پہلے تم تو اپنے گھر بات کرو۔'
ارادہ تو روز کرتی ہوں مگر ابھی تک کر نہیں پائی۔'
تو کوئی بات نہیں اب کر لو۔' شمشیر بولا۔ 'مجھے لگتا ہے میرے گھر والوں کو تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ تمہارے امی ابو ہمارے سگے چاچا چاچی تو نہیں پر بچپن سے ہم سب بہن بھائیوں نے انہیں اپنے چاچا چاچی ہی سمجھا ہے۔ آج تک کوئی ایسی بات ہمارے گھر میں ہوئی ہے جس میں چاچی رقعیہ سے مشورہ نہ لیا گیا ہو؟'
ہاں وہ تو ہے۔' نادیہ کچھ سوچتے ہوۓ بولی۔
تو پھر ٹھیک ہے تم ان سے بات کر کے دیکھو ان کے ذہن میں کیا ہے۔ پھر دیکھیں گے آگے کیا کرنا ہے۔ جب کہو گی میں اپنی امی کو چاچی رقعیہ سے بات کرنے کے لیۓ بھیج دوں گا۔'
ہونہہ۔' نادیہ نے سر ہلایا۔
بس یہ بات تھی۔' شمشیر بولا۔ 'اتنی سی بات کے لیۓ تم نے مجھے یہاں بلایا۔'
نہیں صرف یہ بات نہیں تھی۔'
تو کیا تھی؟' شمشیر نے پوچھا۔
میں نے آپ کو کچھ دکھانا تھا۔'
کیا؟'
نادیہ نے بیگ میں سے کوئی چیز نکالی اور اسے ہتھیلی پر رکھ کر بولی۔ 'یہ۔۔۔ یہ دیکھیں۔'
شمشیر نے دھیان سے دیکھا تو چھوٹا سا نہایت خوبصورت ائیفل ٹاور تھا جس کے اوپر اس کے نام کا پہلا حرف انگریزی میں کندہ تھا۔
واہ یہ کہاں سے لیا؟' شمشیر نے پوچھا۔
وہ پچھلے مہینے جب میں کالج کے ٹرپ کے ساتھ مری گئی تھی وہاں سے خریدا تھا۔ کیسا ہے؟' نادیہ نے اس سے پوچھا۔
شاندار ہے۔' شمشیر نے تعریف کرتے ہوۓ کہا۔
دونوں کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے پھر نادیہ نے کہا۔ 'ٹھیک ہے اب چلنا چاہیۓ۔ اگر گاؤں کے کسی آدمی نے دیکھ لیا تو پتہ نہیں کیا سوچے گا۔'
ہاں چلو چلتے ہیں۔ تم لوگوں نے کیسے جانا ہے؟' شمشیر نے پوچھا۔
ظاہر ہے رکشے پہ ہی جائیں گے۔'
ٹھیک ہے وہ رکشہ کھڑا ہے میں اس سے بات کرتا تم لوگ آجاؤ۔'
شمشیر نے انہیں رکشے پر بٹھا کر رخصت کیا اور پھر اپنے موٹرسائیکل پر بیٹھ کر خود بھی گاؤں کی طرف چل پڑا۔
جب وہ گاؤں پہنچا تو کھیتوں کے پاس کچے راستے پر گزرتے ہوۓ اسے سڑک کنارے ایک آدمی گرا دکھائی دیا۔ وہ اسے فوراً پہچان گیا۔ جلدی سے اس نے موٹرسائیکل کھڑا کیا اور اسے اٹھایا۔
'کیا ہوا چاچا بوٹا؟' اس نے اسے سہارا دے کر اٹھاتے ہوۓ کہا۔
چاچے بوٹے نے بیٹھ کر چند لمحے سانس درست کیا۔ جب اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو شمشیر نے دوبارہ پوچھا۔ 'اب بتاؤ کیا ہوا؟'
ہونا کیا ہے غلطی سے میری بکریاں ملک کرم داد کے کھیتوں میں چلی گئیں اس کے آدمیوں نے دیکھ لیا تو مجھے آکر مارا اور میری بکریاں بھی چھین کر لے گۓ۔'
تو تم نے انہیں روکا نہیں؟'
بڑا روکا انہیں بڑے ترلے کیۓ۔۔۔ میں نے تو یہ بھی کہا مجھے بے شک جتنا مارنا ہے مار لو لیکن میری بکریاں نہ لے کر جاؤ میں غریب بندہ ہوں ان دو چار بکریوں سے میرا گزارا ہوتا ہے پر وہ نہیں مانے۔'
چاچے بوٹے نے جونہی بات ختم کی اسے کھانسی کا زبردست دورہ پڑا اور وہ وہیں بے ہوش ہو گیا۔ شمشیر اسے کسی نہ کسی طرح موٹر سائیکل پر بٹھا کر گاؤں لے آیا۔ کچھ ہی دیر میں یہ بات تقریباً گاؤں بھر میں پھیل گئی۔ تھوڑی دیر بعد چند لوگ چاچے بوٹے کے گھر میں بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ اب کیا کرنا چاہیۓ۔ کیسے اس معاملے سے نپٹا جاۓ۔ لہذا طے یہ پایا کہ تین چار لوگ چاچے بوٹے کے ساتھ کل ملک کرم داد کی حویلی میں جائیں گے اور اس سے التجا کریں گے کہ وہ چاچے بوٹے کی بکریاں واپس کر دے۔
اگلے دن چاچا بوٹا چند لوگوں کے ساتھ چوہدری ملک کرم داد کی حویلی میں داخل ہوا تو کرم داد اس وقت اپنی تخت نما کرسی پر براجمان تھا۔ اس کے گرد چند اور لوگ بھی بیٹھے تھے اور کچھ اس کے ملازمین اردگرد کھڑے تھے۔ یہ لوگ بھی اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہو گۓ۔ ملک صاحب نے ان کے آنے کی وجہ پوچھی تو چاچے بوٹے کے ساتھ جو آدمی تھا بولا۔ 'چوہدری صاحب کل آپ کے آدمی چاچے بوٹے کی بکریاں اٹھا کر لے آئیں ہیں۔ جناب آپ تو بڑے آدمی ہو یہ دو چار بکریاں آپ کے کس کام کی۔ یہ بیچارا غریب آدمی ہے اسے بکریاں واپس کر دیں جناب۔'
آدمی کی بات سن کر ملک کرم داد نے اپنے ملازم سے جو اسکے پیچھے کھڑا تھا پوچھا۔ 'کیوں شیر محمد یہ کیا کہہ رہے ہیں؟'
یہ بڑا ذلیل آدمی ہے ملک صاحب۔' شیر محمد بولا۔ 'اسے بڑی دفعہ منع کیا ہے پر یہ بعض نہیں آتا۔ اسے پتہ ہے یہ کھیت آپ کے ہیں پھر بھی یہ جان بوجھ کر اپنی بکریاں وہاں چھوڑتا ہے۔'
ایسی بات نہیں ملک صاب۔' چاچا بوٹا بولا۔ ' بے زبان جانور ہے پتہ نہیں چلنے دیا جی اس نے کب وہ گھس گئیں آپ کے کھیتوں میں۔۔۔ میں تو بڑا دھیان رکھتا ہوں جی۔'
جھوٹ بولتا ہے ملک صاحب اک واری نہیں میں نے اسے بڑی واری سمجھایا ہے۔ مگر یہ پھر بھی وہاں بکریاں چھوڑ کر خود درخت کے نیچے لیٹ کر سو جاتا ہے۔'
سوتا نہیں ہوں ملک صاب۔' چاچا بوٹا بولا۔ 'میری اتنی مجال جو میں بکریوں کو آپ کے کھیتوں میں چھوڑ کر سو جاؤں۔ وہ تو اس وقت انہوں نے جھاکا دے دیا جی۔ ورنہ میں تو اک منٹ بھی انہیں اکیلا نہیں چھوڑتا۔'
تیرے خلاف پہلے بھی بڑی شکیتیں آتی رہی ہیں بوٹے۔ تجھے لکھ واری سمجھائیں پر تجھے بات سمجھ کونی آتی۔' ملک کرم داد سخت گیر لہجے میں بولا۔ 'اب تیری یہ سزا ہے تجھے بکریاں نہیں ملیں گیں۔'
چوہدری صاب ایسا نہ کریں خدا کے واسطے ایسا نہ کریں۔' چاچا بوٹا التجا کرتے ہوۓ بولا۔ 'میری تو روزی روٹی ہی یہ ہے۔ میں کیا کروں گا ملک صاب۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔'
یہ تمہیں پہلے سوچنا چاہیۓ تھا۔ چلا جا اب یہاں سے۔'
چاچے بوٹے کے ساتھ آۓ دوسرے آدمیوں نے بھی بولنا چاہا مگر چوہدری کرم داد نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے خاموش کروا دیا اور گرجدار آواز میں بولا۔ 'تم سب لوگ بھی چلے جاؤ میں نے فیصلہ سنا دیا ہے اب یہاں تم میں سے کوئی نہ رکے۔'
اس سے پہلے وہ لوگ پلٹتے چاچا بوٹا اس کے پاؤں میں گر گیا اور گڑگڑا کر التجا کرنے لگا۔ 'خدا کے واسطے ملک صاب مجھے معاف کر دیں آگے سے میں اپنی بکریاں آپ کے کھیتوں کے نزدیک بھی نہیں لاؤں گا۔'
چوہدری کرم داد نے اپنی ٹانگ کو زوردار جھٹکا دیا اور چلا کر کہا۔ 'دفعہ ہو جا یہاں سے تجھے کہا جو ہے تجھے بکریاں نہیں مل سکتیں۔'
ٹانگ کی ٹھوکر لگنے سے چاچا بوٹا کچھ دور جا گرا اور گرتے ہی بے ہوش ہو گیا۔ اس کے ساتھی اس کی طرف لپکے اور اسے ہلا جلا کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر وہ نہ اٹھا۔ چوہدری کرم داد کا ایک ملازم آگے بڑا اور اس کی نبض ٹٹول کر بولا۔ 'ملک صاحب یہ تو مر گیا ہے۔'
ملک صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوۓ۔ ان کے پاس جتنے مہمان بیٹھے تھے وہ بھی اٹھ کر کھڑے ہو گۓ۔ چاچے بوٹے کا ایک ساتھی آگے بڑا اور اس کے سینے پر جھک کر دل کی دھڑکن محسوس کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
اب کیا حکم ہے ہمارے لیۓ ملک صاحب؟' ملک صاحب کے ملازم نے پوچھا۔
تم ایسا کرو اس کی لاش کو لے جاؤ اور اس کے کفن دفن کا انتظام کرو اور اس کے گھر والوں کو میری طرف سے افسوس بھی کر دینا۔'
ملک صاحب ملازم کو ہدایات دے کر اپنے مہمانوں کے ساتھ باہر نکل گۓ۔ ان کے جانے کے بعد ان سب نے اس کی لاش کو اٹھایا اور باہر لے جاکر گاڑی میں ڈال دیا۔
چاچا بوٹے کی لاش جب اس کے گھر پہنچی تو اس کے گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ ملک صاحب کا ملازم اپنے دو بندوق بردار ساتھیوں کے ساتھ اس کے گھر میں لاش رکھ کر اور ان کے لواحقین سے کفن دفن کے انتظام کا وعدہ کرکے واپس لوٹ گیا۔ اردگرد سے لوگ اکھٹے ہونے لگے۔ ہر ایک کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا جو وہ ان تین آدمیوں سے پوچھنا چاہ رہے تھے جو چاچے بوٹے کے ساتھ چوہدری کرم داد کی حویلی میں گۓ تھے۔ مگر سب خاموش تھے۔ شاید جواب سب ہی کو معلوم تھا۔ لیکن ایک شخص تھا جو جواب جانتے ہوۓ بھی جواب جاننا چاہتا تھا۔ وہ بھیڑ میں سے نکل کر آگے آیا اور ان تینوں کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔
بتاؤ وہاں چاچے بوٹے کے ساتھ کیا ہوا تھا؟' شمشیر علی ان میں سے ایک آدمی کے دونوں کندھے پکڑ کر بولا۔
وہ آدمی خاموشی سے سر جھکاۓ کھڑا رہا تو شمشیر علی نے چلا کر پوچھا۔ 'بتاؤ کیا ہوا تھا حویلی میں؟'
چند لمحے پہلے تک جو لوگوں کے شور اور رونے دھونے کی آوازیں آرہی تھیں ایک دم سے خاموش ہو گئیں۔ شمشیر علی دوبارہ چلایا۔ 'میں پوچھ رہا ہوں کیا ہوا تھا حویلی میں؟'
تم جان کر کیا کرو گے؟' وہ آدمی بولا۔
تم بس بتاؤ کیا ہوا تھا۔'
میں بتاتا ہوں۔' اس آدمی کی بجاۓ ساتھ والا آدمی بولا۔
سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔
'میں پوری بات بتاتا ہوں لیکن بات جاننے کے بعد بہتری اسی میں ہے تم لوگ خاموش رہو۔'
جب وہ پورا واقعہ سنا چکا تو دیر تک کسی کی آواز نہ آئی۔ بالآخر شمشیر علی بولا۔ 'تم کو کیا لگتا ہے یہ کیا ہے؟'
کیا مطلب کیا ہے؟'
تمہیں نہیں لگتا یہ ایک قتل ہے۔'
اس آدمی نے کوئی جواب نہ دیا۔ شمشیر علی کچھ توقف کے بعد دوبارہ بولا۔ 'تم اچھی طرح جانتے ہو چاچے بوٹے کی موت ایک قتل ہے۔ تم تینوں اس کے گواہ ہو۔ بلکہ تم تینوں کیا ہم سب اس کے گواہ ہیں ہم سب جانتے ہیں کل اگر میں وقت پر کھیتوں کے پاس نہیں پہنچتا اور اسے بے ہوشی کی خالت میں اٹھا کر نہیں لاتا تو وہ وہیں دم توڑ چکا ہوتا۔ کل پورے گاؤں کے سامنے چاچے بوٹے نے بتایا تھا کہ اسے ملک کے آدمیوں نے مارا ہے اور آج بھی اسی کی حویلی میں اس کی موت ہوئی ہے۔ یہ بات بھی پورا گاؤں جانتا ہے۔'
ٹھیک ہے ہم جانتے ہیں لیکن ہمارے جاننے سے کیا ہوتا ہے۔ ہم ملک جیسے آدمی کا کیا بگاڑ لیں گے۔' بھیڑ میں کھڑے لوگوں میں سے ایک آدمی بولا۔
ہم کم سے کم تھانے جاکر اس کے خلاف درخواست تو دے سکتے ہیں'۔ شمشیر بولا۔ 'اور اگر ضرورت پڑی تو عدالت میں گواہی بھی دیں گے۔'
تمہارا دماغ خراب ہے۔' وہ آدمی بولا۔ 'تم جانتے ہو تم کس کے خلاف درخواست دینے کی بات کررہے ہو۔'
اچھی طرح جانتا ہوں۔'
تم کچھ نہیں جانتے۔' دوسرا آدمی بولا۔ 'تمہیں کیا لگتا ہے ہماری درخواست منظور ہو گی۔ جب تھانے دار کو پتہ چلا گا ہم چوہدری کرم داد کے خلاف درخواست دینے آۓ ہیں وہ بھی قتل کی تو وہ ہمیں دھکے دے کر باہر نکال دے گا۔'
اگر ہم سب مل کر جائیں تو شاید وہ ایسا نہ کر سکے۔ اتنے سارے لوگوں کی درخواست وہ کیسے منظور نہیں کرے گا۔' شمشیر علی بولا۔
ایسے نہیں ہوتا تم ابھی بچے ہو تمہیں زندگی کا تجربہ نہیں۔' وہ آدمی بولا۔
بالکل ٹھیک بات ہے یہ منڈا ابھی جوان ہے، گرم خون ہے اسی لیۓ جذباتی ہو رہا ہے۔' ایک بزرگ آدمی آگے بڑا اور شمشمیر کے پاس جا کر بولا۔ 'جا پتر اپنا کام کاج کرو جا کر تمہاری یہ عمر نہیں ایسی باتیں کرنے کی۔ ایسے موقعوں پر جذبات سے نہیں عقل سے کام لیتے ہیں۔'
مجھے نہیں چاہیۓ ایسی عقل۔۔۔' شمشیر بولا۔ 'تم لوگوں میں سے اگر کوئی بھی نہیں جانا چاہتا تو بے شک نہ جاۓ لیکن میں ضرور جاؤں گا اور جا کر گواہی دوں گا۔' شمشیر علی جونہی آگے بڑا بھیڑ میں سے کسی کی آواز آئی۔
رک جاؤ۔'
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے اپنے والد کی آواز تھی۔ 'تو اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ مجھ سے پوچھے بغیر ہی چل پڑا ہے۔ تم کہیں نہیں جاؤ گے آرام سے گھر بیٹھو۔'
میں جاؤں گا ابا جی۔' شمشیر علی بولا۔
تمہیں کچھ پرواہ ہے گھر میں بہنیں ہیں۔ ماں ہے، چھوٹے بھائی ہیں اور بوڑھا باپ ہے۔ ہم اتنے جوگے ہیں جو ملک کرم داد سے ٹکر لے سکیں؟' اس کے والد نے کہا۔
میں کسی سے کوئی ٹکر نہیں لے رہا ابا جی۔ میں تو بس وہ کہنے جا رہا ہوں جو میں نے دیکھا ہے اور جو سچ ہے۔ اور وہ میں ہر حال میں کہوں گا چاہے اس کا انجام کچھ بھی ہو۔' شمشیر علی بات کرکے وہاں سے چل دیا۔
ابھی وہ بھیڑ سے نکل کر موٹر سائیکل پر بیٹھنے والا تھا کہ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا تو اس کا دوست ارشاد تھا۔
کہاں جا رہے ہو؟' ارشاد نے پوچھا۔
تھانے جا رہا ہوں۔'
پاگل ہو گۓ ہو۔ تم جانتے بھی ہو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔'
مجھے اس کی پرواہ نہیں۔' وہ اپنا ہاتھ اس کی کلائی کی گرفت سے آزاد کراتے ہوۓ بولا۔
تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ تم جانتے نہیں اس سے ہم سب کا یہاں رہنا مشکل ہو جاۓ گا۔ بلکہ خود تمہارے گھر والوں کی اور تمہاری زندگی خطرے میں پڑ جاۓ گی۔' ارشاد نے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا۔
اچھا! تم لوگوں میں تو بڑا جگرا تھا۔ تم تو بہادری کی بڑی باتیں کرتے تھے۔ وہ قصے، وہ باتیں، وہ کہانیاں، وہ جگرے کہاں گۓ؟' شمشیر طنزیہ انداز سے دھیرے سے ہنسا اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر وہاں سے چل دیا۔
تھانے میں پہنچ کر جب اس نے تھانے دار کو چوہدری کرم داد کے خلاف درخواست کا کہا تو تھانے دار چونک اٹھا۔ پہلے وہ سمجھا شاید شمشیر علی نشے میں ہے پھر وہ اس کی ذہنی حالت پر شک کرنے لگا۔ اس کے بار بار اصرار کرنے پر بھی اس نے اس کی درخواست منظور نہ کی اور اسے تھانے سے باہر نکال دیا۔ شمشیر علی کے جانے کے بعد تھانیدار اٹھا اور گاڑی سٹارٹ کرکے سیدھا چوہدری کرم داد کی حویلی کی جانب چل پڑا۔
جب وہ حویلی میں پہنچا تو ملک کرم داد اپنی محفل لگاۓ بیٹھا تھا۔ اس نے تھانیدار کو آتے دیکھ کر پوچھا۔
'آؤ تھانےدار صاحب خیر سے آۓ ہو بڑی چھیتی میں لگ رہے ہو۔'
بات ہی کچھ ایسی ہے چوہدری صاحب اسی لیۓ جلدی میں آیا ہوں۔' تھانیدار نے کرسی پر بیٹھتے ہوۓ جواب دیا۔
کیوں ایسا کی ہو گیا؟'
چوہدری صاحب آپ کے خلاف گاؤں سے ایک درخواست آئی ہے۔'
کیسی درخواست؟' چوہدری صاحب نے پوچھا۔
آپ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ آپ نے چاچے بوٹے کا قتل کیا ہے۔'
ہونہہ۔۔۔ تو آپ مجھے گرفتار کرنے آۓ ہیں؟' چوہدری صاحب کچھ توقف کے بعد بولے۔
کیس باتیں کرتے ہیں ملک صاحب آپ۔' تھانیدار بولا۔ 'میں بھلا ایسا کر سکتا ہوں۔ میں نے اس کی درخواست منظور نہیں کی اور اسے واپس بھیج دیا ہے۔'
ہونہہ! اچھا تو پھر اب آپ کیا چاہتے ہیں؟' چوہدری صاحب نے پوچھا۔
میں کچھ نہیں چاہتا چوہدری صاحب میں تو بس آپ کو اطلاع کرنے آیا تھا اور یہ بتانے آیا تھا کہ اگر گاؤں سے کچھ اور لوگ بھی آگۓ تو مجھے ان کی درخواست رد کرنا مشکل ہو جاۓ گی۔'
آپ کا بہت شکریہ تھانے دار صاحب۔ میں دیکھ لیتا ہوں کون ہے اس کے پیچھے۔'
ٹھیک ہے پھر مجھے اجازت دیں۔' تھانیدار اٹھتے ہوۓ بولا۔
ایسے کیسے تھانیدار صاحب چاۓ پانی کچھ پی کر جائیں۔'
شکریہ جناب!' تھانیدار بولا۔ 'مجھے اصل میں یہاں سے کسی اور جگہ ایک ضروری کام جانا ہے۔ ابھی آپ اجازت دیں پھر کبھی حاضر ہوں گا۔'
ٹھیک ہے پھر جیسے آپ کی مرضی۔'
تھانیدار نے خدا خافیظ کہا اور باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد ملک صاحب نے اپنے ملازم شیر محمد کو پکارا جو ان کے پیچھے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ شیر محمد پاس آکر بولا۔
جی ملک صاحب!'
پتہ کرو یہ کون ہے جس نے ہمارے خلاف درخواست دی ہے۔' چوہدری صاحب نے کہا۔ 'اس کو سزا دینا بہت ضروری تا کہ کوئی اور اس طرح کی جرات نہ کرے۔'
جی ملک صاحب۔' شیر محمد نے آگے قدم بڑھاۓ تو چوہدری صاحب نے اسے آواز دے کر روک لیا۔
ٹھہرو! ابھی اسے کچھ مت کہنا بوٹے کے جنازے کے ایک دو دن بعد اسے پکڑنا۔'
ٹھیک ہے ملک صاحب۔' شیر محمد باہر نکل گیا اور چوہدری صاحب اپنے مہمانوں سے گپ شپ میں مصروف ہو گۓ۔
بوٹے کی تجہیز و تکفین کے دو دن بعد شمشیر علی موٹرسائیکل پر سوار شہر سے واپس لوٹ رہا تھا۔ جب وہ کچے راستے پر پہنچا تو اسے نادیہ اپنی دونوں بہنوں کے ساتھ کھیتوں کے بیچ ٹیوب ویل کے پاس کھڑی دکھائی دی۔ اس نے موٹر سائیکل روک کر اسے وہیں کھڑا کیا اور خود ان کے پاس چلا گیا۔
شمشیر بھائی آپ یہاں؟' نعیمہ نے خیرت سے پوچھا۔
ہاں وہ میں شہر گیا ہوا تھا یہاں سے گزرا تو آپ لوگوں پر نظر پڑ گئی۔ تم لوگ یہاں کیسے؟' شمشیر نے پوچھا۔
ہم بس سیر کرنے نکلی تھیں۔' نادیہ نے جواب دیا۔
چاروں کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے پھر نعیمہ اور سدرہ دونوں ٹیوب ویل کے خوض کی چھوٹی سی دیوار پر پاؤں پانی میں لٹکا کر بیٹھ گئیں اور وہ دونوں باتیں کرتے ہوۓ وہیں پگڈنڈی پر چلنے لگے۔
کتنا اچھا موسم ہے اور کتنا حسین نظارہ ہے۔' نادیہ بولی۔ 'بادل بنے ہوۓ ہیں۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور دور تک پھیلے ہوۓ لہلہاتے کھیت ہیں۔'
ہاں یہ موسم اور یہ نظارہ تو پہلے بھی بہت اچھا اور بہت پیارا تھا نادیہ! مگر آج ہم دونوں ساتھ میں ہیں تو اور بھی خوبصورت لگ رہا ہے۔' شمشیر علی بولا۔
نادیہ نے سامنے دیکھا کچھ فاصلے پر ذرا سا آگے گندم کے سنہری کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ کٹائی کے دن قریب تھے اس لیۓ گندم کے سٹے بھرے ہوۓ تھے۔ شمشیر نے آگے بڑھ کر ایک سٹے کو مٹھی میں زور سے بھینچا اور کھینچ کر توڑ لیا۔ پھر اسے نادیہ کو دکھا کر بولا۔ 'یہ دیکھو گندم کا سٹہ۔۔۔اور یہ میرا ہاتھ۔۔۔'
نادیہ نے اس کا ہاتھ دیکھا۔ تھوڑا سا چِھل گیا تھا اور کہیں کہیں سرخ لکیریں سی بن گئی تھیں۔
آپ کو کس نے کہا تھا اسے توڑنے کے لیۓ۔۔۔ خواہ مخواہ اپنا ہاتھ زخمی کروا لیا۔' نادیہ اپنے دوپٹے کے پلو سے اس کے ہاتھ کو صاف کرتے ہوۓ بولی۔
دونوں واپسی کے رخ پگڈنڈی پر چلنے لگے۔ ٹھنڈی ہوا کا تیز جھونکا آ کر ٹکرایا جس سے تازگی کی ایک لہر ان کے جسم میں سرایت کر گئی۔ کھیتوں کے بیچوں بیچ گھنے بادلوں سے گھرے آسمان کے نیچے شمشیر کے ساتھ چلتے ہوۓ بادِ نسیم کے جھونکے نے نادیہ کے اندر عجیب سا خوشگوار احساس پیدا کر دیا تھا۔ ایسا احساس جو اسے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی یہ احساس شاندار موسم کی وجہ سے تھا۔ اِس دلفریب نظارے کی وجہ سے تھا یا شمشیر کے ساتھ کی وجہ سے تھا یا پھر تینوں کی وجہ سے تھا۔ نہ جانے اس کا جی کیوں چاہنے لگا کہ وہ کھلے کھیتوں کے بیچ کھڑی ہو جاۓ اور بانہیں کھول کر اوپر آسمان کی طرف منہ کرکے خوشی سے زور زور سے چلاۓ۔ لیکن اس نے اپنے آپ پر قابو رکھا۔
شمشیر کا جی چاہ رہا تھا یہ پگڈنڈی جس پر وہ چل رہے تھے اس قدر طویل ہو جاۓ کہ وہ نادیہ کے ساتھ دور تک اور دیر تک چلتا رہا مگر چند قدم چلنے پر وہ ٹیوب ویل کے پاس پہنچ گۓ اور ان کا سفر اختتام کو پہنچا۔
ہمیں چلنا چاہیۓ کافی دیر ہو گئی ہے۔' نادیہ نے سدرہ اور نعیمہ سے کہا۔
رک جاؤ تھوڑی دیر اتنی جلدی کیا ہے۔' شمشیر بولا۔
نہیں ہم راستے میں کھڑے ہیں لوگ گزر رہے ہیں ایسے اچھا نہیں لگتا۔۔۔چلو اٹھ جاؤ اب۔' نادیہ ان دونوں کو مخاطب کرکے بولی۔
وہ تینوں آخری بار شمشیر کو سلام کرکے اپنے راستے کی طرف چل پڑیں تو شمشیر نے بھی اپنے قدم موٹرسائیکل کی طرف بڑھاۓ۔ جب وہ موٹر سائیکل کے پاس پہنچا تو اس سے کچھ فاصلے پر جہاں پکی سڑک تھی پر ایک گاڑی آکر رکی اور چند لمحوں بعد گولی چلنے کی زوردار آواز آئی۔ پھر گاڑی کے بھاگنے کی آواز آئی۔ نادیہ لوگوں نے جلدی سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ شمشیر زمین پر گرا پڑا تھا اور اس کے جسم سے خون نکل کر مٹی میں بہے چلا جا رہا تھا۔
Post a Comment
Thank you for your comment