Drizzling Of Love

Drizzling Of Love






پہاڑ کی ایک چوٹی پر ایک چھوٹے سے خوبصورت کاٹج کا چوبی دروازہ ہلکی سی چرَ کی آواز سے کھلا اور بند ہو گیا۔ شہر یار نے وہیں کھڑے کھڑے اوپر نگاہ ڈالی ستارۂ سحری نمودار ہو چکا تھا۔ اردگرد کا جائزہ لینے کے بعد وہ ایک چھوٹے سے ڈھلوانی راستے پر چلنے لگا۔ چند قدم چل کر اس نے نیچے وادی میں جھانک کر دیکھا چھوٹے چھوٹے مکانات یوں لگ رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے اوپر سوۓ پڑے ہوں۔ ان مکانات کے اوپر سے بادلوں کے ٹولے رینگتے ہوۓ چلے جا رہے تھے۔ ڈھلوانی راستہ طے کر کے جب وہ نیچے پہنچا تو اسے ذیلی سڑک سے خان بہادر اوپر آتا ہوا دکھائی دیا۔ قریب پہنچ کر اس نے خان بہادر کو آواز لگائی۔ 'کیوں خان بہادر۔۔۔کہاں صبح صبح؟'


آپ ہی کی طرف آرہا تھا صاحب جی۔ آپ کا کچھ سامان دینا تھا پر آپ تو نیچے آگۓ۔' خان بہادر نے جواب دیا۔


کوئی بات نہیں تم اوپر چلے جاؤ اور سامان رکھ آؤ۔ میں نیچے وادی تک جا رہا ہوں آکر دیکھ لوں گا۔۔۔اور ہاں! وہ میرا سگریٹ کا بنڈل لاۓ ہو؟'


نہیں صاحب جی۔ وہ جو سگرٹ آپ مانگتا ہے وہ یہاں سے نہیں ملتا۔' خان بہادر اپنے مخصوص انداز سے بولا۔ 'پر آپ کے لیۓ ایک اور سگرٹ لایا ہوں ابھی صرف ایک پیکٹ ہے آپ پی کر دیکھنا اگر پسند آیا تو اور لے آؤں گا۔' 


یار خان میں نے تمہیں کہا تھا میں کسی اور برانڈ کے سگریٹ نہیں پیتا۔۔۔اچھا چلو دیکھتا ہوں۔ فی الحال تم یہ سامان رکھ آؤ۔'


اچھا صاحب جی۔' 


خان بہادر آگے بڑھ گیا اور شہریار دوبارہ نیچے وادی میں اترنے لگا۔ اترائی ختم ہوئی تو شہریار نے رک کر لمبا سانس لیا اور سامنے کی طرف کچے راستے پر چلنے لگا۔ اوپر کی نسبت یہاں ابھی کچھ اندھیرا تھا مگر سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ وادی میں پہنچ گیا اور ایک بڑے سے گھر کے سامنے آکھڑا ہوا۔ یہاں تمام گھر پہاڑ کو کاٹ کر بڑے بڑے پتھروں سے تعمیر کیۓ گۓ تھے جن پر اکثر کے اوپر سٹیل یا لوہے کی چھتیں تھیں۔ البتہ جس گھر کے باہر شہریار کھڑا  تھا اس کی چھت لکڑی سے بنی تھی۔ یہ گھر باقی گھروں کی نسبت ذرا بڑا اور خوبصورت تھا۔ شہر یار نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازہ کھل گیا۔ وہ اندر چلا آیا۔ صحن اور برآمدہ عبور کرکے وہ گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ اندر اس اس کی دادی اماں لکڑی کے تخت پر دو زانو بیٹھی تھی جس کے ہاتھ میں تسبیح تھی جسے وہ آنکھیں بند کرکے پڑھ رہی تھی۔شہریار کمرے میں داخل ہوتے ہی سامنے پڑی چارپائی پر دراز ہو گیا۔ دادی نے آنکھیں کھول کر پوچھا۔ 'آگۓ شہریار؟'


ہاں اماں آگیا ہوں۔ ابا کدھر گیا ہے؟' شہریار آنکھوں پر کہنی رکھ کر بولا۔


تیرا ابا تو ساتھ والے بڑے گاؤں گیا ہے کہہ رہا تھا کوئی سامان لانا ہے، شام تک لوٹے گا۔'


شہر یار چھت کو گھورنے لگا۔ اس کی دادی تسبیح پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی۔ 'خان بہادر کو میں نے تمہاری طرف بھیجا تھا راستے میں تمہیں ملا نہیں؟'


ملا تھا اماں! میں نے سامان رکھنے اوپر بھیج دیا ہے واپس آتا ہی ہوگا۔' شہر یار نے بیزاری سے جواب دیا۔


دادی تھوڑا سا آگے جھکی اور کچھ پڑھ کر شہریار پر پھونک مار کر بولی۔ 'روٹی لاؤں تیرے لیۓ؟'


نہیں اماں! تجھے معلوم ہے میں اس وقت کچھ نہیں کھاتا پھر بھی روز پوچھتی ہے۔'


تیری ماں کی بھی یہی عادت تھی۔ وہ بھی اس وقت کچھ نہیں کھاتی تھی۔ دن چڑھنے سے پہلے کام میں جت جاتی تھی اور دوپہر کے وقت جب سورج سر پر چڑھ آتا تھا تو تیرے ابے کو روٹی بھیج کر خود کھانے بیٹھتی تھی۔ آخری وقت میں سوکھ کر تیلا ہو گئ تھی۔' دادی تخت سے اترتے ہوۓ بولی۔ 'چل تو روٹی نہ کھا پر دودھ پی لے۔ میں تیرے لیۓ دودھ گرم کرکے لاتی ہوں۔' وہ شہریار کے چہرے پر ایک مرتبہ پھر پھونک مار کر کمرے سے باہر نکل گئ۔ شہریار نے کروٹ بدلی اور دیوار میں چھوٹی سی کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ باہر دیکھتے دیکھتے اسے نیند آگئ۔ کچھ دیر بعد دادی دودھ کا پیالہ لیۓ لوٹی تو شہریار کو سوۓ دیکھ کر بولی۔ 'لے اب سو گیا ہے۔ دودھ ٹھنڈا ہو جاۓ گا۔'


شہریار نے آنکھیں کھول دیں اور دادی کو میز پر دودھ کا پیالہ رکھتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔ 'لا اماں مجھے پیالہ پکڑا دے۔ جب تک میں دودھ پی نہیں لوں گا تجھے چین نہیں آۓ گا۔'


ہاں پہلے دودھ پی لے پھر سونا ہوا تو سو جانا۔' اماں دودھ کا پیالہ اسے پکڑاتے ہوۓ بولی۔


شہریار اٹھ کر بیٹھ گیا اور اماں کے ہاتھ سے دودھ کا پیالہ لے لیا۔ 'کہاں اماں! اب نیند کہاں آۓ گی۔ نیند آئی بھی ہو تو نیچے وادی تک آتے آتے اڑ جاتی ہے۔'


تو تجھے کس نے کہا ہے تو اوپر جا کر سویا کر۔ اوپر سونے کے لیۓ خان بہادر جو ہے۔'


نہیں اماں جب تک میں یہاں ہوں میں اوپر رہوں گا۔ جب چلا جاؤں گا پھر جس کو مرضی ہے بھیج دینا۔' شہریار نے بڑا سا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا۔


 میں تو کہتی ہوں یہیں رہ اپنے گاؤں میں، کیا رکھا ہے وہاں۔'


نہیں اماں! جانا تو پڑے گا وہاں میری نوکری ہے، کام ہے۔ اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ یہاں ان پہاڑوں میں رہ کر کیا کروں گا مجھے کوئی کام بھی تو نہیں آتا۔ کھیتی باڑی مجھے آتی نہیں اور بکریاں میں چرا نہیں سکتا۔'


تو اس کی فکر نہ کر۔ میں جانتی ہوں تو پڑھ لکھ کر یہ کام تھوڑی کرے گا۔ تیرے ابے کو آنے دے میں اسے کہوں گی وہ تجھے کوئی ایسا کام تلاش کر دے گا جو تیرے لائق ہوگا۔'


نہیں اماں ایسی بات نہیں۔ ساری زندگی میں شہر میں رہا ہوں اب اس عمر میں اس ویران سے گاؤں میں اور اس چھوٹی سی وادی میں آکر رہنا میرے بس میں نہیں۔' شہریار نے دودھ پی کر پیالہ میز پر رکھ دیا اور  تکیۓ کو تھوڑا اوپر اٹھا کر سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔


عمر کی بات تو تو ایسے کہہ رہا ہے جیسے تیری بڑی عمر ہو گئ ہے۔ ابھی تو تیرا بیاہ بھی نہیں ہوا۔۔۔ اس وقت تو چاہے جو مرضی کر، جہاں جی چاہتا ہے رہ پر اک بار تیری شادی ہو جاۓ تو تیری دلہن کو یہیں اپنے پاس رکھوں گی۔ اسے تیرے ساتھ شہر نہیں جانے دوں گی۔'


اچھا اماں رکھ لینا اسے اپنے پاس۔' شہریار ہنستے ہوۓ بولا۔ 'جہاں جی چاہے رکھنا۔ پر مجھے تو معاف ہی رکھ میں یہاں رہنے والا نہیں۔'


ڈھونڈھوں پھر تیرے لیۓ کوئی لڑکی؟' اماں نے مسکرا کر پوچھا۔


نہیں اماں ابھی سے ڈھونڈنے نہ نکل جانا ابھی نہیں کرنی مجھے شادی۔'


اے ہے۔ ابھی نہیں تو کب کرے گا، تیری عمر نکلتی جا رہی ہے۔'


اماں ابھی تو تو کہہ رہی تھی تیری عمر ہی کیا ہوئی ہے اور اب کہہ رہی ہے تیری عمر نکلتی جا رہی ہے۔' 



وہ سب تو چھوڑ۔۔۔بس تو یہ بتا اس گاؤں کی لڑکی سے شادی کرے گا یا گاؤں سے باہر کوئی لڑکی ڈھونڈھوں تیرے لیۓ؟' 


اماں لڑکی جہاں کی بھی ہو بس رشتہ کرنے سے پہلے مجھے ایک بار دکھا لینا۔'


آۓ ہاۓ دکھاؤں گی کیوں نہیں تجھے دکھاۓ بغیر شادی تھوڑی کروں گی۔۔۔اماں نے خوش ہو کر کہا۔ 'بس پھر ٹھیک ہے تجھے کوئی اعتراض نہیں تو لڑکی اپنے گاؤں میں ہی دیکھتے ہیں۔ اپنے گاؤں میں اچھی لڑکیوں کی کوئی کمی ہے جو ہم باہر جائیں۔' 


اچھا اماں جیسے تیری مرضی ہے تو کر۔' شہریار کروٹ بدل کر بولا۔


پورا دن شہریار نے وہیں لیٹے لیٹے گزار دیا شام سے تھوڑی دیر پہلے گھر سے نکلا اور اوپر اپنے کاٹج کی طرف چل دیا۔ اوپر پہنچ کر اس نے دروازہ کھولا اور اندر آکر بتی جلائی، اندھیرے میں ڈوبا کمرا بھک سے روشن ہو گیا۔ آج سارا دن اس نے سگریٹ نہیں پیا تھا اس لیۓ اس نے فوراً دراز کھولا اور اندر سے سگریٹ کے پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکال کر باہر آگیا۔ کاٹج کی عقبی جانب آکر اس نے سگریٹ سلگایا اور نیچے بہتے دریا کو دیکھنے لگا۔ دو تین کش لگانے کے بعد اسے دریا کے کنارے تین ساۓ دکھائی دیۓ، اس نے غور سے دیکھا تو تین لڑکیاں تھیں۔ تینوں نے ایک دوسرے سے ملتے جلتے لمبے سے کرتے پہن رکھے تھے اور سر پر سکارف اوڑھ کر اس کے پلوؤں کو کندھوں سے پیچھے کی طرف باندھ رکھا تھا۔ یہاں لڑکیاں عموماً اسی قسم کا لباس پہنا کرتی تھیں اس لیۓ شہریار کو کوئی خیرت نہ ہوئی۔ وہ تینوں دریا کے کنارے ہنستیں باتیں کرتیں چلی جا رہی تھیں۔ شہریار جانتا تھا وادی کی اکثر لڑکیاں پچھلے پہر دریا کے کنارے گھومنے یا قریبی چشمے سے پانی بھرنے کے لیۓ یہاں آتیں ہیں اور شام ہونے سے پہلے لوٹ جاتی ہیں۔ وہ تینوں لڑکیاں بھی شاید گھر واپس جا رہی تھیں۔ ان تینوں میں سے درمیان والی لمبے قد والی لڑکی نے سبز رنگ کا سکارف اوڑھ رکھا تھا۔ شہریار کو وہ لڑکی بہت اچھی لگی۔ چلتے چلتے وہ تینوں اتنی قریب آگئیں کہ شہریار کو صاف دکھائی دینے لگی تھیں۔ مگر لڑکیوں کو اس بات کی بالکل خبر نہیں تھی کہ انہیں کوئی پہاڑ کی چوٹی سے مسلسل دیکھ رہا ہے۔ بلندی اتنی زیادہ تھی اگر وہ جانتی بھی ہوتیں اور نیچے کھڑے ہوکر دیکھنا چاہتیں تو بھی نہ دیکھ پاتیں۔ شہریار   کی نظر اس سبز سکارف والی لڑکی پر آکر ٹھہر گئ تھی۔ وہ اسے دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ اسے بالکل ہوش نہ رہا کہ اس نے اپنی انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ تھام رکھا ہے۔ وہ تینوں باتیں کرتی ہوئی آگے گزر گئیں۔ شہریار انہیں تب تک جاتا ہوا دیکھتا رہا جب تک وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو گئیں۔ جونہی وہ لڑکیاں غائب ہوئیں شہریار نے اپنا ہاتھ زور سے جھٹکا۔ سگریٹ نے اس کی انگلی کو جلادیا تھا۔ اس نے اندر آکر دراز سے سگریٹ کا پورا پیکٹ اٹھایا اور دوبارہ اسی جگہ آکر نیا سگریٹ سلگا لیا۔ کافی دیر تک وہ وہاں کھڑا دریا کے اس پار ڈوبتے سورج کو دیکھتا رہا۔ جب اندھیرا کافی پھیل گیا اور نیچے دریا پر کچھ بھی دیکھنا ممکن نہ رہا تو وہ اپنے کاٹج میں چلا آیا۔ اندر آکر وہ اپنے بستر پر لیٹ گیا اور ایک بار پھر سگریٹ سلگا لیا۔ سگریٹ پیتے ہوۓ وہ کسی سوچ میں ڈوبا تھا کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی، اس نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا اس کے کسی دوست کا فون تھا۔ اس نے کال اٹینڈ کی دوسری طرف سے اس کا دوست بولا۔ 'کیوں شیری کیسی گزر رہیں تمہاری چھٹیاں۔۔۔پہاڑوں میں تمہیں مزا تو خوب آرہا ہو گا۔' 


کہاں یار! مزا کیا! بس گزر رہی ہیں چھٹیاں جیسے گزرتی ہیں۔' شہریار سگریٹ کا کش لگا کر بولا۔


کیوں جگہ اچھی نہیں؟' اس کے دوست نے خیران ہو کر کہا۔ 'تمہارا اپنا گاؤں ہے، شکر کرو تمہیں اتنی گرمی میں مفت میں پہاڑوں میں رہنے کا موقع مل رہا ہے۔ ورنہ ہم جیسے بڑے شہروں میں رہنے والوں کو خاص طور پر پیسے خرچ کر کے وہاں جانا پڑتا ہے وہ بھی صرف چند دن کے لیۓ۔ وہاں جا کر واپس اس بھیڑ بھاڑ میں شامل ہونے کا من نہیں کرتا پر مجبوری میں واپس آنا پڑتا ہے۔ اور تم ہو کہ تمہیں مزا نہیں آرہا۔'


نہیں یارا ایسا نہیں' شہریار سگریٹ ایش ٹرے میں بجھاتے ہوۓ بولا۔ 'جگہ تو اچھی ہے بس ایک مسئلہ ہے، یہاں کرنے کو کچھ نہیں۔ صبح سے شام تک بس بستر پر پڑے رہتا ہوں۔'


تو میری جان باہر نکل کر گھوما کرو۔ اتنی خوبصورت جگہ ہے اور تم ہو کہ سارا دن گھر میں بیٹھے رہتے ہو۔' 


ہاں وہ تو ہے علاقہ تو بڑا خوبصورت ہے۔ اور۔۔۔کچھ لوگ بھی۔' شہریار دھیمی آواز سے بولا۔


کیا! کیا کہا! لوگ؟' اس کا مطلب ہے کچھ خاص لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے تمہاری۔' اس کا دوست لفظ خاص پر زور دے کر بولا۔


ہاں آج ابھی تھوڑی دیر پہلے ملاقات ہوئی ہے۔ بلکہ ملاقات کیا صرف میں نے اسے دیکھا ہے، وہ بھی دور سے۔'


اچھا تو کیا دیکھا پھر؟'


بتاؤں گا۔ ذرا دوسری ملاقات ہو لینے دو پھر تفصیل سے بتاؤں گا۔' 


واہ اس کا مطلب ہے باقی چھٹیاں تو تمہاری مزے کی گزریں گی۔' 


شہریار مسکرایا۔ 'پتہ نہیں۔ کیا پتہ وہ آئندہ کبھی مجھے دکھے یا نہیں۔۔۔ اچھا چل ٹھیک ہے بعد میں بات کرتے ہیں۔' شہریار نے فون بند کر دیا۔


فون بند کرکے اس نے ایک طرف رکھا اور سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر میں اسے نیند آگئ۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھا اور منہ ہاتھ دھو کر کاٹج سے باہر نکل آیا۔ وہ روزانہ رات کو دیر سے سوتا تھا مگر صبح طلوعِ آفتاب سے پہلے نیچے وادی میں پہنچ جاتا تھا لیکن آج رات جلدی سونے کے باوجود وہ صبح دیر سے اٹھا تھا۔ 


آج اس نے گاؤں دیکھنے اور پوری وادی گھومنے کا پروگرام بنایا تھا اس لیۓ وہ گھر پہنچ کر تھوڑی دیر دادی اماں کے پاس بیٹھا اور جب دن پوری طرح چڑھ آیا تو تیار ہو کر گھر سے نکل کر باہر آگیا۔ اس کا ارادہ پہلے پورا گاؤں دیکھنے کا تھا اور اس کے بعد گاؤں سے باہر گھومنے کا تھا۔ گاؤں کی سیر کے دوران اسے اس سبز اسکارف والی لڑکی کا خیال آیا جسے اس نے کل دریا کے کنارے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا ہو سکتا ہے وہ اسے آج گاؤں میں گھومتے ہوۓ دیکھائی دے جاۓ۔ مگر سارا گاؤں گھوم پھر کر دیکھ لینے پر بھی وہ اسے کہیں دکھائی نہ دی۔ گاؤں کا چکر مکمل کرنے کے بعد اپنے پہلے سے طے کیۓ ہوۓ منصوبے کے مطابق وہ گاؤں سے باہر نکل آیا اور سڑک پر ایک طرف چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر اسے کوئی خیال آیا تو واپس پلٹ آیا۔ دوپہر ہو گئ تھی اس لیۓ اس نے سوچا گھر واپس جا کر کھانا کھا کے کچھ آرام کیا جاۓ اور سپہر کے بعد دریا کی طرف جایا جاۓ۔ شاید وہ لڑکی آج پھر دریا کے کنارے ٹہلنے کے لیۓ آجاۓ۔ لیکن جب وہ واپس گھر کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں اس کی نظر ایک مکان کے دروازے پر پڑی۔ دروازہ آدھا کھلا تھا اور وہاں ایک لمبے قد والی لڑکی کھڑی تھی۔ اس لڑکی کا رخ گھر کے اندر کی طرف تھا اس لیۓ شہریار اس کا چہرا نہیں دیکھ پایا تھا۔ لیکن جونہی شہریار اس گھر کے بالکل سامنے پہنچا اس لڑکی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ شہریار نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ یہ وہی تھی۔ آج بھی اس نے اپنے بالوں کو اسکارف میں چھپا رکھا تھا مگر اس بار اسکارف کا رنگ سیاہ تھا۔ یہ اسکارف یہاں کی عورتوں کے لباس کا حصہ تھا اس لیۓ وہ اسے تقریباً ہر وقت پہنے رکھتی تھیں۔ آج بھی اس نے اسکارف کو بالکل اسی انداز سے کندھوں کے پیچھے باندھ رکھا تھا۔ اسکارف کو اس انداز سے باندھنا یہاں کا رواج تھا۔


 شہریار نے اک نظر اس کی طرف دیکھا اور آگے گزر گیا۔ اس بار اس لڑکی نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ پیچھے مڑ کر دوبارہ اس لڑکی کو دیکھے مگر یہ سوچ کر کہ کہیں اسے برا نہ لگ جاۓ اس نے اپنے آپ پر قابو رکھا۔ لیکن جب وہ اس گھر سے کچھ مناسب فاصلے پر چلا آیا تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، یہاں سے اسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ آگے جاکر گلی دائیں جانب مڑجاتی تھی اس نے مڑتے ہوۓ اک بار پھر پیچھے دیکھا، وہاں سواۓ ایک آدمی کے جو گلی کی دوسری جانب جارہا تھا اور کوئی نہیں تھا۔ 


گھر آکر اس نے کھانا کھایا اور سستانے کے لیۓ چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس کی دادی اماں اپنے کاموں میں مصروف رہیں اور وہ چپ چاپ لیٹا کھلی کھڑکی سے باہر دھوپ میں چمکتے پہاڑوں کو دیکھتا رہا۔ کبھی کبھی دادی اس سے کوئی بات پوچھ لیتی تھیں جس کا مختصر سا جواب دے کر وہ دوبارہ خاموش ہو جاتا۔ دادی نے پوچھا 'شہریار! تمہاری چھٹیاں کب ختم ہو رہی ہیں؟' 


ابھی ہیں کچھ دن اماں۔' اس نے  پہاڑوں کو دیکھتے ہوۓ جواب دیا۔


دادی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کوئی بات کر دیتیں۔ 'اس دفعہ جب تم شہر جاؤ تو واپس جلدی آجانا۔ تم ایک بار جو جاتے ہو تو چھ چھ مہینے واپس نہیں پلٹتے۔'


کیا کروں اماں نوکری ہی ایسی ہے۔ اور پھر چھ آٹھ مہینے بعد آتا ہوں تبھی تو اتنی چھٹیاں ملتی ہیں۔' شہریار اس بار بھی دور پہاڑوں کو جواب دے کر خاموش ہو گیا۔ کمرے میں تھوڑی دیر کے لیۓ خاموشی چھا گئ۔ کچھ دیر بعد دوبارہ آواز آئی مگر  اس بار شہریار بولا۔ 'اماں ایک بات تو بتا؟'


ہاں کیا بات ہے؟'


میری امی کیسی تھیں؟'


کیسی تھیں کا کیا مطلب؟' دادای نے شہریار کا سوال سن کر خیرت سے پوچھا۔


میں نے امی کو کبھی دیکھا نہیں اس لیۓ پوچھا۔'


 تو نے اس کی تصویر تو دیکھی ہے۔ بس ویسی ہی دکھتی تھی جیسی تو نے تصویر میں دیکھی ہے۔' 


پھر بھی کچھ تو بتا اماں۔ وہ کیسی تھی، کیا کرتی تھی، میں کتنا چھوٹا تھا جب وہ اس دنیا سے چلی گئ؟' شہریار نے استفسار کیا۔


تو اس وقت بہت چھوٹا تھا صرف تین چار مہینے کا تھا۔ تب سے تمہیں میں نے ہی پالا ہے۔ وہ بے چاری تو اپنی جوانی میں ہی چل بسی تھی۔ ہاۓ۔ ابھی عمر ہی کیا تھی اس کی۔' دادی آہ بھر کر بولی۔ 'تیرے باپ کو سب لوگوں نے بہت کہا کہ دوبارہ شادی کر لو چھوٹے سے بچے کو اکیلے کیسے پالو گے مگر اس نے ٹھان لی تھی کہ وہ دوبارہ شادی نہیں کرے گا۔ اس کی بھی ابھی عمر کتنی تھی وہ بھی تو اس وقت بالکل جوان جان تھا۔ 'دادی اٹھی اور بڑبڑاتے ہوۓ ایک طرف چل پڑی۔ 'بس بیٹا رب کے کام رب ہی بہتر جانے اس نے تیری ماں کو جلدی اپنے پاس بلا لیا تو اس کی مرضی۔' دادی کمرے کے اندر ایک دروازے میں داخل ہو کر کمرے کے ساتھ ملحق دوسرے کمرے میں چلی گئ اور شہریار دوبارہ کھڑکی سے باہر سرسبز پہاڑیوں کو زرد دھوپ میں نہاتے ہوۓ دیکھنے مگن میں ہو گیا۔ 


سپہر کے بعد جب دھوپ قدرے ڈھل گئ تو شہریار نے اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا اور بڑے قرینے سے کنگھی کرنے کے بعد ایک سیاہ چشمہ آنکھوں پر چڑھا کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ کچھ یاد آنے پر دوبارہ کمرے کے اندر گیا اور چارپائی پر تکیے کے پاس اپنا موبائل اٹھا کر باہر آگیا۔ گھر کے بیرونی دروازے سے نکلتے وقت اس نے دادی اماں کو آواز دے کر کہا۔ 'اماں میں دریا کی طرف جا رہا ہوں شام تک آجاؤں گا۔' یہ کہہ کر وہ دادی اماں کا جواب سنے بغیر گھر سے نکل آیا۔ 


گاؤں سے نکلتے وقت اس نے بہت سے لوگوں کو دیکھا مگر وہ ان میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگ اس کے باپ کی وجہ سے اسے پہچانتے تھے۔ ان میں سے چند ایک نے دور سے اسے سلام کیا جس کا جواب اس نے مسکرا کر سر کی ہلکی سی جنبش سے دیا اور آگے گزر گیا۔ گاؤں سے نکل کر وہ دریا کی طرف جانے والے راستے کی طرف چل پڑا۔ پورے راستے پر اس وقت کوئی نہیں تھا وہ اکیلا چلا جا رہا تھا۔ دریا کے قریب پہنچ کر اس نے بائیں جانب دیکھا دور سے اسے پہاڑ کی چوٹی سے ایک چشمہ نیچے دریا میں گرتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ اس سمت چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر اسے معلوم ہوا چشمے پر چند عورتیں اس وقت پانی بھر رہی ہیں۔ وہ آگے بڑھتا رہا جب ان کے قریب پہنچا تو اس نے اک نظر ان عورتوں کی طرف دیکھا اسے معلوم ہو گیا کہ وہ جس دراز قد لڑکی کی تلاش میں یہاں آیا تھا وہ یہاں نہیں تھی۔ وہ خاموشی سے آگے گزر گیا۔ تھوڑا دور جا کر وہ ایک پہاڑ کی ڈھلوان پر ایک بڑے سے ٹیلہ نما پتھر پر دریا کی سمت رخ کر کے بیٹھ گیا۔ دریا اس کے بالکل سامنے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ اس کے پیچھے ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی۔ ساری پہاڑی ڈھلوان ہری بھری تھی جس کے درمیان میں چھوٹے چھوٹے پتھروں اور کنکر کا راستہ بنا ہوا تھا جو اوپر پہاڑ کی چوٹی پر جاتا تھا۔ اس کا سیدھا مطلب تھا کہ یہاں سے لوگ نیچے اتر کر دریا میں آتے جاتے ہوں گے۔ وہ اندازہ لگانے لگا کہ یہ راستہ یہاں قدرتی طور پر بن گیا تھا یا لوگوں نے اسے خود بنایا تھا۔ بہت غور کرنے پر بھی وہ یہ نہ جان سکا کہ یہ راستہ کیسے بنا تھا۔ وہ اپنے سامنے بہتے ہوۓ تیزرفتار دریا کو دیکھنے لگا۔ دریا کا پانی بالکل صاف شفاف تھا۔ اس نے شہروں میں بہت سے دریا دیکھے تھے مگر اس دریا کی بات کچھ اور تھی۔ اتنا صاف ستھرا اور شفاف دریا اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہاں کے دریاؤں کا پانی گدلا تھا اور ان کا رنگ بھی بالکل مٹی کے رنگ کی طرح کا ہو گیا تھا۔ مگر یہ دریا اس قدر صاف ستھرا تھا کہ شہریار کی خیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ یہاں کشمیر میں اپنے گاؤں میں پہلے بھی بہت بار آیا تھا مگر اتنے قریب سے اس نے دریا کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ 


وہ ابھی دریا کی شفافیت اور خوبصورتی کو دل ہی دل میں سراہ رہا تھا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر سے چند آوازیں آتی ہوئی سنائی دیں۔ اس نے مڑ کر اوپر دیکھا لیکن اسے وہاں کوئی بھی دکھائی نہ دیا۔ آوازیں  مسلسل آرہی تھیں۔ اس نے چشمہ اتار کر جیب میں رکھا اور آہستہ سے اوپر چڑھنے لگا۔ تھوڑا سا اوپر جانے پر اسے معلوم ہوا یہ نسوانی آوازیں ہیں۔ وہ آوازوں پر غور کرنے لگا اس نے اندازہ لگایا کہ تین یا چار عورتیں  ہوں گی۔ لیکن بہت کوشش کرنے پر بھی وہ یہ نہ جان سکا کہ وہ کیا باتیں کر رہی ہیں۔ چلتے چلتے وہ چوٹی کے قریب پہنچ گیا۔ اوپر جانے کی بجاۓ اس نے وہیں کھڑے ہو کر دیکھا اسے دو لڑکیاں دکھائی دیں جو درختوں کے ساتھ لگ کر کھڑی تھیں۔ ان کا رخ دوسری طرف تھا، شہریار ان کے پیچھے تھا۔ ان کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ لڑکیاں درختوں کے پیچھے چھپ کر کسی کو دیکھ رہی ہیں۔ شہریار نے ان درختوں کے پار دیکھنا چاہا مگر یہاں سے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ ان کی باتیں سن کر اندازہ لگانے لگا کہ آخر وہ کس سے چھپ رہی ہیں۔ 


وہ آ تو نہیں رہی؟' ایک نے دوسری سے پوچھا۔


نہیں۔' دوسری نے جواب دیا۔ 'ابھی شاید وہ ہمیں وہیں ڈھونڈ رہی ہو گی۔'


لیکن اگر وہ پکڑی گئ تو'؟ پہلی نے پوچھا۔


تو اچھا ہے ڈانٹ پڑے گی۔ مزا آۓ گا۔' دوسری شرارت کے انداز سے بولی۔ 'لیکن ایک مسئلہ ہے سیب اس کے پاس ہیں کہیں وہ نہ جاتے رہیں۔'


ہاں یہ تو ہے۔ دیکھو پھر کیا ہوتا ہے۔'


وہ آ گئ۔' پہلی لڑکی تقریباً اچھلتے ہوۓ تیزی سے چلائی۔


کہاں؟' 


وہ۔۔۔وہاں۔' 


شہریار کو وہ تیسری لڑکی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ بغیر آواز پیدا کیۓ بڑی آہستگی سے اوپر چڑھ آیا اور ایک درخت کی اوٹ لے کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے درخت کے پیچھے سے جھانک کر دیکھا ایک لڑکی بھاگتی ہوئی آرہی تھی۔ جب اس نے دھیان لگا کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ لڑکی وہی تھی جس کی تلاش میں وہ یہاں آیا تھا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ جب لڑکی تھوڑا قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا شاپر ہے۔ اسے یاد آیا کہ اس میں وہ سیب ہوں گے جن کے بارے میں یہ دو لڑکیاں ابھی ابھی باتیں کر رہی تھیں۔ وہ بھاگتی ہوئی ان دو لڑکیوں کے پاس آگئ۔ وہ بری طرح ہانپ رہی تھی۔ جب اس کا سانس بحال ہوا تو وہ ان دونوں لڑکیوں پر برس پڑی۔


'تم دونوں دفعہ ہو جاؤ اور آئندہ مجھ سے بات مت کرنا۔ تم دونوں کو شرم نہیں آئی مجھے اکیلے چھوڑ کر بھاگ آئیں۔' 


وہ سب تو ٹھیک ہے پر وہ سیبوں کا دوسرا شاپر کدھر ہے؟' ایک لڑکی نے ہنستے ہوۓ کہا۔ 


واہ یہ ہیں میری دوستیں۔ جن کو دوست سے زیادہ شاپر کی پڑی ہے۔' تیسری لڑکی ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بولی۔ 'وہ شاپر وہیں گر گیا ہے اس میں تم لوگوں کا ہی قصور ہے۔ تم  نے بھاگنا تھا تو کم سے کم ایک شاپر تو ساتھ لے آتیں۔ دونوں مجھے پکڑا گئی تھیں۔'


چلو کوئی بات نہیں ایک ہی کافی ہے۔' ایک لڑکی نے شاپر میں ہاتھ ڈال کر سیب نکالتے ہوۓ کہا۔


خبردار اگر شاپر کو ہاتھ لگایا تو۔' تیسری لڑکی اس کے ہاتھ پر تھپڑ مار کر بولی۔ 'گھر جا کر ان سیبوں کو میں تقسیم کروں گی اور جتنے سیب میں تم دونوں کو دوں گی تمہیں وہ لینے پڑے گے۔ زیادہ کی بات نہ کرنا۔۔۔ محنت ساری میں کروں، خطرہ مول میں لوں اور تم دونوں بس مزے اڑاؤ۔'


اچھا ٹھیک ہے ہم زیادہ کی بات نہیں کریں گے جیسے تم تقسیم کرو گی ہم قبول کر لیں گے۔ بس اب جلدی چلو کافی دیر ہو گئ ہے۔' دوسری لڑکی بولی۔


ہاں ٹھیک ہے چلو۔'


جونہی ان دونوں لڑکیوں نے مڑ کر شہریار کی طرف رخ کیا اس نے ان کی صورت دیکھ کر انہیں فوراً پہچان  لیا۔ یہ دونوں وہی لڑکیاں تھیں جو اس دن بھی اس تیسری لڑکی کے ساتھ دریا کے کنارے ٹہل رہی تھیں جنہیں اس نے اوپر اپنے کاٹج پر سے دیکھا تھا۔ وہ تینوں اسی راستے سے نیچے اتر گئیں جس راستے سے ابھی تھوڑی دیر پہلے شہریار اوپر آیا تھا۔ وہ ابھی اپنی جگہ سے بھی نہیں ہلا تھا کہ وہ لمبے قد والی لڑکی جس کے لیۓ وہ یہاں آیا تھا اوپر آگئ۔ وہ زمین پر کچھ تلاش کرنے لگی شائد اس کی کوئی چیز کھو گئ تھی۔ ایک دم سے اس کی نظر شہریار پر پڑی، وہ ٹھٹھک کر رہ گئ۔ چند لمحوں تک وہ اسے خیرت سے دیکھتی رہی۔ شہریار بھی  چپ چاپ کھڑا رہا اس سے پہلے کہ وہ  کوئی بات کرتا نیچے سے ایک لڑکی کی آواز آئی۔ 'مہرو ملا کہ نہیں؟'


نہیں'۔ اس نے بلند آواز سے بولنا چاہا مگر اس کی آواز اس کے خلق میں اٹک کر رہ گئ اور صرف شہریار اسے سن پایا۔ نیچے سے لڑکی کی آواز دوبارہ آئی۔ 'مہرو! کچھ بولے گی کہ مر گئ۔ نہیں ملا تو آجاؤ بڑی دیر ہو گئ ہے۔'


آرہی ہوں۔' اس بار اس نے اپنی پوری قوت لگا کر بولا اور آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگی مگر ابھی بھی وہ شہریار کو بڑی خیرت سے دیکھ رہی تھی۔ چند قدم پیچھے ہٹ کر وہ بھاگی اور اسی راستے سے نیچے اترنے لگی جس سے اوپر آئی تھی۔ جاتے ہوۓ اس نے ایک مربتہ پھر شہریار کو دیکھا۔ جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئ تو وہ آگے بڑھا اور کچھ فاصلے پر کھڑا ہو کر اسے نیچے اترتا ہوا دیکھنے لگا۔ وہ تینوں ڈھلوان سے اتر کر دریا کے کنارے پہنچیں تو اس لڑکی نے پیچھے مڑ کر اوپر دیکھا۔ شہریار کو اپنی طرف متوجہ پا کر اس نے سر جھکا لیا اور سامنے دیکھنے لگی۔ وہ اپنی دونوں سہیلیوں کے پیچھے چل رہی تھی۔ وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہی تھیں مگر یہ خاموشی سے پیچھے چلی جا رہی تھی۔ جاتے ہوۓ اس نے آخری مرتبہ شہریار کی طرف دیکھا اور غائب ہو گئ۔ 


جب وہ تینوں لڑکیاں شہریار کی نظروں سے دور چلی گئیں تو وہ واپس پلٹا اور درختوں کے جھنڈ میں سے گزر کر اس راستے پر چلنے لگا جس راستے پر وہ لڑکی بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ تھوڑی دور جانے پر اسے زمین پر ایک کنگن گرا ہوا ملا۔ اسے خیال آیا شاید یہی وہ چیز تھی جسے ڈھونڈنے کے لیۓ وہ لڑکی دوبارہ اوپر آئی تھی۔ اس نے کنگن اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا اور آگے بڑھ گیا۔

 اردگرد ہر طرف چیڑ اور صنوبر کے درخت تھے جن کے بیچوں بیچ وہ چل رہا تھا۔ وہ درختوں کے جھنڈ سے باہر نکلا تو اسے اپنے سامنے کچھ فاصلے پر دو تین چھوٹے سے مکان نظر آۓ۔ ان مکانوں کے قریب سے ایک راستہ گزر کر آگے جا رہا تھا۔ وہ اس راستے پر چلنے لگا۔ تھوڑا دور جا کر اسے سامنے سے ایک بزرگ اپنی طرف تیزی سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ بزرگ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ جب وہ قریب آیا تو اس نے رک کر شہریار سے پوچھا۔ 'یہاں سے ابھی ابھی تین لڑکیاں گزر کر گئی ہیں؟'


ہاں۔۔۔نہیں۔۔۔ہاں چاچا گزری تو ہیں ابھی تین لڑکیاں۔' شہریار نے جھجھکتے ہوۓ جواب دیا۔


 اگلی بار آنے دو ان تینوں کو۔ اب آئیں تو ان کی خیر نہیں۔' چاچا آگے بڑھنے لگا تو شہریار نے اسے روک کر پوچھا۔ 'کیوں چاچا کیا ہوا؟ کیا کیا ہے ان تینوں نے؟'


کیا بتاؤں بیٹا۔ تین شیطان لڑکیاں آتی  ہیں اور میرے سیبوں کے باغ میں گھس کر بہت سارے سیب چوری کرکے بھاگ جاتی ہیں۔ اوپر سے درختوں کی ڈالیاں بھی توڑ دیتی ہیں۔ میں نے کتنی بار سمجھایا ہے کہ جب سیب کھانے ہوں تو مجھے بتایا کرو میں خود تمہارے لیۓ اچھے اچھے سیب اتار دیا کروں گا مگر کہتی ہیں چاچا ایسے مانگ کر کھانے میں مزا تھوڑی آتا ہے جو مزا یوں چوری کرکے کھانے میں ہے۔'


چاچا خاموش ہوا تو شہریار نے پوچھا۔ 'کون ہیں یہ تینوں لڑکیاں چاچا؟'


 اپنی ہی بچیاں ہیں بیٹا اپنے گاؤں کی ہی ہیں۔ اس پہاڑی سے نیچے دریا کے پاس رہتی ہیں۔ ایک نمبر کی شیطان ہیں تینوں۔' چاچا آگے چلنے لگا پھر رک کر بولا۔ 'تم کون ہو بیٹا تمہیں  یہاں کبھی نہیں دیکھا اس گاؤں کے تو نہیں لگتے؟'


نہیں چاچا اسی گاؤں کا ہوں مگر میں یہاں کبھی رہا نہیں کبھی کبھی بس گھر والوں سے ملنے کے لیۓ آتا ہوں اور چلا جاتا ہوں۔'


اچھا! کس کے گھر آتے جاتے ہو؟ تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟' چاچا نے متجسس ہو کر پوچھا۔


میں شیخ سرفراز ابراہیم کا بیٹا ہوں۔'


شیخ سرفراز! وہ جو لکڑی کا کام کرتا ہے؟' 


جی ہاں وہی۔'


ارے واہ پھر تو تم اپنے بھتیجے ہوۓ۔ اپنے سرفرازے کے بیٹے ہو، سرفرازا تو اپنا یار ہے۔ آؤ پھر میرے گھر میں ذرا مجھے مہمان نوازی کا موقع دو۔ یہاں تک آگۓ ہو تو تمہیں ایسے تو نہیں جانے دوں گا۔ یہاں پاس ہی اپنا گھر ہے وہ دیکھو وہ۔۔۔ تیسرے والا مکان میرا ہے۔' چاچا نے مکانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔


نہیں چاچا ابھی نہیں۔' شہریار بولا۔ 'ابھی تو شام ہونے والی ہے میں بس تھوڑا آگے تک یہ جگہ دیکھ کر واپس جا رہا ہوں پھر کبھی اس طرف آیا تو تمہارے گھر ضرور آؤں گا۔'


اچھا بیٹا جیسے تمہاری مرضی۔ لیکن آنا ضرور۔'


ضرور آؤں گا۔ اچھا چاچا ایک بات تو بتاؤ۔ تمہاری بولی سے نہیں لگتا کہ تم یہاں کے مقامی ہو بلکہ تمہارا انداز تو پنجابیوں سے ملتا جلتا ہے۔'


تم نے ٹھیک پہچانا میرا بچپن پنجاب میں ہی گزرا ہے۔ لیکن جب میں لڑکپن کی عمر کو پہنچا تو میرے والد صاحب کی یہاں کشمیر میں پوسٹنگ ہو گئ تب ہم لوگ یہیں آکر بس گۓ۔۔۔ چالیس برس ہو گۓ ہیں یہاں رہتے ہوۓ اب تو کافی حد تک میری بولی اور میرے بولنے کا انداز یہاں کے لوگوں کی طرح کا ہو گیا ہے۔


ہاں یہ تو ہے۔' شہریار بولا۔ 'ٹھیک ہے چاچا مجھے اجازت دو میں چلتا ہوں۔' شہریار اس سے سلام لے کر آگے چل دیا۔ 


کچھ دور جا کر اسے وہ سیبوں کا باغ دکھائی دیا اس کے ہونٹوں پر اپنے آپ مسکراہٹ پھیل گئ۔ باغ کے اندر جانے کی بجاۓ اس نے باہر سے ہی باغ کا جائزہ لیا اور چند قدم دور جا کر واپس پلٹ آیا۔ شام ہو گئ تھی اس لیۓ وہ اندھیرا ہونے سے پہلے اپنے کاٹج پہنچ جانا چاہتا تھا۔ 


جب وہ دریا کے پاس پہنچا تو میلوں دور پہاڑوں کے عقب میں سورج کہیں روپوش ہو چکا تھا اور اس کی چند آخری دم توڑتی سنہری کرنیں پانی کی سطح پر ناچ رہی تھیں۔ چشمے پر پانی بھرنے والی عورتیں جاچکی تھیں۔ پورا علاقہ مکمل طور پر سنسان نظر آرہا تھا۔ وہاں پر سواۓ اس کے قدموں کی چاپ کے اور دریا کی تیز لہروں کے شور کے اور کوئی نہیں تھا۔ وہ چلا جا رہا تھا تبھی اس کے دل میں ایک عجیب طرح کی خواہش جاگی۔ اس کا دل چاہا کہ کاش وہ دریا کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا جا سکتا اور جب تک دریا ختم نہ ہوتا وہ چلتا رہتا۔ ایسا خیال اس کے من میں کیوں آیا وہ نہیں جانتا تھا۔ تھوڑی دور جا کر دریا تو ختم نہ ہوا مگر اس کا اپنے کاٹج کی طرف جانے والا راستہ آگیا۔ 


جب وہ اپنے کاٹج پر پہنچا تو خان بہادر پہلے سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ شہریار کو دیکھ کر بولا۔ 


بڑی دیر لگا دی صاحب جی کدھر رہ گۓ تھے میں کب سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔'


میں ذرا دریا کی طرف ٹہلنے کے لیۓ نکل گیا تھا لیکن خیریت تو ہے تم اس وقت یہاں کیا کرہے ہو؟' شہریار اس کے قریب آکر سانس بحال کرکے بولا جو چڑھائی چڑھنے کی وجہ سے پھول گیا تھا۔


صاحب جی آپ کے لیۓ تخفہ لایا ہوں۔' خان بہادر اسے ایک بڑا سا پیکٹ تھماتے ہوۓ بولا۔


یہ کیا ہے خان بہادر؟' شہریار نے خیرت سے پوچھا۔


صاحب جی آپ کی پسند کے سگریٹ لایا ہوں۔' خان بہادر اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی بائیں طرف والی مونچھ کو مروڑ کر یوں بولا جیسے اس نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو۔


واہ کیا بات ہے۔ یہ تمہیں کہاں سے مل گۓ؟' شہریار خوش ہو کر بولا۔


بس صاحب جی مل گۓ کہیں سے۔' 


تمہارا بہت شکریہ خان بہادر اس کے بغیر تو میرا گزارا مشکل تھا۔'


شکریے کی بات نہیں صاحب جی آپ کا کام کرکے مجھے دل سے خوشی ہوتی ہے۔' خان بہادر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔


ٹھیک ہے وہ تو ٹھیک ہے'۔۔۔ شہریار دھیرے سے بولا۔ 'چلو آؤ پھر آج شام کی چاۓ تم میرے ساتھ پیو۔'


نہیں صاحب جی آپ تھکے ہوں گے اس وقت میں کہاں۔۔۔'


نہیں یار تھکنا کیا ہے یہاں میرے لیۓ کرنے کو ہے ہی کیا جو میں تھکوں گا۔ اور ویسے بھی آج شام سے پہلے میں نے چاۓ نہیں پی تھی تو ابھی شام کے بعد پی لیتے ہیں۔' شہریار اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر لے گیا۔ 


صاحب جی آپ بیٹھیں میں چاۓ بناتا ہوں۔' اندر آکر خان بہادر نے اس سے کہا اور سامنے میز پر پڑی ہوئی کیتلی اٹھا کر چاۓ بنانے میں مصروف ہو گیا۔ شہریار نے بستر پر بیٹھ کر اپنا پسندیدہ سگریٹ سلگا لیا اور ایک لمبا کش لگا کر دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوۓ بولا۔ 'یار خان بہادر ایک بات تو بتاؤ تم کیسے سارا دن ان پہاڑوں پر چڑھتے اترتے رہتے ہو میں تو ایک بار نیچے کا چکر لگا لوں تو میری بس ہو جاتی ہے۔'


صاحب جی ابھی آپ کی ان پہاڑوں سے دوستی نہیں نہ ہوئی آپ کچھ دن یہاں رہیں پھر دیکھیں آپ کو ان پہاڑوں سے اچھا کوئی دوست نہیں ملے گا۔' خان بہادر نے کیتلی میں پانی ڈال کر کیتلی کا بٹن آن کیا اور پانی کو گرم ہونے کے لیۓ چھوڑ دیا۔ پھر میز پر پڑے ہوۓ کپوں کو اٹھا کر صاف کرتے ہوۓ بولا۔ 'صاحب جی آپ کی کیا عمر ہوگی جب آپ کشمیر چھوڑ کر پنجاب رہنے کے لیۓ گۓ تھے؟'


شہریار نے دھواں اندر کھینچا پھر باہر نکال کر سوچتے ہوۓ بولا۔ 'عمر۔۔۔! یہی کوئی آٹھ دس سال ہو گی۔ امی کی وفات کے بعد کچھ عرصہ تو مجھے اماں نے پالا پھر جب وہ خود بیمار پڑ گئ تو مجھے میری خالہ کے پاس پنجاب بھیج دیا۔ تب سے وہیں ہوں۔'


میری مانیں تو یہیں آجائیں یہ جگہ بڑی اچھی ہے ان بڑے شہروں سے کئ گناہ اچھی۔' خان بہادر نے اسے صلاح دی۔


ہاں اچھی تو ہے خان بہادر پر۔۔۔' شہریار کسی سوچ میں پڑ گیا۔


پر کیا صاحب جی؟ اگر آپ کو کام کا مسئلہ ہے تو آپ کے ابا کا اپنا کام ہے اسے سنبھال لینا۔' 


خان بہادر نے چاۓ کپوں میں ڈالی اور ایک کپ شہریار کو پکڑا کر خود اس کے سامنے کچھ فاصلے پر پڑے ہوۓ موڑھے پر بیٹھ گیا۔


وہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے خان بہادر پر ہم جیسے شہروں میں رہنے والے پہاڑوں کی مشقت بھری سخت جان زندگی کے جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔ ہم یہاں چند دن آکر سیرو تفریح تو کر سکتے ہیں مگر یہاں مستقل رہنا بڑا مشکل ہے۔' 


مشکل کہاں صاحب جی۔ یہاں تو بڑی آسان زندگی ہے مشکل زندگی تو شہروں کی ہے۔ یہاں تو لوگوں کا رہن سہن بڑا سادہ ہے۔ وہاں کے لوگوں کو اپنا معیار بلند رکھنے کے لیۓ بڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ وہاں کے لوگ قیمتی فرنیچر، اعلیٰ قالین، قیمتی پردے، مہنگے فون اور مہنگی گاڑیاں حاصل کرنے کے چکر میں دن رات کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ کیا اسے کہتے ہیں لگژورس سٹایل کہ کیا۔۔۔'


لگژیوریئس لائف سٹائل۔' شہریار نے ہنستے ہوۓ فقرہ مکمل کیا۔


ہاں وہی۔' خان بہادر بولا۔ 'بس اسی لائف سٹائل کے چکر میں اپنی پوری جان گھلا دیتے ہیں۔'


یہ بات تو تم نے بالکل ٹھیک کہی خان بہادر اس لحاظ سے تو واقعی بڑے شہروں کی زندگی مشکل ہے۔' شہریار نے چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا۔


کافی دیر تک خان بہادر شہریار کے پاس بیٹھا رہا۔ جب وہ چلا گیا تو شہریار نے جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ کنگن نکالا جو اسے پیڑوں کے جھنڈ کے پاس ملا تھا۔ کتنی دیر تک وہ کنگن کو ادھر ادھر گھما کر دیکھتا رہا۔ 


اگلے دن وہ دریا کے کنارے ٹھیک اسی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا جہاں سے راستہ اوپر کی طرف جاتا تھا۔ کل کی نسبت آج وہ کچھ جلدی آگیا تھا اس لیۓ اسے لگا کہ وہ لڑکیاں ابھی یہاں نہیں پہنچیں ہوں گی۔ اس نے پتھر کے ساتھ ٹیک لگائی اور جیب سے کنگن نکال کر اس کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔  کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اسے وہ لڑکی دور سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ لیکن آج دوسری دونوں لڑکیاں اسکے ساتھ نہیں تھیں وہ اکیلی چلی آرہی تھی۔ وہ راستے میں بیٹھا تھا اس لیۓ جب وہ لڑکی قریب آئی تو وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔


آپ ۔۔۔' لڑکی نے اسے دیکھ کر جھجھکتے ہوۓ پوچھا۔


جی میں! کل آپ کی غالباً کوئی چیز کھو گئ تھی جسے ڈھونڈنے کے لیۓ آپ دوبارہ اوپر گئ تھیں؟' 


جی ہاں وہ میرا کنگن۔۔۔'۔ 


یہی ہے؟' شہریار اسے کنگن دکھاتے ہوۓ بولا۔


ہاں جی یہی ہے۔' لڑکی نے اس سے کنگن لے لیا۔ 'پر یہ آپ کو کہاں اور کیسے مل گیا؟ یہ تو کھو گیا تھا۔'


بس یوں سمجھیں مجھے کھوئی ہوئی چیزیں تلاش کرنے کا شوق ہے۔  بدقسمتی سے ان میں سے اکثر مجھے نہیں ملتیں، مگر آپ کی خوش قسمتی تھی کہ یہ مجھے بغیر تلاش کیۓ ہی مل گیا۔' 


آپ کا بہت شکریہ۔ میں نے تو سمجھا تھا کہ یہ مجھے اب کبھی نہیں ملے گا اسے میں نے ہمیشہ کے لیۓ کھو دیا ہے۔ مگر آپ کا شکریہ کہ آپ نے اسے مجھے واپس لوٹا دیا۔'


شکریہ کی بات نہیں یہ مجھے اتفاق سے مل گیا تھا تو میں نے اسے آپ تک پہنچا دیا۔' شہریار خاموش ہوا پھر کچھ سوچ کر بولا۔ 'آج آپ کی وہ دونوں دوستیں نہیں آئیں؟'


نہیں آج وہ کسی کام کی وجہ سے مصروف تھیں اس لیۓ نہیں آسکیں۔ میں بھی ان کے بغیر کبھی دریا کی طرف نہیں آتی مگر آج پتہ نہیں کیوں صبح سے میرا یہاں آنے کو دل چاہ رہا تھا۔ اس لیۓ میں اکیلی ہی چلی آئی۔' 


شاید آپ کا کنگن آپ کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔' 


ہاں شاید۔' لڑکی نے ہنستے ہوۓ جواب دیا۔


آپ یہاں روز آتی ہیں؟' شہریار نے پوچھا۔


روز تو نہیں آتی لیکن ان دنوں اکثر آجاتی ہوں۔' 


ہونہہ۔' 


چند لمحے خاموشی کے بعد لڑکی بولی۔ 'ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔'


آج اوپر نہیں جائیں گی؟'


نہیں آج یہیں تک کافی ہے۔ میں بس دریا تک ٹہلنے کے لیۓ نکلی تھی۔' 


کل آئیں گی آپ؟' شہریار نے دوبارہ ایک سوال کیا۔


معلوم نہیں۔' لڑکی نے کندھے اچکاتے ہوۓ جواب دیا۔


ٹھیک ہے اگر آپ کو معلوم ہو جاۓ تو مجھے بتانے آجانا۔' شہریار نے مسکراتے ہوۓ کہا۔


بالکل ٹھیک ہے۔' لڑکی نے ہنستے ہوۓ کہا اور آگے چل پڑی۔ 


شہریار پیچھے سے آواز دے کر بولا۔ 'اپنا نام تو بتاتی جائیں؟'


نام جان کر آپ کو کیا کرنا ہے؟' لڑکی وہیں کھڑے ہو کر بولی۔


مجھے پتہ تو ہو کہ کون سی لڑکی مجھے معلوم کرانے آۓ گی۔'


ہونہہ۔ اچھا۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔۔ نام جاننے کے لیۓ تو آپ کو فلیش بیک میں جانا پڑے گا۔' لڑکی کچھ سوچتے ہوۓ بولی۔ 'کل جب میں کنگن ڈھونڈھنے آئی تھی تو نیچے سے میری دوست نے میرا نام پکارا تھا۔ اب آپ اپنا ریوائنڈ بٹن دبائیں اور یاد کرنے کی کوشش کرتے رہیں اگر آپ کی یادداشت اچھی ہوئی تو آپ کو یاد آجاۓ گا۔ خداخافیظ۔ میں چلتی ہوں۔' لڑکی آگے بڑھ گئ۔


لڑکی کے جانے کے بعد شہریار کافی دیر تک کل والے واقعے کو یاد کرکے اس کا نام سوچتا رہا مگر اسے کچھ یاد نہ آیا۔ اسے یہ تو معلوم تھا کہ اس کی دوست نے اس وقت اس کا کوئی نام لیا تھا مگر دور ہونے کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سے سن نہیں پایا تھا۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور وہیں پتھر پر بیٹھ کر اس کا نام یاد کرنے لگا۔ کافی دیر غور کرنے پر بھی جب اسے یاد نہ آیا تو وہ اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں بھی وہ اس کا نام یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہوا۔


رات کو وہ اپنے کاٹج میں سویا ہوا تھا کہ تیز ہوا کے جھکڑ چلنے لگے۔ لکڑی کا دروازہ بند تھا مگر پھر بھی  بجنے لگا تھا۔ شور سے اس کی آنکھ کھل گئ تو وہ اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ دروازے کے بجنے اور باہر درختوں کی ٹہنیوں کے شور سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آندھی کافی تیز ہے۔ وہ اٹھا اور لکڑی کے ایک چھوٹے سے میز کو گھسیٹ کر دروازے کے آگے رکھ دیا جس سے دروازہ بجنا بند ہو گیا۔ پھر کھڑکی کے قریب آیا اور کھڑکی کھول دی۔ ایک تیز یخ ہوا کا جھونکا اس کے جسم سے ٹکرایا، اس نے فوراً کھڑکی بند کر دی۔ بستر سے باہر نکلنے پر اسے سردی محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ جلدی سے دوبارہ بستر میں گھس گیا۔ اس نے وقت دیکھا رات کے دو بج رہے تھے۔ اسے آج شام کو اس لڑکی سے ہونے والی ملاقات یاد آگئ۔ اپنے آپ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئ۔ وہ پھر سے اس کا نام یاد کرنے لگا۔ بہت یاد کرنے پر بھی بات نہ بنی تو اس نے  سوچنا چھوڑ دیا اور اپنے دوست کو فون ملا لیا۔ اس کی اپنی نیند اڑ چکی تھی اور اسے یہ علم تھا کہ اس کا دوست اس وقت یقیناً بیدار   ہو گا اس لیۓ اس نے اپنے دوست کو کال ملائی اور اس کی توقع کے عین مطابق اس کے دوست نے فون اٹھایا اور اٹھاتے ہی پوچھا۔ 'خیریت ہے اس وقت تک سوۓ نہیں؟ کہیں ابھی تک اس کا نام تو یاد نہیں کر رہے؟'


نہیں یار سویا ہوا تھا آندھی نے جگا دیا ہے۔ دوبارہ نیند نہیں آرہی تھی تو تمہیں فون کر لیا۔' 


وہ تو چلو اچھا کیا۔ پر کچھ یاد بھی آیا کہ نہیں؟' اس کے دوست نے پوچھا۔


ابھی تک تو کچھ بھی یاد نہیں آیا۔' شہریار نے جواب دیتے ہوۓ کہا۔  'سمجھ نہیں آرہی کہ آخر اس نے کیا نام لیا تھا۔ مجھے اس وقت دھیان سے سننا چاہیۓ تھا۔'


کوئی بات نہیں آجاۓ گا۔ نہ آیا تو اگلی ملاقات پر پوچھ لینا۔' اس کا دوست بولا۔


یار ایک منٹ میرا خیال ہے میں سارا واقعہ شروع سے دہراتا ہوں شاید اس سے کچھ یاد آجاۓ۔' 


ہاں ٹھیک ہے شروع سے سناؤ۔' اس کے دوست نے کہا۔



 وہ پھر سے کل کا واقعہ دہرانے لگا کہ کیسے وہ دریا کے پاس جا کر بیٹھا اسے کچھ آوازیں آئیں پھر وہ اوپر گیا ، لڑکیوں کی باتیں سنیں اور اس کے بعد وہ لڑکی سامنے سے دوڑتی ہوئی آئی۔ وہاں ان کی آپس میں تھوڑی دیر تکرار ہوئی۔ پھر وہ تینوں لڑکیاں نیچے اتر گئیں۔ چند لمحوں بعد وہ لڑکی دوبارہ اوپر آئی اور کچھ دیر بعد نیچے سے اک لڑکی بولی۔ 'مہرو ملا کہ نہیں'۔ بات کرتے ہوۓ اچانک سے اس کا نام اس کی زبان پر آگیا۔ وہ چلایا 'ہاں مہرو تھا اس کا نام۔۔۔ ہاں بلکل یہی تھا۔ 'مہرو'۔۔۔ کیا پیارا نام ہے مہرو۔'


خاک پیارا ہے۔ یہ بھی کوئی نام ہے 'مہرو'۔۔۔'اس کا دوست بولا۔ 'اس کا اصل نام کوئی اور ہو گا۔ یہ تو اس کی دوستیں اسے پیار سے کہتی ہوں گی۔'


ہاں تو پیارے نام پیار سے ہی کہے جاتے ہیں۔۔۔مہرو۔۔۔پیاری مہرو'۔ شہریار کھوۓ ہوۓ انداز سے یوں بولا جیسے وہ لڑکی اس کے ساتھ ہو اور وہ اس کو پکار رہا ہو۔


'جاگ جاؤ بیٹا جاگ جاؤ۔ آنکھیں کھولو ابھی سے اس کے خواب دیکھنے شروع کر دیۓ ابھی تو پتہ نہیں اس سے تمہاری دوبارہ ملاقات ہوتی بھی ہے کہ نہیں۔'


ہو گی ضرور ہو گی۔ ہمارا دوبارہ ملنا آسمانوں میں لکھا جا چکا ہے۔' شہریار  اسی کھوۓ ہوۓ انداز سے بولا۔


آسمانوں میں لکھا جا چکا ہے تو پھر تمہاری ملاقات بھی آسمانوں پر جا کر ہی ہو گی۔' اس کے دوست نے ہنستے ہوۓ کہا۔


کچھ دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے پھر شہریار نے فون بند کر دیا اور مہرو کے ساتھ ہونے والی دو تین ملاقاتوں کو یاد کرتے کرتے اسے نیند آگئ۔


دن کا وقت تھا سورج کی چند کرنیں درختوں کے جھنڈ میں سے گزر رہی تھیں۔ شہریار ایک درخت کے پاس ہاتھ میں چاقو لیۓ کھڑا تھا اور چاقو سے درخت کو کھرچ رہا تھا۔ اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر مہرو ایک درخت سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی۔ اس نے آج سرخ رنگ کا سکارف پہن رکھا تھا۔


شہریار! یہ آپ پچھلے بیس منٹ سے اس بے چارے درخت کو کیوں چھیل رہے ہیں اس نے آپ کا کیا بگاڑا ہے۔' مہرو اسے اس عجیب و غریب کام میں مگن دیکھ کر بولی۔


بتاتا ہوں ذرا صبر تو کرو۔' شہریار نے اپنا کام جاری رکھتے ہوۓ کہا۔


یہ تو آپ کب سے کہہ رہے ہیں، بتاتا ہوں بتاتا ہوں۔ اب بتا بھی دیں۔'


بس ایک منٹ اور ابھی بتاتا ہوں۔' شہریار نے دو تیں بار چاقو درخت پر مارا اور پیچھے ہٹ کر بولا۔ 'آؤ دیکھو اور بتاؤ کیسے لگ رہے ہیں۔'


مہرو اپنی جگہ سے اٹھی اور درخت کے قریب جا کر دیکھ کر بولی۔ 'یہ کیا ہم دونوں کے نام۔۔۔یہ یہاں کیوں لکھے؟'


میں نے اس درخت پر ہم دونوں کے نام لکھ دیۓ ہیں یہ نشانی کے طور پر ہمیشہ یہاں رہیں گے۔' شہریار بولا۔ 'جب ہم بوڑھے ہو جائیں گے تو یہاں آکر دیکھیں گے، یہ نام ہمیں اِن دنوں کی یاد دلائیں گے جو ہماری زندگی کے خوبصورت ترین دن ہیں۔ یہ نام ہمیں اس جگہ کی یاد دلائیں گے جہاں ہم نے پہلی بار اک دوسرے کو دیکھا تھا۔' شہریار ایک دو قدم پیچھے ہٹا اور اپنے بازو پھیلا کر بلند آواز سے بولا۔ 'یہ اونچے اونچے  پیڑ اور اس پیڑ پر کھدے ہمارے نام ہماری محبت کی یادگار بنے گے مہرو۔' 


بس بس زیادہ جوش میں آنے کی ضرورت نہیں اگر کسی نے سن لیا تو محبت کی یادگار کی بجاۓ ہماری یہاں تربت بنے گی۔' مہرو نے اسے ٹوکتے ہوۓ کہا۔


یہ تو اور بھی اچھا ہے۔' شہریار بولا۔ 'لوگ ہماری قبروں پر پھول چڑھانے آئیں گے اور کہیں گے اس خود غرضی، مفاد پرستی اور مادیت پرستی کے دور میں جہاں لوگ صرف پیسے سے، جائیداد سے اور چیزوں سے محبت کرتے ہیں وہاں یہ دو لوگ تھے جو صرف انسانوں سے اور قدرت سے محبت کرتے تھے۔ ہمارے نام سچی اور خالص محبت کی علامت کے طور پر لیۓ جائیں گے۔'


واہ واہ جناب کیا اعلیٰ بات آپ نے فرمائی ہے۔ مگر مسٹر شہریار ابراہیم بات دراصل یہ ہے کہ اگر ابھی ہمیں کسی نے دیکھ لیا تو مرنے کے بعد ہم پر پھول چڑھانے کی بات تو بعد کی ہے فی الحال لوگ ہمیں پتھر مارنے ضرور آئیں گے۔ تو بہتر یہی ہے ہم یہاں سے کھسک لیں۔' مہرو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے جاتے ہوۓ بولی۔


وہ تو ٹھیک ہے پر ادھر کہاں جا رہی ہو؟' شہریار نے اس کے پیچھے چلتے ہوۓ پوچھا۔


آپ نے یہاں کی سب سے اچھی جگہ تو ابھی تک دیکھی ہی نہیں۔ میرے ساتھ آئیں میں آپ کو یہاں کی سب سے خوبصورت جگہ دکھاتی ہوں۔'


تقریباً پانچ منٹ چلنے کے بعد وہ پھولوں کے ایک قدرتی باغ میں داخل ہو گۓ۔ باغ میں کئ رنگوں کے خوشنما پھول تھے جن پر رنگ برنگی خوبصورت تتلیاں اڑتی پھرتی تھیں۔ شہریار نے اتنے رنگوں کے پھول اور اس قدر دلنشیں تتلیاں زندگی میں پہلی بار دیکھی تھیں۔ وہ باغ کو دیکھ کر مبہوت سا ہو گیا۔ اس قدر حسن اور دلکشی نے اسے سحرزدہ سا کر دیا تھا۔ کتنی دیر تک وہ دانتوں میں انگلیاں دیۓ محوِ خیرت پھولوں اور تتلیوں کو دیکھتا رہا۔ مہرو نے اسے کھویا ہوا دیکھا تو چٹکی بجا کر کہا 'کہاں کھو گۓ جناب یہ تو کچھ بھی نہیں ابھی تو سارا باغ آگے ہے۔' شہریار جیسے کسی دوسری دنیا سے واپس آیا۔ 'یہ جگہ تو حقیقت میں جنت ہے میں تو اپنی ساری عمر اس باغ میں گزار دینا چاہوں گا۔'


شہریار نے پھول پر بیٹھی ہوئی ایک تتلی کو پکڑ کر ہتھیلی پر بٹھانا چاہا مگر وہ اڑ گئ۔ پھر وہ دونوں تتلیوں کے پیچھے بھاگنے لگے۔ بھاگتے بھاگتے مہرو کا پاؤں پھسلا اور وہ نیچے گر گئ۔ اس کا سکارف سر سے ڈھلک گیا اور اس کے بال بکھر گۓ۔ شہریار نے آگے بڑھ کر اسے اٹھانا چاہا مگر اسے دیکھتا رہا۔ بال درست کرتے ہوۓ مہرو کی نظر اس پر پڑی تو اس نے پوچھا۔ 'ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟'


ایسے کیسے؟' شہریار اسی انداز میں اسے دیکھتے ہوا بولا۔


ایسے نہ دیکھیں۔' مہرو نے التجا کی۔


تو کیسے دیکھوں۔' وہ دوبارہ اسی انداز سے بولا۔


ایسے تھوڑی دیکھتے ہیں۔'


تو کیسے دیکھتے ہیں؟'


آپ اس قدر ذوق و شوق سے بالکل جنونیوں کی طرح دیکھ رہے ہیں۔' مہرو نے کہا۔


شہریار ہنسا۔ پھر شعر پڑھنے لگا۔


'ابھی تو تنقید ہو رہی ہے میرے مذاقِ جنوں پہ لیکن 


تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے؟'


شعر سن کر مہرو مسکرائی اور سکارف درست کرتے ہوۓ ایک طرف چلنے لگی۔


اچانک سے زور زور سے دستک کی آوازیں آنے لگیں۔ شہریار کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے کاٹج میں بستر پر پڑا ہے۔ چند لمحوں تک اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کہاں ہے۔ باہر سے دروازہ بجنے کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ وہ جلدی سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ باہر دن نکل آیا تھا اور خان بہادر دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ اندر آکر بولا۔ 'صاحب جی آج اتنی دیر ہو گئ ہے آپ نیچے نہیں آۓ۔ باہر دیکھیں کتنا دن نکل آیا ہے۔ مجھے اماں نے بھیجا ہے کہہ رہی تھی جا کر دیکھو شہریار ابھی تک کیوں نہیں آیا۔ آپ کو کیا ہوا؟ ابھی تک سوۓ ہوۓ تھے آپ کا فون بھی بند تھا۔'


خان بہادر بولے جا رہا تھا اور شہریار کو لگ رہا تھا کہ وہ کسی اور دنیا سے بول رہا ہے اور شہریار کسی اور دنیا کا باسی ہے۔ جب اسے کچھ ہوش آیا تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بولا۔ 'ہاں وہ رات کو دیر سے سویا تھا اس لیۓ آنکھ نہیں کھلی۔ آؤ بیٹھو۔' شہریار نے آگے بڑھ کر کھڑکی کھولی تو کھڑکی سے گزر کر دھوپ کمرے کے فرش کے آدھے حصے پر پڑنے لگی۔


نہیں صاحب جی میں بیٹھوں گا نہیں مجھے اس وقت کئ کام ہیں۔ میں جا رہا ہوں آپ جلدی آجانا نہیں تو اماں پریشان ہوں گی۔' خان بہادر کمرے سے باہر نکل گیا اور شہریار کھڑکی میں کھڑے ہو کر باہر دھوپ میں چمکتے پہاڑوں اور دریا کو دیکھنے لگا۔ اس کے ذہن میں رات بھر کا خواب گھوم رہا تھا۔


پچھلے پہر وہ دریا پر گیا اور شام تک اس لڑکی کا انتظار کرتا رہا مگر وہ اس دن نہ آئی۔ وہ افسردہ صورت لیۓ واپس لوٹ آیا۔ جب وہ گھر آیا تو اس کی دادی نے اس سے کہا کہ اس نے ایک جگہ پر اس کے رشتے کی بات کی ہے۔ شہریار نے اس کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اس کی بات سننے لگا۔ دادی بولی ' رشتہ لے کر آنے والی بتا رہی تھی کہ بڑے اچھے لوگ ہیں اگر ہم لوگ جلدی ہاں کر دیں گے تو بہتر ہو گا کیونکہ ان کے پاس ایک اور رشتہ آیا ہے یہ نہ ہو آپ سے پہلے وہ اپنی لڑکی کا وہاں رشتہ طے کر دیں۔ میں نے اس سے کہا کہ شہریار لڑکی دیکھ کر کوئی فیصلہ کرے گا تو وہ لڑکی کی تصویر بھی لے کر آئی ہے۔ تم دیکھ لو اگر تمہیں پسند ہے تو میں کل تمہارے ابے کے ساتھ جا کر ان سے مل لیتی ہوں۔' دادی دراز سے تصویر نکال کر اسے دکھاتے ہوۓ بولی۔


نہیں اماں مجھے نہیں کرنی کہیں شادی وادی۔' شہریار تصویر دیکھے بغیر بولا۔


لے اب یہ کیا بات ہوئی۔ اس دن تو تو راضی تھا اب تجھے کیا ہوا۔' دادی نے خیرت سے پوچھا۔


بس اماں میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا ابھی اس بات کو رہنے دو۔' شہریار اٹھا اور میز سے چابیاں اٹھا کر بولا۔ 'میں اوپر جا رہا ہوں۔ آج بھوک نہیں کھانا نہیں کھاؤں گا۔'


آۓ ہاۓ ایک بار تصویر تو دیکھ لو۔ کیا پتہ تمہیں اچھی لگے۔' 


نہیں اماں میں چلتا ہوں مجھے نہیں دیکھنی کوئی بھی تصویر۔' شہریار باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد اماں کتنی دیر تک بڑبڑاتی رہی۔ 'پتہ نہیں آج کل کے لڑکوں کو کیا ہو گیا ہے۔ ان کی تو کسی بات کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔'


شہریار اگلے کئ دنوں تک دریا کے چکر لگاتا رہا مگر وہ لڑکی دوبارہ اسے نہ دکھی۔ یہاں تک کہ وہ اوپر جا کر سیبوں کے باغ تک بھی چکر لگا آیا مگر نہ تو اسے مہرو اور نہ ہی اس کی دوستیں اسے کبھی دکھائی دیں۔ وہ ہر روز یہ امید لیۓ دریا پر جاتا کہ شاید آج اسے وہ وہاں مل جاۓ مگر ہر روز شام کو اسے مایوس لوٹنا پڑتا۔ 


ایک شام وہ دریا سے واپس آکر دادی اماں کے پاس بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا کہ دادی اسے گم سم دیکھ کر بولی۔ 'تم نے جس رشتے سے انکار کیا تھا انہوں نے اپنی لڑکی کا رشتہ کہیں اور کر دیا ہے۔ اتنا اچھا رشتہ تم نے ٹھکرا دیا۔ لڑکی بھی اچھی تھی تم تصویر دیکھ لیتے تو تمہیں پسند آتی۔'


شہریار اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوۓ خاموشی سے کھانا کھاتا رہا۔ اس کے دل میں ایک بار بھی دادی کی تصویر والی لڑکی کا خیال نہ آیا، نہ ہی اسے اس بات کا افسوس تھا کہ اس نے بقول دادی کے ' گھر چل کر آۓ اتنے اچھے رشتے کو گنوا دیا ہے۔' وہ تو ابھی بھی مہرو کے متعلق سوچ رہا تھا اور اس بارے میں غور کر رہا تھا کہ اس سے ملنے کی یا اسے دیکھنے کی کوئی صورت کیونکر پیدا ہو۔ ایک ترکیب اس کے ذہن میں آئی کہ کیوں نہ وہ گاؤں میں اس گلی کی طرف جاۓ اور اس گھر کے سامنے سے گزرے جس گھر کے دروازے پر اس نے اسے ایک بار کھڑے دیکھا تھا۔ 


لہذا اگلی صبح کو وہ اپنی قسمت آزمانے اس گلی میں پہنچ گیا اور اس گھر کے پاس سے دو تین چکر لگاۓ۔ کچھ دیر تک اس گلی میں کھڑا بھی رہا مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہ دی۔ پچھلے پہر وہ دریا کے کنارے اپنی پہلے والی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔ 


تقریباً آدھے گھنٹے تک وہ دریا میں کنکریاں پھینکنے میں مشغول رہا۔ اس نے پتھر دریا میں پھینکا، پتھر پانی کی سطح پر لہریں بناتا ہوا لڑھتا چلا گیا۔ وہ ایک اور کنکر اٹھا کر پھینکنے والا تھا کہ اس کی نظر دور سے آتی ہوئی دو لڑکیوں پر پڑی۔ اس کا ہاتھ وہیں رک گیا۔ وہ لڑکیوں کو آتا ہوا دیکھتا رہا جب لڑکیاں قریب آئیں تو اس نے انہیں پہچان لیا۔ یہ دونوں لڑکیاں مہرو کی دونوں سہیلیاں تھیں۔ اس نے ان کے پیچھے دیکھنے کی کوشش کی کہ شاید مہرو ان کے تعاقب میں آرہی ہو مگر ان کے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ جب وہ لڑکیاں پاس آئیں تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور انہیں سلام کیا۔ لڑکیوں نے سلام کا جواب دیا۔ ایک لڑکی بولی۔ 'آپ ہیں جنہوں نے مہرو کو اس کا کنگن واپس لوٹایا تھا؟'


جی۔ میں ہی ہوں۔۔۔وہ خود کہاں ہیں آپ کے ساتھ نہیں آئیں؟'


نہیں۔' دوسری لڑکی بولی۔ 'اسی نے ہمیں آپ کے پاس یہ کنگن لوٹانے کے لیۓ بھیجا ہے۔' لڑکی نے کنگن اس کے آگے کرتے ہوۓ کہا۔


شہریار خیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ لڑکی اس کی کیفیت بھانپ کر بولی۔ 'جانتی ہوں آپ کو خیرت ہو رہی ہو گی کہ یہ کنگن مجھے واپس کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیۓ میں بس اتنا بتا دیتی ہوں کہ مہرو نے ہمیں کہا کہ یہ کنگن آپ کو دے دوں کیونکہ کل مہرو کی شادی ہے۔'


شہریار کو لگا کہ اس کے اوپر کوئی بھاری چیز گر گئ ہے۔ قریب تھا کہ وہ لڑکھڑا جاتا مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور لڑکیوں سے پوچھا۔ 'میں آپ کی بات کا مطلب ابھی بھی نہیں سمجھا ایک لڑکی جو میرا نام تک نہیں جانتی وہ اپنی شادی سے ایک دن پہلے مجھ تک یہ کنگن پہنچاتی ہے مخض اس لیۓ کہ یہ کنگن جو اس سے کچھ دن پہلے کہیں کھو گیا تھا اور جو اتفاق سے مجھے مل گیا اور میں نے اسے واپس لٹا دیا۔ صرف اتنی سی بات پر۔۔۔'


اتنی سی بات نہیں شہریار صاحب۔' شہریار اس کے منہ سے اپنا نام سن کر بہت خیران ہوا۔


آپ میرا نام کیسے جانتی ہیں؟'


مہرو نے بتایا ہے۔' لڑکی نے جواب دیا۔


لیکن میں نے تو انہیں اپنا نام نہیں بتایا تھا۔' شہریار نے کہا۔


جانتی ہوں۔' پہلی لڑکی بولی۔ 'آپ نے مہرو کو آپ اپنا نام نہیں بتایا تھا۔ دیکھیۓ شہریار صاحب جو بات میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں اس پر آپ بلکل بھی یقین نہیں کریں گے۔ مگر حقیت یہ ہے کہ بات بالکل سچ ہے۔'


کون سی بات؟' شہریار نے پوچھا۔


بتاتی ہوں۔' لڑکی بولی۔ 'پہلے آپ یہ بتائیں کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ مہرو سے ایک بار پہلے بھی مل چکے ہیں؟ آپ ایک بار ہماری گلی سے گزر رہے تھے جب مہرو نے آپ کو پہلی بار دیکھا تھا۔ اس وقت وہ ہمارے گھر کے دروازے پر کھڑی تھی اور آپ گلی میں سے اس گھر کے بالکل سامنے سے گزرے تھے۔ آپ نے مہرو کو دیکھا تھا پر شاید آپ کو وہ یاد نہ رہی ہو مگر اسے آپ بہت اچھی طرح یاد ہو گۓ تھے۔ مہرو کو آپ بہت اچھے لگے تھے۔ اور پھر اتفاق سے اس پہاڑ پر اس نے آپ کو دوبارہ دیکھا جب وہ کنگن تلاش کرنے آئی تھی۔' لڑکی نے اوپر چوٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔ 'اس کے بعد مہرو آپ کو کافی یاد کرنے لگی تھی۔' لڑکی خاموش ہوئی چل کر ایک طرف گئ اور ایک پتھر سے ٹیک لگا کر بولی۔ 'آپ جانتے ہیں اس دن مہرو ہم دونوں کے نہ آنے کے باوجود اکیلی اس طرف کیوں چلی آئی تھی جس دن آپ نے اس کو یہ کنگن واپس لٹایا تھا۔'


کیوں؟' شہریار نے بالکل آہستہ سے کہا۔


وہ صرف آپ کے لیۓ آئی تھی۔ اس نے سوچا کہ شاید آپ یہاں پھر سے آۓ ہوں اور وہ آپ کو دیکھ لے۔ یہ بات اس نے آپ کو اس وقت تو نہیں بتائی مگر یہ بات بالکل سچ ہے۔'


شہریار اس کی باتیں سن کر خیران ہو رہا تھا۔ لڑکی اس کی خیرانی بھانپ کر دوبارہ بولی۔ 'ابھی تو اصل خیرانی کی بات آگے ہے شہریار صاحب! ابھی وہ بات تو میں نے آپ کو بتائی ہی نہیں۔'


جی ہاں یہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔' اس بار دوسری لڑکی بولی۔ 'ابھی جو بات آپ کو پتہ چلے گی اس پر آپ کو بالکل بھی یقین نہیں آۓ گا۔ وہ کچھ یوں ہے شہریار صاحب کہ چند دن پہلے مہرو نے ایک خواب میں آپ کو دیکھا تھا۔ اس نے دیکھا کہ آپ دونوں کسی پھولوں کے باغ میں گھوم رہے ہیں جہاں تتلیاں اڑ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ دونوں نے درختوں پر اپنے نام بھی لکھے تھے۔ مہرو کو لگتا ہے یہ خواب نہیں تھا بلکہ یہ سب حقیقت میں ہوا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے آپ سے اصل میں ملاقات کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اسے آپ کا نام بھی اسی خواب کے ذریعے پتہ چلا تھا۔'


ہے نہ خیرت کی بات۔' پہلی لڑکی بولی۔ 'ہم جانتی ہیں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم ایسے ہی گپ ہانک رہی ہیں مگر یہ بات سچ ہے شہریار صاحب۔ ورنہ آپ ہی بتائیں ہمیں آپ کا نام کیسے پتہ چلتا؟'


میں جانتا ہوں آپ سچ بول رہی ہیں۔' شہریار نے کہا۔ 'پر آپ یہ بتائیں جب سب کچھ ایسا تھا جیسا آپ بیان کر رہی ہیں تو پھر یہ شادی اور کنگن لوٹانے کا کیا مطلب ہے؟'


شادی کا فیصلہ تو اس کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ شاید یہ قدرت کا فیصلہ تھا۔ اس کی اتنی جلدی شادی طے ہو جاۓ گی کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔ ابھی چند دن پہلے رشتہ آیا اور آج اس کی شادی ہے۔' 


لیکن اسے کچھ کہنا تو چاہیۓ تھا گھر والوں کو کچھ بتانا تو چاہیۓ تھا۔' 


وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی شہریار صاحب۔ کچھ ایسے حالات پیدا ہو گۓ تھے، ایسے مسائل درپیش آگۓ تھے کہ اس کے گھر والے اس شادی سے انکار نہ کر سکے اور نہ ہی وہ کچھ بول سکی۔' لڑکی بات کرکے خاموش ہوئی تو چند لمحے شہریار کو یوں لگا جیسے ساری فضا پر سکوت طاری ہو گیا ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا بات کرے۔ اب کچھ بھی کہنا بیکار تھا۔  وہ ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ ایک لڑکی بولی۔ 'ہم چلتی ہیں کافی دیر ہو گئ ہے۔'


وہ جانے لگیں تو شہریار انہیں روک کر بولا۔ 'ٹھہریں۔' لڑکیاں رک گئیں۔ شہریار بولا۔ 'آپ نے تو مجھے آج خوب خیران کیا ہے لیکن چند باتیں میری بھی سن لیں تا کہ آپ کو خیران کرنے کا مجھے بھی کچھ موقع مل جاۓ۔' شہریار نے گہرا سانس لیا اور دوبارہ بولنا شروع کیا۔ 'آپ نے کہا کہ اس نے مجھے پہلی دفعہ گھر کے پاس سے گزرتے ہوۓ دیکھا تھا تو اسی وقت میں اسے ہمیشہ کے لیۓ یاد ہو گیا تھا۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتیں کہ میں وہاں اسی کی تلاش میں گیا تھا۔'


لڑکیوں نے اسے خیرت سے دیکھا۔ 'جی ہاں۔ میں نے اسے ایک دن پہلے آپ دونوں کے ساتھ ٹھیک اس جگہ پر دریا کے کنارے ٹہلتے ہوۓ دیکھا تھا اور اس وقت وہ مجھے ہمیشہ کے لیۓ یاد ہو گئ تھی۔ اگلے دن میں اس لیۓ گاؤں کی طرف نکلا تھا کہ شاید وہ مجھے وہاں دوبارہ دکھ جاۓ۔ اور یہ کہ میں اس کے بعد جتنی دفعہ بھی دریا کی طرف آیا تھا اسی کی تلاش میں آیا تھا۔' شہریار خاموش ہوا اور چند قدم چل کر ان لڑکیوں کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہو گیا۔ چند لمحوں بعد مڑ کر اپنا رخ دوبارہ لڑکیوں کی طرف کیا اور پھر سے بولنا شروع کیا۔ 'لیکن یہ بات اتنی خیرانی کی نہیں اس سے بھی خیرانی کی بات یہ ہے کہ چند دن پہلے میں نے بھی بالکل ویسا ہی خواب دیکھا جیسا ابھی آپ نے بتایا کہ اس نے دیکھا تھا۔ خواب سے بیدار ہونے پر مجھے بھی ایسے ہی محسوس ہوا تھا کہ جیسے یہ سب حقیقت میں ہوا ہے۔ میں بھی اس بات کو بالکل بھی سمجھ نہیں سکا مگر یہ سچ ہے۔' اس بار خیران ہونے کی باری لڑکیوں کی تھی۔ 'مجھے بس اتنا ہی کہنا تھا۔ آپ اسے یہ سب بتا دینا۔ خدا خافیظ۔' لڑکیاں خیرت زدہ سی اک دوسرے کی طرف دیکھتیں ہوئیں خاموشی سے وہاں سے چل دیں۔ شہریار نے اک چھوٹا سا کنکر اٹھایا اور دریا میں دے مارا۔ پتھر دریا پر لہریں بناتا ہوا کچھ دور جا کر ڈوب گیا۔


رات کے وقت وہ بہت دیر تک اپنے کاٹج کی کھڑکی میں کھڑا رہا۔ کھڑکی سے باہر دور پہاڑوں پر بنے چھوٹے چھوٹے گھروں میں روشن قمقموں کو دیکھتا رہا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ فضا میں خنکی تھی مگر شہریار کو ٹھنڈ کی بجاۓ ہلکی ہلکی سرد ہوا بھلی لگ رہی تھی۔ اس نے ایک طرف ہو کر کھڑکی کے دروازے سے ٹیک لگائی اور سگریٹ سلگا لیا۔ تقریباً آدھا سگریٹ پی کر اس نے سگریٹ کھڑکی سے نیچے پھینک دیا اور دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیۓ۔ نہ جانے کتنی دیر تک وہ وہاں کھڑا رہا۔ اسے وقت کا بالکل احساس نہ ہوا۔ جب پو پھٹی تو اسے احساس ہوا کہ رات گزر چکی ہے مگر وہ جانتا تھا کہ رات کا تو ابھی آغاز ہوا ہے۔


اگلے دن وہ واپس اپنے شہر جانے کے لیۓ تیار تھا۔ اپنا سامان باندھنے کے بعد وہ کسی چیز کو ڈھونڈھنے کے لیۓ نیچے جھکا تو اسے میز کے نیچے سے ایک تصویر الٹی پڑی ہوئی ملی۔ اس نے تصویر اٹھا لی۔ اس کی دادی جو کچھ فاصلے پر اس کے سامنے بیٹھی تسبیح پھیر رہی تھی اس کے ہاتھ میں تصویر دیکھ کر بولی۔ 'یہ اسی لڑکی کی تصویر ہے جس کا رشتہ تم نے بغیر دیکھے ٹھکرا دیا تھا۔'


شہریار نے تصویر سیدھی کرکے دیکھی۔ تصویر دیکھتے ہی وہ سکتے میں آگیا۔ تصویر میں مہرو تھی۔ 





































 




  










   






 







 



۔








Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات