Drizzling Of Love

Drizzling Of Love






 رضوان کی آنکھ کھلی تو صبح کے نو بج رہے تھے۔ اس نے   سوچا آج جشنِ آزادی منایا جا رہا ہے تو اسے بھی اس جشن میں شریک ہونا چاہیۓ اور چھت پر جا کر جھنڈا لگانا چاہیۓ۔ وہ چھلانگ لگا کر بستر سے اٹھا اور جھنڈا اٹھا کر چھت پر چلا آیا۔ جھنڈا لگانے سے پہلے اس نے اردگرد دیکھا، تقریباً ہر گھر کی چھت پر جھنڈا لہرا رہا تھا۔  کچھ گھروں کو جھنڈیوں سے بھی سجایا گیا تھا۔ اس کی نظر ایک بڑی سی کوٹھی پر پڑی جس پر سب سے بلند جھنڈا لہرا رہا تھا۔ رضوان اس گھر کے مکین کو جانتا تھا۔ یہ گھر کسی ٹھیکیدار کا تھا جس نے اس محلے کی گلیاں اور سڑکیں بنائی تھیں۔ اس نے جو سڑک بنائی تھی وہ چند دن بعد  بارش میں بہہ گئ تھی، اور جو گلیاں تھیں وہ بھی ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں۔ اس کنٹریکٹ کو مکمل کرنے کے بعد ہی اس نے یہ بڑی سی کوٹھی تعمیر کی تھی۔ رضوان مسکرایا اور آزادی مبارک کا نعرہ لگا کر جھنڈا لہراۓ بغیر نیچے چلا آیا۔ دروازہ کھول کر وہ گھر سے باہر آگیا اور اپنی گلی سے نکل کر باہر مین روڈ پر پہنچ گیا۔ پچھلی رات کی بارش سے سڑک پر پانی ہی پانی تھا۔ اس نے اپنی پتلون کے پائنچے اٹھاۓ اور  پانی کے بیچ میں چلنے لگا۔ سڑک پر بہت سے لوگ پانی میں چل رہے تھے۔ کچھ کی گاڑیاں اور موٹر سائیکل پانی میں بند ہو گئیں تھیں اور وہ انہیں دھکا لگا کر لے جارہے تھے۔ رضوان نے چلتے چلتے آزادی مبارک کا نعرہ لگایا۔ کچھ دور جا کر اسے سڑک کے درمیان میں بھیڑ دکھائی دی۔ قریب پہنچ کر اس نے دیکھا چند آدمی ایک عورت اور ایک بچے کو جو سڑک کے درمیان کھلے مین ہول میں گر گۓ تھے انہیں باہر نکال رہے تھے۔ بچے کی حالت بہت نازک تھی اس لیۓ اسے جلدی سے ہسپتال لے جارہے تھے۔ رضوان نے ایک مرتبہ پھر آزادی مبارک کا نعرہ لگایا اور آگے بڑھ گیا۔ چلتے چلتے وہ ایک کھلی سڑک پر آگیا۔ فٹ پر ایک عورت اور ایک مرد چلے جا رہے تھے پیچھے سے ایک بڑی سی گاڑی آئی جس کے اوپر جھنڈا لہرا رہا تھا۔ وہ گاڑی تیزی سے ان کے قریب سے گزر گئ۔ وہ دونوں پانی اور کیچڑ سے پوری طرح بھیگ گۓ۔ مرد نے غصے سے گاڑی والے کو دیکھا اور موٹی سی گالی دی مگر گاڑی جا چکی تھی۔ آگے ایک چوک پر چند آدمی جھنڈیوں اور بیجز وغیرہ کا سٹال لگاۓ بیٹھے تھے۔ رضوان نے سوچا اس نے جھنڈا نہیں لگایا تو کم سے کم ایک بیج لے کر اپنی قمیص پر لگا لینا چاہیۓ۔ اس نے سٹال سے ایک اچھا سا بیج خریدا جس پر چھوٹا سا جشن آزادی مبارک لکھا ہوا تھا۔ بیج والے نے اسے پچاس روپے کا بیج سو روپے میں دیا تھا۔ اس نے آزادی مبارک کا ہلکا سا نعرہ لگایا اور بیج اپنی قمیص پر لگانے کے بعد آگے چل پڑا۔ جیسے ہی وہ آگے بڑھا سامنے دو موٹر سائیکل سوار آپس میں لڑتے ہوۓ دکھائی دیۓ۔ دونوں ایک تنگ راستے پر پہلے گزرنے کے لیۓ لڑ رہے تھے۔ رضوان ہنسا اور نعرہ لگا کر آگے چل پڑا۔ ایک ہسپتال کے باہر اسے چند لوگوں کا جمگھٹا دکھائی دیا۔ اس نے غور سے دیکھا تو اسے وہی عورت دکھائی دی جو کچھ دیر پہلے ایک بچے کے ساتھ مین ہول میں گری تھی۔ وہ خیران ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے یہ عورت اس طرح باہر کیوں کھڑی ہے۔ قریب جا کر اسے معلوم ہوا ہسپتال والوں نے اس بچے کو داخل کرنے کے لیۓ بھاری فیس مانگی تھی جو عورت کے پاس نہیں تھی اس لیۓ انہوں نے اسے باہر نکال دیا تھا۔ چند  لمحوں بعد عورت کے چیخنے کی آوازیں آئیں۔ 'میرا بچہ۔۔۔میرا بچہ'۔ اس کا بچہ نہیں رہا تھا۔ 


رضوان نے ہاتھ اپنے سینے پر رکھا، قمیص پر لگاۓ ہوۓ بیج کو زور سے کھینچا اور اسے دور سڑک پر کھڑے پانی میں پھینک دیا۔ بیج ٹھپے کھاتا اور پانی پر لہریں بناتا ہوا تھوڑے فاصلے پر جا کر ڈوب گیا۔ اس نے بلند آواز سے 'آزادی مبارک' کا نعرہ لگایا اور واپس پلٹ آیا۔

Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات