Drizzling Of Love

Drizzling Of Love



 کردار


پِپلو بابا= ایک بڑا سا گھنا اور پرانا درخت۔


چونچو= لمبی چونچ والا بگلا نما سفید رنگ کا پرندہ جو سردیوں میں سرد علاقوں سے گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرتا ہے۔


باجی صفّو=  بڑی سی لوہے یا سٹیل کی ٹوکری یا ڈسٹبین جو درخت کے ساتھ ٹنگی ہے۔


منظر


چونچو اڑتا ہوا کہیں جا رہا ہے۔ چند دوسرے پرندے کہیں سے آتے ہیں اور اس سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ چونچو بڑی مشکل سے وہاں سے جان بچا کر بھاگتا ہے۔ ایک باغ میں پہنچتا ہے اور ایک درخت کی شاخ پر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ درخت کے ساتھ ایک بڑی سی ڈسٹبین لٹکی ہے۔ جس کے نیچے اور ارگرد جوس کے خالی ڈبے، خالی بوتلیں، ریپر اور اسی قسم کا بہت سا کوڑا پڑا ہے۔ ڈسٹبین مکمل خالی ہے۔ اچانک ڈسٹبین پر دو بڑے بڑے ہونٹ ابھرتے ہیں اور بولنا شروع کرتے ہیں۔ 


باجی صفو: ارے چونچو! کیا ہوا تجھے، ہانپ کیوں رہے ہو، خیریت تو ہے؟


چونچو: کیا بتاؤں صفّو باجی! اسی طرف آرہا تھا راستے میں پتہ نہیں کہاں سے کچھ غنڈے آگۓ اور آکر مجھ سے لڑنا شروع کر دیا۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا ہوں۔ سمجھ نہیں آرہی جب سے میں یہاں آیا ہوں بھاگتا پھر رہا ہوں، کبھی کسی چکر میں اور کبھی کسی چکر میں۔


باجی صفو: بیوقوفا تو یہاں کیوں آگیا۔ یہ تو ایک دوسرے کو جینے نہیں دیتے یہ تجھے کہاں جینے دیں گے۔ چلا جا واپس جہاں سے آیا ہے۔ کیوں پپلو بابا تم کیا کہتے ہو؟


(درخت کے موٹے تنے سے ایک سفید ریش بزرگ چہرا ابھرتا ہے)


پپلو بابا: ہاں بٹیا ٹھیک کہا تم نے میں تو برسوں سے یہاں کھڑا ہوں یہی کچھ دیکھتا آیا ہوں۔


باجی صفو: تو ویسے ایک بتا تو بتا چونچو! تو یہاں آیا کیا لینے ہے؟


چونچو: بس باجی! سرد موسم سے بھاگ کر یہاں آیا تھا۔ اپنی بستی میں بڑی ٹھنڈ پڑتی ہے، اس موسم میں ہر چیز جم جاتی ہے۔ کوئی پتا، کوئی بوٹا نہیں بچتا ہر چیز برف سے ڈھک جاتی ہے۔ گھونسلہ بنانے میں دقت ہوتی ہے۔ کھانا حاصل کرنے کے لیۓ بھی بڑے جوکھم اٹھانا پڑتے ہیں۔


باجی صفو: وہ تو ٹھیک ہے چونچو! پر تو جہاں آیا ہے وہاں تو ہر چیز کے حصول کے لیۓ جوکھم اٹھانا پڑتا ہے یہاں تک کہ زندہ رہنے کے لیۓ بھی جوکھم اٹھانا پڑتا ہے۔


چونچو: ہاں باجی ٹھیک کہتی ہو تم۔ پر ایک بات مجھے اس بستی کی بڑی عجیب لگی ہے۔ کھانے کو ان کے پاس ہے کچھ نہیں، بھوکوں یہ مرتے ہیں، مرمر کر گزارہ کرتے ہیں، بڑی مشکل سے اپنے بچوں کو پالتے ہیں۔ بیمار پڑ جائیں تو علاج کرانا ان کے بس سے باہر ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے پاس لڑائی جھگڑوں کے لیۓ بڑی  فرصت ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر لڑتے ہیں تو کبھی فرقوں پر، کبھی ذات پات پر جگھڑتے ہیں تو کبھی خاندان پر۔ اتنی مشکل زندگی کے باوجود ان کے پاس لڑائی کے لیۓ وقت کیسے نکل آتا ہے؟


پپلو بابا: ہاں بیٹا چونچو! یہاں کی ہر بات نرالی ہے۔ مذہب پر جھگڑتے سب ہیں، مذہب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے مگر مذہب پر عمل کرتے کسی کو نہیں دیکھا۔ دوسروں کو تلقین و نصیحت سب کرتے ہیں مگر خود اس پر کبھی نہیں چلتے۔ خدا سے عشق و محبت کے دعوے کرتے ہیں پر خدا کے راستے پر نہیں چلتے۔ جھوم جھوم کر اللّٰه کا ذکر کرتے ہیں مگر اس کی بتائی ہوئی راہ اختیار نہیں کرتے۔۔۔ یہ عجیب نگری ہے بیٹا۔ تم تو اس بستی میں اجنبی ہو لیکن میں جو برسوں سے یہاں رہ رہا ہوں اس پراسرار بستی کو کبھی جان نہیں پایا۔ یہاں کے لوگوں کی چال ڈھال بڑی نرالی ہے۔ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ صبح اٹھتے ہیں اور شام تک جھوٹ کی تسبیح پڑھتے ہیں، بے ایمانی کا وظیفہ کرتے ہیں اور مکاری اور دھوکے بازی کی مالا جپتے ہیں۔ یہ بستی تو ایسا تعفن زدہ بدبودار گٹر ہے جہاں سانس تک لینا دشوار ہے اور تم یہاں پناہ لینے کے لیۓ چلے آۓ ہو۔ 



باجی صفو: تم نے بالکل سچ کہا پپلو بابا۔ 


(ایک ہاتھ نظر آتا ہے جس میں ایک جوس کا خالی ہے۔ ڈبہ آکر ڈسٹبین کے نیچے پڑے ہوۓ کچرے پر گرتا ہے) 


باجی صفو: (جاری رکھتے ہوۓ) اب اسے ہی دیکھ لو۔ پچھلے کتنے مہینوں سے میں یہاں ڈیوٹی دے رہی ہوں پر کوئی ایک دن ایسا نہیں جب میں نے یہ سب نہ دیکھا ہو۔ کوئی ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب مجھے کام کرنا پڑا ہو۔ پہلے دن سے لے کر اب تک میں یہاں بالکل فارغ بیٹھی ہوں۔ 


چونچو: (شرارت سے) تو اچھا ہے نہ باجی! تیری تو ادھر موجیں لگی ہیں کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔


باجی صفو: اے ہے۔ میں تو لعنت بھیجوں ایسی موجوں پر۔ میری بڑی چچی کی ڈیوٹی ایک بڑے سرکاری دفتر میں لگی ہے وہ بتاتی ہے وہاں سرکاری افسر سارا سارا دن کام کرنے کی بجاۓ بس وقت گزاری کرتے ہیں۔ اور ہر مہینے تنخواہیں لے کر موجیں اڑاتے ہیں۔ میں تو اس کمائی کو حرام کی کمائی سمجھتی ہوں جو اپنی ڈیوٹی پوری کیۓ بغیر حاصل ہو جاۓ۔


پپلو بابا: ایسا تو تو سمجھتی ہے بیٹی پر وہ لوگ تو ایسا نہیں سمجھتے۔ 


چونچو: اور بابا تم بتاؤ تم کب سے ہو یہاں؟


پپلو بابا: میں تو بیٹا برسوں سے یہاں ہوں۔ یہیں میرے ساۓ میں بہت سے لوگ آکر بیٹھے اور بہت سے گزر گۓ۔ پھر ان کی اولادیں آئیں اور وہ بھی چلی گئیں۔ کسی زمانے میں بچیاں آتی تھیں اور میرے ساتھ رسی باندھ کر جھولا جھولا کرتی تھیں۔ بچے آکر کھیلا کرتے تھے۔ محبت کرنے والے نوجوان جوڑے میرے ساۓ میں بیٹھ کر پہروں محبت کی باتیں کرتے اور محبت کے گیت گاتے تھے۔ اور اپنے نام محبت کی ایک یادگار کے طور پر یہاں لکھ کر چھوڑ جایا کرتے تھے۔ مگر اب یہاں کون آتا ہے بیٹا۔ زندگی کی چلچلاتی اور کڑکتی دھوپ میں سرپٹ بھاگتے مسافر چند لمحے سستانے کے لیۓ رکتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ ہیں جنہیں زندگی بھر سایہ نصیب نہیں ہوتا۔ وہ بس دوڑتے جاتے ہیں۔ دوسروں سے سبقت لے جانے کی فکر انہیں بھگاۓ رکھتی ہے۔ وہ بس اس تگ و دو میں زندگی گزار دیتے ہیں کہ کہیں وہ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ ایسے لوگ عمر بھر ٹھنڈی پر سکون چھاؤں سے محروم رہتے ہیں۔


(کہیں سے گولی چلنے کی آواز آتی ہے۔ چونچو لڑکھڑا کر نیچے زمین پر آگرتا ہے۔)


باجی صفو: (چلا کر) کیا ہوا تجھے چونچو!۔۔۔چونچو تو ٹھیک تو ہے۔۔۔چونچو!۔۔۔مار ڈالا ظالموں نے۔۔۔چونچو کو مار ڈالا۔۔۔بابا چونچو مر گیا۔۔۔ظالموں نے مار ڈالا۔۔۔(روتے ہوۓ) چونچو!۔۔۔تو یہاں رکا کیوں۔۔۔تو یہاں کیوں آیا۔۔۔بولا تھا تجھے یہاں سے چلا جا۔ یہ جگہ تیرے رہنے کے لیۓ نہیں ہے۔ تونے میری بات کیوں نہیں مانی چونچو۔۔۔(دھاڑیں مار کر رونے لگتی ہے)


پپلو بابا: صبر کر بیٹی! صبر کر۔۔۔


(بابا کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں)






 


 













Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات