Drizzling Of Love

Drizzling Of Love







 کردار


ایم زیڈ راشد= پچاس پچپن سال کا آدمی۔ سائنسدان


یونس= راشد کا دوست۔


چند نوجوان لڑکے لڑکیاں۔


پہلا منظر


دن کا وقت۔ سائنس لیب۔


ایک کمرے کے اوپر ایک تختی دکھائی دیتی ہے جس پر سائنس لیب لکھا ہوا ہے اور اس کے بالکل نیچے ایم۔زیڈ راشد لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد لیب کے اندر کا منظر دکھائی دیتا ہے۔


سائنس کی ایک تجربہ گاہ میں راشد سفید رنگ کا اوورکوٹ پہنے کسی تجربہ میں مصروف ہے۔ اس کے اردگرد بے شمار صراحیاں، بیکرز، پیمائس کے لیۓ پیمانے، گیلوانو میٹر اور چند دوسرے سائنسی آلات پڑے ہیں۔ وہ ایک تار کسی آلے پر لگاتا ہے جس سے کرنٹ پیدا ہوتی ہے۔ ایک میٹر پر سے کوئی پیمائش نوٹ کرتا ہے اور اسے لکھ لیتا ہے۔ اسی طرح مختلف طریقوں سے دو تین پیمائشیں نوٹ کرنے کے بعد اسے لکھتا جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوتی ہے۔


راشد: ( اس طرف دیکھے بغیر) یس کم ان۔


(دو لڑکیاں اندر آتی ہیں۔)


 لڑکیاں : اسلام علیکم راشد صاحب۔


راشد: (ان کی طرف دیکھے بغیر) وعلیکم سلام۔


پہلی لڑکی: سر ہم ڈیلی سائنس میگزین کی طرف سے آپ کا انٹرویو لینے آئیں ہیں۔ آپ سے فون پر بات ہوئی تھی۔


راشد: (ہاتھ کے ہلکے سے اشارے سے ان کی طرف دیکھے بغیر) جی۔ آپ تشریف رکھیں میں بس ایک دو پیمائشیں نوٹ کر لوں۔ 


(لڑکیاں کرسیوں پر بیٹھ جاتی ہیں۔)


راشد: (سر اوپر اٹھا کر انہیں دیکھ کر) بلکہ میرا خیال ہے میں اسی طرح کام کرتے ہوۓ آپ سے بات کروں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ آپ کو کوئی دقت تو نہیں ہوگی؟


پہلی لڑکی: نہیں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ 


راشد: تو پھر ٹھیک ہے پوچھیں آپ نے جو بھی پوچھنا ہے۔


دوسری لڑکی: راشد صاحب! ہم سب سے پہلے آپ سے آپ کے اس آرٹیکل کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں جو پچھلے ہفتے ایک سائنسی میگزین میں چھپا تھا۔


راشد: جی۔


دوسری لڑکی: (جاری رکھتے ہوۓ) آپ نے اس آرٹیکل میں سائنس اور مذہب کے حوالے سے ایک بات کہی تھی کہ سائنس اور مذہب دراصل ایک ہی ہیں۔ جیسے ایک سکے کے دو پہلو۔۔۔ یہ بات آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ آپ نے اس بات کی نہ تو کوئی وضاحت فرمائی اور نہ اس کی کوئی دلیل دی بس سرسری سا تذکرہ کرکے آگے گزر گۓ۔


راشد: وہ اس لیۓ کہ اگر آپ نے میرا آرٹیکل دھیان سے پڑھا ہے تو آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ اس آرٹیکل کا موضوع یہ نہیں تھا وہ بات تو ایسے ہی ضمناً بیچ میں آگئ تھی۔


پہلی لڑکی: تو اب آپ اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟


راشد: دیکھیئے میں نے کوئی ایسی انوکھی بات نہیں کی اور نہ ہی میں مذاہب کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔ میرا خیال تو بس اتنا ہے کہ اگر آپ الہامی لٹریچر یا جسے آپ آسمانی لٹریچر کہہ لیں کا مطالعہ کریں تو ایک بات آپ کو بڑی واضح اور نمایاں  نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ جسے خدا یا گاڈ یا جو کچھ بھی آپ نام دے لیں۔ دنیا کے تمام مذاہب اسی ایک بات پر کھڑے ہیں، سب الہامی کتابوں کا زور اسی بات پر ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے انسان سمیت، سب کو ایک عظیم ذات نے بنایا ہے۔ آپ یوں کہہ سکتی ہیں کہ تمام آسمانی کتابیں اور مذاہب اس بات کی آگاہی کے لیۓ بنے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی ایک پیدا کرنے والا ہے۔ رہی سائنس کی بات تو سائنس دارصل اس خالق کی بنائی ہوئی کائنات کو دریافت کرنے، اس کا مطالعہ اور اس کا مشاہدہ کرنے کا نام ہے۔ مذہب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے اور سائنس یہ بتاتی ہے اس ایک خدا کی بنائی ہوئی کائنات کام کیسے کرتی ہے، اس میں کون سے قوانین کارفرما ہیں، اس میں کتنی مخلوقات ہیں۔ یعنی یوں کہہ لو کہ مذہب جہاں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کائنات خدا نے بنائی ہے تو دوسری طرف سائنس یہ بتاتی ہے کہ یہ کائنات خدا نے کیسے بنائی ہے اور وہ کیسے چل رہی ہے۔ تو کیا یہ ایک ہی بات نہیں؟ اس لحاظ سے دیکھیں تو سائنس ایک بہت بڑی عبادت ہے جو خالقِ کائنات کے بارے میں مزید آگاہی فراہم کرتی ہے۔


دوسری لڑکی: لیکن راشد صاحب بہت سے سائنس دان تو خدا کے وجود سے ہی انکاری ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں سائنس اور مذہب ایک ہی چیز ہے یہ تو عجیب بات ہو گئ۔


(کام چھوڑ کر تھوڑا پیچھے ہٹتا ہے اور ایک بڑے سے میز سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو جاتا ہے) 



راشد: ان کی عقل پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے۔ اچھا آپ ایک بات بتائیں۔۔۔کیا نام بتایا آپ نے؟


دوسری لڑکی: ماہم۔


راشد: (پہلی لڑکی کی طرف اشارا کرکے) اور آپ کا؟


پہلی لڑکی: عظمیٰ۔


راشد: جی عظمیٰ اور ماہم آپ یہ بتائیں آپ نے کبھی خود رو جڑی بوٹی یا خود رو گھاس دیکھی ہے؟۔۔۔ جو کسی پلاٹ یا لان میں خود بخود اگتی ہے۔


دونوں لڑکیاں: جی۔۔۔ دیکھی ہے۔


راشد: وہ جڑی بوٹی دیکھنے میں کتنی بدصورت لگتی ہے، بے ہنگم سی، کچھ ادھر جارہی ہے کچھ ادھر، کوئی چھوٹی ہے کوئی بڑی۔ دیکھنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ خود بخود اگی ہے۔ لیکن اگر کوئی مالی یا کوئی اور آدمی اسے تراشے خراشے اور ایک ڈیزائن دے دے تو وہی گھاس کتنی پیاری لگنے لگتی ہے۔ سرسری سی نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اسے کسی نے تراش خراش کر ایسا بنایا ہے۔ ایسا ہی ہے؟


پہلی لڑکی: بالکل ایسا ہی ہے۔


راشد: تو کیا یہ نہیں لگتا کہ اس کائنات کو بھی کسی نے تراشا خراشا ہے اور اسے ایک ڈیزائن دیا ہے؟ ورنہ اگر یہ خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح خود بخود اگتی تو کتنی غیرمنظم، بے ہنگم اور بدصورت ہوتی۔ لیکن ایسا تو نہیں۔ صرف اک اچٹتی سی نگاہ ڈالنے سے اور ظاہری مشاہدے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اتنا عظیم اور پیچیدہ ڈیزائین خود بخود تو تیار نہیں ہو سکتا۔ اس کے پیچھے لازماً کوئی ڈیزائینر ہے۔۔۔ جو لوگ مذہب کو اور اس کے بتاۓ ہوۓ خدا کو نہیں مانتے وہ بے شک نہ مانیں مگر وہ اس بات کو کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ عظیم ڈیزائن کسی عظیم قوت کے بغیر وجود میں آگیا؟ میری تو عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ کیونکہ اس بات کو ثابت کرنا مشکل نہیں کہ اس کے پیچھے کوئی بڑا دماغ ہے یہ تو کائنات کے سرسری سے مشاہدہ سے ہی ظاہر ہو رہا ہے چاہے آپ سائنس دان کی طرح چیزوں کے اندر اتر کر نہ بھی دیکھیں۔ بلکہ اس کے برعکس اس بات کو ثابت کرنا مشکل ہے کہ یہ عظیم ڈیزائین بغیر کسی بڑی قوت اور انٹلیکٹ کے ازخود تیار ہو گیا ہے۔ ایک سائنس دان کی خیثیت سے میں جب اس کائنات پر غور کرتا ہوں اور چیزوں کے اندر اتر کر دیکھتا ہوں تو میرا ایمان تو اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ یقیناً اس کا کوئی خالق ہے۔ سائنس دان کی طرح گہرائی میں جاکر دیکھنا تو دور کی بات میں تو محض ظاہری آنکھ سے طلوعِ آفتاب اور طلوعِ غروب کے مناظر کا مشاہدہ کرکے دنگ رہ جاتا ہوں۔ میں تو صرف رات کی گود میں سے صبح بیدار ہوتی دیکھتا ہوں تو خیرت میں مبتلا ہوجاتا ہوں۔۔۔ شاعر نے اسی لیۓ تو کہا تھا،


ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیۓ

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی



دوسرا منظر


شام کا وقت۔ 


 آسمان پر سورج غروب ہو رہا ہے اور شفق کی لالی پھیلی ہے۔ کہیں کہیں بادلوں کے ٹکڑے ہیں جو آتشی غلابی یا سرخی مائل دکھائی دیتے ہیں۔ راشد اپنے لان میں کھڑا بڑے انہماک سے یہ منظر دیکھ رہا ہے۔ اس کا دوست یونس آتا ہے۔ یونس اسے یوں اوپر دیکھتے ہوۓ دیکھ کر مسکراتا ہے۔ 


یونس: (کرسی پر بیٹھتے ہوۓ) اوپر کوئی خاص چیز ہے؟


راشد: (چونک کر) یونس۔۔۔! اچھا کیا آگۓ، آؤ بیٹھو۔


یونس: میں تو بیٹھ گیا ہوں تم بتاؤ تم اوپر کیا تلاش کر رہے تھے؟


راشد: کچھ بھی نہیں۔ بس مصور کی کاریگری کو دیکھ رہا تھا۔ 


یونس: (خیرت سے) مصور۔۔۔! کون سا مصور؟


راشد: (انگلی سے اوپر اشارہ کرتا ہے) وہ مصور۔۔۔ (کرسی پر بیٹھ کر) خیر چھوڑو تم بتاؤ کیسے آنا ہوا؟


یونس: بس ایسے ہی یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا تم سے ملتا چلوں۔ 


راشد: اچھا کیا۔


یونس: اور تم سناؤ خیریت ہے، آج اپنی لیب میں نہیں ہو؟


راشد: لیب میں ہی تھا ابھی آیا ہوں سوچا تھوڑا نیچر کا مشاہدہ کر لوں۔


یونس: نیچر کا مشاہدہ بے شک کرتے رہو مگر ایک سائنس دان کو انسانیت کی فلاحی و بہبود کے لیۓ بھی کچھ کرنا چاہیۓ۔


راشد: تم کہنا کیا چاہتے ہو؟


یونس: وہی جو تم سمجھے ہو۔


راشد: تو تمہیں کیا لگتا ہے سائنس نے یا سائنس دانوں نے انسانیت کی فلاحی و بہبود کے لیۓ کچھ نہیں کیا؟ ایک  سائنسدان عیش و آرام تج کر اور دولت اور پیسے کے پیچھے بھاگنے کی بجاۓ تحقیق کرتا ہے، مراقبہ کرتا ہے، دھیان لگاتا ہے، تجربات کرتا ہے۔ اس کی اس ریاضت کے بدلے میں اسے جو بھی علم حاصل ہوتا ہے، جو بھی معلومات ملتی ہیں وہ اسے اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتا بلکہ ساری انسانیت اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ صدیوں پہلے کی گئ دریافتوں سے بھی آج تک لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ چلو یہ تو رہا اس کا روحانی فائدہ اس کے علاوہ ایجادات کی بدولت جو مادی اور معاشی فوائد لوگوں کو حاصل ہوۓ ہیں وہ کوئی ڈھکے چھپے تو نہیں۔


یونس: لیکن بہت سی ایجادات نے نقصان بھی تو پہنچایا ہے؟


راشد: ہاں ٹھیک ہے بہت سی غیرضروری ایجادات کی بھرمار نے اور کچھ انسانیت کش ایجادات نے تباہی بھی پھیلائی ہے اور نقصان بھی پہنچایا ہے اور پہنچا رہی ہیں مگر مجموعی طور پر تو سائنس نے لوگوں کا بھلا ہی کیا ہے۔ وہ تو کچھ قوموں اور ملکوں نے اپنے مادی اور معاشی مفادات کے لیۓ سائنس اور علم کو ایک ہتھیار کے طور استعمال کیا ہے لیکن اس میں سائنس کا کیا قصور؟۔۔۔ سائنس تو بیک وقت عبادت بھی ہے اور خدمت بھی۔


یونس: اچھا چھوڑو یار میں اس وقت اس بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔


راشد: تو ٹھیک ہے چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ چاۓ پیو گے؟


یونس: ہاں ضرور پیوں گا۔ آیا ہوں تو چاۓ تو پی کر جاؤں گا۔


یونس: (اٹھتے ہوۓ) ٹھیک ہے میں چاۓ کا بول کر آتا ہوں۔


(راشد چلا جاتا ہے اور یونس اوپر آسمان کی طرف دیکھنے لگتا ہے جہاں تھوڑی دیر پہلے راشد دیکھ رہا تھا۔)



تیسرا منظر


دن کا وقت۔ لیب


راشد اپنی لیب میں کھڑا کام کر رہا ہے۔ چند نوجوان لڑکے لڑکیاں اندر آتے ہیں۔


سب ایک ساتھ: اسلام علیکم سر۔


راشد: وعلیکم سلام۔


ایک لڑکی: سر ہم یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے آپ سے ملاقات کے لیۓ آۓ ہیں۔


راشد: (مسکرا کر) تو آئیے کیجیۓ ملاقات۔ (سب آگے بڑھ کر کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں) آپ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ ہیں؟



ایک لڑکا: جی سر ہم بیچلر آف فزکس کے فائنل ائیر کے سٹوڈنٹ ہیں۔


دوسری لڑکی: سر ایک بار آپ ہماری یونیورسٹی میں آۓ تھے تو آپ نے فزکس کی اہمیت پر لیکچر دیا تھا۔ جس سے یہ تاثر ملا کہ سائنس میں فزکس ہی سب سے اہم برانچ ہے اس لیۓ طلباء کو چاہیۓ اس کی طرف زیادہ توجہ مرکوز کریں۔ لیکن سر سائنس کے باقی شعبے بھی تو اہم ہیں؟


راشد: بالکل اہم ہیں۔ میں نے تو بس یہ کہا تھا کہ جو سائنس کا سٹوڈنٹ نہیں یا جو سائنس کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھتا ہے اس کو بھی چاہیۓ کہ فزکس کو ضرور پڑھے ۔۔۔آپ تو فزکس کے سٹوڈنٹس ہیں لیکن جو سائنس یا فزکس کو نہیں جانتا یا اس کا باقاعدہ سٹوڈنٹ نہیں رہا اسے کم سے کم یہ ضرور پڑھنی چاہیۓ کیونکہ فزکس ہی تو میٹا فزکس میں ڈھلتی ہے۔


دوسرا لڑکا: سر آپ کا کیا خیال ہے، سائنسی میتھڈ کے مطابق جس میں ہم کسی مفروضے کو ثابت کرنے کے لیۓ ایکسپیریمنٹ کرتے ہیں کیا عام روزمرہ کی عملی زندگی میں بھی اس کو استعال کیا جا سکتا ہے؟


راشد: نہیں۔ جہاں تک بات نیچر کے لاز کی ہے جس میں انسان کے طبعی یا جسمانی عوامل بھی شامل ہیں جیسے اس کے دل کی دھڑکن ہے، اس کا نظام انہظام ہے، نظام تنفس ہے۔ ان سب پر تو سائنسی میتھڈ استعمال ہو سکتا ہے لیکن جہاں بات انسان کے اعمال اور افعال کی ہے تو وہ کوئی فطرت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتے ان کو آپ ایکسپیریمینٹ سے کس طرح ثابت کریں گے۔۔۔اس کی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں جس سے بات واضح ہو جاۓ گی۔ فرض کریں کسی گلی کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہاں اکثر چوریاں ہوتی ہیں، جو بھی وہاں سے گزرتا ہے اسے لوٹ لیا جاتا ہے۔ تو یہ دیکھنے کے لیۓ کہ یہ مفروضہ درست ہے یا غلط آپ تجربے کے طور پر وہاں سے دن اور رات کے مخلتف اوقات پر گزرتے ہیں لیکن آپ کے ساتھ اس طرح کا کوئی حادثہ پیش نہیں آتا، تو کیا آپ اسے سائنسی اصول کے طور پر مان لیں گے   کہ اس گلی میں گزرنے پر کوئی چوری نہیں ہوتی؟


دوسرا لڑکا: نہیں بالکل نہیں مانیں گے۔


راشد: ہاں! کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ایسا محض اتفاق ہو سکتا ہے کہ آپ کو کسی نے نہیں لوٹا۔ شاید اگلی بار جب آپ جائیں تو آپ کے ساتھ بھی یہ واقع پیش آجاۓ۔


پہلی لڑکی: چلیں سر ایکسپیریمنٹ  نہ سہی لیکن پرسنل ایکسپیئرنس  کی تو اہمیت ہے اسے تو ایک اصول کے تخت مانا جا سکتا ہے۔


راشد: نہیں بالکل نہیں۔ ذاتی تجربے کی خیثیت تو اس سے بھی گئ گزری ہے۔ اس کو بھی آپ ایک مثال سے سمجھیں۔ فرض کریں آپ کو کسی لڑکے نے یا آپ کو (لڑکے کی طرف اشارہ کرکے) کسی لڑکی نے دھوکا دیا ہے۔ کسی بھی معماملے میں یا کسی بھی بات کو لے کر۔۔۔ تو کیا آپ اپنے اس ذاتی تجربے کی بنا پہ یہ اصول بنا لیں گے کہ تمام مرد یا تمام عورتیں دھوکے باز ہیں؟۔۔۔ یا سڑک پر آپ کو گاڑی چلاتے ہوۓ حادثہ پیش آگیا ہے تو آپ اپنے اس تجربے کی بنیاد پر آئندہ گاڑی نہیں چلائیں گے؟۔۔۔ یا دوسروں کو گاڑی چلانے سے روک دیں گے؟


پہلی لڑکی: لیکن سر جب یہ دونوں طریقے درست نہیں تو پھر کن اصولوں کے مطابق زندگی کے فیصلے کریں اور زندگی کا لائحہ عمل طے کریں؟


راشد: وہ اصول جو (انگلی سے اوپر اشارہ کرکے) اس ذات نے بتاۓ ہیں۔ اس نے جن کاموں کی اجازت دی ہے انہیں اختیار کر لو اور جن کاموں سے روکا ہے رک جاؤ۔ 


دوسری لڑکی: سر بات کچھ ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں آئی۔ آپ تھوڑی اور وضاحت کریں۔


راشد: (تھوڑا پیچھے جا کر) اچھا اس بات کو کسی اور طرح سے سمجھتے ہیں۔ تم سب نے اکثر ایسے لوگوں کی باتیں سنی ہوں گی جو اپنی پروفیشنل فیلڈ کے بہت ماہر یا کامیاب لوگ ہیں۔ سنی ہیں؟


دوسری لڑکی: جی سنی ہیں۔


راشد: تو تم نے سنا ہو گا وہ اکثر اپنے ذاتی تجربات کو بیان کرتے ہیں کہ کیسے انہیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کن کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ اپنی اس ساری جدوجہد اور ذاتی تجربات کی بدولت وہ یہ اصول اخذ کر لیتے ہیں کہ کامیابی کی راہ میں ہمیشہ بڑی رکاوٹیں آتی ہیں اور بڑی مشکلات  سے گزرنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر کامیابی ملتی ہے۔۔۔ ایسا ہی ہے؟


دوسری لڑکی: جی۔


راشد: (جاری رکھتے ہوۓ) لیکن اس اصول کو سائنسی اصول کے طور پر نہیں مانا جا سکتا۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کی پروفیشنل زندگی میں ایسی مشکلات آئیں۔ ہو سکتا ہے آپ اس پروفیشن کو اختیار کریں اور آپ کو ایسی کسی مشکل یا رکاوٹ کا سامنا نہ کرنے پڑے۔۔۔ کیونکہ آپ کا ماحول، آپ کا خاندان اور زمانہ یا حالات اس سے مختلف ہوں گے۔ اس لیۓ آپ کو ان مصائب کا سامنا شاید نہ کرنا پڑے۔۔۔ آگئ بات سمجھ میں؟


دوسری لڑکی: جی سر۔


راشد: تو بات بس اتنی ہے آپ نے اپنی زندگی میں کوئی بھی فیصلہ کرنا ہے، کسی بھی پروفیشن کو اپنانا ہے یا زندگی کا کوئی بھی لائحہ عمل طے کرنا ہے تو آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ وہ خدا کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں۔۔۔آپ کی جو مرضی ہے وہ کریں۔ اپنے دل کی راہ پر چلیں یہ دنیا تو بس ایسے ہی ہے۔


(چل کر ایک طرف جاتا ہے)


 نیچر کے لاز کی طرح عملی زندگی میں بھی اسی کے بناۓ ہوۓ اصول حقیقی ہیں۔ ان پر تو کوئی ایکسپیریمنٹ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ وہی اصول کامیابی کا راستہ ہیں، وہی فلاح کا راستہ ہیں۔


چوتھا منظر


رات کا وقت۔ لان۔


راشد اپنے لان میں اکیلا ٹہل رہا ہے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہے۔ لان میں بتیاں جل رہی ہیں جن میں چاروں طرف پھول اور پودے چمکتے نظر آتے ہیں۔ راشد چند لمحے ٹہلتا رہتا ہے۔ پھر رک کر اوپر آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ آسمان پر چاند اور ستارے روشن دکھائی دیتے ہیں۔ ایک دم سے راشد کے اردگرد مکمل تاریکی چھا جاتی ہے صرف روشن آسمان اور راشد دکھائی دیتے ہیں۔ راشد کا چہرا نظر آتا ہے وہ خاموشی سے اوپر چمکتے آسمان کو دیکھ رہا ہے۔ کہیں سے ایک آواز گونجتی ہے جو دراصل راشد کی اپنی آواز ہے۔


آواز: (شعر پڑھنے کے انداز میں)


پردہ چہرے سے اٹھا، انجمن آرائی کر

چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک

بے حجابانہ میرے دل سے شناسائی کر




 


























     




 

Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات