Drizzling Of Love

Drizzling Of Love







 


کردار


سعدیہ (نوجوان لڑکی) 

سعد (نوجوان لڑکا)

رحیم چاچا (ایک ادھیڑ عمر کا شخص، چاۓ والا)

سعد کا باس اور ایک دو دوست، سعد کی امی، سعد کی بہن، 


چند اور کردار جو تھوڑی دیر کے لیۓ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔



پہلا منظر



ایک فٹ پاتھ ہے جس کے کنارے ایک چھوٹا سا چاۓ خانہ ہے، فٹ پاتھ اور سڑک پر گاہکوں کے بیٹھنے کے لیۓ کرسیاں میز لگے ہیں، ہر ایک میز کے اوپر لوہے کا ایک سائبان ہے جو دھوپ اور بارش سے بچنے کے لیۓ بنایا گیا ہے۔ ایک طرف ایک گھنا درخت ہے جس کے نیچے بھی میز اور کرسیاں لگی ہیں،  دن کا وقت ہے اور مسلسل بارش ہو رہی ہے، رحیم چاچا کندھے پر پرنا رکھے کنٹین کے اندر کھڑا چاۓ بنا رہا ہے، سامنے درخت کے نیچے سعد اور سعدیہ کھڑے ہیں۔ سعدیہ کے کندھے پر بیگ ہے، اردگرد اور کوںئ نہیں سڑک سنسان ہے۔ تیز بارش کی آواز لگاتار آتی رہتی ہے۔


سعد: (خوش ہوتے ہوۓ) آج تو خوب ہی ہو گئ، ایسا زبردست واقع آج پیش آۓ گا یہ سوچا نہیں تھا، سچ کہتے ہیں خدا جب بھی دیتا ہے چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے۔ (اوپر آسمان کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے) تھینک یو گاڈ۔


(لڑکی ہنستی ہے)


رحیم چاچا: (مسکراتے ہوۓ)  آج لگتا ہے قبولیت کا دن ہے، تمہیں چاہیۓ تھا اس سے کچھ بہتر مانگ لیتے وہ بھی مل جاتا۔


سعد: (سعدیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ) اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے رحیم چاچا، سردیوں کی ایک خوبصورت دوپہر کو تیز بارش کے تسلسل میں راستے کے بیچ وبیچ اگر آپ کو وہ مل جاۓ جو آپ کی منزل ہے تو آدمی کو اور کیا چاہیۓ، کوںئ بد بخت ہی ہو گا جو ایسے زبردست لمحے کو معمولی سمجھے گا۔


(لڑکی مسکراتی ہے۔ رحیم چاچا ہنس کر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ہے)


سعدیہ: (کندھے سے بیگ اتار کر میز پر رکھتی ہے) زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ابھی بارش تھمے گی تو ہم دوبارہ اپنے اپنے راستوں پر چل پڑیں گے۔


سعد: جب تھمے گی تب دیکھا جاۓ گا ویسے مجھے لگتا نہیں کہ یہ بارش اتنی جلدی رکے گی۔۔۔


 سعدیہ: اچھا جی! آپ کی محمکہ موسمیات والوں سے کوئی جان پہچان ہے یا اللہّ میاں سے براہ راست رابطہ ہے آپ کا؟


سعد: وہ سب تو نہیں مگر مجھے لگتا ہے آج واقعی قبولیت کی گھڑی ہے۔۔۔ کیوں رحیم چاچا آپ کو کیا لگتا ہے یہ بارش کب تھمے گی؟


رحیم چاچا: لگتا تو مجھے بھی یہی ہے سعد بابو کہ یہ بارش اب اتنی جلدی رکے گی نہیں۔


سعدیہ: ہاۓ رحیم چاچا! آپ تو ایسا مت کہیں مجھے پہلے ہی دیر ہو رہی ہے۔



سعد: تو کوںئ بات نہیں کبھی کبھی دیر سے پہچنا اچھا ہوتا ہے... میرا خیال ہے اس دلفریب موسم میں ایک ایک کپ چاۓ کا ہو جاۓ تو اس گھڑی کا لطف دوبالا ہو جاۓ۔ (چاچا کو مخاطب کرکے) کیوں چاچا؟


رحیم چاچا: ہاں ہاں بالکل کیوں نہیں، میرا تو کام ہی چاۓ پلانا ہے۔ 


سعدیہ: (کرسی پر بیٹھتے ہوۓ) تو ٹھیک ہے رحیم چاچا بنائیں آپ ، آج چاۓ پی کر ہی جائیں گے۔


سعد: (دوسری کرسی پر اس کے سامنے بیٹھتے ہوۓ) یہ ہوںئ نا بات۔۔۔ آج تو میری زندگی کی ایک آرزو پوری ہو جاۓ گی۔


سعدیہ: کیسی آرزو؟


سعد: یہی۔۔۔تمہارے ساتھ ایک کپ چاۓ پینے کی۔


سعدیہ: بس یہیں تک ہے تمہاری آرزو؟


سعد: نہیں اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔


سعدیہ: اچھا! وہ کیا؟


سعد: بتا دوں؟


سعدیہ: ہاں بتاؤ۔


سعد: وہ ہے تمہارے ساتھ روزانہ ایک کپ چاۓ پینے کی آرزو۔۔۔ تاعمر۔۔۔ مرتے دم تک(کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے) اس وقت تک جب تک میں ہوں، یہ رم جھم کرتی بارشیں ہیں، بلند آہنگ قہقہے ہیں، پرسوز آہیں ہیں ، یہ بھیگی سڑکیں ہیں۔۔۔ اور جب تک یہ رنگ برنگی دنیا ہے ، یہ پوری کائنات ہے۔ اور جب تک۔۔۔


سعدیہ: (مسکراتے ہوۓ) بس بس اتنا کافی ہے۔۔۔ لیکن اگر یہ آرزو پوری نہ ہوںئ تو؟


(رحیم چاچا چاۓ لے کر آجاتا ہے)


رحیم چاچا: یہ لو آگئ گرما گرم چاۓ۔


سعدیہ: یہ آپ نے بڑا اچھا کیا چاچا، آج تو بہت سردی ہے۔



(رحیم چاچا چاۓ رکھ کر واپس چلا جاتا ہے)


سعدیہ: تو بتایا نہیں تم نے؟


سعد: کیا؟


سعدیہ: یہی کہ اگر تمہاری یہ آرزو پوری نہ ہوںئ تو تم کیا کرو گے؟


سعد: تو میں کیا کروں گا؟۔۔۔تو میں۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے مجھے کیا کرنا چاہیۓ؟


سعدیہ: مجھے کیا معلوم؟


سعد: اچھا چلو تم یہ بتاؤ تم کیا کرو گی؟


سعدیہ: میں کیوں بتاؤں یہ میری آرزو تھوڑی ہے۔


سعد: (پاس آکر میز پر جھکتا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتا ہے) تو کیا یہ تمہاری آرزو نہیں؟ 


سعدیہ: (جھجکتے ہوۓ) میری۔۔۔میری آرزو؟


سعد: ہاں بولو!۔۔۔کیا یہ تمہاری آرزو نہیں؟


سعدیہ: (بات ٹالنے کے انداز میں) فی الحال بات تمہاری آرزو کی ہو رہی ہے تم بتاؤ کیا کرو گے؟


 (ہلکا سا ہنستا ہے، پیچھے ہٹ کر پھر اسی جگہ جا کر کھڑا ہو جاتا ہے)



سعد: ہوں۔۔۔تو اگر میری آرزو پوری نہ ہوںئ سعدیہ تو مجھے یقیناً بڑا افسوس ہو گا اور دکھ بھی ہوگا۔ جو ہمیشہ رہے گا۔۔۔ تا عمر، جب تک میں ہوں، جب تک یہ زندگی ہے۔۔۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ رہنا بھی چاہیۓ۔۔۔ اگر ایسا نہ رہا سعدیہ (وہیں کھڑے کھڑے پھر سے اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہے) تو میں سمجھوں گا سب کچھ جھوٹ تھا، یہ آرزو، یہ تمنا، یہ دل، یہ جذبہ، یہ احساس، سب فریب تھا، محض دھوکا تھا، یہ لمحہ ایک واہمہ تھا، یہ خیال محض اک خیالِ آوارہ تھا جو کچی عمر میں کچھ عرصے کے لیۓ دل کے آنگن میں اترتا ہے اور تھوڑی سی ہلچل پیدا کر کے لوٹ جاتا ہے۔


سعدیہ: لیکن تم تو کچی عمر میں نہیں ہو؟



سعد: ہاں، لیکن شاید یہی تو المیہ ہے کہ ہم دونوں کچی عمر میں نہیں ہیں۔ 



(چند لمحے تک دونوں اک دوسرے کو بالکل خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں، پھر فون کی گھنٹی بجتی ہے، سعدیہ ہلکا سا چونکتی ہے پھر بیگ میں سے موبائل نکال کر بات کرتی ہے)


سعدیہ: ہیلو۔۔۔جی امی۔۔۔ہاں جی میں رحیم چاچا کے کیفے پر رکی ہوں، بارش کے رکنے کا اتنظار کر رہی ہوں ۔۔۔نہیں وہ آفس سے ہی آج دیر سے نکلی تھی۔۔۔ہاں جی۔۔۔چلیں ٹھیک ہے گھر پہنچ کر بات کرتی ہوں۔


(فون بند کر دیتی ہے، دکان کے اندر سے رحیم چاچا کی آواز آتی ہے)


رحیم چاچا: گھر سے فون تھا سعدیہ بیٹی؟


سعدیہ: جی چاچا امی کا فون تھا میں نے بتا دیا کہ یہاں رکی ہوں۔


رحیم چاچا: چلو اچھا کیا بہت اچھا کیا۔


سعدیہ: (سعد کو مخاطب کرکے) کھڑے کیوں ہو بیٹھ کر چاۓ پی لو ٹھنڈی ہو جاۓ گی۔ 


( آکر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)


سعد: کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے سعدیہ میں اک ایسا خواب دیکھ رہا ہوں جس کی کوںئ تعبیر نہیں، اک ایسے راستے پر دوڑ رہا ہوں جس کی کوںئ منزل نہیں، بس راستہ ہی راستہ ہے اور دوڑ ہی دوڑ ہے، راستہ ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتا، دور دور تک منزل کا کہیں کوںئ نشان دکھاںئ نہیں دیتا۔ بس سفر ہی سفر ہے، اک تھکا دینے والا سفر۔


سعدیہ: (معنی خیز انداز سے) بعض دفعہ منزل انسان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس تک پہنچ نہیں پاتا۔


سعد: (معنی خیز انداز سے) ہاں کیونکہ بعض راستے بڑے خاردار ہوتے ہیں ان پر چلنا مشکل ہوتا ہے، اور منزل سامنے ہونے کے باوجود بھی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔


سعدیہ: (موضوع بدلتی ہے) اچھا ہاں تم نے بتایا نہیں کیا بنا تمہاری پروموشن کا؟


سعد: ابھی تک تو ٹھیک طرح سے معلوم نہیں مگر کمپنی میں تین چار لوگوں کی ترقی کی بات چل رہی ہے ان میں میرا نام بھی لیا جارہا ہے۔ اب دیکھو کیا بنتا ہے۔ اگر پروموشن مل گئ تو مجھے اور تین چار دوسرے لوگوں کو جن کو میرے ساتھ پروموشن ملے گی انہیں دوبئ بھیج دیں گے کمپنی کی دوسری برانچ میں کام کرنے کے لیۓ۔


سعدیہ: ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ 


سعد: ہاں اچھی بات ہے، یا۔۔۔ شاید نہیں۔


سعدیہ: نہیں کیوں؟


سعد: کیونکہ میں جانا نہیں چاہتا۔


سعدیہ: (خیرت سے) لیکن وہ کیوں؟


سعد: (اس کی آنکھوں میں جھانک کر) کیونکہ میں خاردار راستے کا انتخاب کر چکا ہوں، اسی راستے پر میری منزل ہے۔


(سعدیہ کوںئ جواب نہیں دیتی، رحیم چاچا دکان سے نکل کر آتا ہے)


رحیم چاچا:  سعد بابو تھوڑی دیر دکان کا دھیان رکھو گے میں ذرا ایک ضروری سے کام سے ہو آؤں، یہ پاس ہی ہے بس پندرہ بیس منٹ تک آجاتا ہوں۔ تم اتنی دیر تک ادھر ہی ہو نا؟


سعد: وہ تو کوںئ مسئلہ نہیں چاچا میں ادھر ہی ہوں پر اتنی تیز بارش میں جائیں گے کیسے؟


رحیم چاچا: کوںئ بات نہیں میرے پاس چھتری ہے میں چلا جاؤں گا۔


سعد: ٹھیک ہے آپ بے فکر رہیں ہم ابھی یہیں ہیں۔


(دوبارہ دکان کے اندر چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی چھتری لے کر باہر نکل آتا ہے)


رحیم چاچا: (جاتے ہوۓ)  ٹھیک ہے پھر دھیان رکھنا میں جا رہا ہوں۔


(اس کے جانے کے بعد سعد چاۓ کا آخری گھونٹ بھرتا ہے اور اٹھ کھڑا ہوتا ہے)


سعد: ہاں تو اب پندرہ بیس منٹ کے لیۓ اس کیفے کا مالک میں ہوں، ٹھیک ہے؟


سعدیہ: (مسکراتے ہوۓ) ٹھیک ہے مالک صاحب، اور میں کیا ہوں؟


سعد: (کچھ سوچ کر) چلو ایک کھیل کھیلتے ہیں؟


سعدیہ: کونسا کھیل؟


سعد: میں نے سکول میں ایک پلے کیا تھا جس میں میں ایک دکاندار بنا تھا اور چند گاہک تھے جو باری باری مجھ سے سامان لینے آتے تھے، اب میں دکان کے اندر جاتا ہوں تم گاہک بن کر آنا۔


سعدیہ: (کھڑے ہوتے ہوۓ)  ٹھیک ہے، لیکن تھوڑی سی تبدیلی کرتے ہیں، مرد چاۓ والا اور عورت گاہک یہ تو معمول کی بات ہے، لیکن عورت چاۓ والی اور مرد گاہک یہ کچھ منفرد ہے، تو میں دکان دار بنتی ہوں تم گاہک بن کر آو۔


سعد: چلو یوں بھی ٹھیک ہے۔


(سعدیہ اندر چلا جاتی ہے اور چولہے کے پاس کھڑے ہوکر چاۓ بنانے کی نقل کرنے لگتی ہے، سعد پاس آتا ہے اور کاؤنٹر کے دوسری طرف باہر کھڑے ہو جاتا ہے)


سعد: (ہلکے سے کھانس کر)  بات سنیے! آپ کے پاس چاۓ کے علاوہ اور کچھ ہے؟


سعدیہ: جی ہاں بہت کچھ ہے آپ کیا لینا پسند کریں گے؟


سعد: اچھا کیا کیا ہے؟



سعدیہ: پیسٹریز ہیں، کیک ہیں، بسکٹ ہیں۔


سعد: یہ سب تو مجھے بالکل بھی پسند نہیں۔


سعدیہ: تو آپ کو کیا پسند ہے؟


سعد: دکان دار۔


(سعدیہ ہنستی ہے اور اسے مزاق سے کوںئ چیز مارنے لگتی ہے، سعد خود بھی ہنس پڑتا ہے۔ ایک آدمی ایک طرف سے بارش سے بچتا بچاتا، سر پر فائل کی چھتری بناۓ چلا آتا ہے، وہ دکان کے اندر لڑکی کو دیکھ کر چونکتا ہے اور خیرت سے دیکھنے لگتا ہے، سعد اور سعدیہ اسے خیرت میں مبتلا پا کر اک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہلکا سا ہنستے ہیں، آدمی چند لمحے اسی طرح ساکت کھڑا رہتا ہے پھر جھجھکتے جھجھکتے پوچھتا ہے)


آدمی: وہ۔۔۔رحیم چ۔۔۔


سعد: انہوں نے دکان میڈم کو بیچ دی ہے اور آئندہ یہ دکان سنبھالیں گی۔


(سعدیہ اسے ڈانٹتی ہے)


سعدیہ: کیا بول رہے ہو۔۔۔(آدمی کو مخاطب کرکے) یہ مذاق کر رہے ہیں، رحیم چاچا کسی کام سے پاس میں ہی کہیں گۓ ہیں، آجائیں گے بس تھوڑی دیر تک۔ آپ کو کوںئ کام تھا؟


آدمی: جی میں نے صبح ان کے پاس ایک فائل رکھواںئ تھی، یہاں سے جاتی دفعہ، وہ یہیں کہیں رکھی ہو گی مہربانی کرکے ذرا دیکھ دیجیۓ مجھے جلدی کہیں جانا ہے۔


سعدیہ: ٹھیک ہے ایک منٹ میں دیکھتی ہوں۔


(اردگرد نظر دوڑاتی ہے ایک جگہ سے فائل مل جاتی ہے اٹھا کر آدمی کو دیتی ہے)


سعدیہ: یہی ہے؟


آدمی: (فائل پکڑتے ہوۓ) جی ہاں بلکل یہی ہے۔۔۔جب وہ آئیں تو کہنا شفیق آیا تھا اپنی فائل واپس لے گیا ہے۔


سعدیہ: جی آپ بے فکر رہیۓ ہم بتا دیں گے۔


(آدمی شکریہ ادا کرکے چلا جاتا ہے)



سعدیہ: (آدمی کے جانے کے بعد) کیا بول رہے تھے ایسے ہی خواہ مخواہ۔


سعد: تم نے جلدی بتا دیا ورنہ اس آدمی کا چہرہ دیکھنے والا ہوتا۔


سعدیہ: ہاں دیکھنے والا ہوتا۔۔۔ بعد میں جب اسے پتہ چلتا کہ ہم نے مذاق کیا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے وہ برا نہ مناتا؟


سعد: تو مناتا پھرتا ہمیں کیا۔


سعدیہ: (تقل اتارتے ہوۓ) ہاں جی ہمیں کیا۔۔۔اتنا آسان ہے نا کہنا۔


سعد: کہنے کا کیا ہے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔


سعدیہ: نہیں سعد ہر بات کہنی اتنی آسان نہیں ہوتی۔


سعد: (دونوں ہاتھ آگے کاؤنٹر پر ٹکا کر جھکتا ہے اور اس کی آنکھوں میں جھانک کر دھیرے سے بولتا ہے)  مگر کچھ باتیں صرف کہنی مشکل ہوتی ہیں ایک بار کہہ دی جائیں تو پھر سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔۔۔


سعدیہ: (گبھرا کر) میں باہر آتی ہوں لگتا ہے بارش کچھ آہستہ ہوئی ہے۔ 


(دکان سے باہر نکل آتی ہے، بارش بدستور اسی طرح جاری ہے۔ دوبارہ اسی جگہ پر آجاتی ہے جہاں پہلے تھی، سعد بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا آتا ہے، چند لمحوں تک خاموشی رہتی ہے صرف بارش کے برسنے کی آواز آتی رہتی ہے)


سعدیہ: شام ہونے ہی والی ہے لیکن بارش کے رکنے کے ابھی کوںئ امکان نظر نہیں آتے، آج لگتا ہے بھیگ کر ہی جانا پڑے گا۔


سعد: (سڑک پر کہیں دیکھتے ہوۓ کھوۓ ہوۓ انداز میں) ہاں لگتا تو ایسا ہی ہے۔


سعدیہ:  اس وقت رکشہ یا ٹیکسی بھی مین روڈ پر ہی ملے گی۔


سعد: (اسی طرح کھوۓ ہوۓ انداز میں)  ہاں یہاں سے تو کچھ بھی نہیں ملے گا۔


سعدیہ: اور اگر شام تک بارش نہ رکی تو کیا کریں گے؟


سعد: تم فکر نہ کرو کچھ دیر تک بارش نہ رکی تو کچھ اور بندوبست کر لیں گے، شام ہونے سے پہلے تمہیں گھر پہنچا دوں گا۔


سعدیہ: وہ رحیم چاچا آگۓ۔


(رحیم چاچا کچھ دور سے آتا دکھاںئ دیتا ہے)



رحیم چاچا: (قریب پہنچ کر) تم لوگ کھڑے کیوں ہو بارش تو ابھی کافی تیز ہے ابھی تو جانے کا سوچو بھی مت۔


سعد: بس چاچا یہاں لوگوں کو جانے کی بڑی جلدی ہے۔ 



(رحیم چاچا آگے گزر کر دکان میں چلا جاتا ہے)


سعدیہ: تو آپ کو جانے کی جلدی نہیں؟


سعد: آج تو بالکل نہیں۔ میں چاہتا ہوں یہ بارش کبھی بھی نہ رکے، یہ لمحہ جتنا زیادہ طویل سے طویل ہو سکتا ہے ہو جاۓ، کیا پتہ زندگی میں یہ وقت دوبارہ آۓ نہ آۓ، یہ گھڑی پھر کبھی نصیب ہو نہ ہو، ہم پھر زندگی میں کبھی مل پائیں یا نہیں۔



سعدیہ: تم نیگیٹو کیوں ہو رہے ہو۔


سعد: میں نیگیٹو نہیں ہو رہا میں تو صرف امکان کی بات کر رہا ہوں، ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔


(بارش اچانک سے تھم جاتی ہے)



سعدیہ: لو بارش رک گئ۔ 


سعد: (مغموم انداز میں) ویسے یہ کوںئ اچھی علامت نہیں۔


سعدیہ: کیوں؟


سعد: اس لیۓ کہ ابھی ابھی میں نے کہا کہ یہ بارش کبھی نہ رکے اور ساتھ ہی رک گئ، ابھی سے الٹ ہو گیا ہے آگے معلوم نہیں کیا کچھ ہو گا۔


سعدیہ: تم بھی ایسے ہی بیکار کی باتیں سوچتے رہتے ہو، ہونا کیا ہے کچھ بھی نہیں ہو گا۔


(سعد جواب نہیں دیتا سر ہلا کر سڑک پر کہیں دیکھنے لگتا ہے)



سعدیہ: اب کیا سوچ رہے ہو چلو چلیں، بارش کہیں پھر سے شروع نہ ہو جاۓ۔ 



سعد: ٹھیک ہے چلو۔


سعدیہ: (بلند آواز سے) اچھا رحیم چاچا ہم جا رہے ہیں بارش رک گئ ہے۔ خدا خافظ۔


(رحیم چاچا کی شکل دکھاںئ نہیں دیتی صرف آواز آتی ہے)


رحیم چاچا: ٹھیک ہے بیٹی دھیان سے جانا۔ 


(دونوں سڑک پر آگے بڑھ جاتے ہیں)



دوسرا منظر:


دفتر کا منظر ہے، کچھ لوگ گھوم رہے ہیں، یہاں وہاں آجا رہے ہیں، کچھ اپنے اپنے ڈیسکوں پہ بیٹھے کمپیوٹر پر کام کر رہے ہیں۔ کی بورڈ پر ٹائیپنگ کی اور لوگوں کی ہکلی ہلکی باتوں کی ملی جلی آوازیں آرہی ہیں۔ ایک کونے میں سعد اپنے ڈیسک پر بیٹھا کمپیوٹر پر کام کرنے میں مگن ہے۔ چند لمحوں تک سعد کی انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر حرکت کرتی دکھاںئ دیتی رہتی ہیں۔ ایک طرف سے ٹاںئ سوٹ میں ملبوس ایک آدمی سعد کے پاس آتا ہے۔


آدمی: ہاں سعد ہو گیا مکمل؟


سعد: (کرسی سے کھڑے ہوکر) جی سر تقریباً مکمل ہو گیا ہے۔ 


آدمی: اچھا اور وہ رمضانی صاحب کو میل بھیج دی تھی؟


سعد: جی سر وہ تو کب کی بھیج دی ہے۔


آدمی: گڈ۔۔۔(کندھا تھپتھپاتے ہوۓ) ٹھیک ہے کرو کام (چند قدم آگے بڑھتا ہے پھر پلٹ آتا ہے) اور ہاں کیا سوچا پھر تم نے؟


سعد: سوچنا کیا ہے اس کا جواب میں آپ کو دے چکا ہوں۔


آدمی: بیوقوف آدمی ایک مرتبہ پھر غور کر لو یہ آپر چونٹی دوبارہ نہیں ملی گی، دوبئ کی برانچ میں جس پوسٹ پر جانے کا تمہیں موقع مل رہا ہے اس پوسٹ، اس پوزیشن کو لوگ ترستے ہیں،وہاں تم دنوں میں ترقی کرو گے تم جیسے باصلاحیت نوجوانوں کو وہاں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔ اگر تمہیں گھر سے زیادہ دن دور رہنے کا خوف ہے تو (پاس آکر رازدرانہ انداز میں) اگر تم کہو تو میں وہاں بات کر کے تمہارے کنٹریکٹ میں ہر چھ ماہ بعد چند دن کی چھٹیوں کی شق بھی ڈلوا دیتا ہوں، اور اس سے تمہاری سیلری (تنخواہ ) میں بھی کوںئ فرق نہیں پڑے گا۔۔۔ابھی چند دن ہیں دوبارہ سوچ سمجھ لو۔ you should think properly before take any decision


(کندھا تھپتھپاتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے)


تیسرا منظر


ہسپتال کے کوریڈور میں سعد تیزی سے پریشان کن انداز میں بھاگتا جا رہا ہے، پھر ایک کمرے کے باہر رک جاتا ہے جہاں بنچ پر دو خواتین بیٹھی ہیں۔ ایک اس کی امی ہے اور دوسری اس کی بہن ، لڑکی بھاںئ کو دیکھ کر فوراً اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور روتے ہوۓ اس سے ملتی ہے۔ 


لڑکی: (سسکتے ہوۓ مشکل سے الفاظ ادا کرتی ہے) بھاںئ۔۔۔ اب۔۔۔ابو۔۔۔


سعد: (تسلی دینے کے انداز میں) کچھ نہیں ہو گا ٹھیک ہو جاۓ گا۔ (پھر والدہ کو چپ کروانے لگتا ہے) امی پریشان نہ ہوں کچھ نہیں ہو گا میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں۔



چوتھا منظر


ڈاکٹر کا کمرا ہے سعد کمرے میں اکیلا ہے، ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔


ڈاکٹر: (بیٹھتے ہوۓ) اچھا تو سعد صاحب وہ آپ کے والد صاحب ہیں؟


سعد: جی۔


ڈاکٹر: بات دراصل یہ ہے سعد صاحب ان کو کوںئ گہرا شاک لگا یہی وجہ ہے جو ان پر یوں فالج کا حملہ ہوا، اب ان کی حالت پہلے سے بہتر ہے مگر احتیاط کرنی پڑے گی۔


سعد: مگر ڈاکٹر صاحب ایسی تو کوںئ بات ہوںئ ہی نہیں گھر میں، جو انہیں یوں اچانک۔۔۔


ڈاکٹر: گھر میں نہیں تو باہر ہوںئ ہوگی اب یہ تو پتہ کرنا آپ کا کام ہے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ بس انہیں کسی بھی قسم کی پریشانی سے دور رکھیں اور ان کا پراپر علاج کروائیں۔ 


سعد: (اٹھتے ہوۓ) جی ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب۔ شکریہ


(باہر نکل جاتا ہے)


پانچواں منظر


وہی جگہ جہاں اس کی امی اور بہن بیٹھی تھیں، اب وہاں سعد اکیلا سر جھکاۓ بیٹھا کسی سوچ میں گم ہے۔ ایک طرف سے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی چل کر آتا ہے اور سعد کے پاس آکر رک جاتا ہے۔


آدمی: سعد بیٹا؟


سعد: جی؟


آدمی: میں تمہارے ابو کا دوست ہوں، میرا نام رحمت علی ہے۔


سعد: (کھڑے ہو کر) جی آئیے بیٹھیۓ۔


آدمی بنچ پر بیٹھ جاتا ہے، سعد بھی پاس ہی بیٹھ جاتا ہے)


آدمی: اب کیسی ہے طبعیت تمہارے ابو کی؟


سعد: پہلے سے بہتر ہے۔


آدمی: بیٹا مجھے پتہ نہیں یہ بات تمہیں بتانی چاہیۓ یا نہیں لیکن اب وقت ایسا آگیا ہے کہ بتانی ہی پڑے گی۔


(سعد سیدھا ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور پوری توجہ سے بات سنتا دکھاںئ دیتا ہے)


آدمی: (جاری رکھتے ہوۓ) مجھے تمہارے ابو کے ساتھ کام کرتے ہوۓ کوںئ پچیس سال ہو گۓ ہیں، مجھے چاہے تم اپنے ابو کا دوست کہہ لو چاہے ملازم کہہ لو یا بزنس پارٹنر کہہ لو۔ اگر دیکھا جاۓ تو میرا تمہارے ابو سے ان تینوں طرح کا تعلق ہے۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ پچھلے کئ مہینوں سے تمہارے ابو پریشان تھے کیونکہ انہوں نے ایک غلط آدمی پر بھروسہ کر لیا تھا۔


(سعد خیرت سے انہیں دیکھتا ہے)


آدمی: (جاری رکھتے ہوۓ) اس آدمی پر بھروسہ کرکے تمہارے ابو نے اس کے ساتھ مل کر ایک جگہ پر رقم لگا کر کاروبار شروع کیا تھا، مگر وہ آدمی فراڈ نکلا اور وقت آنے پر سارے پیسے لے کر بھاگ گیا۔ تمہارے ابو کے پاس جتنی جمع پونجی تھی وہ بھی جاتی رہی اور بہت سی رقم انہوں نے لوگوں سے بطور قرض لی تھی وہ سب بھی ڈوب گئ۔ اب لوگوں کو رقم واپس لٹانے کی معیاد بھی ختم ہو گئ ہے اور انہوں نے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ بھی شروع کر دیا تھا، یہی پریشانی تھی تمہارے ابو کو جس کی وجہ سے وہ۔۔۔


سعد: مگر ابو نے کبھی ذکر نہیں کیا۔۔۔


(کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور وہی لڑکی جو سعد کی بہن ہے باہر نکلتی ہے)


لڑکی: (کمرے سے نکلتے ہی تیزی سے) بھاںئ آپ کو اندر بلا رہے ہیں۔



سعد: اچھا تم جاؤ میں آیا۔ (آدمی کو مخاطب کرکے) ایک منٹ اجازت دیجئیے میں اندر سے ہو آؤں۔


(اٹھ کر اندر چلا جاتا ہے)



چھٹا منظر


سعد کے دفتر کا منظر، دفتر میں چھٹی ہو چکی ہے سعد اکیلا اپنی سیٹ پر گم سم بیٹھا ہے، اس کے چہرے اور خلیے سے پریشان حال ، اداس اور تھکا تھکا دکھاںئ دیتا ہے، اردگرد اور کوںئ نہیں دفتر خالی ہو چکا ہے۔ چند لمحے اسی طرح دکھاںئ دیتا رہتا ہے، پھر دفتر کا ملازم یا پیون آتا ہے۔


ملازم: سعد صاحب آپ کا کام ابھی ختم نہیں ہوا میں نے دفتر کو تالا لگانا ہے اگر ابھی آپ کا کام رہتا ہے تو آپ ایسا کریں یہ چابیاں رکھ لیں اور جاتے وقت دفتر کو تالا لگا جانا، میرے پاس دوسری چابیاں ہیں میں صبح آکر دفتر کھول لوں گا، آپ بس کل چابیاں سنبھال کر واپس لے آنا۔


سعد: نہیں میں جانے لگا ہوں مجھے بس دو منٹ دو میں یہ کمپیوٹر وغیرہ آف کر لوں اور چیزیں سمیٹ لوں۔


ملازم: جی بہتر ہے۔ (چلا جاتا ہے)



(سعد کمپیوٹر آف کرتا ہے، اور کچھ فائلیں ادھر ادھر ترتیب سے رکھنے لگتا ہے) 




ساتواں منظر


سعد کا گھر، ایک چھوٹا سا کمرا جس میں سعد بیٹھا  کھانا کھا رہا ہے،  اور اس کی بہن پاس بیٹھ کر باتیں کر رہی ہے۔


بہن: آج بھی دو آدمی آۓ تھے کہہ رہے تھے کہ نذیر صاحب اچھے آدمی ہیں ہمارا ان کا کافی پرانا تعلق ہے اس لیۓ بار بار آنا اچھا نہیں لگتا لیکن ہمیں پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ نذیر صاحب نے تین ماہ میں پیسے  واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا اب آٹھ ماہ ہو گۓ ہیں، یہ بھی کہہ رہے تھے ہمیں ان کی بیماری کا علم ہے لیکن پیسوں کی آگر سخت ضرورت نہ ہوتی تو ہم مطالبہ نہ کرتے۔۔۔مجھے تو یہ فکر ہے سعد بھاںئ ابھی تو جو آدمی آۓ ہیں کچھ اچھے لگتے ہیں تبھی ذرا شائستگی سے پیش آرہے تھے کل کو کیا معلوم کون آجاۓ، اور پھر یہ بھی کیا پتہ کہ یہ کب تک اچھے رہیں۔


سعد: (کھانا کھاتے ہوۓ) ابو سے تو نہیں ملے وہ لوگ؟


بہن: نہیں امی سے ہی مل کر گۓ ہیں ابو کو تو بتایا ہی نہیں۔


سعد: ہوں، اچھا کیا۔


بہن: مجھے تو سمجھ نہیں آرہی اتنے پیسے ہم کیسے لوٹائیں گے ہمارے لیۓ پانچ سات لاکھ کی رقم کوںئ معمولی رقم تو نہیں۔ ہم کہاں سے چکائیں گے اتنا قرض؟


سعد: (کھانا چھوڑ دیتا ہے، سوچنے کے انداز میں) معلوم نہیں یہی بات میری بھی سمجھ میں نہیں آرہی۔



بہن: پھر بھی کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔


(سعد جواب نہیں دیتا صرف سر ہلاتا ہے)


بہن: ابو نے خواہ مخواہ اتنے پیسوں کا قرض لیا اچھی بھلی تو ان کی دکان چل رہی تھی۔ (رونے کے سے انداز میں) اب پتہ نہیں کیا ہوگا۔



سعد:  تم فکر نہ کرو کچھ نہ کچھ ہو جاۓ گا۔


(کچھ سوچنے لگتا ہے)




آٹھواں منظر


رات کا وقت ہے سعد کمرے کی بالکنی میں اکیلا کھڑا ہے، چند لمحے ایسے ہی ساکت کھڑا رہتا ہے، پھر جیب سے موبائل نکالتا ہے اور سعدیہ کی تصویر کھول کر دیکھنے لگتا ہے۔ کافی دیر تک تصویر کو دیکھتا رہتا ہے، موبائل کی سکرین پر بارش کے چند قطرے گرتے دکھاںئ دیتے ہیں، پھر اوپر آسمان کی طرف دیکھتا ہے، آسمان پر گہرے سیاہ بادل چھاۓ ہیں۔


نواں منظر


سعد کا دفتر، سعد اور وہی آدمی جو اس کا باس یا افسر ہے دونوں آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔


آدمی: تو تم پکا جانے کے لیۓ تیار ہو؟


سعد: جی سر میں تیار ہوں۔


آدمی: (خوش ہوتے ہوۓ) یہ ہوںئ نا بات۔


سعد: لیکن میری ایک چھوٹی سی درخواست ہے۔


آدمی: کیا؟


سعد: آپ میرے کنٹریکٹ میں ہر چھ ماہ کی چھٹی کی شق لکھوانے والے تھے؟


آدمی: ہاں بالکل تم فکر ہی نہ کرو میں ابھی اس کے لیۓ بات کرتا ہوں۔


سعد: نہیں آپ اس کے لیۓ بات نہ کریں مجھے چھٹی نہیں چاہیۓ۔


آدمی: تو پھر؟


سعد: آپ کیا ان سے یہ بات کر سکتے ہیں کہ مجھے چند ماہ کی تنخواہ اڈوانس میں مل جاۓ، اس کے لیۓ وہ جو بھی شرط رکھیں گے مجھے منظور ہو گی۔ وہ چاہیں تو مجھے پانچ سال کے لیۓ ایک بھی چھٹی نہ دیں۔


(آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے)


آدمی: ایسا شاید ممکن ہو سکے، بات کرنی پڑے گی۔۔۔ چلو میں بات کرکے شام کو جانے سے پہلے تمہیں بتاؤں گا۔ شاید کوںئ راستہ نکل آۓ۔


سعد: (اٹھتے ہوۓ) اچھا ٹھیک ہے، پھر بات کرکے مجھے بتائیے گا کہ کیا بنا۔


آدمی: ہاں ہاں ضرور تم فکر نہ کرو کچھ نہ کچھ ہو جآۓ گا۔


(سعد باہر نکل جاتا ہے)


دسواں منظر


سعد اپنے ڈیسک پر بیٹھا کمپیوٹر پر کام کرنے میں مگن ہے، ملازم آتا ہے۔


ملازم: سعد صاحب آپ کو صاحب اندر بلا رہے ہیں۔


سعد: اچھا۔


(سعد اٹھ کر اندر جاتا ہے، آدمی فون پر بات کرتے کرتے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے، سعد کرسی پر بیٹھ جاتا یے)


آدمی: (فون پر) جی جی بالکل، آپ کا کام جلد ہو جاۓ گا اور مختار صاحب کو میرا سلام دیجیۓ گا، کہنا میں جلد ہی کسی دن چکر لگاؤں گا۔۔۔۔ ہاں جی۔۔۔جی جی بالکل بالکل کیوں نہیں جی کیوں نہیں۔۔۔جی جی خدا خافظ۔ (فون بند کرکے رسیور رکھ دیتا ہے)


آدمی : (سعد کو مخاطب کرکے) ہاں تو تم پھر تیار ہو؟


سعد: جی میں تیار ہوں سر۔


آدمی: مبارک ہو پھر تمہارا کام ہو گیا ہے، لیکن کچھ دیگر شرائط کے ساتھ ایک بڑی کڑی شرط ہے۔


سعد: وہ کیا؟


آدمی: تمہیں تین ماہ کی تنخواہ اڈوانس میں ملے گی، کمپنی ایسی سہولت کسی کو بھی نہیں دیتی لیکن کیونکہ تم کمپنی کے پرانے ملازم ہو اور میری اور دوسرے آفیسرز کی خاص ریکمنڈیشن پر جا رہے ہو اس لیۓ  تمہیں یہ سہولت مل رہی ہے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ سات سال تک تم کمپنی چھوڑ کر کہیں دوسری جگہ جاب نہیں کر سکتے، اور پانچ سال تک تمہیں گھر آنے کی بھی اجازت نہیں ملے گی، حتی کہ تمہارا پاسپورٹ بھی وہ اپنے حوالے رکھیں گے، لیکن یہ سب کچھ مفت میں نہیں ہو گا بلکہ وہ تمہیں اس کے لیۓ ہر سال بونس دیں گے۔ اگر تم پانچ سال کی بجاۓ سات سال بعد چھٹی لیتے ہو تو اس کے بدلے تمہیں بونس بھی زیادہ ملے گا اور تمہاری تنخواہ میں بھی دوگنا اضافہ ہو جاۓ گا۔۔۔اب بولو تمہیں منظور ہے؟


سعد: (کچھ سوچ کر) آپ کا کیا خیال ہے مجھے منظور کر لینا چاہییۓ۔



آدمی: میرا خیال ہے تمہیں یہ آفر قبول کر لینی چاہیۓ کیونکہ تمہارے ساتھ جو دوسرے لوگ جا رہے ہیں انہیں بھی کم سے کم دو یا تین سال بعد ہی چھٹی ملے گی اور اگر تمہارا یہ کنٹریکٹ نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا۔ اس میں بس دو سال کا ہی تو فرق ہے لیکن اس کے بدلے تمہیں سہولتیں بھی تو مل رہی ہیں، پانچ سال تو ایسے ہی گزر جائیں گے پلک جھپکنے میں۔


سعد: ٹھیک ہے سر مجھے منظور ہے، میرے پاس اور کوںئ چارا ہی نہیں۔



آدمی: گڈ۔۔۔ٹھیک ہے تم تیاری پکڑو میں ڈاکومنٹس ریڈی کرواتا ہوں، بس چند دن ہی رہ گۓ ہیں۔


سعد: (اٹھتے ہوۓ) ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔


گیارواں منظر


دوبئ کا آفس، ایک کمرا جس میں سعد اور اس کا دوست بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ 


سعد: بس اس دن کے بعد میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔



دوست: تو اب وہ کہاں ہے؟


سعد: معلوم نہیں، ہو گی کہیں، دنیا کے روزمرہ کے جھمیلوں، ہنگاموں میں کہیں گم۔۔۔ (اٹھ کر کھڑکی کے پاس چلا جاتا ہے اور نیچے سڑک پر گزرتی ٹریفک کو دیکھنے لگتا ہے، باہر رات ہے) 



سعد: (کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد)  میں روزانہ اس کھڑکی سے نیچے گزرتی ٹریفک کو دیکھتا ہوں روز یہاں سے سینکڑوں ہزاروں لوگ گزرتے ہیں ، کوںئ آرہا ہے کوںئ جارہا ہے مگر میں کسی کو بھی نہیں دیکھ پاتا، ان میں سے بھی کسی کو  علم نہیں ہو گا کہ اس بلند وبالا عمارت کی کسی کھڑکی میں کوںئ انہیں پہروں کھڑا دیکھتا رہتا ہے،  اگر میں خود ابھی نیچے جاؤں تو میں بھی اسی بھیڑ کا ایک حصہ بن جاؤں گا پھر یہاں سے کوںئ مجھے دیکھ نہیں پاۓ گا، جب آپ کھڑکی کے اس طرف ہوتے ہیں تو آپ کو دکھاںئ تو سب دیتا ہے مگر آپ کی نظر کسی پر نہیں پڑتی، لیکن جونہی آپ  کھڑکی کے دوسری طرف جاتے ہیں، آپ بھی اس بھیڑ  میں شامل ہو کر گم ہو جاتے ہیں پھر کوںئ لاکھ ڈھونڈے آپ نہیں ملتے۔


(ایک آدمی کمرے میں داخل ہوتا ہے)



آدمی: لو بھائی سعد تمہارا پاسپورٹ اور کاغذات آگۓ، مبارک ہو۔


سعد: (کاغذات لیتے ہوۓ) تھینک یو سر


(سعد کا دوست کھڑے ہو کر اس سے گلے ملتا ہے)


دوست: مبارک ہو دوست۔۔۔ تو پورے سات سال بعد پاکستان جا رہے ہو؟


سعد: ہاں سات سال بیس دن بعد۔


آدمی: یہ سات سال تمہارے ساتھ بڑے اچھے گزرے یار، جا کر ہمیں بھول نہ جانا۔۔۔ اور ہاں وہ رمضانی صاحب سے ایک بار مل کر جانا کہہ رہے تھے اسے کہنا کہیں بغیر بتاۓ ہی بھاگ نہ جاۓ۔


سعد: جی ضرور سر میں مل لوں گا۔


آدمی: اچھا ٹھیک ہے تم لوگ بیٹھو مجھے کام ہے میں چلتا ہوں۔


(سعد سے دوبارہ گلے ملتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے) 


دوست: (صوفے پر بیٹھتے ہوۓ)  تو پورے سات سال تم نے یہاں گزار دئیے۔۔۔


سعد: ہاں پورے سات سال۔۔۔


بارہواں منظر


سعد گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہے، گاڑی چلے جارہی ہے، وہ موبائل میں سعدیہ کی تصویر دیکھنے میں مگن  ہے، چند لمحوں بعد باہر دیکھتا ہے،  ڈرائیور کو گاڑی روکنے کو کہتا ہے گاڑی فوراً رک جاتی ہے، وہ گاڑی سے باہر نکل آتا ہے، باہر رحیم چاچا کا ٹی سٹال ہے، رحیم چاچا دکان کے اندر بیٹھا کام میں مگن ہے۔ سعد اسی درخت کے نیچے جا کر کھڑا ہو جاتا ہے، رحیم چاچا نظر اٹھا کر اسے دیکھتا ہے مگر اسے پہچانتا نہیں۔ اردگرد اور کوںئ نہیں سٹال مکمل خالی ہے۔ سعد درخت کے نیچے کھڑا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے سعدیہ سے ملاقات کے پرانے مناظر چلنے لگتے ہیں، کافی دیر تک انہیں مناظر میں کھویا رہتا ہے۔ ایک دم سے رحیم چاچا کی آواز ابھرتی ہے، 


رحیم چاچا: آپ کیا آرڈر لیں گے، چاۓ یا۔۔۔


(سعد چونک کر پیچھے دیکھتا ہے، رحیم چاچا اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ اب وہ اسے پہچان لیتا ہے)


رحیم چاچا: سعد تم۔۔۔تم کب آۓ؟


سعد: (چند لمحوں تک اسے خاموش کھڑا گھورتا رہتا ہے) بس ابھی ابھی آیا ہوں چاچا، سیدھا یہیں آیا ہوں ابھی گھر بھی نہیں گیا۔


رحیم چاچا: اچھا کیا بہت اچھا کیا، آؤ بیٹھو میں چاۓ بناتا ہوں۔


سعد: نہیں رحیم چاچا پھر آؤں گا ابھی میں بس سلام کرنے کے لیۓ رک گیا تھا۔ دوبارہ آؤں گا تو آپ کے پاس بیٹھ کر چاۓ پی کر جاؤں گا۔ ابھی مجھے اجازت دیجیۓ میں چلتا ہوں۔


رحیم چاچا: اچھا چلو ٹھیک ہے اس وقت تم تھکے ہوۓ ہو گے، پھر چکر ضرور لگانا۔


سعد: جی ضرور لگاؤں گا۔ 


(اس سے مل کر چل پڑتا ہے، پھر کچھ سوچ کر رکتا ہے ، پیچھے مڑتا ہے کچھ کہنے لگتا ہے مگر رک جاتا ہے اور واپس چل پڑتا ہے۔ گاڑی تک پہنچتا ہے، تبھی ایک دوسری گاڑی آکر رکتی ہے اس میں ایک لڑکا باہر نکلتا  ہے، اس کے کچھ دیر بعد اس کے پیچھے سعدیہ نکلتی ہے، سعد مبہوت ہو کر اسے دیکھنے لگتا ہے، پھر سعدیہ کی نظر اس پر پڑتی ہے، اس کے قدم وہیں جم جاتے ہیں، وہ لڑکا جو سعدیہ کے ساتھ آیا ہے آگے چلا جاتا ہے، وہ دونوں آمنے سامنے کافی فاصلے پر  ایک جگہ پر ساکت کھڑے رہتے ہیں، پھر اس لڑکے کی آواز آتی مگر وہ خود دکھاںئ نہیں دیتا۔


لڑکا: سعدیہ! کہاں رک گئ چلی بھی آؤ۔


سعدیہ کھوۓ ہوۓ انداز سے آواز کی سمت آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہے مگر سعد کو بدستور دیکھتی چلی جاتی ہے، سعد بھی گاڑی کے پاس کھڑا اس دیکھ رہا ہے، ایک دم سے تیز بارش ہونے لگتی ہے۔ 










  



 
























 


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات