Drizzling Of Love

Drizzling Of Love







 رات کتنی گہری ہو گئ ہے۔' سرفراز نے کمبل اپنے گھٹنوں سے اوپر کھینچتے ہوۓ کہا۔ 


ہاں واقعی۔' اختر کتاب سے نظریں ہٹا کر کھڑکی سے باہر جھانک کر بولا۔


وقاص چھلانگ لگا کر بستر سے اٹھ کھڑا ہوا، 'اور مجھے تو اس وقت سخت قسم کی بھوک لگ رہی ہے، آج تو سو سو کے بھی وقت نہیں گزر رہا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تم لوگوں کو کس احمق نے کہا تھا یہاں اتنی دور گاؤں آکر رات گزارنے کے لیۓ، گاؤں بھی وہ جو کہ گاؤں کم جنگل زیادہ ہے، اتنا ویران اور سنسان گاؤں کبھی دیکھا ہے کل ملا کر سو گھر بھی نہیں ہوں گے۔'


اسی احمق نے کہا تھا' اختر بولا 'جس کے دور کے رشتے داروں کا یہ گاؤں ہے اور جو ہمیں یہ جھانسا دے کر یہاں لے آیا کہ یہاں تالاب میں نہائیں گے مچھلیاں پکڑیں گے اور رات کو بون فائر کریں گے، اور اب دیکھو خود کیسے مزے سے سو رہا ہے۔'


  اور یہاں آکر پتہ چلا کہ وہ تالاب نہیں بلکہ چھپڑ ہے جہاں نرم و نازک خوبصورت مچھلیاں نہیں بلکہ دیو ہیکل بھینسیں نہاتی پھرتی ہیں۔' سرفراز بولا۔



اب اٹھ جاؤ ورنہ میں باہر نکل کر زور زور سے چلانا شروع کر دوں گا کہ وقار گزر گیا ہے۔' وقاص نے اسے ایک زوردار ٹانگ رسید کرتے ہوۓ کہا۔ 


وقار آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ 'کیا ہے یار نہ خود سوتے ہو نہ سونے دیتے ہو۔'


تو تم ہمیں یہاں سونے کے لیۓ لاۓ ہو؟'وقاص بولا۔ 'یہ کام تو میں اپنے گھر میں اس عمدگی سے سر انجام دے رہا ہوں کہ اپنے والد بزگوار سے صبح سویرے نرنے پیٹ باقاعدگی سے ایسی اعلیٰ پاۓ کی ڈانٹ مع ناقابل اشاعت الفاظ کے کھاتا ہوں کہ خدا کی قسم اگر تم سن لو تو سونا بھول جاؤ۔' 


لیکن تم تو سونا نہیں بھولے۔' وقار نے منہ بگاڑتے ہوۓ کہا۔


اس لیۓ کہ' وقاص بولا  'ہم تھوڑے مضبوط قسم کے آدمی ہیں، سختیاں برداشت کرنا جانتے ہیں۔'


میرے خیال سے اسے مضبوط ہونا نہیں ڈھیٹ ہونا کہتے ہیں۔' اختر نے کہا۔


وقاص میز پر پڑی ٹوکری میں سے سیب کو چھری سے کاٹتے ہوۓ بولا، 'یہ تو تمہارا زاویہ نظر ہے، جس زاویے سے میں دیکھتا ہوں ایسا نہیں ہے، یہ زاویہ نظر ہے ہی بڑی اوتری چیز سارے فساد کی جڑ یہی ہے۔ سب جھگڑے اسی زاویہ نظر کے مختلف ہونے کے کی وجہ سے ہیں، ہر کوںئ اپنے الگ انداز سے چیزوں کو دیکھتا ہے۔


نہ میری جان زاویہ نظر کے مختلف ہونے میں کوںئ براںئ نہیں' اختر بولا 'سب ایک ہی انداز سے دیکھیں اور سوچیں ایسے روبوٹ تو ہو سکتے ہیں انسان نہیں۔ مسئلہ زاویہ نظر کے مختلف ہونے کا نہیں، مسئلہ رویے کا ہے اور سوچ کا ہے، اس سوچ کا کہ جس انداز سے میں اشیا کو دیکھتا ہوں دوسرے بھی اسی انداز سے دیکھیں اور اسی کے مطابق چلیں۔


تو تمہارا کیا مطلب ہے میں جس بات کو درست سمجھتا ہوں میں یہ سوچ نہ رکھوں، یہ  نہ چاہوں کہ دوسرے بھی اسے درست سمجھیں اور اس کے مطابق چلیں۔ مجھے یہ سیب دکھاںئ دیتا ہے لیکن کوںئ دوسرا اسے انگور کہنا شروع کر دے تو میں اسے درست مان لوں یا یہ نہ چاہوں کہ وہ بھی اسے سیب کہے' اختر سیب کو درمیان سے آدھا کاٹتے ہوۓ بولا۔


میں نے یہ نہیں کہا کہ تم اسے درست مان لو میں نے تو بس یہ کہا ہے کہ جسے تم صحیح مانتے ہو اس پر چلتے رہو اور جسے دوسرے درست مانیں انہیں ان کے مطابق چلنے دو۔ جگھڑا اور فساد کبھی بھی نقطئہ نظر کے مختلف ہونے پر نہیں ہوتا بلکہ تب ہوتا ہے جب میں یہ سوچ لوں کہ میں جسے درست سمجھتا ہوں وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور پھر پکڑ پکڑ کر دوسروں کو درست کرتا پھروں۔ یہیں سے تکبر جنم لیتا ہے، اسی سوچ سے آدمی کے اندر دوسروں کے خلاف نفرت، غصے اور تعصب کا بیج پلنا شروع ہو جاتا ہے، وہ بیج آہستہ آہستہ اندر ہی اندر نشونما پاتا تناور درخت بن جاتا ہے، اسی سوچ کا عکس پھر ہماری گفگتو ہمارے رویوں میں جھلکتا ہے، یہ جو مذہب، سیاست اور دیگر معمالات میں جگھڑے ہیں فسادات ہیں ، تفرقے ہیں یہ نقطئہ نظر یا زاویہ نظر کے مختلف ہونے کے باعث نہیں بلکہ اسی منفی رویے اور سوچ کی وجہ سے ہیں۔' اختر نے بات ختم کرکے سگریٹ سلگا لیا۔


وقاص سیب کھاتے کھاتے پھر بولا ' تمہاری بات کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ جو کوںئ جس راستے پر چل رہا ہے چلنے دیا جاۓ چاہے وہ راستہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو اسے کوںئ بھی درست راستے پر نہ لاۓ۔'


نہیں! میرا مطلب ہے کہ تم جسے درست سمجھتے ہو تم اپنی وہ راۓ دے سکتے ہو دلائل پیش کر سکتے ہو نقطہ نظر بیان کر سکتے ہو، اس سوچ کے ساتھ کہ جسے تم بیان کر رہے ہو وہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔' اختر نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لگایا دھوان فضا میں چھوڑا اور پھر بولا، 'اب دوسروں کی مرضی وہ اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، بس تمہارا کام ہے اپنی بات دلائل کے ساتھ بیان کر دینا اور دوسرے کی بات سن لینا۔ اگر تمہیں اس کے دلائل مظبوط لگیں، بات مناسب لگے تو اپنا چھوڑ کر دوسرے کا نقطہ نظر تسلیم کر لو نہیں تو اپنے پر قائم رہو۔  جب یہ سوچ کر چلو گے کہ دوسروں کو اپنا نقطہ نظر اور راۓ بیان کرنے کا اور اس پر چلنے کا پورا حق حاصل ہے جیسے کہ تمہیں ہے تو پھر نہ تمہیں غصہ آۓ گا، نہ کسی کے خلاف نفرت پیدا ہوگی۔ سیدھی سی بات ہے جب تک تم دوسروں کو روکتے نہیں یا زبردستی اپنی مرضی پر چلاتے نہیں تب تک کوںئ جھگڑا کوںئ فساد برپا نہیں ہوتا۔' 


لیکن اس سے تو'۔۔۔ اس سے پہلے کہ وقاص بات مکمل کرتا وقار بیچ میں بول پڑا۔ 'بس کرو یار اس وقت تم لوگوں کی بکواس سننے کا بلکل موڈ نہیں ہے، بات مذاق سے شروع ہوںئ تھی کہاں پہنچ گئ۔ سرفراز تم ہی کچھ بولو نہیں تو ان کی بکواس چلتی رہے گی۔' 


سرفراز موبائل سے نظریں اوپر اٹھا کر بولا، 'ہاں یار بس کرو اس وقت بحث کرنے کا یہ موقع نہیں۔'


تو کیا کریں' وقاص تیزی سے بولا 'اس نے ہمیں اس جنگل میں لا کر بٹھا دیا ہے اب کچھ تو کرنا ہی ہے، اوپر سے نیٹ ورک بھی نہیں آرہا۔۔۔تمہارا نیٹ ورک آرہا ہے جو اس وقت کے موبائل کے ساتھ لگے ہوۓ ہو؟'


کہاں آرہا ہے' سرفراز نے موبائل نیچے رکھتے ہوۓ کہا 'میں تو کچھ پرانے ڈاکومنٹس دیکھ رہا تھا۔'


اور جناب آپ نے ان مچھلیوں اور تالابوں کے علاوہ اس شاندار سہولت سے تو ہمیں آگاہ ہی نہیں کیا تھا کہ یہاں موبائل نیٹ ورک دستیاب نہیں ہو گا۔' وقاص  طنزیہ انداز سے وقار کو مخاطب کر کے بولا۔



وہ اس لیۓ جناب والا کہ یہ بندہ بھی خود یہاں آکر اس شاندار سہولت کے بارے میں آگاہ ہوا ہے، کیونکہ یہ سہولت نیٹ ورک کی عدم دستیابی کے باعث حاصل نہیں ہوںئ کہ مجھے پہلے پتا ہوتا بلکہ کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوںئ ہے جو یہاں دور دراز کے علاقوں میں اکثر وبیشتر کسی بھی وقت ہو جاتی ہے۔' وقار نے بھی اسی کے انداز سے جواب دیا۔


چھوڑو یار اب یہاں آتو گۓ ہیں تو اسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔' اختر نے سگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑا۔ 'چلو باہر کھلی فضا میں چل کر آگ جلاتے ہیں۔'


تو اس سے کیا ہو گا؟' وقاص نے پوچھا۔


ہونا کیا ہے بون فائر کا پلان تو ہمارا پہلے ہی تھا، تو اب کرتے ہیں۔' اختر نے سگریٹ بجھاتے ہوۓ جواب دیا۔



سرفراز تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا 'چلو ٹھیک ہے آجاؤ باہر۔'


سب کھانے پینے کا اور دیگر ضروری سامان لے کر گھر سے باہر آگۓ، باہر کھلی زمین پر انہوں نے سامان رکھا اور آگ جلانے کے لیۓ سوکھی لکڑیاں اور چند خشک پتے تلاش کرنے لگے، کچھ ہی پل میں انہوں نے آگ جلانے کے لیۓ ایندھن اکھٹا کر لیا اور اگلے چند منٹوں میں آگ بھی جلا لی۔ آسمان بلکل صاف تھا، تارے نکلے ہوۓ تھے ایک طرف ایک کونے پر نومبر کا خوبصورت چاند چمک رہا تھا۔ موسم سرد تھا ہوا میں خنکی تھی مگر آگ کی حدت سے فضا سازگار ہو گئ تھی۔  سرفراز اور اختر نے فوراً بیٹھتے ہی سگریٹ سلگا لیۓ۔



وقار آگ پر ہاتھ سینکتے ہوۓ بولا 'یار میں نے سنا ہے کہ پرانے وقتوں میں جب موبائل، ٹیلی وژن، ریڈیو وغیرہ نہیں تھے تو لوگ رات کو اسی طرح آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر وقت گزاری کے لیۓ ایک دوسرے کو کہانیاں سنایا کرتے تھے،  آج بھی وہی ماحول ہے تو کیوں نہ ہم بھی ایک دوسرے کو کہانیاں سنائیں؟


کیسی کہانیاں؟ وقاص نے پوچھا۔


 کسی بھی قسم کی' وقار بولا،  'سچی کہانی یا افسانہ کچھ بھی کسی دوسرے کی یا اپنی کوںئ ذاتی کہانی جو آپ کے ساتھ بیتی۔'


لیکن مجھے کوںئ کہانی نہیں آتی۔' اختر بولا۔


تو تمہیں تو آتی ہو گی بلکہ مجھے یقین ہے تمہارے پاس سنانے کے لیۓ اپنی کئ کہانیاں ہوں گی کیونکہ تم عمر میں بھی ہم سے کافی بڑے ہو۔' وقار نے سرفراز سے پوچھا۔


سرفراز کچھ سوچتے ہوۓ بولا ' ہے تو سہی مگر کچھ لمبی ہے۔'


تو کوںئ بات نہیں ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے۔' وقار نے جواب دیا۔


ہوں۔' سرفراز نے سگریٹ کا کش لگایا اور بولا 'ٹھیک ہے میں ایک کہانی سناتا ہوں، لیکن سنانے سے پہلے میں تم لوگوں کو بتا دوں کہ یہ بالکل سچی کہانی ہے کوںئ افسانہ نہیں، یہ میری ذاتی کہانی ہے اور اس میں جتنے کردار آئیں گے سب بالکل سچے ہیں اور حقیقی ہیں۔ ہاں تو اب سنو! یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایک چھوٹے سے قصبے کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن میں ملازمت کیلۓ بھرتی ہو کر گیا تھا۔ سارا قصبہ ویران اور سنسان تھا البتہ دن کے وقت بازار میں اور ریلوے پلیٹ فارم پر رونق رہتی تھی۔ میں سارا دن دفتر میں بیٹھا کام کرتا رہتا تھا اور شام سے کچھ دیر پہلے پلیٹ فارم پر ٹہلنا شروع کر دیتا تھا۔ وقت گزاری کے لیۓ کچھ تھا ہی نہیں اس لیۓ کبھی کبھی بازار کی طرف نکل جاتا تھا، رات کا کھانا اسٹیشن کے ساتھ ہی اک چھوٹے سے ڈھابے سے کھا لیا کرتا تھا اور واپس اپنے کوارٹر میں آکر پڑ رہتا تھا۔ ایک دن میں رات کا کھانا کھا کر جلدی ہی اپنے کوارٹر میں آگیا کیونکہ اس دن دفتر میں خاصا کام تھا اس لیۓ تھکاوٹ کے باعث میں جلدی آکر سو گیا۔ تقریباً آدھی رات کے وقت میری آنکھ کھل گئ میں نے وقت دیکھا تو دو بج رہے تھے، کچھ دیر تک میں لیٹا رہا تا کہ دوبارہ نیند آجاۓ مگر نیند اب روٹھ چکی تھی میں بستر سے اٹھا اور کمرے سے باہر آگیا۔ پلیٹ فارم میرے کوارٹر سے بس چند ہی قدم کے فاصلے پر تھا میں اسی سمت چل پڑا۔ گرمیوں کے دن تھے اس لیۓ پلیٹ فارم پر رات کے اس پہر بھی تھوڑی بہت بھیڑ مل ہی جاتی تھی۔ میں پلیٹ فارم میں داخل ہوا تو میری توقع کے عین مطابق چند لوگ تاریکی میں گھرے پلیٹ فارم میں موجود تھے کچھ تو ریلوے ڈیپارٹمنٹ کے عملے کے لوگ تھے جو اپنی رات کی ڈیوٹی کر رہے تھے دو ایک مسافر تھے جو گاڑی کے انتظار میں بیٹھے تھے یا اپنے کسی عزیز کو لینے آۓ تھے۔  کل ملا کر پانچ سات لوگ ہی تھے۔ رات کے اس پہر اس چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کم ہی رکتی تھی چند ایک گاڑیاں تھیں جو اپنے مخصوص وقت پر بس ایک دو منٹ کے لیۓ ٹھہرتی تھیں اور آگے بڑھ جاتی تھیں۔ زیادہ دیر ٹھہرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ اس چھوٹے سے قصبے میں رات آٹھ بجے کے بعد بلکل ویرانہ چھا جاتا تھا اس کے بعد شاید ہی کوںئ مسافر یہاں کا رخ کیا کرتا تھا۔ جس طرف لوگ بیٹھے تھے میں ان کی مخالف سمت میں جہاں ریلوے کنٹین تھی اس کے بنچ پر جا بیٹھا۔ کنٹین  پر بھی اکا دکا آدمی بیٹھا تھا ایک آدمی اخبار پڑھ رہا تھا تو دوسرا چاۓ کا کپ آگے رکھے پیچھے لوہے کے جنگلے کے ساتھ ٹیک لگاۓ اونگ رہا تھا۔ میں نے بنچ پر رکھے پانی کے جگ میں سے ایک گلاس پانی پیا اور سگریٹ پینے میں مشغول ہو گیا۔ ایک دو مسافروں کی موجودگی اور عملے کی حرکات سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس وقت کوںئ گاڑی آنے والی ہے اور پھر چند ہی منٹوں میں اس کی تصدیق بھی ہو گئ کیونکہ دور ہی سے گاڑی کی سیٹی کی آواز آنا شروع ہو گئ تھی۔ گاڑی ابھی کافی دور تھی مگر آدھی رات کے اس پہر میں چار سو پھیلے سناٹے کی وجہ سے سیٹی کی آواز وہیں سے آنا شروع ہو گئ تھی۔ میں کافی دیر تک سگریٹ پیتا رہا اور آواز قریب سے قریب ہوتی گئ یہاں تک کہ گاڑی پلیٹ فارم پر آلگی۔ میرے پاس کرنے کے لیۓ اور کچھ نہیں تھا میں بلا مقصد ایسے ہی اٹھ کر گاڑی کی طرف چل دیا۔ پلیٹ فارم پر موجود مسافر گاڑی میں بیٹھ چکے تھے اور عملے کے لوگ بھی کہیں دکھاںئ نہیں دے رہے تھے۔ میں گاڑی کی کھڑکیوں میں سے اندر بیٹھے مسافروں کو دیکھتا ہوا گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کافی آگے تک چلا گیا یہاں تک کہ میں پلیٹ فارم کے روشن حصے سے نکل کر تاریک حصے میں آگیا، جیسے ہی گاڑی نے روانگی کے لیۓ سیٹی بجاںئ میں نے آخری ڈبے کے دروازے سے دو خوبصورت سیاہ آنکھوں کو باہر جھانکتے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ گاڑی چلتی وہ سیاہ آنکھوں والا سایہ نیچے اتر آیا میں نے تاریکی میں اسے پہچاننے کی کوشش کی اس نے سیاہ رنگ کا ہی عبایا پہنا ہوا تھا جس میں سے دو سیاہ آنکھیں جھانک رہیں تھیں۔ گہری تاریک رات کی سیاہی میں لپٹے پلیٹ فارم میں ان دو حسین ترین سیاہ آنکھوں نے مجھے مسحور کر دیا تھا، میں ان کے سحر میں اس قدر گرفتار ہوا کہ غیر ارادی طور پر میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ وہ لڑکی پلیٹ فارم سے نکل کر ریلوے اسٹیشن کے باہر آگئ۔ یہاں وہ ایک پل کے لیۓ کچھ دیر رکی اور پھر ایک طرف کو چل دی۔ میں خیران تھا اس ویران سے قصبے میں جہاں شام کے بعد کوںئ مرد بھی  دکھاںئ نہیں دیتا وہاں یہ جوان لڑکی آدھی رات کے وقت اکیلی ریل گاڑی سے اتر کر قصبے کی طرف کس لیۓ جا رہی ہے؟ نہ جانے یہ کہاں سے آںئ ہے اور کس کے گھر جارہی ہے؟ میری اس کا پیچھا کرنے کی ایک وجہ تو اس کی سحرآمیز آنکھیں تھیں جو اس سے پہلے میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھیں، دوسری وجہ شاید اس رات اپنا فارغ وقت گزارنا تھا اور تیسرا مجھے یہ خیال  آیا کہ ہو سکتا ہے یہ لڑکی بے چاری کسی انتہاںئ مجبوری میں اس وقت گھر سے نکلی ہو اور اکیلی سفر کرنے پر مجبور ہو۔ یہی سوچ کر میں اس کے پیچھے چلتا رہا کہ اسے اس وقت کوںئ نقصان نہ پہنچا دے یا یہ کہ وہ کسی مصیبت میں نہ گر جاۓ۔ کیونکہ جہاں مردوں کا رات کے وقت کسی ویران جگہ سے گزرنا پر خطر ہوتا ہے وہاں ایک جوان لڑکی کا آدھی رات کے وقت اکیلے کہیں جانا خود بخود اردگرد منڈلاتے گدوں کو دعوت دینا ہے، ایسی بے اختیاطی اور لاپرواہی  انسانوں کی بستی میں تو کی جا سکتی ہے خونخوار بھیڑیوں، درندوں، ہڈیاں اور ماس تک نوچ جانے والے گدوں اور عقابوں کے مسکن میں نہیں۔


 میں اس کے کافی پیچھے بہت آہستگی سے چل رہا تھا تا کہ اسے شک نہ ہو جاۓ کہ کوںئ اس کا پیچھا کر رہا ہے، تم لوگ یقین نہیں کرو گے مگر سچی بات ہے میرا ارادہ بس یہ تھا کہ جیسے ہی وہ کسی گھر یا محلے میں داخل ہو گی میں اسے محسوس کراۓ بغیر واپس لوٹ آؤں گا۔ لیکن کچھ دور جا کر مجھے ایک اور خیال آیا جس سے میرا ماتھا ٹھنکا، میں نے سوچا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ لڑکی کسی جرائم پیشہ گروہ کی رکن ہو اور اس کے ساتھی یہیں کہیں چھپے ہوں اور اگر انہیں پتہ چل گیا کہ میں اس لڑکی کا پیچھا کر رہا ہوں تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے یا اغوا کر لیں گے۔  میں کچھ پل کے لیۓ ٹھہر گیا اور واپس پلٹنے کا ارادہ کیا لیکن پھر یہ سوچ کر دوبارہ اس کے پیچھے چل پڑا کہ کیا معلوم وہ سچ میں کسی مجبوری کے باعث اس وقت گھر سے نکلی ہو اور جرم کی دنیا سے اس کا کوںئ بھی تعلق نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کی چال اس قدر سہمی سی اور انداز میں اس قدر خوف نہ ہوتا جو میں نے اس کے پلیٹ فارم سے نکلتے ہی محسوس کر لیا تھا۔ اور یہ کہ اگر واقعی اس کا کوںئ تعلق غلط قسم کے لوگوں سے ہوتا تو اب تک اسے کوںئ نہ کوںئ لینے آگیا ہوتا۔ 


چلتے چلتے وہ اچانک ایک گلی میں مڑ گئ۔ میں بھی تیزی سے بھاگتا ہوا گلی میں داخل ہوا لیکن وہ مجھے کہیں دکھاںئ نہ دی، چند قدم چلنے پر گلی آگے سے بائیں جانب مڑ گئ۔ اس گلی کے اندر ایک اور چھوٹی سی اندھیری گلی تھی میں اس گلی میں داخل ہوگیا، گلی اتنی تاریک تھی کہ کچھ بھی دکھاںئ نہیں دے رہا تھا۔ میں تقریباً ٹٹولتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا وہ لڑکی ایک دم کہاں غائب ہو گئ تھی مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ تھوڑی دور تک چلنے کے بعد اب میری آنکھیں اندھیرے میں تھوڑا بہت دیکھنے کے قابل ہو گئیں تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ گلی آگے سے جاکر کچھ کشادہ ہو گئ تھی جو سیدھی آگے نہ جانے کہاں تک جاتی تھی لیکن میں کچھ سوچ کر دائیں جانب مڑ گیا جیسے ہی میں نے دائیں جانب مڑ کر چند قدم اٹھاۓ کوںئ زوردار چیز میرے پیٹ میں آکر لگی۔ میں کراہتے ہوۓ وہیں جھک گیا۔ اس سے پہلے کہ میں سنبھلتا ایک اور وار میرے سر کے پچھلے حصے پر اس زور سے پڑا کہ میری آنکھیں اور ذہن مکمل تاریکی میں ڈوب گۓ۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش  نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو میں نے ہلکا سا سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا مگر ارد گرد مکمل اندھیرا تھا، میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو چکرا کر گر پڑا، میرا سر بہت بھاری ہو گیا تھا اور آنکھوں میں جلن تھی۔ پھر مجھے سر کے پچھلے حصے میں درد محسوس ہوا میں نے پیچھے ہاتھ لگایا تو وہاں زخم تھا مگر خون جم چکا تھا۔ چند لمحوں کے بعد جب میں  مکمل طور پر ہوش میں آیا تو میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا مجھے یاد آیا کہ اس لڑکی کا پیچھا کرتے کرتے جب میں اندھیری گلی میں اترا تھا تو کوںئ زوردار چیز مجھ سے ٹکراںئ تھی اور میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ مجھے اب سب کچھ یاد آگیا تھا اور کچھ کچھ سمجھ بھی آرہا تھا کہ ایسا میرے ساتھ کس نے کیا ہے۔ میں جلدی سے واپس اپنے کوارٹر میں چلے جانا چاہتا تھا اس لیۓ میں جلدی سے اٹھا مگر چکر آنے سے دوبارہ نیچے گر پڑا۔ بڑی مشکل سے سنبھلتے سنبھلتے میں اٹھا اور چلنا شروع کیا، ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ میں کسی دیوار سے بری طرح ٹکرا گیا اور نیچے گر پڑا۔ میں دوبارہ بڑی مشکلوں سے اٹھا اور اس بار سنبھل کر چلنا شروع کیا لیکن جیسے ہی میں چند قدم چلا آگے پھر دیوار آگئ، میں نے سوچا شاید میں راستہ بھول گیا ہوں کیونکہ مکمل اندھیرے کی وجہ سے مجھے کچھ دکھاںئ نہیں دیا تھا میں بس اندازے سے اس گلی تک پہنچا تھا۔ اس دفعہ میں نے اس دیوار کے مخالف سمت قدم اٹھاۓ کہ شاید راستہ اس طرف ہو مگر یہاں بھی چند قدم چلنے کے بعد آگے دیوار آگئ۔ اس طرح میں چاروں طرف گھوما مگر دو چار قدموں کے فاصلے پر آگے دیوار آجاتی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ گلی کے دو اطراف تو دیوار تھی مگر داخلے کا راستہ تو کھلا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے میں صرف چند قدم ہی گلی کے اندر گیا تھا تو گر پڑا تھا اس کا مطلب تھا کہ میں گلی کے بالکل شروع میں تھا پھر وہ راستہ کدھر چلا گیا۔ اب میں سچ میں گبھرا گیا اور پریشانی میں کبھی ایک دیوار اور کبھی دوسری دیوار کی طرف بھاگ کر جاتا تھا۔ پھر مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی گلی میں نہیں شاید کسی چار دیواری کے اندر ہوں۔ میں نے سستانے کے لیۓ ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی اور اطمینان سے غور کرنے لگا، مجھے احساس ہوا کہ میں کسی اندھیرے تنگ کمرے میں مقید ہوں، یعنی کہ میں اغوا ہو چکا ہوں اور کسی نے مجھے بے ہوش کرکے اس گلی سے اٹھا کر اس کمرے میں لا کر بند کر دیا ہے۔ اس کا سیدھا مطلب تھا کہ وہ لڑکی کوںئ عام اور سیدھی سادھی لڑکی نہیں تھی جو کسی مجبوری کی وجہ سے اس وقت گھر سے نکلی تھی بلکہ وہ یقیناً جرائم پیشہ گروہ کی رکن ہے اور کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہے اس کے ساتھی ہی مجھے اٹھا کر یہاں لاۓ ہوں گے۔ اب میرا دماغ مکمل طور پر کام کرنے لگا تھا  میں نے غور کرنا شروع کیا کہ اگر تو یہ ایک کمرا ہے جس میں میں اس وقت قید ہوں تو یقیناً اس کا کوںئ دروازہ بھی ہوگا۔ میں نے جلدی سے دروازہ تلاش کرنا شروع کر دیا، میں دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہا تھا کہ کسی دیوار میں تو دروازہ ہو گا۔ آخر کار مجھے ایک دیوار میں دروازہ مل ہی گیا، دروازہ لکڑی کا تھا میں نے ہلا کر کھولنا چاہا مگر باہر سے بند تھا۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ مجھے کسی اندھیرے کمرے میں قید کیا گیا ہے۔ 


اندھیرے میں اب میرا دم گھٹنے لگا تھا میں نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا کچھ ہی لمحوں میں باہر سے دروازہ کھلنے کی آواز آںئ میں چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا جب دروازہ کھلا تو روشنی کا ایک تیز فلش میری آنکھوں میں پڑا میں نے آنکھوں کے آگے ہاتھ رکھ لیا پھر آہستہ سے ہٹایا تو دیکھا میرے سامنے ایک ہٹا کٹا آدمی کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں فلش لائٹ تھی اور چہرے پر گھنی مونچھیں تھیں اس نے کڑک دار آوز میں مجھ سے کہا 'کیوں دروازہ کھٹکٹا رہے ہو خاموشی سے بیٹھو۔'


تم کون ہو اور مجھے یہاں کیوں بند کیا ہے؟' میں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوۓ پوچھا۔


یہ بتانے کی اجازت مجھے نہیں صبح تک انتظار کرو تمہیں پتا چل جاۓ گا۔' اس آدمی نے رعب دار انداز سے جواب دیا۔


میں نے اس کے انداز کی پرواہ نہ کی اور پوچھا 'لیکن آخر میرا قصور کیا ہے؟ میں تو یہاں کسی کو جانتا بھی نہیں۔'


کہا نا خاموش رہو صبح پتہ چل جاۓ گا۔' اس نے پستول نکال کر مجھ پر تانی 'اب اگر دروازہ بجایا تو تمہاری کھوپڑی اڑا دوں گا۔' 


میں خاموش ہو گیا وہ باہر جانے لگا تو میں نے دوبارہ اس سے پوچھنے کی کوشش کی 'کیا اس لڑکی نے۔۔۔' میں بات مکمل نہیں کر پایا اور وہ دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ کمرے میں پھر سے مکمل اندھیرا چھا گیا تھا۔ اس قدر اندھیرے سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا اور میرا دم گھٹنے لگا۔ وہ رات میرے لیۓ بڑی ہی سخت رات تھی مجھے ایسے لگ رہا تھا میں کسی قبر میں لیٹا ہوں میں دعائیں کرنے لگا کہ کسی طرح رات کٹ جاۓ صبح چاہے میرے ساتھ جو بھی ہو مگر میری اس اندھیری کوٹھری سے جان چھوٹ جاۓ۔ خدا کا شکر تھا کہ میرے ہوش میں آنے سے پہلے ہی رات کافی بیت چکی تھی ورنہ اگر اور زیادہ طویل ہوتی تو اندھیرے میں دم گھٹنے سے میں ہلاک ہو جاتا۔ 


صبح ہوںئ تو ایک دیوار کے اوپر والے حصے پر چھت کے پاس سے روشنی کی ایک باریک سی لکیر اندر کمرے میں آںئ جس سے کمرا ذرہ سا روشن ہوگیا میں نے اٹھ کر دیکھا تو وہاں ایک بڑا سا کھڑکی نما روشن دان تھا جو بند تھا۔ اس کھڑکی کی درز سے روشنی چھن کر اندر داخل ہو رہی تھی۔ بس یہی روشنی کی کرن تھی  جسے دیکھ کر میری جان میں جان آںئ۔ میں اس کھڑکی کی طرف رخ کرکے بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ باہر سے کوںئ آکر دروازہ کھولے اور مجھے معلوم ہو کہ میں کہاں ہوں۔ یہ خوف بے شک تھا کہ میں جن لوگوں کی قید میں ہوں وہ مجھے جان سے بھی مار سکتے ہیں مگر اس اندھیری کوٹھڑی کا خوف اس سے کہیں زیادہ تھا، اور پھر ایک امید بھی تھی کہ شاید وہ لوگ مجھے کسی غلط فہمی کی بنا پر اٹھا کر لے آۓ ہوں اور جب ان کو حقیقت کا ادراک ہو جاۓ تو وہ مجھے رہا کر دیں۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد آخرکار باہر سے دروازہ کھلنے کی آواز آںئ میں فوراً اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ دروازہ کھول کر وہی رات والا آدمی اندر آیا اس بار اس نے ہاتھ میں پستول تھام رکھی تھی۔ اس نے رعب دار آواز سے مجھے ساتھ چلنے کو کہا میں تو پہلے ہی اس گھڑی کا انتظار کر رہا تھا سو فوراً اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم نے چند کمرے عبور کیۓ اور ایک راہ داری سے گزر کر باہر کھلے احاطے میں آگۓ، یہاں ایک آدمی کرسی پر بیٹھا ایک دوسرے آدمی کو چند ہدایات دے رہا تھا جو اس کے پاس کھڑا تھا۔ اس کے اردگرد ذرہ ہٹ کر دو تین مسلح افراد کھڑے تھے۔ یہ کرسی والا آدمی شاید اس گروہ کا سرغنہ تھا، عمر پچاس ساٹھ کے قریب ہو گی، جسم خاصا مضبوط تھا لیکن شکل سے دہشت ٹپکتی تھی۔ 'وہ لڑکی بھی یقیناً اسی آدمی کے لیۓ کام کرتی ہو گی۔' میں نے سوچا۔ اس نے اپنے ملازم کو کوںئ اشارہ کیا ملازم اشارہ سمجھ کر وہاں سے چلا گیا۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔


کیا نام ہے تمہارا؟'


جی سرفراز احمد۔'


یہیں رہتے ہو؟' 


جی ہاں۔'


ہوں۔' اس نے سر ہلایا۔ 'اس لڑکی سے تمہارا کیا تعلق ہے؟'


جی کس لڑکی سے؟' میں نے جان بوجھ کر انجان بنتے ہوۓ کہا۔


اسی سے جس کا تم پیچھا کر رہے تھے۔' 


لیکن میں تو کسی کا پیچھا نہیں کر رہا تھا میں تو اپنے گھر جا رہا تھا۔' میں نے جان بوجھ کر اس سے یہ بات چھپاںئ۔ 


اس نے ایک لمحے کے لیۓ کچھ سوچا پھر بولا ' دیکھو اگر جھوٹ بولو گے تو مارے جاؤ گے سچ سچ بتاؤ اس کا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟'


 'سچ سچ ہی بتا رہا ہوں جناب میں اپنے گھر ہی جا رہا تھا وہ لڑکی تو مجھے راستے میں ملی تھی۔' 


اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا اس کا ملازم جو ابھی یہاں سے گیا تھا اس لڑکی کے ساتھ برآمد ہوا۔ میں نے نظر اٹھا کر لڑکی کو دیکھا اس نے وہی سیاہ رنگ کا عبایا پہنا ہوا تھا لیکن اس دفعہ اس کا چہرا نقاب میں ڈھکا ہوا نہیں تھا۔ وہ بلا کی خوبصورت تھی۔ اس کی سحر آمیز سیاہ آنکھیں دن کے اجالے میں اور بھی حسین اور پرکشش لگتی تھیں۔ اس کے آتے ہی کرسی والے آدمی نے اس سے پوچھا۔ 'تم اس لڑکے کو جانتی ہو یا اسے پہلے کبھی دیکھا ہے؟'


جی نہیں میں نے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا۔' لڑکی نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔ 



ٹھیک ہے اسے اسی کمرے میں لے جاکر کے بند کر دو اس کا فیصلہ ہم بعد میں کریں گے۔ ابھی ہم اس لڑکے سے نپٹ لیں یہ کچھ مشکوک دکھاںئ دیتا ہے۔' کرسی والے آدمی نے اپنے ملازم سے کہا۔


ملازم اس لڑکی کو لے کر چل دیا، اس لڑکی نے مڑتے ہوۓ میری طرف اک نظر سے دیکھا اس کی آنکھوں میں اداسی اور خوف تھا۔ میں خیران ہو رہا تھا کہ یہ لڑکی اگر اس گروہ کی رکن ہے تو اسے قید میں کیوں رکھا گیا ہے کیا اس کے ساتھی میری وجہ سے اس پر شک تو نہیں کر رہے؟ شاید وہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ لڑکی میرے ساتھ مل کر انہیں دھوکا دے رہی ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کرسی والے آدمی نے پوچھا 'اچھا تو تم یہی رہتے ہو پر یہاں کہ تم لگتے تو نہیں ہو'؟


جی میں یہاں کا رہائشی نہیں ہوں کچھ ہی عرصے پہلے یہاں آیا ہوں میں ریلوے میں ملازم ہوں اور یہاں ریلوے کوارٹر میں رہتا ہوں۔' 


میں نے یہ بات اسے بالکل سچ سچ بتا دی چھپانے کا فائدہ بھی نہیں تھا کیونکہ یہ بات تو وہ چند لمحوں میں پتہ کرا سکتے تھے اور میرا تو خیال تھا کہ انہوں نے کسی غلط فہمی کی بنا پر مجھے پکڑا ہے اور جب انہیں حقیقت معلوم ہو جاۓ گی کہ میں ریلوے میں ایک معمولی سا ملازم ہوں جو ان کے  لیۓ کسی خطرے کا باعث نہیں بن سکتا تو وہ مجھے چھوڑ دیں گے۔ لیکن یہ میری غلطی تھی۔ وہ آدمی ساری بات سن کر اطمینان سے بولا، 'تو تم ریلوے کوارٹر میں رہتے ہو؟ لیکن ابھی تو تم نے کہا کہ تم لڑکی کے پیچھے نہیں اپنے گھر جارہے تھے جبکہ ریلوے کوارٹر تو دوسری طرف ہے۔' 


یہ بات میرے دھیان میں ہی نہ رہی تھی اب میرے پاس کوںئ چارا نہیں تھا لہذا میں نے سچ کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا اور اسے ایک ایک بات بلکل ٹھیک بتا دی کہ میں اس رات واقعی لڑکی کے پیچھے جا رہا تھا اور یہ بھی کہ میں اس کا پیچھا کیوں کر رہا تھا۔ میں نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ لڑکی آپ کی ساتھی ہے اس لیۓ میں نے ڈر کر جھوٹ بول دیا کہ میں اس کے پیچھے نہیں جا رہا تھا اور میں نے کہا کہ باقی باتیں جو میں نے اپنے بارے بتاںئیں ہیں وہ بالکل صحیح ہیں۔ اس نے میری ساری بات تسلی سے سنی پھر اپنے ملازم کو کوںئ اشارہ کیا ۔ اس کے ملازم نے ایک چارپاںئ لا کر بچھا دی اور اس پر گاؤ تکیہ رکھ دیا۔ وہ آدمی کرسی سے اٹھا اور چارپاںئ پر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اتنی دیر میں اس کا ملازم ہکا لے آیا وہ ہکا اس کے سامنے رکھ کر دوبارہ اپنی جگہ جا کھڑا ہوا۔ اس آدمی نے آنکھیں بند کیں اطمینان سے ہکے کے دو کش لگاۓ پھر آنکھیں کھولیں اور مجھ سے پوچھا 'جو تم نے ابھی کہا ہے وہ بات بلکل سچ ہے؟


جی جناب بلکل سچ ہے۔' 


سوچ لو اگر ایک بھی بات جھوٹی نکلی تو آج کی رات تمہاری آخری رات ہو گی؟' وہ دھمکی آمیز انداز سے بولا۔


جی جناب ایک ایک بات بلکل سچ ہے آپ پتا کرا لیں۔'


ٹھیک ہے۔' اس نے اپنے ملازم کو مخاطب کیا، 'اسے کمرے میں لے جاؤ اور اس کے بارے میں سب کچھ پتا کرو یہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے اگر تو ایک بھی بات غلط نکلے تو آج کے بعد یہ یہاں سے کبھی زندہ باہر نہیں جاسکے گا اور اگر سب کچھ صحیح ہوا تو اسے رہا کر دینا۔'


اس کے بعد وہ ملازم مجھے دوبارہ اسی اندھیری کوٹھری میں بند کر کے چلا گیا۔ میں دعائیں کرنے لگا کہ وہ آدمی جلدی سے میرے بارے میں معلومات حاصل کرلے تا کہ شام ہونے سے پہلے مجھے یہاں سے رہاںئ مل جاۓ کیونکہ میں ایک اور رات اس اندھیری کوٹھڑی میں نہیں گزارنا چاہتا تھا۔ میں سارا دن بے چینی سے انتظار کرتا رہا کبھی کمرے میں ٹہلنے لگتا تو کھبی تھک کر لیٹ جاتا۔ مجھے بھوک پیاس کا بلکل ہوش نہیں رہا تھا اس وقت بس میں یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح مجھے اس اندھیری کوٹھڑی سے رہاںئ مل جاۓ۔ آخرکار شام سے کچھ دیر پہلے اس آدمی نے آکر دروازہ کھولا اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا میں جلدی سے اٹھا اور چپ چاپ اس کے پیچھے چل دیا وہ آدمی مجھے حویلی سے باہر لے آیا باہر ایک جیپ سٹارٹ کھڑی تھی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک ٹھگنا سا آدمی بیٹھا تھا۔ وہ آدمی جو مجھے اندر سے لے کر آیا تھا اس نے مجھے جیپ میں بیٹھنے کا اشارہ کیا جب میں گاڑی میں بیٹھ گیا تو وہ آدمی بولا 'یہ تمہیں تمہارے کوارٹر تک پہنچا دے گا اور یاد رکھنا دوبارہ یہاں کا رخ کیا تو واپس جانے کے لائق نہیں رہو گے۔' 


پہلے میں خاموش رہا لیکن پھر میں نے ہمت کرکے اس سے پوچھ ہی لیا، 'لیکن وہ لڑکی۔۔۔' میں ابھی جملہ مکمل بھی کر نہ پایا تھا کہ وہ آدمی تیزی سے بولا، 'اس سے تمہارا کوںئ مطلب نہیں تم چپ چاپ یہاں سے نکل جاؤ۔'


اس کے بعد میں کچھ نہیں بولا اس نے ڈرائیور کو اشارہ کیا اور اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ میں بہت دیر تک اس لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا کہ آخر وہ لڑکی کون تھی، وہ ان کی ساتھی تھی یا وہ اسے بھی میری طرح ہی پکڑ کر لاۓ تھے۔ اگر وہ ان کی ساتھی تو انہوں نے اسے کمرے میں بند کیوں کیا تھا اور اگر وہ اسے میری طرح ہی غلط فہمی کی بنا پر پکڑ کر لاۓ تھے تو اب تک انہوں نے اسے رہا کیوں نہیں کیا تھا؟  گاڑی کافی دیر تک ویران اور اجاڑ علاقے میں گھومتی رہی جہاں اردگرد سواۓ جنگل کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن جہاں سے انہوں نے مجھے پکڑا تھا وہ جگہ تو اسٹیشن سے بس کچھ ہی دور تھی پھر یہ گاڑی والا اتنی دیر سے نجانے کہاں گھوم رہا تھا۔ میں نے سوچا یہ مجھے کہیں اور تو نہیں لے جارہا؟ میں نے اس سے پوچھا 'یہ تم کہاں جارہے ہو؟'


 تم کو اسٹیشن چھوڑنے جارہا ہوں اور کہاں جانا ہے' وہ بولا 'وہیں ہے نہ تمہارا گھر؟ مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ ایک شہری بابو کو اسٹیشن چھوڑ کر آنا ہے اگر تمہیں کہیں اور جانا ہے تو میں نہیں جا سکتا میں تو تمہیں اسٹیشن ہی چھوڑ کر آؤں گا نہیں تو صاب مجھے جان سے مار دے گا۔'



نہیں جانا تو مجھے اسٹیشن ہی ہے پر وہ اتنی دور تو نہیں۔۔۔ اچھا یہ کون سی جگہ ہے یہ اسٹیشن کے قریب ہی نہیں؟' میں نے کچھ سوچتے ہوۓ پوچھا۔


یہ تو بیلا ہے بابو! آبادی سے ہٹ کر اس جنگل میں یہ پورا علاقہ حاجی نعمت اللّٰه‎ کے قبضے میں ہے یہاں اس کی حویلی ہے بہت بڑی جہاں سے ابھی میں نے تم کو گاڑی میں بٹھایا ہے۔'


کون ہے یہ حاجی نعمت الا؟'


تم بھی کمال کرتے ہو حویلی کے اندر سے آۓ ہو تو تم نے دیکھا نہیں اسے؟'



نہیں دیکھا تو ہے میرا مطلب ہے کہ یہ ہے کون اور کرتا کیا ہے، خاصا خطرناک آدمی لگتا ہے؟' 


خطرناک آدمی تو ہے شہری بابو' وہ بولا 'اتنی ساری زمین جائیداد کا مالک ہے آگے پیچھے اس کے ہر طرف بندوقوں والے آدمی پھرتے ہیں اور کئ دو نمبر کاموں میں بھی ملوث ہے پر مجال ہے پولس اس کو ہتھ بھی لگا سکی ہو پولس بھی اس سے پناہ مانگتی ہے جی۔۔۔ لیکن شہری بابو وڈے وڈیروں سے سنا ہے کہ یہ ساری زمین جائیداد اس کی اپنی نہیں تھی اس کے بڑے بھاںئ کی تھی اس کے پاس اپنی جو زمین جائیداد تھی اس نے وہ جوے بازی اور عیاشیوں میں اڑا دی، اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ پھر اس کی نیت خراب ہوگئ اور اس کی نظر اپنے بھاںئ کی جائیداد پر پڑ گئ اگر وہ زندہ رہتا تو اس کا یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا لیکن وہ ایک حادثے میں مارا گیا، اس کے بعد اس نے اس کی جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ اس کی بیوی اور ایک چھوٹی بچی تھی اس نے ان کے حصے کا مال بھی ہڑپ کر لیا۔ اس کی بیوی نے اپنی جائیداد اس سے واپس لینے کی بہت کوشش کی پر وہ اکیلی عورت ذات بھلا کیا کر سکتی تھی اس کی ایک نہ چلی اور آخر کو خود ہی اس دنیا سے چلی گئ۔ اس کے بعد اس کی بچی جو اب جوان ہو چکی تھی اکیلی رہ گئ مگر اسے اس یتیم بچی پر بھی رحم نہ آیا اور اسے بھی اس کا حصہ واپس نہ دیا۔ سنا ہے کہ وہ لڑکی کچھ دن پہلے اس کی سختیوں اور مظالم سے تنگ آکر گھر سے فرار ہو گئ تھی پتہ نہیں واپس آںئ ہے کہ نہیں۔'


اس کی اس بات پر ایک دم میں چونکا۔ کہیں وہ لڑکی یہی تو نہیں، لیکن اگر وہ گھر سے بھاگ گئ تھی تو اس رات واپس کیوں آںئ۔ رات کو وہ بلکل اکیلی تھی اور اکیلی ہی ٹرین سے اتری تھی جس کا مطلب تھا کہ وہ اپنی مرضی سے آںئ تھی۔ اگر وہ بھاگ گئ تھی تو واپس کیوں آئی ہو گی؟ اب بات کافی حد تک میری سمجھ میں آگئ تھی کہ انہوں نے اسے کمرے میں کیوں بند کیا تھا اور اس آدمی نے یہ کیوں کہا تھا کہ اس کا فیصلہ ہم بعد میں کریں گے۔ باتوں باتوں میں ہم اسٹیشن پینچ گۓ میں گاڑی سے اترا اس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے کوارٹر کی طرف چلنے ہی والا تھا کہ اس آدمی نے مجھے آواز دے کر روک لیا۔ 


وہ بابو۔۔۔'وہ ہچکچاتے ہوۓ بولا 'میں غریب آدمی ہوں نوکری کرتا ہوں پر یہ زبان ہے اس پر قابو نہیں رہتا تم شریف آدمی لگے اس لیۓ کچھ زیادہ بول دیا پر بات اگر  کہیں اور پہنچ گئ تو۔۔۔تم وہ سب کچھ بھول جانا جو میں نے تمہیں بتایا۔'


کون سی بات؟ تم نے مجھے کیا بتایا تھا؟' میں نے مسکراتے ہوۓ کہا۔


وہ آدمی ہلکا سا ہنسا مجھے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔


اس دن کے ایک ہفتے بعد میں کچھ سامان خریدنے بازار گیا، رش زیادہ نہیں تھا، میں ایک دکان میں مطلوبہ سامان دیکھ رہا تھا تبھی میری نظر باہر سے گزرتے ہوۓ دو لڑکیوں پر پڑی ایک دم سے میں چونکا، میں بھاگ کر دکان سے باہر آیا لیکن میرے پہنچنے تک وہ  کچھ آگے چلی گئ تھیں، میں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ان دونوں نے سیاہ رنگ کا عبایا پہنا ہوا تھا ان میں سے ایک ذرہ سا آگے دائیں طرف والی دکان میں چلی گئ اور دوسری وہیں ایک دکان پر ٹھہر گئ۔ میں کچھ فاصلے پر رک گیا اور اردگرد دیکھنے لگا جب مجھے تسلی ہو گئ کہ ان کے ساتھ اور کوںئ نہیں تو میں کچھ آگے بڑھا تا کہ اس لڑکی کو سامنے سے دیکھ سکوں۔ میں اس سے  دو تین دکانیں چھوڑ کر ایک دکان پر جا کھڑا ہوا اور باہر لگے سٹال پر سامان دیکھنے لگ پڑا۔ میں کن اکھیوں سے اس کی طرف بھی دیکھ رہا تھا۔ وہ دکان کے باہر لٹکے ملبوسات میں سے کوںئ لباس پسند کر رہی تھی تبھی اس نے رخ میری طرف کیا۔ میں نے اس کی آنکھیں دیکھیں اور فوراً پہچان لیا۔ یہ وہی تھی۔ اس کی آنکھیں ویسی ہی مسحور کن تھیں جیسی اس رات ریلوے اسٹیشن پر میں نے دیکھیں تھیں۔ میں کافی دیر تک وہاں کھڑا رہا لیکن ابھی تک اس کی نظر مجھ پر نہیں پڑی تھی پھر اس نے دکاندار کو اوپر لٹکے ہوۓ ایک لباس کی طرف اشارہ کیا دکاندار دکان کے اندر سے آیا اور لباس اتار کر اسے تھما دیا اس نے لباس دیکھا، پسند کیا اور دکاندار کو دے دیا۔ پھر وہ کوںئ دوسرا لباس پسند کرنے کے لیۓ آگے بڑھی جیسے ہی وہ آگے آںئ اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ وہیں رک گئ چند لمحوں تک وہ مجھے دیکھتی رہی جس سے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ اس نے مجھے پہچان لیا ہے۔ اس نے جلدی سے نظریں ہٹائیں اور آگے بڑھ کر دوسرا لباس دیکھنے لگی۔ میں دھیرے دھیرے سے چلتا ہوا اس کے پاس ذرا فاصلے پر ہٹ کر کھڑا ہو گیا اور سٹال پر پڑے سامان کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا تا کہ یوں لگے کہ میں بھی خریداری کر رہا ہوں۔ وہ لڑکی مجھے دیکھ کر کچھ سہم سی گئ۔


میں نے اسے تسلی دیتے ہوۓ آہستہ سے کہا 'گبھرائیں نہیں میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا کہ میں آپ سے بات کر رہا ہوں۔ آپ بس اپنی خریداری جاری رکھیۓ۔'


آپ کون ہیں اور کیوں میرا پیچھا کر رہے ہیں اس رات بھی آپ کی وجہ سے میں کتنی مصیبت میں پڑ گئ تھی۔' اس نے گبھراتے ہوۓ کہا۔


میں معافی چاہتا ہوں' میں بولا 'میرا ارادہ بالکل بھی آپ کو مصیبت میں مبتلا کرنا نہیں تھا اور آپ سے زیادہ تو میں مصیبت میں پڑ گیا تھا وہ لوگ تو مجھے جان سے مارنے والے تھے۔ کون تھے وہ لوگ آپ جانتی ہیں انہیں؟'


نہیں میں نہیں جانتی اور آپ بھی ان لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش نہ کریں۔ وہ بہت خطرناک لوگ ہیں۔' 


یہ آپ کو کیسے پتہ کہ وہ خطرناک لوگ ہیں جبکہ آپ تو انہیں جانتی ہی نہیں۔' 


وہ۔۔۔میں۔۔۔ جانتی ہوں بس مجھے شک ہے کہ وہ خطرناک لوگ ہیں اس رات مجھے اندازہ ہو گیا تھا۔' وہ کچھ ہڑبڑا کر بولی۔


اندازے تو غلط بھی ہو سکتے ہیں۔' میں نے جان بوجھ کر ایسا کہا۔


آپ بات سمجھتے کیوں نہیں اس رات کے بعد بھی آپ کو علم نہیں ہوا کہ وہ کتنے خطرناک لوگ ہیں جبکہ آپ کی جان بھی جا سکتی تھی۔'


تو چلیں ٹھیک ہے چھوڑیں انہیں ان کے حال پر، میں تو ان کے بارے میں جاننا چاہتا بھی نہیں۔'



تو پھر ٹھیک ہے جائیں آپ اب یہاں سے' وہ بولی 'اگر انہوں نے مجھے یہاں آپ کے ساتھ دیکھ لیا تو مصیبت آجاۓ گی۔' 


یہی بات میں سننا چاہتا تھا۔ 'کیسی مصیبت؟' میں نے پوچھا 'آپ نے تو کہا کہ آپ انہیں جانتی ہی نہیں پھر ان کو اس سے کیا آپ جس سے بھی ملیں یا جہاں ملیں؟'


وہ کچھ بوکھلا گئ 'بس ہے مصیبت آپ اب جائیں نہیں تو میں چلتی ہوں اور میرا پیچھا مت کریئے گا۔' اس نے چند قدم آگے بڑھتے ہوۓ کہا۔ 


میں اس کے پیچھے چلنے ہی والا تھا کہ میں نے دوسری دکان سے اس کی دوست کو اسی طرف آتے دیکھا۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے تھوڑی سی بلند آواز سے اس سے کہا ' اچھا ٹھیک ہے جانے سے پہلے میری اک بات سن جائیں پھر میں آپ کے پیچھے نہیں آؤں گا۔' وہ ٹھہر گئ۔ میں بولا 'میں آپ کے بارے میں سب کچھ جان چکا ہوں، سب کچھ، اب کچھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں۔ میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں میں آپ کو اس مصیبت اس مشکل سے نکال سکتا ہوں میں یہیں ریلوے اسٹیشن میں کام کرتا ہوں اور وہیں رہتا ہوں اگر کسی وقت بھی میری ضرورت پڑے تو آپ بلا جھجھک مجھ سے مل سکتی ہیں۔ میں ایک دفعہ پھر کہتا ہوں میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں اور آپ کو اس مصیبت سے نجات دلا سکتا ہوں۔' 


میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس کی دوست پاس پہنچ گئ میں خاموش ہو گیا۔ اس کی دوست آتے ہی بولی 'کچھ پسند کیا یا اس وقت کی دیکھ ہی رہی ہو؟'


ہاں کیا ہے وہاں دکان میں۔۔۔' اس نے دکان کے اندر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا اور اس کے ساتھ چلنے لگی۔ جاتے ہوۓ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اس کی آنکھوں میں بے بسی اور امید دونوں تھے۔ میں نے زیادہ دیر وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور واپس چلا آیا۔



اس کے بعد میں نے تقریباً روزانہ شام سے پہلے قصبے کا ایک چکر لگانا شروع کر دیا اور کبھی کبھار رات کے وقت پلیٹ فارم پر بھی ہو آتا مگر وہ کہیں دکھاںئ نہ دی۔ جمعے کی ایک دوپہر کو میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا تبھی مجھے ملازم نے آکر اطلاع دی کہ مجھ سے کوںئ لڑکی ملنے آںئ ہے اور انتظار گاہ (ویٹنگ روم) میں میرا انتظار کر رہی ہے۔ میں جلدی سے اٹھ کر گیا تو وہ اکیلی کمرے میں بیٹھ تھی مجھے دیکھ کر کھڑی ہو گئ میں نے بیٹھنے کو کہا اور خود اس کے سامنے بیٹھے گیا۔ 


وہ بولی 'کیسے ہیں آپ؟'


میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں؟' میں نے بھی اس کا حال پوچھا۔ دو چار رسمی باتوں کے بعد اس نے مجھ سے کہا 'آپ نے اس دن کہا تھا کہ آپ میرے بارے میں سب جانتے ہیں تو بتائیں کیا جانتے ہیں آپ؟'


سب کچھ' میں نے کہا 'آپ کے والد اور ان کے بھاںئ کی جائیداد کا تنازعہ اور آپ کی امی کے بارے میں اور کچھ دن پہلے آپ کا مظالم سے تنگ آکر گھر سے فرار ہونا پھر واپس آنا وغیرہ سب کچھ جانتا ہوں۔'


یہ باتیں آپ کو کہاں سے پتہ چلیں؟'


وہ آپ چھوڑیں جہاں سے بھی پتہ چلیں بس آپ یہ جان لیں کہ میں آپ کو اس مصیبت سے نجات دلانا چاہتا ہوں اور آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔'


تو کیسے کریں گے آپ میری مدد، کیا کریں گے آپ؟' اس نے فوراً پوچھا۔


جو بھی آپ چاہیں گی۔ اگر آپ یہاں سے بھاگنا چاہتی ہیں تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔'


تو اس سے کیا ہو گا۔ بھاگ کر تو میں پہلے بھی یہاں سے گئ تھی مگر اکیلی کہاں رہتی یہ تو اس سے بھی زیادہ مصیبت تھی طرح طرح کے لوگوں کی غلیظ قسم کی نظریں تھیں جو مجھ پر رہتی تھیں۔ ہر وقت خوف مجھ پر طاری رہتا تھا۔ ایک دو دن تو میں نے ایک دور کے جاننے والے کے ہاں پناہ لے لی لیکن اس کے بعد کہاں جاتی، اس لیۓ واپس آگئ۔'


اس نے بات ختم کی تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ 'تو پھر آپ کیا چاہتی ہیں؟' میں نے پوچھا۔


میں تو اس مصیبت سے نجات چاہتی ہوں اور یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں اب آپ بتائیں آپ میری کیسے مدد کر  سکتے ہیں۔ آپ ہی نے کہا تھا آپ مجھے یہاں سے نجات دلا سکتے ہیں۔' اس نے جواب دیا۔


میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا، کچھ دیر کمرے میں مکمل خاموشی رہی پھر میں نے اس سے کہا 'آپ ایسا کریں مجھے دو تین دن کا وقت دیں تا کہ میں ٹھیک سے سوچ بچار کر سکوں کہ کیا کرنا ہے اور اس کے لیۓ کوںئ مناسب بندوست کر سکوں۔'


ٹھیک ہے میں اگلے ہفتے جمعے والے دن ٹھیک اسی وقت دوبارہ آؤں گی تب تک آپ کوںئ بندوبست کر لیں۔' 


بالکل صحیح میں آپ کا انتظار کروں گا۔' 


ٹھیک ہے پھر اب میں چلتی ہوں۔' اس نے اٹھتے ہوۓ کہا۔


نہیں ایسے کیسے آپ کچھ چاۓ پانی وغیرہ تو پی کر جائیں۔' 


نہیں مجھے زیادہ دیر یہاں نہیں ٹھہرنا چاہیۓ میں نہیں چاہتی کام ہونے سے پہلے ہی کسی کو شک ہو جاۓ'۔ 


 چلیں ٹھیک ہے پھر سہی۔' 


 اچھا خدا خافظ میں چلتی ہوں۔' اس نے جاتے ہوۓ کہا۔


خدا خافیظ۔' میں نے جواب دیا اور وہ باہر نکلی گئ۔ اس کے جانے کے کتنی دیر بعد تک میں وہیں کھڑا رہا پھر اپنے دفتر کی طرف چل دیا۔ 


 کئ دنوں تک میں اس مسئلہ پر غور کرتا رہا مگر کوںئ حل نہیں نکال پایا۔ میں اسے یہاں سے فرار تو باآسانی کرا سکتا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ رہے گی کہاں۔ یہ بات اس کی ٹھیک تھی کہ اکیلی وہ نہیں رہ سکتی تھی ، میرے پاس سواۓ میرے گھر کے اور کوںئ بھی ٹھکانا نہیں تھا جہاں میں اسے بھیج سکتا تھا یا لے کر جا سکتا تھا۔ اپنے گھر میں اسے اس طرح لے کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ جمعے کا دن قریب آرہا تھا اور ابھی تک مجھے کوںئ تجویز نہیں سوجھی تھی۔ یہاں میرا کوںئ دوست بھی نہیں تھا جس سے میں کوںئ مشورہ کر سکتا تھا یا کوںئ مدد مانگ سکتا تھا، ابھی یہاں آۓ ہوۓ مجھے چند ہفتے ہی تو ہوۓ تھے، دوست میرے اپنے شہر میں تھے لیکن ان کے پاس بھی میں اسے ایسے تو نہیں بھیج سکتا تھا اور شاید وہ اس طرح جانے کے لیۓ رضامند بھی نہ ہوتی۔ یہی سوچتے سوچتے تقریباً پورا ہفتہ گزر گیا۔ جمعرات کی رات تھی اور صبح اس نے ملنے آنا تھا میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا اور مجھ میں  یہ ہمت بھی نہیں تھی کہ میں اس سے کہوں کہ کوںئ بندوبست نہیں ہو پایا۔ اس رات کافی دیر تک میں بستر پر لیٹا غور کرتا رہا اور پھر اچانک سے ایک ترکیب میرے ذہن میں آںئ۔ میں نے اٹھ کر سگریٹ سلگایا اور اس کے متعلق غور کرنے لگا چند لمحوں میں میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب اس کے علاوہ اور کوںئ آپشن نہیں اور یہ کہ اب یہی راستہ بچا ہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ جو تجویز میرے ذہن میں آںئ تھی وہ معلوم نہیں ثانیہ کو بھی پسند آۓ گی کہ نہیں۔۔۔


ہاں اس کا نام ثانیہ تھا پہلے میں نے اس کا نام نہیں بتایا کیونکہ مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا مجھے بھی اس دن پتہ چلا جس دن میں بازار میں اس سے ملا تھا اس کی دوست نے اس کا نام لیا تھا۔ تب میں تم لوگوں کو بتانا بھول گیا۔ رہی میرے نام کی بات وہ میں اسے پہلے ہی بتا چکا تھا جب میں نے اس سے کہا تھا کہ میں اس کے بارے میں سب جانتا ہوں۔


  خیر، تو کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔ کہاں تھا میں؟' سرفراز نے پوچھا۔


تمہیں آخری دن کوںئ تجویز ذہن میں آںئ تھی۔' وقاص بولا۔


ہاں ۔۔۔ تو اس رات میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اب میں بے چینی سے اس کا انتظار کرنے لگا، مجھے بس یہ فکر تھی کہ معلوم نہیں وہ میری تجویز کو قبول کرے گی کہ نہیں۔ اگلے دن میں اپنے دفتر میں کام کر رہا تھا اور وقفے وقفے بعد گھڑی بھی دیکھتا جاتا تھا کیونکہ وہ کبھی بھی آسکتی تھی لیکن وہ ٹھیک اسی وقت آںئ جس وقت وہ پچھلی دفعہ آئی تھی۔ ملازم نے آکر اطلاع دی اور میں اٹھ کر ویٹنگ روم کی طرف چل دیا۔ چند ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا ' ہاں تو کیا پروگرام بنایا ہے آپ نے؟ کیا پلان ہے آپ کے پاس؟'


بتاتا ہوں۔' میں بولا۔ پھر کچھ دیر خاموش ہو گیا اور بڑی مشکل سے ہمت مجتمع کرکے دوبارہ بولا 'بات دراصل یہ ہے کہ میں کوںئ بھی حل تلاش نہیں کر سکا سواۓ ایک کے۔۔۔ میں آپ کو یہاں سے فرار تو آسانی سے کروا سکتا ہوں جو کہ شاید آپ خود بھی کر سکتی ہیں مگر مسئلہ وہی آجاتا ہے کہ آپ رہیں گی کہاں اور کس کے ساتھ۔ اس کا میرے پاس صرف ایک ہی حل ہے۔' میں خاموش ہو گیا۔


وہ بولی 'کیا'؟


وہ یہ کہ' میں پھر سے خاموش ہو گیا اور وہ بے چینی سے میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے کہا  'اگر ہم شادی ۔۔۔'


وہ ایک دم چونکی 'کیا؟ کیا کہا آپ نے؟'


میں نے بولنا چاہا لیکن مجھے لگا میری آواز خلق میں ہی اٹک کر رہ گئ ہے، میں بڑی مشکل سے بولا 'میں نے وہی کہا جو آپ سمجھی ہیں۔ دیکھیۓ اس کے علاوہ اس مصیبت سے نکلنے کا اور کوںئ حل نہیں۔'


لگتا ہے مجھے چلنا چاہیۓ' وہ اٹھ کر جانے لگی۔


میں نے آگے بڑھ کر اسے روک لیا اور اس کی منت کرکے اسے بڑی مشکلوں سے بٹھایا۔ میں نے کہا کہ 'آپ میری ایک دفعہ تسلی سے بات سن لیں اس کے بعد آپ گھر چلے جانا اور آرام سے سوچنا۔ فیصلہ تو آپ نے ہی کرنا ہے آپ تسلی سے سوچ کر فیصلہ کرنا جو بھی آپ چاہیں گی وہی ہو گا۔'


وہ بیٹھ گئ اور میری بات سننے لگی۔ میں نے اپنی بات شروع کی۔ 'میں نے جو حل تجویز کیا ہے میرے نزدیک تو وہ بہترین حل ہے نہ تو اس میں کوںئ براںئ ہے اور نہ ہی کوںئ مشکل۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ کے لیۓ اتنا آسان نہیں کیونکہ آپ مجھے ابھی ٹھیک طرح سے  جانتی بھی نہیں، تو اس کے لیۓ میں صرف یہ کہوں گا کہ میں آپ کو اپنے بارے، اپنے گھر بار، فیملی سب کی معلومات دوں گا، فون نمبرز، فوٹو گرافز جو کچھ بھی آپ چاہیں گی اور جو کچھ اس کے لیۓ ضروری ہو گا آپ کو مہیا کر دیا جاۓ گا۔ آپ کسی سے بھی تصدیق کروا سکتی ہیں۔ آپ اپنے کسی بھی قابل اعتبار آدمی کو میرے گھر بھیج کر پتہ بھی کروا سکتی ہیں۔ آپ پوری تحقیق کرکے سوچ بچار کرکے فیصلہ کرنا، میں نے تو صرف ایک تجویز پیش کی ہے اور میرے خیال ہے یہ ہی سب سے بہترین حل ہے۔'


میں اپنی بات مکمل کرچکا تو وہ کچھ سوچ میں پڑ گئ۔ میں بے چینی سے اس کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا پھر اس نے کہا 'ٹھیک ہے میں سوچ کر آپ کو بتاؤں گی۔' 


وہ اٹھ کر جانے لگی تو میں نے اس سے کہا 'ایک بات اور۔۔۔ یہ مت سمجھیۓ گا کہ صرف اس مجبوری کے تخت میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کا کوںئ اور حل نہیں تھا۔ ایسا نہیں ہے، میں یہ دل سے بھی چاہتا ہوں۔  ٹھیک ہے کہ میں نے یہ فیصلہ اتنی جلدی میں اس طرح مجبوری میں لیا ہے مگر اس کے پیچھے میری اپنی خواہش بھی ہے۔'


اس نے کوںئ جواب نہ دیا بس سر ہلایا اور چلی گئ۔ اگلے کئ روز تک میں بے صبری سے انتظار کرتا رہا مگر نہ وہ خود آںئ نہ اس کا کوںئ پیغام موصول ہوا۔ کافی دن گزر گۓ میں نے امید چھوڑ دی شاید اس کو میری یہ تجویز پسند نہیں آںئ تھی۔ لیکن میرا معمول ابھی بھی وہی رہا میں روزانہ شام سے پہلے قصبے کا ایک چکر ضرور لگاتا تھا اور کبھی کبھی رات کو پلیٹ فارم پر بھی چلا جاتا تھا اس امید کے ساتھ کہ شاید وہ کہیں دکھ جاۓ۔ موسم تبدیل ہو رہا تھا مگر ابھی سردی نہیں آںئ تھی رات کے وقت پلیٹ فارم پر تھوڑی بہت رونق ابھی بھی رہتی تھی۔ ایک رات مجھے نیند بالکل نہیں آرہی تھی اور طبیعیت بھی کچھ بے چین اور تھکی تھکی سی تھی، میں اٹھا سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا اور کمرے سے باہر آگیا، ٹہلتے ٹہلتے میں پلیٹ فارم پر پہنچ گیا۔ اس رات پلیٹ فارم پر صرف دو تین آدمی ہی تھی وہ بھی بنچوں پر بیٹھے اونگ رہے تھے۔ میں کنٹین کی طرف جانے کی بجاۓ مخالف سمت میں پلیٹ فارم پر چلنے لگا چلتے چلتے میں اسی جگہ آگیا جہاں میں ثانیہ سے پہلی بار ملا تھا جہاں مجھے ان دو حسین آنکھوں نے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا اور میں اس سحر کے اثر میں مبتلا ہو کر اس کے پیچھے چل دیا تھا۔ میں سر جھکاۓ پلیٹ فارم پر چلتا رہا۔ شاید وہ سیاہ تاریک رات ہی سحرزدہ تھی یا شاید اس پورے علاقے، پورے قصبے پر آسیبوں کا سایہ تھا۔ مجھے یہ قصبہ بالکل راس نہیں آیا اس لیۓ میں نے یہاں سے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ 


یہ جگہ کوںئ نارمل جگہ نہیں بلکہ آسیبوں کی نگری ہے، بھوتوں کا مسکن ہے، جنوں کی آماجگاہ ہے۔ یہاں سے مجھے چلے ہی جانا چاہیۓ یہ قصبہ جادو کے اثر میں ہے کسی بھیانک کالے جادو کے اثر میں اور اس پر منتر پڑھ کر پھونکنے والا دیو کہیں دکھاںئ نہیں دیتا صرف اس کی بھیانک آوازیں ڈراؤنی راتوں کی تاریکی میں سنائی دیتی ہیں۔' میں خیالوں میں گم چلتے چلتے  کافی دور تک نکل آیا۔ اس رات میں صبح پو پھٹنے تک وہاں ٹہلتا رہا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کے بعد میں کبھی یہاں نہیں آؤں گا۔


اگلے دن میں دفتر سے چھٹی کے بعد پلیٹ فارم سے باہر نکلا تو مجھے ایک لڑکی نے راستے میں روک لیا۔ میں نے غور سے دیکھا تو پہچان لیا یہ ثانیہ کی وہی دوست تھی جو بازار میں اس کے ساتھ آںئ تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ ثانیہ نے اسے یہاں بھیجا ہے اس نے کہا تھا کہ آپ سے دفتر میں ملنے مت جانا جب وہ چھٹی کرکے باہر نکلیں تب ان سے بات کرنا کیونکہ پہلے ہی وہ دو تین دفعہ آپ سے دفتر میں مل چکی ہے تو اگر اب میں بھی دفتر کے اوقات میں ملی تو لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔ 


میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ خود کیوں نہیں آںئ؟ وہ کہنے لگی کہ 'اس نے مجھے آپ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ سے آپ کی اور آپ کے خاندان کی ساری معلومات لے کر آؤں۔ اس کے والدین تو رہے نہیں اور باقی رشتے داروں کا قصہ تو آپ کو معلوم ہی ہے اس لیۓ آئندہ سے میں اور میرے گھر والے ہی آپ اور آپ کی فیملی سے سارے معمالات طے کریں گے۔'


اس نے بات ختم کی تو میں نے پوچھا' تو وہ معلومات لینے خود بھی تو آسکتی تھی؟'


 اس کا گھر سے نکلنا مشکل تھا اور وہ نہیں چاہتی کہ کسی کو بھی شک ہو، ہم سب کو اختیاط کرنے پڑے گی   آئندہ جو بھی معاملات ہوں وہ بالکل خفیہ رکھے جائیں اگر اس کے تایا کو اس کی بھنک بھی پڑ گئ تو سب کچھ بگڑ سکتا ہے۔' اس نے جواب دیا۔


میں نے کہا ' وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس کا مطلب ہے کہ اسے میری تجویز منظور ہے؟'


ہاں منظور تو ہے لیکن وہ کہتی ہے کہ پہلے آپ کے بارے میں سب کچھ جان لے پھر کوںئ فیصلہ کرے گی کیونکہ ہم میں سے کوںئ بھی آپ اور آپ کی فیملی کو نہیں جانتا اور نہ ہی آپ اس علاقے کے رہنے والے ہیں کہ کسی دوسرے سے پوچھ داچھ کی جا سکے۔' 


اس کے بعد میں نے اسے اپنے گھر کا پتہ، فون نمبر اور افراد خانہ کے نام بتاۓ جو اس نے اپنی ڈائری میں لکھ لیۓ۔ تقریباً ساری تفصیل جو اس وقت بتاںئ جاسکتی تھی میں نے اسے بتا دی۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ میں رات کو یہاں سے چلے جانے کا فیصلہ کر چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس مہینے کے ختم ہوتے ہی یہ نوکری اور یہ قصبہ چھوڑ کر چلا جاؤں گا مگر اب رکنا پڑے گا تب تک جب تک ثانیہ کا آخری فیصلہ نہیں آجاتا۔


کچھ دیر تک وہ یہاں رہی اور مجھ سے مزید چند باتیں پوچھنے کے بعد تانگے پر بیٹھی اور چلی گئ۔ اگلے کئ دنوں تک وقفے وقفے سے اس کی دوست اور اس کے گھر والوں میں سے کوںئ نہ کوںئ مجھے ملنے آتا رہا۔ وہ لوگ میرے گھر بھی گۓ کسی بہانے سے میرا گھر بار بھی دیکھا اور فیملی سے بھی ملے، ہم نے یہ بات پہلے ہی طے کر لی تھی کہ ابھی میرے گھر والوں کو کوںئ بات نہ بتاںئ جاۓ کیونکہ معمالہ ہی ایسا تھا مجھے ثانیہ کو لے کر یہاں سے رات کے اندھیرے میں فرار ہونا تھا ایسے میں بات جتنی خفیہ رکھی جاتی اتنا ہی بہتر تھا۔ جب انہوں نے میرے بارے میں ضروری معلومات حاصل کر لیں تب ہم نے اگلا منصوبہ تیار کرنا شروع کیا۔ کافی سوچ بچار کے بعد یہ طے ہوا کہ ہمارا نکاح ثانیہ کی دوست کے گھر اس کی امی، ابو اور دوسرے گھر والوں کی موجودگی میں دن کے وقت ہو گا اور پھر اسی رات کو مقررہ وقت پر ثانیہ کسی بہانے سے گھر سے نکلے گی اور ریلوے اسٹیشن پر مجھ سے ملے گی جہاں میں نے ضروری سامان اور ٹکٹس کا پہلے ہی بندوبست کر رکھا ہو گا اور ہم بغیر کوںئ لمحہ ضائع کیۓ ٹرین میں سوار ہو کر اس قصبے سے نکل جائیں گے۔ دو تین دن مزید ایسے ہی کچھ ضروری بندوبست کرتے گزر گۓ۔ جیسے جیسے مقررہ دن قریب آرہا تھا ہماری بے چینی اور خوف بڑھتا جارہا تھا۔ آخر وہ دن آہی گیا۔ اس دن دفتر سے چھٹی تھی میں نے جان بوجھ کر چھٹی کا دن مقرر کیا تھا تا کہ خود چھٹی کرنے کی وجہ سے دفتر کسی کے بھی ذہن میں کوںئ بھی شک پیدا نہ ہو۔ ہم حد سے زیادہ مختاط تھے کیونکہ حاجی نعمت اللّٰه‎ کے آدمی ہر جگہ موجود تھے کسی کو بھی ذرہ سی بھنک بھی پڑ جاتی تو معمالہ گڑ بڑ ہو سکتا تھا۔ 


دن بارہ بجے کا وقت مقرر تھا میں اپنے معمول کے لباس میں گھر سے نکلا اسٹیشن کی عمارت کے بالکل سامنے سے تانگے پر بیٹھا اور قصبے کی طرف چل دیا۔ میں نے بے حد کوشش کی تھی کہ میری وضع قطع سے بالکل بھی یہ نہ لگے کہ میں شادی کرنے جارہا ہوں بلکہ یوں لگے کہ میں ایسے ہی اپنے کسی معمول کے کام سے جارہا ہوں۔ تانگا قصبے کے پاس آیا تو میں جان بوجھ کر کچھ پیچھے اتر گیا اور ایک دکان میں گھس گیا۔ اس سے گولڈلیف کا ایک پیکٹ مانگا اور ایسے ہی اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا میں نے دکان کے اندر ہی کھڑے ہو کر دو چار کش لگاۓ اور اس سے دو تین باتیں کرنے کے بعد باہر نکل آیا۔ باہر نکل کر میں اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ ثانیہ کی دوست کے گھر میں ان دنوں میں کئ بار آیا تھا ہم نے اس کے بعد جتنے پروگرام اور منصوبے بناۓ تھے سب ثانیہ کی دوست جس کا نام ہما تھا کے گھر میں ہی بناۓ تھے۔ ہمہ اور ا سکے گھر والوں نے اپنے محلے والوں اور جاننے والوں میں جس کسی نے بھی  پوچھا مجھے اپنا رشتہ دار اور کزن کہہ کر متعارف کروایا۔ دو تین بار ثانیہ بھی مجھ سے یہاں ملنے آںئ۔ وہ چند ملاقاتیں میری زندگی کی یادگار ترین ملاقاتیں تھیں اور میرے سب سے خوشگوار دن تھے۔ 


میں نے ان کے گھر کے پاس پہنچ کر آخری کش لگایا اور سگریٹ پھینک دیا۔ سب انتظامات پہلے ہی مکمل تھے میرے پہنچنے پر بغیر کوںئ وقت ضائع کیۓ نکاح ہوا اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد میں چپ چاپ جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس لوٹ گیا۔ اپنے کوارٹر پر پہنچ کر میں نے سکون کا سانس لیا۔ ایک مرحلہ تو ہم نے سر کر لیا تھا مگر ابھی بڑا مرحلہ باقی تھا ابھی ہم نے محظ ایک چھوٹا سا ٹیلا سر کیا تھا جبکہ ابھی پورا پہاڑ عبور کرنا باقی تھا۔ یہی وہ پہاڑ تھا جس کی وجہ سے ہماری نیندیں اڑی ہوںئ تھیں۔ آج کی رات بہت مشکل تھی اگر ہم پکڑے گۓ تو انجام کیا ہونا تھا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ میں سارا دن کمرے سے باہر نہیں نکلا بس کمرے میں ہی رہ کر بے چینی سے انتظار کرتا رہا۔ زیادہ بے چینی ہوتی تو اٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیتا۔ دن ڈھلا رات ہو گئ مگر میں اپنے کمرے میں ہی رہا معلوم نہیں کیوں مجھے باہر نکلنے سے خوف محسوس ہو رہا تھا جیسے میں باہر نکلا تو کچھ ہو جاۓ گا۔ مجھے بھوک لگی تھی مگر میں کھانا کھانے بھی باہر نہیں گیا میرے پاس کچھ بسکٹ اور کھانے کی ایک دو چیزیں پڑیں تھیں میں نے انہیں پر گزارا کیا۔ 


رات کو جب مقررہ وقت قریب آیا تو میں نے اٹھ کر بیگ میں کپڑے اور چند ضروری چیزیں رکھیں اور تیاری مکمل کرکے بیٹھ گیا۔ اب مجھے ثانیہ کا انتظار تھا۔ میں نے اس سے کہا بھی تھا کہ میں اسے لینے آجاؤں گا اور ہم دونوں چھپ کر کسی طرح اسٹیشن آجائیں گے مگر اس نے کہا کہ اگر آپ کو قصبے میں کسی نے میرے ساتھ دیکھ لیا تو ہم پکڑیں جائیں گے اس لیۓ میں کسی طرح اکیلی ہی وہاں سے نکلوں گی۔


میں نے اٹھ کر کمرے میں ہی ٹہلنا شروع کر دیا جب طے شدہ وقت میں دس منٹ رہ گۓ تو میں کوارٹر سے نکل آیا اور اسٹیشن کی طرف چل دیا۔ میں اسٹیشن کے دروازے سے ذرہ ہٹ کر اندھیرے میں کھڑا ہو گیا۔ مجھے اگر دفتر کے عملے میں سے کوںئ شخص بیگ اٹھاۓ دیکھ بھی لیتا تو پریشانی کی بات نہیں تھی کیونکہ پہلے بھی جب کبھی میں اپنے شہر جاتا تھا اسی طرح جاتا تھا اور زیادہ تر اسی وقت جاتا تھا لیکن پھر بھی میں یہی چاہتا تھا کہ بہتر یہی ہے کہ کسی کی نظر مجھ پر نہ ہی پڑے۔ وقت کافی ہو چکا تھا مگر وہ ابھی تک نہیں آںئ تھی مجھے کچھ پریشانی ہونے لگی، اب تک تو اسے آجانا چاہیۓ تھا۔ گاڑی کے آنے کا وقت بھی بس ہونے ہی والا تھا۔ کچھ دیر بعد گھوڑے کے قدموں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں یعنی کوںئ تانگہ آرہا تھا مگر فاصلے اور اندھیرے کی وجہ سے وہ مجھے ابھی دکھاںئ نہیں دیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ تانگے سے آۓ گی یا پیدل آۓ گی۔ تانگہ روشنی میں آیا تو میں نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر سواۓ تانگے والے کوچوان کے جو ہاتھ میں باگیں تھامے آگے بانس پر بیٹھا تھا اور کوںئ دکھاںئ نہ دیا۔ چند لمحوں بعد تانگا قریب آکر  رکا، اس میں سے چند سواریاں اتریں انہیں میں سے ایک ثانیہ بھی تھی۔ اسے دیکھ کر اپنے آپ میرے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئ۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور شکر ادا کیا کہ وہ خیر خیریت سے پہنچ گئ۔ اب ہمیں بس گاڑی کا انتظار تھا جلدی سے گاڑی آۓ اور ہم سوار ہو کر یہاں سے نکل جائیں۔ ہم پلیٹ فارم میں آگۓ اور اندھیری اور ویران جگہ پر کھڑے ہوۓ تا کہ دور سے ہمیں کوںئ دیکھ کر پہچان نہ لے۔ ثانیہ وہاں سے تو آگئ تھی مگر ابھی مصیبت ٹلی نہیں تھی جب تک ہم گاڑی میں بیٹھ کر یہاں سے نکل نہیں جاتے تب تک خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ انتظار کافی لمبا ہوتا جا رہا تھا ایسے لگتا تھا جیسے وقت رک گیا ہے یا بہت ہی آہستہ چل رہا ہے ایک سیکنڈ بھی ایک گھنٹے کے برابر ہو گیا تھا۔ مزید کوںئ دس منٹ انتظار کرنے کے بعد بالآخر گاڑی کی سیٹی سناںئ دی ، تھوڑی دیر بعد اندھیرے میں گاڑی کی بتی کی روشنی ایک چھوٹے سے نقطے کی طرح دکھاںئ دینے لگی، جیسے جیسے گاڑی قریب آتی گئ نقطہ بڑا ہوتا گیا اور سیٹی کی آواز بلند ہوتی گئ اور آخر میں گاڑی پلیٹ فارم پر آلگی۔ جہاں سے سیٹی کی آواز آنا شروع ہوںئ تھی وہاں سے لے کر گاڑی کے پلیٹ فارم میں آنے تک بمشکل تین سے چار منٹ لگے ہوں گے مگر ہمیں لگا صدیوں بعد گاڑی یہاں پہنچی ہے۔ گاڑی جیسے ہی رکی ہم آگے بڑھے مگر اس سے پہلے کہ کہ ہم گاڑی میں سوار ہو پاتے پیچھے سے شور اٹھا 'وہ رہے پکڑ لو انہیں۔' ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئ اتنی اختیاط کے باوجود بھی نجانے انہیں کیسے خبر ہو گئ تھی۔ اب کچھ بھی کرنا بیکار تھا وہ چار پانچ لوگ تھے اور انہوں نے ہاتھ میں بندوقیں پکڑ رکھی تھیں انہوں نے ہمیں فوراً گھیر لیا۔ اگر میں فلمی ہیرو ہوتا تو یقیناً اچھل کر ایک دو کو کک رسید کرتا اور ہواںئ جمپ مار کر چاروں پانچوں کو وہیں ڈھیر کر دیتا اور اپنی ہیروئن کو بچا کر لے جاتا مگر مسئلہ یہ تھا کہ میں فلم کا کوںئ ہیرو نہیں بلکہ ایک معمولی آدمی تھا اور یہ کسی فلم کا منظر نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ اس لیۓ خاموشی سے ان کے ساتھ جانا پڑا۔


 وہ لوگ ہمیں وہاں سے لے کر پلیٹ فارم کے باہر آگۓ جہاں تین چار جیپیں اور دوسری گاڑیاں کھڑی تھیں انہوں نے ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی، معلوم نہیں کن اندھیرے اور ویران راستوں سے ہوتے ہوۓ وہ ہمیں ایک حویلی میں لے آۓ۔ انہوں نے ہماری پٹی کھولی تو میں نے اردگرد دیکھ کر اندازہ لگایا کہ یہ حویلی اس حویلی سے مختلف تھی جہاں انہوں نے ہمیں پہلے رکھا تھا۔ حاجی نعمت الا کندھے پر چادر ڈالے دونوں ہاتھ پیچھے باندھے ہماری طرف پیٹھ کرکے کھڑا تھا۔ اس کے  پہرے دار دونوں طرف ذرہ ہٹ کر فاصلے پر کھڑے تھے۔ اس نے دھیرے سے رخ ہماری طرف کیا اس کی آنکھوں میں وخشت تھی۔ وہ آہستہ سے چل کر ہمارے پاس آیا، مجھے گھور کر دیکھا اور چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا 'میں نے تم سے کہا تھا کہ اگر دوبارہ تم کسی جرم میں یہاں آۓ تو کبھی زندہ واپس نہیں جا پاؤ گے، لیکن تم باز نہیں آۓ اور اس دفعہ تو تم نے جرم بھی پہلے سے کئ گناہ سنگین کیا ہے جس کی معافی  تمہیں نہیں مل سکتی۔'


یہ بات سن کر ثانیہ رونے لگی اور کہنے لگی 'انہیں معاف کر دیں کیونکہ ان کا کوںئ قصور نہیں میں ان کے پاس گئ تھی، میں نے انہیں مجبور کیا تھا کہ یہاں سے بھاگنے میں میری مدد کریں۔ خدا کے لیۓ انہیں چھوڑ دیں آپ نے جو بھی سزا دینی ہے مجھے دیں۔' وہ گڑگڑا کر منتیں کرنے لگی۔ 


حاجی نعمت الا نے کڑکتی ہوںئ آواز میں اپنے ملازم سے کہا 'اسے لے جاؤ اور کچھ دن کے لیۓ کمرے میں بند کردو آج کے بعد یہ اس حویلی کی چار دیواری سے کبھی باہر نہیں جانی چاہیۓ۔ یہ پوری زندگی اسی حویلی میں گزارے گی۔' 


مسلح پہرے دار آگے بڑا اور اسے ایک طرف کو گھسیٹنے لگا۔ پھر حاجی نعمت الا دوسرے ملازم سے مخاطب ہوا 'اس لڑکے کو بھی لے جاؤ اور اسے مار کر اس کی لاش دریا میں پھینک دو۔'


ثانیہ نے یہ سنا تو چیخنے لگی 'نہیں ایسا مت کریں یہ ظلم ہے اس کا کوںئ قصور نہیں آپ مجھے جان سے مار دیں پر انہیں جانے دیں۔' وہ بار بار چلاتی رہی لیکن آدمی اسے گھسیٹ کر اندر لے گیا وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئ لیکن اس کی آواز کافی دیر تک سناںئ دیتی رہی۔ اس کے جانے کے بعد دو آدمی مجھے لے کر حویلی سے باہر آگۓ۔ انہوں نے مجھے جیپ میں ڈالا اور کسی ویران جنگل میں لے آۓ، کہیں پاس ہی تیز دریا کے بہنے کا شور سنائی دے رہا تھا۔ یہاں انہوں نے میری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی اور مجھے جیپ سے اتار کر ایک طرف کھڑا کر دیا۔ مجھے ایک آدمی کے قدموں کی آواز آںئ، پھر گولی چلنے کی، اس کے بعد میں گر پڑا۔ ان دونوں نے جلدی سے مجھے اٹھایا اور نیچے گہرے دریا میں پھینک دیا۔ جب ثانیہ کو پتہ چلا کہ انہوں نے مجھے مار دیا ہے تو وہ گڑگڑا کر روتے ہوۓ کہنے لگی  'سارا قصور میرا تھا اگر میں ان کی بات نہ مانتی تو ایسا نہ ہوتا۔ سب میری وجہ سے ہوا ہے مجھے انہیں ہاں کرنی ہی نہیں چاہیۓ تھی۔' اس کے بعد اس نے خود کشی کر لی۔


سرفراز اٹھا اور ایک طرف کھڑا ہو کر بولا 'میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ ہوا خدا کو یہی منظور تھا اور خدا ہی ہمارے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بنا کیونکہ اس کا منصوبہ کچھ اور تھا لیکن اگر یہ سب خدا کے منصوبے کے مطابق ہوا ہے اور اس کو یہ سب منظور تھا تو ایسے خدا کو ماننے سے میں انکار کرتا ہوں۔


 اختر نے پوچھا ' وہ سب تو ٹھیک ہے پر تم زندہ کیسے بچے انہوں نے تو تمہیں گولی مار کر دریا میں پھینک دیا تھا؟'


تمہیں کس نے کہا کہ میں زندہ بچا۔' سرفراز بولا۔


کیا مطلب؟' اختر نے خیرت سے پوچھا۔


سرفراز ہلکا سا ہنسا پھر اٹھا اور چند قدم دور جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے اردگرد سے سفید دھواں سا نکلنے لگا سرفراز اس دھند، اس دھویں میں غائب ہو گیا۔ وہ تینوں اپنی سیٹوں سے اچھل کر کھڑے ہو گۓ، وہ دھند کی طرف بڑھے جس میں سرفراز غائب ہوا تھا مگر وہاں کوںئ نہیں تھا۔














 






 






 


 














 






Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات