Drizzling Of Love

Drizzling Of Love






 کردار


عمار: چالیس بیالیس سال کا ایک میچور عمر کا لڑکا یا آدمی، پیشے سے وکیل۔


عمارہ: تقریباً اتنی ہی عمر کی میچور خوبصورت لڑکی، 


صدیقی: عمارہ کا انکل پیشے سے وکیل۔


بابا: عمار کا ملازم


ثانیہ: عمارہ کی سات سال کی بیٹی


تانیہ: عمارہ کی دوست


امی: عمارہ کی امی


عمار اور عمارہ کے ماں باپ اور چند دوسرے کردار


پہلا منظر


عمار اپنے چیمبر میں بیٹھا ہے، وکیلوں کا لباس پہنے ہوۓ ہے۔ اس کے کنپٹیوں پر چند سفید بال ہیں اور شیو بڑھی ہوںئ ہے مگر اچھی لگ رہی ہے، فائل پر جھکا ہوا انہماک سے کوںئ کیس اسٹڈی کر رہا ہے۔ ہاتھ میں پینسل ہے جسے بے دھیانی میں انگلیوں میں پھنساۓ ہوۓ گھماۓ جا رہا ہے۔ عمارہ دفتر میں داخل ہوتی ہے۔ جینز شرٹ میں ملبوس ہے۔ آنکھوں پر نظر کا چشمہ ہے جس سے وہ کچھ بڑی عمر کی میچور لیکن خوبصورت دکھاںئ دیتی ہے۔ موبائل کانوں کو لگاۓ ہے اور بات کرتی اندر داخل ہوتی ہے۔


عمارہ: (اندر داخل ہوتے ہوۓ فون پر) جی جی میں صدیقی صاحب سے مل کر آپ سے بات کرتی ہوں۔۔۔ (فون بند کر دیتی ہے اور عمار کو مخاطب کرتی ہے)


ایکسکیوز می! کیا آپ بتا سکتے ہیں صدیقی صاحب کہاں ملیں گے؟


(عمار سر اٹھا کر اسے دیکھتا ہے اور پھر دیکھتا ہی چلا جاتا ہے)


عمارہ:  معاف کیجیۓ گا میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا  کیا آپ صدیقی صاحب کا پتہ بتا سکتے ہیں؟


عمار: (فائل بند کر دیتا ہے) بالکل بتا سکتا ہوں لیکن ایک شرط پر۔۔۔


عمارہ: (خیرت سے) شرط؟


عمار: جی ہاں شرط۔ وہ یہ کہ پہلے آپ کو میرے پانچ سو روپے واپس کرنے پڑیں گے جو آپ نے وعدہ کرکے مجھے لٹاۓ نہیں۔


عمارہ: (خیرت سے) میں نے آپ سے کب لیۓ پانچ سو رو۔۔۔(غور سے اس کی طرف دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرتی ہے) آپ کون ۔۔۔(پہچان کر) عمار تم۔۔۔


(عمار مسکراتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے)


عمار: جی ہاں میں مس عمارہ الیاس۔ 


عمارہ: واٹ اے کو انسی ڈنٹ! قسم سے ابھی کل ہی میں اپنے کبٹ میں سے کوںئ چیز ڈھونڈ رہی تھی جہاں مجھے وہ تمہارا پانچ سو کا نوٹ دکھاںئ دیا جس پر تمہارے دستخط تھے۔ میں نے اسے اٹھا کر اپنے بیگ میں رکھ لیا اور آج تم سے ملاقات ہو گئ ، مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا، اتنے برسوں بعد تم سے یوں ملاقات ہو رہی ہے۔ کتنا وقت گزر گیا نا؟


عمار: ہاں وقت تو بہت گزر گیا۔ 


عمارہ: یونیورسٹی کے بعد یہ ہماری پہلی ملاقات ہے، ہے ناں؟


عمار:  ملاقات ہوتی بھی کیسے تم تو فائنل ایگزیمز دینے کے بعد ایسے غائب ہوںئ کہ جیسے تم انتظار ہی ا اسی بات کا کر رہی تھی کہ کب فائنل اگزیم ہوں اور کب تم یہاں سے جاؤ۔


عمارہ: اب تمہیں کیا بتاؤں! فائنل کے فوراً بعد ابو کی کراچی میں شفٹنگ ہو گئ اس کے بعد زندگی میں ایسی الجھی کہ کچھ ہوش ہی نہ رہا۔۔۔ خیر تم سناؤ تمہاری کیسی گزری؟ (اردگرد دیکھ کر) بڑا اچھا چیمبر بنا لیا ہے اس کا مطلب ہے تمہاری وکالت خوب چل رہی ہے۔


عمار: ہاں اب تو کام چل ہی پڑا ہے لیکن شروع شروع میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ پر میری چھوڑو تم بتاؤ۔۔۔ لیکن پہلے تم بیٹھو تو سہی بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔


عمارہ: بیٹھ تو جاؤں لیکن مجھے صدیقی صاحب سے جلدی ملنا ہے۔


عمار: مل لینا صدیقی صاحب سے بھی ، کچھ دیر بیٹھ جاؤ  پھر میں تمہیں خود صدیقی صاحب کے چیمبر تک چھوڑ آؤں گا۔ اتنے برسوں بعد ملاقات ہوںئ ہے تو ایک کپ چاۓ تو پی کر جاؤ۔


عمارہ: (بیٹھتے ہوۓ) اچھا ٹھیک ہے پر زیادہ دیر نہیں، اب تو میں لاہور میں ہی آگئ ہوں تو ملاقات ہوتی رہے گی۔


عمار: یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے، تو کہاں ٹھہری ہو؟


عمارہ: فی الحال تو دوست کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں ٹھہری ہوں۔ 


عمار: ہوں۔۔۔


عمارہ: سو تو کیسی گزری لائف۔۔۔ شادی کی؟


عمار: ہاں کی تھی۔


عمارہ: تھی! تھی سے کیا مراد؟


عمار:  شادی کے کچھ ہی عرصے بعد ہم الگ ہو گۓ۔


عمارہ: اوہ! لیکن کیوں؟


عمار: اب اس کیوں کا جواب میں کیا دوں۔ شاید کبھی کبھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا اور سب کچھ بدل جاتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب میلوں تک پکی سڑک پر چلنے والے مسافر کچے پر اتر جاتے ہیں، معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ سیدھے اور سموتھ راستے پر دوڑنے والی گاڑی بغیر کسی کوتاہی کے کیسے حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔۔۔ہمارے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا ہم دونوں بھی چلتے رہے مگر شاید جلدی تھک گۓ، مزید سفر جاری رکھنے کی ہمت ہم میں نہ رہی تھی اسی لیۓ بیچ راستے میں سے ہی لوٹ آۓ۔


عمارہ: تمہیں اس کا افسوس نہیں ہوا؟


عمار: ہوا۔۔۔افسوس تو ہوا لیکن کوںئ پچھتاوا نہیں  شاید ہم نے بہتر فیصلہ ہی کیا اور برقت کیا، تاخیر ہوتی تو زیادہ خرابی ہوتی۔۔۔ خیر تم بتاؤ تمہاری شادی ہوںئ؟


عمارہ: میری بھی شادی ہوںئ تھی۔


(عمار خیرانی سے دیکھتا ہے)


عمارہ: (جاری رکھتے ہوۓ) ہم دونوں بھی جلد الگ ہو گۓ۔ لیکن میری اور تمہاری کہانی میں فرق یہ ہے کہ تم لوگ اپنی مرضی سے جدا ہوۓ اور ہم لوگوں کو قدرت نے الگ کیا۔ وہ آرمی آفیسر تھے شادی کے چند سال بعد ہی بارڈر پر ایک جھڑپ میں۔۔۔ (جملہ مکمل نہیں کر پاتی)


(چند لمحے خاموشی رہتی ہے)



عمار: (موضوع بدلتے ہوۓ) اچھا میں نے تم سے پوچھا ہی نہیں چاۓ پیو گی یا کافی؟


عمارہ: نہیں میرا خیال ہے اب مجھے چلنا چاہیۓ ابھی صدیقی صاحب سے بھی ملنا ہے اور میری چھوٹی بیٹی بھی میرا انتظار کر رہی ہو گی ابھی اسے میں اپنی دوست کے پاس چھوڑ آںئ ہوں لیکن اگر زیادہ دیر ہو گئ تو ضد کرے گی۔


عمار: تمہاری بیٹی ہے؟


عمارہ: ہاں چھوٹی ہے ابھی سات سال کی۔ (اٹھتے ہوۓ) اب میں چلتی ہوں پھر آؤں گی۔


عمار: کافی تو پی جاتی ایسے ہی جا رہی ہو تو مجھے برا لگ رہا ہے۔


عمارہ: برا کیوں لگ رہا ہے یہ تم کب سے تکلف میں پڑنے لگے؟


عمار: تکلف میں تو تم پڑ رہی ہو جو صرف ایک کپ کافی کی پیشکش بھی قبول نہیں کر رہی۔


عمارہ: اچھا چلو اگلی بار آںئ تو ضرور پی کر جاؤں گی۔ آئندہ ملاقات ہو گی لیکن تمہارے اس سڑے ہوۓ آفس میں نہیں بلکہ کسی اچھی سی جگہ میں ملیں گے۔


عمار: چلو ٹھیک ہے ڈن۔


عمارہ: (انگوٹھے کے اشارے سے) بالکل ٹھیک ڈن۔۔۔ اب جلدی سے مجھے صدیقی صاحب کے آفس کا پتہ بتاؤ  تا کہ میں جاؤں۔


عمار: بتاتا ہوں بلکہ تمہیں خود چھوڑ کے آتا ہوں لیکن پہلے یہ تو بتاؤ تم صدیقی صاحب کو کیسے جانتی ہو؟


عمارہ: میں انہیں تب سے جانتی ہوں جب وہ کراچی میں تھے۔ ان کے پاس میں نے شادی سے پہلے کچھ عرصے کے لیۓ وکالت کی پریکٹس شروع کی تھی پھر جلد ہی چھوڑ دی۔


عمار: کیوں چھوڑ کیوں دی؟


عمارہ: بس گھر والوں نے پکڑ کر شادی کر دی تو اس کے بعد پھر۔۔۔


عمار: (بات کاٹ کر مذاق کے انداز میں) اس کے بعد تمہارے اس فوجی نے قدغن لگا دی ہو گی کہ خبردار پریکٹس جاری رکھنے کی ضرورت نہیں گھر میں بیٹھو۔


عمارہ: نہیں ایسی بات نہیں اس نے قدغن نہیں لگاںئ بس میرا اپنا من ہی نہیں کیا۔ شادی کے بعد مصروفیات ہی کچھ ایسی ہو گئیں۔


عمار: اچھا! میں تو سمجھا کہ کہیں اس نے تمہیں آرڈر دیتے ہوۓ یہ نہ کہا ہو کہ خبردار اس مورچے کے باہر قدم رکھا تو تمہارے اوپر ٹینک چڑھا دوں گا۔



عمارہ: (ہنستی ہے) سیدھا ٹینک ہی۔۔۔ کوںئ چھوٹی موٹی چیز تمہارے ذہن میں نہیں آںئ۔


عمار: اب فوجی کے لیۓ تو ایسی ہی چیزیں ذہن میں آئیں گی، اس نے ٹینک چڑھا دیا، میزائل داغ دیا یا۔۔۔


عمارہ: (بات کاٹ کر) یا ایٹم بم چلا دیا۔ ہے نا؟


عمار: (ہنستا ہے) ہاں بالکل۔


عمارہ: ٹھیک ہے اب بکواس بند کرو اور چلو مجھے دیر ہو رہی ہے۔


عمار: (چلتے ہوۓ) اچھا یار چلو ایک تو تمہیں آج جلدی  بہت ہے۔


عمارہ: (باہر نکلتے ہوۓ) ہاں جلدی ہے اسی لیۓ تو کب سے کہہ رہی ہوں۔


(دونوں باتیں کرتے کرتے باہر نکل جاتے ہیں)


دوسرا منظر


صدیقی صاحب اپنے چیمبر میں بیٹھے ہیں، کمرا کچھ بڑا ہے ان کے پیچھے اور اردگرد الماریاں لاء  کی کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان کے سامنے میز کے دوسری طرف تین چار اور آدمی بیٹھے ہیں۔ صدیقی صاحب ان سے باتیں کر رہے ہیں۔ 


 آدمی: بالکل صدیقی صاحب آپ کی بات بجا ہے لیکن کبھی کبھی اچھے مقصد کے لیۓ ایسا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، آپ طریقہ کار کو چھوڑیں آپ یہ دیکھیں کہ مقصد تو صحیح ہے، ارادہ تو نیک ہے، طریقہ کار غلط ہے تو کیا ہوا۔


صدیقی: بھئ شوکت صاحب! یہی بات تو میں عرض کررہا ہوں کہ طریقہ کار غلط ہونے سے کبھی بھی اچھا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ آپ اس بات کو تو مانتے ہیں کہ یہ کائنات خدا کے بناۓ ہوۓ قوانین سے چل رہی ہے جیسا کہ یہ قانون کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کی مخصوص مقدار مل کر پانی بناتی ہیں؟


آدمی: بالکل ایسا ہی ہے۔


صدیقی: لیکن اگر ان کی مقدار کو کم یا زیادہ کردیا جاۓ یا ان گیسوں کو بدل دیا جاۓ تو کیا پانی بنے گا؟


آدمی: نہیں! بالکل نہیں بنے گا۔


صدیقی: اس لیۓ نہیں بنے گا کیوں کہ وہ طریقہ کار غلط تھا، بالکل اسی طرح انسانوں کے لیۓ بھی خدا کے  قوانیں ہیں جن کی پیروی کرنا لازمی ہے۔ اگر آپ خیر یا بھلاںئ کا مقصد لے کر چلتے ہیں تو پھر آپ کو یہاں بھی خدا کے قانون کے مطابق چلنا پڑے گا، آپ کو طریقہ کار بھی مثبت اختیار کرنا پڑے گا منفی طریقہ کار سے آپ کبھی خیر برآمد نہیں کر سکتے۔ غلط طریقہ کار سے آپ اپنا کوںئ ذاتی مفاد تو حاصل کر لیں گے لیکن اس سے کبھی کوںئ بھلاںئ کا پہلو نہیں نکلے گا اس سے ہمیشہ بگاڑ ہی پیدا ہو گا۔ اسی لیۓ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مقصد کا نیک ہونا یا بھلاںئ کا ارادہ رکھنا ہی کافی نہیں بلکہ آپ کا طریقہ کار بھی مثبت اور اچھا ہونا چاہیۓ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کی منزل تو دوسروں کی بھلاںئ ہو، خیرخواہی ہو لیکن راستہ آپ براںئ والا اختیار کریں تو آپ کو منزل مل جاۓ؟ تخریبی طریقہ کار سے فساد تو برپا ہو سکتا ہے تباہی تو آسکتی ہے کبھی تعمیر ممکن نہیں۔ اگر آپ کسی نیک مقصد کے لیۓ بھی جھوٹ بولیں گے یا منفی ہتھکنڈے اپنائیں گے تو بھی اس کا نتیجہ برا ہی نکلے گا۔


(عمارہ کمرے میں جھجھکتے ہوۓ داخل ہوتی ہے)


صدیقی: (عمارہ کو دیکھ کر) آؤ آؤ عمارہ بیٹی آجاؤ۔۔۔ (پیچھے اشارہ کرکے) اندر بیٹھو میں ابھی آیا۔ 



(عمارہ چل کر کتابوں کی الماریوں کے پیچھے دوسری طرف غائب ہو جاتی ہے)


آدمی: (اٹھتے ہوۓ) اچھا صدیقی صاحب ہمیں اجازت دیجیۓ۔ ابھی آپ اپنے مہمان سے ملیۓ آپ سے پھر ملاقات ہو گی۔ 


دوسرا آدمی:  شام کو کلب میں آئیں گے؟


صدیقی: (کھڑے ہو کر) نہیں شاید کچھ دنوں تک نہ آ پاؤں۔ چھوٹی بچی کی شادی ہے تو گھر میں کچھ مصروفیات رہیں گی ، اس کے بعد باقاعدگی سے آؤں گا۔


آدمی: چلیں ٹھیک ہے پھر ملاقات ہو گی۔


(سب باہر نکل جاتے ہیں، صدیقی عمارہ کو آواز دیتا ہے)


صدیقی: (قدرے بلند آواز سے) عمارہ یہیں آجاؤ۔


(عمارہ آکر اس کے سامنے بیٹھ جاتی ہے)


عمارہ: (شرارت سے) کیا حال ہے انکل؟ اب تو میں آپ کو انکل ہی بلاؤں گی کیونکہ اب میں آپ کی اسسٹنٹ نہیں رہی۔


صدیقی: (مسکراتے ہوۓ) اچھی بات ہے تم مجھے انکل ہی بلاؤ کیونکہ تم میرے لیۓ میرے دوست کی بیٹی اور میری بھتیجی پہلے سے ہو جبکہ میری اسسٹنٹ بعد میں بنی تھی۔ ویسے کیا حال ہے تمہارے ابو کا کافی دن ہو گۓ ان سے بات نہیں ہو پاںئ خیریت سے ہیں؟


عمارہ: جی بلکل ٹھیک ٹھاک ہیں کہہ رہے تھے جب صدیقی صاحب سے ملی تو میرا سلام دینا۔


صدیقی: وہ تو ٹھیک ہے لیکن صرف سلام ہی بھیجتے جا رہے ہیں خود کب آئیں گے؟


عمارہ: اب یہ تو وہ ہی بتا سکتے ہیں کب آئیں گے۔



صدیقی: چلو میں خود ہی بات کر لوں گا ان سے اور تم  سناؤ تم آج کل کیا کر رہی ہو؟ لاہور کیسے آنے ہوا؟


عمارہ: کسی خاص مقصد کے لیۓ نہیں آںئ انکل۔ بس مجھے کچھ چینج چاہیۓ تھی تو یہاں رہنے کے لیۓ آگئ، ان کے جانے کے بعد وہاں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا تو سوچا کچھ عرصے کے لیۓ آب و ہوا بدل کر دیکھتے ہیں۔


صدیقی: اچھی کیا بہت اچھا کیا۔۔۔(کچھ سوچ کر) ویسے اگر میری مانو تو پھر سے میرے ساتھ وکالت کی پریکٹس شروع کر دو۔۔۔ میں تمہیں یہ تو نہیں کہوں گا کہ تم سب کچھ بھلا دو اور اپنی آگے کی زندگی کے بارے میں سوچو ایسا کہنا تو آسان ہوتا ہے پر کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں انسان کی زندگی میں بعض حادثے ایسے ہوتے ہیں جنہیں بھلانا ممکن نہیں ہوتا لیکن میں صرف یہ کہوں گا کہ جو کچھ بھی ہے بس زندگی رکنی نہیں چاہیۓ وہ چلتی رہنی چاہیۓ۔۔۔ میرے خیال میں تمہارے لیۓ اس وقت بہتر آپشن یہی ہے کہ تم پھر سے وکالت شروع کر دو۔


عمارہ: جی انکل آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن ابھی تو یہاں آںئ ہوں سوچوں گی اس بارے میں بھی۔ کچھ تو کرنا ہی ہے تو شاید یہی کر لوں ، ابھی بیٹی بھی چھوٹی ہے دیکھتی ہوں کیا بہتر رہے گا۔


صدیقی: ہاں ضرور دیکھو اور اگر اسی شہر میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی کرنا چاہتی ہو تو بلا جھجھک مجھے بتا دینا میں کوںئ نہ کوںئ مناسب بندوبست کر دوں گا۔


عمارہ: جی انکل اگر کوںئ ضرورت پڑی تو آپ سے رابطہ کروں گی۔ (اٹھتے ہوۓ) اچھا اب مجھے اجازت دیجیۓ میں بس آپ سے ملنے آںئ تھی پھر کسی دن حاضر ہوں گی۔


صدیقی:  ارے ایسے کیسے نہ پانی نہ چاۓ ابھی تو آںئ ہو کچھ دیر بیٹھو چاۓ پانی پی کر جاؤ۔



عمارہ: نہیں انکل ابھی مجھے جلدی ہے پھر آؤں گی تو چاۓ وغیرہ پی کر جاؤں گی۔


صدیقی: (کھڑے ہو کر) ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی، چکر لگاتے رہنا۔


عمارہ: ہاں جی ضرور لگاؤں گی۔۔۔۔ ٹھیک ہے پھر میں چلتی ہوں۔ خدا خافظ



صدیقی: خدا خافظ۔


(باہر نکل جاتی ہے)


تیسرا منظر


شام سے پہلے کا وقت ہے، عمار اپنے گھر کے لان میں بیٹھا کسی سوچ میں گم ہے۔ اردگرد درختوں سے چڑیوں اور پرندوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ پورے منظر کے دوران پرندوں کی آوازیں مسلسل آتی رہتی ہیں۔  عمار کا ملازم ٹرے میں چاۓ لے کر آتا ہے۔ ملازم بزرگ ہے۔


ملازم: (ٹرے میز پر رکھتے ہوۓ) یہ۔۔۔ عمار صاب آپ کی شام کی چاۓ۔


عمار: شکریہ بابا۔


(بابا اس کے سامنے نیچے گھاس پر بیٹھ جاتا ہے)


ملازم: عمار صاب اک بات تو بتائیں؟


عمار: ہاں پوچھو بابا؟


ملازم: مجھے سمجھ نئ لگتی جب آپ کا ساہیوال میں اپنا گھر بار ہے ماں باپ ہیں، پین پرا ہیں، پچھے اپنی کجھ تھوڑی بوت زمین جائیداد بھی ہے تو پھر آپ ادھر کلے یہاں آکر کیوں بس گۓ ہیں۔ 



عمار: کیوں یہاں اکیلے رہنے میں کوںئ مسئلہ ہے؟


ملازم: نہیں مسئلہ تو کوںئ نہیں پر عجیب سا لگتا ہے اتنی بڑی کوٹھی ہے اور اس میں کلے دو بندے۔۔۔


عمار: (ہنستے ہوۓ) دو بندے ہیں تو پھر کلے کیسے ہوۓ  بابا؟


ملازم: ( اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ) آپ مجھے بھی  اپنے ساتھ اٹھا کر لے آۓ۔ ادھر اچھا بھلا تھا جی میں حویلی میں، اپنے گاؤں میں تھا تو سو بندے متھے لگتے تھے پر یہاں تو کوںئ کسی کو پچھتا ہی نہیں۔ اتنے برس ہو گۓ یہاں رہتے ہوۓ ساتھ والے گھر والوں کو پتہ ہی نہیں کہ یہاں کون رہتا ہے۔ ابھی دو دن پہلے ان کا غلطی سے کوںئ سامان ہمارے گھر آگیا تھا میں دینے گیا تو ان کو ملوم ہی نہیں تھا کہ ان کے گھر سے دو گھر آگے ہی ہمارا گھر ہے۔ 



عمار: (ہنستا ہے) تو بابا تمہیں میں زبردستی تو نہیں لے کے آیا تھا پوچھا تو تھا کہ اگر نہیں جانا چاہتے تو رہنے دو۔


ملازم: وہ تو میں آپ کے ابو کے کہنے پہ آگیا انہوں نے ہی بولا تھا کہ ابھی چلے جاؤ کجھ دن رہ کے پھر واپس آجانا۔ سچی صاحب جی میرا تو یہاں بالکل دل نہیں لگا، پتہ نہیں آپ کا کیسے لگ گیا۔


عمار: (گہری آہ بھر کر اپنے آپ سے) پتہ نہیں بابا! مجھے خود معلوم نہیں کیوں لگ گیا۔ آیا تو میں یہاں یونیورسٹی میں پڑھاںئ کے لیۓ تھا، پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد وکالت بھی یہیں سے شروع کر دی اس وقت ارادہ تو یہی تھا کہ کچھ عرصے بعد واپس چلا جاؤں گا۔ پھر گھر والوں نے شادی کر دی  تو اس کے بعد کبھی خیال ہی نہیں آیا۔۔۔ لیکن اب کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یہاں نہ ہی رہا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ پر بابا پہلے کسی کو کیا معلوم کہ آگے کیا ہونا ہے، پرندوں کو گھونسلا بنانے سے پہلے یہ تھوڑی معلوم ہوتا ہے کہ جس درخت پر وہ گھونسلا بنانے جا رہے ہیں وہ جلد کٹنے والا ہے یا نہیں۔ 



ملازم: وہ تو ٹھیک ہے صاحب جی پر جب تک بی بی جی تھیں تو بات اور تھی اب یہاں بلکل ہی کلے ہو گۓ ہیں۔



عمار: ہاں بابا! تم ٹھیک کہتے ہو پر کیا کیا جا سکتا ہے، ہجرتی پرندوں کو کون روک سکتا ہے انہوں نے تو موسم کے بدلتے ہی اڑ کر دور دیس چلے جانا ہوتا ہے۔


ملازم: (اٹھتے ہوۓ) ٹھیک کہتے ہو عمار بابو۔۔۔جانے والے تو چلے ہی جاتے ہیں۔۔۔ (ایک طرف کو جاتے ہوۓ) اللّٰه سب کا‎ بھلا کرے۔۔۔ اللّٰه سب کی ‎خیر کرے۔


چوتھا منظر


عمارہ کا اپارٹمنٹ۔ وہ اپنی سات سال کی بیٹی ثانیہ کے سر پر تیل لگا رہی ہے جبکہ بچی اس کے آگے زمین پر بیٹھی ہے۔ دونوں ٹی وی دیکھ رہی ہیں۔ ٹی وی کی ہلکی سی آواز آرہی ہے۔



ثانیہ: ماما بس بھی کریں جب بھی میں ٹی وی دیکھنے بیٹھتی ہوں اسی وقت آپ کو میرے سر پر تیل لگانا یاد آجاتا ہے۔ آپ اتنا تیل میرے سر پر لگاتی کیوں ہیں؟


عمارہ: بیٹا جی جب میں چھوٹی تھی تو میری ماما بھی میرے سر پر بہت تیل لگاتی تھیں کہتی تھیں اس سے بال گھنے اور مظبوط ہوتے ہیں۔ مجال ہے جو میں آگے سے ایک لفظ بھی بولوں، اور ایک تم ہو تمہاری تو روں روں ہی ختم نہیں ہوتی۔


ثانیہ : تو کیا آپ مجھ سے ان کا بدلہ لے رہی ہیں؟


(عمادہ ہنستی ہے)


عمارہ: (اس کے سر پر ہلکا سا تھپڑ مار کر) تمہیں بڑی باتیں آگئ ہیں، مجھے لگتا ہے ایسی باتیں  تم ٹی وی سے سیکھتی ہو، تمہارا ٹی وی بند کرنا پڑے گا۔ 


ثانیہ: ہاں تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں ناں۔ میں نانو گھر ہی اچھی تھی وہ مجھے آپ کے ظلم سے بچا تو لیتی تھیں۔


(عمارہ دوبارہ ہنس پڑتی ہے۔ عمارہ کی دوست تانیہ دوسرے کمرے سے نکل کر آتی ہے)


تانیہ: یہ کون ظلم کر رہا ہے ہماری ثانیہ پر؟


عمارہ: یہ ظلم ثانیہ کی ماما جان ہی کر رہی ہیں کیونکہ وہ میڈم صاحبہ کے سر پر تیل جو لگا رہی ہیں۔


تانیہ: ہاں بھاںئ یہ تو بڑی غلط بات ہے ایک چھوٹی سی بچی پر ایسا ظلم کیوں کیا جا رہا ہے۔ کیوں ثانیہ میں نے ٹھیک کہا نا؟ 



ثانیہ: جی تانیہ آنٹی میں بھی ماما کو یہی کہہ رہی تھی کہ مجھ ننھی سی جان کو بخش دیں پر انہیں مجھ پر ذرہ بھی رحم نہیں آتا۔


(عمارہ اور تانیہ دونوں ہنستی ہیں)


عمارہ: یہ دیکھو یہ ننھی سی جان ہے اور باتیں اس کی دیکھو کیسے چپڑ چپڑ نکل رہی ہیں۔ ابھی میں کسی کام سے یہ کہہ کر منع کروں گی ناں کہ یہ بچوں والے کام نہیں تم یہ نہ کرو تو آگے سے کہے گی ماما میں بچی تھوڑی ہوں میں تو بڑی ہو گئ ہوں۔ اور اب دیکھو یہاں بچی بن گئ ہے۔



تانیہ: ہاں تو ٹھیک ہے جہاں بچہ بننے میں فائدہ ہے وہاں بچہ بن جاؤ اور جہاں بڑے ہونے میں فائدہ دکھے وہاں بڑے بن جاؤ۔ (ثانیہ کے آگے ہاتھ کرتی ہے) کیوں جی؟


ثانیہ: (اس کے ہاتھ پر پنجا مار کر) بالکل تانیہ آنٹی۔


(موبائل کی گھنٹی بجتی ہے تانیہ اٹھ کر پاس ہی میز پر پڑا ہوا موبائل اٹھاتی ہے اور نام دیکھ کر موبائل آف کرکے واپس رکھ دیتی ہے)


عمارہ: کس کا فون تھا؟


تانیہ: (واپس اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوۓ) اسی کا۔


عمارہ: سکندر کا؟


تانیہ: ہاں۔


عمارہ: تو اٹھایا کیوں نہیں؟



تانیہ: بس ایسے ہی ابھی بات کرنے کا موڈ نہیں۔



عمارہ: تو کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا؟ میرے خیال سے تمہیں اس سے شادی کر لینی چاہیۓ۔ اچھا آدمی ہے، پڑھا لکھا ہے، سلجھا ہوا ہے اور اپنا کاروبار ہے، فیملی بھی اچھی ہے۔ تم دونوں کے گھر والے بھی یہی چاہتے ہیں تو پھر تم کیوں انکار کر رہی ہو؟ پہلے بھی کئ اچھے رشتوں کو تم نہ کر چکی ہو۔ کیا تم اس وجہ سے تو اس سے شادی سے انکار نہیں کر رہی کیوں کہ وہ طلاق یافتہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ تمہاری بیوقوفی ہے اب اس عمر میں تمہیں اس سے بہتر رشتہ تو ملے گا نہیں۔ 



تانیہ: میں اس آدمی کی وجہ سے اس شادی سے انکار نہیں کر رہی میں اس لیۓ انکار کر رہیں ہوں کیونکہ میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتی۔


عمارہ: یہ تو تمہاری فضول سی ضد ہے شادی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟


تانیہ: جو بھی ہے مگر میں نہیں کرنا چاہتی۔


عمارہ: تو تمہارا خیال ہے تم اکیلے اپنی پوری زندگی آسانی سے گزار لو گی؟



تانیہ: ابھی تک تو گزار لی ہے تو آئندہ بھی گزار لوں گی۔ چالیس سے اوپر کی ہو گئ ہوں ابھی تک تو ایسے بڑی اچھی گزری ہے اور گزر رہی ہے۔ آگے والی بھی امید ہے گزر ہی جاۓ گی۔


عمارہ: لیکن آگے والی اکیلے گزارنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اب مجھے دیکھو شہریار کے جانے کے بعد بالکل اکیلی ہو گئ ہوں اوپر سے ایک بچی کی ذمہ داری بھی ہے۔


تانیہ: تمہاری بات اور ہے تم تو شروع سے ہی گھر سنبھالنے والی سگھڑ قسم کی لڑکی رہی ہو۔ لیکن میری بات اور ہے میں ان گھریلو قسم کی لڑکیوں کی طرح کی لڑکی نہیں ہوں اور نہ ہی بننا چاہتی ہوں جن کی ساری زندگی بچے پیدا کرنے، بچے پالنے اور شوہر کی دیکھ بھال کرنے میں گزر جاتی ہے۔ ان کی اپنی زندگی، اپنے ایمبیشنز اسی تکون کے گرد  گھومتے ہیں اور اگر کچھ الگ ہوتے بھی ہیں تو اس میں پھنس کر کچلے جاتے ہیں۔ تم چاہتی ہو میں ایسی عورت بن کر رہوں جو سارا دن ہانڈی روٹی کرے، جھاڑ پونچھ کرے اور شام کو اپنے شوہر کے گھر آنے کا بے صبری سے انتظار کرے۔ 


عمارہ: لیکن اس میں براںئ کیا ہے؟ اور تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ شادی کے بعد بندے کی پوری زندگی اسی تکون کے گرد گھومتی ہے؟


تانیہ: جو بھی ہے مجھے شادی کے لیۓ فورس مت کرو۔ گھر والوں کے اسی اصرار کے باعث میں گھر چھوڑ کر اس اپارٹمنٹ میں آگئ اب تم بھی شروع ہو جاؤ گی تو کیا کروں گی۔



عمارہ: میں تمہیں فورس نہیں کر رہی صرف قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔


تانیہ: تمہیں لگتا ہے میں قائل ہو جاؤں گی؟


عمارہ:  نہیں لگتا تو بالکل نہیں! (مزاق کے انداز سے) مجھے معلوم ہے تم ذرہ ڈھیٹ قسم کی لڑکی۔۔۔بلکہ نہیں! ذرہ نہیں تم اچھی خاصی ڈھیٹ قسم کی لڑکی ہو۔ ابھی تو تم اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کے یہاں رہ رہی ہو اگر میں تمہارے ماں باپ کی جگہ ہوتی تو خود تمہیں گھر سے نکال دیتی۔


تانیہ: ہاۓ تم کتنی ظالم ماں ہوتی ۔۔۔۔سنڈریلا کی ماں کی طرح کی ستیلی ماں جو مجھے بہت کم کھانا دیتی، پہننے کو پرانے کپڑے دیتی اور سونے کے لیۓ بھی بیسمنٹ کا بوسیدہ سا کمرا دیتی۔



ثانیہ: نہیں تانیہ آنٹی سنڈریلا کی طرح نہیں بلکہ ہیری پوٹر کی ماما کی طرح۔

 

(دونوں ہنستی ہیں)


تانیہ:  ہاں بالکل! سنڈریلا کی ماما تو چل بسی اب تو آپ کے ہیری پوٹر کا زمانہ ہے۔


(دروازے کی گھنٹی بجتی ہے)


تانیہ: (اٹھ کر جاتے ہوۓ) میں دیکھتی ہوں۔



پانچواں منظر


عمار اور عمارہ کافی شاپ میں بیٹھے ہیں۔


عمار: یہ تم کس جگہ پر لے آںئ ہو اتنی بکواس اور بورنگ کافی شاپ میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔


عمارہ: اچھا اب تمہیں یہ جگہ بکواس لگ رہی ہے تو اس وقت اپنی چوائیس بتا دینی تھی ہم وہاں چلے جاتے۔


عمار: تم نے میری چوائیس پوچھی ہی کب؟


عمارہ: اس لیۓ کہ میں تمہاری چوائیس بڑی اچھی طرح جانتی ہوں۔


عمار:  کیا ہے میری چوائیس کو (شیخی کے انداز میں) میری چوائیس کی تو لوگ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔


عمارہ: (منہ بگاڑ کر) ہاں وہ لوگ بھی تو آپ ہی کی طرح کے ہوتی ہیں۔


عمار: میری طرح کے کس طرح کے؟


عمارہ: چیپ۔ (cheap)


عمار: میں چیپ ہوں؟


عمارہ: نہیں تمہاری چوائیس چیپ ہے۔


عمار: ہاں جی دیکھ لی ہے میں نے تمہاری چوائیس بھی، تقریباً آدھا گھنٹہ ہو گیا ہے ابھی تک کافی نہیں آںئ اتنی دیر تک تو آدمی کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا۔



عمارہ: آج تو واقعی کافی دیر ہو گئ ہے پہلے تو ہمیشہ وقت پر ہی سرو (serve) کرتے ہیں۔.. (اردگرد دیکھ کر) رش بھی کوںئ نہیں ہے۔ 



عمار: ہاں جی اب صفایاں پیش کرو کہ آج ہی ایسا ہوا ہے پہلے تو بہت اچھی سروس ہوتی ہے، ہمارے آرڈر دینے سے پہلے ہی کافی لا کر میز پر رکھ دیتے ہیں بلکہ ہمارے ریسٹورنٹ میں داخل ہونے سے پہلے ہی لے آتے ہیں۔


عمارہ: میں سچ کہہ رہی ہوں آج کوںئ مسئلہ ضرور ہے۔


عمار: اچھا ابھی پتہ چل جاتا ہے۔ (ویٹر کو آواز دیتا ہے) ویٹر۔۔۔


(ایک ویٹر آتا ہے)


ویٹر: جی سر؟


عمار: کافی کا آرڈر دیا تھا بھاںئ اتنی دیر ہو گئ کہاں رہ گئ؟


ویٹر: وہ سر۔۔۔ ایم سوری کافی تو نہیں مل سکتی۔


عمار: لیکن کیوں؟



ویٹر: وہ تو ختم ہو گئ۔


عمار: (خیرت سے) ختم ہو گئ کیا مطلب کافی ختم ہو گئ؟


ویٹر: جی  سر اصل میں آج صبح ہمارے کچن میں  ایک چھوٹا سا حادثہ پیش آگیا تھا تو بہت سارا سامان جل گیا اس لیۓ کافی تو نہیں مل سکتی۔



عمار: تو ہمیں اتنی دیر تک یہاں کیوں بٹھایا؟ آرڈر ہی کیوں لیا، اسی وقت بتا دیتے ہم چلے جاتے ہمارا اتنا وقت کیوں ضائع کیا، ابھی بھی ہم اگر آواز نہ دیتے تو آپ تو اب بھی نہ بتاتے۔


ویٹر: معذرت سر بہت بہت معذرت وہ اصل میں جس ویٹر نے آپ سے آرڈر لیا تھا وہ نیا آیا ہے، آج ہی جوائن کیا ہے اس نے تو۔۔۔


عمار: عجیب بات ہے آج ہی جوائن کیا ہے؟ آج ہی جوائن کیا ہے تو وہ بتا تو سکتا تھا کہ آج کافی نہیں ملے گی۔


ویٹر: کیسے بتاتا سر وہ تو بول نہیں سکتا گونگا ہے۔



 عمار: (خیرت سے) کیا؟ (چند لمحوں تک منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے)


چھٹا منظر


(عمار اور عمارہ دونوں فٹ پاتھ پر چل رہے ہیں۔ عمار ہنستا جاتا ہے اور باتیں کرتا جاتا ہے)


عمار:  کیا ہی اچھی کافی شاپ تھی سروس تو اعلی قسم کی تھی۔۔۔ (ہنستے ہوۓ) گونگا ویٹر۔۔۔ (پھر بلند آواز سے قہقہے لگانے لگتا ہے۔)



عمارہ: اب بس بھی کرو۔


عمار: ویسے ماننا پڑے گا تمہاری چوائیس تو کمال کی تھی کافی تو ملی نہیں بہرحال تفریح اچھی ہو  گئ۔ اگر تم پہلے بتا دیتی کہ یہاں کافی کے ساتھ انٹرٹینمنٹ کی سہولت مفت میسر ہے تو میں اور لوگوں کو بھی یہاں کا پتہ بتا دیتا۔




عمارہ: (منہ بنا کر) ہے ہے۔۔۔بڑی فنی (funny) بات تھی۔۔۔اب بتا دینا اب کون سا دیر ہو گئ ہے۔



عمار: ہاں ہاں بتاؤں گا ان کی دکان کی تشہیر تو کرنی ہے آخر اس قدر مہنگاںئ کے دور میں کافی کے ساتھ ساتھ مفت تفریح جو فراہم کر رہے ہیں۔ (پھر ہنسنے لگتا ہے) معذرت سر معذرت۔۔۔


(عمارہ بھی ہنس پڑتی ہے اور اس کے بازو پر ہلکا سی چپت مارتی ہے۔ چلتے چلتے گاڑی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔)



عمارہ: مجھے اس بات پر خیرانی ہو رہی جب وہ آدمی بول نہیں سکتا تھا یا اگر اشاروں سے بھی سمجھا نہیں سکتا تھا تو اس نے کسی دوسرے ویٹر کو کیوں نہیں بھیجا اتنی دیر تک ہم وہاں بیٹھے رہے کسی کو تو آکر بتانا چاہیۓ تھا۔  



عمار: (ہنستے ہوۓ) انہوں نے انٹرٹیمنٹ جو فراہم کرنی تھی۔


عمارہ: شٹ اپ عمار اب بس بھی کرو۔


(گاڑی میں بیٹھ جاتی ہے عمار بھی ہنستے ہنستے گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے



ساتواں منظر


 کلب میں صدیقی صاحب اور پانچ سات دوسرے لوگ بیٹھے چاۓ وغیرہ پی رہے ہیں اور گپیں لگا رہے ہیں۔



پہلا آدمی: کہاں تھے آپ اتنے دن صدیقی صاحب! آپ کے بغیر تو کلب بے رونق ہو گیا تھا بڑے دنوں بعد آۓ ہیں آپ؟


صدیقی: جی ریاض صاحب گھر میں بچی کی شادی کے باعث مصروفیات ہی اتنی رہیں چکر لگا ہی نہیں سکا۔



دوسرا آدمی: ویسے آپ آۓ بڑے صحیح وقت پر ہیں آج بڑے ہی اہم مدعے پر گفتگو چل رہی ہے۔


تیسرا آدمی: گفتگو کیا، یوں کہیۓ کہ بحث چل رہی ہے خاص کر یہ صغیر صاحب آج بڑے جذباتی ہو رہے ہیں۔


صغیر : نہیں ایسی بھی بات نہیں جذباتی نہیں ہو رہا بس کچھ الجھن میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ دراصل ہوا کچھ یوں صدیقی صاحب! آج ایک آدمی میرے دفتر میں مجھ سے ملنے آیا وہ ایک فلاحی تنظیم کا بانی تھا اور مجھ سے ڈونیشن لینے آیا تھا مگر اس نے گفتگو کے دوران مجھے دعوت دی کہ میں بھی اس کی فلاحی تنظیم میں شمولیت اختیار کروں اور اس کے ساتھ مل کر کام کروں۔ لیکن میں نے اس سے کہا کہ میں تو علم و تحقیق کے کاموں میں مصروف رہتا ہوں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ میں تنظیم کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکوں البتہ میں ڈونر بن سکتا ہوں اور جتنا مجھ سے ہو سکا میں ڈونیشن دے دیا کروں گا۔ لیکن وہ کہنے لگا کہ میں یہ کام چھوڑ کر اس کی تنظیم جوائن کر لوں کیونکہ یہ خدمت کا کام ہے اور اس میں لوگوں کی زیادہ بھلاںئ ہے۔ بس اسی باعث میں کچھ کنفیوژن کا شکار ہو گیا ہوں۔


تیسرا آدمی: اور یہی کنفیوژن جب انہوں نے یہاں بیان کی تو ریاض صاحب نے ایک اور بحث چھیڑ دی انہوں نے کہا کہ سماجی خدمت سے کچھ نہیں ہوتا اگر خدمت کرنی ہے تو سیاست میں آؤ لوگوں میں بہتری سیاسی خدمت سے آۓ گی۔۔۔ اب صدیقی صاحب آپ ہی کچھ روشنی ڈالیۓ آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟


صدیقی: موضوع تو آپ لوگوں نے بہت دلچسپ چھیڑ رکھا ہے مگر کچھ پیچیدہ بھی ہے جہاں تک میرا خیال ہے تو میں یہ کہوں گا کہ پہلے تو یہ دیکھا جاۓ کہ علم و تحقیق کیا خدمت کا کام نہیں ہے؟۔۔۔ لیکن میں اس کی طرف بعد میں آتا ہوں پہلے ہم سماجی خدمت کی بات کرتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے کسی فلاحی تنظیم یا فلاحی ادارے کی تو وہ زیادہ سے زیادہ کوںئ ایک آدھ سکول بنوا دیں گے کوںئ ہسپتال تعمیر کر لیں گے جہاں وہ ضرورت مندوں کو مفت یا سستا علاج فراہم کر دیں گے یا غریب طلبا کی کسی نہ کسی حد تک تعلیم کا بندوبست کر دیں گے۔ یہ بہت اچھی بات ہے اور بڑی ہی قابل تعریف ہے مگر اس طریقے سے لوگوں کی تھوڑی بہت مدد تو ہو جاۓ گی جو لازماً کرنی چاہیۓ لیکن اس سے لوگوں کی زندگیوں میں کوںئ بہتری نہیں لاںئ جا سکتی، ان کے حالات نہیں بدلے جا سکتے یا غربت کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کام تو ریاستی پالیسیوں سے ہی ہوگا، میعشت کو بہتر کرنے سے ہی ہوگا۔


صغیر :  یہ سب تو ٹھیک ہے مگر وہ میرے والا معاملہ تو جوں کا توں رہا۔


صدیقی: ٹھیک ہے اب اس سوال پر آتے ہیں کیا علم  خدمت کا کام ہے یا نہیں؟۔۔۔میرے خیال میں علم سماجی اور سیاسی دونوں سے بڑی خدمت ہے۔ دنیا میں آج تک جتنی بھی ترقی ہوںئ ہے، بہتری آںئ ہے وہ علم کے ذریعے آںئ ہے، لوگوں کے حالات نہ تو سیاست کے ذریعے بدلے ہیں اور نہ ہی سماجی خدمت سے بلکہ وہ علم والوں نے بدلے ہیں۔ سیاست کے ذریعے تو صرف ایک چھوٹے سے علاقے میں تھوڑی سی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا لائی گئ ہے مگر علم نے تو پوری دنیا کے انسانوں کی زندگیوں پر اثر ڈالا ہے۔ اگر کینسر کا علاج دریافت ہوا ہے یا سر درد کی دوا ایجاد ہوںئ ہے،ہارٹ ٹرانسپلانٹ ہو رہا ہے یا گردوں کی تبدیلی، پوری نسلِ انسانی اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔  آج ہر کسی کے گھر میں بجلی ہے، ہر کوںئ اچھی سواری استعمال کرتا ہے، ایک غریب انسان کے گھر بھی موٹر سائیکل اور موبائل فون ہوگا۔ عام سے عام اور معمولی سے معمولی انسان کو بھی کسی نہ کسی حد تک تعلیم اور علم کے حصول تک رساںئ حاصل ہے۔ ورنہ یہ سہولتیں تو بادشاہوں کو بھی میسر نہیں تھیں۔ یہ سب خدمت نہیں تو اور کیا ہے؟ اور یہ سب کس کی بدولت ہے یہ اس علم ہی کی بدولت ہے، سیاست یا کسی سیاسی لیڈر کی بدولت نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا سیاست میں بھی بہتری اسی علم کی وجہ سے ہی آںئ ہے، آج ہر آدمی بڑی آسانی سے اپنا ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے اور اپنا حکمران منتخب کرتا ہے، یہ ساری تبدیلی، یہ فلاح و بہبود ان ریاضی، طب، فلسفہ، معاشیات، ادب، قانون اور طبعیات کے عالموں کی دین ہے کسی سیاست دان یا کسی سوشل ورکر کی نہیں، تو پھر بڑا لیڈر کون ہوا وہ اہلِ علم جنہوں نے پوری دنیا کو بدلا یا سیاستدان؟ اس لیۓ میرے خیال میں صغیر صاحب جو کچھ کر رہے ہیں وہ بہت اچھا کام ہے۔۔۔ہاں البتہ جو میرے جیسے اور ریاض صاحب جیسے کم علم لوگ ہیں، جو پڑھنے لکھنے سے اور تحقیق و جستجو سے جی چراتے ہیں اور دیگر اللوں تللوں اور کھیل کود جیسی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں ان کے لیۓ پھر یہی بہتر ہے  کہ وہ کوںئ سماجی یا سیاسی سرگرمی اپنا لیں لیکن بڑے پیمانے پر اور بڑی خدمت علم ہی سے ممکن ہے چاہے وہ علم شعوری طور پر لوگوں کو فائدہ پہنچاۓ یا مادی طور پر۔ 



صغیر: واہ صدیقی صاحب واہ آپ نے تو ایک منٹ میں بحث ہی تمام کر دی میری ساری الجھن دور ہو گئ۔



صدیقی: (مذاق کے انداز سے) اجی ہم یہاں آۓ کس لیۓ ہیں اسی لیۓ تو آۓ ہیں تا کہ آپ کی الجھنیں دور کر سکیں۔


پہلا آدمی: یہ تو ٹھیک ہو گیا صدیقی صاحب پر ذرہ میری الجھن بھی دور کر دیں۔ میرے کیس کا فیصلہ کب ہو گا تاریخ پہ تاریخ پڑتی جا رہی ہے مجھے تو لگتا ہے جب میں بوڑھا ہو جاؤں گا تب فیصلہ آۓ گا۔


دوسرا آدمی: تو آپ کا کیا خیال ہے ابھی آپ کا بوڑھا ہونا باقی ہے؟ حضور آپ نے اب بوڑھا نہیں ہونا بلکہ فوت ہونا ہے۔


(سب قہقہے لگا کر ہنستے ہیں)



آٹھواں منظر


(عمار اور عمارہ گاڑی میں بیٹھے ہیں۔ عمارہ گاڑی چلا رہی ہے)


عمارہ: وہ ٹیچر سمینہ تو تمہیں یاد ہی ہوں گی جن کے تم فیورٹ سٹوڈنٹ ہوا کرتے تھے۔



عمار: یاد ہے بالکل یاد ہے۔ پر مجھے آج تک سمجھ نہیں آںئ ان کا میں کیسے فیورٹ سٹوڈنٹ بن گیا حالانکہ میں نے کبھی ان کا کام ٹھیک طرح سے نہیں کیا تھا۔


عمارہ: اب یہ تو انہیں ہی پتہ ہو، شاید ان کی نظر کا مسئلہ تھا (طنزیہ انداز میں) ورنہ تم میں جو 'خوبیاں' کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں وہ تو بالکل واضح نظر آجاتی تھیں۔


عمار: (مسکرا کر) جی ہاں اور آپ میں تو ساری خوبیاں مخفی تھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تلاش کرنی پڑتی تھیں، جسے مل جاتی تھیں وہ تو سر پٹ جنگلوں کی طرف بھاگ نکلتا تھا۔


(ہنستی ہے)


عمارہ: اچھا چھوڑو یہ بتاؤ طلاق کے بعد گھر والوں نے تمہیں دوبارہ شادی کا نہیں بولا یا تمہیں خود کبھی خیال نہیں آیا؟


عمار: گھر والے تو بہت کہتے ہیں جب بھی گھر جاؤں اس موضوع پر بات ضرور ہوتی ہے پر میں خود ہی دوبارہ شادی کرنے سے کتراتا ہوں۔


عمارہ:  کیوں کوںئ لڑکی نہیں ملی؟


عمار: نہیں ایسی بات نہیں لڑکیاں تو مل ہی جاتی ہیں ویسے ہی کبھی خیال نہیں آیا۔



عمارہ: جی ہاں آپ تو کوہ قاف کے شہزادے ہیں جن کو لڑکیاں تو مل ہی جاتی ہیں۔


عمار: میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں ہے میرا مطلب ہے کہ اگر شادی کا ارادہ بنا لیا جاۓ تو پھر تلاش سے کوںئ لڑکی مل ہی جاۓ گی پر میں شادی کرنا چاہتا ہی نہیں۔


عمارہ: چلو فرض کرو اگر کل کو تم شادی کا ارادہ کر لیتے ہو تو تم کس قسم کی لڑکی کو پسند کرو گے۔ تب میں تمہارے لیۓ لڑکی ڈھونڈو گی تم مجھے اپنی چوائس بتاؤ بس۔


عمار: اب یہ کس قسم کی سے کیا مراد ہے؟


عمارہ: قسم سے مراد کس طرح کی؟


عمار: (شرارت سے) تھوڑی سی کٹھی ہو، دیسی ساخت کی ہو، چتکبری بالکل نہ ہو اور۔۔۔



عمارہ: بکواس نہیں کرو صحیح صحیح بتاؤ۔


عمار:  تو یہ کیا بات ہوںئ کس قسم کی ہو لڑکی پسند کرنی ہے یا کوںئ پھل فروٹ لینا ہے کہ اس کی قسم ہو اس قسم کی نہ ہو بس نارمل لڑکی ہو جیسے لڑکیاں ہوتی ہیں۔


عمارہ: ایڈیٹ میرا مطلب ہے کہ لڑکی زیادہ پڑھی لکھی ہو، زیادہ خوبصورت ہو یا امیر ہو، ذہین ہو، دماغ والی ہو یا پھر چلے گا جیسی بھی ہو؟


عمار: (سنجیدگی سے) اگر ایسی بات ہوںئ کہ مجھے حقیقت میں کوںئ لڑکی پسند کرنی پڑی تو میں تو بس یہ چاہوں گا کہ وہ بے شک پیسے والی نہ ہو، بہت زیادہ حسین و جمیل بھی چاہے نہ ہو، اور بے شک زیادہ ذہین یا انٹلیکچوئل قسم کی لڑکی بھی نہ ہو پر دل والی ضرور ہو۔


عمارہ: اے ہے کیا بات ہے۔


عمار: (جاری رکھتے ہوۓ) میری تو دوست اور ہم سفر کے لیۓ بس ایک ہی شرط ہے کہ دوست ہو یا ہم سفر وہ احساس والا ہو دل والا ہو۔ جن لوگوں کا تعلقات میں دل سے زیادہ دماغ چلتا ہے وہ لوگ نہ تو دوستی کے قابل ہوتے ہیں اور نہ ہم سفر بننے کے قابل۔ ایسے رشتے ایسے تعلق دیرپا نہیں ہوتے جلد ٹوٹ جاتے ہیں کچی مٹی کے برتن کی طرح، دماغ کی ہلکی سی ٹھوکر سے ہی ان میں تریڑ آجاتی ہے۔ لیکن جو تعلق دل سے جڑے رہتے ہیں، جو اپنے درمیان عقل کی کسی چال ، کسی سازش، کسی خربے کو نہیں آنے دیتے وہ کامیاب رہتے رہتے ہیں اور تب تک چلتے رہتے ہیں جب تک زندگی چلتی ہے۔


عمارہ: (شرارت سے) یعنی کہ تم چاہتے ہو لڑکی بڑی ہی معصوم سیدھی سادھی درویش ٹائپ کی ہو؟ بلکہ ملنگنی ہو؟


عمار: (مسکراتے ہوۓ) ہاں یہی تو میں کب سے کہنا چا رہا ہوں تمہیں اب سمجھ آںئ۔



عمارہ: ایسی لڑکی تو پھر تمہارے خوابوں میں ہی مل سکتی ہے حقیقت میں نہیں۔



عمار: کہیں نہ کہیں تو ہو گی میرے خوابوں کی شہزادی۔


عمارہ: خوابوں کی شہزادی نہیں خوابوں کی ملنگنی کہو۔



عمار: (ہنستے ہوۓ) ہاں لوگوں کی خوابوں کی شہزادیاں ہوتی ہیں میرے خوابوں کی ملنگنی ہے۔ (بلند آواز سے ہاتھ اوپر اٹھا کر جذباتی انداز میں) کہاں ہو میری ملنگنی، میرے خوابوں کی ملنگنی تم دنیا کے کس کونے میں آباد ہو، مجھے آواز دو مجھے بتاؤ تم کہاں ہو، دیکھو تمہارا ملنگ تمہیں کتنی بے تابی سے تلاش کر رہا ہے، کتنا بے چین ہے تمہارے بغیر جلدی آجاؤ میرے خوابوں کی ملنگنی خدا کے لیۓ جلدی آجاؤ، میری پیاری ملنگنی جہاں بھی ہو فوراً آجاؤ نہیں تو خط لکھ کر اطلاع دے دو۔


(عمارہ اس کی بات کے دوران ہنستی رہتی ہے)


عمارہ: خطوں کا زمانہ نہیں کہو کہ میسج کر دو بلکہ واٹس ایپ کیسا رہے گا؟


عمارہ: واٹس ایپ بھی ٹھیک ہے نہیں تو ایمو (Imo) پہ کال کر لو۔


عمارہ: ایمو پہ ہی کال کرنی ہے تو سیدھا نمبر پر ہی کر لے۔


عمار: نہیں ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس بیلنس نہ ہو اس لیۓ ایمو یا واٹس ایپ ہی ٹھیک ہے۔


عمارہ: تو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ انٹرنیٹ کے سگنل نہ ہوں ایسے میں ایمو یا واٹس ایپ کیسے چلے گا؟


عمار: اب اتنا تو اسے مینج کرنا ہی پڑے گا، آخر میرے خوابوں کی ملنگنی ہے اتنا تو کر ہی سکتی ہے۔



عمارہ: تمہارے خوابوں کی ملنگنی ہے تو کچھ بھی کر سکتی ہے۔


عمار: (باہر دیکھ کر ایک دم سے) گاڑی ادھر ہی روک دو 


عمارہ: (گاڑی روک کر) کیا ہوا؟


عمار: میرا اسٹیشن آ گیا ہے۔


عمارہ: (خیرت سے) یہ کون سی جگہ ہے نہ تمہارا گھر یہاں ہے نہ آفس؟


عمار: بتایا تو تھا کہ میں نے اپنی گاڑی ٹھیک کروانے کے لیۓ ورک شاپ میں دی ہوںئ ہے اب تک ٹھیک ہو گئ  ہو گی تو گاڑی لے کر ہی چلتا ہوں۔ ورنہ پھر لینے یہاں آنا پڑے گا۔۔۔۔ (اترتے ہوۓ) صحیح ہے۔۔۔ پھر ملاقات ہو گی۔ کافی تو ملی نہیں پر۔۔۔


عمارہ: ( ویٹر کی نقل اتارتے ہوۓ) ایم سوری سر کافی نہیں مل سکتی۔



(عمار ہنستا ہے اور جانے لگتا ہے، پیچھے سے عمارہ پھر سے آواز دیتی ہے)



عمارہ: سیدھا گھر جانا جاتے ہی کہیں ملنگنی کو ڈھونڈھنے نہ نکل جانا۔


(عمار ہنستا ہے اور ہاتھ ہلا کر چل پڑتا ہے، عمارہ بھی مسکرا کر گاڑی آگے بڑھا دیتی ہے)



نواں منظر


عمارہ اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچتی ہے اور دروازے کی گھنٹی بجاتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں دو تین شاپر ہیں۔ دروازہ کھلتا ہے سامنے تانیہ کھڑی ہے، عمارہ اندر داخل ہوتی ہے، ثانیہ کھلونوں ساتھ کوںئ کھیل  کھیل رہی ہے۔ عمارہ کو دیکھتے ہی ثانیہ بھاگ کر اس سے لپٹ جاتی یے۔


ثانیہ: ماما آپ اتنی دیر سے آئی ہیں پتہ ہے میں اور تانیہ آنٹی بڑے ہی مزے کی اک نئ گیم کھیل رہی تھیں پر (منہ بنا کر) ساتھ والی آنٹی نے آکر سارا مزا خراب کر دیا۔



عمارہ: (لاڈ سے) کیوں کیا ہوا کیا کہا ساتھ والی آنٹی نے؟



ثانیہ: انہوں نے بولا یہ گیم مت کھیلو اس سے شور ہوتا ہے اور میرا بے بی بیمار ہے ابھی ابھی سویا ہے اٹھ جاۓ گا۔


عمارہ: (لاڈ سے) تو انہوں نے ٹھیک بولا نا ان کے بے بی کی طبعیت جو نہیں ٹھیک اگر وہ اٹھ گیا تو روۓ گا پھر زیادہ بیمار ہو جاۓ گا۔


ثانیہ: تو پھر میں کھیلوں کیسے مجھے کھیلنا بھی تو ہے۔


عمارہ: (صوفے پر بیٹھتے ہوۓ) تو جب وہ ٹھیک ہو جاۓ گا آپ تب کھیل لینا نہیں تو ایسی گیم کھیل لو جس سے شور نہ ہو۔ 



ثانیہ: لیکن مجھے تانیہ آنٹی نے ابھی یہ گیم سکھاںئ ہے تو ابھی مجھے یہی کھیلنی ہے۔


عمارہ: تانیہ آنٹی نے آپ کو ایسا الٹا کام سکھایا ہے تو اب تانیہ آنٹی ہی آپ سے نمٹے۔


(تانیہ پاس آکر صوفے پر بیٹھتی ہے اور اسے گود میں بٹھا لیتی ہے)


تانیہ: کوںئ بات نہیں میں آپ کو نئ گیم بتاؤں گی ہم وہ کھیلیں گے لیکن ابھی نہیں کچھ دیر بعد۔


ثانیہ: پکا آپ مجھے نئ گیم بتائیں گی؟


تانیہ: ہاں پکا بتاؤں گی۔


عمارہ: اور ابھی ماما آپ کے لیۓ چاکلیٹ اور آئسکریم لائی ہیں ابھی آپ وہ کھائیں۔ 


(اسے بڑی سی چاکلیٹ نکال کر دیتی ہے۔ ثانیہ چاکلیٹ لے کر واپس اسی جگہ پر جا کر بیٹھ جاتی ہے اور کھلونوں ساتھ کھیلنا شروع کر دیتی ہے)


تانیہ: عمار ابراہیم سے مل کر آرہی ہو؟


عمارہ: ہاں۔


تانیہ: تمہارے ڈیپارٹمنٹ میں دو عمار تھے یہ عمار وہی ہے جو تھوڑا ہٹا کٹا اور موٹا تازہ تھا گینڈے کی طرح؟



عمارہ: ہاں وہی ہے پر اب سمارٹ ہو گیا ہے ہٹا کٹا نہیں رہا۔ تم اسے گینڈے کی طرح کا کہہ رہی ہو اور جب میں نے بتایا کہ میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کی تانیہ کے ساتھ رہتی ہوں تو اس نے کہا کہ تانیہ وہی اونچے ماتھے والی جو اونٹ کی طرح لگتی تھی۔


تانیہ: (منہ بگاڑ کر) اونٹ کا ماتھا اونچا ہوتا ہے؟



عمارہ: اس نے تمہارے قد کی وجہ سے تمہیں ایسا کہا۔


تانیہ: (مسکرا کر) ویسے ایک بڑی ہی مزے کی بات میں سوچ رہی تھی؟


عمارہ: کیا؟


تانیہ: رہنے دو تم مجھے مارو گی۔۔۔پر چلو بتا دیتی ہوں۔۔۔لیکن پہلے وعدہ کرو مارو گی نہیں؟


عمارہ: (اکتا کر) او ہو! اب بولو بھی۔


تانیہ: میں سوچ رہی تھی لڑکا تو اچھا ہے تو کیوں نا۔۔۔تم اس سے شادی کر لو۔



(عمارہ کوںئ چیز اٹھا کر مارنے لگتی ہے)


تانیہ: (بچتے ہوۓ) تم نے وعدہ کیا تھا مارو گی نہیں۔


عمارہ: کبھی تو سوچ سمجھ کر بولا کرو۔



تانیہ: میں سچی میں سوچ سمجھ کر ہی بول رہی ہوں اور یہ آئیڈیا مجھے آج تمہاری امی سے بات کرکے آیا ہے۔


(عمارہ خیرت سے اسے دیکھتی ہے)


تانیہ: سچی بات ہے آج تمہاری امی نے ثانیہ سے بات کرنے کے لیۓ فون کیا تھا تو انہوں نے مجھ سے بھی بات کی۔ انہوں نے شاید تمہیں فون کیا تھا پر تم نے کہا کہ ثانیہ گھر پر ہے تو انہوں نے پھر مجھے فون کیا۔ وہ جتنی دیر مجھ سے بات کرتی رہیں تمہارے متعلق ہی بات کرتی رہیں اور اسی قسم کی باتیں کرتی رہیں۔ وہ تمہارے لیۓ کچھ پریشان تھیں۔


عمارہ: (خیرت سے) پریشان؟


تانیہ:  کہہ رہی تھیں کہ میں یہ سوچ سوچ کر فکر مند رہتی ہوں کہ عمارہ اکیلی پوری زندگی کیسے بسر کرے گی اور پھر ایک چھوٹی بچی بھی ہے اس کو اکیلے کیسے پالے گی۔ اسی بات کو لے کر وہ پریشان تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ تمہاری دوبارہ شادی کر دی جاۓ۔۔۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ باتوں باتوں میں اس متعلق تمہاری راۓ جاننے کی کوشش کروں لیکن میں نے تم سے صاف صاف بات کرنا ہی مناسب سمجھا۔


عمارہ: اور وہ عمار والی بات تو تم نے خود اپنے پلے سے کی ہو گی؟


تانیہ: ہاں وہ بات تو میں نے مذاق سے کہی تھی لیکن اگر یہ ہو جاۓ تو اس میں ہرج ہی کیا ہے؟  


عمار: (اٹھتے ہوۓ) نہیں مجھے نہیں کرنی شادی وادی۔


( دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے)


تانیہ: ( وہیں بیٹھے بیٹھے بلند آواز سے) مگر کیوں آخر، اس میں مسئلہ کیا ہے؟


(عمارہ وہیں سے بولتی ہے صرف اس کی آواز سنائی دیتی ہے)


عمارہ: تم اپنا بتاؤ تم خود کیوں شادی نہیں کرتی تمہیں کیا مسئلہ ہے؟


تانیہ: میری بات اور ہے۔


(عمارہ دروازے پر آتی ہے، بال کھلے ہوۓ ہیں اور کانوں پر سے کانٹے اتار رہی ہے)


عمارہ: کیوں تمہاری بات اور کیوں ہے؟ 


تانیہ: میری بات بیچ میں کہاں آگئ؟


عمارہ: تمہاری بات آۓ گی جب تم میرے متعلق بات کر سکتی ہو تو میں بھی تو تمہارے متعلق بات کروں گی۔



تانیہ: میری بات اور اس لیۓ ہے عمارہ کیونکہ میں سنگل ہوں اور تمہاری ایک بیٹی ہے۔


(عمارہ دوبارہ اندر چلی جاتی ہے)


عمارہ: (اندر کمرے سے) میں اپنی بیٹی کو اکیلے پال سکتی ہوں۔



تانیہ: پال سکتی ہو گی تم مگر اسے تو باپ کی ضرورت ہے۔ جب وہ کچھ بڑی ہو گی تو اسے اپنے فادر کی کمی محسوس نہیں ہو گی؟


عمارہ: (باہر آکر) نہیں ہو گی میں اسے سمجھا لوں گی۔


تانیہ: لیکن تم۔۔۔


عمارہ: پلیز تانیہ مجھ سے بحث مت کرو میں اس متعلق بالکل بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ تم نہیں جانتی شہریار کے علاوہ میں کسی اور کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔


عمارہ: (کچن میں جاتے ہوۓ) میں کھانا بنانے جا رہی ہوں تم کھاؤ گی؟


تانیہ: رہنے دو ضرورت نہیں میں نے بنا دیا ہے کھانا۔


(عمارہ وہیں رک جاتی ہے)


عمارہ: واہ آج یہ انقلاب کیسے آیا تم نے تو کھانا نہ بنانے کی قسم کھا رکھی تھی؟ تم نے تو کہا تھا کہ میں بھوکی مر جاؤں گی پر کھانا نہیں بناؤں گی پھر یہ آج کیا ہو گیا؟


تانیہ: کہا تو تھا پر آج بھوک اتنے زوروں کی لگی تھی اگر باہر سے کچھ منگوانے تک کافی دیر ہو جاتی اس کے علاوہ ثانیہ کے لیۓ بھی تو کچھ بنانا ہی تھا تو اپنے لیۓ بھی بنا لیا۔۔۔ پھر تم اکیلی ہی بچی تھی تو سوچا تمہارے لیۓ بھی بنا ہی دوں۔


عمارہ: (ہنستی ہے) اس کا مطلب ہے شادی کے قابل تو تم بن رہی ہو تم میں آہستہ آہستہ شادی شدہ گھریلو خواتین والے گن آرہے ہیں۔


تانیہ: ایسی بھی بات نہیں کھانا بنانا تو مجھے آتا ہے وہ تو میں اپنے گھر والوں سے ضد کی وجہ سے جان بوجھ کر ایسے کام نہیں کرتی۔


(عمارہ ہلکے سے ہنستی ہے اور اس کے پاس آکر بیٹھ جاتی ہے)


عمارہ: تو چھوڑ کیوں نہیں دیتی ضد؟


تانیہ: نہیں میں اتنی بیوقوف نہیں۔۔۔ اور اب دوبارہ باتوں کا رخ میری طرف موڑنے کی ضرورت نہیں۔


(موبائل کی گھنٹی بجتی ہے)


عمارہ: لگتا ہے امی کا فون ہو گا۔۔۔ثانیہ بیٹا نانو کا فون  ہو گا ذرہ مجھے ٹیبل سے موبائل تو پکڑانا۔


(ثانیہ اٹھ کر فون پکڑتی ہے)


دسواں منظر


عمار اپنے لان میں پودوں کی کیاری میں گوڈی کر رہا ہے، پانی دے رہا ہے اور نۓ پھولوں کے پودے لگا رہا ہے۔ کچھ دیر تک گوڈی کرتا دکھاںئ دیتا ہے پھر چند لمحوں بعد بابا داخل ہوتا ہے۔


بابا: صاحب جی ابھی پچھلے ہی ہفتے آپ نے اس لان میں گوڈی کی ہے اور نۓ پودے بھی لگاۓ ہیں۔ اگر یہ کام آپ نے ہی کرنا ہے تو مالی کو کس لیۓ رکھا ہوا ہے اسے پھر چھوٹی دے دیں۔ 


عمار: نہیں بابا سارا کام تو مالی ہی کرتا ہے۔ وہی ان پودوں کی دیکھ بھال کرتا ہے میں تو بس چھٹی والے دن کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیۓ ہاتھ لگا لیتا ہوں۔


بابا: وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کیوں ہاتھ گندے کرتے ہیں یہ کام بھی اسے ہی کرنے دیں۔ 


عمار: ایسے ہی کرتا ہوں بابا ذرہ وقت گزاری کے لیۓ۔۔۔(ہاتھ روک کہیں اور دیکھتے ہوۓ) مجھے پودے پھول اچھے لگتے ہیں، ڈھیر سارے خوشنما رنگوں کے پھولوں میں رہنا مجھے بہت پسند ہے اونچے گھنے درختوں کی چھاؤں مجھے بڑی مرغوب ہے ان درختوں پر جب رنگ برنگے پرندے آکر بیٹھتے ہیں جو طرح طرح کے گیت گنگناتے ہیں تو دل کو چھو سے جاتے ہیں۔ (وہیں گھاس پر سیدھے ہو کر بیٹھ جاتا ہے) تمہیں یاد ہے بابا ہمارے گاؤں والے پرانے گھر کے صحن میں بیری، شہتوت اور دھریک کے درخت تھے اور ہماری حویلی کے عقب میں سفیدے کے اونچے اونچے درخت تھے؟


بابا: ہاں عمار بابو یاد ہے۔


عمار: (جاری رکھتے ہوۓ) ان درختوں پر کتنے دلآویز پرندے آکر بیٹھا کرتے تھے۔ یاد ہے جب میں چھوٹا تھا تو سویرے سویرے تمہارے ساتھ سیر کے لیۓ نکلتا تھا تب ہماری حویلی کی عقبی دیوار کے ساتھ جو درخت  تھا اس پر نہ جانے کہاں سے ڈھیروں رنگ برنگی چڑیاں آکر بیٹھتی تھیں۔ میں تم سے ضد کرتا تھا کہ میں نے وہ خوبصورت چڑیا پکڑنی ہے اور تم مجھے ٹالتے جاتے تھے پھر میری ضد سے زچ ہو کر تم کہتے تھے میرے کندھوں پر بیٹھ جاؤ اور درخت پر چڑھ کر چڑیا پکڑ لو۔ جیسے ہی میں تمہارے کندھے پر پاؤں رکھ کر درخت پر چڑھتا تھا تمام رنگ برنگی چڑیاں اڑ جاتی تھیں۔ تب میں نہیں جانتا تھا کہ پرندوں کو پکڑنا نہیں چاہیۓ بلکہ انہیں تو فضا میں غوطے لگاتے دیکھ کر مخذوز ہونا چاہیۓ۔ اگر آسمان پر پرندے اڑتے دکھاںئ نہ دیں تو فضا کتنی بے رونق ، پھیکی اور بدصورت دکھاںئ دینے لگے۔


بابا: ہاں عمار بابا ایسا ہی ہے پر آج آپ کو یہ سب کیوں یاد آرہا ہے؟


عمار: (اس کی بات پر دھیان نہیں دیتا بلکہ اپنی بات جاری رکھتا ہے) اور پھر اس کے بعد ہم پھولوں کی وادی میں نکل جاتے تھے کتنے دلکش پھول تھے، سورج مکھی کے، گلاب کے، موتیۓ کے پھول ۔۔۔ میں ان پھولوں کی لمبی لمبی کیاریوں میں بھاگتا پھرتا تھا۔۔۔پھر جب سورج ان کیاریوں کے دوسری طرف طلوع ہوتا تھا تو میں کہتا تھا چلو سورج کو پکڑیں پھر ہم سورج کی سمت بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔۔۔ اور کوئی جب پھول توڑتا تھا تو مجھے کتنا افسوس ہوتا تھا۔۔۔ تمہیں یاد ہے ایک بار جب دین محمد کے لڑکے نے جھولی بھر کر پھول توڑے تھے تو میں ان پھولوں کی اجڑی ہوںئ کیاریوں کو دیکھ کر کتنا رویا تھا۔ پھر تم نے اور سب گھر والوں نے کہا تھا کہ تم یہ پھول پھر سے جوڑ دو گے تب میں نے رونا بند کیا تھا۔


بابا: ہاں عمار بابا سب یاد ہے۔



عمار: (اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے) لیکن وہ پھول پھر کبھی نہیں جڑے بابا، وہ کیاریاں ہمیشہ کے لیۓ اجڑ گئیں، ان ڈالیوں سے وہ خوشنما پرندے ایسے اڑے کے پھر نہیں لوٹے۔۔۔کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میں ان وادیوں میں پھر سے اتر جاؤں اور ان طویل قامت سفیدے کے درختوں کی قطاروں میں دوڑتا پھروں۔ پھر جب سورج وادی کے دوسرے کنارے پر طلوع ہوتا دکھاںئ دے تو اس کی سمت بھاگ کھڑا ہوں۔۔۔ (ایک طرف چند قدم چل کر کھڑا ہو جاتا ہے) میں اکثر سوچتا ہوں بابا کہ میں نے یہاں آکر کیا حاصل کیا۔۔۔ مجھ جیسے بہت ہیں جو یہاں کی ظاہری اور مصنوعی چمک دھمک سے متاثر ہو کر یہیں کے ہو رہتے ہیں اور اس کے بدلے اصلی اور حقیقی حسن سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ وہ یہاں خزانے کی تلاش میں آتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ سونا وہ پیچھے چھوڑ آۓ ہیں۔ یہاں کی آنکھوں کو خیراں کر دینے والی ظاہری اور نقلی چمک اور بوسیدہ فضا میں ایسا پھنستے ہیں کہ پھر اس سے نکل نہیں پاتے اور پھر تمام عمر نام نہاد ترقی کے اس گھٹیا ناچ میں بنگڑا ڈالتے رہتے ہیں۔۔۔میں اس حقیقی اور اصلی حسن کی طرف لوٹ جانا چاہتا ہوں جو نہایت سادہ اور نہایت دلکش ہے جو آنکھوں کو خیراں تو کرتا ہے مگر اپنی روشنی سے ان میں چبھن پیدا نہیں کرتا بلکہ انہیں تازگی بخشتا ہے۔۔۔ میں بھی کن باتوں میں پڑ گیا تم بھی سوچ رہے ہو گے بابا کہ میں یہ آج کیسی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔۔۔ چلو جانے دو تم ایسا کرو ایک کپ چاۓ تو بنا دو تب تک میں یہ دو تین پودے لگانے والے رہ گۓ ہیں وہ لگا لوں۔



بابا: (جاتے ہوۓ) ٹھیک ہے عمار بابا میں ابھی بنا کر لاتا ہوں۔


(بابا چلا جاتا ہے اور عمار دوبارہ گوڈی کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے)


گیارواں منظر 


رات کا وقت ہے عمارہ اپنے اپارٹمنٹ کے ٹیرس میں بیٹھی ہے۔ نیچے سڑک پر گزرتی ٹریفک کو دیکھ رہی ہے مگر دھیان کہیں اور ہے۔ گاڑیوں کے ہارن کی اور ٹریفک کی مختلف آوازیں آتی ہیں۔ تانیہ داخل ہوتی ہے اس کے ہاتھ میں کافی کے دو کپ ہیں ایک وہ عمارہ کو دیتی ہے اور اس کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر بیٹھ جاتی ہے۔


تانیہ: (بیٹھتے ہوۓ) نیچے کیا نظر آرہا ہے جو بڑے غور سے دیکھ رہی ہو؟


عمارہ: کچھ نہیں بس ایسے ہی لوگوں کو ادھر ادھر آتے جاتے دیکھ رہی ہوں۔


(تانیہ سر ہلاتی ہے کافی کا گھونٹ بھرتی ہے اور خود بھی سڑک پر دیکھنا شروع کر دیتی ہے، فٹ پاتھ پر ایک جوڑا اپنی چھوٹی سی بچی کے ساتھ چلتا دکھاںئ دیتا یے میاں بیوی دونوں کے  ہاتھ میں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز ہیں بچی کے ہاتھ سے کوںئ کھلونا گرتا ہے لڑکا اسے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جیسے ہی اٹھاتا ہے اس کے اپنے ہاتھ سے ایک شاپنگ بیگ نیچے گر جاتا ہے وہ لڑکی کو اٹھانے کا اشارہ کرتا ہے لڑکی شاپنگ بیگ اٹھانے کے لیۓ آگے بڑھتی ہے جیسے ہی جھکتی ہے اس کے بھی اپنے ہاتھ سے شاپنگ بیگ نیچے گر جاتا ہے، بچی دیکھ کر اپنا ہاتھ ماتھے پر مارتی ہے اور خود آگے بڑھ کر اہنا کھلونا اٹھا لیتی۔ دونوں میاں بیوی بچی کی حرکت سے مخذوز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں پھر تینوں آگے چل پڑتے ہیں۔ اوپر ٹیرس پر تانیہ اور عمارہ بھی مسکرا دیتی ہیں۔ عمارہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آجاتی ہے۔


عمارہ: میں نے بھی ایسے کتنے ہی خواب دیکھے تھے کہ میں ثانیہ اور شہریار۔۔۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی چلے جائیں گے ابھی تو ثانیہ کتنی چھوٹی تھی۔


تانیہ: ایک فوجی کی زندگی تو ایسے ہی ہوتی ہے اس کا کیا بھروسہ کب جنگ چھڑ جاۓ اور کب۔۔۔


عمارہ: ان کے جانے کے بعد اب تک میں اکیلے ثانیہ کو لے کر چلتی آںئ ہوں۔ لیکن کبھی کبھی ہمت جواب دے جاتی ہے پھر خیال آتا ہے کہ میں ابھی سے تھک گئ تو ثانیہ کا کیا بنے گا۔



تانیہ: تم فکر کیوں کرتی ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔


(عمارہ خاموش رہتی ہے)


تانیہ: ویسے میرا خیال ہے تمہیں میری اس بات پر غور کرنا چاہیۓ۔ 


عمارہ: کون سی بات؟


تانیہ: تم اچھی طرح جانتی ہو میں کس بارے میں بات کر رہی ہوں۔


عمارہ: تم نے پھر سے وہی بات چھیڑ دی؟


تانیہ: لیکن تم سوچو تو۔۔۔ اپنی خاطر نہ سہی ثانیہ کی خاطر ہی سہی۔


عمارہ: نہیں میں اس بارے میں کچھ بھی سننا اور سوچنا نہیں چاہتی۔


تانیہ: لیکن تم۔۔۔


(ثانیہ آنکھیں ملتی ہوںئ داخل ہوتی ہے، اس کے چہرے سے لگتا ہے کہ سوںئ ہوںئ اٹھی ہے)


ثانیہ: ماما مجھے اکیلے نیند نہیں آرہی ڈر لگ رہا ہے۔


عمارہ: (اٹھتے ہوۓ) چلو آؤ میں تمہیں سلاتی ہوں۔


بارہواں منظر


رات کا وقت ہے عمار اپنے گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا ہے۔ کچھ دیر تک چینل ایسے ہی بدلتا رہتا ہے پھر ٹی وی بند کر دیتا ہے۔ تبھی بابا داخل ہوتا ہے۔


بابا: صاحب جی اتنی رات ہو گئ ہے آپ ابھی تک سوۓ نہیں صبح آپ نے دفتر نہیں جانا؟


عمار: جانا ہے بابا بس ایسے ہی نیند نہیں آرہی تھی تو ٹی وی لگا لیا۔


(بابا کچھ فاصلے پر نیچے قالین پر بیٹھ جاتا ہے)


بابا: سچی بتاؤں صاب جی مجھے بھی یہاں راتوں کو ٹھیک سے نیندر نہیں آتی۔ جب سے بی بی جی گئ ہیں ایسا لگتا ہے سارا گھر ہی خالی ہو گیا ہے۔ ڈر سا لگا رہتا ہے جی راتوں کو۔ آپ کو ملوم ہے یہ کس بات کا ڈر ہے؟


عمار: کس بات کا؟


بابا: یہ گھر کے سونے پن کا ڈر ہے صاب جی۔ اتنے بڑے گھر کے خالی پن کا ڈر۔۔۔ جب مکان اتنا بڑا ہو لیکن اس میں رہنے والے لوگ بس ایک دو ہی ہوں تو ان مکانوں سے بڑا خوف آنے لگتا ہے صاب جی۔ ایسے گھر رات کے اندھیروں میں بڑے ڈراؤنے ہو جاتے ہیں، بڑی خوفناک آوازیں آنے لگتی ہیں یہاں سے۔


(عمار خاموش بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھتا رہتا ہے)


بابا: ویسے عمار صاب میں تو نوکر پیشہ آدمی ہوں لیکن اگر آپ اجازت دیں تو آپ کو اک صلاح دوں؟


عمار: (اس کی طرف دیکھے بغیر) ہاں بابا بولو۔ تمہیں آج تک کبھی کوںئ بات کرنے سے پہلے اجازت کی ضرورت پڑی ہے۔ 


بابا: تو پھر آپ میری مانیں تو آپ دوسرا ویاہ کر لیں اس سے یہ گھر پھر سے آباد ہو جاۓ گا اور اس کا سونا پن چلا جاۓ گا۔


عمار: کہاں بابا اب اس عمر میں ان چکروں میں پڑوں۔۔۔تم بھی گھر والوں کی باتوں میں آگۓ۔


بابا: میں کسی کی باتوں میں نہیں آیا عمار بابو میں اپنے پلے سے یہ بات کر رہا ہوں۔ 



عمار: نہیں بابا اب عمر بھی اتنی ہو گئ ہے اب ایسے ہی ٹھیک ہے۔


بابا: اتنی عمر تمہاری کہاں سے ہو گئ عمار بابو تم تو ابھی جوان جان آدمی ہو کئ لوگ تو پچاس سے اوپر کے ہو کر بھی شادی کرتے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں میں نہیں جیرا ترکھان اس نے تو پچپن برس کی عمر میں ابھی ابھی تیسری شادی کی ہے۔ کہتا ہے میرا تو پکا ہے کہ چوتھی کرکے ہی اوپر جاؤں گا۔


عمار: (ہلکا سا ہنس کر) نہیں بابا اب ایسے ہی گزر جاۓ تو اچھا ہے۔ (اٹھ کر کھڑکی کے پاس چلا جاتا ہے) اگر دوسری شادی بھی ناکام ہو گئ تو پھر۔۔۔دوباری کسی حادثے کو برداشت کرنے کی مجھ میں سکت نہیں رہی۔


 (سر جھکاۓ اندر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے)



تیرواں منظر


عمارہ کا اپارٹمنٹ۔ ثانیہ ٹی وی دیکھ رہی ہے جبکہ عمارہ اندر  میز پر کھانا لگا رہی ہے اور ساتھ ساتھ ثانیہ سے باتیں بھی کر رہی ہے۔


عمارہ: ثانیہ بیٹا ٹی وی دیکھنا بند کرو اور آکر کھانا کھا لو۔ لیکن پہلے یونیفارم بدلو۔ سکول سے آتے ہی یونیفارم بدلے اور منہ ہاتھ دھوۓ بغیر ٹی وی دیکھنے لگ جاتی ہو کتنی دفعہ کہا ہے کہ آتے ساتھ ہی ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھ جایا کرو۔ اور آج بھی تم نے لنچ نہیں کیا تمہارے لنچ باکس میں لنچ اسی طرح کا اسی طرح پڑا ہوا تھا۔


(ثانیہ اس کی باتوں پر دھیان نہیں دیتی)


عمارہ: (بلند آواز سے) سن رہی ہو میں کیا کہہ رہی ہو؟


ثانیہ: اچھا ماما بس اٹھنے لگی ہوں۔


عمارہ: جلدی کرو کھانا ٹھنڈا ہو جاۓ گا۔


(دروازے کی گھنٹی بجتی ہے)


عمارہ:  دروازے پر دیکھو کون ہے، تانیہ آنٹی ہوں گی۔


(ثانیہ اٹھ کر دروازہ کھولتی ہے، ایک مرد اور ایک عورت اندر آتے ہیں۔ ثانیہ انہیں دیکھتے ہی ان سے لپٹ جاتی ہے)


ثانیہ: نانو آپ آگئیں۔


(عمارہ اندر سے آواز دیتی ہے)


عمارہ: کون ہے ثانیہ؟


ثانیہ: ماما نانو آئی ہیں۔


(عمارہ باہر آتی ہے)


عمارہ: امی ابو آپ اس طرح۔۔۔(ان سے ملتی ہے)


ابو: اس طرح سے کیا مراد؟


عمارہ: اس طرح بغیر بتاۓ۔۔۔ کل میری امی سے بات بھی ہوںئ مگر انہوں نے تو نہیں بتایا کہ آپ لوگ آرہے ہیں۔


امی: تم سے فون پر بات کرنے کے بعد ہی پروگرام بنا اور بلکل اچانک بنا۔


ابو: (مسکراتے ہوۓ) پھر ہم نے کہا کہ وہاں جا کر ہی بتائیں گے۔۔۔کہ ہم آرہے ہیں۔



عمارہ: (ہنستے ہوۓ) بہت اچھا کیا آپ آگۓ ثانیہ بھی آپ کو بڑا یاد کر رہی تھی۔


ابو: (صوفے پر بیٹھ کر ثانیہ کو گود میں بٹھا لیتا ہے)  ہم اپنی ثانیہ بیٹی سے ہی تو ملنے آۓ ہیں ورنہ ہمارا یہاں کیا کام۔


عمارہ: تو آپ لوگ ثانیہ سے باتیں کریں میں چاۓ بنا کر لاتی ہوں۔ (جانے لگتی ہے پھر رک جاتی یے) امی کھانے کا وقت بھی ہے تو کھانا کھائیں گے؟


امی: نہیں میں تو بالکل نہیں کھاؤں گی مجھے بالکل بھی بھوک نہیں۔ 


عمارہ: اور ابو آپ؟


ابو: نہیں کھانا نہیں صرف ایک کپ چاۓ۔


عمارہ: ٹھیک ہے میں لاتی ہوں۔ 


(اندر چلی جاتی ہے)


ابو: ہاں تو ثانیہ بیٹا آپ کے لیۓ ہم ایک چھوٹا سا گفٹ لاۓ ہیں۔ 



(جیب میں سے کوںئ چھوٹا سا کھلونا نکال کر اسے دیتا ہے)


ثانیہ: (تحفہ پکڑتے ہوۓ) تھینک یو نانا ابو۔


(وہ ہنستا ہے)


چودھواں منظر


رات کا وقت ہے عمارہ اپنی امی کے ساتھ کمرے میں بیٹھی ہے۔


امی: کل شام چھ بجے کی فلائٹ ہے تو ہم دن کے وقت تھوڑی دیر کے لیۓ تمہاری پھوپھو کے ہاں ہو آئیں گے اگر ہم نہ گۓ تو وہ خواہ مخواہ ناراض ہوں گی کہ لاہور آۓ بھی تھے تو ان سے مل کر نہیں گۓ۔


عمارہ: وہ تو ٹھیک ہے امی لیکن آپ کل واپس کیوں جارہی ہیں چند دن رک جائیں۔


امی: نہیں رک بالکل نہیں سکتی گھر میں بہت سے کام ہیں اور تم جانتی ہوں اکیلی فروہ کے بس کی بات نہیں وہ تو کہہ رہی تھی کہ اگلے دن شام کی بجاۓ  آپ صبح صبح واپس گھر ہوں۔۔۔ لیکن یہ سب چھوڑو اصل میں تو آۓ ہم یہاں کسی خاص مقصد سے ہیں۔


عمارہ: (خیرت سے) مقصد سے؟ کس مقصد سے؟


امی: تمہارے لیۓ آۓ ہیں۔


(عمارہ خیرانی سے دیکھتی ہے)


امی: ہاں۔ تانیہ نے تم سے بات تو کی ہو گی میں نے اس سے کہا تھا کہ تم سے بات کرے۔


عمارہ: وہ والی بات۔۔۔ اس کا جواب تو میں نے اسی وقت دے دیا تھا اور پھر اس کے بعد آپ سے بھی تو اس بارے میں تھوڑی بہت بات ہوںئ تھی۔


امی: ہاں میں جانتی ہوں تمہارا جواب کیا ہے لیکن میں چاہتی ہوں تم اس بارے میں ایک بار پھر سے سوچو اور صرف اپنے بارے میں ہی نہیں بلکہ ثانیہ کے مستقبل کے بارے میں سوچ سمجھ کر کوںئ فیصلہ کرو۔ اگر تم ہاں کرتی ہو تو پھر ہم کہیں بات چلائیں گے، کراچی میں میرے جاننے والی دو فیملیز ہیں، لڑکے بھی اچھے ہیں میں ان سے مل چکی ہوں لیکن اگر تمہیں لڑکے پسند نہ آۓ تو کہیں اور بات چلا لیں گے لیکن تم ایک دفعہ غور تو کرو۔


عمارہ: مجھے اس بارے میں بالکل بھی غور نہیں کرنا آپ اس متعلق بات ہی نہ کریں۔


امی: لیکن آج نہیں تو کل تمہیں بہرحال اس بارے میں کوںئ نہ کوںئ فیصلہ لینا پڑے گا۔ اس لیۓ بہتر یہی ہے کہ تم ابھی سے سوچ لو۔ اگر مجھ سے پوچھو تو میں تو کہوں گی کہ تانیہ نے جس لڑکے کی بات کی ہے وہ بہتر ہے تم اسے اچھی طرح جانتی ہو اور ہم بھی اسے اور اس کی فیملی کو تھوڑا بہت جانتے ہیں۔ 


عمارہ: کون وہ عمار؟۔۔۔ امی آپ بھی کہاں تانیہ کی باتوں میں آجاتی ہیں وہ تو ایسے ہی کہتی رہتی ہے کچھ نہ کچھ۔


امی: کیوں اس نے کوںئ غلط بات کی ہے عمار میں کوںئ براںئ ہے؟


عمارہ: نہیں براںئ تو کوںئ نہیں لیکن میں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔


امی: تو یہی تو کہہ رہی ہوں کہ سوچو۔ اور تمہیں سچ بتاؤں تو صبح تمہارے ابو صدیقی صاحب سے عمار کے بارے میں بات کرنے جارہے ہیں۔


عمارہ: (ایک دم چونک کر) صدیقی صاحب سے بات کرنے کیوں جارہے ہیں؟


امی: وہ اس لیۓ کہ صدیقی اسے بڑی اچھی طرح جانتا ہے اس لیۓ تمہارے ابو نے کہا کہ صدیقی سے مل کر بات کریں گے کہ وہ عمار سے باتوں باتوں میں اس کی راۓ جاننے کی کوشش کرے۔ 


(عمارہ اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے)


عمارہ: امی یہ آپ لوگوں نے بالکل بھی اچھا نہیں کیا کم سے کم اس سے بات کرنے سے پہلے مجھے سے تو پوچھ لیتے۔


امی: تو ابھی اس سے بات کہاں کی ہے وہ تو صبح تمہارے ابو صدیقی صاحب سے مل کر کریں گے۔


عمارہ: نہیں آپ کسی سے کوںئ بات نہیں کریں گے۔ بات کرنے کا فائدہ بھی کوںئ نہیں کیونکہ میں جانتی ہوں عمار شادی کے لیۓ بالکل بھی رضامند نہیں ہوگا اس لیۓ کہ وہ دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہی نہیں۔



امی: لیکن ایک دفعہ بات کرنے میں کیا خرج ہے؟


عمار: میں اس سے پوچھ چکی ہوں تبھی آپ لوگوں کو کہہ رہی ہوں۔


امی: تمہارا اس طرح پوچھنا اور بات تھی لیکن ہماری بات اور ہے ہم ایک دفعہ بات کرکے دیکھ لیتے ہیں، اس میں خرج ہی کیا ہے اگر اس نے انکار کردیا تو پھر بات ہی ختم تم پریشان کیوں ہو رہی ہو۔


عمارہ: (پاس بیٹھ کر) ٹھیک ہے پھر ایک شرط ہے؟


امی: کیا؟


عمارہ: اگر اس نے انکار کر دیا تو پھر آپ مجھے دوبارہ کسی اور سے شادی کے متعلق فورس نہیں کریں گی۔۔۔ منظور ہے؟


امی: (چند لمحے سوچ کر) اچھا چلو منظور ہے۔


عمارہ: ٹھیک ہے پھر پکا رہیۓ گا؟


امی: (بیزاری سے) ہاں پکا اب تم کیا بچوں کی طرح مجھ سے عہد لو گی۔ 


عمارہ: (مسکراتی یے) بس ٹھیک ہے پھر۔


پندھرواں منظر


عمار اپنے چیمبر میں کام کر رہا ہے تبھی صدیقی اندر داخل ہوتا یے۔


صدیقی: (اندر آتے ہوۓ) کیا حال ہے عمار صاحب کچھ مصروف لگ رہے ہو؟



عمار: صدیقی صاحب آپ! (کھڑے ہو کر) آئیۓ آئیۓ تشریف رکھیۓ۔ خیریت ہے آج آپ نے میرے دفتر کا رخ کیسے کر لیا ورنہ تو اکثر اوقات مجھے ہی حاضری دینا پڑتی ہے۔


صدیقی: بس یار سمجھو آج تمہارا حال پوچھنے آگیا پر آیا کسی مقصد سے ہی ہوں۔


عمار: تو بتائیۓ کس مقصد سے آۓ ہیں؟


صدیقی: پہلے تم یہ بتاؤ تمہارا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ 


عمار: (خیرت سے) شادی کے بارے میں خیال کیا ہونا ہے کوںئ خاص خیال تو نہیں۔


صدیقی: میرا مطلب ہے تمہارا شادی کرنے کا کیا ارادہ ہے؟


عمار: میرا ایسا بالکل بھی کوںئ ارادہ نہیں۔


صدیقی: لیکن میرا مشورہ ہے تمہیں ارادہ بنا لینا چاہیۓ۔


عمار: آپ کے مشورے کا شکریہ صدیقی صاحب مگر آپ مجھے یہ مشورہ دے کیوں رہے ہیں؟


صدیقی: اس لیۓ کہ میرے پاس تمہارے لیۓ ایک رشتہ آیا یے۔


عمار: (خیرت سے) رشتہ۔۔۔میرے لیۓ۔۔۔اور آپ کے پاس؟


صدیقی: ہاں میرے پاس۔ تم عمارہ اور اس کے گھر والوں کو تو جانتے ہو بلکہ تم تو عمارہ کے ساتھ پڑھتے بھی رہے ہو؟


عمار: جی ہاں جانتا ہوں۔


صدیقی: اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ میرا اور عمارہ کے ابو کے ساتھ کتنا پرانا دوستانہ ہے۔



عمار: جی ہاں بالکل جانتا ہوں۔



صدیقی: ٹھیک ہے اب اصل مدعے پر آتا ہوں۔ کل اس کے ابو میرے پاس آۓ تھے وہ عمارہ کی شادی کرنا چاہ رہے ہیں اور اس کے لیۓ کوںئ رشتہ تلاش کر رہے ہیں۔  انہوں نے مجھ سے پوچھا تو اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا انہوں نے خود ہی تمہارا نام لے لیا۔ اور میرے ذمے یہ ڈیوٹی بھی لگائی کہ میں تم سے بات کر کے تمہاری راۓ معلوم کرکے انہیں بتاؤں۔ اب تم بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے؟


عمار: (سوچ کر ٹھہر ٹھہر کر بولتا ہے) اب صدیقی صاحب جہاں تک عمارہ اور اس کی فیملی کی بات ہے تو وہ بہت اچھے لوگ ہیں عمارہ بھی اچھی لڑکی ہے  لیکن۔۔۔شادی سے متعلق میں آپ کو بتا چکا ہوں فی الحال میرا کوںئ ارادہ نہیں۔


صدیقی: وہ تو تم مجھے بتا چکے ہو لیکن میں چاہتا ہوں تم ایک بار پھر سوچ لو اور گھر جا کر پوری تسلی سے اور اطمینان سے اس پر غور کرو پھر کوںئ فیصلہ کرنا۔ (چند لمحے خاموش ہو کر پھر بولتا ہے) دیکھو عمار! عمارہ میری بیٹی کی طرح ہے اور تم بھی مجھ سے کافی چھوٹے ہو میرے بیٹے کی طرح ہی ہو یا تم مجھے اپنا بڑا بھاںئ سمجھ لو۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس رشتے سے انکار کرنے سے پہلے ایک دفعہ پوری طرح سوچ لو، ایسے اچھے رشتے بار بار نہیں ملتے میرے خیال میں اس میں تمہارا بھی بھلا ہے اور عمارہ بیٹی کا بھی۔ تم اپنے گھر والوں سے بھی بات کر لو اور پھر ان کی راۓ لے کر کوںئ فیصلہ کرو یہ نہ ہو بعد میں تمہیں پچھتانا پڑے۔



عمار: (کچھ سوچتے ہوۓ) جی صدیقی صاحب۔


صدیقی: میں دل سے چاہتا ہوں یہ رشتہ ہو جاۓ اگر تو  تمہاری کوںئ اور پسند ہے اور تم کہیں اور شادی کرنا چاہتے ہو تو بات الگ ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر تم یہ رشتہ ٹھکرا کر غلطی کرو گے۔ 



(عمار سر ہلاتا ہے اور کچھ سوچنے لگ جاتا ہے)


سولہواں منظر


رات کا وقت ہے عمار اپنے لان میں ٹہل رہا ہے۔ کسی سوچ میں گم ہے۔ کافی دیر تک لان میں ٹہلتا رہتا ہے پھر اندر حال میں آتا ہے اور میز پر سے موبائل اٹھا کر نمبر ڈائل کرتا ہے۔ پھر کچھ سوچ کر ٹھہر جاتا ہے۔


سترہواں منظر



عمار کا دفتر۔ موبائل کی گھنٹی بجتی ہے وہ فون اٹھاتا ہے۔ 


عمار: (فون پر) جی صدیقی صاحب؟


صدیقی: (فون پر) ہاں تو کیا فیصلہ کیا پھر تم نے؟


عمار: صدیقی صاحب آپ نے تو اتنی جلدی فون کر لیا کچھ دن سوچنے کا موقع تو دیں۔


صدیقی:  دو دن تو ہو گۓ ہیں اور کتنے دن چاہیئں تمہیں مجھے عمارہ کے والد کا فون بھی آیا تھا وہ بھی پوچھ رہے تھے کہ عمار یا اس کے گھر والوں کی طرف سے کوںئ جواب آیا۔


عمار: میں نے اپنے گھر والوں کو اس بارے میں بتایا تو ہے لیکن ابھی۔۔۔ 



صدیقی: (بات کاٹ کر)  دیکھو عمار! میں جانتا ہوں کہ تم خود مختار آدمی ہو اس لیۓ یہ فیصلہ تم خود ہی کرو گے اور جہاں تک تمہارے گھر والوں کی بات ہے  مجھے یقین ہے انہیں اس قسم کے اچھے رشتے سے کوںئ اعتراض نہیں ہوگا۔ لہذا تم فوراً فیصلہ کرو اور اپنی مرضی بتاؤ۔


عمار: ٹھیک ہے صدیقی صاحب اگر آپ میرا فیصلہ سننا چاہتے ہیں تو میرا فیصلہ یہ ہے کہ جو بھی عمارہ کی مرضی ہو گی وہی میرا فیصلہ ہو گا۔ اگر اسے یہ رشتہ منظور ہوگا تو مجھے بھی کوںئ اعتراض نہیں۔۔۔۔اب تو آپ خوش ہیں؟


صدیقی: ٹھیک ہے میں ابھی اس سے بات کرتا ہوں اور اسے تمہارے فیصلے کے بارے میں آگاہ کرتا ہوں۔


عمار: صحیح ہے پر ایک بات اور۔۔۔ کیا میں بھی یہ یقین کروں کہ عمارہ کے گھر والے بھی اس کی خود مختاری کا خیال رکھیں گے؟


صدیقی: ہاں بالکل تم یقین کر سکتے ہو جو فیصلہ بھی ہو گا عمارہ کا اپنا ہو گا اور اور بغیر کسی دباؤ اور مجبوری کے ہو گا۔ جو فیصلہ بھی وہ کرے گی وہی سب کو منظور ہوگا۔


عمار: ٹھیک ہے پھر۔


(فون بند کر دیتا ہے)


اٹھارواں منظر


رات کا وقت ہے عمارہ اپنی ٹیرس میں خیالوں میں گم کھڑی ہے۔ تانیہ آتی ہے۔


تانیہ: (پاس بیٹھتے ہوۓ) کیا سوچ رہی ہو؟


عمارہ: (ہلکا سا چونکتے ہوۓ) ہونہہ۔۔۔میں نے سوچا تھا  کہ وہ خود ہی انکار کر دے گا تو بات ختم ہو جاۓ گی مگر اس نے تو بال میرے کوٹ میں ڈال دی ہے۔ اب میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔


تانیہ: میں تو کہتی ہوں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں اس نے آخری فیصلے کا اختیار تمہیں دے کر اپنی طرف سے ایک قسم کی منظوری ظاہر کر دی ہے اب بہتر یہی ہے تم بھی ہاں کردو۔


عمارہ: (سسکنے کے انداز میں) لیکن میرا دل نہیں مانتا۔ 


تانیہ: دل کو دفعہ کرو۔۔۔(اٹھ کر اس کے قریب جا کر کھڑی ہو جاتی ہے اسے پکڑ کر بٹھاتی ہے اور پیار سے سمجھاتی اور دلاسہ دیتی ہے) عمارہ ادھر آؤ یہاں بیٹھو۔۔۔ اب میری بات دھیان سے سنو! میری کوںئ بہن نہیں لیکن میں نے ہمیشہ تمہیں اپنی بہن ہی سمجھا ہے۔ ہماری دوستی کا رشتہ برسوں پرانا اور مظبوط ہے آج تک اس میں کبھی کوںئ ہلکی سی بھی دراڑ نہیں آںئ ، میں تمہیں وہی بات کہوں گی جس میں تمہاری بہتری ہے۔ اس کے علاوہ تمہارے گھر والے اور عمار کے گھر والے سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ یہ رشتہ ہو جاۓ۔ تم دونوں کی بھلاںئ اسی میں ہے، تم کچھ بھی نہ سوچو سب ٹھیک ہو گا۔


(عمارہ سر ہلاتی ہے)


تانیہ: اب تم اٹھو اور سو جاؤ رات کافی ہو گئ ہے صبح اٹھ کر تم جو بھی فیصلہ کرو گی وہی سب منظور کریں گے۔ تمہیں کوںئ بھی فورس نہیں کرے گا اور نہ ہی تم سے کوںئ سوال کرے گا۔ جو باتیں کرنی تھیں وہ سب نے تم سے کر لیں ہیں سب نے اپنی بات سمجھا لی ہے اور تم نے اپنی، صبح اٹھ کر تم بس اپنا فیصلہ سناؤ گی اور اس کے بعد بات ختم ہو جاۓ گی۔ تمہیں جو بہتر لگے تم وہی کرنا، میں دونوں صورتوں میں تمہارے ساتھ ہوں بلکہ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے اب۔۔۔ پریشان تو نہیں ہو؟


(عمارہ دوبارہ سر ہلاتی ہے)


تانیہ: چلو پھر یہاں سے اٹھو اندر چلیں۔


عمارہ: تم چلو میں آتی ہوں۔


تانیہ: ٹھیک ہے میں چلتی ہوں تم آجانا تھوڑی دیر تک۔ (اندر جاتے ہوۓ پھر سے آواز دیتی ہے) جلدی آجانا زیادہ دیر تک یہیں نہ بیٹھے رہنا۔


(تانیہ چلی جاتی ہے۔ عمارہ کھڑی ہوتی ہے اور سامنے سڑک پر دور تک بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کو بلا مقصد دیکھنے لگتی ہے۔)



انیسواں منظر


صبح صبح کا وقت ہے عمارہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی باہر جھانک رہی ہے۔ کھڑکی بند ہے لیکن سورج کی روشنی کھڑکی کے شیشے سے اندر کمرے میں پڑ رہی ہے۔ جس سے کمرا روشن ہو گیا ہے۔ تانیہ داخل ہوتی ہے۔



تانیہ: تم یہاں کھڑی ہو تمہاری امی تمہیں فون کر رہی تھیں لیکن تمہارا فون آف تھا۔ فون آف کیوں کیا ہوا؟



عمارہ: رات کو چارج کرنا یاد ہی نہیں رہا خود ہی آف ہو گیا ہوگا۔ 


تانیہ: اچھا وہ بتا رہی تھیں کہ عمار کی امی کا فون آیا تھا، تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔


عمارہ: انہیں کہو کہ اب فون کرنے کی ضرورت نہیں آپ بس شادی کی تیاریاں کریں۔


تانیہ: (خوش ہوتے ہوۓ) اس کا مطلب ہے تم ہاں کر رہی ہو؟


عمارہ: مجھے نہیں معلوم میں کیا کر رہی ہوں بس کر رہی ہوں۔



تانیہ: (اچھلتے ہوۓ) بہت اچھا کر رہی ہو تم۔۔۔میں ابھی فون کر کے سب کو بتاتی ہوں۔


(تانیہ چلی جاتی ہے۔ عمارہ کھڑکی کے شیشے سے باہر جھانکتی یے۔ شیشے پر اس کے مرحوم شوہر شہریار کی شبہیہ ابھرتی ہے۔ عمارہ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں)



بیسواں منظر



عمارہ کا کمرا۔ عمارہ فون پر عمار سے باتیں کر رہی ہے۔



عمارہ: تم نہیں جانتے عمار میں نے یہ فیصلہ کیسے کیا ہے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے میں کس اذیت سے گزری ہوں ، ایک ناقابل عبور یخ دریا تھا جس کو میں نے تیر کر عبور کیا ہے۔ ایک تکلیف دہ چڑھاںئ والا پہاڑ تھا جسے میں نے ننگے پاؤں سر کیا ہے۔ لیکن ابھی بھی میں نہیں جانتی کہ پہاڑ کو سر کر کے اور دریا کو عبور کرکے میں نے کچھ حاصل کیا ہے یا کھو دیا ہے۔ 



عمار: مجھے بھی علم نہیں عمارہ کہ میں نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ بلکہ سچی بتاؤں تو میں تو کوںئ فیصلہ کر ہی نہیں پایا اسی لیۓ میں نے یہ سب تم پر چھوڑ دیا۔ جب آدمی کسی معماملے کو لے کر کوںئ واضح فیصلہ نہیں کر پاتا جب وہ نہیں جانتا کہ جس راستے پر وہ چل رہا ہے اس پر چلتے رہنا زیادہ تکلیف دہ ہے یا اس کو چھوڑنا زیادہ تکلیف دہ، تو وہ اس اذیت سے بچنے کے لیۓ فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیتا ہے۔ میں نے بھی بس یہی کیا ہے۔



عمارہ: شاید ایسا ہی ہے مگر۔۔۔


عمار: اگر مگر کرنے سے اب کیا فائدہ، فیصلہ ہو چکا ہے چند دن بعد ہماری شادی ہے۔ ہمارا واپسی کا راستہ بند ہو چکا ہے۔


(عمارہ کو کوںئ باہر سے آواز دیتا ہے)


عمارہ: (بلند آواز سے) آنے لگی ہوں۔ (فون پر) اچھا بعد میں بات کرتی ہوں۔۔۔۔


(فون بند کر دیتی ہے)


اکیسواں منظر


رات کا وقت ، عمارہ کا اپارٹمنٹ۔ عمارہ ایک طرف مہندی کا جوڑا پہنے چپ چاپ بیٹھی ہے۔ لڑکیاں مہندی لگا رہی ہیں، ڈھولک بجا رہی ہیں، شادی کے گیت گا رہی ہیں۔ تانیہ آتی ہے اس کے کان میں کچھ کہتی ہے۔ عمارہ اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑتی ہے، دونوں باہر نکل جاتی ہیں۔


بائیسواں منظر


رات کا وقت ، عمار کا گھر۔ شادی کا ماحول ہے، گھر لائیٹنگ وغیرہ سے سجا ہوا عمار کے گھر والے اور دوسرے بہت سے لوگ شادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گہما گہمی ہے۔ عمار ایک طرف سر جھکاۓ گم سم بیٹھا ہے۔ عمار کا ملازم بابا آتا ہے اور عمار کے کان میں کچھ کہتا ہے۔ عمار خیران ہو کر اس کی طرف دیکھتا ہے۔



تیئسواں منظر


عمار کمرے میں داخل ہوتا ہے، کمرے میں اس کی امی، ابو اور عمارہ کے ابو بیٹھے ہیں۔ ان کے چہرے پر تفکر اور پریشانی ہے۔


عمار: (اندر داخل ہوتے ہی) خیریت ہے آپ اس وقت یہاں؟


(عمارہ کا باپ سیٹ سے اٹھتا ہے)


عمار: بیٹھے رہیۓ اور مجھے بتائیۓ خیریت تو ہے عمارہ تو ٹھیک ہے؟ (ان کے سامنے بیٹھ جاتا ہے)



عمارہ کا باپ: عمارہ بھی ٹھیک ہے بیٹا باقی سب بھی ٹھیک ہیں۔ لیکن ایک ایسی بات پتہ چلی ہے جو ہے تو خوشی کی بات مگر وہ جس وقت پر پتہ چلی ہے اس نے ہماری مشکل اور پریشانی کو مزید بڑھا دیا ہے۔



عمار: (خیرت سے) کون سی بات؟


عمارہ کا باپ: بیٹا تم یہ تو جانتے ہو شہریار ایک آرمی آفیسر تھا اور اس کی ہلاکت دشمن سے کسی جھڑپ کے دوران ہوںئ تھی۔ لیکن شاید تم یہ نہیں جانتے کہ تب اس کی باڈی نہیں ملی تھی، اس کو بہت تلاش کیا گیا کہ وہ زندہ یا مردہ حالت میں مل جاۓ مگر نہ تو وہ زندہ حالت میں ملا اور نہ ہی اس کی باڈی ملی۔ اس لیۓ کچھ عرصے بعد ہم سب نے خود کو سمجھا لیا کہ شہریار اب تک یقیناً زندہ نہیں بچا ہو گا۔۔۔لیکن اتنے عرصے بعد آج ہمیں پتہ چلا ہے کہ شہریار زندہ ہے۔۔۔(عمار خیرت سے اس کی طرف دیکھتا ہے) ہاں وہ زندہ تو ہے مگر دشمن کی قید میں ہے۔


عمار کی والدہ: یہ تو خوشی کی بات ہے بھاںئ صاحب۔


عمارہ کا باپ: خوشی کی بات تو ہے مگر ایک پریشانی بھی ہے۔ جس آرمی آفیسر سے میری بات ہوںئ اس نے کہا ہے کہ یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ عمار زندہ ہے اور دشمن کی قید میں ہے مگر وہ رہاںئ پا کر کب آۓ گا، آۓ گا بھی کہ نہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیا پتہ وہ تمام عمر ہی ان کی قید میں رہے۔


(کمرے میں خاموشی چھا جاتی ہے عمار اٹھتا ہے اور ان سب کی طرف پیٹھ کر کے کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوتا ہے۔)


عمار کا والد: تو اب آپ کیا چاہتے ہیں؟



عمارہ کا باپ: مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ آپ کے ہاں بھی مہمان شادی کے لیۓ آکر بیٹھے ہیں اور ہمارے ہاں بھی ، دونوں طرف شادی کی رسومات جاری ہیں  ایسے میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا جاۓ۔ اسی لیۓ میں خود اس وقت چل کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟


عمار کا والد: آپ لوگوں کو چھوڑیں لوگوں کی پرواہ نہیں آپ یہ بتائیں کہ عمارہ بیٹی کیا چاہتی ہے؟


عمارہ کا باپ: پتہ نہیں بھاںئ صاحب اس نے تو جب سے سنا ہے اپنے کمرے سے ہی باہر نہیں نکلی۔


عمار کی والدہ: بھاںئ صاحب مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر اس وقت شادی نہ کریں تو بھی تو اس بات کی کوںئ ضمانت نہیں کہ شہریار لوٹ آۓ گا۔ کہنا تو نہیں چاہیۓ مگر کیا پتہ وہ عمر بھر واپس نہ آۓ۔


عمار کا والد: جی بہن جی اسی بات کی تو پریشانی ہے اگر خوشی ملی بھی ہے تو آدھی ادھوری اور آدھی ادھوری خوشی پورے غم سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ 


(عمار مڑتا ہے اور عمارہ کے والد کو مخاطب کرتا ہے)



عمار: انکل آپ مجھے عمارہ سے ملا سکتے ہیں میں اس سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کو کوںئ دقت نہ ہو تو؟


عمارہ کا باپ: مجھے کوںئ دقت نہیں بیٹا تم اس سے مل سکتے ہو۔


عمار: تو پھر چلیں میں ابھی اسی وقت اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔


عمارہ کا باپ: (اٹھتے ہوۓ) ٹھیک ہے چلو۔


چوبیسواں منظر


عمارہ کا کمرا۔ عمارہ بستر پر بیٹھی ہے اور عمار کچھ فاصلے پر اس کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہے۔


عمار: میں یہ تو نہیں کہہ سکتا عمارہ! کہ جو کچھ بھی آج ہوا ہے وہ کوںئ قدرت کا اشارہ ہے یا محض ایک اتفاق۔ مگر جو بھی ہے اس نے بہرحال ہمیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس نے ہمارے لیۓ وہ بند راستہ کھول دیا ہے جسے ہم نے خود مجبوراً بند کیا تھا۔ (اس کی طرف مڑتے ہوۓ) اس نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ہم نے دل کے راستے کو چھوڑ کر دماغ کا جو راستہ اختیار کیا تھا وہ درست نہیں۔ ہم دماغ کے جھانسے میں آگۓ تھے عمارہ! لیکن شاید قدرت نے ہمارے لیۓ واپسی کا دروازہ کھول دیا ہے، اس نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم دوبارہ اپنے دل کی راہ پر چلنا شروع کر دیں۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ یہ راہ کتنی طویل اور کٹھن ہے مگر اتنا جان گیا ہوں کہ یہی درست ہے۔ اس راہ پر کتنا لمبا اور جان لیوا انتظار ہے، شاید برسوں کا یا شاید صدیوں کا مگر اسی راہ پر ہماری منزل ہے۔۔۔ ہم دونوں خزاں رسیدہ درخت کی وہ دو شاخیں ہیں عمارہ! جو بہار کے انتظار میں سوکھ تو گئ ہیں مگر بہار کی آمد سے مایوس نہیں ہوئیں۔ میں نہیں جانتا بہار ہمیں کبھی نصیب ہو گی کہ نہیں مگر بہار کی آمد کا انتظار کبھی ختم نہیں ہو گا۔۔۔(چند قدم چل کر دروازے کے پاس جاتا ہے) چلتا ہوں۔۔۔ لیکن جانے سے پہلے صرف ایک بات کہوں گا۔۔۔اپنے دل والی راہ پر قائم رہنا۔ خدا خافظ۔ 


(باہر نکل جاتا ہے عمارہ سر اٹھا کر اسے پیچھے سے دیکھتی یے۔ اس کے لب آہستہ سے ہلتے ہیں)


عمارہ: خدا خافظ۔ 


(اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں)



پچیسواں منظر


عمار کا گھر۔ وہ اپنے لان میں کھڑا ہے۔ پھولوں ، درختوں اور پرندوں کو بڑے پیار اور محویت سے دیکھ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں اور کندھے پر بیگ ہے جس سے لگتا ہے کہ کہیں جانے کی تیاری میں ہے۔ ملازم بابا داخل ہوتا ہے۔


بابا: عمار صاحب آپ کا سامان گاڑی میں رکھوا دیا ہے۔ 



عمار: ٹھیک ہے بابا۔ تم کوٹھی کو تالا لگا دینا اور واپس گھر چلے جانا اس کوٹھی کی چابیاں تم میرے گھر دے دینا۔


بابا: لیکن عمار صاحب آپ نے بتایا تو ہے نہیں کہ آپ جا کہاں رہے ہیں؟


عمار: میں اس اصلی اور حقیقی حسن کی تلاش میں  جا رہا ہوں بابا۔ میں اس وادی کی تلاش میں نکل رہا ہوں جو خوشنما رنگوں کی وادی ہے، پھولوں کی وادی ہے، خوشبوؤں کی وادی ہے۔۔۔ (خاموش ہوتا ہے اور سامنے اونچے درختوں پر بیٹھے پرندوں کو دیکھنے لگتا ہے) (آگے بڑھتے ہوۓ) اچھا بابا میں چلتا ہوں۔۔۔ 


(چل پڑتا ہے)

























 











 











































Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات