Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




 کردار

ملک اعجاز حسن: عمر پچاس ساٹھ برس ، بائیسویں گریڈ کا آفیسر، کلین شیو ہینڈسم پرسنیلٹی، رنگین مزاج۔


شبیہ: ملک اعجاز حسن کی شبیہ، انتہائی بدصورت، کریہہ اور خوفناک۔


علینہ: نوجوان لڑکی۔ ملک اعجاز حسن کی ایمپلائی۔ کولیگ۔


چند دیگر کردار



پہلا منظر


ملک اعجاز  حسن کا دفتر۔ ملک اعجاز اعلیٰ قسم کا قیمتی سوٹ پہنے ہوۓ ہے، بالوں میں قرینے سے کنگھی کی گئ ہے، ہاتھ میں کسی مہنگے برانڈ کا سگار ہے۔ 

جب منظر کھلتا ہے تو ملک اعجاز کمرے میں ٹہلتا دکھاںئ دیتا ہے،  ترنگ میں ہے اور آہستہ آہستہ کسی گانے کی دھن بجا رہا ہے۔ کمرے میں ہی ایک دو چکر لگانے کے بعد آہستہ سے کھڑکی کی طرف بڑھتا ہے۔ کھڑکی کی جالی سے باہر جھانکتا ہے، باہر ایک خوبصورت نوجوان لڑکی بیٹھی کمپیوٹر پر کچھ ٹائپ کر رہی ہے۔ ملک اعجاز اسے للچائی ہوںئ نظروں سے دیکھتا ہے۔ پھر آہ بھرتا ہے اور سگار کا ایک لمبا کش لگاتا ہے۔ واپس پلٹتا ہے اور کھڑے کھڑے ہی میز پر پڑے فون کا رسیور اٹھاتا ہے اور نمبر ڈائل کرتا ہے۔


اعجاز: (فون پر) مس علینا وڈ یو پلیز کم ٹو ماںئ روم؟۔۔۔


 (فون بند کر دیتا ہے۔ سیٹ پر بیٹھتا ہے اور میز پر پڑے آئینے میں اپنی صورت دیکھتا ہے، بالوں کو ہاتھ سے ٹھیک کرتا ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔)


اعجاز: یس پلیز۔


(وہی لڑکی داخل ہوتی ہے جو چند لمحے پہلے کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی)


اعجاز: آئیۓ آئیۓ مس علینا بیٹھیۓ۔


علینا: (بیٹھتے ہوۓ) جی سر۔۔۔


اعجاز: مس علینا میں نے آپ کو ایک بہت ہی ضروری بات کرنے کے لیۓ بلایا ہے لیکن وہ بات دفتر سے یا کام سے متعلق نہیں ہے، وہ بات ذرہ پرسنل نوعیت کی ہے۔


علینا: (خیرت سے) پرسنل بات۔۔۔کس قسم کی پرسنل بات؟


اعجاز: وہ پرسنل بات میرے بارے میں ہے۔۔۔(سیٹ سے اٹھ کر ایک طرف جاکر کھڑا ہو جاتا ہے) مس علینا میں آپ کو کیسا لگتا ہوں؟


علینا: (خیرت سے) کیا مطلب سر۔۔۔ آپ بہت اچھے باس ہیں اور۔۔۔


اعجاز: نہیں باس کے حوالے سے نہیں۔۔۔اس کے علاوہ میں تمہیں کیسا لگتا ہوں؟


علینا: (خیرت سے) اس کے علاوہ؟۔۔۔میں آپ کو زیادہ تو جانتی نہیں بس یہی کہ آپ بہت گڈلکنگ ہیں، سمارٹ ہیں اور ہینڈسم ہیں۔


اعجاز: (خوش ہوتے ہوۓ) ہاں مس علینا آپ مجھے زیادہ نہیں جانتی لیکن یہی تو میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے زیادہ جانیں۔ 


علینا: (کچھ نہ سمجھتے ہوۓ) کیا مطلب سر؟ میں سمجھی نہیں۔


اعجاز: میں آپ کو اپنے دل کی بات بتانا چاہتا ہوں مس علینا۔۔۔میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے بارے میں کیا محسوس کرتا ہوں۔۔۔(سگار کا کش لگاتا ہے) لیکن میرا خیال ہے اس جگہ پر اپنے دل کی بات کرنا مناسب نہیں، ہمیں کہیں باہر ملنا چاہیۓ۔


علینا: باہر کہاں سر؟


اعجاز: کیوں نہ آج آفس سے چھٹی کے بعد کسی ریسٹورنٹ میں چلیں وہاں کھانے کے دوران بات بھی ہو جاۓ گی۔


علینا: نہیں سر میں چھٹی کے بعد سیدھا گھر جاؤں گی میں گھر دیر سے نہیں جا سکتی۔


اعجاز: تو ایسا کرتے ہیں ہم چھٹی سے گھنٹہ بھر پہلے نکل جائیں گے اور میں خود تمہیں گھر ڈراپ کر دوں گا۔


علینا: (گبھرا کر) نہیں! اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔۔۔میری تو شامت آجاۓ گی۔


اعجاز: او کم آن مس علینا۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔اچھا چلو میں تمہیں گھر سے کافی دور اتار دوں گا پھر تو کوںئ مسئلہ نہیں؟


علینا: (ہچکچاتے ہوۓ) مگر سر۔۔۔


اعجاز: اگر مگر کو چھوڑو، فکر کرنے کی ضرورت نہیں کوںئ بھی نہیں دیکھے گا۔


(علینا سوچتی ہوںئ کچھ سمجھنے نہ سمجھنے کی کیفیت میں اٹھتی ہے)


علینا: اچھا سر ٹھیک ہے ابھی میں چلتی ہوں ابھی کافی کام پڑا ہوا ہے۔


اعجاز: آل رائٹ۔۔۔ابھی تم اپنا کام مکمل کر لو۔


(علینا جانے لگتی ہے۔ اعجاز اسے پھر سے آواز دے کر روک لیتا ہے)


اعجاز: اور سنو علینا۔۔۔(دراز میں سے کوںئ گفٹ پیک نکالتا ہے) یہ میری طرف سے ایک چھوٹا سا گفٹ۔۔۔پہلے میرا ارادہ تھا تم سے اپنے دل کی بات کرکے تمہیں یہ گفٹ دوں گا پر پھر سوچا ابھی دے دیتا ہوں۔


علینا: لیکن یہ گفٹ میں نہیں لے سکتی سر اتنا قیمتی گفٹ میں کس حیثیت سے آپ سے  وصول کروں؟


اعجاز: تم یوں سمجھ لو تمہاری اچھی کارکردگی کی وجہ سے تمہیں آفس کی طرف سے یہ ملا ہے۔


علینا: لیکن سر؟۔۔۔


اعجاز: (گفٹ پکڑاتے ہوۓ) لیکن ویکن کچھ نہیں تم رکھو اسے اپنے پاس۔ 


علینا: (ہچکاتے ہوۓ گفٹ پکڑتی ہے) تھینک یو سر۔


(علینا گفٹ لے کر باہر نکل جاتی ہے۔ اعجاز مسکراتا ہے، سگار کا ایک کش لگاتا ہے  اور سیٹ پر بیٹھ کر پھر سے آئینے میں اپنی صورت دیکھنے لگتا ہے۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ اعجاز فون اٹھاتا ہے)


آدمی: (فون پر) کیا کر رہے ہو ملک؟


اعجاز: (معنی خیز انداز سے) کچھ نہیں ایک نئ مچھلی پھنسا رہا ہوں۔


(آدمی قہقہہ لگا کر ہنستا ہے)


آدمی: تو پرانی والی کہاں گئ؟


اعجاز: وہ تو کب کی واپس پانی میں چھوڑ دی۔


آدمی: تیرا اچھا ہے بھاںئ اس عمر میں بھی ہر دوسرے چوتھے مہینے تمہیں نئ مچھلی مل جاتی ہے۔۔۔اس بار یہ تازہ مچھلی کہاں سے ملی؟


اعجاز: اس بار اپنے آفس میں ہی مل گئ۔


آدمی: یہ تو پھر بہت اچھا ہوا کہیں دور نہیں جانا پڑا۔


اعجاز: ہاں پر اس بار لگتا ہے شاید تھوڑی محنت زیادہ کرنی پڑے۔


آدمی: تو کوںئ بات نہیں تم کون سا اس کھیل میں نۓ ہو تم تو ایک منجھے ہوۓ کھلاڑی ہو۔


اعجاز: (شوخی سے) ہاں یہ تو ہے تیرا بھاںئ کھلاڑی تو بہت اچھا ہے۔


آدمی: (ہنستا ہے) اچھا چل ٹھیک ہے شام کو کیا کر رہے ہو؟


اعجاز: کچھ نہیں۔۔۔ کیوں؟


آدمی: پھر شام کو ملتے ہیں۔


اعجاز: ٹھیک ہے۔


(فون بند ہو جاتا ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے)


اعجاز: یس۔


(پیون اندر داخل ہوتا ہے)


پیون: صاحب جی وہ بوڑھا آدمی پچھلے دو گھنٹے سے بیٹھا ہوا ہے، منتیں کر رہا ہے کہ صاب سے ملا دو۔


اعجاز: کون بوڑھا آدمی؟


پیون: وہی صاب جی جو کل بھی آیا تھا جس نے دفتر کے باہر آپ کے پاؤں پکڑ لیۓ تھے۔


اعجاز: وہ بوڑھا۔۔۔ تو تم نے اسے بھگایا نہیں؟


پیون: میں نے تو بہت کہا کہ تمہارا کام نہیں ہو سکتا پر وہ ترلے کرنے لگا کہہ رہا تھا میں غریب آدمی ہوں مجبور ہوں صاب سے کہو کہ میرا کام کر دے۔


اعجاز: اچھا ٹھیک ہے تم اسے کوںئ بہانہ لگا کر ٹرحا کر  بھگا دو۔ (کوںئ فائل کھول کر دیکھنے لگتا ہے)


پیون: صاب جی اس کا کام کر دیں بیچارا مجبور ہے اتنے پھیرے لگا چکا ہے پر اس کا کام ابھی تک نہیں ہوا۔


اعجاز: (فائل سے سر اوپر اٹھا کر) مجبور ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ ہمارے ملک میں اتنے سارے مجبور لوگ ہیں میں کس کس کا کام کرتا پھروں۔ (سختی سے) اب جاؤ یہاں سے میرا وقت ضائع مت کرو۔


پیون: جی صاب جی۔ 


(پیون سر جھکاۓ چلا جاتا ہے)



دوسرا منظر


رات کا وقت ہے، ملک اعجاز گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہے ڈرائیور گاڑی چلا رہا ہے۔ گاڑی آکر ایک بڑی سی کوٹھی کے دروازے کے آگے رکتی ہے، گاڑی کا ہارن بجتا ہے، چوکیدار دروازہ کھولتا ہے، گاڑی گھر کے اندر داخل ہو جاتی ہے۔ پورچ میں اور بھی تین چار قیمتی گاڑیاں پہلے سے کھڑی ہیں، گھر بہت بڑا اور شاندار ہے، باہر سے ہی ملک اعجاز کی امارت کی جھلک دکھاںئ دے جاتی ہے۔ ملک اعجاز گاڑی کی پچھلی نشست سے بریف کیس ہاتھ میں لیۓ باہر نکلتا ہے۔ گھر کے اندر سے ایک ملازم بھاگتا ہوا آتا ہے، اعجاز اس کے ہاتھ میں بریف کیس تھماتا ہے اور اندر کی طرف چل پڑتا ہے۔



تیسرا منظر


ملک اعجاز کا کمرا۔ کمرے میں انتہائی قیمتی اور اعلی قسم کا آرائش کا سامان ہے۔  ملک اعجاز باتھ روم سے نکل کر باہر آتا ہے اس نے سلیپنگ گاؤن پہن رکھا ہے، بالوں میں تولیہ پھیر رہا ہے۔ سامنے لگے قد آدم آئینے کی طرف بڑھتا ہے، آئینے میں اپنی شکل دیکھتا ہے، کچھ تبدیلی محسوس کرکے آئینے کو غور سے اور خیرانی سے دیکھتا ہے، پھر ملازم کو آواز دیتا ہے۔


اعجاز: (بلند آواز سے) ریاض۔۔۔ریاض۔۔۔(چند سیکنڈ تک وہاں سے کوںئ آواز نہیں آتی، دوبارہ آواز دیتا ہے) ریاض۔۔۔کہاں مر گۓ ہو یہاں آؤ۔


(باہر سے آواز آتی ہے) آیا صاحب جی۔۔۔


ملازم: (اندر آکر) جی صاحب جی؟


اعجاز: یہ کمرا کچھ بدلا بدلا سا دکھاںئ دے رہا ہے، خاص کر یہ آئینہ۔۔۔(آئینے کو انگلی سے چھو کر) یہ آئینہ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔


ملازم: جی صاحب جی یہ آئینہ آج ہی نیا لاکر رکھا ہے۔ آج صبح پتہ نہیں کیا ہوا اچانک ایک زور دار آواز آںئ میں نے آکر کمرے میں دیکھا تو آئینہ ٹوٹ کر نیچے گرا پڑا تھا۔ پتہ نہیں صاب جی آئینہ خود بخود کیسے ٹوٹ گیا جبکہ کمرے میں تو کوںئ بھی نہیں تھا۔


اعجاز: (آئینے کی طرف دیکھ کر آئینہ کا معائنہ کرتے ہوۓ) شاید پرانا ہو گیا تھا اس لیۓ۔۔۔


ملازم: اس کے علاوہ ایک اور بھی عجیب بات ہوںئ صاب جی، میں مارکیٹ سے نیا آئینہ لینے گیا تو پتہ چلا کہ آج ہڑتال کی وجہ سے ساری مارکیٹ بند ہے لیکن جب میں واپس پلٹنے لگا تو دیکھا کہ ایک دکان کھلی ہے۔ پوری مارکیٹ میں صرف وہی ایک دکان کھلی تھی۔ میں نے دکان دار سے ایک بڑے سے آئینے کے  بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ 'وہ آئینہ جو تمہارے صاب کے قد کے برابر ہے، نہ ایک انچ چھوٹا ہے نہ ایک انچ بڑا، جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ٹوٹا ہے، تمہیں اس جیسا ہی کوںئ آئینہ چاہیۓ؟۔۔۔ میں نے خیران ہو کر اس سے پوچھا کہ تمہیں یہ سب کیسے پتہ چلا تو اس نے بات ٹال دی اور مجھے یہ والا آئینہ دکھا کر بولا 'یہ لے جاؤ یہ بالکل تمہارے صاب کے قد کے برابر ہے نہ ایک انچ چھوٹا ہے نہ ایک انچ بڑا۔'۔۔۔ قسم سے صاب جی لگتا ہے بڑا ہی کوںئ پہنچا ہوا بزرگ تھا۔


اعجاز: (ہنستے ہوۓ) اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔اور ہاں صبح مجھے جلدی اٹھا دینا کل مجھے ذرا جلدی آفس جانا ہے۔


ملازم: جی اچھا صاب جی۔ 


(ملازم باہر نکل جاتا ہے)


(ملازم کے جانے کے بعد ملک اعجاز آئینے میں جھانکتا ہے، آئینے میں کچھ عجیب سا دکھاںئ دیتا ہے۔ وہ گبھرا کر فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اس بات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھتا ہے اور سائیڈ ٹیبل پر سے سگار اٹھاتا ہے۔ اس کے بعد چلتے ہوۓ کمرے کے دروازے تک آتا ہے، باہر نکلنے لگتا ہے مگر رک جاتا ہے اور واپس آئینے کے پاس آکر سگار سلگانے لگتا ہے۔ سگار سلگانے سے پہلے دوبارہ اک بار نظر اٹھا کر آئینے کی طرف دیکھتا ہے جیسے ہی اس کی نظر آئینے پر پڑتی ہے آئینے میں ایک شبیہ نمودار ہوتی ہے۔ اس شبیہ کی شکل ہو بہ ہو ملک اعجاز کی طرح ہے مگر نہایت ہی بدصورت ، کریہہ اور خوفناک ہے۔ ملک اعجاز اسے دیکھتے ہی ڈر جاتا ہے، سگار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر جاتا ہے۔


شبیہ: (زوردار قہقہہ لگا کر) کیوں ملک اعجاز حسین! ڈر گۓ؟۔۔۔اپنی ہی صورت دیکھ کر ڈر گۓ۔


اعجاز: (خیرت سے) میری صورت؟


شبیہ: ہاں تمہاری صورت۔۔۔آئینے میں تو اپنی ہی صورت دکھاںئ دیتی ہے۔۔۔ میں تمہاری ہی شبیہ ہوں ملک اعجاز۔


اعجاز: کیا بکتے ہو تم میرے جیسے کیسے ہو سکتے ہو، تم تو بالکل بھی میرے جیسے نہیں ہو۔


شبیہ: ٹھیک کہا تم نے میں تمہارے جیسا نہیں ہوں لیکن میں تمہاری ہی شبیہ ہوں۔ غور سے دیکھو میری شکل کیا بالکل تمہارے جیسی نہیں؟


اعجاز: تمہاری شکل کے کچھ نقش ضرور مجھ سے ملتے ہیں لیکن تم میری شبیہ نہیں ہو سکتے تم انتہاںئ بد صورت آدمی ہو۔


شبیہ: (قہقہہ لگا کر)  ملک اعجاز تم کیا سمجھتے ہو تم بے حد خوبصورت آدمی ہو؟ تمہاری جو ظاہری خوبصورتی ہے یہ تو تم نے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیۓ انہیں متاثر کرنے کے لیۓ بنا رکھی ہے جبکہ تمہارا اصلی اور حقیقی روپ بلکل ایسا ہے جیسا تمہیں اس  آئینے میں دکھاںئ دے رہا ہے۔ انتہاںئ بد صورت، کریہہ اور خوفناک۔


اعجاز: تم یقیناً کوںئ جادو گر ہو یا یہ آئینہ کوںئ جادوںئ آئینہ ہے تبھی اس میں میری بگڑی ہوںئ شکل دکھاںئ دے رہی ہے۔


شبیہ: تم ٹھیک سمجھے ہو یہ آئینہ ایک جادوںئ آئینہ ہی ہے مگر یہ تمہاری شکل کو بگاڑ کر نہیں دکھا رہا بلکہ یہ تمہاری اصلی اور حقیقی صورت تمہیں دکھا رہا ہے۔ اس جادوںئ آئینے کا کمال یہ ہے کہ اس پر آدمی کی ظاہری شکل و صورت نہیں بلکہ اس کے اندر کے انسان کی جھلک دکھاںئ پڑتی ہے۔


اعجاز: تو تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میرا اندرونی   روپ بالکل تمہارے جیسا ہے؟


شبیہ: ہاں بالکل۔۔۔جیسا آدمی اندر سے ہو گا ویسی ہی اس کی شبیہ اس آئینے پر ظاہر ہو گی۔ جس طرح کسی عام آئینے کے سامنے  آدمی کی ظاہری شکل و صورت کی شبیہ دکھاںئ دیتی ہے بالکل اسی طرح اس آئینے کے سامنے آدمی کے اندر کا روپ اس پر ظاہر ہوتا ہے۔



اعجاز: تم بکتے ہو۔۔۔تم محض ایک جادوگر، شعبدہ باز اور بہروپیے ہو، تمہارا مقصد صرف اور صرف مجھے خوفزدہ کرکے مجھ سے پیسے اینٹھنا ہے لیکن میں اپنے ملازم کی طرح اتنا بیوقوف نہیں جو تمہیں ایک پہنچی ہوںئ ہستی سمجھ کر تمہارے چنگل میں پھنس جاؤ گا۔ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں اور ایسی تواہم پرستانہ باتوں کو بلکل بھی نہیں مانتا۔


شبیہ: تمہارے ماننے نہ ماننے سے کیا ہو گا تمہارا جو حقیقی روپ ہے وہ تو بدل نہیں جاۓ گا۔ اسے تم کبھی بھی نہیں بدل سکتے ملک اعجاز حسن۔ اسے تو تم نے خود بڑی محنت سے بنایا ہے۔


اعجاز: (خیرت سے) میں نے بنایا ہے؟


شبیہ: ہاں تم نے بنایا ہے۔ جس طرح تم نے اپنی ظاہری شکل و صورت کو سنوارنے کے لیۓ محنت کی ہے اسی طرح تم نے اپنی اندرونی شکل کو بگاڑنے کے لیۓ بھی خوب محنت کی ہے۔ کبھی تمہارا اندورنی روپ بھی اتنا ہی حسین اور پر کشش تھا جتنا کہ تمہارا ظاہری روپ ہے۔ تم پڑھ لکھ کر بڑے افسر بنے اور افسر بنتے ہی تم نے اپنی ظاہری صورت کو سنوارنے اور اندرونی شکل کو بگاڑنے کی جدوجہد شروع کردی، تمہیں ذرہ بھی خیال نہ ہوا کہ جس قدر تمہارا یہ رنگ و روپ نکھرتا چلا جا رہا ہے اسی قدر تمہارے اندر کا آدمی بگڑتا جارہا ہے۔ تم نے مال و دولت کے استعمال سے اپنے ظاہری چہرے سے داغ، دھبے، چھائیاں صاف کر لیں، اس پر میک اپ کر لیا مگر اپنے اندرونی چہرے کو سنوارنے کے لیۓ تم نے کوںئ کریم، کوںئ پاوڈر استعمال نہیں کیا۔۔۔جانتے ہو تم نے مجھ پر پہلا داغ کب لگایا؟



(اعجاز ایسے خیرت سے اس کی طرف دیکھتا ہے جیسے اس کے جواب کا منتظر ہو)


شبیہ: اس وقت ملک اعجاز! جب تم نے لاچار اور مجبور سائلوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیۓ اپنے دفتر کے باہر گھنٹوں بٹھاۓ رکھا۔ وہ بیچارے اپنے معمولی سے کاموں کے لیۓ محنت مزدوری اور کام کاج چھوڑ کر دن بھر جھلستی دھوپ میں تمہارے دفتر کے باہر بیٹھے رہتے لیکن تمہیں ذرہ برابر بھی ان پر ترس نہیں آیا۔ تم نے انہیں کئ کئ دن اپنے دفتر کے پھیرے لگوا لگوا کر ذلیل و رسوا کیا۔ اس وقت ملک اعجاز۔۔۔اس وقت تم نے میرے چہرے پر کئ سیاہ دھبے چھوڑ دیۓ، اس کے بعد تم نے مجھ پر ایسے ایسے گھناؤنے وار کیۓ جس سے میری شکل بگڑتے بگڑتے ایسی بدہیت، کریہہ اور وخشتناک ہو گئ جسے تم آج اک نظر دیکھ کر ڈر گۓ۔ تم نے رشوت لے کر کئ لوگوں کے ناجائز کام کیۓ اور بہت سے لوگوں کے ناجائز اور دو نمبر کاموں پر چند پیسوں کے عوض خاموشی اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ تم نے لوگوں کے جائز کام بھی رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں کیۓ۔۔۔تم نے اس ناجائز مال و دولت سے اپنا یہ محل کھڑا کیا اور اپنے ظاہری روپ کو خوب سنوارا، مگر تم مجھے بھول گۓ۔ تمہیں بالکل بھی یاد نہ رہا کہ تمہارے اندر بھی ایک انسان پایا جاتا ہے جس کی دیکھ بھال کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ لیکن تم نے میری کوںئ پرواہ نہ کی، میری اس حالت کے ذمہ دار تم ہو، میری یہ بگڑی ہوںئ صورت تمہاری وجہ سے ہے لہذا تمہیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔


اعجاز: (ذرہ چلا کر) تم ایک مکار جادو گر اور شعبدہ باز ہو، دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔ اگر میں نے پولیس کو بلا لیا اور انہیں بتایا کہ تم ایک دھوکے باز جادو گر ہو تو تم جانتے ہو تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔


شبیہ: (طنزیہ انداز میں ہنستا ہے پھر دھیرے سے بولتا ہے) مکار اور دھوکے باز کون ہے ملک اعجاز یہ تم سے بہتر کون جانتا ہے۔ تمہاری مکاری اور دھوکے بازی کے کئ سیاہ بد نما داغ میرے جسم پر جگہ جگہ موجود ہیں۔ تم نے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ دھوکا کیا ہے لیکن سب سے زیادہ تمہاری مکاری کا شکار وہ بھولی بھالی نوجوان لڑکیاں بنیں ہیں جنہیں تم نے پہلے اپنی دولت اور مکارانہ باتوں سے متاثر کیا اور پھر دل بھر جانے پر کچھ عرصے بعد انہیں چھوڑ دیا۔



اعجاز:  (چلاتے ہوۓ) میں کہتا ہوں دفعہ ہو جاؤ یہاں سے مجھ سے تمہاری بکواس مزید نہیں سنی جاتی۔ اور نہ ہی اس سے زیادہ مجھ میں تمہاری یہ گھٹیا اور خوفناک شکل دیکھنے کی ہمت ہے۔


شبیہ: ہمت تو تمہیں کرنی پڑے گی، اب تو روزانہ یہی شکل تمہیں دکھاںئ دے گی۔



اعجاز: ہر گز نہیں۔ (کوںئ چیز اٹھا کر مارنے لگتا ہے) میں ابھی اس جادوںئ آئینے کو توڑ دوں گا پھر تمہاری اس گھناؤنی شکل سے مجھے چھٹکارا مل جاۓ گا۔


شبیہ: اس آئینے کو توڑنے سے اب کچھ نہیں ہو گا ملک اعجاز۔


(ملک اعجاز ایک دم چکرا کر بستر پر گر جاتا ہے)


چوتھا منظر


صبح کا وقت۔ ملازم کمرے میں داخل ہوتا ہے اور دیکھتا ہے ملک اعجاز بستر پر اوندھا پڑا ہے۔


ملازم: صاحب جی کیا ہوا؟ (اعجاز کو جھنجوڑ کر اٹھاتا ہے) صاحب جی اٹھیں صبح ہو گئ ہے۔ آپ ایسے کیوں سوۓ ہوۓ ہیں۔۔۔صاحب جی۔۔۔صاحب جی۔۔۔


(اعجاز دھیرے سے آنکھیں کھولتا ہے)


ملازم: صاحب جی آپ ایسے کیوں سوۓ ہوۓ تھے، صبح ہو گئ ہے آپ نے کہا تھا جلدی اٹھا دینا۔


(اعجاز آہستہ سے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے اور آئینہ کی طرف دیکھتا ہے۔ آئینے میں اس کی اصلی شکل دکھاںئ دیتی ہے)


اعجاز: (خیرت سے) شاید وہ ایک خواب تھا۔


ملازم: کون سا خواب صاحب جی؟


اعجاز: ڈراؤنا خواب۔۔۔ بہت ہی بھیناک، لرزہ دینے والا۔



پانچواں منظر


ملک اعجاز ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ اخبار پڑھ رہا ہے۔ کلاںئ پر بندھی گھڑی سے وقت دیکھتا ہے اور اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ 


اعجاز: (باہر نکلتے ہوۓ) ریاض میرا بریف کیس گاڑی میں رکھوا دو۔


(ریاض اندر سے کہیں سے بولتا ہے)


ریاض: رکھوا دیا ہے صاحب جی۔


(اعجاز باہر نکل جاتا ہے)



چھٹا منظر


اعجاز کا دفتر۔ اعجاز اپنی سیٹ پر بیٹھا ہے اور اپنے سامنے کوںئ فائل کھولے اس پر جھکا ہوا ہے۔ دروازے پر د دستک ہوتی ہے۔ 


اعجاز: (بغیر سر اوپر اٹھاۓ) کم ان۔


(ملازم اندر آتا ہے)


ملازم: سر مجید صاحب آۓ ہیں ، ان کے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے ۔۔۔


اعجاز: (بغیر سر اٹھاۓ) ٹھیک ہے بھیج دو۔


(ملازم چلا جاتا ہے اس کے جانے کے بعد فون کی گھنٹی بجتی ہے)


اعجاز: (فون پر) ہیلو!


آدمی: (فون پر) شفیق بول رہا ہوں۔


اعجاز: جی شفیق صاحب کہیۓ کیسے مزاج ہیں؟


آدمی: جناب آپ مزاج کو چھوڑیۓ آپ یہ بتائیۓ میرے کام کا کیا بنا؟ آپ نے دوسرے ہفتے کا وعدہ کیا تھا اور آج پورا مہینہ ہو گیا ہے آخر آپ میرے کام کو اتنا کیوں لٹکاتے ہیں۔ (معنی خیز انداز میں ) فیس آپ کو ہر دفعہ کام سے پہلے مل جاتی ہے پھر بھی آپ تاخیر کر دیتے ہیں۔



اعجاز: آپ کا کام ہم کیوں لٹکانے لگے شفیق صاحب! آپ تو ہمارے بھائی ہیں ہم آپ کا کام نہیں کریں گے تو کس کا کریں گے۔ میں نے فائل کب کی آگے بھیج دی ہوئی ہے وہیں سے کسی وجہ سے تاخیر  ہو رہی ہے۔۔۔ میں آج ہی رابطہ کرکے پوچھتا ہوں۔ 


(موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔ اعجاز ایک ہاتھ سے رسیور تھامے دوسرے ہاتھ سے میز پر سے موبائل اٹھا کر نام دیکھتا ہے)


اعجاز: (فون پر) ٹھیک ہے شفیق صاحب پھر بات ہو گی ابھی میں تھوڑا بزی ہوں۔۔۔


(رسیور رکھ دیتا ہے موبائل پر کال رسیو کرتا ہے)


اعجاز: (فون پر) جی جناب حکم؟۔۔۔نہیں نہیں وہ میں آپ کو مل کر بتاؤں گا۔۔۔ہاں جی۔۔۔


(دروازے پر دو آدمی دستک دے کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ اعجاز فون پر بات کرتے ہوۓ ہاتھ سے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔ دونوں آدمی سامنے بیٹھ جاتے  ہیں۔)


اعجاز: (فون پر) جی جی بالکل۔۔۔ہاں میں حاضر ہو جاؤں گا۔۔۔آپ بے فکر رہیۓ۔۔۔پہلے کبھی ایسا ہوا ہے۔۔۔کیوں نہیں جی کیوں نہیں۔۔۔ضرور ضرور۔۔۔ٹھیک ہے  باقی بات ملاقات پر ہوگی۔۔۔صحیح ہے۔۔۔ (فون بند کر دیتا ہے)


اعجاز: ہاں جی مجید صاحب کہیۓ کیا کر سکتا ہوں میں آپ کے لیۓ؟


مجید: زیادہ تو کچھ نہیں بس ایک چھوٹا سا کام کہا تھا اسی کی یاد دہانی کے لیۓ حاضر ہوا ہوں۔


اعجاز: آپ کا کام تو مجھے یاد ہے مجید صاحب مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج کل قانونی کام بڑی مشکل سے ہورہے ہیں اور آپ کا کام تو مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔


مجید: آپ کے لیۓ کیا مشکل ہے جناب۔۔۔


اعجاز: مشکل ہے اسی لیۓ تو کہہ رہا ہوں۔


دوسرا آدمی: آپ اعجاز صاحب بس یہ بتائیں فیس کتنی لگے گی آپ جتنی بھی فیس کہیں گے ہم دینے کے لیۓ تیار ہیں۔


اعجاز: وہ تو ٹھیک پر۔۔۔


مجید: پر ور کچھ نہیں آپ کو یہ کام ہر صورت میں کرنا ہے آپ بس اپنی فیس بتائیں۔


اعجاز: (سوچتے ہوۓ) ٹھیک ہے مجید صاحب آپ کے مسئلے کا بھی کوںئ حل نکاتے ہیں آخر آپ میرے بھائی   ہیں آپ کو ناراض تھوڑی کرنا ہے۔


مجید: (خوش ہو کر) یہ ہوںئ نہ بات۔۔۔



اعجاز: لیکن خیال رکھیۓ گا کام مشکل ہے تو پھر فیس بھی (لٹکا کر) کچھ۔۔۔زیا۔۔۔دہ۔۔۔


مجید: آپ بالکل بے فکر رہیں فیس تو آج ہی آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جاۓ گی، بس کام ہو جانا چاہیۓ۔


اعجاز: بس سمجھیۓ آپ کا کام ہو گیا۔۔۔


ساتواں منظر


اعجاز کا دفتر۔ علینہ کا کیبن۔ علینہ کمپیوٹر پر کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف ہے اس کی انگلیاں ماہر ٹائیپسٹ کی طرح تیزی سے کی بورڈ پر چلتی ہیں۔ ٹائپ کرنے کی آواز مسلسل آتی رہتی ہے۔ چند لمحوں تک وہ اسی طرح ٹائیپنگ کرتی رہتی ہے پھر پاس رکھے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ علینہ فون اٹھاتی ہے۔ 


علینہ: (فون پر) جی سر۔۔۔جی بس دس منٹ تک ختم ہو جاۓ گا۔۔۔ ٹھیک ہے سر میں بس دس منٹ تک کام ختم کرکے آتی ہوں۔


(فون بند کردیتی ہے اور پھر سے ٹائیپنگ کرنے لگتی ہے۔ ایک لڑکی کیبن میں داخل ہوتی ہے)


لڑکی: (اس کے پاس آکر) ابھی بھی ٹائپ کر رہی ہو، ختم نہیں ہوا کام ابھی تک؟


علینہ: ہو گیا ہے بس  اصغر صاحب والا تھوڑا سا رہ گیا ہے۔


لڑکی: ٹھیک ہے جلدی ختم کرو اور میرے کیبن میں آجاؤ۔ تمہیں ایک مزے کی بات بتانی ہے۔


علینہ: لیکن مجھے تو سر نے اپنے آفس میں بلایا ہے۔۔۔ ان کی بات سن کر ہی آؤں گی۔


لڑکی: (شرارت سے) اے ہے سر نے بلایا ہے۔۔۔ سر آج کل تمہیں بڑا بلانے لگے ہیں، کیا بات ہے؟


علینہ: مجھے کیا پتہ کیا بات ہے۔


لڑکی: لیکن مجھے بہت کچھ پتہ ہے تم ابھی نئ نئ آئی ہو تم کچھ نہیں جانتی۔۔۔ سر سے ذرہ مختاط ہی رہنا۔ (معنی خیز انداز سے) یہ تھوڑا اور ٹائپ کا آدمی ہے۔


علینہ: تھوڑا بہت تو اندازہ ہے مجھے، پر کیا کروں نوکری بھی تو کرنی ہے اگر نہ گئ تو نوکری سے نکال نہیں دے گا؟ پہلے ہی اتنی مشکل سے ملی ہے۔


لڑکی: ہاں وہ تو ہے میں بس یہ کہہ رہی ہوں ذرہ دھیان سے رہنا۔۔۔۔چل ٹھیک ہے میں چلتی ہوں تم بعد میں میرے کیبن میں آجانا۔۔۔(باہر نکلتے ہوۓ)  پر آنا ضرور۔


علینہ: (کھڑے ہو کر ٹائپ کرنے لگتی ہے) بس میرا کام بھی ختم ہو گیا۔



(لڑکی باہر نکل جاتی ہے)



آٹھواں منظر


اعجاز کا کمرا۔ اعجاز اپنی سیٹ پر بیٹھا سگار پی رہا ہے اور موبائل دیکھ رہا ہے، دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ 



اعجاز: یس پلیز۔۔۔


(علینہ اندر آتی ہے) 


اعجاز: آؤ آؤ علینہ! آؤ بیٹھو میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔


(علینہ بیٹھ جاتی ہے)


اعجاز: تم سوچ رہی ہو گی کہ میں کیوں تمہیں بار بار بلاتا ہوں۔ دراصل میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں علینہ۔ (اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو جاتا ہے) 


اعجاز: (کش لگا کر دھواں فضا میں چھوڑتا ہے) میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں علینہ! جب سے تم سے ملاقات ہوںئ ہے میری زندگی کتنی بدل گئ ہے۔ تم سے پہلے یہ دفتر کاٹنے کو دوڑتا تھا یہاں آنے کو بالکل بھی جی نہیں کرتا تھا، روزانہ دفتر آتا تو تھا پر بڑی بددلی سے کام کرتا تھا بس جی چاہتا تھا جلدی کام ختم ہو اور یہاں سے نکلوں۔۔۔ پر جب سے تم آئی ہو علینہ! آفس میں دل لگنے لگا ہے چاہے کتنا بھی مشکل کام ہو اب مشکل نہیں لگتا۔ تم میری ویران اور اجاڑ زندگی میں رونق بن کر آئی ہو۔ 


علینہ: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سر؟


اعجاز: میں سچ کہہ رہا ہوں علینہ! تم نہیں جانتی تمہارے یہاں آنے سے میری زندگی میں کتنی خوشگوار تبدیلیاں آئیں ہیں۔ میں تمہیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔


(اپنی سیٹ کے پاس آتا ہے اور میز کے دراز میں سے ایک باکس نکال کر علینہ کو دیتا ہے)


اعجاز: یہ میری طرف سے ایک چھوٹا سا گفٹ ہے۔


علینہ: یہ کیا ہے سر؟


اعجاز: کھول کر دیکھو۔


(علینہ کھول کر دیکھتی ہے۔ اندر ایک خوبصورت ہیروں کا ہار ہے)



علینہ: یہ کیا، ڈائمنڈ نیکلس۔۔۔ نہیں میں آپ کا اتنا مہنگا تحفہ قبول نہیں کر سکتی۔ اس دن تو میں نے آفس کی طرف سے اپنے کام کے انعام کے طور پر وہ گفٹ آپ سے لے لیا تھا لیکن اتنا قیمتی ڈائمنڈ نیکلس میں کسی صورت بھی نہیں لے سکتی۔ 


اعجاز: لیکن کیوں؟ آخر میرا گفٹ وصول کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ چھوٹا سا تو گفٹ ہے۔ 


علینہ: نہیں سر یہ میں نہیں لے سکتی۔۔۔ مجھے معاف کر دیں میں یہ کسی صورت نہیں لوں گی۔


اعجاز: تم بھی علینہ ایسے ہی خواہ مخواہ وسوسوں میں پڑ جاتی ہو معمولی سا تو گفٹ ہے۔ میں گارنٹی دیتا ہوں کچھ نہیں ہو گا۔


علینہ: نہیں میں یہ کبھی نہیں لوں گی۔ (اٹھ کر جانے لگتی ہے)


اعجاز: کہاں جا رہی ہو؟۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے تم یہ گفٹ نہ لو لیکن میرے ساتھ ایک کپ چاۓ یا کافی تو پی سکتی ہو۔


علینہ: نہیں ابھی مجھے کام ہے پھر کبھی سہی۔۔۔


(باہر نکل جاتی ہے، فون کی گھنٹی بجتی ہے، اعجاز فون اٹھاتا ہے۔ فون پر وہی آدمی ہے جو پہلے منظر میں اعجاز سے فون پر بات کرتا ہوا دکھائی دیا تھا)


آدمی: کدھر ہو یار ملک!  وقت دیکھا ہے کیا ہو گیا ہے؟


اعجاز: آفس میں ہی ہوں۔۔۔ کیوں کیا ہوا؟


آدمی: کیا ہوا۔۔۔ اتنی دیر ہو گئ ہے چوہدری غضنفر کے ہاں نہیں جانا۔۔۔تم ابھی تک آفس میں ہی بیٹھے ہو میں ادھر کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں، میں نے سوچا ابھی آجاؤ گے پر تم۔۔۔


اعجاز: وہ یارا میں بھول ہی گیا تھا۔


آدمی: ہاں بھولنا تو تم نے تھا مصروف ہو گے اپنی اس مچھلی کے آگے دانے پھینکنے میں۔۔۔


اعجاز: ہاں بس یہی سمجھو۔


آدمی: تو پھر آئی دام میں؟


اعجاز: نہیں ابھی تو نہیں آئی پر آجاۓ گی کب تک بچے گی ۔۔۔ تمہیں تو پتہ ہے ہم پرانے شکاری ہیں، ایسا ہو سکتا ہے ہم دانہ پھینکیں اور شکار دام میں نہ آۓ؟


آدمی: آپ پرانے شکاری نہیں پرانے مچھیرے ہیں اور جانتا ہوں مچھلی پکڑنے کے کئ گن آپ کو آتے ہیں، پر خدا کے لیۓ باقی مچھلی بعد میں پکڑنا نہیں تو کافی دیر ہو جاۓ گی۔


اعجاز: ہاں ہاں میں بس نکلنے لگا ہوں۔


(فون بند کر دیتا ہے)



نواں منظر


اعجاز کا گھر۔ اعجاز اپنے کمرے میں بستر پر بیٹھا ہے اور ٹی وی دیکھ رہا ہے۔ ریموٹ سے چینل بار بار بدلتا ہے، چینل بدلنے کی آواز آتی رہتی ہے۔ کچھ دیر بعد ٹی وی بند کر دیتا ہے اور سونے کے لیۓ بستر پر لیٹنے لگتا ہے پر لیٹنے سے پہلے اک نظر آئینے پر ڈالتا ہے۔ جیسے ہی اس کی آئینے پر نظر پڑتی ہے ایک دم سے وہی شبیہ آئینے پر نمودار ہوتی ہے۔ اعجاز اسے دیکھ کر ایک لمحے کے لیۓ ٹھٹک جاتا ہے۔


اعجاز: تم پھر آگۓ مجھے لگتا ہے پولیس کو تمہاری اطلاع کرنی ہی پڑے گی۔


شبیہ: میں تو کہیں گیا ہی نہیں تھا ملک اعجاز! میں تو یہیں تھا بلکہ میں تو ہمیشہ سے یہیں تھا تمہاری نظر مجھ پر ابھی پڑی ہے۔ تمہیں میں اب دکھائی دیا ہوں۔ اگر میں تمہیں پہلے دکھ جاتا تو شاید بات بن جاتی۔


اعجاز: (خیرت سے) کیسی بات؟


شبیہ: میری بات۔۔۔تمہاری بات۔۔۔مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا اب بہت دیر ہو چکی ہے۔


اعجاز: (نرم پڑتے ہوۓ، دکھ سے) بالکل بھی کچھ نہیں ہو سکتا؟


شبیہ: نہیں۔ اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔(آنکھیں پھاڑ کر ہاتھ کے اشارے سے) دیکھو میری طرف، غور سے دیکھو۔۔۔ میرے جسم کا کوںئ کونہ، کوئی حصہ تم نے ایسا چھوڑا ہے جہاں یہ سیاہ بد صورت داغ نہ ہوں۔ بتاؤ کونسا سرف لاؤ گے جو ان داغوں کو دھو سکے۔۔۔ اب کوئی ڈیٹرجنٹ کام نہیں آۓ گا، اس باڈی کی رپئیرنگ اب نا ممکن ہے ملک اعجاز۔


اعجاز: (دکھ سے) کیا اب کوںئ طریقہ نہیں؟ 


شبیہ: شاید ہو لیکن میں نہیں جانتا۔


(اعجاز دکھ اور کرب کے عالم میں اٹھتا ہے، چند قدم چلتا ہے پھر رک کر سر جھکاۓ کچھ سوچنے لگتا ہے، کوںئ بات ذہن میں آنے پر جلدی سے پلٹتا ہے اور آئینے میں شبیہ کی طرف دیکھتا ہے)


اعجاز: یاد کرو میں نے بہت سی چیرٹی کی ہے۔ میں نے کئ یتیم خانوں میں اور بہت سی جگہوں پر فنڈز دیۓ ہیں بیشتر جگہوں پر چندہ دیا ہے۔۔۔کیا اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا؟


شبیہ: (قہقہہ لگا کر ہنستا ہے) تم نے جو چندے دیۓ ہیں ، خیرات کی ہے یا صدقات دیۓ ہیں وہ تم نے صرف اور صرف لوگوں کی نظروں میں اپنی جھوٹی ساکھ قائم کرنے کے لیۓ دیۓ ہیں تا کہ ان کی نظر تمہارے دوسرے غلیظ کاموں پر نہ پڑے اور وہ تمہیں بڑا رحم دل انسان سمجھیں۔ تم نے مخص اپنے ضمیر کو جھوٹی تسلی دینے کے لیۓ یہ سب کیا ہے۔۔۔ اور بالفرض اگر یہ سب کچھ تم نے صحیح نیت سے بھی کیا ہے تو کون سا کمال کیا ہے، ہزار روپے چوری کرکے اگر پچاس روپے تم نے خیرات کر دیۓ ہیں تو وہ پچاس روپے کس کھاتے میں ملک اعجاز!۔۔۔ لوگوں کا مال ہڑپ کرکے اس میں سے چند پیسے انہی لوگوں کو خیرات کے طور پر دھان کر دینے کو تم نیکی کہتے ہو؟۔۔۔ تمہارا اب کچھ نہیں ہو سکتا تم نے جو کمائی کرنی تھی کر لی ہے۔یہی سیاہ دھبے تو تمہارا نامۂ اعمال ہیں، تم نے جو کچھ کمایا ہے (اپنے بازو پھیلا کر اپنا آپ واضح کرتے ہوۓ) تمہارے سامنے ہے، زندگی بھر جو بھی تم نے کیا ہے سب کچھ (اپنی طرف اشارہ کرکے) یہاں درج ہے۔۔۔ تم نے اپنے ظاہری وجود کے لیۓ جو جنگ لڑی تھی وہ تو تم جیت گۓ مگر میرے حصے کی لڑائی تم ہار گۓ۔



(ملک اعجاز کے چہرے پر دکھ اور کرب کے تاثرات ابھرتے ہیں، آہستہ آہستہ چلتے ہوۓ وہ بستر کے پاس رکھی کرسی پر جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ ٹیک لگا کر سر پیچھے ڈھلکا لیتا ہے)


دسواں منظر


صبح کا وقت۔ ملک اعجاز کا کمرا۔ اعجاز کرسی پر بیٹھا اونگ رہا ہے۔ ملازم داخل ہوتا ہے۔


ملازم: (خیرت سے) صاحب جی کیا ہوا؟ (پاس آکر اسے اٹھاتا ہے) صاحب جی اٹھیں صبح ہو گئ ہے۔۔۔


(اعجاز آہستہ سے آنکھیں کھولتا ہے)


ملازم: کیا ہوا صاحب جی آپ یہاں کیوں سوۓ ہوۓ ہیں؟


(اعجاز آئینے کی طرف دیکھتا ہے آئینے پر اس کی اپنی  اصلی صورت دکھائی دیتی ہے)


اعجاز: کچھ نہیں ہوا تھوڑی دیر کے لیۓ یہاں بیٹھا تھا تو آنکھ لگ گئ۔۔۔ تم ناشتہ لگاؤ میں نہا کر کپڑے بدل کر آتا ہوں۔


ملازم: ٹھیک ہے صاحب جی۔ 


(ملازم چلا جاتا ہے)


گیارواں منظر 


اعجاز ناشتے کی میز پر بیٹھا ہے ناشتہ سامنے میز پر پڑا ہے مگر کر نہیں رہا۔ اخبار ہاتھ میں ہے مگر پڑھ نہیں رہا بلکہ اپنے خیالوں میں کہیں گم ہے۔ ملازم آتا ہے۔ 



ملازم: صاحب جی آپ ناشتہ نہیں کر رہے؟


اعجاز: (چونکتے ہوۓ) ہونہہ۔۔۔نہیں! ہاں۔۔۔میں ناشتہ نہیں کروں گا بالکل بھی دل نہیں کر رہا۔ تم میرا بیگ گاڑی میں رکھوا دو۔


ملازم: جی اچھا۔ 


(چلا جاتا ہے)


بارواں منظر 


اعجاز کا دفتر۔ اعجاز دفتر میں گم سم بیٹھا ہے چہرے پر کرب اور غم کے تاثرات ہیں۔ ملازم دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوتا ہے۔


ملازم: سر وہ ایک لڑکا آیا ہے کہتا ہے کل مجھے اعجاز صاحب نے اس وقت دفتر میں آکر ملنے کو بولا تھا۔


(اعجاز کوئی جواب نہیں دیتا یوں لگتا ہے اس نے بات سنی ہی نہیں۔ ملازم اپنی بات دہراتا ہے)


ملازم: سر ایک لڑکا آپ سے ملنا چاہتا ہے کہتا ہے کل آپ ہی نے اسے آنے کو کہا تھا۔


(اعجاز اب بھی کوئی جواب نہیں دیتا)


ملازم: سر۔۔۔سر آپ سن رہے ہیں۔


اعجاز: (ہلکا سا چونک کر) ہاں۔۔۔نہیں۔۔۔ہاں سن رہا ہوں۔۔۔ٹھیک ہے بلا لو اسے۔۔۔یا رکو۔۔۔۔اسے بولو کل آنا۔


(ملازم سر ہلاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اعجاز کوئی فائل کھول کر اک نظر دیکھتا ہے مگر ساتھ ہی دوبارہ واپس رکھ دیتا ہے۔ پھر دوسری فائل بددلی سے اٹھاتا ہے مگر کھولے بغیر اسے بھی واپس رکھ دیتا ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے، علینہ داخل ہوتی ہے۔)


اعجاز: (ہلکا سا مسکرا کر) آؤ آؤ علینہ۔ 


علینہ: سر یہ دو ڈاکیومنٹس تو بالکل کلیئیر ہیں مگر ارشد صاحب والے ڈاکومنٹس میں بہت سی مسٹیکس ہیں سمجھ نہیں آرہی وہ کیسے ٹھیک کرنی ہیں۔


اعجاز: لاؤ دیکھاؤ مجھے۔۔۔



(علینہ میز پر ایک فائل رکھتی ہے۔ اعجاز فائل دیکھتا ہے چند ایک سطر ہی پڑھتا ہے مگر پھر سے کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔)


علینہ: سر۔۔۔کہاں کھو گۓ۔


اعجاز: کہیں نہیں۔۔۔ہاں تو ایک تو (انگلی رکھ کر) یہ ہے اور ایک یہ ۔۔۔۔ اچھا ایسا کرو ابھی تم جاؤ اسے بعد میں میرے پاس لانا پھر دیکھیں گے اس کا کیا کرنا ہے۔


علینہ: جی سر ٹھیک ہے۔


(علینہ چلی جاتی ہے۔ اعجاز سگار سلگا لیتا ہے)



تیرواں منظر


رات کا وقت۔ اعجاز کا گھر۔ اعجاز اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا ہے۔ آئینے پر شبیہ دکھائی دے رہی ہے۔


اعجاز: خدا کے لیۓ جاؤ یہاں سے میرا پیچھا چھوڑ دو۔ تم نے میری زندگی اجیرن بنا دی ہے، تمہیں خدا کا واسطہ چلے جاؤ۔


شبیہ: میں کہیں بھی نہیں جاؤں گا، میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں گا بلکہ میں تو ہمیشہ سے تمہارے پاس ہی ہوں۔ میں تمہارے ہی وجود کا ایک حصہ ہوں، میں تمہاری ہی شبیہ ہوں۔ میں ہی تو اصل ملک اعجاز حسن ہوں۔۔۔ وہ ملک اعجاز جسے کوئی نہیں جانتا، لوگوں کے سامنے تو تمہارا ظاہری وجود ہے تمہارا اصلی اور حقیقی وجود تو میں ہوں، جو تمہارے ظاہر میں نہیں باطن میں ہے جسے تم نے خود فراموش کر دیا تھا۔


اعجاز: اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو تم جو کہو گے میں کروں گا بس تم میری جان چھوڑ دو۔


شبیہ: میں کہیں بھی نہیں جا سکتا ملک اعجاز!  میں نے کہا تو ہے میں تمہارے ہی باطنی وجود کی شبیہ ہوں۔


اعجاز: (چلا کر) میں کہتا ہوں بند کرو اپنی بکواس۔۔۔تم ایسے نہیں جاؤ گے میں ابھی تم سے پیچھا چھڑاتا ہوں۔ (سائیڈ ٹیبل کے پاس جا کر ایش ٹرے اٹھاتا ہے اور دوبارہ آئینے کے سامنے آجاتا ہے) اب دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں جاتے۔


شبیہ: (نرمی سے) اس سے کچھ نہیں ہو گا ملک اعجاز! میں کہیں نہیں جاؤں گا۔


اعجاز: تم جاؤ گے۔


 (ایش ٹرے اٹھا کر آئینے پر دے مارتا ہے۔ آئینہ زوردار آواز سے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ ملک اعجاز پیچھے ہٹتا ہے اور بستر پر بیٹھ کر سامنے ٹوٹے ہوۓ آئینے والی جگہ کو دیکھتا ہے۔ پھر زور زور سے بلند قہقہے لگانے لگاتا ہے۔ آئینہ ٹوٹنے کی آواز سن کر ملازم بھاگتا ہوا آتا ہے۔)


ملازم: (دروازے کے پاس کھڑا ہو کر) کیا ہوا صاحب جی آئینہ کیسے ٹوٹ گیا؟


(اعجاز جواب نہیں دیتا۔ اس کی پیٹھ ملازم کی طرف ہے۔ ملازم آہستہ سے اس کے قریب جاتا ہے اور اس کے پیچھے کھڑے ہو کر آواز دیتا ہے)


ملازم: (اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر) صاحب جی؟


(اعجاز پیچھے مڑ کر ملازم کی طرف دیکھتا ہے۔ ملازم ڈر کر بھاگ جاتا ہے۔ اب اعجاز کی شکل دکھائی دیتی ہے، وہاں اعجاز کی جگہ وہی آئینے والی شبیہ لے لیتی ہے۔)














 



























 


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات