Drizzling Of Love

Drizzling Of Love







کردار 


سمینہ= ایک چالیس پنتالیس سال کی عورت(سنجیدہ، پروقار)

عادل= سمینہ کا خاوند (خوش شکل نوجوان)

صبیحہ= سمینہ کی بیٹی (ایک نوجوان لڑکی)

پروفیسر امجد= سمینہ کا استاد

پانچ چھ نوجوان لڑکے، لڑکیاں





پہلا منظر


ایک نیم تاریک کمرا ہے۔ ایک طرف بستر لگا ہے، دوسری طرف دیوار کے ساتھ صوفہ پڑا ہے، کمرے میں دیگر آرائش کی چیزیں قرینے سے رکھی ہیں۔ ایک جانب کی دیوار میں کمرے کا دروازہ ہے، کھڑکی کے پاس سمینہ کھڑی ہے اس کا چہرہ کھڑکی کی جانب ہے اور وہ کھلی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہے، اس نے کندھوں پر شال اوڑھ رکھی ہے، کھڑکی پر ایک خوشنما، خوش رنگ پردہ لٹک رہا جو بار بار تیز ہوا کے جھونکے سے جھولتا دکھاںئ دیتا ہے، سمندر کی تیز بھپرتی لہروں کی آوازیں اندر کمرے میں آرہی ہیں، اس کے علاوہ کمرے میں مکمل خاموشی ہے۔ چند لمحے  لہروں کی آوازیں یونہی آتی رہتی ہیں ، پھر دروازہ کھلنے کی آواز آتی ہے، سمینہ مڑ کر پیچھے دیکھتی ہے، اس کے سر کے آگے کے چند بال سفید ہیں، چہرے سے سنجیدگی اور وقار جھلکتا ہے۔ دوسری طرف دروازہ کھول کر صبیحہ اندر داخل ہوتی ہے۔ 


صبیحہ: (کھڑے کھڑے) ماما آپ سوںئ نہیں ابھی تک؟ اور یہ آپ اتنی رات گۓ کھڑکی سے باہر جھانک کر کیا دیکھ رہی ہیں؟ 


سمینہ : (وہیں کھڑے کھڑے) بس بیٹا نیند نہیں آرہی تھی۔


 (واپس کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتی ہے، باہر اندھیرے میں دورر تک پھیلا سیاہ سمندر دکھاںئ دیتا ہے، جس میں تیز موجیں اٹھ رہی ہیں)۔


سمینہ : (باہر دیکھتے ہوۓ) آج کی رات کتنی تاریک ہے اور سمندر بھی کس قدر بھیانک لگ رہا ہے، ایسے سمندر تو تب بپھرتا ہے جب چاند کی چودہویں ہو پر آج تو چاند کب کا غائب ہو چکا ہے۔


(صبیحہ کوںئ جواب نہیں دیتی اور صوفے پر بیٹھ جاتی ہے)


سمینہ : (لڑکی کی طرف پلٹ کر) تمہیں ایسی تاریک راتیں کیسی محسوس ہوتی ہیں صبیحہ؟


صبیحہ: (خیرانی سے) راتیں۔۔۔مجھے تو کچھ خاص محسوس نہیں ہوتیں ، بلکہ مجھے تو راتیں بھی دن جیسے ہی لگتی ہیں۔ ہاں دن سے کچھ زیادہ اچھی، کیونکہ رات کو کالج نہیں جانا پڑتا بس شام کو تھوڑا سا پڑھنا پڑتا ہے اس کے بعد مزے سے ٹی وی دیکھا اور موبائل پر اپنا فیس بک یا انسٹا گرام اکاؤنٹ یوز کیا۔۔۔البتہ اس وقت بہت بری لگتی ہیں جب اگزیمز ہوں کیونکہ پھر رات رات بھر جاگ کر پڑھنا جو ہوتا ہے۔ 


(سمینہ اس کی بات پر ہلکا سا مسکراتی ہے اور دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتی ہے، پھر اس کی جانب پلٹتی ہے۔)


سمینہ: جانتی ہو صبیحہ ان راتوں کی کیا خاصیت ہے؟


(صبیحہ خیرانی سے نفی میں سر ہلاتی ہے)


سمینہ : (جاری رکھتے ہوۓ) یہ گہری خاموش راتیں بڑی خاص ہیں، بڑی قیمتی ہیں۔۔۔عبادت گزاروں کے لیۓ۔۔۔مطالعہ کرنے والوں کے لیۓ۔۔۔ غور و فکر کرنے والوں کے لیۓ، ان میں بڑے راز پوشیدہ ہیں۔۔۔گہرے راز۔۔۔ جو صرف دھیان لگانے والوں کو حاصل ہوتے ہیں۔۔۔غور کرنے والوں کو۔۔۔من میں ڈوبنے والوں کو۔ (خاموش ہوتی ہے اور چند لمحوں کے لیۓ کھو سی جاتی ہے۔ پھر بولنے لگتی ہے)


سمینہ (جاری رکھتے ہوۓ) لیکن کبھی کبھی یہ راتیں بڑی دل دہلا دینے والی ہوتی ہیں۔۔۔خوفزدہ کر دینے والی ، اداس کر دینے والی۔


صبیحہ : پر ماما میں تو راتوں میں بڑا انجواۓ کرتی ہوں خاص کر تب جب کالج سے چھٹیاں ہوں،  کیونکہ صبح جلدی اٹھنا نہیں ہوتا اس لیۓ رات دیر تک جاگ کر دوستوں سے فیس بک یا واٹس ایپ پر چیٹ کرنے، کمنٹس کرنے یا پکچرز اور پوسٹس اپلوڈ کرنے کا زیادہ سے زیادہ وقت مل جاتا ہے اور مزا بھی بڑا آتا ہے، وقت بھی اچھا کٹ جاتا ہے۔


(سمینہ مسکراتی ہے، پھر کھڑکی سے باہر دیکھتی ہے اور کسی گہرے خیال میں کھو جاتی ہے۔)


دوسرا منظر (خیال میں)


وہی کمرا ہے، لیکن کمرے میں چند تبدیلیاں ہیں۔ بیڈ اور صوفے کا رنگ اور ڈیزائن تبدیل ہے اور دیگر قیمتی اشیا کی جگہ دو تین سادہ سی کرسیاں پڑی ہیں۔ صوفے پر عادل بیٹھا ہے، اپنے سامنے میز پر فائلیں کھولے کام میں مصروف ہے، اس کی آنکھوں پر نظر کا چشمہ ہے۔ کھڑکی میں ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کھڑی ہے، یہ لڑکی سمینہ ہے، بال قرینے سے بندھے ہیں اور شب خوابی کا لباس پہنے ہوۓ ہے، وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہی ہے۔ باہر رات ہے اور سمندر کی بپھرتی لہروں کا شور کمرے میں سناںئ دے رہا ہے، آسمان پر چودھویں کا چاند روشن ہے، کبھی نکلتا ہے اور کبھی بادلوں میں روپوش ہو جاتا ہے۔ کھڑکی پر تیز ہوا سے پردہ ابھی بھی جھول رہا ہے۔


سمینہ: (چاند کی طرف دیکھتے ہوۓ) عادل۔۔۔؟


عادل: (فائل پر سے نظریں ہٹاۓ بغیر) ہوں۔


سمینہ: تم نے آج چاند دیکھا؟


عادل: (اسی خالت میں) نہیں کیوں؟


سمینہ: آج چاند کتنا اداس لگ رہا ہے جیسے سب سے بیزار ہو۔


عادل: ہوں۔


سمینہ: (جاری رکھتے ہوۓ) مجھے لگتا ہے یہاں کی فضا ہی ایسی ہے، گھٹی گھٹی بیزار ۔۔۔ شاید ہمیں یہاں گھر نہیں لینا چاہیۓ تھا، آخر کیا ملا ہمیں آبادی سے اتنی دور یہاں ویرانے میں آکر۔


عادل: (اپنا کام کرتے ہوۓ) یہاں رہنے کا خواب تمہارا ہی تھا، تم ہی نے تو کہا تھا کہ شادی کے بعد میں سمندر کے کنارے رہنا چاہتی ہوں جہاں سے میں کھڑکی کھولوں اور سامنے سمندر دکھاںئ دے۔




سمینہ: ہاں عادل! میں ایسا ہی گھر چاہتی تھی جہاں سے میں صبح شام سمندر کا نظارہ کر سکوں، صبح اٹھ کر کھڑکی کھولوں تو سمندر کی سطح سے آہستہ آہستہ سورج بلند ہوتا دکھاںئ دے، اور شام کو جب مغرب میں غروب ہونے لگے تو اس کی آخری دم توڑتی سنہری کرنیں نیلگوں سمندر پر تیرتی پھر رہی ہوں، جس کے اوپر خوبصورت پرندے دن بھر کی مشقت کے بعد اپنی آخری اڑانیں بھر رہے ہوں۔۔۔ ہاں میں ایسا ہی گھر چاہتی تھی عادل۔۔۔ بالکل ایسا ہی، مگر یہ سب میں تمہارے ساتھ چاہتی تھی اکیلے نہیں۔


عادل: (کام چھوڑ کر خیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ) تو میں تمہارے ساتھ ہی تو ہوں؟


سمینہ: (طنزیہ انداز سے ہنستے ہوۓ) ہاں تم میرے ساتھ ہو۔۔۔کہاں ہو تم عادل؟ میں تو تمہیں دن بھر ڈھونڈتی رہتی ہوں مگر تم کہیں دکھاںئ نہیں دیتے اور جب کبھی تم گھر پر ہوتے ہو تو تم میرے ساتھ کہاں ہوتے ہو؟ وہ عادل کہاں ہے جو مجھے وقت دیا کرتا تھا؟


عادل: میں اب بھی تمہیں وقت دیتا ہوں لیکن اگر تم یہ چاہتی ہو کہ میں پہلے کی طرح تمہیں وقت دیا کروں تو ایسا اب ممکن نہیں۔ اب مجھے کافی کام کرنا پڑتا ہے اس لیۓ۔۔۔


سمینہ: جانتی ہوں تمہیں کتنا کام کرنا پڑتا ہے، آفس کے بعد آدھا دن تو تم دوستوں کے پاس بیٹھے رہتے ہو اور جب گھر آتے ہو تو دوبارہ اپنا کام لے کر بیٹھ جاتے ہو میرے پاس تم کب ہوتے ہو؟


عادل: دیکھو سمینہ فضول کی بحث مجھے بالکل بھی پسند نہیں۔۔۔تم خواہ مخواہ کیوں جھگڑ رہی ہو؟


سمینہ:  فضول کی بخث۔۔۔تم اسے فضول کہ بخث کہتے ہو۔۔۔دن بھر میں اس بے آباد ویران جگہ پر پڑی رہتی ہوں اور تمہیں ذرہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ میں کس حالت میں ہوں۔۔۔ تم نے کبھی ایک بار بھی مجھے فون کر کے نہیں پوچھا، کبھی ایک پل کے لیۓ بھی تمہیں میرا خیال نہیں آیا۔۔۔ تم خود مجھ سے بیزار ہو گۓ ہو۔


عادل: (تیزی سے اٹھتے ہوۓ) ہاں ہو گیا ہوں میں بیزار۔۔۔تم سے۔۔۔تمہاری ان باتوں سے۔۔۔اس روز کی چک چک سے۔


 (فائل اٹھاتا ہے اور کمرے سے باہر نکل جاتا ہے۔۔۔آسمان پر چودھویں کا چاند گہرے زرد رنگ کا دکھاںئ دینے لگتا ہے، سمندر بھپرتا نظر آتا ہے اور تیز موجوں کا شور اٹھتا ہے )



تیسرا منظر:


ایک کمرا ہے جس میں پانچ چھ لڑکے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ کمرا بالکل ہاسٹل کی طرح دکھاںئ دیتا یے، فرش پر بستر لگے ہیں، چیزیں بے ترتیبی سے سے پڑی ہیں، کتابیں کپڑے بکھرے پڑے ہیں، کوںئ ایک طرف بیٹھا ہے کوںئ دوسری طرف اوندے منہ پڑا ہے، ایک طرف ہٹ کر دیوار کے ساتھ ایک میز ہے جس پر چند کتابیں رکھی ہیں، میز کے پاس کرسی پر ایک لڑکا بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے لیکن دھیان اس کا مکمل طور پر باتوں کی طرف ہے وہ پوری طرح گفتگو میں شریک ہے، سب لڑکوں کے درمیان میں سگریٹ ایش ٹرے پڑی ہے جو سگرٹوں سے مکمل طور پر بھر چکی ہے، چند بجھے ہوۓ سگریٹوں کے ٹوٹے قالین پر گرے ہیں، کہیں کہیں پر قالین کے جلنے کے نشان ہیں، صرف ایک لڑکے کے ہاتھ میں سگریٹ جل رہا ہے اور وہی سگریٹ آگے دوسرے لڑکوں میں ٹریول کرتا ہوا جاتا ہے۔ ایک لڑکا کش لگا کر سگریٹ عادل کو پکڑاتا ہے۔


پہلا لڑکا: (سگریٹ پکڑاتے ہوۓ) یار میرا تو خیال ہے تم نے خود کشی کر لی ہے، تمہیں اتنی جلدی شادی کرنے کی کیا جلدی تھی مزے سے یہاں رہ تو رہے تھے، ٹھیک ہے تم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے تو پہلے منگنی کرتے  یا صرف نکاح کر لیتے تم نے تو سیدھا شادی ہی کر ڈالی۔ اب کھیلنے کودنے کی عمر میں ایسے کام کرو گے تو پریشانیاں تو ہوں گی۔



دوسرا لڑکا: ہاں جی بچو۔۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔


میز والا لڑکا: ویسے ہے تو یہ بات بالکل ٹھیک، ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ اس مقررہ وقت پر ہی اچھا لگتا ہے، وقت سے پہلے اور وقت کے بعد کرنے سے کام ہو تو جاتا ہے پر اس میں وہ بات نہیں رہتی۔


(تیسرا لڑکا شیو بناتا ہوا باتھ روم سے نکلتا ہے)


تیسرا لڑکا: نہ میری جان نہ۔۔۔ ان سب کی باتوں پر بلکل دھیان نہ دینا، اس ناچیز کے خیال میں تم نے بہت اعلی کام کیا ہے ورنہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں (اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتا ہے) جو روزانہ شیو کر کے باہر نکلتے ہیں کہ شاید اس مصوم سے خوبصورت چہرے پر کسی کو ترس آجاۓ اور ہمیں بھی اس بندھن میں بندھنے کا شرف حاصل ہو۔


چوتھا لڑکا: ہاں اور اس بندھن میں بندھنے کے چکر میں جناب اگلے دن ایک نجومی کے پاس اپنا زائچہ بنوانے گۓ تھے اور ایک بابا سے خاص دم کیا ہوا دھاگا بھی لے کر آئیں ہیں اور اسی چکر میں چوک میں بیٹھے فقیر کو روزانہ پورے (دس پر زور دے کر) دس روپے عنایت کرتے ہیں کیونکہ وہ ہر بار یہ دعا کرتا ہے کہ اللّٰه‎‎ تمہیں ایک حسین و جمیل بیوی عطا کرے۔


(بات سن کر باقی دوست ہنستے ہیں)


تیسرا لڑکا: (عادل سے سگریٹ پکڑ کر کر کش لگاتا ہے) ہاں اور اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ابھی تک کچھ حاصل نہیں ہوا، کسی کو احساس ہی نہیں ہو رہا کہ ہمیں ایک عدد زوجہ مخترمہ کی سخت ضرورت آن پڑی ہے۔  


عادل: (ہنستے ہوۓ) ضرورت۔۔۔؟


تیسرا لڑکا: ہاں جی ضرورت۔


میز والا لڑکا: میری جان انسانی رشتے اور تعلق ضرورت کے تخت نہیں ہوتے، ضرورت کے لیۓ تو چیزیں ہوتی ہیں ورنہ تو پھر ضرورت ختم اور تعلق ختم۔۔۔(بات پر زور دے کر گہرے انداز میں) یہ بڑی ہی غور طلب بات ہے۔


پہلا لڑکا: (گھڑی پر وقت دیکھتے ہوۓ) یار وہ ثاقی کدھر رہ گیا کھانا لینے گیا تھا ابھی تک نہیں آیا، اسی لیۓ میں کہہ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کوںئ ایک آدمی ضرور جاۓ ورنہ یہ کہیں اور نکل جاۓ گا۔


دوسرا: ضرور کسی اور چکر میں پڑ گیا ہو گا، باہر جا کر دیکھو تو آرہا ہے کہ نہیں۔


(میز والا لڑکا اٹھ کر باہر جانے لگتا ہے مگر باہر موٹرسائیکل کی آواز سن کر رک جاتا ہے۔)


میز والا لڑکا: لگتا ہے آگیا۔


(پانچواں لڑکا سیٹی بجاتا ہوا ترنگ میں اندر داخل ہوتا ہے، شکل سے بڑا خوش لگ رہا ہے، آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ ہے، ایک ہاتھ میں شاپنگ بیگ ہے)


پہلا لڑکا: اتنی دیر لگا دی (خیرت سے) اور کھانا کہاں ہے؟


پانچواں لڑکا: (بیٹھتے ہوۓ، چشمہ اتار کر) بتاتا ہوں۔ (شاپنگ بیگ نیچے رکھتا ہے)


دوسرا لڑکا: (شاپنگ بیگ کھول کر دیکھتے ہوۓ) یہ کیا اس میں تو کپڑے ہیں؟ کھانا کدھر ہے؟ جو بھی بتانا ہے بعد میں بتانا سخت بھوک لگی ہے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں، پہلے کھانا کھا لیں۔ 


پانچواں لڑکا: یار وہی تو بتانے لگا ہوں پوچھو تو سہی آج کیا ہوا، میں جب بتاؤں گا تو تم بھی سن کر بولو گے کہ کیا بات ہے آج تو تم نے میدان مار لیا۔


میز والا لڑکا: (بیزاری سے منہ بناتے ہوۓ) اچھا بتاؤ۔



پانچواں لڑکا: آج مجھے تم لوگوں کی بھابھی دوبارہ دکھی۔ 


پہلا لڑکا: اچھا واہ ۔۔۔پھر؟


پانچواں لڑکا: میں جب کھانا لینے جا رہا تھا تو میں نے راستے میں اس کی گاڑی دیکھی اور میں نے موٹر سائیکل اس کی گاڑی کے پیچھے لگا دی۔


دوسرا لڑکا: تو پھر؟


پانچواں لڑکا: پھر میں اس کے گھر تک گیا اور میں نے پتہ چلا لیا کہ اس کا گھر کہاں ہے۔ 


تیسرا لڑکا: اور آگے؟


پانچواں لڑکا: اور کیا اس سے آگے کچھ نہیں، آج بس اتنا ہی پتہ چلا ہے۔


(سب برا سا منہ بناتے ہیں)


میز والا لڑکا:  اور کھانا! وہ کہاں ہے؟


پہلا لڑکا: کھانا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ میں جب اس کے پیچھے جا رہا تھا تو پیچھاکرتے کرتے میں کافی دور تک چلا گیا اور راستے میں پڑول ختم ہو گیا۔۔۔ میرے پاس پیسے کم تھے تو پڑول بھروا لیا۔


چوتھا لڑکا:  باقی اتنے پیسے تو تمہارے پاس تھے جس سے کھانا آسانی سے مل سکتا تھا؟


پانچواں لڑکا: ہاں وہ تو ٹھیک ہے پر جاتے ہوۓ راستے میں وہ شاپنگ کرنے مال پر رکی تھی تو اسے قریب سے دیکھنے کے چکر میں بھی اسی دکان میں گھس گیا جہاں وہ گئ تھی۔ پہلے تو میں صرف چیزیں دیکھتا رہا لیکن پھر میں نے سوچا کہ کہیں اسے پتہ نہ چل جاۓ کہ میں چیزیں خریدنے نہیں بلکہ صرف دیکھنے کے لیۓ دکان میں گھسا ہوں اس لیۓ میں نے بھی ایک دو جینز اور شرٹس خرید لیں۔


پہلا لڑکا: کیا؟ تم نے کھانے کے پیسوں کی جینز ٹی شرٹس خرید لیں؟


(سب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی طرف بڑھتے ہیں)


پانچواں لڑکا: ہاں لیکن میں وعدہ کرتا ہوں تمہاری ایک ایک پاںئ۔۔۔ (اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے)


(سب اس پر پل پڑتے ہیں)



چوتھا منظر


سمینہ اپنے کمرے میں اسی حالت میں کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی ہے۔ پیچھے سے صبیحہ اسے آواز دیتی ہے۔ 


صبیحہ: ماما۔۔۔ ( وہ دھیان نہیں دیتی) (پاس آکر کندھے ہر ہاتھ رکھتے ہوۓ) ماما۔۔۔


(اس بار آواز سن کر ہلکا سا چونکتی ہے)


سمینہ: (چونک کر) ہاں!۔۔۔ کیا بات ہے صبیحہ؟


صبیحہ : کہاں کھو گئیں تھیں آپ؟ میرا خیال ہے آپ کو اب سو جانا چاہیۓ کافی رات ہو گئ۔ 


سمینہ : ہاں تم جاؤ میں سو جاتی ہوں۔


صبیحہ: ٹھیک ہے میں چلتی ہوں (باہر جاتے ہوۓ) اور آپ اب سو جانا۔ 


سمینہ : ہاں ہاں میں سونے لگی ہوں۔ 


( وہ باہر نکل جاتی ہے، سمینہ کھڑکی کی طرف مڑتی ہے، آسمان پر چاند بادلوں سے نکلتا ہے وہ پھر سے کسی خیال میں کھو جاتی ہے)


پانچواں منظر (خیال میں)


کالج کی ایک لمبی سی راہ داری یا برآمدہ ہے جس میں  طلبہ و طالبات اپنے سامنے کینوس رکھے کچھ پینٹ کر رہے ہیں۔ پروفیسر امجد راہ داری میں ٹہل رہے ہیں باری باری کسی اسٹوڈنٹس کے پاس رکتے ہیں اور کچھ ہدایات دینے کے بعد آگے بڑھ جاتے ہیں۔ سمینہ سب سے الگ کچھ فاصلے پر اردگرد سے بے خبر کینوس پر جھکی اپنے کام میں مگن ہے۔ پروفیسر صاحب چل کر اس کے پاس جاتے ہیں، وہ اپنے کام میں اس قدر مگن ہے کہ اسے بالکل پتہ نہیں چلتا کہ وہ اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔ چند لمحے اس کا کام دیکھنے کے بعد وہ اسے مخاطب کرتے ہیں۔


پروفیسر : ہاں جی سمینہ تصویر مکمل ہو گئ؟


(وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے)


سمینہ: (تھوڑا سا ایک طرف سرک کر انہیں تصویر دکھاتی ہے) بس مکمل ہو ہی گئ یہ دیکھیں کیسی ہے؟



پروفیسر: (کچھ دیر تصویر کو سرسری سا دیکھنے کے بعد) یہ پینٹنگ ہے؟ ایسی پینٹنگ کو تو میں اٹھا کر باہر پھینک دیا کرتا ہوں ، اگلے آدھے گھنٹے تک تمہاری مکمل تصویر میرے آفس میں پہنچ جانی چاہیۓ اور یہ مت سمجھنا کہ میں بھول جاؤں گا، I will be waiting


(وہ کہتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، سمینہ غصے سے پاؤں زمین پر پٹختی ہے)


چھٹا منظر


کالج کے کیفے ٹیریا میں عادل اور چند دوسرے لڑکے لڑکیاں بیٹھے ہیں ایک طرف سے سمینہ آتی ہوںئ دکھاںئ دیتی ہے آتے ہی بیگ اور کتابیں غصے سے میز پر پھینکتی ہے اور ایک طرف منہ پھلا کر بیٹھ جاتی ہے۔ 


پہلی لڑکی: اسے کیا ہوا؟


دوسری لڑکی: معلوم نہیں۔۔۔ عادل تم نے تو اسے کچھ نہیں کہا؟


عادل: میں نے۔۔۔نہیں تو۔ میری تو آج صبح سے اس سے ایک بھی بات نہیں ہوںئ۔


پہلی لڑکی: تو پھر کیا ہوا اسے؟ میرا خیال ہے ضرور اسے سر امجد نے کچھ بولا ہو گا۔


دوسری لڑکی: ہاں یہی بات ہو گی۔ (سمینہ کو مخاطب کرکے) کیوں یہی بات ہے نا سر امجد نے پھر سے ڈانٹا تمہیں؟


سمینہ: یار پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں، اتنی محنت سے میں نے تصویر پینٹ کی تھی پھر بھی کہتے ہیں ایسی پینٹنگ کو میں اٹھا کر باہر پھینک دیا کرتا ہوں۔


(باقی سب ہنسنے لگتے ہیں)


دوسری لڑکی: کوںئ بات نہیں تمہیں معلوم ہے وہ کہتے ایسا ہی ہیں پر ہر بار سب سے زیادہ مارکس تمہاری پینٹنگ کو ہی ملتے ہیں۔


عادل : ہاں یہ بات تو صحیح ہے۔


سمینہ: ایسے اچھے نمبرز کا کیا فائدہ جو اتنی بے عزتی کے بعد ملیں۔


پہلی لڑکی: چھوڑو یارا تم اپنا موڈ ٹھیک کرو۔۔۔اور ہاں کل ہم سب کا پکنک پر جانے کا پروگرام بن رہا ہے اور تم بھی چل رہی ہو۔


سمینہ: نہیں میں نہیں جا رہی تم لوگ جاؤ۔


پہلی لڑکی: اس بار میں کوںئ بہانہ نہیں سنوں گی تمہیں چلنا ہی پڑے گا۔


دوسری لڑکی: ابھی اس سے اس بارے میں بات مت کرو، ابھی اس کا موڈ ٹھیک نہیں کچھ دیر بعد بات کرنا مان جاۓ گی اور نہ مانی تو ہمیں جانتی ہے ہم دوسری طرح بھی لے جا سکتے ہیں۔


(دونوں ہنستی ہیں اور ہاتھ اونچے کرکے پنجہ مارتی ہیں)


ساتواں منظر


پروفیسر امجد اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے سمینہ، عادل اور ایک دو اور لڑکے لڑکیاں بیٹھے ہیں۔ پروفیسر صاحب سیٹ سے اٹھتے ہیں اور پیچھے دیوار کے ساتھ جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں ان کے ہاتھ میں سمینہ کی بناںئ ہوںئ پینٹنگ ہے۔


پروفیسر: (تصویر کا رخ ان کی طرف کرکے) یہ تصویر جو سمینہ نے بناںئ ہے اچھی ہے ، بہتر ہے، اس میں کوںئ شک نہیں کہ سمینہ ایک اچھی مصورہ ہے۔۔۔ بلکہ تم سبھی لوگ بہت اچھے پینٹرز ہو۔ (کھڑکی سے باہر اشارہ کرتے ہوۓ)  لیکن ۔۔۔ ذرہ ایک منٹ کھڑکی سے باہر دیکھو، وہ وہاں تمہیں ایک رنگ ساز دیوار پینٹ کرتا ہوا دکھاںئ دے رہا ہوگا،(سب باہر دیکھتے ہیں باہر ایک آدمی دیوار پینٹنگ کرتا ہوا دکھاںئ دیتا ہے)  وہ بھی ایک بہت اچھا پینٹر ہے، دیکھو ذرہ۔۔ کتنی خوبصورتی اور مہارت سے دیوار پینٹ کر رہا ہے۔۔۔ اور اس پر کتنی پیاری تصویریں بنا رہا ہے، کیسی دلکش نقش و نگاری کر رہا ہے۔۔۔ (واپس ان کی طرف دیکھتے ہوۓ) میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اسے تمہاری یہ تصویریں دی جائیں تو وہ بھی انہیں پینٹ کر لے گا اور شاید تم سے بہت اچھا کرے گا کیونکہ وہ ایک منجھا ہوا کاریگر ہے۔ لیکن جانتے ہو اتنا اچھا پینٹر ہونے کے باوجود اس کی بناںئ ہوںئ تصویروں کو آرٹ کا ایک اعلیٰ نمونہ کیوں قرار نہیں دیا سکتا، کیوں اس کی بناںئ ہوںئ تصویروں کی نمائش نہیں لگتی اور کیوں اسے پوری دنیا میں سراہا نہیں جاتا، حالانکہ اس کی بناںئ ہوںئ تصویریں دکھنے میں کس قدر خوبصورت اور دلکش ہوتی ہیں ۔۔۔ (سمینہ سے) ایسا کیوں ہے؟


سمینہ: کیوں سر؟  



اس لیۓ کہ اس کی بناںئ ہوںئ تصویروں کے پیچھے کوںئ خیال نہیں ہوتا، اس کی تصویریں بے جان مردہ سی ہیں اس موم کی ڈمی کی طرح جو دکان میں گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیۓ رکھی جاتی ہے اور جس پر بڑا ہی خوبصورت لباس زیب تن کر دیا جاتا ہے۔۔۔ لیکن ایک چیز ہے جو اس مردہ ڈمی میں جان ڈالتی ہے وہ چیز معلوم ہے کیا ہے؟۔۔۔ وہ چیز فکر ہے، کوںئ گہرا خیال ، کوںئ جذبہ جس کا اظہار اس ڈمی میں ہوتا ہے، اس کے بعد یہ تصویر دیکھنے والے کی اپنی سوچ اور جذبے میں ایک تحریک پیدا کرتی ہے، اس کو ابھارتی ہے، اسے جنجھوڑتی ہے۔۔۔تو کیا تم لوگ اس رنگ ساز کی طرح کا آرٹسٹ بننا چاہو گے یا ایک حقیقی آرٹسٹ؟۔۔۔یقیناً حقیقی آرٹسٹ بننا چاہو گے، تو پھر اس موم کے پتلے میں جان ڈالو ایسے کہ یہ سانس لیتا ہوا محسوس ہو۔


(ایک ملازم آتا ہے اور دروازہ میں ہی کھڑے کھڑے پیغام دیتا ہے)


ملازم: امجد صاحب آپ کو سر اشتیاق اسٹاف روم میں بلا رہے ہیں۔


پروفیسر: ٹھیک ہے تم جاؤ میں آتا ہوں۔


(ملازم چلا جاتا ہے)


پروفیسر: (اسٹوڈنٹس سے) ٹھیک ہے میرا خیال ہے آج کے لیۓ اتنا کافی ہے، آپ لوگ جا سکتے ہیں کل کلاس میں اپنی اپنی اسائنمنٹ لے کر آنا۔


(سب خداخافظ کہتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں۔ سب سے آخر میں سمینہ نکلنے لگتی ہے پروفیسر صاحب اسے آواز دے کر روک لیتے ہیں)


پروفیسر: سمینہ تم رکو ذرہ۔


سمینہ: جی سر؟


پروفیسر: تمہارا مسئلہ معلوم ہے کیا ہے؟


سمینہ: جی سر کیا ہے؟


پروفیسر: تم تصویریں عقل سے بناتی ہو، دماغ سے، لیکن جس دن تم تصویر دل سے بناؤ گی اس دن تمہاری تصویر بہت باکمال بنے گی۔ 


سمینہ: کیا مطلب سر میں تو دل لگا کر کام کرتی ہوں۔


پروفیسر: (باہر جاتے ہوۓ) مطلب بعد میں کبھی بتاؤں گا ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے۔ 


(باہر نکل جاتا ہے، سمینہ وہیں کھڑے کھڑے کھڑکی سے باہر رنگ ساز کو دیکھنے لگتی ہے)



آٹھواں منظر


 باغ میں پانچ سات لڑکے لڑکیاں گھاس پر دستر خوان بچھاۓ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں اور گپیں لگا رہے ہیں ، ان میں عادل اور سمینہ بھی ہیں۔ ان کا ہنسنا باتیں کرنا دکھاںئ دیتا ہے مگر آوازیں سناںئ نہیں دیتیں۔ کچھ دیر تک کھانا کھاتے ہیں پھر اٹھ کر کوںئ کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔ تھوڑی دیر تک کھیل کھیلنے کا منظر چلتا رہتا ہے۔ 



نواں منظر


ایک ڈرائینگ روم میں پروفیسر امجد صوفے پر بیٹھے ہیں، پاس ہی میز پر ایک چھوٹا سا ریڈیو رکھا ہے جس میں کوںئ پرانا گیت بج رہا ہے، ان کے پیچھے دیوار پر ایک بڑی سی پینٹنگ آویزاں ہے، پروفیسر صاحب خاموشی سے گیت سننے میں مگن ہیں، ایک ملازمہ اندر کمرے میں داخل ہوتی ہے۔


ملازمہ: صاحب جی؟


پروفیسر: جی۔۔۔


ملازمہ: باہر ایک لڑکا اور ایک لڑکی آۓ ہیں۔


(پروفیسر صاحب کو آواز سناںئ نہیں دیتی) 


پروفیسر: (ریڈیو کا والیم کم کر کے) کیا کہا؟ کون آیا ہے؟


ملازمہ: ایک لڑکا اور لڑکی ہیں کہتے ہیں ہم پروفیسر صاحب کے سٹوڈنٹ ہیں۔


پروفیسر: تو نام پوچھنا تھا نا ان کا؟


ملازمہ: جی پوچھا ہے۔۔۔ لڑکے کا نام عادل ہے اور لڑکی کا سمینہ۔


پروفیسر: (خوش ہوتے ہوۓ) اچھا، اچھا! پھر تو جلدی اندر لے کر آؤ انہیں۔


(ملازمہ چلی جاتی ہے، پروفیسر صاحب ریڈیو بند کر دیتے ہیں، چند ہی لمحوں میں سمینہ اور عادل اندر داخل ہوتے ہیں۔ سمینہ سلام کرتی ہے، عادل بھی ہاتھ ملاتا یے)


پروفیسر: (اٹھنے کی کوشش کرتے ہوۓ) آؤ آؤ سمینہ بیٹا آؤ بیٹھو۔


سمینہ: آپ بیٹھیں رہیں سر اٹھنے کی ضرورت نہیں ہمیں معلوم ہے آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں۔


پروفیسر: ہاں بس کچھ دنوں سے یہی حال ہے۔ 


سمینہ: ہم پہلے کالج گۓ تھے وہاں سے پتا چلا کہ آپ کی طبعیت خراب ہے اور آج کل آپ کالج نہیں آ رہے اس لیۓ ہم یہاں چلے آۓ۔


پروفیسر: اچھا کیا بہت اچھا کیا ویسے بھی میں بور ہو گیا تھا اکیلے بیٹھ بیٹھ کے۔۔۔اور تم سناؤ عادل کیسا چل رہا ہے تمہارا کام؟


عادل: اچھا چل رہا ہے سر بہت بہتر ہے۔ شروع شروع میں آفس سنبھالنے میں کافی مشکلات پیش آئیں مگر اب بہت بہتر صورتحال ہے۔


پروفیسر: ٹھیک ہے پھر تو اچھی بات ہے۔۔۔ لیکن میرا خیال ہے تم لوگوں نے شادی کرنے میں کافی اجلت سے کام لیا کم سے کم ڈگری تو مکمل کرنی چاہیے تھی تمہیں، بس دو سمیسٹر ہی تو رہ گۓ۔


سمینہ: بس سر کچھ فیملی میٹر ہی ایسے ہو گۓ تھے کہ ہمیں مجبوراً جلدی شادی کرنا پڑی ورنہ ارادہ تو ہمارا بھی یہی تھا کہ تعلیم مکمل کرکے ہی کریں۔


پروفیسر: چلو کوںئ بات نہیں بہتر ہے جو بھی ہو گیا۔۔۔ اور تمہاری پینٹنگز کیسی چل رہیں، چھوڑ دیں یا اب بھی بناتی ہو؟


سمینہ: جی سر بناتی ہوں کبھی کبھی آج کل زیادہ وقت نہیں ملتا۔ 


پروفیسر: اچھی بات یے بنایا کرو جتنا بھی وقت ملتا ہے اور دل سے دماغ سے نہیں۔


سمینہ: سر آپ نے مجھے پہلے بھی یہ بات کہی تھی مگر میں ٹھیک طرح سمجھ نہیں پاںئ آپ نے کہا تھا پھر کبھی اس کی وضاحت کر دوں گا آج تو آپ کو بتانا ہی پڑے گا۔


پروفیسر: (مسکراتا ہے) تمہیں آج بھی یہ بات یاد ہے؟


سمینہ: جی بالکل یاد ہے کیونکہ لوگ عقل سے اور دماغ سے کام کرنے کو فورس کرتے ہیں پر آپ نے اس کے برعکس بات کی۔


پروفیسر: ہاں کیونکہ میں دماغ سے زیادہ دل کو ترجیع دیتا ہوں۔


سمینہ: مگر سر اس طرح تو زندگی گزارنا خاصا مشکل ہے کیونکہ دماغ ہی تو صحیح سمت کا تعین کرتا ہے، عقل ہی تو سیدھا راستہ دیکھاتی ہے۔  



پروفیسر: ایسا لگتا ہے مگر ایسا ہے نہیں۔  ایک چھوٹے سے بھیک مانگنے والے بچے کو ہم پیسے کس لیۓ دیتے ہیں، اسی لیۓ کہ ہمارا دل اسے دیکھ کر پسیجتا ہے اور ہم اسے سو روپیہ تک نکال کر دے دیتے ہیں۔ ہماری عقل تو یہی کہتی ہے کہ اسے پیسے دینے سے ہمیں کوںئ فائدہ حاصل نہیں ہو گا بلکہ ہماری اپنی رقم میں کمی واقع ہو گی، دنیا کا کوںئ عقل مند  انسان یا کوںئ بڑے سے بڑا ذہین اکاؤنٹنٹ بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس بچے کو پیسے دینے سے ہمارے پاس سابقہ رقم برقرار رہے گی۔ پھر بھی ہمارا دل یہ کہتا ہے کہ اس کو پیسے دینے چاہیں۔


عادل: پر سر یہ تو صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے لیکن دیکھا جاۓ تو اس عقل نے کیسے کیسے کارنامے سر انجام دیۓ ہیں، آج کا انسان اگر اس قدر ترقی یافتہ ہے تو اسی دماغ کی بدولت۔


پروفیسر: میرے خیال میں ایسا نہیں ہے، دو ملکوں کی فوجیں جب آپس میں جنگ کرتی ہیں تو دونوں کس سے کام لیتی ہیں؟ دونوں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیۓ، شکست دینے کے لیۓ پلاننگ کرتی ہیں، دماغ سے عقل سے سٹریٹجیز بناتی ہیں، ذہانت سے منصوبہ تیار کرتی ہیں کہ کہاں حملہ کرنا ہے، کس وقت کرنا ہے، کہاں آگے بڑھنا ہے کس وقت پیچھے ہٹنا ہے، کہاں مورچے بنانا ہے، موسم کا، اسلحے کا کیسے استعمال کرنا ہے، یہ سب دماغ کے کام ہیں، یہ جنگ و جدل، مقابلے بازی، ایک دوسرے کو شکست دینے کے کھیل، یہ اسلحہ بارود کی ایجادات یہ مال و اسباب اور دولت جمع کرنے کی دھن یہ سب عقل کی کارستانیاں ہیں، یہ دماغ کے کھیل ہیں ۔۔۔ یہ فساد اس لیۓ ہے کیونکہ انسان دماغی حربے استعمال کرتا ہے، عقل سے چلاکیاں چلتا ہے، ذہانت کو کام میں لا کر دوسروں کو دھوکا دیتا ہے۔


 (اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور خود کلامی کے انداز میں آہستگی سے بولتا ہے) انسان کے دل پر اس کی عقل کا پردہ پڑ چکا ہے، جب تک وہ پردہ ہٹے گا نہیں یہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔



دسواں منظر


سمینہ کھڑکی کے پاس کھڑی ہے، جیسے ہی منظر کھلتا ہے اذان کی آواز آنے لگتی ہے، وہ خیال سے باہر آجاتی ہے۔ کھڑکی کے باہر چاند بادلوں میں چھپ رہا ہے، سمندر اب شانت ہے اور بڑے سکون سے بہہ رہا یے۔ اک تیز ہوا کا جھونکا آتا ہے اور پردہ زور سے ہلتا ہے، سمینہ تیزی سے آگے بڑھتی ہے اور پردے کو سمیٹنے لگتی ہے۔ چند لمحے اذان سنتی ہے پھر بازو کہنیوں تک اوپر چڑھاتی ہے اور وضوع کے لیۓ واش روم میں گھس جاتی ہے۔


گیارواں منظر


صبح صبح کا وقت ہے، سمندر کے اوپر سے طلوع آفتاب کا منظر دکھاںئ دیتا ہے، سمنیہ ساحل پر تنہا ٹہل رہی ہے، اردگرد اور کوںئ نہیں، مترنم آواز میں گلوکار کے گانے کی آواز ابھرتی ہے، جس میں یہ شعر گنگنایا جاتا  یے، 


صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے

جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول 



کافی دیر تک یونہی ٹہلتی رہتی ہے، ساتھ ساتھ یہ گانا مسلسل چلتا رہتا ہے۔ کچھ دیر تک یہ منظر چلتا ہے پھر فیڈ آؤٹ ہو جاتا ہے۔























 


 



















 

















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات