Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





صبح جیسے ہی سورج نے اپنی سنہری کرنوں کا جال دھرتی پر پھیلانا شروع کیا اور چڑیوں کی میٹھی بولیاں باریک چادر سے گزر کر اس کے کانوں میں پڑنے لگیں تو اس کی آنکھ کھل گئ۔ اس نے چادر آنکھوں سے ہٹاںئ اور ایک جھٹکے میں اٹھ کر بیٹھ گیا، ایک لمبی انگڑاںئ سے فارغ ہونے کے بعد وہ اٹھا اور چپل پہن کر منڈیر پر آگیا۔ اپنے دونوں ہاتھ منڈیر پر رکھ کر سامنے تاحد نگاہ پھیلے وسیع و عریض سر سبز کھیتوں اور صبح کی خوشگوار ٹھنڈی ہوا سے جھومتی اور رقص کرتی فصلوں کا نظارہ کرنے لگا، وہیں کھڑے کھڑے اس نے ایک پل میں فیصلہ کیا کہ باہر جا کر کھیتوں کی اور گاؤں بھر کی سیر کی جاۓ۔ ابھی وہ پلٹ کر آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک سے رک گیا، اس کی نظر دوسری طرف والے مکان پر پڑی جہاں ایک خوبصورت لڑکی چارپائیوں پر سے بستر سمیٹنے میں مشغول تھی۔ وہ وہیں کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگا، لڑکی کی نظر ابھی تک اس پر نہیں پڑی تھی ، وہ چل کر منڈیر کے پاس جا کھڑا ہوا، اب لڑکی اس کے کافی نزدیک تھی، ایک دم سے لڑکی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا  اور گبھرا کر جلدی سے نیچے بھاگ گئ۔ کچھ دیر وہاں کھڑا رہنے کے بعد وہ واپس ہو لیا اور سیڑھیاں اتر کر نیچے صحن میں آگیا۔ 


گھر کے تقریباً تمام افراد بیدار ہو چکے تھے، بچوں نے اسے دیکھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا۔ 'چاچو قاسم آگۓ چاچو قاسم آگۓ۔' اس نے جیب سے نکال کر بچوں کو چند پیسے تھماۓ اور جلدی سے جان چھڑا کر باہر نکل آیا۔ گلی میں ایک آدمی ہاتھ میں ڈول پکڑے دودھ لینے جارہا تھا اور دوسری طرف سے ایک آدمی گدھے پر پٹھے لادے چلا آرہا تھا، وہ قریب سے گزرا تو دونوں نے ایک دوسرے کو ہلکی سی مسکراہٹ سے سلام کیا اور آگے بڑھ گۓ۔ گلی میں ایک موڑ مڑنے کے بعد وہ سیدھا چل پڑا، اس کا ارادہ کھیتوں کی طرف جانے کا تھا مگر موڑ مڑتے ہی اسے کچھ خیال آیا تو وہیں رک گیا۔ بائیں جانب ایک چھوٹی گلی تھی جس کے دونوں اطراف مکانات تھے، اس نے گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو کر آخری سرے تک جھانکا، گلی میں کوںئ بھی نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھا اور دونوں اطراف کے مکانات کا جائزہ لیتے ہوۓ گلی میں چلنے لگا، چلتے چلتے وہ گلی کے دوسرے کونے میں آگیا یہاں دائیں جانب ایک اور تنگ سی گلی تھی جس کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے گھر تھے، جیسے ہی اس نے تنگ گلی کے اندر پاؤں رکھا ایک طرف سے ایک گھر کا دروازہ کھلا وہ فوراً واپس مڑ جانا چاہتا تھا مگر اب واپس پلٹنے کا موقع نہیں رہا تھا، اس آدمی نے اسے دیکھ لیا تھا اور وہ اسے کسی شک و شبے میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اعتماد سے اپنی چال برقرار رکھی اور اس کے قریب سے گزرتے ہوۓ مسکرا کر ہلکی سی سر کی جنبش سے بغیر بولے اسے سلام کیا اور آگے بڑھ گیا۔ اس کے جواب میں اس آدمی نے بھی ہلکا سا اپنا سر ہلا دیا۔ جب اس آدمی کے قدموں کی چاپ آنا بند ہو گئ تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا گلی میں اب اس کے سوا اور کوںئ نہیں تھا۔ وہ چلتے چلتے گلی کے بالکل درمیان میں آگیا یہاں ایک اور گلی تھی جو نسبتاً کشادہ تھی وہ اس گلی میں اتر گیا۔ وہ شروع سے لے کر آخر تک ایک ایک مکان کو بڑے غور سے دیکھتا چلا آیا تھا۔ ایک جگہ ایک دکان تھی مگر ابھی بند تھی وہ خاموشی سے چلتا ہوا اس گلی میں سے بھی گزر گیا۔ گلی کے اختتام پر دائیں بائیں دونوں طرف راستے تھے اس نے ایک کا انتخاب کیا اور چل پڑا، یہ راستہ اسے اسی جگہ لے آیا جہاں سے وہ چلا تھا، اب کافی وقت ہو گیا تھا اور لوگوں کی آمدورفت بھی شروع ہو چکی تھی اس لیۓ اس نے مزید کہیں جانا مناسب نہ سمجھا اور گھر کی راہ لی۔ 


گھر پہنچ کر وہ پانچ منٹ کے لیۓ اپنی خالہ کے پاس رکا اور اوپر چلا آیا۔ چھت کے اوپر ایک چھوٹا سا کمرا تھا جو اس نے خود اپنے لیۓ منتخب کیا تھا اس نے آتے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ علیحدہ کمرے میں رہے گا تاکہ اطمینان سے اپنا کام کر سکے۔ اسے یہاں آۓ ہوۓ ہفتہ بھر ہونے کو آیا تھا مگر کوںئ نہیں جانتا تھا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے۔ برسوں پہلے تو وہ سال میں ایک آدھ بار چکر لگا جایا کرتا تھا مگر اب تو اسے یہاں آۓ ہوۓ کافی عرصہ بیت گیا تھا پھر اچانک وہ ایک دم یہاں رہنے کے لیۓ چلا آیا تو سب خیران ہوۓ مگر کسی نے بھی اس سے کچھ بھی نہ پوچھا اور نہ ہی اس نے کسی کو کچھ بتایا۔ دن بھر وہ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھا کوںئ فائل دیکھتا رہتا تھا یا لیپ ٹاپ پہ کوںئ کام کرتا رہتا مگر کوںئ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کام کرتا ہے۔ ایک دو بار پوچھنے پر اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ وہ کسی سرکاری ادارے میں ملازمت کرتا ہے، اس کے علاوہ اس نے کسی قسم کی کوئی تفصیل بتانے سے گریز کیا تھا۔


وہ ابھی نہا کر باہر نکلا ہی تھا کہ ایک چھوٹا بچہ ناشتے کی ٹرے ہاتھ میں لیۓ دروازے سے اندر داخل ہوا۔ اس نے بال خشک کر کے تولیہ ایک طرف پھینکا اور لڑکے کو ٹرے میز پر رکھنے کا اشارہ کیا، لڑکا ٹرے رکھ کر واپس جانے لگا تو اس نے اسے روک لیا، کچھ پوچھنے کے لیۓ اس نے لب کھولے ہی تھے کہ نہ جانے کیا سوچ کر رک گیا اور اس سے کہا 'کچھ نہیں تم جاؤ۔' بچہ واپس چلا گیا۔ وہ ابھی ناشتے کی میز پر بیٹھا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی، اس نے میز پر اردگرد نظر دوڑاںئ پھر گھنٹی کی آواز کا تعاقب کرتے ہوۓ اٹھا اور بستر پر پڑے ہوۓ کپڑے اٹھا کر دیکھا تو اسے موبائل مل گیا۔ فون پر بات سنتے ہی اس نے ناشتہ وہیں چھوڑا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے صحن میں آگیا دھوپ کافی نکل آںئ تھی اس لیۓ صحن میں اس وقت کوںئ بھی نہیں تھا۔ وہ جلدی سے باہر گلی میں آگیا اور تیزی سے ایک طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ اس کا رخ گاؤں سے باہر جانے والی مرکزی گزرگاہ کی طرف تھا۔ بھاگتے بھاگتے وہ گاؤں سے باہر نکل آیا، ایک جانب ایک چھوٹا سا ڈیرہ دکھاںئ دیا وہ ایک درخت کی اوٹ لے کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ ہی پل میں ایک آدمی ڈیرے سے نکلا، اس نے دھوپ سے بچنے کے لیۓ سر پر سفید رنگ کا پرنا باندھ رکھا تھا اور سفید ہی شلوار قمیص میں ملبوس تھا جبکہ منہ پر بڑی سی کالے رنگ کی مونچھیں تھیں۔ وہ ڈیرے سے نکلا اور ایک طرف کو چل دیا اس کا رخ گاؤں کی بجاۓ مخالف سمت کو تھا۔ قاسم بھی اس کے پیچھے آہستہ آہستہ چلنے لگا، وہ اس سے کافی فاصلے پر چل رہا تھا جیسے ہی وہ آدمی کچی اینٹوں کی سڑک پار کرکے پکی سڑک پر آیا ایک جیپ تیزی سے اس کے قریب آکر رکی وہ جیپ میں بیٹھ گیا۔ قاسم بھاگتے بھاگتے قریب آیا مگر اس کے پہچنے سے پہلے ہی جیپ بھاگ کھڑی ہوںئ۔ اس نے وہیں درخت کے ساۓ میں کھڑے ہو کر اپنا سانس بخال کیا اور واپس گاؤں کی طرف چل پڑا۔ ڈیرے کے پاس پہنچ کر اسے تیز ناگوار سی بو کا احساس ہوا یہ بو اس نے پہلے بھی محسوس کی تھی مگر پہلے اس آدمی پر دھیان کی وجہ سے وہ اسے نظرانداز کر گیا تھا، ایک لمحے میں ہی وہ سمجھ گیا کہ یہ کس چیز کی بو ہے، اس نے بازو اپنے ناک پر رکھ لیا۔ ڈیرے کے سامنے سے گزرنے کی بجاۓ وہ ڈیرے کے عقب میں قبرستان کی طرف چل پڑا۔ وہ قبرستان کے بیچ میں سے گزر کر گاؤں کے دوسری جانب جا نکلا اور ایک لمبا چکر کاٹ کر واپس گھر آگیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اسے خالہ نے روک لیا۔


 'کہاں گۓ تھے ناشتہ بھی نہیں کیا اور بغیر بتاۓ نکل گۓ؟' اس کی خالہ نے پوچھا۔


بس خالہ ایک ضروری کام یاد آگیا تھا۔۔۔اچھا میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں بہت تھک گیا ہوں کچھ دیر سونا چاہتا ہوں۔'


 وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا، کمرے میں آتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور بستر پر گر گیا۔ کافی دیر وہ چھت پر چلتے پنکھے کو گھورتا رہا، اس کا ناشتہ ابھی بھی میز پر پڑا تھا۔ وہیں لیٹے ہوۓ اس نے اک نظر ناشتے کو دیکھا اور بے دلی سے اٹھ کر بیٹھ گیا، پھر ناشتے کی ٹرے میز سے اٹھا کر بستر پر اپنے سامنے رکھ لی۔ 


ناشتہ کرنے کے بعد وہ سو گیا اور جب سو کر اٹھا تو دن بیت چکا تھا۔ اس نے موبائل سے وقت دیکھا شام کے چھ بج رہے تھے، کچھ ضروری کالز چیک کیں جو وہ سن نہیں پایا تھا ان میں سے کچھ کو واپس کالز کرنے اور کچھ کو فقط پیغامات بھیج کر اس نے فون نیچے رکھ دیا۔ ابھی بستر سے اٹھا ہی تھا کہ وہی بچہ جو صبح ناشتہ لے کر آیا تھا کمرے میں داخل ہوا۔ 


اس نے آتے ہی کہا، 'بھاںئ شکر ہے آپ اٹھ گۓ، یہ میرا تیسرا چکر ہے خدا کے لیۓ اب نہ سونا ورنہ امی مجھے اوپر بھیج بھیج کر کچھ زیادہ ہی اوپر بھیج دیں گی۔'


وہ مسکرایا، 'امی کو بولو میں اٹھ گیا ہوں نہا کر کپڑے بدل کر آتا ہوں۔' 


اچھا ٹھیک ہے۔' اس نے کہا اور واپس لوٹ گیا، 'ایک تو یہ شہر کے لوگ کتنا سوتے ہیں۔' وہ بڑبڑاتے ہوۓ باہر نکل گیا۔ 


قاسم ہنستے ہوۓ نہانے چلا گیا، جب نہا دھو کر اور کپڑے بدل کر کمرے سے باہر نکلا تو سورج دور کھیتوں میں ڈوب رہا تھا اور شام کے ساۓ بڑھ گۓ تھے۔ وہ میلوں تک پھیلے کھیتوں کو دیکھنے لگا، دور سے اسے واپس گھروں کو لوٹتے کسانوں کے ہیولے دکھاںئ دے رہے تھے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دوسری طرف دیکھا تو اسے دوسری چھت پر وہی لڑکی دکھاںئ دی، وہ ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ گیند سے کھیل رہی تھی۔ وہ وہیں کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ جب لڑکی کی نظر اس پر پڑی تو وہ مسکرایا اس بار لڑکی بھی اسے دیکھ کر مسکرا اٹھی۔ کچھ دیر تک دونوں کن اکھیوں سے اک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر وہ آگے بڑھا اور منڈیر کی دیوار کے پاس جا کھڑا ہوا۔ 'یہ آپ کا بھاںئ ہے؟' اس نے چھوٹے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پوچھا۔


نہیں یہ میرا بھانجا ہے میری بڑی بہن کا بیٹا، یہ شہر میں رہتا ہے آج ہی آیا ہے۔' لڑکی نے جواب دیا۔ 


اس نے سر ہلایا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا، کچھ دیر تک دونوں خاموش رہے پھر لڑکی بولی۔


آپ بھی شہر میں رہتے ہیں؟' 


جی ہاں! میں ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہوں اور یہاں اپنی خالہ کے گھر چھٹیاں منانے آیا ہوں۔۔۔اور آپ کیا کرتی ہیں؟' وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔


میں پڑھتی ہوں۔' لڑکی نے جواب دیا۔


دونوں کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا تھا، نیچے سے کسی کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آںئ۔ 


لگتا ہے کوںئ آرہا ہے اب میں چلتی ہوں آپ بھی جائیں۔' لڑکی تیزی سے بولی۔


لڑکا واپس مڑا اور چند قدم دور جا کر رک گیا۔ 'میں نے آپ کا نام تو پوچھا ہی نہیں؟ اس نے قدرے بلند آواز سے کہا۔


تانیہ۔' وہ جلدی سے بولی، ' آپ جائیں اب۔'


لیکن میرا نام تو آپ نے۔۔۔۔' کوںئ اوپر آگیا تھا اس لیۓ وہ خاموش ہو گیا اور سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا گیا۔


رات کو جب چھت پر سونے کے لیۓ وہ چارپاںئ پر پہنچا تو لیٹنے سے پہلے اس نے اک نظر دوسری چھت پر ڈالی تقریبا سبھی افراد خانہ چھت پر چارپائیاں بچھاۓ سونے کی تیاری کر رہے تھے اس لیۓ وہ جلدی سے دیوار سے ہٹ گیا اور آکر اپنے بستر پر دراز ہو گیا۔ کافی دیر تک وہ موبائل سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہا اور اسی دوران اس کی آنکھ لگ گئ۔ اچانک سے موبائل کی گھنٹی بجی، وہ ہڑبڑا کر اٹھا بیٹھا، اس نے کال وصول کی اور چھلانگ لگا کر بستر سے نیچے اتر آیا، وقت دیکھا تو رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی لیکن اسے سوۓ ہوۓ بمشکل آدھا پونا گھنٹہ ہی ہوا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کافی دیر تک جاگ کر موبائل استعمال کرتا رہا تھا۔ اس نے موبائل بند کرکے تکیے کے نیچے رکھ دیا، پھر سیڑھیوں کی جانب بڑھا، اوپر سے   نیچے جھانک کر دیکھا، صحن میں سب گھر والے گہری نیند سوۓ تھے وہ کچھ سوچ کر چھت کی دوسری جانب آ گیا وہاں سے اس نے نیچے دیکھا جہاں خالی میدان تھا۔ وہ نیچے اترنے کے لیۓ کوںئ جگہ تلاش کرنے لگا، تلاش کرتے کرتے اس ایک لوہے کا باریک سا پائپ نظر آیا جس پر لٹک کر نیچے جانا خاصا مشکل تھا۔ لیکن اس وقت اور کوںئ چارہ نہیں تھا، وہ ایک لمحہ ضائع کیۓ بغیر منڈیر کی دیوار پر چڑھ گیا اور دوسری طرف پائپ سے لٹک گیا، پائپ سے لٹک کر جب وہ آدھے راستے پر پہنچا تو اسے علم ہوا کہ پائپ صرف وہیں تک تھا یہاں سے پائپ مڑ کر دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا آگے ایک سوراخ سے اندر چلا گیا تھا۔ اب مشکل یہ تھی کہ زمین کافی دور تھی اس لیۓ وہ چھلانگ نہیں لگا سکتا تھا۔ اس نے لٹکے لٹکے نیچے غور سے دیکھا، خوش قمستی سے وہاں ریت کی ایک بہت بڑی ڈھیری تھی ، اس نے جلدی سے چھلانگ لگا دی اور ڈھیری پر جا گرا، ایک اور چھلانگ لگا کر وہ زمین پر پہنچ گیا۔ اس نے اختیاط سے اردگرد دیکھا وہاں کوںئ نہیں تھا، وہ آہستہ آہستہ بھاگنے لگا، آدھی رات کا وقت تھا وہاں کسی کے ہونے کے کم ہی امکانات تھے مگر گرمیوں کے دن تھے اس لیۓ وہ ذرہ زیادہ مختیاط کھاںئ دے رہا تھا۔ بھاگتے بھاگتے وہ  آبادی سے کچھ دور نکل آیا یہاں پہنچ کر اس نے تیز رفتاری سے بھاگنا شروع کر دیا۔ کافی دیر تک بھاگنے کے بعد اس نے راستہ چھوڑا اور کھیتوں میں اتر گیا اب وہ بڑی آہستگی اور اختیاط کے ساتھ قدم اٹھا رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ اس ڈیرے پر پہنچ گیا جہاں وہ صبح کے وقت بھی آچکا تھا کچھ دیر ایک بڑے سے درخت کی اوٹ میں کھڑا رہنے کے بعد وہ جھکتا ہوا آگے بڑھا اور ڈیرے کی بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ڈیرے کے عقب میں پہنچ گیا۔ یہاں دیوار کے ساتھ ایک بڑا سا روشن دان تھا اس نے وہاں تک پہچنے کی کوشش کی مگر روشن دان کچھ اونچا تھا۔ وہ اردگرد کوںئ چیز تلاش کرنے لگا، دیوار کے ساتھ اسے پڑی ہوںئ تین چار اینٹیں مل گئیں اس نے ایینٹوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا اور ان پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ گیا۔ اب وہ روشن دان میں سے آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ اندر ایک بڑے سے حال نما کمرے میں چار پانچ آدمی چارپائیوں پر بیٹھے تھے ان میں سے ایک وہی مونچھوں والا آدمی تھا جسے اس نے صبح ڈیرے سے نکلتے ہوۓ دیکھا تھا۔ درمیان میں ایک میز تھا جس پر پانی کا جگ ، سگریٹ کی ڈبیاں اور شراب کی ایک دو بوتلیں پڑی تھیں۔ پانچوں آدمی چارپائیوں پر بڑے سے گاؤ تکیے سے ٹیک لگاۓ بیٹھے تھے اور لطیفے بازی، قہقہوں اور باتوں میں مشغول تھے۔ کمرے کی پوری فضا سگریٹ کے دھویں اور نیم تاریکی میں ڈوبی تھی۔ صرف ایک چھوٹا سا بلب روشن تھا جس کی مٹیالی روشنی کمرے کی دیواروں پر چسپاں تھی۔ ایک تیز ناخوشگوار سی بو نے اس کے ناک کے نتھنوں کو چھوا جس سے اسے ابکاںئ سی آنے لگی۔ یہ وہی بو تھی جس کا اس سے صبح ڈیرے کے سامنے سے گزرتے ہوۓ واسطہ پڑ چکا تھا، یہ چرس کے سگریٹ کی بو تھی جسے وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔ اس نے روشن دان سے منہ ہٹایا اور کھلی تازہ ہوا میں ایک لمبا سا سانس لینے کے بعد دوبارہ اسی پوزیشن پر لگا دیا۔ کافی دیر تک وہ وہیں کھڑا رہا۔ کھیتوں میں سے جھینگروں ٹڈوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایک لمبے انتظار کے بعد مونچھوں والا آدمی اٹھا اور اجازت لے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ خود بھی ایک پل ضائع کیۓ بغیر تیزی سے ایک طرف لپکا اور دیوار کے ساتھ ساتھ جھکتا ہوا ڈیرے کے سامنے والے حصے میں آگیا، کچھ دیر جھاڑیوں میں چھپا رہا جب دوسرا آدمی ڈیرے کی عمارت کے باہر کھلے احاطے میں آگیا جہاں اس کی جیپ کھڑی تھی تو وہ آہستہ سے باہر نکلا اور اس سے پہلے کے وہ آدمی گاڑی میں بیٹھتا اس نے پیچھے سے اسے دبوچ لیا۔


'اگر تمہارے خلق سے ذرہ سی بھی آواز نکلی تو ایک سیکنڈ میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔' اس نے اسے پیچھے جھاڑیوں میں گسھیٹ کر لے جاتے ہوۓ کہا۔


مونچھوں والے آدمی نے مزاخمت ترک کردی اور دبی ہوںئ آواز میں اس سے پوچھا۔ 'تم ہو کون اور کیا چاہتے ہو؟'


سوال میں کروں گا تم صرف جواب دو گے۔ بتاؤ ضیغم عباس کہاں ہے؟'


کون ضیغم؟ میں کسی ضیغم کو نہیں جانتا۔'


اس نے بازو کی گرفت گردن پر مزید سخت کر دی اور دھمکی آمیز لہجے میں بولا۔ 'بتاتے ہو یا توڑ دوں تمہاری گردن؟'


مونچھوں والا آدمی درد سے کراہتے ہوۓ بولا۔ 'میرا یقین کرو میں کچھ نہیں جانتا مجھے نہیں معلوم ضیغم عباس کون ہے۔'


تم ایسے نہیں مانو گے۔'


 اس نے اپنا گھٹنہ اس زور سے اس کی پسلی میں مارا کہ درد سے اس آدمی کی چیخ نکل گئ مگر اس نے اس کی گردن کو اپنے بازو کی گرفت میں اس قدر زور سے جکڑ رکھا تھا کہ اس کی چیخ بمشکل اس کے خلق سے نکل کر وہیں کہیں فضا میں تخلیل ہو گئ۔ 


بتاتے ہو یا ایک اور دوں؟' اس نے اپنی ٹانگ اوپر اٹھاتے ہوۓ کہا۔ 


بتاتا ہوں۔۔۔بتاتا ہوں۔۔۔خدا کے لیۓ اب نہ مارنا۔۔۔ بتاتا ہوں۔' وہ درد سے کراہتے ہوۓ بولا۔


تو بتاؤ۔'


ضیغم عباس کا گھر اسی گاؤں میں ہے۔ پر۔۔۔'


پر کیا؟'


پر۔۔۔' 


پر کیا۔۔۔جلدی بتاؤ۔۔۔' اس نے چلاتے ہوۓ کہا۔


پر وہ یہاں نہیں ملے گا۔' 


تو کہاں ملے گا اور اس کا گھر کہاں ہے؟' اس نے اسی لہجے میں پوچھا۔


وہ۔۔۔' وہ آدمی پھر سے خاموش ہو گیا۔


بتاؤ کہاں ملے گا اور کہاں ہے اس کا گھر؟' اس نے اسے جنجھوڑتے ہوۓ کہا۔


اس سے پہلے کہ وہ کوںئ جواب دیتا اندر سے ایک آدمی باہر نکلتا ہوا دکھاںئ دیا وہ کچھ دیر کے لیۓ بغیر کوںئ حرکت کیۓ وہیں کھڑا رہا۔ مونچھوں والا آدمی ابھی بھی اس کی گرفت میں تھا اور اس نے اتنی زور سے اس کی گردن دبوچ رکھی تھی کہ وہ بالکل بھی چلا نہیں سکتا تھا۔ 



اس دوسرے آدمی نے گاڑی دیکھی تو دور ہی سے بلند آواز سے بولا۔ 'باوا تو ابھی یہیں ہے، گیا نہیں، کیا پھر سے تیری یہ رانی دغا دے گئ ؟'


اس کے قریب آنے سے پہلے اس نے اس آدمی کو پرے پھینکا اور ایک طرف کھیتوں میں بھاگ کھڑا ہوا۔ اس آدمی کے  چھوٹنے کی دیر تھی کہ وہ چلا اٹھا اس کا ساتھی بھاگ کر اس کے پاس آیا اور اسے سہارا دے کر اٹھایا، اس نے آواز دے کر اپنے باقی ساتھیوں کو بھی اندر سے بلا لیا۔ ان کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ابھی ابھی اس سمت بھاگ کر گیا ہے وہ سب بھی اس کے تعاقب میں بھاگے۔ 


وہ خود بھی تیزی سے کھیتوں کے بیچ و بیچ پگڈنڈیوں کو پھلانگتا ہوا بھاگتا چلا جا رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اندھیرے میں کسی ایسی جگہ پہنچ جاۓ جہاں چھپ کر وہ اپنے آپ کو مخفوظ کر لے۔ اس نے سڑک کی بجاۓ قبرستان کا راستہ اختیار کیا کیونکہ وہ راستہ زیادہ سنسان اور ویران تھا۔ بھاگتے بھاگتے اسے کسی چیز کی ٹھوکر لگی وہ منہ کے بل جا گرا مگر فوراً ہی سنبھل کر کھڑا ہو گیا اور دوبارہ بھاگنے لگا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ لوگ کہیں دکھاںئ نہیں دے رہے تھے مگر ان کے بھاگنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اندھیرا کافی گہرا تھا مگر اس راستے سے واقف ہونے کے باعث وہ آسانی سے قبروں کے اوپر سے چھلانگیں لگاتا چلا جا رہا تھا۔ قبرستان سے باہر نکل کر وہ ایک لمحے کے لیۓ ٹھہرا اور پھر دائیں جانب جانے والے راستے پر بھاگنے کی بجاۓ وہ سامنے کھیتوں میں جا گھسا۔ اب وہ کھیتوں میں تیزی سے بھاگنے لگا۔ جب کھیت ختم ہوۓ تو کچا راستہ آگیا، اس نے کچھ دیر وہاں کھڑے ہو کر سانس بحال کیا اور راستے پر چلنے لگا اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ یہ راستہ کہاں جاتا ہے وہ بس چلتا چلا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے آنے والے آدمیوں کی آوازیں آنا اب بند ہو گئ تھیں۔ وہ آرام سے راستے پر چلتا رہا۔ راستہ مکمل طور پر سنسان تھا، دونوں اطراف میلوں تک پھیلے کھیت تھے جن پر تاریکی نے اپنا سایہ کیۓ ہوۓ تھا، تاروں بھرا آسمان بلکل صاف تھا، بادلوں کا کہیں کوںئ نام و نشان نہیں تھا۔ رات کے اس پہر فضا میں قدرے خنکی تھی مگر بھاگنے کی وجہ سے اسے گرمی محسوس ہو رہی تھی اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا تھا۔ کچا راستہ ختم ہوا تو ایک پکی سڑک آگئ، اس نے سڑک پر کھڑے ہو کر ایک راستے کا انتخاب کیا اور چل پڑا۔ سخت پیاس سے اس کا گلا سوکھ گیا تھا۔ کافی دور تک چلنے کے بعد اسے ایک طرف کھیتوں میں ٹیوب ویل نظر آیا مگر وہ اس وقت بند تھا، وہ سڑک سے اتر کر ٹیوب ویل تک گیا اور اس کے خوض میں دن بھر کے کھڑے گدلے پانی سے جوتوں اور کپڑوں پر لگی مٹی اور کیچڑ کو صاف کیا، صاف کرنے کے بعد وہ واپس سڑک پر آگیا جلد سے جلد وہ کسی گاؤں یا آبادی میں پہنچ جانا چاہتا تھا تا کہ وہاں سے اپنے گاؤں کے راستے کا اندازہ لگا سکے۔ کافی آگے تک چلنے کے بعد اسے بہت دور سے اذان کی ہلکی سی آواز آتی سناںئ دی۔ 'اس کا مطلب ہے یہاں ضرور کوںئ گاؤں ہو گا۔' اس نے سوچا اور آواز کی سمت کے تعاقب میں چل پڑا۔ کچھ دیر تک وہ آواز کا پیچھا کرتا رہا جب اذان ختم ہو گئ تو اندازے سے اس سمت چلتا رہا جہاں سے آواز آرہی تھی۔ کافی دیر کے بعد اسے روشنیاں نظر آنا شروع ہوئیں، اس نے شکر ادا کیا اور اپنی رفتار تیز کردی۔ کچھ ہی پل میں وہ گاؤں میں پہنچ گیا مگر اس وقت پورا گاؤں سویا ہوا تھا اور اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہو پارہا تھا کہ یہ کونسا گاؤں ہے اور اس کے گاؤں کا راستہ کہاں ہے۔ پھر اسے کچھ خیال آیا تو ایک طرف چل پڑا۔ دو چار گلیاں گھومنے کے بعد اسے مسجد کا مینار دکھاںئ دیا وہ اسی سمت چل پڑا۔ مسجد کے قریب پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ نمازی مسجد سے باہر آرہے تھے وہ وہیں رک گیا اور ایک طرف کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ چند آدمیوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نے ایک آدمی کو آواز دی، وہ آدمی پاس آیا تو وہ جان بوجھ کر اس سے دیہاتی انداز میں مخاطب ہوا۔ 'بھا جی میں راستہ بھول گیا ہوں آپ سمجھا دیں گے؟'


جی بابیو سمجھا دیواں گے کدھر جانا ہے آپ کو بابیو'؟ پر آپ کو دیکھیا نہیں یہاں کبھی ،کسی کے گھر مہمان آۓ ہو؟' وہ آدمی اپنے مخصوص انداز سے بولا۔


جی جناب جانا تو مجھے پاس ہی ایک گاؤں میں ہے پر میں راستہ نہیں جانتا۔ ابھی پرسوں ہی سندھ سے یہاں پنچاب میں آیا ہوں جی اپنے رشتے داروں سے ملنے۔'


اچھا جی ! تو کس کے گھر ٹھہرے ہو بابیو؟ اور اتنی سویرے سویرے نکلنے دی کی لوڑ سی بابیو دن تو چڑ لینے دیتے۔' 


وہ بھا جی اصل میں میں نے اگلے گاؤں بھی جانا ہے جی جلدی اپنی پھوپھی سے ملنے اور شام کو ٹرین پکڑنی ہے اس لیۓ اتنی جلدی نکلا ہوں۔' وہ پھر سے اسی انداز میں بولا۔


ٹھیک ہے بابیو ٹھیک ہے تو کیڑے گاؤں جانا ہے بابیو؟'


اس نے گاؤں کا نام بتایا تو وہ آدمی بولا۔ 'یہ تو بابیو بلکل کول ہی ہے ادھر سے تھوڑی دور بڑی سڑک پر جا کر آپ کو گاڑی پکڑنی ہے وہ بس دس منٹ میں وہاں پہنچا دے گی بابیو۔۔۔پر بابیو گاڑی کا تو اس وقت ٹیم نہیں ہوا آدھے پونے گھنٹے بعد گاڑی آۓ گی۔'


کوںئ بات نہیں جی میں انتظار کر لوں گا۔' اس نے شکریہ ادا کیا اور جتنی جلدی مکمن تھا اس گاؤں سے نکلنے کی کو شش کی۔ تیز تیز چلتا ہوا وہ گاؤں سے باہر نکلا اور بڑی سڑک پر آگیا۔ دن نکل آیا تھا اور سڑک پر ٹریفک بڑھ گئ تھی، وہ سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر گاڑی کا انتظار کرنے لگا، دس پندرہ منٹ انتظار کے بعد  دور سے ایک بس تیزرفتاری کے ساتھ ہارن بجاتی ہوئی دکھاںئ دی۔ اس وقت گاڑی میں زیادہ رش نہیں تھا بڑے آرام سے پندرہ بیس منٹ کے سفر کے بعد گاڑی نے اسے منزل پر پہنچا دیا۔ وہ گاڑی سے اترا تو جان بوجھ کر اس نے سیدھا رستہ اختیار کرنے کی بجاۓ پھر سے کھیتوں کا راستہ اختیار کیا کیونکہ راستے میں ڈیرہ تھا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ وہاں سے بھاگا تھا، اگرچہ اس کی شکل کوںئ نہیں دیکھ پایا تھا مگر ابھی تک اس کا لباس اور خلیہ ویسا ہی تھا اس لیۓ کسی کو بھی اس پر شک گزر سکتا تھا۔ 


جب وہ کھیتوں سے باہر نکل کر دوسرے سرے پر  پہنچا تو سورج مکمل طور پر نکل آیا تھا اور لوگوں کی آمدورفت شروع ہو چکی تھی۔ اسے وہاں کوںئ بھی نہیں جانتا تھا اس لیۓ وہ بے فکری سے چلتا رہا، گھر کے قریب پہنچ کر اسے گھر والوں کا خیال آیا لیکن چونکہ وہ روزانہ ہی اس وقت سیر کے لیۓ نکلتا تھا اس لیۓ کسی کو بھی اس پر شک نہ ہوا۔ بس ایک خالہ تھیں جنہوں نے اس سے پوچھا کہ دروازہ اندر سے بند تھا تو وہ باہر کیسے نکل کر گیا جس کا اس نے کچھ مناسب سا جواب گھڑ کر دے دیا۔ 


گھر والوں سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے میں آگیا، آج ناشتہ اس نے نیچے ہی کر لیا تھا، وہ بستر پر لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔ دن بھر سوۓ رہنے کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی، نہا دھو کر وہ کمرے سے باہر نکلا آیا، سورج غروب ہو چکا تھا اس نے سب سے پہلے دوسری چھت پر نظر ڈالی وہاں کوںئ نہیں تھا، اس نے سوچا آج اسے کافی دیر ہو گئ ہے شاید تانیہ نیچے چلی گئ ہو۔ ابھی وہ وہیں کھڑا تھا کہ وہ نیچے سے اوپر آتی ہوںئ دکھاںئ دی، اس کے ہاتھ میں گیلے کپڑوں کا ٹب تھا اس نے ٹب نیچے رکھا اور تار پر کپڑے ڈالنا شروع کر دیۓ۔ وہ چل کر اسکی چھت کے قریب آگیا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکراںئ، وہ بھی مسکرا دیا۔


مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کے گاؤں میں شام کے وقت کپڑے دھوۓ جاتے ہیں۔' اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔


وہ ہلکا سا ہنسی، 'نہیں ایسی بات نہیں آج کچھ مہمان آگۓ تھے تو وقت ہی نہیں ملا اس لیۓ دیر سے دھونے شروع کیۓ۔۔۔ اور آپ سنائیں آج کافی دیر سے چھت پر آئیں ہیں؟'


جی ہاں!' وہ بولا، 'آج آنکھ ہی کافی دیر سے کھلی جب دیکھا تو دن گزر چکا تھا۔'


لگتا ہے آپ کافی زیادہ ہی سوتے ہیں رات بھر بھی سوۓ رہتے ہیں اور پھر سارا دن بھی۔' اس نے ہاتھ میں پکڑے گیلے کپڑے کو زور سے جھٹکا دیتے ہوۓ کہا۔


جی بس کچھ ایسا ہی سمجھ لیجیۓ اب چھٹیاں منانے آۓ ہیں تو پھر کیوں نہ اچھی طرح مناںئ جائیں۔' 


تو آپ کب تک ہیں یہاں؟' اس نے گیلے کپڑے تار پر ڈالتے ہوۓ پوچھا۔


تب تک جب تک کام ختم نہیں ہو جاتا۔' اس کے منہ سے ایسے ہی نکل گیا۔۔۔ 'میرا مطلب ہے جب تک آپ کا کام ختم نہیں ہو جاتا تب تک میں چھت پر ہی ہوں۔' اس نے بات مذاق میں ٹال دی۔


اس نے کوںئ جواب نہ دیا اور مسکرا دی۔ وہ پھر سے بولا 'اور میں چاہتا ہوں آپ کا کام دیر سے ہی ختم ہو۔'


وہ دوبارہ مسکرا دی۔ ٹب میں سے آخری کپڑے تار پر ڈال کر اس نے ٹب ہاتھ میں پکڑا اور شرارت سے مسکراتے ہوۓ نیچے چلی گئ۔ وہ کچھ پریشان سا ہو گیا اور وہیں چھت پر ٹہلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس چھت پر آگئ۔ اس نے آتے ہی کہا 'میں نے سوچا رات کو سونے کے لیۓ چارپائیاں اور بستر ابھی سے بچھا دوں بعد میں نہیں بچھانے پڑیں گے۔' 


آپ سبھی گھر والے چھت پر سوتے ہیں؟' اس نے منڈیر کی دیوار پر کہنی ٹکاتے ہوۓ کہا۔


سب نہیں کچھ نیچے صحن میں سوتے ہیں۔'


کچھ دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے پھر وہ نیچے چلا آیا اور کافی دیر تک سب گھر والوں کے ساتھ بیٹھا باتیں کرتا رہا اور ٹی وی دیکھتا رہا پھر اسے کوںئ فون کال آئی تو اوپر چھت پر چلا آیا۔ پندرہ بیس منٹ تک فون پر کسی سے باتیں کرتا رہا، کھانا وہ نیچے سے کھا کر آیا تھا فون بند کرکے اس نے کمرے سے لیپ ٹاپ اٹھایا اور باہر چارپاںئ پر بیٹھ کر کوںئ کام کرنے لگا۔ گھنٹوں وہیں بیٹھ کر وہ کوںئ کام کرتا رہا اس دوران اس نے کئ فون کالز کیۓ اور بہت سے اسے موصول ہوۓ۔ کام ختم کرکے اس نے گردن کے پیچھے ہاتھ رکھ کے گردن کو گھمایا اور لیپ ٹاپ بند کر دیا۔ وہیں سیدھا لیٹ گیا، چند لمحے لیٹے رہنے کے بعد اسے کوںئ خیال آیا تو اٹھ کر بیٹھ گیا، تکیے کے پاس سے موبائل اٹھا کر اس نے وقت دیکھا گیارہ بج رہے تھے کچھ سوچ کر اس نے واٹس ایپ کھولا اور تانیہ کو پیغام لکھ کر بھیج دیا۔ ایک دو منٹ تک بے چینی سے انتظار کرنے کے بعد اس کا جواب آگیا۔ وہ بہت خوش ہوا، نجانے کتنی دیر تک وہ باتیں کرتا رہا صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج سر پر چڑھ آیا تھا۔ 


 وہ جلدی سے تیار ہوا اور ناشتہ کرنے کے بعد گھر سے نکل آیا۔ اس کی کوشش تھی گاؤں میں کسی ایسے آدمی کو تلاش کرے جس سے اسے ضیغم عباس شاہ کے بارے میں پتہ چل سکے، واضح لفظوں میں نام لے کر وہ کسی سے بھی پوچھ نہیں سکتا تھا اس لیۓ اس نے گھما پھرا کر چند آدمیوں سے پوچھا مگر اسے کوںئ خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ گاؤں میں پوچھ داچھ کرنے کے بعد وہ گاؤں سے باہر جانے والے راستے کی طرف چل پڑا۔ ابھی اس نے تھوڑا سا راستہ ہی طے کیا تھا کہ ایک کالے رنگ کی موٹر سائیکل اس کے پاس آکر رکی اس پر ایک قدرے موٹا سا آدمی سوار تھا، وہ جلدی سے اس آدمی کے پیچھے بیٹھا اور دونوں گاؤں سے باہر نکل گۓ۔ پورا دن انہوں نے ارد گرد کے دو تین قریبی گاؤں میں پوچھ داچھ کی مگر وہاں سے بھی انہیں ضیغم عباس کے بارے میں  کوںئ سراغ نہ ملا۔ 


جب وہ گھر واپس لوٹا تو شام ہو چکی تھی۔ گھر پہنچ کر وہ نیچے بالکل نہ رکا اور یہ کہہ کر اوپر چلا آیا کہ وہ بہت تھک گیا اور اب سونا چاہتا ہے۔ کھانا وہ باہر سے کھا کر آیا تھا۔ نہا دھو کر اور کپڑے بدل کر باہر آکر چارپاںئ پر ڈیڑھ ہو گیا۔ تھکاوٹ کے باوجود نیند اس سے کوسوں دور تھی، اس کا ذہن ابھی بھی ضیغم عباس شاہ پر اٹکا ہوا تھا۔ وہ چارپاںئ سے اٹھا اور منڈیر کی دیوار کے پاس آکر کھڑا ہو گیا، اردگرد کے مکانوں کی بتیاں روشن تھیں جن کی مدھم سی روشنی دور زمینوں اور فصلوں پر پڑ رہی تھی۔ اس نے جیب سے سگریٹ نکالا اور کہنیاں دیوار پر ٹکا کر سگریٹ پینے لگا۔ وہ سگریٹ نوش نہیں تھا مگر کبھی کبھی ایسے موقعوں پر ایک آدھ سگریٹ پھونک لیا کرتا تھا۔


رات اس کی اسی طرح سوتے جاگتے میں کٹ گئ ،اگلی صبح اسے ایک پیغام موصول ہوا پیغام انگریزی میں تھا جس میں لکھا تھا کہ ضیغم عباس شاہ شام ساڑھے چھ بجے کی ٹرین سے آرہا ہے۔ پیغام موصول ہونے کے بعد اس نے جلدی سے ایک کال ملاںئ اور کسی کو چند ہدایات دینے کے بعد فون بند کر دیا۔ اس کے بعد وہ شام کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر گھر والوں سے باتیں کرنے کے بعد وہ چھت پر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ پہلے اس نے لیپ ٹاپ کھولا پھر ساتھ ہی بند کر دیا اور تانیہ کو کال ملا دی۔ کافی دیر تک وہ اس سے باتیں کرتا رہا پھر وہیں لیٹے لیٹے سو گیا۔ 


شام ٹھیک ساڑھے چھ بجے اسے ایک کال آںئ، وہ بہت پہلے کا اٹھ چکا تھا اور چھت پر اکیلا ہی بیٹھا تھا اس نے فوراً فون اٹھا لیا دوسری طرف کسی آدمی کی بات سننے کے بعد اس نے فقط اتنا ہی کہا، 'ٹھیک ہے تم نظر رکھنا' اور فون بند کر دیا۔


 رات تک اسے ضیغم عباس شاہ کے بارے میں چند معلومات تو ملیں مگر وہ خود کہیں دکھاںئ نہ دیا۔ اسے یہ تو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ٹرین میں سوار ہوا تھا لیکن اس کے بعد وہ اتر کر کہاں گیا یہ اسے معلوم نہ ہو سکا۔ 


اس کے بعد روزانہ اس نے اردگرد کے قریبی گاؤں کے چکر لگا کر پوچھ داچھ کرنی شروع کر دی، کبھی ایک گاؤں جاتا تھا اور کبھی دوسرے گاؤں۔ اب اسے کچھ معلومات حاصل ہو گئیں تھیں اور انہیں معلومات کی بنا پر اسے اس کی زندگی کے بارے میں کافی کچھ پتہ چل چکا تھا مگر وہ اس وقت کہاں تھا یہ ابھی تک اسے معلوم نہ پڑا تھا۔ 


شام کو جب سورج مغرب کی سمت دور کھیتوں سے پرے افق میں ڈوبنے کی کوشش میں تھا وہ اور تانیہ دونوں اپنی اپنی چھت پر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ تانیہ نے اسے ایک بڑی سی چاکلیٹ تحفے کے طور پر پیش کی تھی جسے وہ مزے لے لے کر کھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ تانیہ کی باتیں بھی سن رہا تھا وہ اسے بتا رہی تھی کہ اس کا ایک بڑا بھاںئ ہے جو یہاں ان کے ساتھ نہیں رہتا بلکہ ساہیوال میں رہتا ہے وہ بہت چھوٹا تھا جب پھوپھو اسے ساہیوال اپنے ساتھ لے گئیں تھیں تب سے وہ وہیں ان کے ساتھ رہتا ہے کبھی کبھی ملنے آتا ہے کل اس کا فون آیا تھا بتا رہا تھا کہ وہ یہاں سرگودھا میں ہی آیا ہوا ہے، ایک دو دن تک ملنے آۓ گا۔ وہ ابھی بات کر رہی تھی تبھی اسے کے موبائل کی گھنٹی بجی اس نے چھت کی دوسری طرف جا کر فون اٹھایا، بات سن کر وہ ٹھٹک گیا اور کچھ پریشان سا دکھاںئ دینے لگا۔ کال سن کر وہ واپس تانیہ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا مگر اس کا دھیان کہیں اور تھا۔ تانیہ نے جب محسوس کیا تو اس سے پوچھا، 'کیا ہوا خیریت تو ہے فون سن کر آپ کچھ پریشان سے ہو گۓ ہیں؟' 


نہیں کچھ نہیں' وہ بولا 'ہاں تو تم بتا رہی تھی تمہارا بھاںئ ساہیوال سے یہاں آیا ہوا ہے۔'


جی۔'


تو کہاں ہے وہ؟ یہاں تو کبھی دیکھا نہیں اسے؟' اس نے پوچھا۔


معلوم نہیں کہاں ہے۔' اس نے جواب دیا 'کہتا ہے سرگودھا میں ہی ہوں پر پتہ نہیں کہاں ہے، شاید شہر میں ہو یا آس پاس کے کسی گاؤں میں، یہاں اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے مگر وہ جب بھی آتا ہے گھر میں کم ہی ٹھہرتا ہے یہاں اس کے چند دوست ہیں انہی کے پاس رہتا ہے۔'


ہوں۔۔۔ اچھا چلو ٹھیک ہے میں چلتا ہوں مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے رات کو فون پر بات ہو گی۔' وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولا اور وہاں سے اپنے کمرے میں چلا آیا۔



رات کے بارہ بجے کے قریب وہ چھت پر ٹہل رہا تھا اور کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا، اس کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں سگریٹ جل رہا تھا جبکہ اس کا موبائل فون چارپاںئ پر پڑا تھا جس پر تانیہ کی کال مسلسل آرہی تھی۔ جب موبائل خود ہی بج بج کر بند ہو گیا تو اس نے چلتے چلتے آخری کش لگایا اور سگریٹ کو ہوا میں اچھال کر چھت سے نیچے پھینک دیا۔ پھر وہ فون کی جانب بڑھا، فون اٹھا کر اس نے تانیہ کو پیغام لکھ کر بھیجا کہ وہ آج کافی مصروف ہے اس لیۓ صبح بات کرے گا۔


 رات کافی دیر تک وہ جاگتا رہا پھر بھی صبح سویرے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سارا دن وہ کچھ بے چین سا رہا مگر اپنے کمرے سے بہت کم باہر نکلا، تانیہ سے بھی اس نے بس تھوڑی دیر ہی بات کی۔ سپہر کے وقت شام سے کچھ دیر پہلے وہ باہر کھیتوں کی طرف سیر کو نکل گیا، کتنی ہی دیر تک وہ تنہا گھومتا رہا، کچھ دیر کو سستانے کے لیۓ ہری بھری پگڈنڈی پر بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا یہاں تک کہ شام کا اندھیرا آسمان سے اتر کر نیچے دھرتی پر اردگرد کی فضا پر اپنی سیاہی پھیلانے لگا تو اٹھ کر گھر کو چل دیا۔ 


رات کو ٹھیک ساڑھے بارہ بجے اسے ایک کال موصول ہوںئ وہ پہلے سے ہی جاگ کر اس کال کا انتظار کر رہا تھا کال سنتے ہی وہ چارپاںئ سے اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں جا کر تیار ہونے لگا۔ تیار ہو کر اس نے بیڈ کے ساتھ رکھے میز میں سے بند دراز کو چابی لگاںئ اور تالا کھول کر اس میں سے چھوٹا سا پستول نکال لیا، اک نظر پستول کے میگزین کو نکال کر دیکھا، پھر اپنی کمر میں اڑس لیا۔ باہر آکر منڈیر کے پاس کھڑے ہو کر نیچے جھانکنے لگا اندھیرے میں اسے دو ساۓ دور سے  قریب آتے دکھاںئ۔ اس کے فون کی گھنٹی بجی اس نے بات سن کر بس اتنا ہی کہا اور فون بند کر دیا۔ 'ٹھیک ہے آجاؤ میں چھت پر سامنے ہی کھڑا ہوں۔'


دو ساۓ قریب دیوار کے پاس آگۓ۔ دونوں ماہرانہ انداز سے دیوار پر چڑھنے لگے اور سوراخوں اور پائپوں کے ذریعے چھپکلی کی طرح رینگتے ہوۓ چھت پر پہنچ گۓ۔ اوپر پہنچ کر وہ اس کے سامنے بلکل معدب کھڑے ہو گۓ۔ ان دونوں آدمیوں نے چہرے اور سر کو کالے رنگ کے نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔


سب صحیح ہے؟' اس نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا۔


جی جناب سب بہتر ہے۔' ایک آدمی بولا۔


اس نے کلاںئ پر بندھی گڑھی سے وقت دیکھتے ہوۓ کہا، 'ٹھیک ہے ایک بجنے میں پورے دس منٹ باقی ہیں، تم تیار رہو۔'


جی جناب۔' دونوں بیک وقت بولے۔


اس نے کان میں ایک چھوٹا سا مائیک لگا لیا جس کا سپیکر کان سے ہوتا ہوا آگے ہونٹوں تک آگیا تھا۔ ٹھیک دس منٹ بعد اس نے سپیکر پر کوڈ ورڈ میں کسی کو کوںئ ہدایت دی اور انتظار کرنے لگا۔ دوسری طرف گلی میں تین چار آدمی کھڑے تھے، ان میں سے دو کے چہرے اور سر سیاہ رنگ کے نقاب سے ڈھکے تھے اور ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں، جبکہ باقی دو پولیس کی وردی میں تھے۔ انہوں نے حکم ملتے ہی دروازہ کھٹکٹایا، اندر سے کوںئ حرکت نہ ہوںئ تھوڑی دیر بعد ایک مرتبہ پھر دروازہ کھٹکٹایا، اس مرتبہ چارپاںئ پر کسی کے حرکت کرنے کی آواز آںئ مگر پھر خاموشی چھا گئ۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد انہوں نے پھر سے دروازہ کھٹکٹایا، اس دفعہ چارپاںئ پر سے کسی کے اٹھنے کی آواز آںئ، جیسے ہی اندر سے کسی نے دروازہ کھولا دونوں آدمی بندوقیں تانے اندر گھس آۓ۔ وہ آدمی گبھرا گیا اور سہمی ہوںئ آواز میں بولا، 'کون ہو تم لوگ؟' ان کے پیچھے سے پولیس کی وردی میں ملبوس دونوں آدمی بھی اندر آگۓ۔ ایک آدمی بولا، 'گبھراؤ نہیں ہم ڈاکو نہیں پولیس کے لوگ ہیں ہم ضیغم عباس شاہ کو گرفتار کرنے آۓ ہیں۔'


کیا؟ گرفتار ۔۔۔ضیغم کو۔۔۔لیکن کیوں؟ کیا کیا ہے اس نے؟' اس آدمی نے خیرت اور پریشانی کے ملے جلے جذبات سے کہا۔


اس نے۔۔۔' اس آدمی نے ابھی کچھ کہنے کے لیۓ منہ کھولا ہی تھا کہ اندر سے ایک تیس پنتیس سال کا لڑکا باہر نکلا، شلوار قمیص میں ملبوس، سر کے بال بکھرے ہوۓ تھے، ہونٹوں کے اوپر باریک سی مونچھیں تھیں اور دائیں گال پر کسی گہرے زخم کا نشان تھا جو شاید بچپن میں یا بعد میں کسی چوٹ کے لگنے کی وجہ سے بن گیا تھا۔


چاچو اس وقت باہر کون ہے؟' وہ کمرے کے دروازے سے باہر آتے ہوۓ بولا۔ جیسے ہی اس نے سامنے وردی میں ملبوس پولیس والوں کو دیکھا فوراً واپس اندر کی طرف بھاگا۔ اس کے پیچھے بندوقوں والے دو نقاب پوش آدمی بھی بھاگ کھڑے ہوۓ، شور کی وجہ سے صحن میں سوۓ ہوۓ باقی افراد بھی اٹھ گۓ تھے، تانیہ نے اپنے بھاںئ کو اور اس کے پیچھے بندوق بردار آدمیوں کو بھاگتے ہوۓ دیکھا تو ایک زوردار چیخ ماری، ضیغم اوپر چھت کی طرف دوڑا، دونوں آدمی بھی اس کے تعاقب میں اوپر کی جانب بھاگے۔ شور اور چیخ وپکار سن کر چھت پر سوۓ باقی سب لوگ بھی بیدار ہوگۓ، ضیغم چھت پر پہنچ کر ایک پل کے لیۓ رکا اور سامنے والے گھر کی چھت کی طرف دوڑ پڑا اس سے پہلے کہ وہ دیوار پھلانگ کر دوسری جانب جاتا، دوسری طرف سے قاسم اور اس کے ساتھی دیوار پھلانگ کر اس طرف آگۓ، ضیغم وہیں رک گیا اب اس کے پاس بھاگنے کے لیۓ کوںئ جگہ نہیں بچی تھی، نیچے سے دونوں آدمی جو اس کا تعاقب کرتے آۓ تھے وہ بھی پہنچ گۓ تھے۔  چند لمحوں کے لیۓ اس نے کھڑے ہوکر اردگرد دیکھا اور ایک ہی جست میں چھلانگ لگا کر اپنے دائیں جانب والی دیوار پر چڑھ گیا اس سے پہلے کہ قاسم اور دوسرے لوگ آگے بڑھتے وہ ایک لمحے میں دیوار کے ساتھ لٹک کر چھت سے نیچے کود گیا۔ اس کی ٹانگ میں چوٹ آںئ تھی مگر وہ چوٹ کی پرواہ کیۓ بغیر جلدی سے اٹھا اور لنگڑاتے ہوۓ ایک طرف بھاگنے لگا۔ اس کو چھلانگ لگاتا دیکھ کر قاسم بھی اس کے پیچھے بھاگا اور دیوار پر چڑھ کر نیچے لٹک گیا۔ نیچے چھلانگ لگاتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا، اسے بھی ٹانگ پر چوٹ آںئ تھی مگر تربیت یافتہ ہونے کے باعث وہ کافی حد تک زخمی ہونے سے محفوظ رہا تھا، ضیغم کے پیچھے بھاگتے ہوۓ اس نے پستول نکالی اور چلا کر بولا۔ 'رک جاؤ ورنہ گولی مار دوں گا۔' 


اس نے بالکل بھی پرواہ نہ کی اور بھاگتا رہا، وہ بھی اس کے پیچھے مسلسل بھاگے چلا جا رہا تھا۔ بھاگتے بھاگتے اسے ایک موٹا سا لکڑی کا ڈنڈا دکھاںئ دیا اس نے ڈنڈا اٹھا کر اسے دے مارا جو سیدھا اس کی ٹانگوں پر جاکر لگا، وہ لڑکھڑا کر نیچے گر پڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا اس نے قریب جا کر اسے گریبان سے پکڑ لیا اور ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔ اس نے ابھی بھی ہمت نہ ہاری اور اس پر ٹانگ سے ایک زبردست وار کیا وہ پیچھے جا گرا، وہ اٹھ کر بھاگنے ہی والا تھا کہ قاسم پستول نکال کر بالکل اس کے سامنے آکھڑا ہوا، ابھی وہ وہیں کھڑے تھے تبھی پیچھے سے قاسم کے دوسرے ساتھی بھی پہنچ گۓ، ایک آدمی چلایا، 'ہاتھ اوپر کر لو اور گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ جاؤ۔' اب اس کے پاس کوںئ چارہ نہیں تھا وہ ہاتھ اوپر کرکے نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ 


گھر کے صحن میں ضیغم سر جھکاۓ کھڑا تھا اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی تھی۔ اس کے اردگرد دو پولیس والے موجود تھے، ایک طرف گھر کے باقی افراد نیم دائرے کی شکل میں کھڑے تھے، تانیہ ان سب سے پیچھے برآمدے کے ستون کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑی تھی۔ ضیغم سب سے ہٹ کر دروازے کے ساتھ سر جھکاۓ کھڑا تھا، ایک طرف چند محلے والے بھی گھر کے صحن میں موجود تھے، کچھ باہر گلی میں تھے اور بہت سے اپنے اپنے چھتوں پر چڑھ کر دیکھ رہے تھے، تقریباً آدھا گاؤں امڈ آیا تھا، شور شرابے نے سبھی کو بیدار کر دیا تھا۔ ایک پولیس والا ضیغم کے گھر والوں کو بتا رہا تھا کہ ضیغم عباس پر یہ الزام ہے کہ 'وہ حیدر آباد میں کسی آدمی کا قتل کرکے فرار ہوا ہے۔' وہاں موجود سب لوگ یہ بات سن کر چونک گۓ، ضیغم کا باپ بولا، 'ایسا نہیں ہو سکتا یہ الزام جھوٹا ہے۔' 


اس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی کہ الزام جھوٹا ہے یا سچا۔' پولیس والے نے جواب دیا اور ضیغم کو لے کر باہر کی جانب چل پڑا۔ 


قاسم ابھی تک سر جھکاۓ کھڑا تھا اس کی خالہ اس کے پاس آکر بولیں، 'قاسم۔۔۔؟'۔ وہ چونکا، 'ہوں۔۔۔جی خالہ؟'


یہ سب کیا ہے؟'


وہ سیدھا کھڑا ہو گیا اور بولا، 'آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے خالہ۔۔۔ضیغم عباس نے واقعی قتل کیا ہے؟'


میں وہ نہیں پوچھ رہی میں یہ پوچھ رہی ہوں کہ تمہارا اس سب سے کیا تعلق ہے؟'


میرا تعلق یہ ہے خالہ کہ میں ایک پرائیویٹ جاسوس ہوں جو مجرموں کو پکڑنے میں پولیس کی مدد کرتا ہے۔' 


یہ بات سن کر سب اس کی جانب متوجہ ہوگۓ۔ 


وہ اس بار قدرے بلند آواز سے بولا، 'جب مجھے بتایا گیا کہ ضیغم عباس یہیں کہیں آس پاس کے کسی گاؤں میں رہتا ہے تو میں یہاں آپ کے پاس رہنے کے لیۓ چلا آیا تا کہ یہاں رہ کر اس کے بارے میں کوںئ سراغ لگا سکوں۔ لیکن۔۔۔' وہ خاموش ہو گیا اور تانیہ کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا،


 'لیکن یہ بات سچ ہے کہ جب میں یہاں آیا تھا اور آپ لوگوں سے ملا تھا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ ضیغم کا تعلق اس گاؤں سے ہے اور یہ تو بالکل بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کا تعلق اس گھر سے ہے یہ تو مجھے بھی ابھی ایک دو دن پہلے پتہ چلا۔' تانیہ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔  


وہ دوبارہ بولا، 'میں اس بات پر معذرت خواہ ہوں کہ میں نے اپنی پہچان چھپاںئ اور اپنے بارے میں تھوڑا بہت جھوٹ بولا لیکن وہ میری پیشہ ورانہ مجبوری تھی، پھر بھی اگر میں نے آپ لوگوں کا دل دکھایا ہو تو مجھے معاف کر دیجیۓ گا۔' یہ بات اس نے خاص تانیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہی۔ 'اور یہ بھی سچ ہے کہ صرف ان چند باتوں کو چھپانے کے علاوہ میں نے آپ سے کوںئ بات نہیں چھپاںئ اور نہ کوںئ جھوٹ بولا۔ لیکن اگر پھر بھی آپ مجھے جھوٹا یا دھوکے باز سمجھتے ہیں تو میں خود بھی اپنے آپ کو یہ سمجھوں گا کہ میں ایک دھوکے باز آدمی ہوں۔'


اس نے تانیہ کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ فوراً پلٹا اور گھر سے باہر نکل گیا۔


 




































Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات