Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 








شام ہوتے ہی سخت سردی کے باعث علاقے کے سب مکین دھبک کر گھروں میں بیٹھ جاتے تھے مگر اجمل حسین خان کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ وہ رات کا اندھیرا پھیلتے ہی گھر سے نکلتا تھا اور پھر صبح پو پھٹنے سے پہلے لوٹ آتا تھا۔ اسے یہاں اس پہاڑی مقام پر آۓ ہوۓ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اس لیۓ یہاں اسے بہت کم لوگ جانتے تھے وہ خود بھی کم کم ہی کسی سے ملتا تھا۔ اس کے پڑوس اور اردگرد کے لوگوں کو وہ کوںئ پراسرار سی مخلوق لگتا تھا، بہت سوں کا خیال تھا کہ وہ جادو ٹونہ کرتا ہے یا کسی غیر قانونی دھندے میں ملوث ہے، تب ہی تو اس غیر گنجان آباد اور اجاڑ وادی میں جہاں سب لوگ شام ہوتے ہی گھروں میں گھس جاتے ہیں اور پورا علاقہ قبرستان کا سا منظر پیش کرنے لگتا ہے وہاں وہ خون منجمد کر دینے والی سردی میں گھر سے نکل کر نجانے کہاں جاتا ہے۔  شکل و صورت کے اعتبار سے بے شک وہ پڑھا لکھا، سلجھا ہوا اور کسی اعلی گھر کا فرزند لگتا تھا مگر اس کی خرکتوں نے بہرحال لوگوں کو شک و شبے میں مبتلا کر دیا تھا۔ وادی کے کچھ بڑے بزرگ لوگ  تو اس سے فاصلے پر رہتے تھے اور بچے تو اسے دیکھ کر دور ہی سے بھاگ جاتے تھے البتہ نوجوانوں میں وہ بڑا مقبول تھا۔ لڑکوں بالوں کا وہ ایک پسندیدہ موضوع بن گیا تھا۔ وہ ان کے لیۓ ایک تفریحی کھیل کی خیثیت اختیار کر گیا تھا، جب بھی وہ آپس میں کوںئ شرط لگاتے تو اسی قسم کی شرط لگاتے کہ رات کے وقت اس کے گھر کے اندر پھلانگ کر جانا ہے اور کوںئ چیز اٹھا کر لانی ہے، دن کے وقت جب وہ گھر پر ہو تو گھنٹی بجا کر آنا ہے یا اس کے گھر پتھر پھینکنا ہے یا اسی قسم کا کچھ اور۔۔۔مگر اس کے خوف کے باعث جو اس کے کردار کو لے کر افواہوں کی صورت پورے علاقے میں پھیل گیا تھا سواۓ چند آسان شرطوں کے کوںئ بھی کبھی بھی  پورا نہ کر پایا تھا۔ 


ایک دن مگر گلی میں جب بہت سے لڑکے کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے تو ایک لڑکے نے یہ شرط لگاںئ کہ رات کے وقت جب اجمل خان گھر سے نکلتا ہے تو اس کا پیچھا کیا جاۓ اور دیکھا جاۓ کہ وہ کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے، یہ شرط جو پوری کرے گا اسے بہت بڑا انعام ملے گا۔ شرط کے سنتے ہی بہت سے لڑکوں کی سٹی گم ہو گئ اور انہوں نے صاف انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اجمل خان چونکہ جادو ٹونہ جانتا ہے اس لیۓ وہ اپنے جادو سے یہ پتہ چلا لے گا کہ کون اس کا پیچھا کر رہا ہے اور پھر وہ اسے جان سے مار دے گا یا اسے دور دراز کسی غار میں یا ویران کھنڈر میں لے جا کر کے قید کر دے گا۔ جہاں بہت سے لڑکوں نے انکار کیا وہیں چند لڑکوں نے حامی بھر لی۔ ان کے دوستوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور انہیں سمجھایا کہ ایسا کرنا خطرناک ہو سکتا ہے مگر وہ نہ مانے، انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے رات کی کارواںئ کے لیۓ ایک اچھا سا منصوبہ تیار کیا اور گھروں کو لوٹ گۓ، سارا دن انہوں نے بڑی بے صبری سے کاٹا اور شام ہوتے ہی اپنے منصوبے کے عین مطابق ٹھیک وقت پر گھر سے نکل آۓ۔ اجمل خان کے گھر کے پاس پہنچ کر انہوں نے اردگرد جگہ تلاش کی اور چھپ کر بیٹھ گۓ۔ وہ چھ لوگ تھے، تین گھر کے دائیں جناب چھپے اور تین بائیں جانب۔ سب نے اپنے چہرے اور سر بڑی سی گرم ٹوپیوں میں چھپا رکھے تھے۔


 کافی دیر وہ وہیں چھپے رہے جب شام گہری ہو گئ تو اجمل خان کے گھر کا دروازہ کھلنے کی آواز آںئ۔ سب چوکنے ہو گۓ۔ اجمل خان معمول کے مطابق اپنے آپ کو لمبے گرم کوٹ میں ڈھانپے، کانوں اور گردن کو مفلر میں لپیٹے آہستہ سے گھر سے باہر نکلا اور ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈالے ایک طرف کو چل دیا۔ جب وہ کچھ آگے چلا گیا تو وہ بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چل دیۓ۔ کچھ ہی دور جا کر وہ ایک بڑی سی لمبی سڑک پر آگیا جو مکمل طور پر برف سے ڈھک چکی تھی۔ بائیں جانب سڑک کے کنارے خزاں رسیدہ درختوں کی قطار کافی آگے تک چلی گئ تھی جن کی اجاڑ خشک شاخیں سڑک کے اوپر تک آگئ تھیں اور سڑک کے اوپر ایک سایہ سا کر لیا تھا۔ دائیں جانب برقی قمقموں کے کھنبوں کی ایک طویل قطار تھی جن کی سفید خوبصورت روشنی سڑک پر دودھیا برف پر پڑ رہی تھی جو اسے مزید جاذب نظر بنا رہی تھی۔ کھمبوں کے درمیان فاصلہ بالکل یکساں تھا جن کے درمیان خالی جگہ پر لکڑی کے بنچ نصب تھے۔ ان کے عقب میں بھی اجاڑ اور خشک درختوں کی قطاریں تھیں۔ وہ چلتے چلتے کافی دور تک نکل آیا، سڑک بالکل سنسان تھی اور اردگرد کوںئ آبادی کوںئ عمارت دکھاںئ نہیں دے رہی تھی۔ چلتے چلتے ایک جگہ پر وہ اچانک رک گیا، بجلی کے بلب کے نیچے ایک لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گیا۔ لڑکے بھی اسے دیکھ کر رک گۓ اور کچھ فاصلے پر درختوں کے پیچھے چھپ کر کھڑے ہو ہو گۓ۔ چند ہی لمحوں بعد اچانک ہوا کے جھکڑ چلنے لگے جس سے درخت زور زور سے ہلنے لگے۔ چار سو پھیلے سناٹے میں درختوں اور ہوا کا خوفناک شور سناںئ دینے لگا۔ لکڑی کے بنچ لرزنے لگے۔ اس کے علاوہ عجیب و غریب قسم کی خوفناک آوازیں آنے لگیں۔ ان چھ میں سے دو لڑکے سرپٹ واپس بھاگ کھڑے ہوۓ۔ اتنے میں اجمل خان کی آواز ابھری۔


آئزہ۔۔۔' اس نے ذرہ لٹکا کر کہا۔ 


اس کی آواز سنتے ہی ایک خوبصورت لڑکی ہنستی ہوںئ ایک طرف سے برآمد ہوںئ، اس نے سفید رنگ کا بڑا پیارا لباس پہن رکھا تھا اور سر کے بالوں کا پیچھے جوڑا سا بنا رکھا تھا۔ 


تم آرام سے نہیں آ سکتی؟' لڑکا اسے دیکھ کر بولا۔


میرا ارادہ تو آرام سے ہی آنے کا تھا مگر یہاں آکر علم ہوا کہ آج تمہارے ساتھ مہمان بھی ہیں تو سوچا کچھ تفریح ہو جاۓ۔' وہ اس کے پاس کھڑے کھڑے بولی۔


مہمان۔۔۔میرے ساتھ تو کوںئ مہمان نہیں۔'


تو پھر وہ کون ہیں؟' وہ اچانک سے مڑی اور لڑکوں کی طرف اشارہ کرکے بولی۔ 


لڑکے ایک دم سے ٹھٹھک گۓ اور بھاگنے لگے۔ لڑکی زور سے چلاںئ، ' وہیں رک جاؤ!۔۔۔ ورنہ کوںئ زندہ نہیں بچے گا۔' لڑکے سہم گۓ اور وہیں رک گۓ، ان کے پاؤں جہاں تھے وہیں جم گۓ۔ لڑکی ڈانٹتے ہوۓ بولی۔ 'واپس پلٹو'۔ لڑکوں نے حکم کی تعمیل کی۔


اب یہاں آؤ۔' وہ دوبارہ تخمکانہ انداز سے بولی۔ لڑکے ڈرتے ڈرتے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اس کی جانب بڑھے۔  وہ چلاںئ، 'جلدی آؤ۔' سب بھاگ کر اس کے پاس جا کھڑے ہوۓ۔ 


'کون ہو تم اور یہاں کیا کرنے آۓ ہو۔۔۔ تم لوگ ضرور دشمن کے آدمی ہو، اب تم میں سے کوںئ یہاں سے زندہ بچ کر نہیں جا سکتا، کل صبح تمہارے گھر والوں کو تمہاری لاشیں ان درختوں پر لٹکی ملیں گی۔'


وہ چاروں منتیں کرنے لگے 'خدا کے لیۓ ہمیں چھوڑ دیں ہم ادھر غلطی سے آگۓ تھے، ہم ابھی چلیں جائیں گے اور کسی کو کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔ خدا کے لیۓ ہمیں بخش دیجئیۓ۔'


وہ سب اتنے سہم گۓ کہ قریب تھا کہ بے ہوش جاتے۔ تبھی اجمل خان مسکراتا ہوا اٹھا اور بولا۔ 'آئزہ! بس بھی کرو کیوں بچوں کو ستا رہی ہو دیکھو بیچارے کتنا ڈر گۓ ہیں۔'


وہ ہنس پڑی 'اچھا چلو بخش دیا کیا یاد کرو گے۔' وہ ان کو مخاطب کر کے بولی۔ ' بے فکر ہو جاؤ میں مزاق کر رہی تھی کچھ نہیں ہو گا تم لوگوں کو۔'


لڑکے خاموش تو ہوگۓ مگر انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ ابھی بھی سہمے سہمے سے تھے۔ اجمل خان آگے بڑا اور ایک لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا 'لیکن تم لوگ ہو کون اور یہاں کر کیا رہے ہو؟'


اس لڑکے نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا '  ہم یہاں آپ کا پیچھا کرتے کرتے آۓ تھے، ہماری شرط لگی تھی اور ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آپ اس وقت روزانہ کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔' 


  ہم آپ کے محلے میں ہی رہتے ہیں اور روزانہ آپ کو آتے جاتے دیکھتے ہیں۔' دوسرا لڑکا بولا۔


ہوں!۔۔۔ اسی لیۓ آپ لوگوں کی شکلیں جانی پہچانی لگ رہی ہیں۔۔۔ تو کیا دیکھا پھر یہاں آکر آپ لوگوں نے؟'


کچھ نہیں دیکھا ہم لوگوں نے اور ہم کسی کو کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔' سبھی ایک ساتھ بلند آواز سے بولے۔ 


وہ زوردار قہقہہ لگا کر ہنسا۔ 'ہاں سچ میں آپ لوگوں نے ابھی کچھ نہیں دیکھا، چلو اس طرف آؤ تمہیں کچھ دکھاؤں۔' وہ ایک طرف چل پڑا۔


لڑکے وہیں کھڑے رہے۔ وہ پیچھے مڑ کر بولا 'کیا ہوا؟۔۔۔ارے یار گبھراؤ نہیں میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں، نہ جن بھوت ہوں اور نہ ہی کوںئ چور ڈاکو لٹیرا ہوں ، میری تمہاری عمروں میں بھی کوںئ زیادہ فرق نہیں تم سے بس پندرہ بیس برس ہی بڑا ہوں گا۔'


وہ ڈرتے ڈرتے اس کے پیچھے چل پڑے، لڑکی اجمل خان کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ ایک طرف درختوں کا ایک چھوٹا سا جھنڈ تھا انہوں نے جھنڈ پار کیا اور کھلے میدان میں آگۓ۔ لڑکوں نے محسوس کیا کہ جب سے وہ یہاں آۓ تھے انہیں سردی بالکل محسوس نہیں ہو رہی تھی یوں لگتا تھا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ اجمل خان نے لڑکوں کو سامنے دیکھنے کو بولا سامنے ایک وسیع میدان تھا جو برف سے ڈھکا تھا کچھ ہی پل میں وہ وسیع و عریض خالی میدان ایک جیتے جاگتے اور سانس لیتے گاؤں میں بدل گیا۔ جہاں چھوٹے چھوٹے گھر تھے، لوگ چل پھر رہے تھے ، گائیں بھینسیں چر رہی تھیں کچھ لوگ ان کے لیۓ چارا کاٹ رہے تھے۔  لڑکے یہ سب دیکھ کر خیرت میں مبتلا ہو گۓ اجمل خان ان کی ذہنی کیفیت کو بھانپ کر بولا، 'یہ سامنے جو گاؤں تمہیں نظر آرہا ہے یہ دراصل ایک قبیلہ ہے جو پشاور میں ہے، قبیلہ تو خیر ابھی بھی وہیں ہے مگر جو قصہ ہم تمہیں سنانے جا رہے ہیں وہ بہت پرانا ہے۔۔۔ اس کہانی میں جو واقعات ابھی تم اپنے سامنے حقیقت میں وقوع پذیر ہوتے دیکھو گے وہ اصل میں بیس سال پرانے ہیں، تم لوگ یوں سمجھو کہ تمہارے سامن پردۂ سکرین پر کوںئ فلم چل رہی ہے بس یہاں فرق یہ ہے کہ یہ واقعات بیس سال پہلے حقیقت میں گزر چکے ہیں اور یہ قبیلہ فلم کا کوںئ سیٹ نہیں بلکہ اصل میں ہے اور یہ سب لوگ بھی کوںئ اداکار نہیں بلکہ حقیقی لوگ ہیں۔ پوری کہانی کے دوران ہم تقریباً پورے قبیلے میں گھومیں گے، جو واقع جہاں وقوع پذیر ہو گا ہم وہاں جا کر اسے دیکھیں گے۔۔۔اور ہاں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں تم لوگوں کو کوںئ بھی نہیں دیکھ پاۓ گا اور نہ ہی تم کسی کو چھو سکو گے کیونکہ یہ واقعات حقیقی ہونے کے باوجود بھی حقیقی نہیں، یہ واقعات بیس سال پہلے گزر چکے ہیں اور تم ابھی ان کی صرف شبیہہ یہاں دیکھو گے۔۔۔تو بات سمجھ میں آگئ؟'


لڑکوں کا خوف قدرے کم ہو گیا تھا مگر ابھی ان کے چہروں پر خیرت اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے جواب میں وہ بس ہوں ہاں ہی کر سکے۔ 


تو ٹھیک ہے چلو پھر'۔ اجمل خان ایک طرف قدم اٹھاتے ہوۓ بولا۔ 'وہ سامنے نہر کے پاس ٹیلہ دیکھ رہے ہو؟۔۔۔ ہمیں وہیں جانا ہے۔' وہ اس سمت اشارہ کرتے ہوۓ بولا جہاں نہر تھی۔ 'یہ دراصل چھوٹا سا نالہ ہے جو برسوں سے گاؤں کے پاس سے بہہ رہا ہے یہ جگہ بھی آبادی سے ہٹ کر گاؤں سے  باہر ہے اس لیۓ یہاں کبھی کبھار ہی کوںئ آتا جاتا ہے۔' 


سبھی کچھ ہی پل میں ٹیلے کے پاس پہنچ گۓ۔ کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر اجمل خان نے کہا، 'یہاں سے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں۔' 


 انہوں نے دیکھا سامنے چھوٹے سے ٹیلے پر ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہیں لڑکی اس قبیلے کے روایتی لباس میں ملبوس ہے جبکہ لڑکے نے بھی کھلی قمیض اور کھلا ڈھلا پاجامہ پہن رکھا ہے جو اس علاقے میں زیادہ تر مرد خضرات پہنتے ہیں۔ لڑکوں نے جب غور سے انہیں دیکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ لڑکی کی شکل کافی حد تک اس لڑکی سے ملتی جلتی ہے جو اس وقت اجمل خان کے ساتھ کھڑی ہے جس کا نام آئزہ ہے۔ جبکہ لڑکے کو دیکھنے کے بعد وہ اندازہ لگانے لگے کہ اگر اجمل خان کی داڑھی کے بال تراش لیۓ جائیں اور اس کے ماتھے اور سر کے آگے کے حصے پر جو بال کم ہو چکے ہیں وہ دوبارہ اگ آئیں اور اس کے ڈھلکے ہوۓ چہرے پر ایک بیس بائیس سال کے نوجوان والی ترو تازگی اور مظبوطی آجاۓ تو وہ ہو بہو اس لڑکے کی مانند دکھاںئ دے گا۔ وہ انہیں سوچوں میں تھے کہ ٹیلے سے ان دونوں کے باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔


 لڑکی کہہ رہی تھی، 'قسم سے جتنی دیر تک میں یہاں رہتی ہوں میرا دل زور زور سے دھڑکتا رہتا ہے۔ ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوںئ ہمیں دیکھ نہ لے۔'


لڑکا بولا، 'تم تو ایسے ہی گبھراتی رہتی ہو کچھ نہیں ہو گا۔ اس وقت یہاں بھلا کون آۓ گا؟'


کوںئ بھی آسکتا ہے' وہ بولی 'گاؤں کے اکثر لڑکے مچھلیاں پکڑنے یا کھیلنے کے لیۓ ادھر آتے رہتے ہیں اور اگر کسی کی اتفاق سے نظر پڑ گئ تو مجھے تو میرے خاندان والے بلکہ پورا قبیلہ مل کر یہیں زندہ گاڑھ دیں گے اور تمہیں بھی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔'


کچھ نہیں ہو گا تم فکر نہ کرو۔' 


پھر بھی آخر کب تک ہم ایسے ہی ملتے رہیں گے؟' 


بس کچھ ہی دن کی بات ہے پھر میں اپنی اماں کو تمہارے گھر بھیجوں گا، تمہارا ہاتھ مانگنے کے لیۓ۔۔۔ پھر تو۔۔۔'


تو کب بھیجو گے تم؟' وہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔


بس بابا کے لوٹنے کا انتظار کر رہا ہوں وہ جب جیل سے چھوٹ کر آۓ گا تب ہی تو کوںئ بات بنے گی۔'


ایک تو تمہارے بابا کو ابھی جیل جانا تھا اس کا تو کام ہی یہ ہے ہر دوسرے تیسرے مہینے تو تیرا بابا جیل میں ہوتا ہے، اس کا کیا پتہ وہ آۓ نہ آۓ۔' وہ جھلا کر بولی۔


تو فکر نہ کر آ جاۓ گا۔ جلدی آجاۓ گا۔'


ہاں آجاۓ گا۔۔۔ پتہ نہیں کب آۓ گا جب میری لاش یہاں سے نکلے گی تب۔۔۔' وہ اٹھتے ہوۓ بولی، ' میں اب چلتی ہوں شام ہونے والی ہے بہت سے لوگ اس وقت گھر واپس جا رہے ہوتے ہیں کیا پتہ کوںئ ادھر آنکلے۔'


وہ اٹھ کر جانے لگی تو لڑکے نے پھر سے اسے پکڑ کر نیچے بٹھا لیا۔ 'ٹھہر تو جا اتنی جلدی کیوں ہے تجھے۔'


کیونکہ مجھے ہم دونوں کی جان پیاری ہے اس لیۓ۔'


اچھا اتنی پرواہ ہے تمہیں میری؟' لڑکا مسکراتے ہوۓ بولا۔


مجھے تو ہے پر تمہیں اپنی ہی پرواہ نہیں ہے میری کیا ہو گی۔۔۔اچھا اب مجھے نہ روکنا وہ دیکھو سورج کتنا ڈھل آیا ہے۔' اس نے اٹھتے ہوۓ کہا۔ 


لڑکا بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ جیسے ہی وہ آگے بڑے لڑکی کی نظر اچانک کچھ فاصلے پر پتھروں کے پیچھے گئ اسے لگا کوںئ انہیں دیکھ رہا ہے۔ وہ گبھرا گئ۔ 'وہاں کوںئ ہے۔۔۔میں کہتی ہوں وہاں کوںئ ہے۔ کوںئ چھپ کر ہماری باتیں سن رہا ہے۔'


لڑکے نے پتھروں کے پیچھے جھانکا مگر اسے کوںئ دکھاںئ نہ دیا۔  ' کوںئ بھی نہیں ہے تمہارا وہم ہے۔'


نہیں۔ پکا کوںئ تھا، اب بھاگ نہ گیا ہو۔۔۔ہاۓ اگر کسی نے دیکھ لیا ہوا تو کیا ہوگا۔' وہ گبھراتے ہوۓ بولی۔


تم فکر نہ کرو کچھ نہیں ہو گا۔' لڑکے نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔


چلو جلدی چلو۔ مجھے لگتا ہے آج قیامت کی گھڑی ہے۔ میرا دل اسی لیۓ گبھرا رہا تھا۔' دونوں ایک طرف کو چل پڑے، وہ سب بھی ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے جب گاؤں قریب آیا تو لڑکی ایک سمت کو ہو گئ اور لڑکا دوسری طرف ہو لیا۔


ہم لڑکے کے پیچھے جائیں گے۔' اجمل خان نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ 


وہ لڑکا چلتے چلتے ایک چوڑی گلی کے باہر رک گیا جہاں ایک نیم دائرے کی شکل میں ایک کھلا میدان تھا۔ اس میدان میں ایک چھوٹی سی دیوار تھی جو نجانے کس مقصد سے برسوں سے یہاں کھڑی تھی اور آنے جانے والوں کو تکتی رہتی تھی، گاؤں کے لڑکے کھیلنے کے لیۓ یا کسی اور مقصد سے جب بھی اس میدان میں اکٹھے ہوتے یہ دیوار ان سے بھر جاتی۔ بعض لڑکے جو فارغ تھے سارا سارا دن میدان میں اس دیوار پر چڑھ کر ٹانگیں نیچے لٹکا کر بیٹھے رہتے تھے۔ اس وقت بھی ایک لڑکا ٹانگیں لٹکاۓ دیوار پر بیٹھا تھا وہ اس ٹیلے والے لڑکے کے قریب آتے ہی جلدی سے بولا۔


 'کہاں رہ گۓ تھے یار اتنی دیر لگا دی مجھے لگتا ہے اس شاداب خان کے بچے نے تم لوگوں کو دیکھ لیا ہے۔ ابھی ابھی ادھر سے بڑی تیز رفتاری سے گزرا ہے۔'


لیکن تم یہاں بیٹھے تو ہوۓ تھے پھر وہ کس وقت گزر کر گیا؟' ٹیلے والے لڑکے نے پوچھا۔


نہیں وہ اس طرف سے نہیں گیا، یہاں سے کوںئ بھی باہر نہیں نکلا میں اس وقت کا یہیں بیٹھا ہوں مجھے لگتا ہے کہ وہ پہلے ہی کہیں وہاں تھا۔'


لیکن وہ وہاں کرنے کیا گیا تھا؟' اس نے تشوویش ظاہر کرتے ہوۓ کہا۔


اب یہ تو وہی بتا سکتا ہے کہ وہ اس وقت وہاں کیا کرنے گیا تھا۔' 


ٹیلے والے لڑکے کے چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ دیوار والا لڑکا دوبارہ بولا، 'میرا خیال ہے کہ کچھ دن اب تم لوگ بالکل نہ ملو اور وہاں جانا تو چھوڑ ہی دو۔' 


پہلے ہی یار ہفتوں بعد ایک آدھ بار موقع ملتا ہے اور تم کہتے ہو بالکل نہ ملو۔' ٹیلے والے لڑکے نے جواب دیا۔


کچھ دن تو اب تم لوگوں کو اختیاط تو کرنی ہی پڑے گی۔' دیوار والا لڑکا بولا۔


سورج غروب ہو چکا تھا مگر ابھی اندھیرا نہیں چھایا تھا، میدان میں ان دونوں کے سوا اور کوںئ نہیں تھا۔کچھ ہی پل میں پاس ہی کسی گھر سے ایک لڑکی کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ 


یہ کون چلا رہا ہے؟' ٹیلے والے لڑکے نے پوچھا۔


یہ شیر خان کی بیٹی ہے۔'


تو یہ چلا کیوں رہی ہے؟'


اس لیۓ کہ کل شیر خان نے اس کا رشتہ اپنے دشمن شاہ زور خان  سے طے کر دیا ہے۔ کل ہی انہوں نے پورے جرگے کے سامنے صلح کی ہے اور یہ طے پایا ہے کہ شیر خان اپنی بیٹی کا ہاتھ شاہ زور خان کے ہاتھ میں دے گا جس کے بدلے میں شاہ زور خان اپنی کچھ زمینیں جن کے لیۓ وہ برسوں سے لڑ رہے تھے وہ شیر خان کے نام لگا دے گا اور اس کے علاوہ بھی بہت سی جائیداد اس کی بیٹی کے نام لگاۓ گا۔ اب شیر خان کو اور کیا چاہیۓ تھا اس لیۓ اس نے اپنی بیٹی کا سودا اچھے دام کے عوض کر لیا۔ رہی بات لڑکی کی تو اسے تو اعتراض تو ہو گا ہی کیوں کہ لڑکا یعنی شاہ زور خان خود اس کے باپ کی عمر کا ہے۔' دیوار والا لڑکا بات ختم کر کے نیچے اتر آیا۔


چل ٹھیک ہے یار گھر چلیں اماں کافی دیر سے انتظار کر رہی ہو گی۔' ٹیلے والے لڑکے نے ایک طرف چلتے ہوۓ کہا۔ 


 دونوں گلی کے اندر چلے گۓ۔


وہ سب پیچھے کھڑے ہو کر دیکھ رہے تھے دونوں لڑکوں کے گلی میں جانے کے بعد اجمل خان بھی چل پڑا اور بولا، 'اب ہم اس لڑکے کے گھر میں چلیں گے۔'


وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیۓ، گلی کے اندر جاکر کچھ گھر چھوڑ کر وہ تیسرے چوتھے گھر کے سامنے رکا اور ان کو اندر آنے کا اشارہ کر کے خود گھر کے اندر چلا گیا۔ وہ آگے بڑھنے سے ہچکچاۓ تو آئزہ بولی، 'گبھراؤ نہیں یہاں کوںئ ہمیں نہیں دیکھ رہا تم بس چاپ چاپ آگے کی کہانی سنتے جاؤ اور دیکھتے جاؤ۔'


وہ اندر چلی گئ اس کے پیچھے وہ بھی اندر چلے گۓ۔ اندر جہاں اجمل خان کھڑا تھا وہ بھی ان کے پاس جا کھڑے ہوۓ۔ ایک پیڑی پر ایک عورت بیٹھی کچھ سینے کاڑھنے میں مصروف تھی ٹیلے ولا لڑکا نیچے زمین پر بیٹھا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ 'اماں اب جاؤ نا سکندر خان کے گھر میرے رشتے کی بات کرنے۔'


اماں اپنا کام کرتے ہوۓ بولی، 'تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا تیرے بابا کے بغیر میں کیسے جاؤں اتنی بڑی بات کرنے۔'


پر اماں بابا تو پتہ نہیں کب آۓ گا اس وقت تک تو پتہ نہیں کیا سے کیا ہو جاۓ۔'


جو بھی ہو جاۓ لیکن میں نہیں جاسکتی تو جانتا ہے کہ یہاں اس قسم کے فیصلے گھر کے مرد کرتے ہیں میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاؤں گی۔۔۔ اگر میں چلی بھی گئ تو سکندر خان میری بات سنے گا ہی نہیں وہ خود کہے گا کہ پہلے تیرے بابا کو آلینے دے پھر کوںئ بات ہو گی۔'


مگر اماں۔۔۔' 


پھر وہی بات۔۔۔چل تو بیٹھ میں تیرے لیۓ روٹی لاتی ہوں۔ اماں اٹھ کر اندر چلی گئ، وہ لڑکا وہیں بیٹھا بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا اجمل خان نے اشارہ کیا اور سب اس کے پیچھے پیچھے گھر سے باہر نکل آۓ۔ باہر اندھیرا پھیل چکا تھا وہ چل کر اسی کھلے میدان میں آگۓ۔ یہاں آکر اجمل خان بولا۔ 'اب آگے کی کہانی تمہیں آئزہ سناۓ گی۔'


آئزہ نے اپنے پیچھے آنے کو کہا اور خود آگے آگے چل پڑی۔ کچھ ہی دور جا کر ایک گھر کے سامنے ایک کھلے پلاٹ میں وہ رک گئ۔ ان لڑکوں نے محسوس کیا کہ انہوں نے کافی زیادہ فاصلہ بس چند قدم چل کر ہی طے کیا ہے کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ جس جگہ وہ اب کھڑے تھے وہ گاؤں کے دوسری طرف ہے۔ آئزہ سامنے گھر کی طرف اشارہ کرکے بولی۔ 'وہ گھر اس ٹیلے والی لڑکی کا ہے اگلے تین چار دنوں تک لگاتار وہ لڑکا اس گھر کے باہر چکر لگاتا رہا کہ شاید ملنے کی یا کوںئ بات کرنے کی صورت بن جاۓ۔۔۔وہ دیکھو وہاں'۔


 اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ وہاں وہی لڑکا کھڑا تھا۔ کبھی کبھار وہ کن اکھیوں سے نظریں اوپر اٹھا کر اس لڑکی کے گھر کی طرف دیکھ لیتا تھا اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگ جاتا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد نظر بچا کر وہاں دیکھتا اور مایوس ہو کر دوبارہ اردگرد دیکھنے لگ جاتا۔ وہ کافی دیر تک وہاں کھڑا رہا۔ آئزہ نے اپنی بات جاری رکھی، 'جب تین چار دن لگاتار چکر لگانے سے بھی بات نہ بنی تو اس لڑکے نے کسی طرح اس لڑکی کو پیغام بجھوایا مگر بات پھر بھی نہ بنی۔ بڑی مشکل سے آخر کار ٹھیک ایک ہفتے بعد جا کر ان کی اسی ٹیلے پر  دوبارہ ملاقات ہوںئ۔۔۔اب ہم ٹیلے کی طرف چلتے ہیں بقیہ کہانی وہیں جاکر۔'


وہ سب ٹیلے کی طرف چل پڑے۔ چند ہی قدم چلنے کے بعد وہ ٹیلے کے پاس تھے وہاں وہ دونوں پہلے سے بیٹھے تھے۔


لڑکا کہہ رہا تھا، 'میں نے اماں سے بات تو کی ہے پر وہ کہتی ہے میں اگر رشتہ لے کر چلی بھی جاؤں تو خود لڑکی کا یعنی تیرا بابا بھی تو نہیں مانے گا وہ بھی تو یہی کہے گا کہ ایسے معمالات گھر کے مرد طے کرتے ہیں اس لیۓ جب میرا بابا جیل سے آۓ گا تو وہ تب ہی بات کرے گا۔'


پر وہ جیل سے آۓ بھی تو۔۔۔مجھے تو ڈر ہے کہیں میرا بابا اتنی دیر تک میرا رشتہ کہیں اور نہ طے کر دے۔' لڑکی نے کہا۔


ایسا نہیں ہو سکتا ایسا ہوا تو۔۔۔' وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔


ایسا ہوا تو۔۔۔تو کیا؟'۔


معلوم نہیں۔۔۔پتہ نہیں کیا ہو گا۔' اس نے سامنے نہر کی طرف کہیں دیکھتے ہوۓ کہا۔ 'معلوم نہیں آئزہ۔۔۔ پتہ نہیں میں کیا کروں گا۔۔۔شاید بے آب و گیاہ وادی میں ایک مسافر کی طرح بھٹکتا پھروں۔ یا شاید چلتا چلا جاؤں ایک نہ ختم ہونے والے راستے پر۔۔۔یہاں تک کہ میں خود۔۔۔'۔ 


اس نے اس کا فقرہ مکمل نہ ہونے دیا۔ 'کیسی باتیں کرتے ہو، اس طرح کی خوفزدہ باتیں نہ کیا کرو میرا دل دہل جاتا ہے۔'


اچھا تو پھر تم ہی کوںئ بات کرو۔' 


تو چلو یہ بتاؤ شادی کے بات مجھے پہاڑوں پر لے کر جاؤ گے؟'


پہاڑوں پر؟' وہ خیران ہوا۔


ہاں پہاڑوں پر۔۔۔جہاں برف گرتی ہے۔ مجھے بہت شوق ہے پہاڑوں پر برف باری دیکھنے کا، بچپن میں ایک دفعہ گئ تھی، بابا لے کر گیا تھا، اب نہیں جانے دیتا کہتا ہے اب تم بڑی ہو گئ ہو اب لڑکیوں کا اس طرح کہیں جانا اچھی بات نہیں۔'


ہوں۔' اس نے سر ہلایا۔ 


تو بتاؤ تم مجھے لے کر جاؤ گے وہاں، جہاں برف پڑتی ہے۔' 


ہاں لے جاؤں گا۔' وہ بولا۔ 


کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی، 'چلو گھر چلیں کافی دیر ہو گئ ہے یہاں زیادہ دیر رہنا ٹھیک نہیں۔' لڑکی نے اٹھتے ہوۓ کہا۔


لڑکا بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ جونہی وہ ٹیلے سے نیچے اترے ایک طرف سے کسی کے تیز تیز بھاگنے کی آواز آںئ، لڑکی گبھرا کر بولی، 'ہاۓ! وہ کون آرہا ہے لگتا ہے کسی نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔' 


جب وہ ذرہ قریب آیا تو لڑکا اسے پہچان کر بولا، 'یہ تو شاہ زین ہے میرا دوست یہ یہاں کیا کر رہا، ضرور کوںئ گڑبڑ ہے۔' 


شاہ زین وہی لڑکا تھا جو اس دن دیوار پر بیٹھ کر اس سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ جیسے ہی قریب آیا اپنی پھولی ہوںئ سانس درست کرکے بولا۔ 'تمہارے گھر والوں کو تم لوگوں کے بارے میں پتہ چل گیا ہے وہ سب یہیں آرہے ہیں۔ معلوم نہیں انہیں کیسے پتہ چلا مگر اب تم لوگ یہاں سے بھاگ جاؤ تو ہی بچو گے نہیں تو مارے جاؤ گے۔'


لیکن بھاگ کر ہم کہاں جائیں گے؟' ٹیلے والا لڑکا بولا۔


اوہ میرے خدا اب کیا ہو گا۔۔۔خدا کے لیۓ اجمل خان کچھ کرو، خدا کے لیۓ کچھ کرو ورنہ ہم میں سے کوںئ زندہ نہیں بچے گا۔' لڑکی نے گبھراتے ہوۓ کہا۔


ہم بھاگ کر کہاں جائیں گے اور ابھی تو بھاگنے کا وقت ہی نہیں وہ لوگ بس آتے ہی ہوں گے۔ ہم بھاگ بھی گۓ تو گاؤں سے باہر بھی نکل نہیں پائیں گے اور پکڑے جائیں گے، انہیں آنے دو اب جو بھی ہو گا دیکھا جاۓ گا۔ تم گبھراؤ نہیں۔' لڑکے نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔


ابھی وہ بات مکمل بھی نہیں کر پایا تھا کہ وہ لوگ آتے ہوۓ دکھاںئ دیۓ۔ انہوں نے آتے ہی لڑکے کو زدو کوب کرنا شروع کر دیا اور لڑکی کو بھی خوب مارا پیٹا وہ دونوں کو گھسیٹ کر ساتھ لے گۓ۔ 


اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ کو اجمل خان بتاۓ گا۔' آئزہ آگے بڑھ کر ٹیلے پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔


وہ چاروں اجمل خان کی طرف دیکھنے لگے، اجمل خان نے ایک لمبا سانس کھینچا اور بولا۔ 'بات دراصل یہ ہے کہ یہ معمالہ کوںئ سادہ معمالہ نہیں تھا یہ قبیلے کی روایات اور اقدار کے خلاف تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ لڑکی والوں کی عزت اور غیرت کا معاملہ بھی تھا۔ لہذا انہوں نے وہی کیا جو ہمارے ہاں قبائل میں آج بھی بیشتر لوگ کرتے ہیں۔ یعنی قتل۔ اپنی ہی بہن، بہو بیٹی کا غیرت کے نام پر قتل۔'


چاروں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا وہ سخت خیران اور پریشان تھے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کوںئ اس طرح کیسے کر سکتا ہے۔ اجمل خان مسکرایا لیکن اپنی بات جاری رکھی۔


 'لڑکی سے فارغ ہونے کے بعد وہ اب اس لڑکے کی طرف بڑھے کیونکہ وہ اس لڑکے کو کس طرح بخش سکتے تھے جس نے ان کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا۔ جب عزت کی خاطر انہوں نے اپنی بیٹی کو نہیں بخشا تھا تو لڑکے کو کیوں چھوڑتے۔ مگر خدا کی کرنی یہ ہوںئ کہ لڑکے کو بھاگنے کا موقع مل گیا اور وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔'


 وہ درختوں کے جھنڈ کی طرف چلتے ہوۓ بولا۔


 اس کے پیچھے لڑکی اور وہ چاروں بھی چلنے لگے، انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھوڑی دیر پہلے جہاں پورا گاؤں آباد تھا وہاں اب دوبارہ سے برف سے ڈھکا خالی میدان رہ گیا تھا، وہ واپس اسی سڑک پر آگۓ جہاں سے وہ چلے تھے۔ اجمل خان نے بنچ پر بیٹھتے ہوۓ کہا، 'پھر وہ لڑکا بھاگتے بھاگتے کئ جگہوں کئ شہروں میں رہنے کے بعد یہاں آگیا اس پہاڑی مقام میں۔۔۔جہاں برف گرتی ہے۔' وہ لڑکی کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔


وہ آگے بڑھ کر اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولی، 'وہ لڑکی تو پہلے سے یہاں تھی جو اپنے خواب کی تکمیل کر رہی تھی۔ پہاڑوں میں رہنے کے خواب کی تکمیل۔۔۔جو تب ادھورا تھا مگر اب مکمل ہو گیا ہے۔' وہ لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولی۔


اچھا اب میں چلتی ہوں کل پھر یہیں ملاقات ہو گی۔' اس نے اٹھتے ہوۓ کہا۔ اجمل خان نے جواب میں مخض سر ہلایا۔ اب وہ لڑکوں کو مخاطب کر کے بولی۔


 'ہو تو تم لوگ دشمن کے آدمی لیکن چلو کیا یاد کرو گے چھوڑ دیا۔' وہ مسکراںئ۔ اس کے ساتھ وہ چاروں بھی ہنس دیۓ۔


' اچھا اب میں چلتی ہوں۔' 


اس نے ہاتھ ہلایا اور ایک طرف کو چل پڑی چند ہی قدم چلنے پر ایک دم غائب ہو گئ۔ اس کے جانے کے بعد برف باری ہونے لگی۔ 














Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات