Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





بارش کی تیز بوندیں ٹین کی چھت پر ٹپ ٹپ کی آواز سے اک شور بھرپا کر رہی تھیں جس سے پہلے پہل اسجد کو کچھ ناگواری محسوس ہوںئ مگر اب اس نے اس سے کچھ کچھ مطابقت اور موافقت پیدا کر لی تھی۔ مینہ اس زور سے برس رہا تھا کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا تھا جبکہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے تک گرمی سے برا حال ہوا جارہا تھا۔ اتنی گرمی تھی کہ سڑکیں بھٹی کی طرح تپ رہی تھیں اور تیز لو کے تھپیڑوں نے چہرے آنکھوں اور بازؤوں کو جھلسا کر رکھ دیا تھا۔ اس نے جتنی جلدی مکمن ہو سکتا تھا کام نمٹایا اور اس سے بھی تیزی کے ساتھ گھر کی راہ لی۔ آج پہلے ہی اس کا ارادہ گھر سے بالکل نکلنے کا نہیں تھا مگر رضوان کے ایک چھوٹے سے کام کے باعث اسے باہر جانا پڑا تھا۔ پھر جب کام ختم کرکے وہ گھر آیا تو کوئلے کی طرح تپتی ہوںئ ٹین کی چھت اور دیواریں اس کی منتظر تھیں ، ایک چھوٹا سا پنکھا گرمی کے اتنے بڑے ازدھے کے خلاف مزاخمت کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ اس نے آتے ہی فوراً قمیص اتاری اور پسینے سے شرابور بنیان اتار کر دوسری پہن لی اور پنکھے کے آگے چارپاںئ پر آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔ پنکھے کی ہوا اس قدر گرم تھی کہ اسے ذرہ بھی ٹھنڈک کا احساس نہیں ہو رہا تھا مگر باہر کی تپتی دھوپ اور گرم لو سے بہرحال اندر کچھ بہتر تھا۔ ابھی وہ اسی طرح لیٹا تھا کہ تیز ہوا چلنے لگی اور اسی ہوا کے دوش پر آوارہ بادلوں کی ٹولیاں نجانے کہاں سے اڑتے ہوۓ آئیں اور یہاں آکر بسیرا کر لیا۔ کچھ ہی دیر میں آسمان گہرے سیاہ بادلوں سے بھر گیا جس سے دن کے وقت بھی شام کا سا گمان ہونے لگا۔ ٹین کی دیواریں ہوا کے زوردار تھپیڑوں سے لرزنے لگیں، وہ اٹھا اور کھڑکی، دروازہ کھول دیا باہر آکر اس نے آسمان پر گھنے سیاہ بادلوں کو اک نظر دیکھا اور خوش ہو کر واپس چارپاںئ پر آکر لیٹ گیا۔ ٹھنڈی تیز ہوا کے جھونکے اندر آرہے تھے، اس کی گرمی سے موڈ میں پیدا ہونے والی اکتاہٹ اور بیزاری اب ختم ہو گئ تھی ، اور وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا اور تروتازہ محسوس کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر اپنے آپ مسکراہٹ پھیل گئ۔ کچھ دیر اسی طرح لیٹے رہنے کے بعد وہ اٹھا اور کرسی اٹھا کر کمرے سے باہر آکر بیٹھ گیا۔ پھر کچھ خیال آیا تو اٹھ کر دوبارہ اندر چلا گیا، اندر جاکر اس نے سب سے پہلے قمیص پہنی اور سگریٹ کا پیکٹ اٹھا کر دوبارہ باہر آگیا۔ سگریٹ سلگانے کے لیۓ اس نے حیسے ہی لائیٹر جلایا تیز ہوا کا جھونکا آیا جس نے لائیٹر کے شعلے کو بجھا دیا۔ ہو ا اتنی تیز اور مسلسل تھی کہ مشکل ہی سے وہ سگریٹ سلگا پایا۔ سگریٹ جلانے کے بعد وہ سامنے سڑک پر رواں دواں ٹریفک کو دیکھنے لگا۔ یہ ٹین کا کمرا جس میں ابھی وہ لیٹا تھا بالکل سڑک کے کنارے واقع تھا جو اس کے دوست رضوان کا کمرا تھا جو اس وقت اپنی ڈیوٹی پر گیا ہوا تھا۔ رضوان ایک سرکاری ادارے میں چھوٹا سا ملازم تھا، یہ کمرا بھی اسی ادارے نے اسے الاٹ کر رکھا تھا۔ وہ دن کے وقت اپنی ڈیوٹی کرتا اور شام کو آکر کمرے میں سو رہتا۔


 اسجد کو یہاں آۓ ہوۓ تیسرا مہینہ ہونے کو آیا تھا،وہ سوچ رہا تھا کہ اور کتنا عرصہ مزید اسے یہاں رہنا چاہیۓ۔ اگرچہ وہ رضوان پر بالکل بوجھ نہیں بنا تھا کیونکہ وہ اپنے کھانے پینے کے اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات خود اٹھاتا تھا۔ وہ الگ کمرا لے کر بھی رہ سکتا تھا مگر اکیلے رہنے میں اسے بوریت سی محسوس ہوتی تھی، رضوان بھی خوش تھا کیونکہ کافی عرصے سے وہ بھی اکیلے رہ رہا تھا اور اب اسجد کی صورت میں اسے ایک اچھا ساتھ مل گیا تھا۔ دونوں کی ملاقات شام کے وقت ہی ہوتی تھی جب رضوان اپنی ڈیوٹی کرکے واپس لوٹتا تھا۔ شام کا کھانا دونوں اکٹھے کسی پاس کے چھوٹے سے ریستوران میں کھاتے تھے اور کافی دیر تک وہیں بیٹھے رہتے، کبھی کبھار خاص کر اس رات جب اگلے دن رضوان کو چھٹی ہوتی یا اتوار کے روز دونوں کھانا کھانے کے بعد پاس ہی چھوٹے سے بازار میں نکل جاتے اور ایسے ہی بلا مقصد مٹر گشت کرتے رہتے۔ رات کو دیر سے واپس لوٹتے۔ 


اسجد کا برسوں سے یہ معمول تھا ہر دوسرے چوتھے مہینے وہ گھر سے فرار ہو جاتا تھا اور کسی نۓ شہر یا نئ جگہ پر ایسے ہی کوںئ ٹھکانہ ڈونڈھ کر رہنا شروع کر دیتا تھا۔ کچھ عرصہ وہاں رہتا پھر جب اکتا جاتا تو کسی نئ جگہ چل پڑتا تھا۔ اس کے گھر والے سب اس کی اس عادت سے بہت تنگ تھے مگر گھر والوں کے بار بار کہنے پر بھی اس نے اپنی یہ عادت بالکل نہ بدلی تھی۔ ابھی بھی وہ اسے فون پر بار بار گھر آنے کے بارے میں پوچھتے تھے مگر وہ جب بھی گھر جاتا ایک دو دن رہنے کے بعد واپس چلا آتا۔ اب تو انہوں نے تنگ آکر اسے کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ جہاں تک خرچے کی بات تھی تو وہ انٹرنیٹ پر کوںئ آن لائن کام کرکے اچھی خاصی کماںئ کر لیتا تھا جس کے باعث اسے کبھی کوںئ مشکل پیش نہ آتی تھی۔ انٹرنیٹ پر کام ہی کی بدولت اسے یہ آسانی تھی کہ اسے کسی مخصوص جگہ اور وقت پر بندھنا نہیں پڑھتا تھا بلکہ وہ کہیں بھی کسی بھی جگہ پر کسی بھی وقت کام کر سکتا تھا۔ اسی آسانی اور سہولت کے باعث ہی اس نے یہ کام منتخب کیا تھا۔ 


سگریٹ پیتے ہوۓ اس نے آسمان کی طرف نگاہ کی، سیاہ بادل مزید گہرے ہوگۓ تھے جس سے آسمان کافی تاریک دکھاںئ دینے لگا تھا۔ اسے سکول میں پڑھی ہوںئ سائنس کی کتاب میں سے بادلوں کی اقسام یاد آگئیں جس میں تصویروں کے ساتھ بادلوں کی اقسام کا ذکر تھا، اسے دو تو اس وقت یاد تھیں ایک 'سائرس' بادل تھے جو بہت اونچاںئ میں اڑتے ہیں اور جو بالکل برستے نہیں ہیں اور دوسرے وہ سیاہ بادل جو اس وقت وہ آسمان پر دیکھ رہا تھا 'نمبس' کہلاتے ہیں، یہی بادل دراصل تیز طوفانی بارش کا باعث بنتے ہیں۔ پھر اسے خیال آیا اس نے کہیں سے سن یا پڑھ رکھا تھا کہ پرانے زمانے میں جب ابھی موسم کی صورت حال جاننے کا کوںئ اور ذریعہ نہیں تھا تو اس وقت کئ لوگوں کا مشاہدہ اس قدر گہرا تھا کہ وہ آسمان پر دیکھ کر ان بادلوں کی اشکال اور رنگت سے اندازہ لگا لیا کرتے تھے کہ بارش ہونے کے کتنے امکانات ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ستاروں کو دیکھ کر سمت کا تعین کر لیا کرتے تھے۔ اسے اپنے اس خیال پر ہنسی آگئ، وہ سوچنے لگا کہ آج بیٹھے بٹھاۓ اسے بچپن میں اسکول میں پڑھی ہوںئ یہ بات کیوں یاد آگئ خالانکہ اس سے پہلے دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح اس نے بھی سینکڑوں، ہزاروں دفعہ کالے بادل آسمان پر دیکھے تھے مگر اسے کبھی اس بات کا خیال نہیں آیا تھا۔ اور ایسا بھی نہیں تھا کہ ابھی اس کا کتابوں اور پڑھنے لکھنے میں کوںئ رجخان یا دلچسپی تھی اور نہ ہی سکول کے زمانے میں وہ کوںئ اچھا طالب علم تھا۔ پھر پچپن میں چھوٹی جماعتوں میں پڑھی ہوںئ یہ بات اسے کیوں یاد رہ گئ وہ خود اس پر بہت خیران تھا۔ اس نے سگریٹ کا آخری کش لگا کر پھینکا ہی تھا کہ بارش ہونے لگی، وہ جلدی سے اٹھا اور کرسی اٹھا کر پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی جس کے اوپر ایک بڑا سے شیڈ یا پرچھتی تھی جہاں سے وہ بارش سے مکمل مخفوظ تھا۔ بے شک کچھ دیر پہلے تک گرمی کافی زیادہ تھی مگر وہ اس وقت بالکل بھیگنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس نے سامنے دیکھا، سڑک پر ایک موٹر سائیکل پر تین لڑکے سوار تھے جو مزے سے بارش میں نہاتے ہوۓ، نعرے لگاتے ہوۓ اور شور مچاتے ہوۓ گزر گۓ۔ دو رویہ سڑک کے اس پار ایک لکڑی کا سگریٹ پانوں کا کھوکھا تھا جس میں ایک آدمی بیٹھا نجانے کیا کر رہا تھا۔ اس کا صرف سینہ، کندھے اور سر نظر آرہا تھا جس سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ بارش آنے پر بس ایک بار وہ اپنی جگہ سے ذرہ سا اٹھا اور دو تین چیزیں جن کا بھیگنے کا خطرہ تھا اس نے تھوڑی سی اندر سرکائیں اور دوبارہ اسی جگہ اسی خالت میں جا بیٹھا۔ اس نے جیب میں سے پیکٹ نکالا اور دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔ ابھی اس نے پہلا ہی کش لگایا تھا کہ اس کے بالکل سامنے سڑک پر ایک سفید رنگ کی کار آکر رکی، کار کا ایک طرف والا شیشہ نیچے ہوا اور ایک نسوانی چہرے نے باہر جھانک کر بلند آواز سے اسے مخاطب کرتے ہوۓ کہا، 


جی بات سنیۓ۔۔۔یہ ایک پتہ آپ مجھے سمجھا دیں گے؟'


وہ اٹھا، سگریٹ کرسی پر رکھا اور گاڑی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ 'جی پوچھیۓ کیا پوچھنا ہے؟' اس نے بڑی خندہ پیشانی سے کہا۔


لڑکی بولی'  جی آپ بتا سکتے ہیں یہاں سے علینہ مارکی کتنی دور ہے اور کہاں ہے؟'


اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا اس کی نظر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی دوسری لڑکی پر پڑی ، جیسے ہی اس نے اسے دیکھا اس کی نظریں وہیں جم گئیں۔ وہ کتنی دیر تک مبہوت سا ہو کر اسے دیکھتا رہا، اسے ہوش ہی نہ رہا کہ وہ کہاں کھڑا ہے یہاں تک کہ دوسری لڑکی کو دوبارہ اسے زور سے مخاطب کرنا پڑا۔ 


ہے مسٹر میں نے کچھ پوچھا ہے اگر آپ کو نہیں پتہ تو بول دو ہمارا وقت کیوں ضائع کر رہے ہو۔'


وہ ایک دم جیسے ہوش میں آگیا۔ 'جی۔۔۔جی۔۔۔کیا پوچھا آپ نے۔۔۔ہاں علینہ مارکی، وہ بالکل اسی سڑک پر ہے آپ سیدھا چلتے جائیں کوںئ بیس پچیس منٹ کا راستہ ہے، دائیں جانب آپ کو دور سے ہی نظر آجاۓ گی۔'


لڑکی نے شکریہ ادا کیا اور گاڑی آگے چل پڑی۔ وہ کافی دیر تک گاڑی کو جاتا ہوا دیکھتا رہا، جب نظروں سے اوجھل ہو گئ تو واپس اپنی جگہ پر آگیا۔ اس نے گاڑی کا نمبر پہلے ہی یاد کر لیا تھا۔ اس کے بعد کافی دیر تک وہ وہیں بیٹھا اس لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا۔ 


شام کو جب رضوان آیا تو اس نے اسے بھی اس لڑکی کے بارے میں بتایا۔ دونوں ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب اس نے ساری بات رضوان کو بتاںئ۔ رضوان بات سن کر بولا، 'لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے، اتنے برسوں بعد وہ بھی اتنی دور دوسرے شہر میں۔۔۔وہ یہاں کرنے کیا آںئ تھی؟'


اب ظاہر ہے میرج ہال کا پتہ پوچھا تھا انہوں نے تو کسی کی شادی میں ہی جا رہی ہوں گی۔ اصل بات یہ سوچنے کی نہیں کہ وہ یہاں کس لیۓ آئی ہے وہ تو کسی بھی کام سے آسکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ اس نے مجھے پہچانا کیسے نہیں۔' اس نے کھانا چھوڑ کر سگریٹ سلگاتے ہوۓ کہا۔


ہاں یہ بات تو واقعی سوچنے والی ہے۔ رضوان منہ میں نوالہ ڈالتے ہوۓ بولا۔


اور ایسا بھی نہیں کہ کافی اندھیرا ہو جس سے اسے پہچاننے میں دقت پیش آںئ ہو، ہاں ٹھیک ہے موسم کی وجہ سے کچھ اندھیرا تھا مگر اتنا تو نہیں کہ کوںئ دیکھ کر پہچان نہ سکے۔'


ہاں پہچاننا تو اسے چاہیۓ تھا۔' اس نے ٹشو ساتھ ہاتھ پونچھے اور بیرے کو دو کپ چاۓ کا آرڈر دیا، پھر اسے مخاطب کر کے بولا، 'چل یارا اب اس بات کو لے کر کیا کرنا ہو سکتا ہے کوںئ وجہ ہو جو اس نے تجھے نہیں پہچانا۔ اب دوبارہ تو وہ تجھے دکھے گی نہیں جو تو اس سے پوچھ لے۔'


نہیں دکھے گی کیسے نہیں میں نے گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا ہے۔'


تو اس سے کیا ہو گا؟' وہ سگریٹ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوۓ بولا۔


اسجد نے ہاتھ کھینچ لیا اور اس کے آگے پیکٹ کر دیا۔

 یہ ادھر سے دوسرا کیوں نہیں جلا لیتے، تمہیں بھی آدھا سگریٹ پینے کی پتہ نہیں کیا بیماری ہے میرا مزا بھی خراب کرتے ہو۔'


رضوان نے پیکٹ میں سے نکال کر دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔ 'ہاں تو بتاؤ کیا فائدہ ہو گا گاڑی کا نمبر نوٹ کر کے؟' اس نے اپنا سوال دہرایا، ' آپ جناب کیا ٹریفک پولیس میں ہیں جو چوک میں کھڑے ہو جائیں گے اور ہر گزرتی گاڑی کو دیکھ کر نمبر پہچاننے کی کوشش کریں گے۔۔۔اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا پتہ وہ اب تک واپس اپنے شہر چلی بھی گئ ہو یا صبح تک چلی جاۓ۔'


اس نے کوںئ جواب نہ دیا، سگریٹ کا ایک لمبا کش لگایا اور کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔ باہر رات ہو چکی تھی، ہوٹل اور اردگرد کی دکانوں کی بتیاں روشن تھیں جن کی روشنی میں دکھاںئ دے رہا تھا کہ ہلکی ہلکی بارش ابھی بھی جاری ہے۔ وہ سگریٹ کی راکھ راکھ دان میں جھاڑتے ہوۓ بولا، 'کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس گاڑی کے نمبر کے ذریعے کہیں سے ان کا پتہ معلوم کرایا جا سکے؟'


معلوم تو شاید کرایا جا سکتا ہو مگر کیا کہہ کر معلوم کراؤ گے، وہ ایسے ہی تھوڑی بتا دیں گے وہ پوچھیں گے نہیں کہ آپ کیوں اس گاڑی کے پیچھے پڑے ہوۓ ہیں، اور اگر باالفرض انہوں نے بتا بھی دیا تو کیا ہو گا، کیونکہ جہاں تک میرا خیال ہے غالباً وہ اس شہر میں اپنے کسی عزیز رشتے دار کی شادی میں شمولیت کے لیۓ آںئ ہے اور شاید صبح واپس بھی چلی جاۓ۔'


اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ صبح نہ جاۓ۔' 


ہاں ہو تو سکتا ہے مگر پھر بھی ایسے ہمیں کہیں سے بھی گاڑی کے مالک کی معلومات نہیں ملیں گیں۔' وہ راکھ دان میں سگریٹ بجھاتے ہوۓ بولا۔


دوسری قطار میں سے چند آدمی اٹھے اور ریستوران سے باہر نکل گۓ مگر باہر بارش تیز ہونے لگی تھی اس لیۓ واپس لوٹ آۓ۔ بیرے نے دو کپ چاۓ لا کر رکھی اور چلا گیا۔ رضوان نے کپ اٹھا کر اک نظر دیکھا اور جلدی سے بیرے کو آواز دی، وہ واپس پلٹا تو رضوان بولا، 'یار میں روزانہ تمہیں کہتا ہوں کہ مجھے اس کپ میں چاۓ نہ دیا کرو پھر بھی تم اسی کپ میں کیوں چاۓ لاتے ہوۓ؟'


معذرت جناب ابھی دوسرا کپ لاتا ہوں۔' اس نے کہا اور بھاگ گیا، دوسرے ہی لمحے دوڑتا ہوا واپس آگیا اس کے ہاتھ میں پہلے کی نسبت بڑا کپ تھا اس نے چاۓ دوسرے کپ میں انڈیلی اور چلا گیا۔ اسجد نے سگریٹ کا کش لیا، دھواں فضا میں چھوڑا اور دانتوں سے سگریٹ کے فلٹر کو چبانے لگ گیا۔ وہ کبھی کبھی ایسے ہی کرتا تھا سگریٹ کے فلٹر کو دانتوں میں رکھ کر آپستہ سے چبا ڈالتا اور پھر دبے ہوۓ سگریٹ سے دھواں کھینچتا رہتا۔ اس نے مسلے ہوۓ سگریٹ سے ایک اور کش لیا، پھر چاۓ کا کپ اٹھا لیا، ایک گھونٹ بھرا اور کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ باہر تیز بارش میں دو آدمی چاند گاڑی سے اترے اور بھاگتے ہوۓ دوسری سمت نکل گۓ۔ اس کے بعد ایک سفید رنگ کی کار آکر رکی گاڑی کا شیشہ جیسے ہی نیچے ہوا اس کی نظریں وہیں کی وہیں ٹھہر گئیں۔ یہ وہی گاڑی تھی اور اس میں وہی لڑکی بیٹھی تھی جسے اس نے آج دن کے وقت دیکھا تھا۔ وہ اچانک سے کرسی سے اچھل پڑا،  تم بیٹھو میں ابھی آیا، یہ وہی گاڑی ہے۔' اس نے کہا اور باہر بھاگ گیا۔ مگر اس کے جانے تک گاڑی آگے چل پڑی تھی اس نے پاس ہی ایک جگہ پر کھڑے رکشہ والے کو اس سفید گاڑی کا پیچھا کرنا کا بولا اور جلدی سے رکشے میں بیٹھ گیا۔ رکشہ والا پہلے ہی کسی سواری کے انتظار میں تھا اس نے جلدی سے رکشہ سٹارٹ کیا اور گاڑی کے پیچھے لگا لیا۔ رش کی وجہ سے گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی تبھی وہ جلد ہی گاڑی کے قریب پہنچ گۓ۔ کچھ دور تک چلنے کے بعد گاڑی ایک جگہ رک گئ رکشے والے نے بھی رکشہ ٹھہرا لیا، اسجد نے اسے وہیں کھڑے ہو کر اتنظار کرنے کا بولا اور کہا کہ وہ رکشہ سٹارٹ رکھے۔ گاڑی میں سے  تین چار لڑکیاں باہر نکلیں اور بارش سے بچنے کے لیۓ ایک طرف ہٹ کر جا کھڑی ہوئیں ، گاڑی آگے بڑھی جہاں پارکنگ میں دوسری گاڑیاں کھڑی تھیں وہاں یہ گاڑی بھی جا کر کھڑی ہو گئ۔ کچھ ہی پل میں وہ لڑکی بھی گاڑی سے باہر نکلی جس کی اسے تلاش تھی۔ 'سدرہ'۔۔۔ اس کے ہونٹوں سے اچانک نکل گیا۔ رکشے والے نے خیرانی سے اس سے پوچھا 'جی کیا کہا آپ نے؟'


کچھ نہیں، تم سے کچھ نہیں کہا۔۔۔ٹھیک ہے بس ادھر ہی مجھے اتار دو۔۔۔کتنے پیسے ہوۓ؟' اس نے رکشے سے اترتے ہوۓ کہا۔ 


رکشے والے کا کرایہ ادا کر کے وہ آگے چل پڑا اور ایک طرف ایک درخت کے نیچے جا کھڑا ہوا جہاں کچھ اندھیرا تھا اور جہاں سے وہ بارش سے بھی کسی حد تک مخفوظ رہ سکتا تھا۔ لڑکیاں پیدل ہی آگے چل پڑیں۔ یہ بازار کا آغاز تھا جہاں گاڑیاں اور موٹرسائیکل کھڑے کیۓ جاتے تھے اس سے آگے ایک لمبی سڑک کے دونوں اطراف قطار میں خوبصورت دکانیں سجی تھیں ،یہاں سے لوگ پیدل ہی شروع سے لے کر آخر تک پورے بازار کا چکر لگا کر اپنی پسندیدہ دکانوں پر خریداری کیا کرتے تھے۔ لڑکیاں کچھ آگے بڑھیں تو وہ بھی ان کے پیچھے چل دیا۔ وہ کافی فاصلے پر چل رہا تھا تاکہ کسی کو بھی اس پر شک نہ ہو کہ وہ ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ بارش اب تھم چکی تھی مگر دن بھر برستے رہنے کے باعث بازار میں رش کم تھا۔ وہ ایک بڑی سی کپڑوں کی دکان کے باہر آکر رکیں ،آپس میں کوںئ بات چیت کی اور آگے بڑھ گئیں۔ وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے آرام سے چلتا رہا۔ وہ دو دو کی ٹولیوں میں چل رہیں تھیں دو آگے تھیں اور دو ان کے پیچھے چل رہی تھیں۔ ایک دکان کے سامنے آکر وہ دوبارہ رک گئیں، چاروں نے آپس میں کوںئ بات کی اور دکان کے اندر چلی گئیں۔ وہ بھاگتا ہوا دکان کے پاس آیا اور دور ہی سے شیشے کے بند دروازے سے اندر جھانک کر انہیں اک نظر دیکھا اور اس دکان کے بالکل سامنے دوسری طرف دوسری دکان کے باہر لگے سٹال پر وقت گزاری کے لیۓ چیزیں دیکھنے لگا۔ سٹال پر چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے کہ بٹوے، کی چینز، بریسلٹ وغیرہ لگے تھے۔ اس نے ایسے ہی انہیں الٹ پلٹ کر دیکھنا شرور کر دیا۔ 


یہ عینک کتنے کی ہے؟' اس نے ایک کالا چشمہ آنکھوں پر چڑھاتے ہوۓ پوچھا۔


ساڑھے پانچ سو کی'؟ دکان دار جو دوسرے گاہک کو ڈیل کرنے میں مصروف تھا اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔ 


خان صاحب اتنی مہنگی؟' اس نے کہا۔


دکاندار اپنے مخصوص پختون لہجے میں بولا، 'یہ اتنے کا ہی ہے، تم نے سستا لینا ہے تو یہ دوسرے والا دیکھو، یہ اڑھائی سو کا ہے اور یہ تین سو کا۔' وہ دوسری طرف لگی عینکوں کی قطاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولا۔


 اس نے دوسری قطار میں سے دو تین عینکیں مزید اٹھا کر دیکھیں۔ اتنے میں وہ لڑکیاں بھی دکان سے باہر آگئیں۔ اس نے انہیں پہلے سے ہی باہر آتا دیکھ لیا تھا اس لیۓ وہ ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ لڑکیاں آگے چل پڑیں۔ وہ کچھ دیر تک وہیں کھڑا رہا جب فاصلہ کافی ہو گیا تو وہ بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ بظاہر وہ اردگرد دیکھ رہا تھا لیکن اس کا پورا دھیان ان پر تھا۔ وہ ایک اور دکان میں گھس گئیں۔ وہ بھی چلتا چلتا دکان کے باہر ایک الگ کونے میں جاکر کھڑا ہو گیا اور انتظار کرنے لگا، اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ رضوان کا فون تھا اس نے فون پر اسے مختصراً ساری بات بتاںئ اور کہا کہ اسے آتے ہوۓ کچھ دیر ہو جاۓ گی وہ گھر چلا جاۓ۔ 


اس بار لڑکیاں کافی دیر تک دکان کے اندر رہیں۔ جب باہر نکلیں تو ان کے ہاتھ میں کافی سارے بیگ اور شاپر تھے، وہ پھر سے آگے چل پڑیں لیکن تھوڑی ہی دور جا کر رک گئیں اور ایک بڑی سی جوتوں کی دکان میں گھس گئیں۔ وہ وہیں کھڑا رہا اور وہیں کھڑے کھڑے ان کا انتظار کرنے لگا۔ اردگرد لوگ گزر رہے تھے، آجا رہے تھے، بارش تھم چکی تھی مگر کچھ لوگوں نے ابھی بھی اپنے سر چھتریوں سے ڈھانپ رکھے تھے۔ کچھ دیر بعد اسی دکان سے جس دکان میں ابھی وہ چاروں لڑکیاں گئیں تھیں دو لڑکیاں باہر نکلیں، اسجد کو لگا کہ یہ وہیں ہیں وہ کچھ سنبھل کر کھڑا ہوگیا مگر جب وہ اس کی نظروں کے بالکل سامنے آئیں تو اس نے جانا کہ یہ تو کوںئ اور ہیں۔ کافی دیر تک وہاں کھڑا رہنے کے باعث سامنے ایک ٹھیلے والے نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھنا شروع کردیا اس لیۓ اس نے اب  وہاں سے کھسک جانا ہی مناسب سمجھا، وہ آگے بڑھا اور آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا، جب وہ اس دکان کے بالکل سامنے آیا جس میں لڑکیاں گئ تھیں اس نے اک نظر اٹھا کر اندر دیکھا اور بغیر رکے آگے بڑھ گیا۔ کچھ دور ذرہ آگے جاکر ایک ٹھیلے والے کے عقب میں جا کھڑا ہوا جہاں سے وہ اس دکان کو بھی آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ یہاں اس کے پانچ سات منٹ کے انتظار کے بعد لڑکیاں باہر نکلیں اور ایک طرف چل پڑیں۔ مگر اس بار آگے جانے کی بجاۓ ان کا رخ واپسی کی طرف تھا۔ واپسی پر وہ ایک دو چھوٹے موٹے سٹال پر رکیں مگر زیادہ دیر ٹھہریں نہیں آگے چل پڑیں۔ اب وہ پھر سے بازار کے شروع میں آگئیں تھیں جہاں ان کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ وہ کچھ دور گاڑیوں کے دوسری طرف کھڑا ہو گیا، جیسے ہی وہ گاڑی میں بیٹھیں وہ بھاگ کر سڑک پر آیا اور ایک ٹیکسی رکوا لی، اس نے ٹیکسی والے سے اس گاڑی کا پیچھا کرنے کو بولا، ٹیکسی والے نے گاڑی ان کے پیچھے لگا لی۔ 


تھوڑے فاصلے پر رکھنا بلکل ان کے نزدیک نہ جانا تاکہ انہیں پتہ نہ چلے کہ کوںئ ان کا پیچھا کر رہا ہے۔' اس نے ٹیکسی والے کو سمجھایا۔


جی اچھا جناب'۔ ٹیکسی والے نے جواب دیا۔ 


کافی دیر تک وہ ان کا پیچھے کرتے رہے پھر ایک جگہ ان کی گاڑی اچانک رک گئ، اس نے بھی ٹیکسی والے کو رکنے کا کہا۔ وہ پیچھے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر انتظار کرنے لگا اور دیکھنے لگا کہ ان انہوں نے گاڑی کیوں روکی ہے، مگر خیرت انگیز طور پر گاڑی میں سے کوںئ بھی باہر نہ نکلا اور گاڑی آگے چل پڑی۔ اس نے ٹیکسی والے کو کہا، 'گاڑی ذرہ پیچھے رکھنا شاید انہیں شک ہو گیا ہے کہ ان کا کوںئ پیچھا کر رہا ہے۔'


ٹیکسی والا گاڑی کے شیشے میں سے اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوۓ پنجابی لہجے بولا، 'خیریت تو ہے نہ باؤ جی آپ کیوں ان کا پیچھا کر رہے ہو کوںئ خاص بات ہے۔'


تمہیں اس سے مطلب۔۔۔ تم چپ چاپ اپنا کام کرو اور جاؤ' اسجد نے اسے تقریباً ڈانٹنے کے سے انداز سے کہا۔



پھر بھی باؤ جی کوںئ پلس دا چکر تو نہیں ہے ناں؟۔۔۔میں دھاڑی دار بندہ واں جی میں ان چکروں میں پھنسنا نہیں چاہتا جناب۔' اس نے اپنی بات کی وضاخت کرتے ہوۓ کہا۔


اسجد ہنسا، 'کوںئ پولیس کا معاملہ نہیں ہے تم بے فکر رہو۔ یہ میرے جاننے والے ہیں بس میں انہیں ابھی بتانا نہیں چاہتا کہ میں ان کا پیچھا کر رہا ہوں۔' اسجد نے اسے کچھ سچی ، کچھ جھوٹی کہانی سناںئ جسے سن کر وہ مطمئین ہو گیا۔ کافی دیر تک گاڑی مصروف سڑک پر بھاگتی رہی پھر ایک موڑ مڑ گئ آگے جا کر ایک کالونی میں داخل ہو گئ۔ دو چار گلیاں مزید مڑنے کے بعد ایک بڑے سے گھر کے آگے رک گئ۔ انہوں نے بھی اپنی گاڑی پیچھے کچھ فاصلے پر ٹھہرا لی، گاڑی کے ہارن کی آواز آںئ پھر دروازہ کھلا اور گاڑی اندر چلی گئ۔ اسجد نے ٹیکسی والے کو واپس چلنے کو کہا۔


جب وہ گھر پہنچا تو بجلی بند تھی اس لیۓ رضوان کمرے کے باہر ہی کھلی فضا میں بیٹھا تھا۔ اس نے اس کے آتے ہی اس سے پوچھا۔ 'کہاں رہ گۓ تھے لگتا ہے پیچھا کرتے کرتے ان کے گھر تک پہنچ گۓ تھے۔'


اسجد نے اسے ساری کہانی سناںئ جسے سن کر وہ بولا، 'تو اب؟'


اب کیا؟' 


میرا مطلب ہے اب آگے کیا کرنا ہے گھر کا تو پتہ کروا لیا۔'


معلوم نہیں' اس نے کندھے اچکاۓ، 'آگے اب دیکھو کیا بنتا ہے، وہ تو خدا ہی جانے۔' 


تو اس نے تمہیں دیکھا نہیں؟' اس نے پھر سے سوال کیا۔


نہیں۔ میں جان بوجھ کر کچھ فاصلے پر رہا تاکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکے۔' اس نے جواب دیا۔


ویسے یار مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی تم بھی عجیب آدمی ہو، اس وقت تم نے خود اسے جانے دیا اور اب اسے ڈھونڈھ رہے ہو۔'


نہیں یار میں نے۔۔۔خیر چھوڑو۔' اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔


اور یہ کیسی زندگی تم گزار رہے ہو' اس نے اپنی بات جاری رکھی ' کبھی یہاں اور کبھی پتہ نہیں کہاں۔ میری تو مجبوری ہے کہ مجھے نوکری کے لیۓ یہاں اس حالت میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنا پڑ رہا ہے مگر تمہارے پاس تو سب کچھ ہے ہر سہولت ہے پھر تم یہاں کیوں رہ رہے ہو۔؟'


اس نے کوںئ جواب نہ دیا، ساتھ ہی بجلی آگئ اور دونوں اٹھ کر اندر چلے گۓ۔ رضوان جاتے ہی لیٹ گیا جبکہ اسجد نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور باہر آگیا۔ وہ اکثر اپنا کام باہر کھلی فضا میں بیٹھ کر ہی کیا کرتا تھا اور آج تو موسم بھی اچھا تھا۔ کام کرنے کے لیۓ اس نے لیپ ٹاپ کھولا مگر آج اس کا کام کرنے کو بالکل موڈ نہیں تھا بار بار اسے سدرہ کا خیال آرہا تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور سگریٹ سلگانے کے لیۓ لائیٹر جلایا۔ اس نے سوچا کہ ایک سگریٹ پی کر شائد کام کرنے کا موڈ بن جاۓ۔ اس نے سگریٹ جلایا اور ٹانگیں آگے رکھی ایک چھوٹی سی میز پر پھیلا لیں۔ اس نے اوپر دیکھا آسمان ابر آلود تھا مگر کہیں کہیں بادلوں کے بیچ میں خالی جگہ پر اکا دکا ستارے جھانک رہے تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اس نے کرسی کی پشت پر سر ٹکایا اور اوپر سفید بادلوں سے بھرے سیاہ آسمان پر نظریں گاڑ دیں۔ وہ ابھی بھی سدرہ کے متعلق سوچ رہا تھا۔ پھر اک خیال آیا جو اسے اٹھا کر چند سال پیچھے کالج کی سرزمین پر لے گیا۔ وہ کالج کے پھولوں سے بھرے لان میں ایک درخت کو ٹیک لگا کر کھڑا تھا جب وہ آںئ اور اس نے آتے ہی کہا، 'تمہیں یہ آسانی ہے تم پھولوں میں چھپ جاتے ہو۔'


وہ ہلکے سے ہنسا 'ہاں شاید۔'


کاش میں بھی ایسا کر سکتی۔' اس نے بستہ اور کتابیں جو اس نے ہاتھ میں پکڑی تھیں زمین پر پھینکتے ہوۓ کہا۔


تم بھی کر سکتی ہو۔'


نہ جی ہم میں اتنی صلاحیت کہاں۔' وہ مزاق سے بولی۔


اچھا سد' اس نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا، 'میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔'


ہاں تو کرو میں حاضر ہوں۔' وہ نیچے زمین پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔


میں بڑے دنوں سے سوچ رہا تھا اور اس تذبذب میں تھا کہ تم سے کیسے بات کروں۔۔۔پر اب بات کرے بنا کوںئ چارا نہیں۔'


وہ ایک دم سنجیدہ ہو گئ اور دھیان سے اس کی بات سننے لگی۔ وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا، 'بات دراصل یہ ہے کہ۔۔۔میں تم سے شادی نہیں کر سکتا۔'


اس کا خیرت سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ 'مگر کیوں؟ ایسا کیا ہوا؟'


کچھ نہیں ایسا ویسا کچھ نہیں ہوا۔'


تو پھر؟ کیا تم کسی اور سے۔۔۔' وہ جملہ مکمل نہ کر سکی۔


نہیں میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ میں دراصل شادی ہی نہیں کرنا چاہتا۔' 


لیکن کیوں؟' وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئ۔


اس لیۓ کہ میں شادی کو ایک مصیبت سمجھتا ہوں۔'


یہ کیا بکواس ہوںئ؟ تم مزاق کر رہو؟' وہ ہنسی۔ 'چلو ہنسی آگئ اب بند کرو یہ سب۔'


میں مذاق نہیں کر رہا سدرہ۔ میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ ہمارے سماج میں شادی ایک مصیبت، ایک عذاب ہے۔ ایک ایسا گرداب ہے جس میں پھنسے دو لوگ ساری زندگی اس سے نہیں نکل پاتے۔ پوری زندگی وہ اس عذاب کو جھیلنے میں گزار دیتے ہیں مگر انہیں اس سے نجات کا کوںئ راستہ نہیں ملتا۔ ہمارے ہاں تو خود زندگی ہی ایک بہت بڑا عذاب ہے اوپر سے شادی اپنے آپ کو خود بخود ایک مصیبت میں دھکیلنا ہے۔۔۔' وہ درخت سے ہٹ کر دوسری طرف جا کھڑا ہوا، 'لیکن میں اس کا قصوروار نہ تو شادی کو سمجھتا ہوں اور نہ ہی زندگی کو۔ نہ تو زندگی بذات خود کوںئ مسئلہ ہے اور نہ ہی شادی۔۔۔ بلکہ قصوروار ہم خود ہیں، ہم خود بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہمیں آتا ہی نہیں۔ ہمارے اپنے اخلاقی رویے، طور طریقے، چال چلن درست نہیں۔۔۔ ہم خود بدلنا نہیں چاہتے لیکن خواہش رکھتے ہیں کہ اوپر سے کوںئ فرشتہ نازل ہو اور ہماری زندگی کو ٹھیک کر دے۔ ایسا مگر ہو نہیں سکتا۔ جب تک ہم اپنی سوچ، رویے اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ (way of life) نہیں بدلیں گے کچھ نہیں بدلے گا۔' 


لیکن تم یہ سب باتیں اب کیوں کر رہے ہو۔ پہلے بھی تو ایسا کر سکتے تھے اب جب۔۔۔' وہ پھر سے بات کرتے کرتے رک گئ۔


میں نے بہت سوچا سدرہ! اور میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں خود کو اس عذاب میں اس مصیبت میں نہیں دھکیل سکتا۔ میں زندگی بھر ایسا ہی رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔۔۔آج کالج کا آخری دن ہے اس کے بعد شاید ہماری کبھی ملاقات نہ ہو۔ لیکن میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔' وہ اس کے پاس آکر بولا، 'یہ اپنی انگوٹھی۔۔۔' اس نے انگوٹھی اتار کر اسے پکڑاںئ اور مزید کچھ کہے بغیر چلا گیا۔ سدرہ نے اسے پیچھے سے آواز دینا چاہی مگر اس کے خلق سے آواز نہ نکل سکی۔ 


اسجد نے جلن سے ایک دم کراہ کر ہاتھ جھٹکا سوچتے سوچتے اسے دھیان ہی نہ رہا تھا کہ سگریٹ کا شعلہ کب کا جل جل کر اس کی انگلی کے قریب پہنچ گیا ہے جس سے اس کا ہاتھ جل گیا۔ اس رات وہ کافی دیر تک باہر ہی بیٹھا رہا اور وہیں بیٹھے بیٹھے سو گیا صبح ہوںئ تو رضوان نے آکر اسے جگایا۔ 


اگلے دو دنوں تک وہ اسی گھر کے باہر چکر لگاتا رہا مگر اسے سدرہ دوبارہ نہ دکھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس سے ملاقات کی کوںئ صورت پیدا ہو جاۓ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس نے سوچ لیا کہ اب تک تو وہ واپس اپنے شہر لوٹ گئ ہو گی اس لیۓ مزید ایک دو دن وہاں کے چکر لگانے کے بعد اس نے وہاں جانا چھوڑ دیا۔


 ایک دن وہ کسی کام سے ہواںئ اڈے گیا وہاں اس نے کسی کو کوںئ ضروری چیز پہنچانا تھی۔ جیسے ہی وہ اس آدمی سے مل کر باہر خال میں آیا اسے بنچ پر سدرہ بیٹھی ہوںئ نظر آںئ۔ وہ اکیلی بیٹھی تھی۔ اس نے خدا کی طرف اسے مدد جانا، اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ چل کر اس کے پاس گیا۔ لیکن وہ اسے دیکھ کر ذرہ بھی نہ چونکی، وہ بہت خیران ہوا کہ اسے دیکھ کر وہ ذرہ بھی ٹھٹکی نہیں۔ اس نے کوںئ اور ادھر ادھر کی بات کرنے کی بجاۓ اس سے سیدھا سیدھا کہا، 'میں تم سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔'


ہاں کہو' اس نے اسی خالت میں بیٹھے بیٹھے کہا۔


نہیں یہاں نہیں یہاں کافی رش ہے۔ وہ سامنے کیفے ٹیریا ہے وہاں چلتے ہیں۔' وہ ایک طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولا۔


میں کہیں نہیں جاسکتی جو کہنا ہے یہیں کہو۔'


خدا کے لیۓ چلو میں نے تم سے تفصیل سے بات کرنی ہے جو یہاں نہیں ہو سکتی۔' 


وہ اٹھ کھڑی ہوںئ، 'لیکن جلدی میری کچھ دیر میں اڑان ہے۔ مجھے واپس جانا ہے۔' وہ چلتے ہوںئ بولی۔ 


مجھے معلوم ہے۔' وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔ 


کیفے میں زیادہ رش نہیں تھا اس نے ایک جگہ منتخب کی اور دو کپ کافی کا آرڈر دیا۔ سدرہ بیٹھتے ہی بولی  ہاں بولو کیا کہنا چاہتے ہو؟'


اس نے کہنیاں میز پر ٹکائیں اور آگے جھک کر بولا، 'جانتی ہو میں تمہارا کتنے دنوں سے پیچھا کر رہا ہوں؟'


سب جانتی ہوں میں نے تمہیں اس رات بھی دیکھ لیا تھا جب میرج خال کا پتہ پوچھنے کے لیۓ تمہارے پاس گاڑی روکی تھی۔ اور اس رات بھی جب تم بازار میں شاپنگ کے دوران ہمارا پیچھا کر رہے تھے۔'


اس کا جواب سن کر وہ خیران ہو گیا۔ ' تو پھر تم نے ظاہر کیوں نہیں کیا کہ تم نے مجھے پہچان لیا ہے؟'


اس لیۓ کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ساتھیوں کو تمہارے بارے میں پتہ چلے۔۔۔مگر یہ سب چھوڑو تم اپنی بات کرو جو تم کرنے یہاں آۓ ہو۔' اس نے جواب دیا۔


ہاں۔۔۔' وہ کچھ سوچنے لگا پھر بولا، 'مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں تم سے کس طرح بات کروں۔ بات یہ ہے کہ اس دن میں وہ سب تم سے کہہ کر چلا تو گیا مگر کافی دن تمہارے بغیر گزارنے پر مجھے احساس ہوا کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد میں نے تم سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر تم سے رابطہ نہ ہو سکا، پھر کچھ دنوں بعد میں وہ شہر چھوڑ کر چلا آیا۔'


تو اب تم کیا چاہتے ہو؟' وہ ساری بات سن کر بولی۔


میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔'


تو وہ جو تم نے اس دن شادی کے متعلق کہا تھا وہ سب۔۔۔؟' 


وہ سب تو اپنی جگہ مگر میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا، میری شادی کرنے کی وجہ صرف اور صرف تم ہو۔' اس نے جواب دیا۔


وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولی۔ 'اچھا ٹھیک ہے میں نے تمہاری بات سن لی ہے اب میں چلتی ہوں۔' وہ اٹھتے ہوۓ بولی۔


لیکن۔۔' وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ 'کوںئ جواب تو دو'۔


بات تمہاری صحیح ہو گی اسجد۔۔۔مگر بات اصل میں یہ ہے کہ میں اب شادی کرنا نہیں چاہتی۔ یہ نہیں کہ تم سے نہیں چاہتی بلکہ کسی سے بھی کرنا نہیں چاہتی۔ میں بھی اسی طرح رہنا چاہتی ہوں جس طرح تم رہنا چاہتے تھے۔ اچھا خدا خافظ مجھے دیر ہو رہی ہے میں چلتی ہوں۔' اس نے کہا اور آگے بڑھ گئ۔


اس نے اسے پیچھے سے روکنا چاہا مگر وہ نہ رکی اور چلی گئ۔ 


 





 





















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات