Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




 پہلا منظر

دن کا وقت ہے گاڑی کی اگلی نشست پر ایک خوب صورت لڑکی بیٹھی ہے۔ بازو گود میں رکھا ہے، انگلی پر سیاہ رنگ کی بڑی سی انگوٹھی، ناخنوں پر نیل پالش اور کلاںئ پر پہنا کنگن دکھاںئ دے رہا ہے۔ سیاہ رنگ کا ہی خوبصورت لباس پہنے ہوۓ ہے، چہرہ دکھاںئ نہیں دے رہا۔ سر کی پشت سے اندازہ ہوتا ہے کہ لڑکی کھڑکی کے بند شیشے سے باہر جھانک رہی ہے۔ باہر دھوپ ہے اور دوڑتی بھاگتی ٹریفک۔ پھر چہرہ دکھاںئ دیتا ہے۔ وہ خیالوں میں گم ہے اور سڑک پر کسی غیر مرںئ نقطے پر نظریں جماۓ ہے۔ سر کے بال پیچھے کلپ سے بندھے ہیں۔ کندھے پر دوپٹہ ہے۔ کانوں میں کانٹے ہیں۔ کچھ دیر تک وہ ایسے ہی دیکھتی رہتی ہے۔ پھر فون کی گھنٹی بجتی ہے، چونکتی ہے، اردگرد فون تلاش کرتی ہے، پھر جھک کر نیچے پاؤں کے پاس رکھا بیگ اٹھاتی ہے، پاؤں میں بھی سیاہ سینڈل پہنے ہوۓ ہے۔ بیگ کو کھول کر فون نکالتی ہے۔ لڑکی کا نام فرخندہ ہے۔


فرخندہ: (فون پر) ہیلو!۔۔۔جی۔۔۔جی بس پہچنے ہی والے ہیں۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔ 


(فون بند کر دیتی ہے۔ پھر سے باہر دیکھنے لگ جاتی ہے۔ سڑک کے دوسری طرف سے ایک لڑکا دکان سے نکلتا دکھاںئ دیتا ہے اور سڑک عبور کر کے فٹ پاتھ پھلانگ کر اسی کی طرف چلا آتا ہے۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔)


لڑکا: (گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوۓ) کوںئ نہیں ملا۔۔۔ میں نے تمہیں بولا تھا کہ ادھر سے گفٹ کارڈ نہیں ملتے لیکن تمہیں بھی مجھے اتنی گرمی میں پھیرا پڑوانے کا شوق تھا بس۔ (گاڑی آگے بھگا دیتا یے)



دوسرا منظر 


رات کا وقت ہے فرخندہ اکیلی اپنے کمرے میں گم سم بیٹھی ہے۔ کلاںئ پر پہنے کنگن کو بے دھیانی میں گھماۓ جا رہی ہے۔ کہیں دور سے مدھم سی آواز میں ستار بجنے کی آواز آتی ہے۔ فرخندہ  آواز سن کر اٹھتی ہے اور کھڑکی کے پاس جاتی ہے، آواز قدرے بلند ہوتی ہے، کھڑکی سے باہر جھانک کر جلتی روشنیوں سے دور تک کوٹھیوں پر نظریں گھما کر آواز کی سمت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ کچھ دیر تک آواز مسلسل آتی رہتی ہے۔ پھر دروازے پر دستک ہوتی ہے، ایک دم چونکتی ہے اور دروازے کی طرف بڑھتی ہے، آواز آنا بند ہو جاتی ہے۔ دروازہ کھولتی ہے، باہر ایک اور لڑکی رخسانہ کھڑی ہے، وہ دروازہ کھلتے ہی فوراً اندر آتی ہے اور تیز تیز باتیں کرتی ہوںئ بستر پر بیٹھ جاتی ہے۔


رخسانہ: کیا آپی کتنی دیر لگا دی دروازہ کھولنے میں، کب کی آپ گھر آچکی ہیں پر مجھے ملی کیوں نہیں، اور بتایا بھی نہیں کیسی رہی شادی؟ دلہن کیسی تھی، اور یہ کیا، گئ تو آپ بھاںئ قاسم کے ساتھ تھیں اور آںئ آپ بھاںئ دلاور کے ساتھ ہیں قاسم بھاںئ کہاں رہ گۓ؟۔۔۔خیر چھوڑیں یہ بتائیں فواد بھاںئ کیسے لگ رہے تھے خوش تھے کہ نہیں بڑی مشکل سے تو انہوں نے شادی کے لیۓ ہاں کی تھی؟ میں تو سوچ رہی تھی کہیں شادی والے دن ہی مکر نہ جائیں۔


(فرخندہ آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے)


فرخندہ: سانس لو گی بیچ میں کہ بولتی ہی چلی جاؤ گی۔۔۔ (ہاتھ ہٹا کر پیچھے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ) تم وہ براہ راست نشریات ہو جو بغیر کسی وقفے کے مسلسل چلتی رہتی ہے، بغیر کسی کمرشل بریک کے۔۔۔ہاں اب آرام سے باری باری پوچھو کیا پوچھنا ہے؟۔۔۔بلکہ چھوڑو میں خود ہی بتاتی ہوں۔ شادی کا فنکشن بڑا اچھا تھا، دلہا دلہن دونوں پیارے لگ رہے تھے۔ اور بھاںئ قاسم کو کوںئ کام تھا وہ وہاں چلے گۓ اس لیۓ مجھے بھاںئ دلاور چھوڑنے آۓ۔ اب خوش؟


رخسانہ: نہیں ایک بات رہتی ہے۔۔۔آپ مجھ سے مل کر کیوں نہیں آئیں آتے ہی اوپر اپنے کمرے میں کیوں  چلی آئیں؟


فرخندہ: اس لیۓ کہ تم پڑھ رہی تھی اور میں نے تمہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔


رخسانہ: نہیں ایسا نہیں ہو سکتا آپ اور مجھے ڈسٹرب نہ کریں۔۔۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ میں  نہیں مان سکتی، ضرور کوںئ بات ہے۔


فرخندہ: کوںئ بھی بات نہیں، میں تھکی ہوںئ تھی اس لیۓ بھی اوپر آگئ۔ 


رخسانہ: (اس کے چہرے پر نظریں گاڑ کر) نہیں ضرور کوںئ بات ہے۔۔۔


فرخندہ: اچھا ٹھیک ہے تم پھر اندازے لگاتی رہو اور ڈھونڈتی رہو کوںئ بات، اگر مل گئ تو مجھے بتا دینا (صوفے سے اٹھ کر) میں تو چلی سونے۔ 


(بستر پر لیٹ جاتی ہے)



تیسرا منظر


رات کا وقت ہے فرخندہ اپنے کمرے میں لکھنے کی میز پر بیٹھی کچھ لکھ رہی ہے۔ ساتھ ساتھ بولتی بھی جاتی ہے۔


فرخندہ: (لکھتے ہوۓ) اسلم نے جب اس کی آنکھوں میں دیکھا تو اس کی آنکھوں سے دہشت ٹپک رہی تھی۔ اور وہ۔۔۔۔ (رخسانہ دروازہ کھول کر اندر آتی ہے)


رخسانہ: کیا کر رہی ہیں آپی؟ 


فرخندہ: (لکھنا جاری رکھتی ہے) دکھاںئ نہیں دے رہا لکھ رہی ہوں۔



رخسانہ: وہ تو دکھاںئ دے ہی رہا ہے پر لکھ کیا رہی ہیں؟۔۔۔اچھا پھر کوںئ افسانہ لکھ رہی ہوں گی۔ ذرہ مجھے بھی تو بتائیں کیسی کہانی ہے؟


فرخندہ: ابھی مکمل نہیں ہوںئ جب مکمل ہو گی تب دوں گی پڑھ لینا۔


رخسانہ: نہ جی نہ مجھے تو پڑھنے کا ذرہ مزا نہیں آتا مجھے تو آپ کی زبانی کہانی سننا اچھا لگتا ہے۔


فرخندہ: اچھا بابا جب مکمل ہو گی تو سنا دوں گی۔ اب تم جاؤ اور مجھے لکھنے دو۔


رحسانہ: وہ تو میں چلی جاؤں گی پر۔۔۔


فرخندہ: کیا پر؟


رخسانہ: کچھ نہیں ، میں چلی۔ (بھاگ جاتی ہے)


فرخندہ: (پیچھے سے آواز دیتی ہے) بتا کر تو جاؤ کیا بات ہے۔ 


( ادھر سے کوںئ جواب نہیں آتا رخسانہ چلی جاتی ہے۔ وہ سر جھٹک کر دوبارہ لکھنے میں مشغول ہو جاتی ہے۔ اچانک نیچے کسی چیز کے زور سے گرنے کی آواز آتی ہے۔ جلدی سے اٹھ کر کھڑکی کی جانب جاتی ہے نیچے دیکھتی ہے، نیچے ایک لڑکا اس کے گھر کی دیوار کے پاس سے بھاگتا ہوا سڑک عبور کر کے دوسری جانب سامنے والے گھر میں گھس جاتا ہے۔ مگر وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پاتی وہ صرف پیچھے سے بھاگتا ہوا دکھاںئ دیتا ہے۔ وہ خیران صورت لیۓ واپس پلٹ آتی ہے۔)


چوتھا منظر


رات کا وقت ہے فرخندہ اپنے کمرے میں ہی بستر پر بیٹھی ہے۔ ہاتھ میں شاعری کی کتاب ہے، ساتھ ہی میز پر کافی یا چاۓ کا کپ پڑا ہے جس میں سے بھاپ اڑ رہی ہے۔ کافی کا ایک سپ لیتی ہے پھر بلند آواز سے مصرع پڑھتی ہے، 


فرخندہ: تم آۓ ہو نہ شب انتظار گزری ہے'۔ (کتاب کے بیچ میں شہادت کی انگلی رکھ کر کتاب بند کر دیتی ہے، پھر خیال میں کہیں کھوۓ کھوۓ انداز میں مصرع دوبارہ پڑھتی ہے جیسے اپنے آپ کو سنا رہی ہو۔ 



فرخندہ: (ذرہ مزید بلند آواز سے) تم آۓ ہو نہ شب انتظار گزری ہے۔۔۔


 (اچانک سے پھر سے ستار بجنے کی آواز سناںئ دیتی ہے۔ بھاگ کر کھڑکی کی جانب جاتی ہے۔ نیچے دیکھتی ہے مگر کوںئ دکھاںئ نہیں دیتا۔ سڑک کے پار سامنے گھر میں جس میں لڑکا بھاگ کر گیا تھا دیکھتی ہے اوپر کی منزل میں کھڑکی میں سے کسی کا سایہ دکھاںئ دیتا ہے۔ موبائل کی گھنٹی بجتی ہے، بیڈ پر آکر فون اٹھاتی ہے۔


فرخندہ: (فون پر) ہیلو!۔۔۔جی کون؟


(دوسری طرف سے کسی لڑکے کی آواز آتی ہے۔) 


لڑکا: صرف ستار سننا پسند کرتی ہیں یا ستار بجانے والے میں بھی کوںئ دلچسپی رکھتی ہیں؟


فرخندہ: جی کیا مطلب! آپ کون بول رہے ہیں؟


لڑکا: وہی ستار والا جس کے ستار کی آواز سننے کے لیۓ آپ روزانہ کھڑکی پر آتی ہیں۔


فرخندہ: آپ کون ہیں اور کہاں سے بول رہے ہیں؟ اور میرا نمبر آپ کو کہاں سے ملا؟


لڑکا: ایک ساتھ اتنے سوال۔۔۔ اچھا چلیں پہلے دو سوالوں کا جواب تو میں آپ کو دے دیتا ہوں ، میں کون ہوں اور کہاں سے بول رہا ہوں؟۔۔۔بول تو میں آپ کے گھر کے بالکل سامنے والے گھر سے رہا ہوں جس کی کھڑکی میں ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ مجھے تلاش کر رہیں تھیں۔ 


(فرخندہ وہیں کھڑے کھڑے کھڑکی سے سامنے گھر کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتی ہے)


 نام میرا فرخان ہے، اور فی الحال میں کچھ نہیں کرتا، ابھی حال ہی میں یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے فارغ ہوا ہوں اور مشغلے کے طور پر ستار بجاتا ہوں۔ اب آپ سوچ رہی ہوں گی کہ اس دور میں جب سب نوجوان لڑکے لڑکیاں گٹار اور پیانو وغیرہ کا شوق رکھتے ہیں میں وہاں ستار کیوں بجاتا ہوں۔۔۔ تو یہ ایک الگ داستان ہے جو پھر کبھی۔۔۔ ویسے اب لگتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں جو اس کا شوق رکھتا ہوں بلکہ کچھ (معنی خیز انداز میں) اور لوگ بھی ہیں جو دور سے ستار کی آواز سن کر محذوز ہوتے ہیں۔


فرخندہ: یہ سب تو ٹھیک ہےمگر پھر بھی آپ کو یہ تو بتانا ہی پڑے گا کہ آپ کو میرا نمبر کیسے ملا اور آپ نے مجھے فون کس مقصد سے کیا ہے؟


فرحان: اب نمبر کیسے ملا یہ سوال تو آپ نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے اس کا جواب تو میں آپ کو شاید نہ دے سکوں۔ اور رہی یہ بات کہ میں نے آپ کو کیوں فون کیا ہے تو یہ تو آپ اپنے دل سے پوچھیں آپ  نے ہمیں پکارا اور ہم چلے آۓ۔


فرخندہ: میں نے آپ کو کب پکارا؟


فرحان: میرا مطلب ہے آپ کے دل نے پکارا۔


فرخندہ: اچھا تو آپ دلوں کے حال بھی جانتے ہیں؟


فرحان: سب کے نہیں صرف آپ کے دل کا۔


فرخندہ: کیوں میرے دل میں ایسا کون سا ٹرانسمیٹر فٹ ہے جو آپ کو اس کی ساری اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ یہ خاص مہربانی صرف میرے دل سے متعلق کیوں؟ 


فرحان: اس لیۓ کہ یہ دل (اپنی طرف اشارہ کرکے) جو یہاں ہے وہ مجھے آپ کے دل کی ساری معلومات پہنچاتا ہے، مگر دوسروں کی دفعہ یہ خاموش رہتا ہے۔


فرخندہ: (صوفے پر بیٹھتے ہوۓ) تو آپ کو غلط فہمی ہوںئ ہے کیونکہ شاید آپ کا دل آپ کو ساری غلط خبریں پہنچاتا ہے۔


فرحان: مجھے کوںئ غلط فہمی نہیں ہوںئ اور میرے دل کی ایک ایک خبر مکمل تصدیق شدہ ہے اور بالکل سچ ہے۔


(دروازے پر دستک ہوتی ہے)


فرخندہ: (چونک کر) اچھا ٹھیک ہے فون بند کریں کوںئ آیا ہے میں جارہی ہوں۔



فرحان: ٹھیک ہے پھر بات ہو گی۔


فرخندہ: نہیں کبھی نہیں ہو گی۔


(فرحان ہنس کر فون بند کر دیتا ہے۔)


پانچواں منظر


ایک کمرا ہے جس میں بستر پر ایک ساٹھ پینسٹھ برس کا ایک آدمی یوں لیٹا ہے کہ سر اور کندھے اوپر اٹھے ہوۓ ہیں اور پیچھے تکیے سے ٹیک لگاۓ ہوۓ ہے۔ پاس ہی کرسی پر تقریباً اسی عمر کا ایک آدمی بیٹھا ہے۔ آدمی نے کانوں میں اسٹیتھوسکوپ لگا رکھا ہے اور لیٹے ہوۓ آدمی کا معائنہ کر رہا ہے۔


آدمی: بس ڈاکٹر صاحب رب کا دیا سب کچھ ہی ہے میرے پاس ،ا گر حساب لگایا جاۓ تو اب تک کی زندگی اچھی ہی گزر گئ۔۔۔ اب اس عمر میں اور تو کچھ چاہیۓ نہیں بس دعا ہے کہ آگے کی زندگی میں آپ کو زخمت کم ہی دینی پڑے۔۔۔ ویسے بھی میرا ماننا ہے کہ آدمی کی زندگی چاہے پرتعیش نہ گزرے پر پرسکون ضرور گزرے۔ آدمی کے پاس جاہ و خشمت اور مال و اسباب بے شک نہ ہو مگر زندگی پر سکون اور خوشگوار ہو۔ میں تو دنیا میں کامیاب زندگی اسی کو سمجھتا ہوں۔ 


ڈاکٹر اسٹیتھواسکوپ اتار کر بلڈ پریشر چیک کرنے کا آلہ بازو پر لگاتا ہے۔)  


ڈاکٹر: جی بلکل بجا فرمایا آپ نے صدیق صاحب۔ پر بات یہ ہے صدیق صاحب کہ مال واسباب کے بغیر پر سکون اور خوشگوار زندگی گزارنا خاصا مشکل ہے بلکہ کبھی کبھی تو ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور اس دور میں جہاں پیسے کے بغیر ایک گلاس پانی تک نہیں ملتا وہاں تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔


آدمی: آپ کی بات بالکل صحیح ہے ڈاکٹر صاحب روپے پیسوں کے بغیر تو آج کل کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا پر دیکھئے نہ اس کی بھی کوںئ حد تو ہونی چاہیۓ۔ 


(ڈاکٹر بلڈ پریشر کا آلہ بازو سے اتار کر رکھتا ہے)


آدمی: بی پی کیسا ہے؟


ڈاکٹر: تھوڑا سا زیادہ ہے بس تھوڑی کھانے پینے میں اختیاط کرنی ہو گی باقی سب ٹھیک ہے۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں آپ منگوا لیجیۓ گا۔ 


(کمرے کا دروازہ کھلتا ہے فرخندہ اندر داخل ہوتی ہے، کندھے پر بیگ لٹک رہا ہے)


فرخندہ: سلام و علیکم ڈاکٹر صاحب، سلام و علیکم ابو۔ 


آدمی: آؤ بیٹا آؤ۔۔۔ لگتا ہے کہیں جانے کی تیاریاں ہیں؟


فرخندہ: جی ابو کچھ کتابیں چاہیۓ تھیں بس وہ لینے جارہی ہوں۔ مجھے آپ کی گاڑی کی چابی چاہیۓ تھی ذرہ؟ 


آدمی: (سائڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کرکے) ہاں لے جاؤ یہ پڑی ہے۔ (ڈاکٹر سے مخاطب ہو کر) یہ میری بڑی بیٹی ہے فرخندہ۔ 


ڈاکٹر: جی میں جانتا ہوں ایک آدھ بار مل چکا ہوں۔ پر آپ کی جو چھوٹی بیٹی ہے رخسانہ اس سے کئ بار ملا ہوں۔ بہت تیز، اور ذہین بچی ہے ماشاءاللّٰه‎۔


(فرخندہ چابی اٹھاتی ہے جانے لگتی پر ڈاکٹر صاحب اسے پکارتے ہیں)


ڈاکٹر: اور فرخندہ بیٹا کیا ہو رہا آج کل پڑھاںئ وغیرہ؟


فرخندہ: جی ڈاکٹر صاحب ابھی ابھی امتخانات سے فارغ ہوںئ ہوں اللّٰه‎ کا شکر ہے اچھے ہو گۓ۔


ڈاکٹر: یہ تو اچھی بات اللّٰه آپ کو‎ کامیاب کرے۔۔۔

 (اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوۓ) اچھا صدیق صاحب اب مجھے اجازت دیجئیے کافی دیر ہو گئ ہے ابھی میں نے کلینک سے ہو کر پھر گھر جانا ہے۔ یہ دوائیاں میں نے لکھ دی ہیں (فرخندہ سے مخاطب ہو کر) فرخندہ بیٹی یہ ابو کو لاکر کھلا دینا شام تک طبعیت بالکل ٹھیک ہو جاۓ گی۔۔۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ خدا خافظ۔


( باہر نکل جاتا ہے)


چھٹا منظر


فرخندہ کتابوں کی دکان پر اپنی کسی دوست کے ساتھ کھڑی ہے، بڑے بڑے ریکس میں کتابیں سجی ہیں جنہیں فرخندہ باری باری اٹھا کر ان کے سر ورق پر نظر ڈالتی ہے پھر رکھ دیتی ہے۔ اس کی دوست ساتھ کھڑی باتیں کر رہی ہے۔


لڑکی: پر یار جو بھی ہے مجھے تو لگتا ہے لڑکا اچھا ہے۔


فرخندہ: تم نے اسے دیکھا ہے نہیں تو تمہیں کیسے لگتا ہے کہ وہ اچھا ہے؟


لڑکی: جیسے تم نے بتایا اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ لڑکا اچھا ہے۔ 


فرخندہ: ہاں تمہیں تو ایسے ہی لگتا رہتا ہے تمہارے اندازے آج تک کبھی صحیح بھی ہوۓ ہیں؟


لڑکی: صحیح ہوۓ یا نہیں لیکن مجھے یقین ہے یہ ضرور صحیح ہو گا۔


فرخندہ: اچھا چلو دیکھتے ہیں۔ 


(دو تین کتابیں منتخب کرتی ہے اور کاؤنٹر پہ دیتی ہے ،بل ادا کرتی ہے اور دونوں باہر نکل آتیں ہیں۔)


لڑکی: چلو کہیں چل کر کافی پیئیں۔ 


فرخندہ : ہاں ٹھیک ہے چلو۔


ساتواں منظر:


رات کا وقت ہے فرخندہ اپنے کمرے میں بیٹھی کوںئ کام کر رہی ہے۔ بار بار کبھی کھڑکی کی جانب دیکھتی ہے اور کبھی موبائل چیک کرتی ہے۔ اچانک ستار بجنے کی آواز آتی ہے جلدی سے اٹھ کر کھڑکی کی جانب جاتی ہے۔ سامنے گھر میں دیکھتی ہے مگر کوںئ دکھاںئ نہیں دیتا۔ پھر ایک دم وہی سایہ دکھاںئ دیتا ہے۔ ستار کی آواز آنا بند ہو جاتی ہے اور فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ واپس جا کر بیڈ سے فون اٹھاتی ہے۔


فرخندہ: ہیلو۔۔۔!


(دوسری طرف سے وہی لڑکا بولتا ہے)


فرخان: کیسی لگی آج میری ستار کی پرفارمنس؟ آج تو کافی دنوں بعد پورے دل سے بجایا ہے۔


فرخندہ: کیوں آج ایسی کیا بات ہے؟


فرخان: آج نہیں خاص بات تو کل تھی۔ 


فرخندہ: تو پھر آج اتنے دل سے بجانے کی وجہ؟


فرخان: کیونکہ کل کی خوشی کا اثر ابھی تک جو قائم ہے۔ 


فرخندہ: کیوں ایسا کیا ہوا تھا کل؟


فرخان: کسی سے آدھی ملاقات جو ہوںئ تھی۔


فرخندہ: آدھی ملاقات۔۔۔؟


فرخان: بھئ فون پر بات کو آدھی ملاقات ہی بولیں گے۔


فرخندہ: اچھا تو ہھر آج آپ نے کس مقصد سے فون کیا؟


فرخان: وہی۔۔۔ !! آدھی ملاقات کے لیۓ۔ 


فرخندہ: اچھا ہو گئ آدھی ملاقات اب آپ جا سکتے ہیں۔


فرخان: نہیں ابھی آدھی ملاقات پوری کہاں ہوںئ ہے۔


فرخندہ: تو آپ کا مقصد بھی تو پوری نہیں بلکہ آدھی ملاقات ہی ہے۔


فرخان: تو فون پر پوری ملاقات کو ہی آدھی ملاقات بولیں گے ناں۔


فرخندہ: لیکن میں اس سے زیادہ بات نہیں کر سکتی۔


فرخان: تو پھر ملاقات پوری کیسے ہوگی۔۔۔نہیں میرا مطلب ہے آدھی کیسے ہوگی۔ (مسکراتا ہے)


فرخندہ: کوںئ ضرورت ہی نہیں ملاقات کی۔


فرخان: دیکھیۓ فرخندہ صاحبہ! بلکہ دیکھیۓ نہیں سنیے۔۔۔ زندگی میں بہت سے کام اور معاملات ایسے ہوتے ہیں جو بلا ضرورت کیۓ جاتے ہیں بلکہ ان کی ضرورت نہ ہوتے ہوۓ بھی یہ بہت ضروری ہوتے ہیں۔


فرخندہ: (مسکراتی ہے) اچھا جی!


فرخان: جی ہاں۔



ساتواں منظر:


ایک وسیع و عریض پارک یا باغ ہے۔ فرخندہ ایک پتھر کے بنچ پر  اکیلی بیٹھی ہے۔ درمیان میں گول میز ہے جس کے دوسری طرف اک اور بنچ ہے۔ کچھ فاصلے پر دو عورتیں نیچے گھاس پر بیٹھی ہیں۔ ان کے ساتھ ہی دو چھوٹے چھوٹے بچے آپس میں کھیل رہے ہیں۔ بچے چھلانگیں لگا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ایک عورت آواز لگاتی ہے۔ 


عورت: آجاؤ نومی بیٹا۔۔۔ اب چلیں کافی دیر ہو گئ ہے۔


(دونوں بچے بھاگتے ہوۓ ان کے پاس آجاتے ہیں۔ دونوں اٹھتی ہیں بچوں کو لیتی ہیں، فرخندہ کی طرف اک نگاہ کرتی ہیں، فرخندہ مسکراہٹ سے جواب دیتی ہے، پھر وہ دونوں چلی جاتی ہیں۔ ان کے جاتے ہی فرخان اک جانب سے نمودار ہوتا ہے۔)


فرخان: (آتے ہی، پاس بیٹھتے ہوۓ) سوری سوری سوری۔۔۔تھوڑی سی دیر ہو گئ۔ 


فرخندہ: (منہ بناتے ہوۓ، ناراضی سے) تھوڑی سی دیر۔۔۔یہ تھوڑی سی دیر ہے۔ پچھلے پونے گھنٹے سے میں یہاں بیٹھی ہوں اور تمہیں یہ تھوڑی سی دیر لگتی ہے۔


فرخان: تو یہ تو تھوڑی سی دیر ہی ہوںئ لوگ تو دو دو گھنٹے تاخیر سے آتے ہیں۔


فرخندہ: ہاں یہ صحیح ہے ہر بات کو مذاق میں ٹال دیا کرو۔


فرخان: اچھا چلو اب ایسی بھی کیا بات ہوںئ۔۔۔میں کیا کرتا پہلے گھر میں ابو نے کسی کام سے روک لیا تھا پھر جب آیا تو پولیس وارڈن نے روک لیا۔ کہتا ہے گاڑی کہ کاغذات دکھاؤ اور اس وقت میرے پاس کاغذات تھے ہی نہیں۔


فرخندہ: تو پھر جان کیسے چھوٹی؟


فرخان: (ہاتھ سے پیسوں کا اشارہ کرتا ہے) اسی طرح جس طرح سب کی چھوٹتی ہے۔ 


فرخندہ: (خیرانی سے) تم نے اسے رشوت دی؟


فرخان: نہیں جرمانہ۔ 


فرخندہ: میرے خیال میں اسے رشوت ہی کہتے ہیں۔


فرخان: تو تمہارا خیال ہے میں کیا کر سکتا ہوں۔


فرخندہ: تمہیں ذرہ شرم نہیں آںئ۔ 


فرخان: جب اسے لیتے ہوۓ کوںئ شرم نہیں آںئ تو مجھے دیتے ہوۓ کیوں آتی۔ اور ویسے بھی آج کل تو ہر چیز بکتی ہے۔ ہر چیز کاروبار بن چکی ہے۔  تعلیم، آرٹ، ادب، صخت ہر شعبہ کاروبار بن چکا ہے۔ جہاں ہر چیز بک رہی ہے وہاں اگر ایک معمولی سا سپاہی بک گیا ہے تو پھر کیا ہو گیا۔ 


فرخندہ: اچھا اب چھوڑو اپنی یہ سب بکواس اور کوںئ اور بات کرو پہلے ہی میرا موڈ خراب کر دیا ہے۔


فرخان: چلو چھوڑ دی۔۔۔کچھ کھاؤ گی؟


فرخندہ: ہاں ضرور کھاؤں گی بڑی سخت بھوک لگی ہے، تمہارا انتظار کر کر کے مجھے بھوک لگ گئ ہے۔


فرخان: وہ تو ٹھیک پر یہاں سے کچھ نہیں ملے گا پارک کے دوسرے کونے میں کنٹین ہے وہاں جانا پڑے گا۔ 


فرخندہ: پھر ابھی رہنے دو جاتے وقت کچھ لے لیں گے۔


فرخان: چلو ٹھیک ہے۔


فرخندہ: اچھا یاد ہے آج کیا تاریخ ہے؟


فرخان: کیا؟


فرخندہ: آج سولہ تاریخ ہے۔


فرخان: تو۔۔۔؟


فرخندہ: تو آج ہی کے دن ہماری پہلی بار ملاقات ہوںئ تھی۔ سولہ تاریخ کی رات کو تم نے مجھے پہلی بار فون کیا تھا۔


فرخان: ہاں تو پھر یوں کہو نہ آدھی ملاقات ہوںئ تھی۔ ویسے وہ بھی کیا دن تھے، کتنی مشکل سے میں نے تمہارا نمبر حاصل کیا تھا اور تم سے بات کی تھی۔ 


فرخندہ: ہاں، مجھے تو بالکل توقع نہیں تھی کہ تمہارا یوں فون آۓ گا۔ مگر تم نے ہمت دکھاںئ اور میرا نمبر حاصل کرکے فون کر ہی دیا۔


فرخان: جی ہاں ! اور اگر تم پر ہوتا تو پھر تو ابھی تک کچھ بھی نہ ہوتا۔۔۔مجھے تو تم لڑکیوں کی سمجھ نہیں آتی جو تم چاہتی ہو یا جسے تم پسند کرتی ہو اس سے اظہار کرنے میں تم پہل کیوں نہیں کرتیں تم یہ کیوں توقع رکھتی ہو کہ لڑکا پہلے سمجھے اور وہی اظہار کرے۔ وہی شادی کے لیۓ پرپوز کرے اور وہی رشتہ بھیجا، یہ سب تم لڑکیاں بھی تو کر سکتی ہو۔


فرخندہ: کر سکتی ہیں مگر اس لیۓ نہیں کرتیں کہ ہمارے سماج میں لڑکیوں کا اس طرح اظہار کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا، اگر وہ ایسا کرے تو پھر تم لوگ ہی اس کے کردار پر شک کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ جو لڑکی خود لڑکے کے ساتھ اس طرح بات کر سکتی ہے وہ یقیناً اور بھی لڑکوں کے ساتھ فری ہو گی ۔۔۔ تم لوگ ایسی بے باک یا جرات مند لڑکی کو اپنی محبوبہ یا گرل فرینڈ تو بنا لیتے ہو مگر جس سے تم نے شادی کرنی ہو جسے اپنی بیوی بنانا ہو اس کے بارے میں تم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس لیۓ لڑکی اظہار میں پہل کرنے سے ڈرتی ہے کہ کہیں اسے غلط نہ سمجھ لیا جاۓ۔


فرخان: (کچھ سوچتے ہوۓ) ہاں یہ بات تو ہے۔ اچھا چلو یہاں سے چلیں بھوک کافی لگ گئ ہے۔ 


(دونوں اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور باتیں کرتے کرتے ایک طرف کو چل پڑتے ہیں۔ ایک آدمی اور ایک عورت پاس سے گزرتے ہیں، وہ انہیں دیکھ کر خیران ہوتے ہیں، عورت ہاتھ کی انگلی ماتھے تک لے جا کر آدمی کو اشارہ کرکے بتاتی ہے کہ یہ پاگل ہیں یا ان کا دماغی توازن درست نہیں۔ فرخندہ عورت کا اشارہ دیکھ لیتی ہے اور خیران ہوتی ہے کہ عورت کو ایسا کیوں لگا مگر خاموش رہتی ہے اور فرخان کو اس بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔) 


آٹھواں منظر


فرخندہ اپنے کمرے میں بیٹھی کچھ پڑھ رہی ہے اور ایک ملازمہ اس کے کمرے کی جھاڑ پونچھ کر رہی ہے۔ فرخندہ کتاب سے سر اٹھاتی ہے کچھ سوچتی ہے پھر ملازمہ کو مخاطب کرکے کہتی ہے۔


فرخندہ: ریشماں۔۔۔


ملازمہ: جی بی بی جی؟


فرخندہ: تم نے کبھی سامنے والے گھر والوں کے ہاں بھی کام کیا ہے۔ میرا مطلب ہے تم انہیں جانتی ہو؟


ملازمہ: سامنے گھر والے کون جی وہ الیاس صاحب؟


فرخندہ: ہاں جن کے گھر سے ستار بجنے کی آواز آتی ہے۔


ملازمہ: آتی تھی بی بی جی اب کہاں آتی ہے۔


فرخندہ: کیا مطلب اب کبھی نہیں آںئ؟


ملازمہ: (خیران ہو کر) اب کیسے آںئ گی بی بی جی۔ 


فرخندہ: (خیرت سے) کیوں اب کیا ہوا؟


ملازمہ: آپ بھی بی بی جی کمال کرتی ہیں آپ کتابوں میں الجھی رہتی ہیں اور اردگرد کا آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اچھا میں بتاتی ہوں۔ الیاس صاحب کے بیٹے فرخان صاحب روزانہ اپنے اوپر والے کمرے میں رات کے وقت اپنا باجا جو بھی اس کا نام تھا، ہاں ستار بجایا کرتے تھے ایک رات وہ اسی طرح ستار بجا رہے تھے کہ انہوں نے اپنی کھڑکی کے باہر نجانے کیا دیکھا، معلوم نہیں انہیں کیا نظر آیا وہ ستار چھوڑ کر نیچے اترنے لگے ان کا ایک دوست بھی ان کے پاس بیٹھا تھا اس نے انہیں نیچے اترتے دیکھا تو پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو تو انہوں نے اسے بس اتنا کہا کہ میں دو منٹ میں آیا تم بیٹھو۔ وہ نیچے اترے اور سڑک پار کرکے ادھر ہمارے گھر کی طرف آۓ۔ ادھر کچھ دیر کھڑے رہے پتہ نہیں انہوں نے ادھر کیا کیا پھر بھاگ کر واپس اپنے گھر چلے گۓ۔ کچھ ہی دیر بعد ہاتھ میں کوںئ کاغذ لیۓ تیزی سے باہر نکلے اور اتنی جلدی میں تھے کہ سڑک پار کرتے وقت انہیں خیال ہی نہ رہا کہ ایک گاڑی ادھر سے تیز رفتاری سے آرہی ہے۔ گاڑی انہیں ٹکر مارتے ہی بھاگ گئ۔۔۔(بستر پر بیٹھتی ہے) ڈاکٹروں نے بڑی کوشش کی پر وہ بچ نہیں پاۓ۔ 


(فرخندہ ایک دم اچھلنے کے انداز میں اٹھتی ہے)


فرخندہ: کیا بکواس کر رہی ہو؟ کب کی بات ہے یہ؟


ملازمہ: بی بی جی اس بات کو کافی عرصہ گزر گیا ہے۔


(فرخندہ غیر یقینی کے عالم میں کھڑکی کے پاس آتی ہے۔ ستار کی آواز پھر سے آنے لگتی ہے، فرخندہ نیچے دیکھتی ہے، نیچے فرخان کھڑا ہاتھ سے الوداع کا اشارہ کر رہا ہے، اس کی پلکوں پر نمی ہے۔ فرخندہ کی آنکھ سے پانی کا ایک قطرہ چھت سے نیچے گرتا ہے جسے فرخان اپنی ہتھیلی پر روک لیتا ہے۔ مٹھی بند کرتا ہے اور ایک دم سے غائب ہو جاتا ہے۔)







































Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات