Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




 جب سورج قدرے ٹھنڈا ہوا اور ساۓ کچھ لمبے ہوۓ  تو سب کی توقع کے عین مطابق بابا نورا ٹھیک سپہر کے وقت گلی ایک طرف سے کندھے پر پاپڑوں کا ٹوکرا اٹھاۓ اپنی مخصوص صدا کے ساتھ برآمد ہوا۔ اس کی صدا سنتے ہی سب بچے اس کی طرف دوڑ پڑے اور وہ سب کو پچکارتے ہوۓ، لاڈ کرتے ہوۓ اپنے تھیلے میں سے گول گول پاپڑ نکال کر سب کی فرمائش کے مطابق اوپر سیاہ نمک چھڑک کر پیش کرتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا، 'آرام نل، سہجے نل، اے لے میرا پتر اے تیرے وسطے، تے اے تے خاص میری دھی رانی وسطے، کل میری دھی رانی پاس ہوںئ اے لے اک ہور باے دی طرفوں تخفہ۔' 


بابا کا یہ معمول تھا، اس کے پھیرے کی طرح اس کے تخفوں میں بھی شاید ہی کبھی ناغہ ہوا تھا کیونکہ روزانہ ہی کبھی کوںئ دھی رانی پاس ہوتی تھی یا کبھی کسی پتر کا سیپارا مکمل ہوتا تھا اور کبھی کوںئ اور بات نکل آتی تھی۔ آندھی ہو طوفان ہو بابا نورا عین سپہر کے وقت گلی میں آموجود ہوتا تھا۔ سنتے آۓ تھے کہ محنت اور مستقل مزاجی سے ترقی اور کامیابی ملتی ہے مگر قدرت شاید بابا نورا پر یہ اصول لاگو کرنا بھول گئ تھی۔ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے بابانورا پاپڑ بیچتا چلا آرہا تھا۔ بس ایک بار چند ہفتوں کے لیۓ وہ نہ آیا پایا تھا جب اس کی طبعیت خاصی بگڑ گئ تھی یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا مگر پھر وہ تندرست ہو گیا اور دوبارہ اپنے کام میں لگ گیا۔ اس کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے جوان تھے اور خود محنت مزدوری کرتے تھے انہوں نے بابا کو کئ دنوں تک بڑی مشکل سے روکے رکھا کہ اب وہ کام پر نہ جاۓ مگر ایک دن صبح سویرے پو پھٹتے ہی جب باقی سب گھر والے سو رہے تھے بابا اٹھا اور تیاری شروع کر دی۔ اپنا تھیلا اور باقی ضروری چیزیں تیار کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیا اور جب مکانوں کے پرے سے سورج نے ہلکی سی جھلک دکھلاںئ اور اس کی کرنیں دھرتی پر پہنچیں تو  وہ اٹھ کھڑا ہوا اور گھر والوں کو بتاۓ بغیر باہر نکل گیا۔ وہ کافی دنوں بعد گھر سے باہر نکلا تھا اس لیۓ وہ اردگرد ایک ایک مکان اور ایک ایک دکان کو بڑے انہماک سے دیکھتا چلا جا رہا تھا۔ انہی گلیوں میں ہی تو وہ دن بھر گھوم پھر کر پاپڑ بیچا کرتا تھا اور اب ہفتوں بلکہ مہنیوں بعد آنے پر بھی اسے ذرہ بھی اجنبیت محسوس نہیں ہو رہی تھی وہ سوچ رہا تھا یہ گلیاں تو اس کی اپنی ہیں جو اسے جانتی ہیں ، اسے پہچانتی ہیں۔ 


چلتے چلتے وہ بازار میں اپنی مخصوص دکان پر پہنچ گیا جہاں سے وہ سامان خریدا کرتا تھا مگر دکان ابھی بند تھی، چند ایک دیگر دکانیں ابھی کھلنا شروع ہوئیں تھیں اسے احساس ہوا وہ کافی جلدی آگیا ہے۔ وہ وہیں بند دکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک وہ وہیں بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ اردگرد کی کافی دکانیں اب کھل چکی تھیں اور بازار میں قدرے چہل پہل شروع ہو گئ تھی۔ ان میں سے کچھ لوگ بابا نورا کو جانتے تھے وہ سب باری باری اس کے پاس آکر اس کا حال احوال دریافت کرتے جاتے تھے۔ کچھ دیر بعد شوکت بھی آگیا جس کا انتظار اس کی دکان کے باہر تھڑے پر بیٹھ کر بابا نورا کر رہا تھا۔ دونوں بہت اچھے دوست تھے، برسوں سے بابا نورا اس کی دکان سے مال خرید رہا تھا۔ اس نے بابا کو دیکھتے ہی اسے گلے لگا لیا۔ 


یار نورے' وہ بولا 'تو نے بڑے دن لگا دیۓ چنگا ہونے میں، میں تو سمجھا تھا کہ اب تو کبھی یہاں نہیں آ پاۓ گا۔'


بس یار اس کا کرم ہے، اس نے مجھے پھر سے زندگی دے دی۔' بابا نے کہا۔


چل اندر آ اندر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔' اس نے دکان کا شٹر کھولا اور اندر چلے گۓ۔ 


ویسے تو آیا کیسے، تیرے بچوں نے تجھے روکا نہیں؟' شوکت نے اس سے پوچھا۔


بڑا روکا انہوں نے پر آج میں ان سب کو بتاۓ بغیر چپکے سے نکل آیا۔'


چل وہ تو ٹھیک ہے پر اب تو پھیری کیسے لگاۓ گا میری مان تو یہ پھیری والا کام چھوڑ اور کوںئ ٹھکانہ ڈھونڈ کر کسی ایک جگہ بیٹھ کر ہی دھندہ کیا کر۔' شوکت نے اسے راۓ دی۔


چل دیکھتے ہیں یارا ابھی تو آیا ہوں' وہ بولا 'چند دن تو ایسے ہی چلتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کدھر دانہ پانی لکھا ہے۔'


اس دن کے بعد سے بابا نورا نے باقاعدگی سے پھیری لگانا شروع کر دی تھی۔ محلے میں سب اسے جانتے تھے۔ کچھ اس کے ہم عمر تھے جو اسے تب سے جانتے تھے جب بابا ابھی جوان تھا۔ جو جوان تھے وہ بھی اسے تب سے جانتے تھے جب وہ خود پچھلے پہر گلی میں کھیلنے کے لئے نکلتے تھے اور بابا نورا کی صدا سنتے ہی اس کی طرف دوڑ لگا دیتے تھے۔ ان میں سے جو بچیاں تھیں وہ اب شادی کے بعد محلہ چھوڑ کے جا چکی تھیں اور جو لڑکے تھے اب ان کے بھی بال بچے تھے جنہوں نے ان کی جگہ سنبھال لی تھی۔ پچھلے کئ برسوں میں بابا کے معمول میں تو کوںئ خاص فرق نہیں آیا تھا مگر اس کے خدوخال کافی حد تک بدل گۓ تھے، اب بابا کے داڑھی اور سر کے بال سفید ہو گۓ تھے، منہ اور ماتھے پر جھریوں نے بسیرے کر لیا تھا، چال میں لڑکھڑاہٹ آ گئ تھی اور ہاتھوں میں رعشہ تھا۔ 


بابا نے جب ایک بچی کو پاپڑ پکڑایا تو اسے غور سے دیکھتے ہوۓ پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی خیرت کا اندازہ کرکے  پیچھے سے ایک عورت نے جو دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی اسے آواز دی۔ 'بابا یہ انیسہ کی بچی ہے۔' 


بابا نے انیسہ کا نام سنتے ہی اس بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے ایک پاپڑ اور دیتے ہوۓ بولا۔ 'اچھا ماشاءاللّٰه،  ماشاءاللّٰه‎ ‎ اے اپنی انیسہ دی بچی اے فیر تے اپنی ای دھی ہوںئ نا۔' اس کے بعد انیسہ بھی باہر آگئ وہ آتے ہی بولی۔ ' کی حال اے بابا جی تسی ائیے وی کم تے آندے او ہن تے توانوں آرام ای کرنا چائی دا اے۔'


انیسہ کی طرح بہت سی لڑکیاں تھیں جو جب بھی اپنے سسرال سے میکے آتیں تو بابا سے ضرور سلام دعا کرتیں تھیں۔ کبھی فرخندہ آتی تھی اور بابا سے مذاق سے کہتی،  'بابا جی میرا تحفہ'؟ 


بابا جواب دیتا 'توں تھوڑے تحفے میرے کولوں لے نیں ہن بچیاں دی واری اے۔' اس کے بعد بابا ایک کی بجاۓ دو تحفے اسے دے کر جاتا۔


بابا جب بیمار پڑا تھا تو ان میں سے کئ لڑکیاں جب اپنے سسرال سے لوٹیں تو بابا سے ملنے اس کے گھر گئیں تھیں۔ محلے میں جب کبھی کوںئ خوشی کا موقع ہوتا تو بابا کے آنے پر اسے کوںئ نہ کوںئ کھانے کی چیز ضرور پیش کی جاتی۔ کبھی کبھار بغیر کسی موقع کے ہی جب بھی کسی گھر میں کوںئ خاص چیز بنتی تو بابا کو ضرور اس میں شریک کیا جاتا۔ اس دن بھی انیسہ نے کھیر بناںئ تھی جو اس نے بابا کو پیش کی تو بابا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب اس کا معدہ یہ سب برداشت نہیں کرتا اس لیۓ وہ اب بہت کم کھاتا ہے مگر پھر بھی انیسہ نے اسے ضد کر کے ایک دو چمچ کھلا ہی دیۓ۔ 


اس دن تو بابا انیسہ کے ہاتھ کی بنی ہوںئ کھیر کھا کر لوٹ گیا مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کھیر اس کی آخری کھیر ہو گی۔ اس کے بعد بابا کبھی نہیں لوٹے گا اور اس کی صدا محلے میں کبھی نہیں گونجے گی اس کے بعد وہ جب کبھی سسرال سے میکے آۓ گی تو یہ نہیں سن پاۓ گی کہ میری دھی رانی انیسہ آئی اے لے تیرے وسطے اک خاص تحفہ بابے دی طرفوں۔'


محلے میں بہت سے لوگ بابا کے جنازے میں شریک ہوۓ تھے اور بہت سی عورتیں اور لڑکیاں بھی اس کے گھر میں موجود تھیں۔ انیسہ، فرخندہ اور بہت سی لڑکیاں میت کے گرد موجود تھیں مگر ان کے ذہن برسوں پہلے ماضی کی وادیوں میں گھوم رہے تھے۔ جب بابا گلی کی ایک طرف سے صدا لگاتا ہوا آتا تھا پاپڑ کرارے پاپڑ' اور وہ سب سے پہلے پاپڑوں کے حصول کے لیۓ بھاگ کر اس کے پاس پہنچتی تھیں اور وہ ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا تھا 'اے میری دھی رانی دا تحفہ۔'











  

Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات