Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




پاپڑ والے نے گلی میں آکر کندھے سے پاپڑوں کا گول ٹوکرا اتارا اور بلند آواز سے صدا لگاںئ۔ 'پاپڑ کرارے پاپڑ' اور وہاں کھڑے ہوکر انتظار کرنے لگا۔ گلی قدرے کشادہ تھی، آمنے سامنے دونوں اطراف مکانات تھے۔ نکڑ سے ایک بچی بھاگتی ہوںئ آںئ اور پاپڑ والے کو پیسے پکڑاۓ، پاپڑ والے نے اپنی لمبی ٹوکری میں ہاتھ ڈالا اور ایک گول پاپڑ باہر نکال لیا پھر ٹوکری کے ساتھ بندھی نمک کی بوتل میں سے سیاہ نمک پاپڑ پر انڈیلا اور بچی کو تھما دیا۔ بچی جیسے آںئ تھی ویسے ہی بھاگتی ہوںئ واپس چلی گئ۔ پاپڑ والے نے دوبارہ بلند آواز سے صدا لگاںئ۔ گلی کے بائیں جانب ایک گہرے بھورے رنگ کا کافی بڑا لکڑی کا دروازہ تھا جس کے ساتھ اسی رنگ کی لمبی سی کھڑکی تھی۔ کھڑکی کے عین اوپر بالاںئ منزل پر ایک اور کھڑکی تھی۔ بالاںئ کھڑکی کا ہلکا سا پردہ پیچھے ہٹا اور ایک خوبصورت نسوانی چہرہ دکھاںئ دیا۔ عین اسی وقت گلی کی دائیں جانب اس کھڑکی کے بالکل سامنے ایک دوسری کھڑکی کے پٹ کھلے جہاں ایک خوش شکل نوجوان لڑکا کھڑا مسکرا رہا تھا۔ لڑکے نے لڑکی کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ لڑکی بھی اسے دیکھ کر مسکراںئ اور نگاہیں نیچی کر لیں۔ پھر پردے کے پیچھے غائب ہو گئ۔ لڑکے کے چہرے کے تاثرات بدلے وہ کچھ پریشان سا دکھاںئ دینے لگا۔ چند لمحوں بعد نیچے سے وہی لکڑی کا دروازہ کھلا اور ایک چھوٹا بچہ باہر نکلا اس نے پاپڑ والے کو پیسے تھماۓ اور تین پاپڑ دینے کو کہا۔ لڑکا ابھی بھی وہیں کھڑا تھا اور نگاہیں سامنے والی کھڑکی پر جماۓ تھا۔ اچانک پردے میں حرکت ہوںئ اور اسی نسوانی چہرے نے جھانکا۔ لڑکا اسے دیکھتے ہی کھل اٹھا۔ لڑکی نے اک نظر مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر نیچے گلی میں جھانکنے لگی۔ چھوٹا بچہ پاپڑ لے کر گھر کے اندر چلا گیا۔ لڑکی نے دوبارہ نظر اٹھا کر لڑکے کو دیکھا مسکراںئ اور پردے کے پیچھے گم ہو گئ۔ لڑکا خوشی خوشی واپس پلٹا اور کھڑکی کے پٹ بند کر لیۓ۔ چند لمحوں بعد لڑکے نے دوبارہ کھڑکی کھول کر اک نظر سامنے والی کھڑکی کی جانب دیکھا اور کھڑکی بند کیۓ بغیر پیچھے ہٹ گیا۔ چند لمحے موبائل سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد کوںئ کتاب اٹھاںئ اور مطالعہ کرنا شروع کر دی۔ ہر چند سطروں بعد وہ کتاب سے نظر اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھتا اور دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتا۔ بمشکل ایک دو صفحے پڑھنے کے بعد اس نے کتاب بند کردی اور کمرے میں بے چینی سے چکر لگانے لگا۔ اچانک سامنے والے پردے میں حرکت ہوںئ، لڑکے کے پاؤں وہیں جم گۓ۔ پردے کے پیچھے سے وہ لڑکی سامنے آںئ۔ لڑکا اسے دیکھ کر آگے بڑھا اور کھڑکی کے پاس آکر کوںئ اشارہ کیا، لڑکی نے کچھ نہ سمجھتے ہوۓ سر ہلایا، اس نے دوبارہ اشارہ کیا مگر لڑکی پھر نہ سمجھی۔ اس بار لڑکا پیچھے ہٹا اور پاس ہی میز سے ایک کاغذ اٹھا کر اس پر کچھ لکھا اور اسے گول کرکے کھڑکی کے پاس آیا اور نیچے جھانکا۔ ابھی وہ کاغذ پھینکنے کو ہی تھا کہ اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوںئ۔ لڑکے نے جلدی سے کاغذ قمیص کی جیب میں ڈالا اور دروازہ کھول دیا۔ ایک چھوٹی لڑکی اندر آکر بولی۔ 'معظم بھاںئ نیچے امی آپ کو بلا رہی ہیں۔'


اچھا میں آتا ہوں تم چلو۔' معظم نے جواب دیا۔


نہیں انہوں نے بولا ہے کہ اسے کہنا کہ جلدی آنا اور اسے ساتھ لے کر آنا۔' لڑکی پھر بولی۔


اچھا کہا تو ہے آتا ہوں، تم چلو۔' معظم نے اسے باہر دھکیل کر دروازہ بند کر لیا۔ وہ دوبارہ کھڑکی کی جانب متوجہ ہوا مگر وہاں کوںئ نہیں تھا۔ اس نے پھر سے بے چینی سے ٹہلنا شروع کر دیا، کچھ دیر انتظار کے بعد دروازہ کھولا اور نیچے چلا آیا۔ نیچے صحن میں اس کی امی دوری ڈنڈے ساتھ کچھ پیسنے اور کوٹنے میں مصروف تھیں ، ان کے پاس ایک عورت بیٹھی ان سے کہہ رہی تھی، 'ہاں باجی! میں تو خود پریشان ہوں، پہلے تو ان کا ارادہ عید سے پہلے آنے کا تھا لیکن اب شاید عید کے بعد ہی آئیں۔' 


معظم نے ان کی باتوں پر توجہ نہ دیتے ہوۓ امی سے پوچھا 'جی کس لیۓ بلایا ہے آپ نے مجھے؟'


'یہ لو اور یہ سارا سودا لے آؤ جلدی سے'۔ امی نے اسے ایک رسید تھماتے ہوۓ کہا۔ اس نے رسید پکڑی اک نظر دیکھا اور گھر سے باہر نکل آیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے سب سے پہلے کن اکھیوں سے اوپر کھڑکی کی اور دیکھا اور اپنے راستے چل پڑا۔ اپنی گلی سے باہر نکل کر وہ ایک نسبتاً کشادہ گلی میں آگیا۔ گلی میں وقفے وقفے سے ایک دو موٹرسائیکل گزر رہے تھے، کچھ دور تک چلنے کے بعد وہ ایک دکان کے پاس رک گیا۔ دکان کے باہر تین چار گاہک کھڑے تھے وہ بھی پاس جا کر کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگ گیا۔ گلی کی دوسری جانب ایک دو دکان چھوڑ کر تھوڑا سا آگے چند آدمی اک لوہے کے میز کے گرد بیٹھے شطرنج یا اسی طرح کا کوںئ کھیل کھیل رہے تھے۔ معظم نے انہیں دور سے ہی دیکھ لیا تھا۔ انہی میں سے ایک آدمی کی نظر معظم پر پڑی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے پاس آنے کو کہا۔ معظم ان کے پاس پہنچا تو آدمی بولا: 'گھر جا کر امی سے کہنا میرا وہ نیلا سوٹ نکال کر استری کر دینا یا کروا دینا میں ابھی تھوڑی دیر تک آتا ہوں مجھے آج شام کسی دعوت پر جانا ہے۔' 


جی اچھا۔' معظم واپس پلٹنے لگا تو آدمی پھر بولا، 

 'اور ہاں جاتے ہوۓ سامنے والے الیاس صاحب کے گھر پیغام دے جانا کہ ابو کہہ رہے ہیں چھ بجے تک تیار ہو جائیں۔' 


جی ابو جی۔' وہ واپس پلٹ آیا۔ اس نے جلدی سے دکان میں سے سامان لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ الیاس صاحب کے گھر پیغام دینے کا خیال اسے بار بار آرہا تھا، وہ جتنی جلدی میں تھا اتنا ہی گبھرایا ہوا بھی تھا۔ جب الیاس صاحب کا گھر آیا تو غیر ارادی طور پر اس کی نظر سب سے پہلے اوپر کھڑکی کی جانب اٹھ گئیں۔ وہاں کوںئ نہیں تھا، اس نے ڈرتے ڈرتے گھنٹی پر ہاتھ رکھا اور ہلکے سے دبا کر پیچھے کھینچ لیا۔ پھر کچھ دیر انتظار کیا جب اندر سے کوںئ آواز نہ آںئ تو اس نے اس بار زور سے گھنٹی بجاںئ۔ گھنٹی بجا کر اس نے پھر اسی کھڑکی کی طرف دیکھا۔ پردے میں ہلکی سی جنبش ہوںئ لیکن اس کے دل کی خرکت میں  تیزی آگئ۔ اس سے پہلے کے پردے کے پیچھے سے کچھ دکھاںئ دیتا دروازہ کھلا اور ایک چھوٹا لڑکا باہر نکلا۔معظم نے اسے ابو کا پیغام دیا اور اپنے گھر چلا آیا۔


شام کو وہ اپنے کمرے میں لکھنے کی میز (اسٹڈی ٹیبل ) پر بیٹھا کافی دیر سے کام کر رہا تھا۔ کمرے کے اندر ہلکی سی روشنی تھی مگر باہر مکمل اندھیرا چھا چکا تھا۔ کھڑکی کے راستے باہر کا سناٹا اندر جھانک رہا تھا۔ وہ کبھی کبھی سر اٹھا کر کھڑکی کی جانب دیکھ لیتا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔ کھڑکی تاریک تھی مگر نیچے گلی میں جلتے بلب کی ہلکی سی روشنی اس پر پڑ رہی تھی جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہاں کوںئ موجود ہے یا نہیں۔ وہ کافی دیر تک وہاں بیٹھا پڑھتا رہا پھر اس نے سر اٹھا کر دیوار پر لگی گھڑی کی جانب دیکھا، دو بج رہے تھے۔ اس نے تھکاوٹ محسوس کرتے ہوۓ اپنے دونوں ہاتھ سر کے بالوں میں پھیرے اور کچھ دیر کے لیۓ سر میز پر ٹکا لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ 


چند لمحے وہ اسی طرح آنکھیں بند کیۓ لیٹا رہا اچانک اسے آواز آںئ۔ 'کیا پڑھ رہے ہیں؟' اس نے ایک دم آنکھیں کھولیں اور ادھر ادھر دیکھا۔ کھڑکی میں وہی لڑکی کھڑی تھی۔ وہ خیرت سے اس غور سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ 'جی۔۔۔ کیا پوچھا آپ نے؟'


میں نے پوچھا ہے کہ اتنی رات گۓ کیا لکھ پڑھ رہے ہیں؟' لڑکی نے اپنا سوال دہرایا۔


وہ میں کچھ نہیں۔۔۔امتخانات کی تیاری کر رہا تھا؟' اس نے جواب دیا۔


کیسے امتخانات؟' لڑکی نے پھر سوال کیا۔


سی ایس ایس کی تیاری کر رہا ہوں۔ اگر میں ان امتخانوں میں کامیاب ہو گیا تو پھر سمجھیں میں پکا آفیسر بن جاؤں گا۔'


اچھا۔۔۔اللّٰه‎ آپ کو کامیاب کرے۔'


آمین۔ اچھا آپ کیا کرتی ہیں؟' اس بار معظم نے سوال کیا۔


میں ایم بی اے کر رہی ہوں۔' لڑکی نے جواب دیا۔


لیکن آپ کو کبھی کالج آتے جاتے نہیں دیکھا؟' معظم نے ایک اور سوال داغ دیا۔


ابھی دو ماہ تو ہوۓ ہیں ہمیں آپ کے محلے شفٹ ہوۓ ہوۓ' وہ بولی 'اور پچھلے دو ماہ میں سے میں کالج سے فارغ ہو چکی ہوں بس اب امتخانات ہونے والے ہیں۔ اسی کا انتظار ہے۔'


ہوں'۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس آگیا اور کچھ سوچتے ہوۓ بولا، 'میں نے آپ کا نام تو پوچھا ہی نہیں آپ کا نام کیا ہے؟


میرا نام سعدیہ ہے۔۔۔اور آپ کا معظم۔۔۔؟'


ہیں آپ میرا نام کیسے جانتی ہیں؟' اس نے خیرت سے پوچھا۔


آپ بھی کمال کرتے ہیں ہمارے گھر کے بالکل سامنے رہتے ہیں اور آپ کا نام کیسے پتہ نہیں چلتا۔ میں تو خیران ہوں آپ کو میرا نام ابھی تک کیوں پتہ نہیں چلا۔'


بس آپ اسے میری نالائقی سمجھ لیں۔' 


ہوں۔ تو اس کا مطلب ہے آپ کافی نالائق ہیں'۔ 



معظم مسکرایا۔ وہ پھر بولی، ' اچھا آپ کیا کرتے ہیں دن بھر؟'


کچھ خاص نہیں آج کل تو بس امتخان کی تیاری کر رہا ہوں۔۔۔اور آپ؟'


میں بھی وہی بالکل آپ جیسا۔ امتخان کی تیاری اور گھر کے چھوٹے موٹے کام۔ ان امتحانوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ گھر کے بہت سے کاموں سے چھٹی مل جاتی ہے۔ اس نے جواب دیا۔


ہاں یہ تو ہے۔' 


کچھ دیر مزید دونوں باتیں کرتے رہے۔ اگلے دن معظم نے حسب معمول گھر سے باہر قدم رکھتے ہی اوپر کی کھڑکی کی جانب دیکھا مگر وہاں کوںئ نہیں تھا۔ وہ گھوم پھر کر واپس آیا اور گھر میں داخل ہوتے وقت اس نے پھر سے اوپر دیکھا، اب بھی وہاں کوںئ نہیں تھا۔ جب رات گہری ہوںئ اور وہ پچھلی رات کی طرح اپنے کام میں مگن تھا تب دوبارہ اسے کھڑکی کی جانب سے سعدیہ کی آواز سناںئ دی۔ 


اس نے آتے ہی پوچھا، 'کیسی چل رہی ہے تیاری؟'


معظم نے تیزی سے آواز کی سمت دیکھا، جہاں سعدیہ گلابی رنگ کے لباس میں ملبوس کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ خوش ہوگیا۔


اچھی چل رہی ہے۔' اس نے جواب دیا۔


آپ اتنی دیر تک کیوں جاگتے ہیں دن کو کیوں نہیں پڑھتے۔؟ سعدیہ نے پوچھا۔


بس ویسے ہی آج کل امتخان قریب ہیں اس لیۓ دن کو بھی پڑھتا ہوں اور رات کو بھی۔' کچھ دیر خاموشی رہی پھر معظم بولا۔ 'آپ اتنی رات تک کیوں جاگ رہی ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے آپ دن کو پڑھتی ہوں گی۔


'ہاں پڑھتی تو دن کو ہی ہوں پر جب سے ہم یہاں شفٹ ہوۓ ہیں رات کو ٹھیک سے نیند ہی نہیں آتی۔' اس نے کہا۔


ایک دو دنوں تک دونوں کا اسی طرح رسمی سوال و جواب کا سلسلہ چلتا رہا پھر انہوں نے باقاعدگی سے رات کو کھڑکی پر ملنا شروع کر دیا تھا۔ ایک رات معظم اپنی میز پر بیٹھا کام کر رہا تھا اور بار بار سر اٹھا کر سعدیہ کی کھڑکی طرف دیکھ رہا تھا مگر آج سعدیہ نے کافی دیر کر دی تھی۔ اس وقت تک تو وہ آجایا کرتی تھی مگر آج نجانے وہ کہاں رہ گئ تھی۔ معظم بار بار کبھی دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھتا اور کبھی اس کی کھڑکی کی طرف۔ ایک دم تیز ہوا کا جھونکا آیا جس سے کھڑکی کا دروازہ زور سے بجا اور معظم کی میز پر رکھے کاغذ اڑ گۓ۔ وہ تیزی سے انہیں سمیٹنے کے لیۓ اٹھا۔ تبھی سعدیہ کے ہنسنے کی آواز آںئ۔ معظم نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ کاغذوں کو ہوا میں پکڑتے اور زمین سے اٹھاتے ہوۓ بولا، 'ہنس لو ہنس لو، دنیا کی تو یہ پرانی ریت چلی آرہی ہے دنیا تو دوسروں کو مصیبتوں میں گرتا دیکھ کر ہنستی ہی ہے، تم بھی ہنس لو۔'


وہ اور زور سے ہنسی۔ 'ہش آہستہ۔' وہ جلدی سے بولا، 'اگر کسی نے سن لیا تو سارا ہنسنا رونے میں بدل جاۓ گا۔'


ہوں۔' اس نے منہ پر انگلی رکھ لی۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے پھر اسے مخاطب کیا۔ 


'سنیں'


معظم تمام صفحے سمیٹ کر ایک فائل میں لگا رہا تھا۔


ہاں کہو۔' اس نے بغیر اس کی طرف دیکھے کہا۔


لگتا ہے آج بارش ہو گی۔ بادل گرج رہے ہیں ، بجلی بھی چمک رہی ہے اور آندھی بھی ہے۔'


ہاں آندھی کا اندازہ تو مجھے کچھ دیر پہلے ہو چکا ہے۔' وہ کاغذ سمیٹ کر کھڑکی کے پاس آگیا۔


اس نے آسمان کی طرف دیکھا پھر بولا۔ 'واقعی موسم تو بہت سہانا ہو گیا ہے۔۔۔تمہیں ایک بات بتاؤں؟'


جی بتائیں؟'


میں اکثر یہ سوچا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ تم مجھے ہمیشہ ساری زندگی اسی طرح بارش کی اطلاع دیا کرو گی۔ اور کہو گی، سنیں! لگتا ہے بارش آنے والی ہے باہر سے چیزیں اٹھا کر اندر رکھ دیں یا یہ کر دیں وہ کر دیں۔۔۔ میں کوںئ بھی کام کر رہا ہوں تو اپنے تصور میں تمہیں ضرور اس میں دیکھتا ہوں۔ میری روزمرہ کی زندگی کے ہر کام میں تم ہمیشہ شامل ہوتی ہو۔ جیسے کہ تم میرے لیۓ کھانا لا رہی ہو، کھانا بنا رہی ہو۔۔۔' اس نے گہرا سانس لیا پھر بولا، 'جانتی ہو میری سب سے بڑی تمنا کیا ہے؟'


کیا؟' 


All I want is your existence in my everyday life.'


ایک دم سے کہیں سے کسی دروازے کے کھلنے کی آواز آںئ سعدیہ جلدی سے بولی اور بھاگ گئ۔ 'لگتا ہے کوںئ آرہا ہے۔میں جارہی ہوں۔'


ایک دن معظم اور اس کا دوست شاہد چھوٹے سے چاۓ خانے میں بیٹھے تھے، اندر زیادہ رش نہیں تھا مگر باہر ٹریفک کا رش اور شور دکھاںئ دے رہا تھا اور سناںئ دے رہا تھا۔ شاہد کا پچھلے دنوں کسی کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا دونوں اسی بارے میں بات کر رہے تھے۔


یار تم بھی عجیب ہو' شاہد بولا، ' دوست تم میرے ہو اور ساتھ تم اس کا دے رہے ہو۔'


 میں اس کا ساتھ نہیں دے رہا' معظم نے کہا' بلکہ تمہیں یہ سمجھا رہا ہوں کہ اس پورے قصے میں غلطی تمہاری تھی، تم قصور وار تھے۔ تمہارا نقطئہ نظر اور طریقہ کار دونوں غلط تھے۔'


تو یہ تو تم اسی کا ساتھ دے رہے ہو۔' 


یار اسے کسی کا ساتھ دینا نہیں کہتے بلکہ اسے صرف حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونا کہتے ہیں۔' 


تو اس کا مطلب ہے تم اپنے قریبی دوستوں، عزیزوں اور حتی کہ ماں باپ کی بھی مخالفت کر سکتے ہو؟' شاہد بولا۔


ہاں اگر مجھے لگے کہ ان کی بات یا طریقہ کار غلط ہے۔' معظم نے جواب دیا۔


اور اگر ان کے مقابلے میں چاہے کوںئ بھی ہو؟' شاہد نے دوبارہ سوال کیا۔


یار تم بات کو اتنا پیچیدہ کیوں بنا رہے ہو'۔ معظم بولا

 'اچھا فرض کرو کل کو جب تمہاری شادی ہو جاۓ گی اور اگر تمہاری بیوی اور تمہاری امی میں کوںئ جھگڑا یا تنازعہ کھڑا ہو جاۓ تو تم کس کو صحیح کہو گے اور کس کو غلط یا تمہیں کسے صحیح کہنا چاہیۓ اور کسے غلط؟'


شاہد کچھ سوچتے ہوۓ بولا، 'شاید اس کو جو صحیح ہو گا۔'


بلکل۔ یہی میں کہہ رہا ہوں۔ کسی بھی جگھڑے یا تنازعے کی صورت میں تم دونوں کے نقطہ نظر اور طریقہ کار کو پرکھو گے پھر ہی کسی ایک کو غلط اور دوسرے کو صحیح قرار دو گے، یہ تو نہیں دیکھنا چاہیۓ کہ تمہارے قریب زیادہ کون ہے۔'


میرے بھاںئ وہاں معاملہ اور ہے وہاں دونوں اپنے ہیں دونوں قریبی ہیں ایک طرف ماں ہے اور دوسری طرف بیوی۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی اور ہے یہاں تو ایک طرف میں تمہارا قریبی دوست ہوں اور دوسری طرف وہ ہمارا کچھ نہیں لگتا بلکہ ہمارا دشمن ہے۔'


تو میرے بھاںئ میں نے کب تمہیں چھوڑ کر اس کا ساتھ دیا ہے۔ میں تو بس تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ اس بار تم غلط ہو۔ اس کی بات صحیح ہے۔' معظم نے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا۔


تو یہ ساتھ دینا نہیں تو اور کیا ہوتا ہے؟'


یار تم۔۔۔اچھا تمہیں ایک مثال سے سمجاتا ہوں' وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولا۔ 'فرض کرو میں اور تم کہیں جارہے ہیں اور تمہارا کسی کے ساتھ جھگڑا ہو جاتا ہے۔  اب مجھے کیا کرنا چاہیۓ؟۔۔۔ظاہر ہے میں پہلے دونوں کا نقطہ نظر سمجھوں گا اور اگر تم غلط ہوۓ تو تمہیں کہوں گا کہ تم غلط ہو۔۔۔لیکن اگر انہوں نے تمہارے ساتھ لڑاںئ شروع کر دی ہے اور تمیں مارنا شروع کر دیا ہے تو وہاں میں یہ سوچ کر تو پیچھے نہیں بیٹھ جاؤں گا کہ غلطی تمہاری تھی بلکہ تمہارے ساتھ مل کر ان سے لڑوں گا۔ تو یہی کچھ میں ابھی کر رہا ہوں، تمہارا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ اس سارے معمالے میں تم غلط ہو۔ اب کیا یہ تمہارے ساتھ بے وفاںئ یا غداری ہے؟'


اچھا یار چلو مان لیا اس بار میری غلطی تھی لیکن اگلی بار اگر اس نے کچھ کیا تو چھوڑو گا نہیں اسے۔' 


معظم ہنسا، 'اچھا نہ چھوڑنا۔' 


کچھ دیر خاموشی کے بعد شاہد بولا، 'اچھا اور تم بتاؤ کیسی جا رہی ہے تمہاری راتوں کی میٹنگ؟' وہ معنی خیز انداز سے مسکرایا۔


معظم نے ہنستے ہوۓ بولا 'اچھی جا رہی ہے۔'


لیکن یار ایک بات کا دھیان رکھنا اگر کسی کو پتہ چل گیا تو بہت برا ہو گا۔' معظم نے اسے تنبہہ کرتے ہوۓ کہا۔ 'جن معمالات میں لوگوں کو زیادہ حساس ہونا چاہیۓ یہاں ان میں کی تو کسی کو پرواہ نہیں  مگر ایسے معمالات پر ہمیں ساری اقدار یاد آجاتی ہیں۔ ایک عام آدمی سے لے کر خاص الخاص آدمی تک اپنی روزمرہ کی زندگی میں بے دریغ جھوٹ بولتا ہے لیکن اگر غلطی سے بھی ایک لڑکا لڑکی آپس میں کوںئ ہلکی سی بات بھی کر لیں تو ساری اخلاقیات ہمیں ایسے ازبر ہو جاتی ہیں جیسے اخلاقیات کے ہم ہی چیمپیئن ہیں۔ اس وقت ہمیں اپنی ساری روایات، اقدار اور سنسکار یاد آجاتے ہیں جو سرے سے کہیں ہیں ہی نہیں۔ ہماری اقدار صرف جھوٹ، بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہیں۔ بجاۓ اس کے کہ ہم اپنی غلاظت کو مانیں الٹا ہم اس پر فخر کرتے ہیں۔'


ہاں یار!۔۔۔ بات تو تمہاری درست ہے، دھیان تو رکھنا پڑے گا۔' معظم نے چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کچھ سوچنے کے انداز سے کہا۔ 


 معظم گھر آیا تو کھانا کھانے کے بعد سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ایک نظر اس نے کھڑکی کی جانب دیکھا اتفاق سے اسی وقت سعدیہ بھی کھڑکی میں آگئ اس نے بالکل اسی طرح مسکرا کر معظم کی طرف دیکھا جیسے وہ پہلے دیکھا کرتی تھی۔ پھر واپس چلی گئ۔ رات کو جب ان کی ملاقات ہوںئ تو اس نے سعدیہ کو شاہد کی دن والی بات بھی بتاںئ اور اسے اس کے جھگڑے کے متعلق بھی بتایا۔ وہ رات بھی پہلے کی طرح ہی گزر گئ۔ 


اگلے دن معظم کو کوںئ دوست ملنے آیا دونوں گلی میں گھر کے باہر ہی کھڑے تھے۔ اس کا دوست موٹر سائیکل پر بیٹھا تھا اور وہ خود اس کے ساتھ کھڑا تھا۔  اتنے میں اوپر کھڑکی میں کوںئ آواز ہوںئ دونوں نے اوپر دیکھا تو سعدیہ دکھاںئ دی۔ پھر وہ غائب ہو گئ۔ 


اس کا دوست بولا، 'یہ لوگ تمہارے محلے میں کب سے شفٹ ہو گۓ ہیں؟'


کیوں تم انہیں جانتے ہو؟' معظم نے پوچھا۔


ہاں یہ پہلے جس محلے رہتے تھے وہاں میری بہن کا گھر ہے میں وہاں جاتا رہتا ہوں۔ یہ ان کے ہمساۓ تھے۔  میری بہن اکثر اس بے چاری لڑکی کی باتیں کرتی تھی۔'  اس نے جواب دیا۔


بے چاری لڑکی، کیا مطلب؟' اس نے خیرت سے پوچھا۔


ہاں بے چاری بول جو نہیں سکتی۔ گونگی ہے۔' 


کیا کہا؟' معظم کا منہ کھلا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی ہی رہ گئیں۔ 'ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں رات کو روزانہ۔۔۔' اس نے کھڑکی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا۔ وہاں ایک روشنی کا ہالہ سا دکھاںئ دیا جس سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اسے دندھلا دندھلا دکھاںئ دینے لگا۔ اس نے دیکھا وہاں سعدیہ مسکراتے ہوۓ چہرے کے ساتھ کھڑی تھی اور کہہ رہی تھی۔


 سنیں!  لگتا ہے آج بارش ہوگی۔'






















 


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات