Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 



بہار اس بار کچھ عجیب انداز سے آںئ تھی۔ شگوفے پھوٹے تھے، کلیاں کھلیں تھیں ، پھول نکھرے تھے، مگر ان میں وہ رنگ، وہ شوخی، وہ خوشبو نہیں تھی۔ بہار بس آںئ اور چپکے سے گزر گئ تھی، جیسے کوںئ چور رات کی تاریکی میں دبے پاؤں گھر کی دہلیز پھلانگنے آۓ اور کسی کی آہٹ پا کر بغیر دہلیز پھلانگے بھاگ جاۓ، بہار بھی اس بار کچھ یوں ہی آںئ تھی دل کی دہلیز کو چھوۓ بغیر ہی گزر گئ۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا، بہاریں آتی تھیں اور اپنے ساتھ بہت سے رنگ اور ڈھیر ساری خوشبوئیں لاتی تھیں۔ مگر اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا، شاید اس لیۓ کہ تم نہیں تھیں۔ بہاروں کے رنگ اور خوشبؤیں تو تمہارے ساتھ ہی بھلی لگتی تھیں۔ اب تو بس بہار آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو معلوم ہی نہیں پڑتا کہ کب آںئ اور کب چلی گئ۔ اس بار بھی بہار کو گزرے کافی وقت بیت گیا ہے اور میں اب اس کا احوال لکھنے بیٹھا ہوں، ورنہ ایک زمانے میں تو ہر بہار کی آمد پر صبح سویرے اپنے گاؤں کے آخری کھیت کے پرے ایک چھوٹے سے پھولوں کے قدرتی باغ سے تازہ پھول توڑ کر لاتا تھا اور اپنے کمرے کے گلدان میں سجاتا تھا اور سب سے پہلے تمہیں اس کی اطلاع دیتا تھا۔ اگر میں سفید گلاب توڑ کر لاتا تو تم کہتی تھی کہ سرخ لایا کرو وہ گلدان میں زیادہ پیارے لگتے ہیں اور اگر میں سرخ لے آتا تو تم سفید گلاب کی تعریفیں شروع کر دیتی اور کہتی کہ سفید گلاب کی مہک زیادہ ہوتی ہے جو کافی دیر تک رہتی ہے، سرخ گلاب تو صرف رنگین ہونے کے باعث پرکشش ہے ورنہ اس کی خوشبو تو پل بھر ہی ٹھہرتی ہے۔ تمہاری یہ منطق مجھے آج تک سمجھ نہیں آںئ، غالباً تم یہ سب شرارت سے مجھے تنگ کرنے کے لیۓ کہتی تھی۔ اور میں کبھی کبھار سچ میں چڑ جایا کرتا تھا اور یہ کہہ کر غصے سے فون بند کر دیا کرتا تھا کہ آئندہ جو بھی پھول لایا تمہیں کبھی نہیں بتاؤں گا، لیکن اگلے دن پھول لانے کے بعد اور گلدان میں سجانے کے بعد پھر سے تمہیں فون ملا دیا کرتا تھا۔ مگر یہ سب تو تب کی باتیں ہیں آج کل میں صبح سویرے آخری کھیت تک جاتا ہوں مگر پھول توڑ کر نہیں لاتا بس وہیں باغ میں گھوم کر آجاتا ہوں۔ پھول مجھے ابھی بھی اچھے لگتے ہیں لیکن اب انہیں توڑ کر ساتھ لانے کا من نہیں کرتا۔ میرے کمرے کا گلدان زیادہ تر خالی رہتا ہے اور اگر کبھی کبھار کوںئ دوسرا اسے پھولوں سے سجا دے تو ہفتوں بلکہ مہینوں تک وہی باسی پھول گلدان میں گلتے سڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں بدلنا یا پھینکنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس وقت بھی میرے گلدان میں پچھلے دو ہفتوں کے باسی پھول سجے ہیں مگر میں نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر اک نظر دیکھا بھی نہیں۔ 


ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بہار کو گزرے ہوۓ کافی وقت بیت گیا ہے اور میں اب اس کا احوال لکھ رہا ہوں، اگرچہ یہ خط کا زمانہ نہیں مگر پھر بھی میں تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔ کیوں لکھ رہا ہوں؟ معلوم نہیں۔ بس میرے دل نے کہا کہ تمہیں خط لکھوں۔ ایسا نہیں کہ میں اس خط کو تمہیں ارسال کروں گا، میرا ایسا کوںئ ارادہ نہیں، اور اگر ارادہ ہوتا بھی تو بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میرے پاس تمہارا موجودہ پتہ نہیں ہے۔


خیر تو میں بتا رہا تھا کہ بہار اس بار آںئ اور چپکے سے گزر گئ۔ یہ بات ایک معمہ ہی ہے کہ بہار کا احساس اس بار کیوں نہیں ہوا یا یہ کہ اس طرح نہیں ہوا جیسے کبھی ہوتا تھا۔ جہاں تک میری بات ہے میں تو اپنے معمول کے مطابق سویرے سویرے ہری بھری فصلوں سے گزر کر اس آخری کھیت تک جاتا ہوں اور سپہر کے وقت کھیتوں کے بیچ و بیچ ایک بڑی سی پگڈنڈی پر ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ کر مطالعہ کرتا ہوں اور لکھتا ہوں۔ ابھی بھی میں اسی جگہ بیٹھ کر تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔ یاد ہے میں نے تمہیں ایک بار یہ جگہ دکھاںئ تھی جب تم کسی غرض سے ایک دفعہ میرے گاؤں آںئ تھی ، میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ جس دن تم یہ جگہ دیکھنے آؤ گی اس دن میں تمہیں اپنی وہ نظمیں سناؤں گا جو میں نے تم پر لکھیں تھیں، اور پھر میں نے تمہیں وہ نظم بھی سناںئ جو ابھی ادھوری تھی، میں تمہیں سنانا نہیں چاہتا تھا مگر تم نے ضد کرکے وہ ادھوری نظم بھی مجھ سے سن ہی لی تھی۔ وہ بھی بہار ہی کے دن تھے۔ پھر غروب آفتاب کے وقت جب آسمان پر شفق پھوٹی اور کھیتوں میں کام کرتے کسان ٹولیوں کی شکل میں اپنے کدال بیلچے کندھوں پر ڈالے گاؤں کی طرف روانہ ہوۓ تو تم نے کہا کہ تم ان کے پیچھے پیچھے چل کر ان کی باتیں سننا چاہتی ہو تاکہ تم جان سکو کہ کسان جب سارا دن کھیتوں میں کام کرکے شام کو واپس گھروں کو لوٹتے ہیں تو کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔ پہلے تو تمہاری اس عجیب و غریب فرمائش پر میں نے انکار کیا مگر تم ضد کی اتنی پکی ہو کہ تم نے وہ بات بھی مجھ سے منوا کر چھوڑی بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر تم نے ایک مزید فرمائش کر ڈالی کہ تم ان کسانوں کی اس خلیے میں تصویر بھی لینا چاہتی ہو۔ آخرکار تم نے کندھوں پر کئیاں، بیلچے اٹھاۓ ہاتھوں میں درانتیاں پکڑے سروں پر صافے اور پگڑیاں باندھے مٹی سے لت پت اور پسینے سے شرابور ان محنتی کسانوں کی کتنی زیادہ تصویریں اتاری تھیں۔ تم نے کہا تھا تم ان کی تصویریں اپنے میگزین میں چھاپو گی اور دیہاتی ثقافت اور کسانوں کی زندگی کے بارے میں مضامین لکھو گی۔ اور اس کے بعد تم نے مجھے بتایا کہ دراصل تمہارا یہاں آنے کا مقصد بھی یہی تھا کیونکہ ایک دو دن بعد موسم بہار میں کسانوں کا مخصوص روایتی تہوار بیساکھی آرہا تھا جس کا تم قریب سے مشاہدہ کرنا چاہتی تھی تاکہ تمہیں اپنے مضمون کے لیۓ مواد مل سکے۔ تبھی میں نے تم سے شکایت کی تھی کہ اس کا مطلب ہے تم میرے لیۓ نہیں بلکہ صرف اپنے مطلب سے یہاں آںئ ہو۔ میری اس شکایت کو تم نے خوش دلی سے قبول کیا اور ہرجانے کے طور پر یہ وعدہ کیا کہ تم صرف میرے لیۓ ہر بیساکھی پر یہاں آیا کرو گی۔ مگر وہ وعدہ تم ایفا نہ کر سکی۔


 کچھ عرصے بعد تم نے وہ مضامین لکھے جنہیں پڑھ کر مجھے اپنے بچپن میں سکول میں کسانوں اور دیہاتی زندگی سے متعلق پڑھی ہوںئ نظمیں ، کہانیاں اور گیت یاد آگۓ۔ خاص کر کہانیاں جنہیں پڑھ کر میں گھنٹوں ان میں کھویا رہتا تھا۔ اور پھر کئ دنوں تک انہی کہانیوں سے مسحور ایک سرشاری کے عالم میں دن بھر اپنے گاؤں میں گھومتا رہتا تھا۔ بچپن کی پڑھی وہ کہانیاں ابھی تک میرے اندر ہیں یا یوں کہنا چاہیۓ میں ابھی تک ان کہانیوں کے اندر ہوں اور اپنے آپ کو انہی کہانیوں میں محسوس کرتا ہوں۔


مگر ان کے علاوہ ایک کہانی اور بھی ہے جو صرف میری اور تمہاری کہانی ہے جس کے کردار صرف ہم دونوں ہیں۔ مجھے آج بھی اس کہانی میں تمہارے کہے ہوۓ تمام مکالمے ازبر ہیں، تمہارے لہجے کا مدوجزر یاد ہے، تمہاری آنکھوں کی پتلیوں کا سکڑنا اور پھیلنا اور تمہارے چہرے کے ادلتے بدلتے رنگ سب خفظ ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے چاہے اس کہانی کا انجام کچھ بھی ہو۔


بہار جب بھی آتی ہے اپنے ساتھ تمہاری خوشبو لاتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے تم کہیں آس پاس ہی ہو، مگر اس بار نجانے کیوں بہار بغیر اطلاع دیۓ ہی گزر گئ۔ ایک یہ بہار ہی تو تھی جو تمہاری موجودگی کا احساس دلاتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے بہار کی شکایت تم سے لگانے کے لیۓ تمہیں خط لکھنے کا ارادہ کیا۔ خیر تو اب غروب آفتاب کا وقت ہو چلا ہے اور آسمان پر شفق کی لالی پھیل گئ ہے، پرندوں کے غول کے غول اپنے گھونسلوں کی طرف روانہ ہونے شروع ہو گۓ ہیں۔ کھیتوں سے کسان بھی نکل کر گاؤں کی طرف چل پڑے ہیں، میں خط کا اختتام کرنے والا ہوں، سوچ رہا ہوں آج اپنے گلدان سے پرانے باسی پھول نکال کر باہر پھینک دوں مگر اس میں نئے پھول نہیں لگاؤں گا۔ نئے اور تازہ پھولوں سے اسے تب سجاؤں گا جب بہار مجھے تمہاری اطلاع دینے آۓ گی اور تمہاری موجودگی کا احساس دلاۓ گی، تب تک وہ گلدان خالی ہی رہے گا۔


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات