Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





 رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی، گاڑی کی رفتار نہ تو بہت زیادہ تھی اور نہ بہت کم۔ چاروں لمبا سفر کر کے  آرہے تھے اور اس وقت تک تھک چکے تھے۔ خالد اور نعمان پچھلی نشستوں پر بیٹھے تھے، نعمان سو رہا تھا جبکہ خالد گردن پیچھے پشت پر ٹکاۓ سر ایک طرف کو ڈھلکا کر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جی ٹی روڈ پر کبھی ویرانہ آجاتا جس سے باہر تاریکی چھا جاتی اور کچھ دکھاںئ نہ دیتا اور کبھی کوںئ گنجان آباد علاقہ آتا تو روشنیاں جگمگاتی نظر آتیں مگر دونوں صورتوں میں خالد کے چہرے کے تاثرات میں کوںئ فرق نہ آتا۔ رضوان گاڑی چلا رہا تھا اور اسد اس کے ساتھ بیٹھا موبائل فون میں گم تھا۔ گاڑی میں مدھم سی آواز میں کوںئ گانا بج رہا تھا۔ چاروں خاموش تھے۔ آدھی رات کا وقت، خاموشی ، سفر، تھکاوٹ اور ہلکی موسیقی نے ماحول کو کچھ رومان انگیز اور کچھ سوگوار سا بنا دیا تھا جسے صرف خالد نے محسوس کیا۔ اسی لیۓ وہ چپ چاپ گردن ڈھلکاۓ تقریباً نیم دراز حالت میں گانے کے مدھم سروں پر کان لگاۓ باہر جلتے بجھتے مناظر کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس وقت بالکل خالی الذہن تھا۔ کسی کسی وقت خیال کی کوںئ چنگاری ابھرتی، اس کے دل میں ہلکا سا ارتعاش پیدا کرتی اور پھر بجھ جاتی۔ کافی دیر تک وہ یونہی بیٹھا رہا۔ اچانک گاڑی رک گئ، خالد نے ہلکی سے گردن اوپر اٹھا کر رضوان کی طرف دیکھا۔ اسد نے بھی موبائل سے نظریں ہٹائیں اور رضوان سے پوچھا، "گاڑی کیوں روک دی؟" 


رضوان نے ایک ہاتھ اوپر اٹھا کر گردن کے پیچھے رکھا اور گردن دائیں بائیں گھماتے ہوۓ بولا، "یار میرا دل ہے اس ڈھابے سے چاۓ پی کر چلتے ہیں تھوڑی دیر آرام بھی ہو جاۓ گا، ابھی آگے اتنا سفر پڑا ہوا ہے، چاۓ پینے سے کچھ تازگی آجاۓ گی۔"


تو چلو ٹھیک ہے پی لیتے ہیں، کیوں خالد؟' وہ خالد کو مخاطب کر کے بولا۔


ٹھیک ہے پی لیتے ہیں۔' خالد گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا پھر رک گیا اور پلٹ کر نعمان کی طرف دیکھا وہ آنکھیں کھول چکا تھا۔ 


چاروں گاڑی سے باہر آگۓ، ڈھابا کچھ بڑا تھا پر سارے کا سارا نیم تاریکی میں ڈوبا تھا۔ باہر بڑی سی ٹیوب لائٹ جل رہی تھی مگر برآمدہ اور اندر حال میں مکمل اندھیرا تھا۔ اپریل کا مہینہ تھا اس لیۓ سڑک کے ساتھ ہی صخن میں چارپائیاں بچھی تھیں جن پر چند لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور چاۓ پی رہے تھے، کچھ اونگ رہے تھے۔ ان میں زیادہ تر ٹرک ڈرائیور تھے جن کے ٹرک پاس ہی سڑک کنارے کھڑے تھے۔ وہ آمنے سامنے دو خالی چارپائیوں پر بیٹھ گۓ، ہر دو چارپائیوں کے درمیان لکڑی کے میزوں پر پانی پینے کے لیۓ مٹی کے مٹکے رکھے تھے جن کے ساتھ دو عدد سٹیل کے گلاس پڑے تھے۔ رضوان نے مٹکے میں سے پانی نکال کر گلاس میں انڈیلا اور ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گیا، نعمان نے اشارے سے اس سے اپنے لیۓ پانی مانگا اس نے دوبارہ گلاس بھرا اور اسے پکڑا دیا۔ اسد بیٹھتے ہی دوبارہ موبائل سے کسی کے ساتھ بات چیت(چیٹ) کرنے میں مگن ہو گیا۔ ایک بیس بائیس سال کا لڑکا ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا، اس نے کھلی ڈھلی اور ڈھیلی ڈھالی نیلے رنگ کی شلوار قمیص پہنی تھی، گریبان کے بٹن کھلے تھے، کپڑوں کا رنگ شاید زیادہ دھلنے کے باعث اڑ چکا تھا، غالباً یہ اس کے کام والے کپڑے تھے جو وہ اپنی ڈیوٹی کے دوران پہنتا تھا۔ اس نے کندھے پر جھاڑ پونچھ کرنے والا کوںئ کپڑا ڈال رکھا تھا جسے وہ آتے جاتے میزوں اور برتنوں پر مارتا گزرتا جاتا تھا۔ سر کے بال بکھرے ہوۓ تھے اور چہرے پر دھاڑی کے  کہیں کہیں چند بال تھے۔ جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کے چہرے پر ابھی تک ایک بار بھی استرا یا بلیڈ وغیرہ نہیں پھرا تھا۔ خالد نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی اور اسے تین کپ چاۓ کا آرڈر دیا پھر نعمان کو مخاطب کرکے بولا، "تم پیو گے چاۓ؟"


ہاں آج پی لوں گا بہت تھکاوٹ ہو گئ ہے۔' نعمان نے اپنی جیب میں سے موبائل نکالتے ہوۓ اسے جواب دیا۔ 


ہاں تو چار کپ چاۓ'۔ خالد پھر بیرے سے مخاطب ہوا۔


چاۓ کے ساتھ اور کچھ لیں گے؟" لڑکے نے پوچھا۔


اور تمہارے پاس کیا ہے؟' اس بار رضوان بولا۔


بسکٹ اور کیک رس وغیرہ۔۔۔یہاں تو یہ ہی کچھ ملے گا جی" بیرے نے جواب دیا۔


اچھا دونوں لے آنا۔' رضوان بولا۔


لڑکا جھاڑ پونچھ کا کپڑا میزوں کرسیوں پر مارتا ہوا واپس چلا گیا۔ نعمان وہیں بیٹھے بیٹھے ٹانگیں زمین پر رکھے پیچھے کی جانب چارپاںئ پر سیدھا لیٹ گیا، رضوان اور اسد بھی اپنے اپنے موبائلز دیکھنے میں لگ گۓ۔ جبکہ خالد نے جیب سے موبائل نکال کر اک نظر دیکھا اور بغیر استعمال کیۓ میز پر رکھ دیا۔ اس کا اس وقت موبائل استعمال کرنے کو بلکل جی نہیں چاہ رہا تھا اس لیۓ وہ سامنے اور اردگرد بیٹھے مختلف لوگوں کو دیکھنے لگا۔ چاروں کافی تھک چکے تھے لہذا ان میں سے کسی کا بھی کوںئ بھی بات کرنے کو من نہیں کر رہا تھا، جبکہ ابھی ایک دو گھنٹہ پہلے تک وہ سارے راستے گپیں لڑاتے ، ہنسی مذاق کرتے اور قہقہے لگاتے آۓ تھے۔ 


ڈھابے میں لوگ زیادہ نہیں تھے چند ایک ٹرک ڈرائیور تھے جو غالباً یہاں معمول سے آتے تھے۔ اردگرد کوںئ اور عمارت بھی نہیں تھی ایک دو کلومیٹر پیچھے ایک پڑول پمپ تھا اور آگے بھی چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ریستوران تھا۔ سڑک کی دوسری جانب صرف درخت تھے اور ان کے پیچھے میلوں تک پھیلی کھلی زمین۔ پورے علاقے پر تاریکی اور پرسکون خاموشی کا راج تھا۔ خالد لوگوں سے نظریں ہٹا کر اب ٹرکوں پر بنے ہوۓ مصوری اور خطاطی کے مختلف نمونوں کو دیکھنے میں مگن ہو گیا جو تاریکی کے باعث جلتی ہوںئ ٹیوب لائٹ کی ہلکی سی روشنی میں صرف آدھے حصے پر دکھاںئ دے رہے تھے۔ مصوری کے بعض نمونوں کو دیکھ کر اس نے دل ہی دل میں مصور کی کاری گری کو خوب سراہا۔ پہلے اسے خیال آیا کہ موبائل کے کیمرے سے تصویر بنا کر انہیں اپنے پاس محفوظ کر لینا چاہیۓ لیکن پھر اس نے سوچا کہ چاۓ پی کر واپس جاتے ہوۓ وہ چند ایک تصویریں اتار لے گا۔ پھر وہ ٹرک ڈرائیوروں کے متعلق سوچنے لگا۔


 ان کی زندگی کیسی زندگی ہے، ویران اور اجاڑ راتوں میں تن تنہا اپنی گاڑی کو آہستہ آہستہ کھینچتے ہوۓ تاریکی کا سینا چیر کر صبح طلوع آفتاب کے وقت اپنی منزل تک لے جاتے ہیں۔۔۔ مگر میں ! ۔۔۔میں کہاں ہوں۔' اس نے اپنے متعلق سوچا۔ 'میری زندگی کی گاڑی کیا رواں ہے یا بیچ راستے میں کھڑی ہو گئ ہے۔  کیا میں چل رہا ہوں یا کھڑا ہوں۔ اگر چل رہا ہوں تو منزل سے کتنا دور ہوں، طلوع آفتاب میں ابھی کتنا وقت باقی ہے۔ یہ رات اس قدر طویل سے طویل کیوں ہو گئ ہے۔


 وہ انہیں سوچوں میں گم تھا کہ وہی لڑکا ٹرے میں چاۓ اور بسکٹ وغیرہ لیۓ آگیا۔ سب نے اپنے اپنے چاۓ کے کپ پکڑ لیۓ، جبکہ خالد نے جیب میں سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ایک سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔ اس نے سگریٹ کا ایک کش لگایا تو اسے گلے میں کچھ تلخی سی محسوس ہوںئ پھر اس نے چاۓ کا ایک گھونٹ بھرا تاکہ سگریٹ کی تلخی کو کچھ کم کر سکے۔ رضوان نے بھی میز پر پڑا ہوا وہی پیکٹ اٹھایا اور ایک سگریٹ نکال کر پینے لگا۔


 'چاۓ اچھی ہے' نعمان نے راۓ دی۔ 


'ہاں بس چینی کم ہے۔' اسد نے ایک چسکی بھرتے ہوۓ کہا۔ پھر اس نے پاس رکھی ہوںئ چینی چاۓ میں ڈال کر ملاںئ اور دوبارہ موبائل میں گم ہو گیا ہے۔ نعمان اور رضوان بھی چاۓ کے ساتھ اپنے اپنے موبائل استعمال کرنے میں لگ گۓ۔ بس خالد تھا جس نے ابھی بھی موبائل کو نہیں چھوا تھا۔ وہ خاموشی سے سگریٹ کے کش لگاتا اور چاۓ کی چسکی بھرتا ہوا سڑک پر گزرنے والی رنگ برنگی ٹریفک کو دیکھتا رہا۔ پھر اسے نغمانہ کا خیال آگیا۔۔۔ نغمانہ ! ۔۔۔۔یہ نام اسی نے ہی تو اسے دیا تھا۔ وہ اس سے اکثر کہتا تھا 'تمہیں دیکھ کر ہمیشہ دل کرتا ہے کہ کوںئ نغمہ سنا جاۓ۔ خوشگوار نغمہ۔۔۔ایسا نغمہ جو صرف پریوں کے دیس میں پریاں گایا کرتی ہیں، جو صرف شہزادوں شہزادیوں کے وطن میں گنگنایا جاتا ہے۔۔۔خوبصورت نخلستانوں، دلکش وادیوں میں بولا جاتا ہے۔۔۔جو سر سبزو شاداب مرغزاروں اور سنہری چمنستانوں میں بجایا جاتا ہے۔' تب سے اس نے اس کا نام نغمانہ رکھ دیا تھا۔ وہ ہمیشہ اسے اسی نام سے پکارا کرتا تھا۔ 


اچھا اور فرض کرو اگر تم مجھے نہ دیکھ پاؤ، اگر میں کہیں چلی جاؤں، تم سے دور ہو جاؤں تو پھر تم کیا کرو گے کیسے گیت سنو گے؟' وہ اس سے شرارتاً سوال کرتی۔


خدا نہ کرے ایسا کبھی ہو" وہ جواب دیتا "اور اگر بالفرض ایسا کبھی ہوا تو نہیں کہہ سکتا کہ کیا کروں گا، شاید اداس اور غمگین نغمے سنوں، ایسے ماتمی گیت گنگناؤں جو بین کرتی عورتیں مرگ پر گایا کرتی ہیں۔۔۔یاد ہے ایک بار جب تم مجھ سے ناراض ہو گئ تھی اور کئ دنوں تک مجھ سے رابطہ منقطع کیۓ رکھا تھا، تب میں صرف اداس اور یاسیت سے بھرپور شاعری پڑھا کرتا تھا اور نغمے سنا کرتا تھا۔'


اف خدایا۔۔۔غم منانے کا بھلا یہ کیا طریقہ ہوا؟' وہ مسکراںئ۔


میرا خیال ہے غم منانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوںئ نہیں ہو سکتا۔'


اچھا جی!'

 

ہاں جی!'


اچانک ہوا کا تیز جھونکا آیا، ایک خالی کرسی الٹ کر گر پڑی۔ سڑک کے کنارے کچی جگہ سے مٹی اور گرد وغبار اڑنے لگا۔ خالد نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا بادل گھر آۓ تھے۔ پھر ہوا کے جھونکے نے ہلکی سی آندھی کی صورت اختیار کر لی۔ 


لگتا ہے بارش آنے والی ہے"۔ رضوان نے قیاس کرتے ہوۓ کہا۔


پھر تو چلنا چاہیۓ اتنا لمبا سفر ہے اگر بارش ہو گئ تو مشکل ہو جاۓ گی۔" نعمان نے خدشہ ظاہر کیا۔


ساتھ ہی چند قطرے گرے، اسد نے اپنے بازو پر بوندوں کو محسوس کیا۔ "لو شروع بھی ہو گئ۔" اس نے اطلاع دی۔


کچھ لمحوں بعد بوندا باندی شروع ہو گئ ، چاروں اپنے اپنے چاۓ کے کپ اٹھا کر برآمدے میں آگۓ۔ برآمدے کی بتی اب جلا دی گئ تھی، یہاں پہلے ہی بہت ساری کرسیاں میز لگے تھے انہوں نے ایک میز کا انتخاب کیا اور بیٹھ گۓ۔ صخن میں سے باقی لوگ بھی اب باری باری اٹھ کر برآمدے میں آرہے تھے۔ 


میرا خیال ہے بارش کے تیز ہونے سے پہلے ہمیں نکل جانا چاہیۓ۔" نعمان نے دوبارہ خدشے کا اظہار کیا۔


رضوان نے چاۓ کا آخری گھونٹ بھرا اور اٹھ کھڑا ہوا، تو چلو۔' 


نہیں یار تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ' خالد بولا ' میرا دل ابھی اٹھنے کو بالکل نہیں چاہ رہا۔'


لیکن یار بارش تیز ہو جاۓ گی۔۔۔' رضوان کھڑے کھڑے بولا۔


تو کیا ہو گا ہم موٹر سائیکل پہ یا پیدل نہیں گاڑی میں  ہیں اور نہ ہی کسی کچے ویران راستے پر چل رہے ہیں بلکہ جی ٹی روڈ پر ہیں۔' خالد نے جواب دیا۔


ہاں یہ تو ہے۔ چلو چاۓ کا ایک ایک کپ اور پی لیتے ہیں۔' وہ اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولا اور ساتھ ہی بیرے کو آواز لگائی۔


کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ پھر سے اپنے اپنے موبائل میں کھو گۓ۔ بارش کی رفتار بڑھ گئ تھی اور ہوا کے تیز جھکڑ چلنے لگے تھے جس سے بارش کی پھوار اندر برآمدے تک آرہی تھی۔ خالد نے کرسی کی سمت تبدیل کرکے باہر صخن کی طرف رخ کر لیا تھا اور پشت سے ٹیک لگا کر آرام سے سگریٹ پینے میں مشغول ہو گیا۔ صخن کی گیلی مٹی کی خوشبو ان تک پہنچنے لگی تھی۔ وہ پھر کسی خیال میں کھو گیا۔


دیکھو بوندا باندی شروع ہو گئ ہے اب تو مجھے جانے دو۔' نغمانہ نے باغ کی ہری بھری گاس سے اٹھتے ہوۓ کہا۔


خالد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پھر نیچے بٹھا دیا۔  نہیں تم ابھی نہیں جا سکتی۔'


لیکن مجھے کافی دیر ہو گئ۔' وہ بولی۔


تو ہوتی پھرے، میں کیا کروں'۔ وہ جھنجھلا کر بولا۔ 'دو دو ہفتوں بعد تو تم مجھ سے ملتی ہو وہ بھی صرف تھوڑی دیر کے لیۓ اس میں بھی تم سارا وقت جانے کی باتیں ہی کرتی ہو۔'


تو کیا تم سے روز ملوں۔۔۔جب وقت آۓ گا تو پھر تو روز ہی ملوں گی۔'


وہ وقت پتا نہیں کب آۓ گا۔' اس نے آہ بھرتے ہوۓ کہا۔


صبر کرو، آجاۓ گا۔' اس نے تسلی دی۔


بارش قدرے تیز ہوںئ تو وہ اٹھ کر سائبان کے نیچے آکھڑے ہوۓ۔ 


اچھا ہاں !' وہ بولی ۔ 'ان دنوں بات بہت کم ہو گی اور آپ کو معلوم ہے کیوں۔' 


ہاں جانتا ہوں'  اس نے کہا، 'مصروف لڑکی۔'


وہی میں سوچ رہی تھی کہ آپ نے اپنے ڈیڑھ سارے القابات میں سے ابھی تک کسی لقب سے مجھے پکارا نہیں۔'


وہ اسے اکثر اسی طرح پکارتا تھا، کبھی اسے موبائل سے پیغام بھیجتا اور کہتا، 'ہے مصروف لڑکی یا بزی لڑکی کیا کر رہی ہو۔ کبھی کہتا، 'اے سوںئ لڑکی کہاں ہو یا کب اٹھو گی ، یا شرارتی لڑکی وغیرہ۔' جن کے جواب میں وہ کہتی تھی کیسے کیسے القابات ہیں جن سے آپ ہر وقت مجھے پکارتے رہتے ہیں۔


وہ ابھی وہیں کھڑے تھے کہ بارش کچھ تھم گئ اور دوبارہ بوندا باندی ہونی لگی۔ 


اب تو میرا خیال ہے چلنا چاہیۓ' وہ بولی، 'اس سے پہلے کہ بارش پھر سے تیز ہو ہمیں نکل جانا چاہیۓ۔'


اوہ ہو۔۔۔اس بوندا باندی کو چھوڑ کر بھلا کوںئ جاتا ہے، یہ تو محبت کی بوندا باندی ہے، اسے چھوڑ کر تو نہیں جانا چاہیۓ۔' 


اچھا جی تو کیا کرنا چاہیۓ تمہاری اس محبت کی بوندا باندی کا؟' اس نے شرارت سے منہ بگاڑ کر پوچھا۔ 


اسے تو محسوس کرنا چاہیۓ، اپنے اندر اتارنا چاہیۓ تاکہ آدمی پوری طرح بھیگ جاۓ، سرشار ہو جاۓ تا کہ اندر نفرت و عداوت کا کوںئ خشک کونا باقی نہ رہ جاۓ۔'۔۔۔



خالد نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور باہر گیلے صخن میں پھینک دیا۔ بارش اب تھم چکی تھی، وہ اٹھے اور بل ادا کر کے صخن میں آگۓ۔ چاروں گاڑی کی طرف بڑھے، باقی سب گاڑی میں بیٹھ گۓ جبکہ خالد ابھی باہر ہی تھا وہ بیٹھنے ہی والا تھا کہ اسے چند قطرے اپنے اوپر گرتے محسوس ہوۓ۔ بوندا باندی پھر شروع ہو گئ تھی۔















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات