Drizzling Of Love

Drizzling Of Love



 کالج کے ایم اے بلاک کے باہر ثنا اور مناحل کافی دیر سے کھڑی تھیں ، چھٹی ہوۓ کچھ وقت ہو چکا تھا مگر ثنا کا بھاںئ ابھی تک نہیں پہنچا تھا اس لیۓ دونوں وہیں کھڑی ہو گئیں۔ مناحل کا گھر کالج کے بلکل سامنے سڑک کے دوسری طرف تھا وہ اکیلی ہی آیا جایا کرتی تھی مگر آج ثنا کی وجہ سے اسے بھی رکنا پڑا۔ کالج کا مرکزی دروازہ یہاں سے کچھ فاصلے پر تھا مگر رش کے باعث دونوں ایم اے بلاک کے باہر ہی کھڑی ہو کر ثنا کے بھاںئ کے فون کا انتظار کرنے لگیں۔ دونوں بہت پرانی دوستیں تھیں سکول میں ایک ساتھ پڑھتی تھیں، کالج میں داخلہ بھی ایک ساتھ لیا اور اب ایم اے کے آخری سال میں تھیں۔ جب کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد بھی اس کا بھاںئ نہ پہنچا تو مناحل تنگ آکر بولی،


 "میں جا رہی ہوں یار! پتہ نہیں تمہارا بھاںئ کب پہنچے گا۔"


"نہ یار! جانے کی بات نہ کرنا تم چلی جاؤ گی تو میں اکیلی ادھر کیا کروں گی۔۔۔انتظار بڑی بری چیز ہوتا ہے یار۔" ثنا نے سرد آہ بھرتے ہوۓ کہا۔


"تو میرے یہاں رہنے سے تمہارا انتظار ختم ہو جاۓ گا؟"


"نہیں مگر کسی کے ساتھ مل کر انتظار کرنے سے انتظار کی اذیت کم ہو جاتی ہے۔۔۔ اور انتظار کا وقت بھی جلدی گزر جاتا ہے۔" ثنا نے جواب دیا۔


"لیکن میں یہاں کھڑے کھڑے تھک گئ ہوں فون تم اسے کر نہیں رہی۔"


"تمہارے سامنے ہی تو کتنی دفعہ کیا ہے" ثنا تنک کر بولی، "وہ خبیث اٹھا ہی نہیں رہا۔۔۔آ لے آج اسے بتاتی ہوں پتہ نہیں راستے میں کیا کرنے لگ جاتا ہے۔"


یہ خبیث کوںئ اور نہیں میں ہی ہوں ثنا میری بڑی بہن ہے جسے کبھی میں ثنا اور کبھی ثنا آپی کہہ کر پکارتا ہوں۔ آپی میں کبھی کبھار ہی کہتا ہوں، اس وقت جب مجھے ان سے کوںئ خاص کام نکلوانا ہو ورنہ عام حالات میں میں صرف نام لینے پر اکتفا کرتا ہوں اور اسی بات پر امی سے ڈانٹ کھاتا رہتا ہوں، وہ کہتی ہیں "شرم نہیں آتی تجھے اپنی بڑی بہن کو نام سے پکارتے ہو آپی یا باجی بولا کر۔" وہ کہتی تو ہیں اور میں سنتا بھی ہوں مگر عمل نہیں کرتا۔


 میں روزانہ آپی کو اپنے سکول سے آنے کے بعد ان کے کالج انہیں لینے آتا ہوں اور تقریباً روزانہ ہی دیر سے پہنچتا ہوں جس سے وہ تنگ ہو کر غصے میں آتی ہیں اور میری شامت آجاتی ہے۔ ایسے میں امی تو ہمیشہ آپی کا ہی ساتھ دیتی ہیں اور کہتی ہیں، "میں اسی لیۓ تمہیں روزانہ سکول سے آنے کے بعد کہتی ہوں کہ لیٹا نہ کرو بلکہ تھوڑی دیر بیٹھ کر سستا لیا کرو اور پھر لینے چلے جایا کرو۔ جب تم لیٹ جاتے ہو تو پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔" ایسے میں میرا صرف ایک مخافظ ہوتا ہے اور وہ ہے زقیہ آپی۔ زقیہ آپی ہم سب سے بڑی ہیں۔ مجھے پچپن سے انہوں نے ہی پالا ہے، دراصل میری پیدائش کے بعد امی کافی بیمار رہنے لگیں تو میری دیکھ بھال کا ذمہ آپی نے اپنے اوپر لے لیا۔ امی بتاتی ہیں وہ دن زقیہ آپی کے لیۓ بڑے کٹھن تھے وہ خود بھی ان دنوں سکول یا شاید کالج جایا کرتیں تھیں اور پھر گھر بھر کے کام کاج بھی کرتی تھیں اور میری دیکھ بھال بھی انہی کے ذمے تھی۔ اب زقیہ آپی تعلیم مکمل کر چکی ہیں اور گھر پر رہتی ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ انہوں نے ملازمت اختیار کی پھر معلوم نہیں کیوں ترک کر دی۔ 


آج بھی حسب معمول میں کافی دیر سے کالج پہنچا تھا اس لیۓ مجھے معلوم تھا ثنا کا پارہ آسمان چھو رہا ہو گا۔ میں پیچھے چھپ کر کچھ دیر تک ان کی باتیں سنتا رہا تاکہ اندازہ کر سکوں کہ کیسے حالات ہیں اور حالات میری توقع کے عین مطابق تھے، لیکن میں اتنا جانتا تھا کہ آپی اس جگہ مجھے کچھ نہیں کہیں گی کیونکہ ارد گرد اتنا رش تھا، لوگ آجا رہے تھے لہذا ابھی تو میں محفوظ تھا البتہ گھر پہنچ کر امی کے سامنے جو تماشا لگنا تھا اسے میں بخوبی سمجھتا تھا۔ اسی لیۓ گھر پہنچ کر میں نے آپی کو دروازے کے باہر اتارا اور موٹر سائیکل موڑ کر نکلنے ہی والا تھا کہ ان کی چنگھاڑتی ہوںئ آواز آںئ۔ "کہاں جارہے ہو، رکو ابھی اندر چلو ابھی تو تمہاری پریڈ ہونی ہے۔" اب ایسے میں جب مجرم کو پہلے ہی اندازہ ہو کہ اس کے ساتھ تھانے میں کیا سلوک کیا جاۓ گا اوپر سے اسے خود ہی بول کر یقین دلا دیا جاۓ تو وہ فرار نہ ہو گا تو کیا کرے گا۔ لہذا میں بھی فرار ہو گیا۔ مگر مجھے علم تھا کہ یہ فرار میں کوںئ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا کیونکہ آخر کار تو مجھے گھر جانا ہی تھا۔ لیکن اس طرح کرکے میں کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا تا کہ سزا میں زیادہ سے زیادہ تاخیر ہو سکے۔


ا میں اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا اور کافی دیر تک اس کے ساتھ باہر گھومتا رہا۔ گرمیوں کے دن تھے، دھوپ اچھی خاصی تھی مگر پھر بھی ہم سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے رہے اور اس دن پاس جتنا جیب خرچ تھا سب اڑا ڈالا۔ کبھی گنے کی رو اڑاںئ جا رہی ہے کبھی ریڑھی سے املی آلو بخارے کا شربت پیا جارہا ہے کبھی کوںئ چیز کھاںئ جا رہی ہے کبھی کوںئ چیز۔ ایسے میں مجھے بالکل دھیان ہی نہ رہا میں نے وہ پیسے بھی چٹ کر دیۓ جو امی نے مجھے سودا لانے کے لیۓ دیۓ تھے۔ پہلے تو میرے ذہن میں تھا اور میرا ارادھا تھا کہ آپی کو کالج سے لے کر واپسی پر راستے میں کسی دکان سے لے لوں گا مگر آپی کا موڈ دیکھ کر میں بلکل بھول گیا۔ اب ایسا ہے کہ جو مجرم پہلے ہی ایک جرم کی سزا سے بچتا پھرتا ہو اب اس پر دوسرا جرم بھی ثابت ہو جاۓ تو ایسے میں وہ بھلا کیا کرے اور جب کوںئ فرار بھی ممکن نہ ہو۔ بہرحال شام تک تو یہ مجرم فرار کے مزے لیتا رہا اور حسن اتفاق تھا کہ میرا موبائل بھی گھر پر ہی تھا لہذا میں کسی بھی قسم کے رابطے سے تو مخفوظ تھا لیکن جو بھی تھا آخرکار جانا تو مجھے گھر پر ہی تھا۔ 


میں کافی وقت گزار کر شام کے بعد گھر پہنچا۔ گھنٹی بجانے سے پہلے دروازہ دیکھا تو کھلا تھا میں نے اس بات کو غیبی مدد جانا اور چپکے سے دروازہ کھول کر دبے پاؤں اندر داخل ہوا، آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا صحن عبور کیا اور اندر حال میں چلا آیا۔ حال میں اس وقت صرف شکیل بھاںئ ہی تھے وہ صوفے پر لیٹے پتہ نہیں کن سوچوں میں گھم تھے یوں معلوم ہو رہا تھا کہ کچھ بیمار ہیں۔ میں انہیں وہیں چھوڑ کر اندر کمرے میں کھسکنے کو تھا کہ امی باورچی خانے سے برآمد ہوتی ہوںئ دکھیں۔


"کدھر تھے تم سارا دن، تمہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ گھر میں کیا ہوا ہے؟" میرے قدم جہاں تھے وہیں رک گۓ۔ امی نے اپنی بات جاری رکھی۔ "شکیل بھاںئ کو اتنی چوٹیں آںئ ہیں تم نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا۔"


"میں ابھی تو آیا ہوں امی، مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ کیا ہوا شکیل بھاںئ لو۔" میں بولا۔


امی نے پھر مجھے ڈانٹا، "وہی تو گھر میں کہیں ٹکو تو تمہیں پتہ ہو نہ کہ کس کے ساتھ کیا ہوا۔"


"چھوڑیں خالہ اس کو کیوں ڈانٹ رہی ہیں یہ تو ویسے ہی سنکی ہے۔" شکیل بھاںئ بولے، "کیوں سنکی کدھر غائب رہتے ہو آج کل؟"


شکیل بھاںئ مجھے سنکی ہی بلاتے تھے۔ معلوم نہیں وہ مجھے سنکی کیوں بلاتے تھے اور اس وقت میں اس کا مطلب بھی نہیں جانتا تھا لیکن پھر بھی ان کے کہنے پر اکثر چڑ جاتا تھا اور وہ شاید مجھے پکارتے بھی جان بوجھ کر چڑانے کے لیۓ ہی تھے۔


"پھر سنکی؟۔۔۔شکو شکو شکو۔۔۔" میں چڑ کر بدلے میں ان کا نام بگاڑ کر شکیل سے شکو کر دیتا اور وہ زوردار قہقہہ لگاتے۔ امی مجھے ڈانتیں "بیوقوف بڑے بھاںئ کو ایسے کہتے ہیں تم سے کتنے بڑے ہیں۔"


"تو وہ مجھے کیوں سنکی کہتے ہیں؟" میں سوال کرتا۔


"وہ تو پیار سے کہتے ہیں تم ان کے چھوٹے بھاںئ کی طرح جو ہوۓ۔" 


"تو میں بھی پیار سے کہتا ہوں پھر۔۔۔" میں امی کے جواب سے چڑ جاتا۔


 امی اپنا ڈانٹنے کا فریضہ پورا کرکے دوبارہ باورچی خانے میں چلی گئیں۔ اور میں اندر سے بہت خوش ہوا کہ شکیل بھاںئ کے ایکسیڈنڈ کی وجہ سے سارا دھیان ادھر چلا گیا اور میری جو آج شامت آنی تھی وہ ٹل گئ۔ لیکن یہ تو امی تھیں ابھی ثنا آپی سے ٹاکرا نہیں ہوا تھا معلوم نہیں ان کے کیا مزاج تھے۔


 وہ دن لیکن خیرو عافیت سے گزر گیا۔ آپی بھی شاید شکیل بھاںئ کے ساتھ ہوۓ حادثے کے باعث دن والی  بات بھول گئیں۔ بعد میں کافی دنوں بعد میں نے شکیل بھاںئ کو بتایا کہ "آپ کے ایکسیڈنڈ کی وجہ اس دن میں بچ گیا ورنہ میرا جو ایکسیڈنڈ ہونا تھا۔۔۔ توبہ توبہ۔" میں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوۓ کہا۔ شکیل بھاںئ خوب ہنسے اور بولے، "چل سنکی میں تیرے کچھ کام تو آیا۔"


شکیل بھاںئ کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں تعلیم مکمل کرتے ہی کالج میں لیکچرر شپ کی ملازمت مل گئ۔ پہلے تو ان کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے گھر لوٹ جائیں گے اور اپنے شہر جا کر کوںئ کام کریں گے مگر جب انہیں ملازمت کی پیشکش ہوںئ تو وہ سوچ میں پڑ گۓ۔ میرے ابو نے انہیں مشورہ دیا کہ "تم یہ موقع ضائع نہ کرو بلکہ کچھ دیر نوکری کرکے دیکھ لو اگر بعد میں ٹھیک نہ لگی تو چھوڑ دینا۔" لہذا انہوں نے تھوڑی سی سوچ بچار کے بعد مشورہ مان لیا اور نوکری کرنے لگے۔ میرے ابو بھی کالج میں پروفیسر تھے  اور ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ریٹائر ہوۓ تھے۔ ریٹائر ہوتے ہی ملنے والے پیسوں سے سب سے پہلے انہوں نے اپنا گھر بنوایا اور ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان کھول لی تاکہ صرف پنشن پر گزارا نہ کرنا پڑے۔ گھر والوں نے اور خاص کر شکیل بھاںئ نے انہیں کہا کہ آپ ساری عمر پڑھانے کے بعد اب دکان کیوں کھول رہے ہیں ابھی بھی آپ ٹیوشن سینٹر یا اکیڈمی بنا کر گزارا کر سکتا ہیں جو کریانے کی دکان سے زیادہ آمدن ہی آپ کو دے گی مگر وہ کچھ نہ بولے اور بس یہ کہا کہ " فی الحال ابھی یہی ٹھیک ہے اور یہ کہ کام جونسا بھی ہو آخر کام ہے۔" ان کا یہ کہنا تھا کہ مجھے ایک عذر مل گیا۔ پہلے ہی میرا پڑھنے لکھنے اور اسکول جانے کا بلکل من نہیں کرتا تھا اور اب میں نے ذہن میں ایک جواز تراش لیا۔ کافی دنوں تک میں اسی جواز کو ذہن میں لے کر گھومتا رہا اور پھر ایک دن جب سب گھر والے رات کے کھانے کے بعد اکٹھے بیٹھے باتیں کر رہے تھے میں نے اپنی اس بات کا اظہار کر دیا۔ میں نے کہا کہ "میں پڑھنا اور سکول جانا نہیں چاہتا بلکہ میں کوںئ کاروبار کرنا چاہتا ہوں تا کہ ابھی سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکوں۔" میں نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر بولا۔ "آخر کار تعلیم مکمل کرکے بھی تو میں نے کوںئ نوکری یا کاروبار کرنا ہے تو ابھی سے کیوں نہ ایسا کروں تا کہ اتنا سارا وقت ضائع ہونے سے بچ جاۓ۔"

میں پھر خاموش ہوا اور کن اکھیوں سے ابو کو دیکھنے لگا جو ہم لوگوں سے ذرا ہٹ کر بیٹھے تھے اور کوںئ کتاب پڑھ رہے تھے۔ میری یہ بات کہنے پر پہلی بار انہوں نے کتاب سے نظریں ہٹائیں اور میری طرف دیکھا۔ میں نے دوبارہ اپنے پہلے سے گڑھے ہوۓ دلائل بیان کرنے شروع کیۓ۔ "اب دیکھیئے ابو جی نے بھی تو ساری عمر پڑھنے پڑھانے میں لگا دی اور ابھی آکر دکان کھولنا پڑی۔ اگر یہی کاروبار وہ اپنے بچپن میں کرتے تو آج ایک کی بجاۓ ان کی دکانوں کی چینز ہوتیں، کیا ملا انہیں اتنی تعلیم حاصل کرکے، جتنا پیسا انہوں نے تعلیم پر لگایا اگر وہی کاروبار پر لگاتے تو آج کہاں سے کہاں ہوتے۔ اور وغیرہ وغرہ۔۔۔" میں نے اپنی طرف سے مظبوط دلائل کے انبار لگا دیۓ تھے اور اس امید پر تھا کہ ابھی گھر والے اپنی نشستوں سے اٹھ کر تالیاں بجا کر مجھے داد دیں گے اور شاید شکیل بھاںئ مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا لیں اور کہیں کہ یار سنکی! کیا بات کی ہے تو نے، ایسی اعلی بات تمہارے ذہن میں آںئ کیسے؟ اور ابو تو شاید مجھے گلے لگا کر کہیں کہ آج تو تم نے میرا دل جیت لیا۔ مگر میری توقع کے برعکس ایسا کچھ نہیں ہوا تمام گھر والے اسی طرح بیٹھے مسکراتے رہے جیسے ان کے نزدیک میری بات بس ایسے ہی تھی جس کو انہوں نے زیادہ سنجیدہ لینا مناسب نہیں سمجھا۔ ابو البتہ اپنی جگہ سے ہلے، رخ میری طرف کیا، آنکھوں سے نظر کا چشمہ اتارا، کتاب گود میں رکھی اور گویا ہوۓ۔ 


"کیا کہا تم نے۔۔۔تم کیا کرنا چاہتے ہو، کاروبار؟" انہوں نے خود ہی سوال کیا اور پھر خود ہی بولے، "اچھا تو تم تعلیم چھوڑ کر کاروبار کرنا چاہتے ہو۔۔۔ہاں تو تمہارا کیا خیال ہے تعلیم کیوں حاصل کی جاتی ہے؟" انہوں نے دوبارہ سوال کیا مگر اس دفعہ جواب کے انتظار میں خاموش ہو گۓ۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور جواب دیا "تاکہ اچھی نوکری مل سکے اور۔۔۔اور تا کہ ہم اچھی اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔"


"اچھا چلو یہ تو تعلیم کا ایک مقصد ہوا، پر تم نے کہا کہ تم تو کاروبار کرنا چاہتے ہو اور اس کے لیۓ تو تعلیم کی کوںئ زیادہ ضرورت نہیں۔ یہی کہا نہ تم نے؟"


"جی" میں نے ہلکے سے جواب دیا۔


"تو برخوردار" وہ بولے، "جان لو کہ تمہارا تعلیم حاصل کرنے کا مقصد درست نہیں۔ بلکہ تمہارا زندگی کا مقصد ہی درست نہیں۔ اب تمہارا تعلیم کا مقصد جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود انسان کا مقصد کیا ہے۔۔۔ اچھا اب جیسے تم چاہتے ہو کہ تعلیم حاصل کرکے یا بغیر تعلیم کے اچھی سی نوکری یا کاروبار کرو تا کہ خوشحالی آۓ اور اس کے بعد ایک اچھی سی بیوی ملے، شادی ہو اور ہنسی خوشی رہیں، ساتھ ساتھ کاروبار یا نوکری میں بھی ترقی کرتے جائیں، اچھا گھر بار ہو، بنک بیلنس گاڑیاں وغیرہ مل جائیں اور پھر بوڑھے ہو جائیں اور اس کے بعد اگلے جہان۔۔۔یہی ہے نا تمہاری زندگی کا مقصد اور یہی کچھ باقی سب لوگوں کا بھی ہے۔ "اس بار ابو نے سب کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا۔ اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ بولتے زقیہ آپی بولیں، " ہاں جی! تقریباً سب کا مقصد یہی ہوتا ہے تو اس میں براںئ کیا ہے؟"


"نہیں براںئ کوںئ نہیں" وہ بولے "بلکہ یہ تو اچھی بات ہے اپنی زندگی میں بہتری لانا خوشحالی لانا، یہ تو ضروری ہے۔ یہ ہر انسان کی مادی ضرورتیں ہیں جنہیں اس نے ہر حال میں پورا کرنا ہے۔ اور انہی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیۓ ہی کوںئ دوکان چلاتا ہے، کوںئ فیکٹری لگاتا ہے، کوںئ ڈاکٹر بنتا ہے، کوںئ انجینئر بنتا ہے ختی کہ کوںئ کھلاڑی بنتا ہے، کوںئ اداکار بنتا ہے اور کوںئ گلوکار۔ یہ سب پیشے ہیں جو انسان اپنی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیۓ ہی اختیار کرتا ہے۔ یہ ساری جدوجہد اور ساری محنت انسان اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کے لیۓ ہی کرتا ہے۔ لیکن۔۔۔" انہوں نے گہرا سانس لیا اور پھر بولے،      "یہ سب کام تو جانور بھی کرتے ہیں۔ وہ بھی اپنی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیۓ تگ و دو کرتے ہیں، شکار کے لیۓ جدوجہد کرتے ہیں، بچے پیدا کرتے ہیں انہیں پالتے ہیں، سب کچھ کرتے ہیں۔ اب اگر آپ یہ بات مانتے ہیں کہ اس نے انسان کو کسی مقصد کے لیۓ پیدا کیا ہے تو پھر وہ یہ مقصد تو نہیں ہو سکتا، اگر  نہیں مانتے تو پھر تو بات الگ ہے اور اگر مانتے ہیں تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا کہ وہ مقصد یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ یہ سب تو ہم اس دنیا میں رہنے کے لیۓ اپنی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیۓ کرتے ہیں جو کہ اچھی بات ہے مگر یہ سب تو حیوان بھی کرتے ہیں۔ اب کیا اس نے ہمیں مخض اس لیۓ پیدا کیا ہے کہ ہم ساری زندگی لباس ، خوراک اور گھر اور گاڑی کے حصول کے چکروں میں ہی گزار دیں۔ آخر کوںئ تو اور مقصد ہو گا؟


اس دفعہ ثنا آپی بولیں: " ہمیں اس لیۓ پیدا کیا گیا ہے  کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔"


"یہ تو ہمارا اخلاقی فریضہ ہوا مقصد تو نہ ہوا۔ بلکل اسی طرح جس طرح ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اور اہل خانہ کی مادی ضروریات کو پورا کریں اسی طرح یہ بھی ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کی مدد کریں۔ اگر آپ کر سکتے ہیں تو ضرور کسی کی مشکل دور کریں، کسی مظلوم کو انصاف دلا سکتے ہیں تو ضرور دلائیں یا اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کوشش کر کریں کہ کم سے کم کسی کو آپ کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور کسی کا دل نہ دکھے۔ لیکن یہ بھی مقصد تو نہ ہوا؟ 


" تو پھر کیا ہے مقصد؟" زقیہ آپی بولیں۔


"وہ مقصد ہے علم کا حصول۔ ہم اس کائنات کا علم حاصل کریں اس کو جانیں تا کہ حقیقت تک پہنچ سکیں۔ یہ علم ہی ہے جو ہمیں دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتا ہے۔"


"لیکن ہم علم حاصل تو کر رہے ہیں، ابھی آپ نے کہا ڈاکٹر بنتے ہیں، انجینئر بنتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔" اس بار شکیل بھاںئ بولے۔


" نہیں ہم لوگ تعلیم اپنی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیۓ حاصل کرتے ہیں، اچھی نوکری کے لیۓ۔۔۔ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ ڈاکٹر یا انجینئر باعلم لوگ ہیں، نہیں یہ صرف پڑھے لکھے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں لیکن باعلم نہیں۔ کیا کسی ڈاکٹر کو تم کہہ سکتے ہو کہ یہ سائنس کا عالم ہے؟ نہیں کہہ سکتے ناں، وہ تو صرف ایک مکینک ہے جیسے ایک گاڑیوں کا مکینک ہوتا ہے جسے معلوم ہے کہ گاڑی کی باڈی میں کیا بیماری لاحق ہو گئ ہے اور اسے کس طرح ٹھیک کرنا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ 


"تو پھر علم کیا ہے اور یہ ساری تعیلم حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے؟" زقیہ آپی نے پوچھا۔


 "تعلیم سے یہاں میری مراد رسمی تعلیم ہے یعنی وہ تعلیم جو ہم سکول، کالج یا یونیورسٹی میں حاصل کرتے ہیں۔ یہ تعلیم ہمیں صرف پڑھنا لکھنا سکھاتی ہے اور مختلف شعبوں کی چند مہارتیں سیکھا دیتی ہے تاکہ جس سے ہم روزی روٹی کما سکیں۔ اس تعیلم سے  ہم تعلیم یافتہ تو بن جاتے ہیں لیکن باعلم نہیں بنتے۔ اول تو علم کا حصول ہمارے اپنے مشن میں ہی نہیں اور اگر کوںئ علم حاصل کرنا بھی چاہے تو اپنی تنہا جدوجہد سے کرتا ہے، یہ رسمی تعلیم اسے کچھ نہیں سکھاتی۔ اب اس میں اس تعلیم کا قصور ہے یا ہمارا اپنا، میں نہیں جانتا۔


 "تو پھر کیا ہمیں یہ تعیلم حاصل کرنی چاہیۓ؟" اس دفعہ میں نے سوال کیا۔


وہ مسکراۓ 'ہاں بلکل کرنی چاہیۓ کیونکہ پڑھنا لکھنا سیکھنا تو علم حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی ہے۔ ایک ان پڑھ بندہ تو علم حاصل نہیں کر سکتا۔ اور اگر آپ اسکول سے چلتے چلتے اعلی سطح تک پہنچ جاتے ہیں تو مختلف علوم کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات تو حاصل کر ہی لیتے ہیں۔" وہ پھر تھوڑی دیر سانس لینے کو رکے اور پھر بولے۔ "تو بیٹا جی میرا کہنا یہ ہے کہ آپ روزی روٹی کے لیۓ جو مرضی پیشہ اختیار کریں، جو بھی شعبہ چنیں جس سے بھی آپ کو دلچسپی ہے، وہ آپ کی اپنی مرضی لیکن اس کے ساتھ ساتھ علم کے حصول کے لیۓ بھی تو جدوجہد کریں۔ آپ اپنی مادی زندگی کو بہتر بنانے کے لیۓ جس طرح تگ و دو کرتے ہیں اسی طرح علم کے حصول کے لیۓ بھی تو جدوجہد کریں۔ یہ بھی آپ کا فرض ہے اور زندگی کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔ جبکہ ہم صرف وہی کچھ سیکھتے ہیں جس سے ہمیں معاشی یا مادی فائدہ حاصل ہوتا ہے جبکہ علم کا اصل مقصد کچھ اور ہے یہ مادی فوائد تو اضافی ہیں، ضمنی ہیں جو ہمیں حاصل ہو جاتے ہیں۔"


اس دن کی گفتگو میں مجھے کچھ سمجھ آیا یا نہیں لیکن اتنا ضرور تھا کہ میں نے اس کے بعد کبھی پڑھاںئ چھوڑنے کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیۓ نہیں کہ اس دن میں ان کی باتوں سے متاثر ہو گیا تھا اور میرے اندر علم حاصل کرنے کی لگن پیدا ہو گئ تھی بلکہ اس لیۓ کہ اب دوبارہ یہ ساری گفتگو سننے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا۔ 


شکیل بھاںئ کے زخم اب مندمل ہو گۓ تھے اس لیۓ انہوں نے دوبارہ کالج جانا شروع کر دیا تھا۔ کالج کے بعد وہ دوپہر کے وقت ایک دفعہ گھر آتے اور کھانا کھا کر پھر باہر نکل جاتے، شام کو دیر سے لوٹتے۔ کالج سے آنے کے بعد پتلون کے اندر دھنسی ہوںئ شرٹ باہر نکالتے اور چپل پہن کر سارا دن اسی میں گھومتے رہتے۔ امی انہیں کہتیں بھی کہ باہر جاتے ہو تو شرٹ اندر کرکے جایا کرو نیچے سے ساری سلوٹیں دکھاںئ دیتی ہیں مگر وہ ایسے ہی نجانے کہاں کہاں سے گھوم پھر آتے۔ رات کو جب سب گھر والے اکٹھے ہوتے تو لڈو یا پتے کھیلنے کا دور چلتا جس میں اکثر وہ ایسی ایسی اعلی پاۓ کی فنکارانہ 'چیٹنگ' کرتے کہ بندہ دس آنکھوں سے بھی دیکھے تو پکڑ نہ پاۓ۔ آپ کا دھیان ذرہ سا ہٹا تو  سمجھو آپ گۓ۔ اس وقت وہ کچھ نہیں بولتے تھے مگر کھیل ختم ہونے کے بعد اپنے آپ ہی بتا دیتے اور کہتے، "تم لوگ کیا ہو یار! تمہاری آنکھوں کے سامنے سے میں یہ 'گاٹی' لے اڑا اور تم لوگوں کو خبر ہی نہ ہوںئ"۔ کبھی کبھی تو کھیلنے سے پہلے ہی بتا کر شرط لگاتے اور کہتے کہ میں اس کھیل میں چیٹنگ کروں گا پکڑ کر دیکھانا۔ اور آدمی پورے کھیل میں جتنا مرضی چوکنا ہو کر بیٹھے وہ کہیں نہ کہیں سے دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے۔ لڈو میں تو پھر کچھ نہ کچھ بچت ہو جاتی مگر تاش کے پتوں میں ایسی ایسی ہیرا پھیری کرتے کہ اگر 'شرلاک ہومز' بھی آجاۓ تو نہ پکڑ پاۓ۔ البتہ کیرم کھیلتے ہوۓ کبھی چیٹنگ نہ کرتے کیونکہ اس میں وہ اتنے ماہر تھے کہ دو تین باریوں پر ہی پورا کھیل ختم کر سکتے تھے اس لیۓ ان کے ساتھ کیرم کھیلتا بھی کوںئ کبھی کبھار ہی تھا۔ چھٹی والے دن دیر تک سوۓ رہتے اور اس دوران اگر کوںئ دوست ملنے آجاۓ تو مشکل ہی سے اٹھتے اور کبھی کبھی تو اسے واپس جانا پڑتا۔ لیکن اگر میں کبھی کسی وجہ سے ایسا کرتا تو مجھے لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالتے۔


میں اب اسکول سے ترقی کرکے کالج میں آچکا تھا۔

 پڑھاںئ یا تعلیم حاصل کرنے کے متعلق اب بھی میرے جذبات و احساسات وہی تھے مگر ابو کے ڈر کے باعث مجبورا پڑھنا پڑھتا تھا جس سے مشکل سے سہی مگر پاس ضرور ہو جاتا تھا۔ لیکن ذہن میں اس ماٹو کو لے کر چلتا رہا کہ 'ڈر کے آگے جیت ہے'  کسی نہ کسی دن جیت مل ہی جاۓ گی اور پڑھاںئ سے جان چھوٹ جاۓ گی۔  مگر اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ڈر کے آگے بھی ڈر ہی ہے۔ یہ کچھ عرصے بعد پتا چلا۔


رمضان کا مہینہ تھا میں روزانہ افطاری کے بعد گھر سے نکل جاتا تھا، گھر والے سمجھتے کہ نماز پڑھنے جاتا ہوں مگر ایسا نہ تھا۔ میں اور میرا دوست ثقلین دونوں پہلے سے طے کردہ منصوبے کے تحت گھر سے نکلتے اور اپنی مقرر کردہ جگہ پر پہنچ جاتے۔ ثقلین کا گھر ہماری گلی کے پیچھے والی گلی میں ہے۔ وہ اپنی گلی سے نکلتا اور میں اپنی گلی سے اور پھر دونوں ایک ساتھ اپنی مخصوص جگہ پر جاتے۔ راستے میں ایک کھوکھے سے سگریٹ خریدتے اور دو تین سگریٹ پی کر لوٹتے۔ ابو اور بھاںئ شکیل بھی مسجد جاتے تھے مگر وہ کبھی مجھے پکڑ نہ پاۓ کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ میں محلے کی دوسری مسجد میں جاتا ہوں۔ اور ابھی تک ایسی کوںئ وجہ بھی نہ تھی کہ انہیں کسی قسم کا مجھ پر شک گزرتا۔ لیکن آخر کار ایک دن وہ وجہ پیدا ہو ہی گئ۔ ہوا کچھ یوں کہ افطار کے بعد میں اور ثقلین دونوں اپنے معمول کے مطابق گھر سے نکلے راستے سے کھوکھے سے سگریٹ لیۓ اور باتیں کرتے ہنستے کھیلتے کینٹین کے پیچھے کھیل کے ایک میدان میں اپنی مقرر کردہ جگہ پر چھپ کر بیٹھ گۓ۔ آرام و سکون سے ہم نے ایک دو سگریٹ پیۓ اور واپسی کی راہ لی۔ واپسی پر ہمیں صدیق صاحب ملے جنہوں نے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھا مگر بولے کچھ نہیں اور گزر گۓ۔ صدیق صاحب کا گھر ہماری گلی میں ہی ہے اور وہ میرے ابو کے بے حد اچھے دوست ہیں۔ مگر مجھے بالکل پسند نہیں اس لیۓ کہ وہ میرے ابو کو میری شکایتیں لگاتے رہتے تھے۔ اس دن تو وہ ایسے ہی گزر گۓ اور ہم نے بھی کوںئ زیادہ دھیان نہ دیا اور یہی ہماری بھول تھی۔ ہمیں کیا معلوم تھا صدیق صاحب شکایتی ہونے کے ساتھ ساتھ جاسوس طبیعت کے مالک بھی ہوں گے۔ دراصل انہیں ہم پر اسی وقت شک ہو گیا تھا اس لیۓ انہوں نے اپنے چھوٹے لڑکے سکندر کو ہم پر نظر رکھنے کو کہہ دیا اور ہمارے پیچھے جاسوسی پر لگا دیا۔ سکندر کی ہم سے اور ہماری اس سے بلکل نہیں بنتی تھی اور ایک دو بار تو لڑاںئ کی نوبت بھی آچکی تھی اس لیۓ وہ پہلے ہی ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا۔ لہذا اس نے غنیمت سمجھا اور دو تین دن تک ہماری جاسوسی کرتا رہا۔ ایک شام ہم اپنی اسی مخصوص جگہ پر کارواںئ ڈال کر واپس آرہے تھے کہ راستے میں ہمارا دوست بالا ہمیں مل گیا۔ وہ تیزی سے بھاگتا ہوا ہماری طرف ہی آرہا تھا۔ ہم دونوں کے علاوہ تیسرا صرف بالا تھا جس کو پتہ تھا کہ ہم اس وقت کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ ہم نے اس کو ہماری طرف بھاگتے آتے اور ہانپتے ہوۓ دیکھا تو خیران ہوۓ کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ وہ جیسے ہی قریب آیا ہم نے اس سے پوچھا کہ کدھر بھاگے جا رہے ہو۔ اس نے چند لمحے اپنا سانس بجال کیا پھر بولا، "وہ۔۔۔وہ تمہارے ابو اور گھر والوں کو پتہ چل گیا ہے کہ تم لوگ سیگر۔۔۔" اس نے فقرہ پورا بھی نہ کیا تھا کہ ہم سمجھ گۓ کہ کیسی آفت ٹوٹ پڑی ہے۔ ہمارا جی چاہتا تھا کہ ہم اس سے کہیں کہ ظالم ایسی خبر ایک دم کون سناتا ہے، ایسی جان لیوا خبر سنانے سے پہلے آدمی کو کچھ تو تیار کیا جانا چاہیۓ اور اگر آدمی بھی میرے جیسا کمزور دل کا مالک ہو۔ کافی دیر تک ہم دونوں سکتے میں رہے۔ ٹانگیں من من کی ہو گئ تھیں، اٹھاتے تھے مگر اٹھنے سے انکار کر دیتی تھیں۔ میں نے اوپر آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا، آج لگتا تھا کہ کائنات کا راز اور حقیقت مطلق تک رساںئ ایک ہی جھٹکے میں ملنے والی تھی۔










Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات