بادل آج صبح سے برس رہے تھے۔ آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا۔ میں اپنے کمرے میں گرم لحاف میں بیٹھا باہر برستی تیز بارش کا شور سن رہا تھا۔ یہ بارش تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں آج پورا دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا لیکن اندازہ کر سکتا تھا کہ اس وقت تک گلی پانی سے بھر چکی ہو گی اور سڑک پر جگہ جگہ پانی کے ننھے ننھے تالاب بن چکے ہوں گے۔ پورا شہر بارش سے نہا گیا ہو گا۔ کمرے میں میرے اور آدھی رات کے سناٹے کے سوا اور کوںئ نہیں تھا۔ کچھ پڑھنے کا خیال آیا تو شاعری کی کتاب اٹھا لی۔ دو تین صفحے ہی پڑھ پایا تھا کہ اکتا کر کتاب بند کر دی۔ پھر افسانوں کی کتاب اٹھائی بمشکل آدھا صفحہ پڑھا اور یہ کتاب بھی بند کر کے رکھ دی۔ کچھ پڑھنے کو دل نہیں کررہا تھا۔ صبح سے ایک ہی یاد ذہن کی دیواروں سے بار بار آکر ٹکراتی، گزرتی اور پھر ٹکرا جاتی۔ سردیوں کے یہی دن تھے جب ہماری پہلی دفعہ باقاعدہ گفتگو کا آعاز ہوا تھا بلکہ اس سے بھی پہلے بہت پہلے سردیوں ہی کے دن تھے جب ہم پہلی بار ملے تھے۔ وہ دن بھی عجیب دن تھے جب ہم نے کچھ بھی نہیں سوچا تھا نہ ملنے کے بارے میں اور نہ بچھڑنے کے بارے میں۔ وہ دن تو بس ہمارے ساتھ کے دن تھے۔ ہمارے دن تھے، ہمارے اپنے دن، ہماری اپنی راتیں۔ سردیوں کے یہی شب و روز تھے اسی طرح طویل بارشوں کے سلسے تھے ٹھنڈی گداز شامیں تھیں اور سنہری دوپہریں تھیں۔ وہ دن بھی عام دنوں کی طرح ایک عام دن تھا جب میں پہلی بار اس سے ملا تھا اور اسے دیکھا تھا۔ ہم دونوں بلکل اسی طرح ملے تھے جیسے زندگی کے روزمرہ کے جھمیلوں میں ہزاروں لاکھوں عام لوگ روزانہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ مگر پھر وہ عام دن رفتہ رفتہ خاص ہوتے گۓ اور ہم دونوں عام لوگ بھی اک دوسرے کے لیۓ خاص بن گۓ۔ لیکن یہ عام سے خاص بننے کا سفر اپنے اپنے دل میں، اپنے تصور میں تو شاید جلدی طے ہو گیا مگر اسے حقیقت تک لانے میں میلوں کا سفر کرنا پڑا۔ لیکن یہ سارا سفر خود بخود ہو گیا، قدرتی طور پر، اپنے آپ، جیسے کوںئ آپ کا ہاتھ پکڑ آپ کو اس سمت لیۓ جا رہا ہو۔ شاید کبھی کبھی یونہی ہی ہوتا ہے۔ آپ کسی سفر کا ارادہ نہیں کرتے۔ اس کے لیۓ کوںئ تیاری نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے لیۓ کوںئ جدوجہد کرتے ہیں۔ بس دل میں خواہش جنم لیتی ہے اور آپ کے قدم اپنے آپ اس سمت کی طرف اٹھ جاتے ہیں اور آپ منزل کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ وہ سفر کب طے ہو جاتا ہے آپ کو خود بھی معلوم نہیں پڑتا۔ اس سفر کے دوران ہونے والے بہت سے واقعات بہت سے قصے آپ کے ذہن سے چپک جاتے ہیں اور ان پر وقت کی دھول پڑ جاتی ہے پھر ہوا کا کوںئ جھونکا آتا ہے اور دھول کو اڑا لے جاتا ہے جس سے وہ واقعات بلکل نمایاں ہو کر ایک فلم کی طرح آپ کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگتے ہیں۔ میں تو ایسا ہی تھا۔ بلکہ شاید اب بھی ایسا ہی ہوں۔ دنیا کو ایک فلم کی طرح ایک ناظر کی حیثیت سے دیکھنے والا۔ جو دنیا کو باہر بیٹھ کر دیکھتا ہے مگر اس میں شامل نہیں ہوتا، نہ ہونا چاہتا ہے۔ جس کے سامنے مختلف مناظر مختلف واقعات چل رہے ہیں اور وہ انہیں پیچھے بیٹھ کر ایک فلم کی صورت دیکھ رہا ہے۔ لیکن اگر کبھی کبھار غلطی سے یا کسی حادثے سے وہ اس فلمی دنیا میں چلا جاۓ یا کوںئ اسے دھکا دے کر اندر دھکیل دے تو وہ جتنی جلدی ہو سکے معاملہ نپٹا کر باہر نکلنے کی کرتا ہے اور باہر بیٹھ کر پھر سے اس فلم کو دیکھنے لگتا ہے۔ وہ بھی کچھ کچھ ایسی ہی تھی اپنی دنیا میں کھوںئ اپنی دنیا میں مگن، خوش اخلاق اور خوش مزاج۔
ہم دونوں کے ساتھ کے دن بہت تھوڑے تھے۔ پلک جھپکنے میں گزر گۓ۔ ایسے جیسے آپ کسی ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ہوں اور کوںئ تیز گام زناٹے سے گزر جاتی ہے لیکن اس کے گزر جانے کے بعد بھی آپ کو کافی دیر تک اس کی موجودگی کا احساس رہتا ہے۔ ہمارا ساتھ بھی بس اتنا ہی تھا پلک جھپکنے سے پہلے ہی گزر گیا۔ بلکل ساون کی اس بارش کی طرح جو آسمان کے کسی چھوٹے سے کونے پر ایک چھوٹی سی بدلی سے پھوٹتی ہے اور چند منٹ برسنے کے بعد تھم جاتی ہے۔ معلوم ہی نہیں ہو پاتا بارش کب آںئ اور کب چلی گئ مگر آپ کو پوری طرح بگھو جاتی ہے۔
ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا ایک ہی منزل کے مسافروں کو ایک دن الگ الگ راستوں پر سفر کرنا پڑے گا۔ مگر جیسے رات میں آسمان پر چمکنے والے ستاروں کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہی سورج کی آمد کا وقت ہو گا انہیں رخصت ہونا پڑے گا۔ شاید اسی طرح ہمیں بھی اپنے باطن میں ایک احساس تھا کہ ایک دن ہم بھی دو الگ الگ راستوں پر چلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
یہ محض ایک اتفاق تھا کہ جب ہم ملے تھے تب ندی نالے، جھیلیں جم کر چٹان کی طرح سخت ہو گۓ تھے۔ پہاڑوں نے سفید چادر اوڑھ لی تھی اور آبشاریں سوکھ چکی تھیں اور جب بچھڑے تھے تب بھی یخ ہواؤں نے آکر ڈھیرے ڈال دیۓ تھے۔ سورج حدت پہچانے کی ناکام کوشش میں تھا اور موسمی پرندے ہجرت کر کے جا چکے تھے۔ لوگوں نے اپنی جون بدل لی تھی اور ہلکے پھلکے نرم لباس کی جگہ موٹے اونی لباس زیب تن کر لیۓ تھے۔ عرصے سے بند پڑے ہیٹر دھول مٹی جھاڑ کر صاف کر لیۓ گۓ تھے اور دکانداروں نے انگیٹھیاں اور ریڑھی بانوں نے آگ کے الاؤ روشن کر لیۓ تھے۔
جس موسم میں ہم بچھڑے تھے اور جس میں ملے تھے بظاہر ایک ہی طرح کا موسم تھا مگر دونوں میں کتنا فرق تھا۔ دونوں کی شدت میں بھی بظاہر کوںئ خاص فرق نہیں تھا لیکن دونوں کتنے الگ طرح سے محسوس ہوتے تھے۔
بچھڑتے وقت پہاڑوں نے چادر کی جگہ سفید کفن اوڑھ لیا تھا اور یخ ہوائیں سانپ کی طرح پھنکارتی ہوںئ معلوم ہوتی تھیں۔ اس موسم نے درختوں کو برہنہ کر دیا تھا اور ان کا سبز لباس جل کر راکھ ہو چکا تھا جو خشک پتوں کی صورت بکھرا پڑا تھا۔
ملنے اور بچھڑنے کی کیفیات میں کس قدر فرق ہوتا ہے۔ جب ہم ملے تھے تو راتیں کتنی روشن، کتنی پرنور ہو گئ تھیں۔ سردیوں کا ٹھنڈا چاند مسکراتا تھا تو اس کی مسکراہٹ جب آنگن تک پہنچتی تھی تو دیوار پر لگی بیل بھی مسکرا اٹھتی تھی اور پھول کھلکھلا کر ہنسنے لگتے تھے۔ بارشیں موسیقی ترتیب دیتیں تھیں۔ بادل جھومتے اور موتیوں بھرا آسمان گنگنانے لگتا تھا۔ مگر بچھڑتے وقت راتیں کتنی تاریک ہو گئ تھیں۔ بارشیں شور کرنے لگی تھیں۔ بادل چنگھاڑنے لگے تھے۔ ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئ تھی، آسمان نے گنگنانا چھوڑ دیا تھا اور چاند بھی مسکرانا بھول گیا تھا۔
آج کی رات بھی کتنی اندھیری، ویران اور طویل ہے۔ اتنی طویل! لگتا ہے ستارۂ سحری چمکنا بھول گیا ہے یا سورج کسی اور سمت نکل گیا ہے۔ ایسی اجاڑ شب اور انتظار دونوں کتنی جان لیوا چیزیں ہیں۔
Post a Comment
Thank you for your comment