Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





 چاۓ گرما گرم چاۓ" چاۓ والا ایک ہاتھ میں کیتلی پکڑے دوسرے ہاتھ میں شیشے کے چھوٹے گلاس لیۓ ایک طرف سے چلا آرہا تھا۔ بارش دھیمی رفتار سے برس رہی تھی اور کب سے برسے جارہی تھی مگر چاۓ والے کو اس کی ذرہ بھی پرواہ نہیں تھی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مستعدی سے کام کر رہا تھا کیونکہ بارش کے دن اس کا دھندہ مزید بڑھ جاتا تھا۔ وکیل صاحب نے جو اپنے دفتر میں تنہا بیٹھے کسی کام  میں مگن تھے اس کی آواز سنی تو اسے پکارا "اوۓ بابو"۔ چاۓ والے کو سب بابو ہی کہتے تھے معلوم نہیں اس کا اصلی نام کیا تھا مگر جب سے اس نے کچہری میں آکر چاۓ بیچنا شروع کی تب سے اس کا نام بابو ہی پڑ گیا تھا۔ پچھلے آٹھ دس سال سے وہ روزانہ اپنے معمول کے مطابق آکر چاۓ بیچ رہا تھا، کچہری میں تقریباً سبھی لوگ اس کی چاۓ کو پسند کرتے تھے۔ دکان تو اس کی کچہری سے باہر چوک میں تھی مگر وہ دن کے مختلف وقفوں میں کچہری کے اندر آکر بھی چاۓ بیچا کرتا تھا اور جس دن بارش ہوتی خاص کر سردیوں کی بارش، اس دن تو اس کی چاندی ہو جاتی، کام کے دوران اس موسم میں سبھی کا چاۓ پینے کو جی للچاتا۔ وکیل عامر محمود کا بھی یہ چاۓ پینے کا معمول نہیں تھا وہ عام طور پر اس وقت چاۓ نہیں پیا کرتے مگر آج اچانک بارش سے ان کا بھی من چاۓ پینے کو کر آیا۔ بابو اندر آیا تو وکیل صاحب نے اسے ایک کپ چاۓ پلانے کو کہا۔ بابو انہیں چاۓ پیش کرکے وہیں بیٹھ گیا، باہر بارش کی رفتار پہلے سے بڑھ گئ تھی اس لیۓ اس نے یہی مناسب سمجھا کہ کچھ دیر یہیں ٹھہر جانا چاہیۓ۔ بارش کے علاوہ بھی اکثر اوقات وکیل صاحب اسے اپنے پاس کچھ دیر کے لیۓ ٹھہرا لیتے تھے۔ وہ اسے تب سے جانتے تھے جب اس کی عمر محض سولہ سترہ برس تھی تب وہ اپنے باپ کے ساتھ کچہری میں چاۓ لے کر آیا کرتا تھا اب اس کا باپ کافی بوڑھا ہو گیا تھا اس لیۓ اب وہ دکان میں ہی ٹھہرتا اور بابو کو ہی چاۓ لے کر کچہری میں بھیجا کرتا تھا۔ وکیل صاحب کو بابو اچھا لگا تھا وہ اس سے پیار کرتے تھے اور بابو کو بھی وکیل صاحب پسند آۓ تھے اس لیۓ دن میں ایک مرتبہ تو وہ لازماً ان کے دفتر چکر لگا لیتا۔ وکیل صاحب فارغ ہوتے تو ان سے کچھ دیر بیٹھ کر باتیں کرتا نہیں تو سلام کرکے چلا آتا۔ 


بارش کافی دیر تک جاری رہی اس لیۓ وہ بھی بہت دیر تک وکیل صاحب کے پاس بیٹھا رہا۔ک

 کیا بتاؤں وکیل صاب' بابو بولا 'بابا اب بوڑھا ہو گیا ہے، کئ دفعہ کہا ہے کہ گھر میں ہی رہا کرو دکان پہ آنے کی ضرورت نہیں مگر مانتا ہی نہیں۔ آپ ہی بتاؤ وکیل صاب میں نے کوںئ غلط بات کی ہے؟" 


وکیل صاحب چاۓ پیتے پیتے باتیں سنتے جاتے اور سر ہلاۓ جاتے۔  ہاں بابو!' وہ بولے 'بات تو تمہاری سولہ آنے درست ہے، بابا تو تمہارا واقعی بوڑھا ہو گیا ہے  اسے اب گھر پر آرام ہی کرنا چاہیۓ۔ پوری زندگی ہو گئ ہے اسے کام کرتے کرتے میرے یہاں وکیل لگنے سے پہلے کا وہ یہاں پر چاۓ بیچ رہا ہے۔ میرے والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب وہ یہاں نۓ نۓ آۓ تھے تب تمہارے بابا نے یہاں آکر دکان کھولی تھی۔""


جی وکیل صاب ! میرے پیدا ہونے سے پہلے کا وہ یہاں پر چاۓ بیچ رہا ہے میں کہتا ہوں اب بس کرو تو کہتا ہے تمہارا بیاہ ہو جاۓ تو پھر بس کروں گا۔"


" یہ بات بھی تو وہ ٹھیک ہی کہتا ہے بابو! اب تمہاری شادی کی عمر بھی تو ہو گئ ہے۔' وکیل صاحب نے چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا۔


"پر وکیل صاب۔۔۔' اس سے پہلے کے بابو اپنا جملہ مکمل کرتا دو تین آدمی دفتر میں داخل ہوۓ۔ وکیل صاب ابھی چاۓ پی رہے تھے اس لیۓ اس نے سوچا کہ وہ چاۓ کا گلاس بعد میں آکر لے جاۓ گا۔ اس نے کیتلی اٹھاںئ اور باہر نکل آیا۔ باہر بارش اب قدرے تھم گئ تھی۔ وہ سیدھا اپنی دکان کی طرف چل دیا راستے میں دو تین لوگوں نے اس سے چاۓ کے لیۓ پوچھا مگر چاۓ ختم ہو چکی تھی جو اب انہیں بابو کے اگلے پھیرے پر ہی مل سکتی تھی۔ دکان پر پہنچ کر اس نے سامان نیچے رکھا اور اپنے باپ کو مزید چاۓ بنانے کے لیۓ کہا۔ اس کا باپ پہلے ہی چولہے کے پاس کھڑا چاۓ بنانے میں مشغول تھا ایک دم اسے زبردست کھانسی کا دورہ پڑا، بابو نے جلدی سے اسے بنچ پر بٹھایا اور اس کے سینے اور کمر پر ہاتھ ملنے لگا۔ بابا کو  کھانسی کا یہ دورہ کئ بار پڑ چکا تھا ڈاکٹر نے دوا کے ساتھ مکمل آرام کی تجویز دی تھی مگر اس نے ذرہ برابر پرواہ نہ کی اور روزانہ صبح سے لے کر شام تک دکان پر کام کرتا رہتا۔ بابو اسی لیۓ پریشان تھا اور اسے دکان چھوڑ کر گھر پر آرام کے لیۓ بار بار اصرار کرتا تھا مگر وہ ہر بار ایک ہی بات کہہ کر اسے چپ کروا دیتا کہ جب تک تمہاری شادی نہیں ہو جاتی اس وقت تک میں دکان پر جانا نہیں چھوڑوں گا۔ 


اس دن وہ گھر آیا تو اس نے گھر آکر شادی کے متعلق بہت سوچا آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ بابا کو گھر بٹھانے کا اور کوںئ طریقہ نہیں لہذا اس نے یہی مناسب سمجھا کہ  شادی کر لے تب ہی اس کا باپ دھندہ چھوڑ کر گھر بیٹھے گا۔ اس کے ماں باپ نے لڑکی پہلے ہی دیکھ رکھی تھی بس اس کے ہاں کرنے کی دیر تھی۔ ادھر اس نے ہاں کی اور ادھر چند دنوں بعد اس کی شادی طے ہو گئ۔ 


شادی کے بعد بابو اکیلا ہی دکان سنبھالنے لگا۔ اب وہ زیادہ تر دکان میں ہی رہتا تھا کچہری کے پھیرے کم ہی لگاتا تھا مگر وکیل صاحب سے اس کی ملاقات دن میں ایک آدھ مرتبہ ضرور ہو جاتی تھی۔ اس کی زندگی گھر سے دکان اور دکان سے گھر کے گرد گھومنے لگی۔ اس کے بعد چند تبدیلیاں     ہوئیں ، بچے ہوۓ، پھر باپ چلا گیا اور کچھ عرصے بعد ماں بھی چل بسی۔ بابو کو لگا کہ بھری دنیا وہ بالکل تنہا ہو گیا  ہے۔ وہ سارا دن دکان چلاتا اور شام کو کافی دیر سے گھر واپس جاتا تھا۔ وکیل صاحب سے اس کی دوستی اب بھی تھی۔ ایک دن وہ وکیل صاحب کے چیمبر میں بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا جب ان کا بیٹا ان سے ملنے آیا وکیل صاحب نے اسے بتایا کہ یہ ان کا بیٹا ہے ابھی تو چھوٹا ہے لیکن کچھ بڑا ہو کر یہ بھی وکالت کی ڈگری حاصل کرے گا اور وکیل بنے گا۔ انہوں نے کہا 'تم جانتے ہو میرا باپ بھی وکیل تھا، میں بھی وکیل ہوں اب یہ بھی بڑا ہو کر وکیل بنے گا یہ ہمارا جدی پشتی پیشہ ہے۔" 


اس دن وہاں سے چلے آنے کے بعد بابو کے ذہن میں مسلسل ایک ہی سوچ گردش کرنے لگی۔ اس نے سوچا وہ بھی اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر وکیل بناۓ گا تاکہ وہ میری اور میرے باپ کی طرح چاۓ بیچنے کی مشقت سے بچ جاۓ۔ اس دن کے بعد اس پر ایک ہی دھن سوار ہو گئ وہ کسی طرح اپنے بیٹے کو تعلیم دلا کر وکیل بنانا چاہتا تھا۔ اس خواہش کا اظہار اس نے وکیل صاحب سے بھی کئ بار کیا تھا انہوں نے اس کے اس عزم کو بہت سراہا اور کہا کہ تم ضرور اسے پڑھانا اور اعلی تعلیم دلانا۔ کئ برس تک وہ اپنا عزم دل میں  لیۓ چلتا رہا جیسے تیسے کر کے اس نے اپنے بیٹے کو میٹرک تک تعلیم دلا دی مگر اس سے آگے پڑھانا اب اس کے بس میں نہیں رہا تھا۔ چاۓ بیچ کر تو گھر کے اخراجات اور دوسرے بچوں کے تعلیم کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے تھے اس میں کسی کو اعلی تعلیم دلانا ناممکن تھا۔  پھر بھی اس نے اسے کسی طرح کالج میں داخل کروا دیا۔ وہ رات دیر تک دکان کھولے رکھتا مگر اس سے بھی اس کی آمدنی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا تھا اور بیمار بھی رہنے لگا تھا۔ وکیل صاحب سے اس کی ملاقات بلکل نہ ہوتی تھی کیونکہ اب وہ ریٹائر ہو چکے تھے اور وکالت چھوڑ کر زیادہ تر گھر میں ہی رہتے تھے۔ ایک اور برس تک اس نے  اپنے بیٹے کو تعلیم دلواںئ پھر اس کے لیۓ مزید اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو گیا لہذا اس نے تنگ آکر اسے کالج سے اٹھوا لیا اور اسے اپنے ساتھ چاۓ بیچنے پر لگا لیا۔ اب وہ خود دکان پر ہی رہنے لگا اور اپنے بیٹے کو چاۓ دے کر کچہری میں بھیجا کرتا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے کو بھی لوگ پسند کرنے لگے اور اسے 'چھوٹے بابو' کہہ کر پکارنے لگے۔ پوری کچہری میں اس کا نام چھوٹے بابو پڑ گیا۔ 


ایک دن تیز بارش میں چھوٹے بابو ایک ہاتھ میں کیتلی تھامے دوسرے میں گلاس پکڑے 'چاۓ گرم چاۓ' کی صدا لگاتا چلا جارہا تھا تبھی اندر سے وکیل صاحب کی آواز آںئ 'اوۓ چھوٹے بابو'۔ وہ چاۓ لے کر اندر داخل ہوا۔ وکیل عاصم محمود کرسی پر بیٹھا تھا اس کے عین سر کے اوپر دیوار پر اس کے والد عامر محمود کی تصویر آویزاں تھی۔



  


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات