Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




کردار:

آصف: وکیل

ارشاد: آصف کا وکیل دوست

بیوی: آصف کی بیوی

دکاندار، ٹرک ڈرائیور



پہلا منظر:


کچہری کا منظر، جہاں کھلی فضا میں ایک قطار میں وکیلوں کے بنچ لگے ییں، لوگ ادھر ادھر آجارہے ہیں، گہما گہمی ہے، چہل پہل ہے، باتوں کی آوازیں ہیں اور کی بورڈ یا ٹائپ رائیٹر کی ٹائپنگ کا شور ہے۔ انہی میں سے ایک بنچ پر ایک پنتیس چالیس سال کا ایک آدمی وکیل کے لباس میں بیٹھا ہے، اس کے نام کی تختی میز پر دکھاںئ دے رہی ہے جس پر 'آصف حسین ایڈوکیٹ' درج ہے۔ میز پر چند فائلیں ایک ترتیب سے پڑی ہیں، میز کی دوسری جانب اسی عمر کا ایک اور آدمی وکیلوں کے لباس میں ملبوس چاۓ میں بسکٹ ڈبو کر کھا رہا ہے اور تیز تیز باتیں کر رہا ہے۔ جسامت بھاری ہونے کے باعث زیادہ عمر کا دکھاںئ دیتا ہے۔ اس کا نام ارشاد ہے۔


آدمی: (چاۓ میں بسکٹ ڈبو کر آدھا منہ میں رکھتا ہے) سنو بھاںئ۔۔۔ میں نے تمہیں ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ جب تک تم اپنے یہ دقیانوسی اصول نہیں بدلو گے تب تک تم ترقی نہیں کر سکتے۔ ارے یار کون سی براںئ تھی اختر حسین شاہ کا کیس لینے میں۔۔۔اچھا بھلا ایک موقع ہاتھ آرہا تھا وہ بھی گنوا دیا۔ اب سڑتے رہو یہیں پر۔ اتنے برس ہو گۓ تمہیں کام کرتے ہوۓ انہی حرکتوں کی وجہ سے تم ابھی تک اپنا چیمبر تک نہیں بنا سکے اور رہتے بھی کراۓ گے گھر میں ہو۔ آخر تمہارے بیوی بچے ہیں ان کے بارے میں کب سوچو گے؟


آصف: تو کیا کرتا میں۔۔۔ تم جانتے ہو بلکہ سارا شہر جانتا ہے 'شاہ' کیسا آدمی ہے، میں اس کا کیس کیسے لے لوں جب کہ میں جانتا ہوں وہی قصور وار ہے۔ میں ایک گناہ گار کا مقدمہ کیسے لڑ سکتا ہوں۔


آدمی: (انگلی اس کی طرف کر کے بات پر زور دیتے ہوۓ) یہی۔۔۔یہی چیز تو میرے بھاںئ میں تمہیں سمجھاتا ہوں کہ اس سے کوںئ فرق نہیں پڑتا کہ کون قصور وار ہے یا کون نہیں ہے۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ  جو بھی کلائینٹ ہمارے پاس اپنا مقدمہ لے کر آۓ ہمیں وہ مقدمہ لڑنا ہے اور ہر حال میں جیتنا ہے۔ اسے ہی پروفیشنل ازم کہتے ہیں بھاںئ۔


آصف: اور چاہے میں پہلے سے یہ جانتا ہوں کہ وہ آدمی قصور وار ہے پھر بھی میں اس کا مقدمہ لڑوں۔ یعنی تم چاہتے ہو میں ایک مجرم کا ساتھ دوں اور جیسے تیسے جھوٹے سچے گواہ اور ثبوت اکٹھے کر کے  اسے جتواؤں اور ایک بے قصور کو سزا دلوا دوں؟


آدمی: ارے بھاںئ یہ جاننا تمہارا کام نہیں کہ کون قصور وار ہے اور کون نہیں، کس کے گواہ سچے ہیں اور کس کے جھوٹے یہ جاننا تو جج کا کام ہے، وہ دیکھے کہ کس کے ثبوت ٹھوس ہیں اور کس کے نہیں۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ تم اپنے کلائینٹ کو کسی طرح مطمئن کرو تمہارا فرض صرف اتنا ہے کہ تم ہر حال میں اسے جتواؤ کیوں کہ تم اسی کام کے لیۓ اس سے معاوضہ لیتے ہو۔


آصف: مجھے نہیں چاہیۓ ایسا معاوضہ، ایسے پیسے جو ایک گناہ گار کا ساتھ دے کر ایک مجرم کو جتوا کر یا ایک معصوم کو سزا دلوا کر حاصل ہوں۔۔۔اور ویسے بھی یہ کیا گارنٹی ہے کہ یہ مقدمہ میں ہی جیتوں؟


آدمی: یہ بھی کوںئ پوچھنے کی بات ہے بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ مقدمہ کون جیتے گا۔ مقدمہ جیتنے کے لیۓ جن دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ شاہ کے پاس ہیں، یعنی پیسہ اور پاور۔ اول تو اس کے خلاف کوںئ گواہی دے گا نہیں اور اگر کوںئ گواہ کھڑا ہو بھی گیا تو وہ یا تو اسے پیسے کا لالچ دے کر بٹھا لے گا یا ڈرا دھمکا کر۔۔۔ رہا اس کا مدمقابل تو اس کی خیثیت کیا ہے تم جانتے ہو بے چارا دیہاڑی دار مزدور ہے۔ کہاں تک اس کیس کا پیچھا کرے گا۔۔۔ (بسکٹ منہ میں رکھتا ہے اور چاۓ کا گھونٹ زوردار آواز کے ساتھ بھرتا ہے، پھر بولنا شروع کرتا ہے) اور کیا پتہ کل کو اس مزدور کو ہی ڈرا دھمکا کر اور چند پیسے اس کے منہ پر مار کر چپ کروا دیا جاۓ۔ یہ تو بالکل اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔


آصف: (کچھ سوچنے کے انداز میں) ہاں یار یہ تو ہے۔۔۔اچھا چھوڑو یار تم بتاؤ کیا بنا میرے کام کا جو میں نے تمہیں کہا تھا؟


آدمی: ایک دو جگہ پتہ کیا تو ہے، ایک گھر مل تو رہا ہے مگر اس کا کرایہ کافی زیادہ ہے تم افورڈ نہیں کر سکو گے، ایک دوسری جگہ بات کی ہے پتہ چلتا ہے تو بتاتا ہوں۔


آصف: جلدی پتہ کر یار مالک مکان بہت تنگ کر رہا ہے وہ تو دھمکی دے کر گیا ہے کہ اگر ہفتے تک مکان خالی نہیں کیا تو وہ مجھ پر کیس کر دے گا۔۔۔ تم حساب لگاؤ  ایک وکیل کو ہی دھمکی دے کر گیا ہے کہ وہ مجھ پر کیس کر دے گا۔


آدمی: (ہنستا ہے) چل کوںئ گل نہیں یار تو پریشان نہ ہو میں کرتا ہوں کچھ۔ (اٹھتے ہوۓ)  ٹھیک ہے میں چلتا ہوں پھر ملاقات ہو گی۔ 


(میز سے چابی اور کوںئ فائل اٹھا کر چلنے لگتا ہے)


آصف: (کھڑے ہوکر) اچھا سنو۔۔۔


آدمی: (رک کر) ہاں؟


آصف: تمہارے پاس ہزار روپے ہوں گے؟۔۔۔وہ دکان دار کو دینے ہیں وہ سودا نہیں دے رہا کہتا ہے پہلے پچھلا کھاتا کلیئر کرو پھر سودا دوں گا۔


آدمی: (مسکراتا ہے) تم بھی نا۔۔۔ (جیب سے پیسے نکال کر دیتے ہوۓ) اسی لیۓ بولا ہے اب کچھ سوچو ورنہ یہیں رہو گے۔


آصف: (پیسے پکڑتے ہوۓ) اچھا یار تو دے تو سہی اور اپنی بکواس بند کرو۔


آدمی: (جاتے ہوۓ) بیٹا ایک دن تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی۔۔۔(آگے جا کر زور سے آواز دیتا ہے) یاد رکھنا میں نے سمجھایا تھا مگر تم نہیں سمجھے تھے۔



آصف: (کوںئ چیز اٹھا کر مارنے لگتا ہے، مسکراتے ہوۓ) چل بھاگ بھی اب۔۔۔


( وقت دیکھتا ہے پھر کھڑے کھڑے ایک دو فائل اٹھا کر  پڑھنے لگتا ہے)


دوسرا منظر:


آصف موٹرسائیکل پر سوار چلا آرہا ہے، ایک دکان کے سامنے موٹرسائیکل کھڑی کرتا ہے اور اتر کر دکان کے پاس جاتا ہے، دکاندار جو کاؤنٹر کے دوسری طرف بیٹھا ہے اسے دیکھتا ہی پکارتا ہے۔


دکاندار: آئیے آییۓ وکیل صاحب، کیا حال چال ہیں بڑے دنوں کے بعد چکر لگایا؟


آصف: ہاں بس کچھ مصروفیت تھی اس لیۓ نہیں آسکا۔۔۔ ( جیب سے ایک چھوٹی سی پرچی نکال کر اسے دیتا ہے) یہ کچھ سامان ہے یہ دے دیں۔


دکاندار: (پرچی پر اک نظر ڈال کر) سامان تو ہو جاۓ گا جناب پر وہ۔۔۔ (لٹکا کر) پچھلا حساب۔۔۔  دراصل بات یہ ہے آصف صاحب آپ شریف اور اچھے آدمی ہیں اس لیۓ آپ سے کبھی بھی پیسوں کا تقاضا نہیں کیا، مگر آپ تو سمجھتے ہیں کہ پیسوں کی ضرورت تو سبھی کو ہوتی ہے اور آپ پچھلے تین ماہ سے ادھار سامان لے کر جا رہے ہیں تو اب تو۔۔۔


آصف: ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، آپ ایسا کیجیۓ آج کے سامان کے تو پیسے لے لیجیۓ پچھلے بھی انشا اللّٰه‎ آپ کو جلد مل جائیں گے۔


دکاندار: چلیں ٹھیک ہے آپ سامان لے جائیۓ مگر کوشش کیجیۓ گا پچھلا حساب بھی جلد کلیئر ہو جاۓ، (اپنے کسی ملازم کو آواز لگاتا ہے) اوۓ سونے چھوڑ میرا پتر یہ کام ہو جاۓ گا پہلے یہ پرچی لے اور وکیل صاب کا سامان نکال۔ (ملازم پرچی لے کر چلا جاتا ہے، دکاندار پھر وکیل سے مخاطب ہوتا ہے) آپ کو کیا بتائیں آصف صاب آج کل کاروبار تو بلکل مندہ پڑا  ہے، حالات بڑے برے ہوگۓ ہیں جناب، کوںئ چیز ہتھ میں ہی نہیں آرہی، کچھ دن پہلے میں نے اپنی بڑی بیٹی کی شادی کی ہے، (کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوۓ) نہ پوچھیں کیسے کی ہے سارا بجٹ بگڑ گیا ہے ابھی تک حالات سنبھل نہیں رہے ، معاملات قابو میں ہی نہیں آرہے۔


آصف: جی جی بلکل اسی طرح ہے۔


دکاندار: اور آپ سنائیں آپ کی وکالت کیسی چل رہی ہے؟


آصف: جی بہتر چل رہی ہے۔


(لڑکا سامان لے کر آجاتا ہے)


دکاندار: کتنا بل بنا ہے؟ سامان اور بل دونوں دے وکیل صاب کو۔


(آصف سامان لے کر اور بل ادا کر کے دوبارہ موٹر سائیکل پر سوار ہو جاتا ہے)


تیسرا منظر:


آصف کمرے میں بیٹھا رات کا کھانا کھا رہا ہے اس کی بیوی باورچی خانے میں کوںئ کام کر رہی ہے اور ساتھ اندر سے اس سے باتیں بھی کرتی جاتی ہے۔ جبکہ دو چھوٹے بچے پاس ہی بستر پر سو رہے ہیں۔


بیوی: (باورچی خانے کے اندر سے) میں کہتی ہوں اب مزید اس سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، آپ صبح ہی کسی مکان کا پتہ کریں اور جان چھڑوائیں اس سے دو دن میں ہم یہ مکان چھوڑ کر اس کے منہ پر ماریں گے۔


آصف:(کھانا کھاتے ہوۓ) لیکن دو دن میں میں مکان کیسے تلاش کروں گا یہاں دو دن میں تو ایک کمرا ملنا مشکل ہے تم پورے مکان کی بات کر رہی ہو۔۔۔جب میں نے اس سے ہفتے تک مکان خالی کرنے کی بات کر لی تھی تو وہ آج کیا لینے آیا تھا یہاں؟۔۔۔


بیوی: (بات کرنے کے لیۓ دروازے پر آتی ہے، چھوٹا سا روٹیوں والا چمٹا ہاتھ میں ہے) وہ کہتا ہے کہ وہ یہ مکان بیچ رہا ہے اور اسے اچھے گاہک مل رہے ہیں اس لیۓ آپ لوگوں کو دو تین دن میں یہ مکان خالی کرنا پڑا گا۔ ساتھ کسی آدمی کو بھی لایا تھا مکان دکھانے کے لیۓ۔ (دوبارہ اندر چلی جاتی ہے)


آصف: (کچھ سوچتے ہوۓ) چلو پتہ کرتا ہوں پھر کہیں سے۔۔۔ صبح چھٹی ہے تو صبح ہی ارشاد کے ساتھ مکان ڈھونڈنے نکلتا ہوں۔۔۔ دعا کرو پھر صبح ہی مکان مل جاۓ تا کہ پرسوں ہم یہ مکان خالی کر دیں۔



بیوی:(پھر باہر آتی ہے اس دفعہ چمٹے میں ایک روٹی پکڑے ہوۓ ہے، روٹی لا کر اس کے آگے رکھتی ہے)


بیوی: آپ پتہ تو کرو انشااللّٰه‎ مل جاۓ گا کوںئ نہ کوںئ۔ (پاس بیٹھتے ہوۓ) ابھی بے شک کسی خستہ حالت میں بھی مل گیا تو لے لینا، بعد میں دیکھی جاۓ گی، کم سے کم یہاں سے تو جان چھوٹے گی۔


(بولے بغیر سر ہلا کر اس کی بات کا جواب دیتا ہے)


چوتھا منظر:


(ایک گھر کے آگے ایک چھوٹی سی لوڈر گاڑی کھڑی ہے جس پر سامان لدھا ہے۔ آصف، اس کا دوست ارشاد اور ٹرک والا سامان ٹرک سے اتار کر گھر میں رکھ رہے ہیں، باقی سارا سامان اتار لیا گیا ہے بس دو صوفے رہ گۓ ہیں اسے اتار کر گھر میں رکھتے ہیں۔ تینوں سامان رکھ کے گلی میں آجاتے ہیں۔)


آصف: (ٹرک والے سے) ہاں بھاںئ کتنے پیسے بنے تمہارے؟


ٹرک والا: بائیس سو جناب۔


آصف: بائیس سو؟ مگر تم نے تو چلتے وقت دو ہزار کی بات کی تھی؟


ٹرک والا: کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ گھر سڑک پر ہے پر گھر تو گلی کے اندر ہے۔


آصف: میں نے یہ کہا تھا کہ گھر سڑک سے اتر کر ساتھ ہی گلی کے اندر ہے۔


ٹرک والا: پر جناب گھر سڑک کے ساتھ تو نہیں کافی اندر جا کر ہے۔


آصف: یار یہ تو بڑی زیادتی والی بات ہے تم دو سو روپے محض دو قدم زیادہ چلنے کے لے رہے ہو۔


ارشاد: چھوڑو یار دو اس کو بائیس سو روپے کیا بحث کر رہے ہو، جان چھڑاؤ اس سے۔


آصف: (پیسے دیتے ہوۓ) یہ لو مگر یہ کی تم نے زیادتی ہی ہے۔ یہ چند قدم کے تم نے دو سو روپے اضافی لیۓ ہیں۔


ٹرک والا: خدا قسم جناب بلکل جائز پیسے لیۓ ہیں آپ کسی سے پوچھ لیں یہی ریٹ ہے ایک پھیرے کا۔


ارشاد: اچھا چلو چھوڑو جاؤ تم۔


ٹرک والا: ٹھیک ہے جناب شکریہ۔ (چلا جاتا ہے)


ارشاد: (آصف سے) چل یار ٹھیک ہے میں بھی اب چلتا ہوں مجھے اک ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔


آصف: ارے یار ایسے کیسے، چاۓ وغیرہ پی کر جاؤ بلکہ اب تو کھانے کا وقت ہو رہا ہے کھانا کھا کر جانا۔


ارشاد: نہیں یار تم لوگ گھر وغیرہ صاف کر لو سامان وغیرہ سیٹ کر لو میں پھر آؤں گا، کھانا بھی کھاؤں گا اور چاۓ بھی پیوؤں گا۔


آصف: چل ٹھیک ہے پھر۔ 


(دونوں گلے ملتے ہیں۔ اس کو بھیج کر آصف اندر آجا تا ہے اور چھوٹے سے صحن میں کھڑے ہو کر مکان کا جائزہ لینے لگتا ہے۔ صحن میں سامان جابجا بکھرا پڑا ہے)


پانچواں منظر: 


کچہری کا منظر، آصف اپنے بنچ پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، اخبار پڑھتے پڑھتے اچانک کسی خبر پر چونکتا ہے، پھر خبر کو غور سے پڑھنے لگتا ہے، تفصیل سے خبر پڑھنے کے بعد اخبار نیچے رکھ دیتا ہے مگر ابھی تک خبر کے متعلق ہی سوچ رہا ہے۔ ارشاد آتا ہے۔


ارشاد: (کرسی پر بیٹھتے ہوۓ) کیا ہوا کہاں کھوۓ ہو؟


آصف: تم نے خبر پڑھی؟


ارشاد: (خیران ہوتے ہوۓ) خبر؟۔۔۔ کون سی خبر؟


آصف: شاہ کے کیس کی۔۔۔اس مزدور نے کیس واپس لے لیا ہے۔


ارشاد: (ہنستا ہے) میں جانتا ہوں ۔۔۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جانتا ہوں جو اس اخبار میں نہیں چھپا۔


آصف: اچھا!۔۔۔ کیا جانتے ہو؟


ارشاد: یہی کہ یہ کیس اس نے واپس لیا نہیں بلکہ اس سے زبردستی یہ کیس واپس دلوایا گیا ہے۔


آصف: مگر اس نے تو یہ بیان دیا ہے کہ اسے غلط فہمی ہوگئ تھی ، شاہ صاحب بے گناہ ہیں۔ 


ارشاد: (ہنستا ہے) یار تمہیں وکیل کس نے لگایا ہے، اتنی سی بات نہیں سمجھ رہے۔۔۔تم خود سوچو یہ بیان اس کا اپنا لگتا ہے، تمہیں لگتا ہے کہ یہ بیان اس نے اپنی مرضی سے دیا ہو گا اور یہ کیس اپنی خوشی سے واپس لیا ہو گا۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ شاہ کے علاوہ کوںئ اور قصوروار ہو سکتا ہے؟۔۔۔ اس کیس میں دو ہی تو فریق ہیں ایک شاہ جو اس فیکٹری کا مالک ہے اور دوسرا وہ مزدور جو اس فیکٹری میں ایک معمولی سا ملازم ہے تو تمہارا کیا خیال ہے اگر اس مزدور کے ساتھ زیادتی ہوںئ ہے تو اس میں قصور وار کوںئ تیسرا ہے؟



آصف: ( کچھ سوچتے اور سمجھتے ہوۓ سر ہلاتا ہے) ہوں۔۔۔


(فون کی گھنٹی بجتی ہے ارشاد جیب میں سے فون نکالتا ہے اور سننے کے لیۓ اٹھ کر پرے چلا جاتا ہے۔ آصف اکیلا اپنی سوچوں میں گم بیٹھا رہتا ہے۔ چند لمحوں بعد ارشاد واپس آتا ہے۔ آصف اب بھی کسی گہری سوچ میں گم ہے۔ ارشاد آکر بیٹھتے ہی پوچھتا ہے)


ارشاد: اور کیسا جا رہا تمہارا مکان؟ یہ مالک مکان تو تنگ نہیں کرتا؟


آصف: (کچھ دیر خاموش رہتا ہے، پھر بولتا ہے) میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔


ارشاد: (خیران ہوتے ہوۓ) کیسا فیصلہ؟


آصف: میں شاہ والا کیس لڑوں گا۔


ارشاد: طبعیت تو ٹھیک ہے۔ وہ کیس اب بند ہو چکا ہے۔ پہلے تمہارے ہاتھ موقع آیا تھا مگر وہ تم نے ضائع کر دیا، اس کیس کو تم سیڑھی بنا کر ترقی کر سکتے تھے مگر تم نے اچھا بھلا سنہری موقع گنوا دیا۔


آصف: میں اس کیس کو دوبارہ کھلواؤں گا اور یہ ثابت کروں گا کہ شاہ ہی مجرم ہے۔


ارشاد: (چونکتے ہوۓ) کیا کہا؟ تم شاہ کے خلاف کیس لڑو گے دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔


آصف: ہاں بالکل ٹھیک ہے۔


ارشاد: تو تمہارا کیا خیال ہے تم یہ کیس جیت جاؤ گے تمہیں شاہ کے خلاف ثبوت اور گواہ آسانی سے مل جائیں گے؟


آصف: شاید نہیں ملیں گے مگر۔۔۔


ارشاد: مگر کیا؟ تم جانتے بھی ہو تم کہہ کیا رہے ہو؟ اس کے خلاف ثبوت اور گواہ ملنا تو دور الٹا تم مشکل میں گر جاؤ گے۔


آصف: جانتا ہوں ایسا ہی ہو گا مگر ایک کوشش۔۔۔


ارشاد: پھر مگر۔۔۔ دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔اور فرض کرو تم جیت بھی گۓ تو تمہیں ملے گا کیا؟


آصف: کچھ نہیں۔


ارشاد: تو پھر؟


آصف: (کرسی سے اٹھتا ہے اور ایک طرف ہٹ کر دوسری طرف رخ کر کے کھڑا ہو جاتا ہے) پھر۔۔۔ پھر کہیں سے تو کچھ حاصل ہو گا۔


ارشاد: کہیں سے مطلب؟ 


آصف: (واپس اس کی طرف رخ کرتا ہے) مطلب یہ کہ اگر یہاں کچھ نہ ملا تو (انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ کرتا ہے) وہاں تو ملے گا۔




 








Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات