Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

ٔ



 کردار: 

نوجوان لڑکا، نوجوان لڑکی

پچاس پچپن برس کا ایک آدمی




پہلا منظر:


رات کا وقت ہے دھند ہر سو پھیلی ہے۔ سڑک سنسان ہے۔    ایک طرف ایک دکان کی بتیاں روشن ہیں جس سے سڑک کا منظر دندھلا دنھدلا دکھاںئ دے رہا ہے۔ ایک طرف سے دو کتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوۓ نکلتے ہیں اور بھونکتے ہوۓ دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔ خاموشی میں ان کی آواز دور تک سناںئ دیتی ہے۔ 


ایک لڑکی جس نے لمبا سا جیکٹ یا کوٹ پہنا ہے اور ہاتھوں میں دستانے چڑھا رکھے ہیں سامنے سے چلتی ہوںئ آرہی ہے۔ اس کے سامنے کی طرف سے ایک چاۓ والا کیتلی ہاتھ میں لیۓ 'چاۓ چاۓ گرم چاۓ' پکارتا گزر جاتا ہے۔ لڑکی آہستہ سے چلتی ہوںئ آتی ہے اور دکان کے قریب آکر رکتی ہے، اوپر لگے سائن بورڈ پر نام پڑھتی ہے، بورڈ پر اردو میں چھوٹا سا لکھا ہے  'میٹھی سراۓ' اور اس کے نیچے بڑا سا انگریزی میں ا سویٹ ان' لکھا ہے۔ اندر داخل ہو جاتی ہے۔'


دوسرا منظر:


دکان بڑی خوبصورتی سے سجی ہے۔ دیواروں کو طرح طرح کے پھول اور کارڈز سے سجایا گیا ہے۔ دائیں بائیں دونوں اطراف دیواروں کے ساتھ خوبصورت کرسیاں میز نہایت سلیقے سے رکھے ہیں۔ جیسے کہ کسی ریستوران میں رکھے جاتے ہیں۔ درمیان میں کافی کھلی جگہ خالی پڑی ہے۔ دروازے کے بالکل سامنے ایک طویل راہ داری کے بعد ایک بڑا سا استقبالیہ کاؤنٹر ہے جس کے دوسری طرف ایک نوجوان لڑکا کسی کام میں مصروف ہے۔ اس نے کپڑوں کے اوپر ایپرن پہن رکھا ہے جو عموماً شیف کھانا بناتے وقت پہنتے ہیں۔ اس کے بلکل پیچھے سر کے اوپر دیوار پر بڑا سا ہیپی نیو ائیر   لکھا ہے۔ دکان میں ہلکی سی روشنی ہے، جو ماحول کو زیادہ پرکشش بنا رہی ہے۔ پوری دکان میں اس لڑکے کے سوا اور کوںئ نہیں۔ لڑکی بڑی سی راہ داری عبور کرنے کے بعد کاؤنٹر کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔


لڑکی : ہاۓ! کیسا جا رہا ہے پہلا دن، بلکہ رات؟ 


(لڑکا ہاتھ میں پکڑی ہوںئ ٹرے سے کچھ چیزیں نیچے جھک کر کاؤنٹر میں سجاتا ہے، پھر اٹھ جاتا ہے)


لڑکا: (ٹرے دونوں ہاتھوں میں پکڑے اٹھ کر کندھے اچکاتے    ہوۓ) یو کین سی۔ ہ    


(پیچھے جا کر کسی جگہ پر رکھی ہوںئ مزید اشیاء ٹرے میں رکھنے لگتا ہے)


لڑکی: ہاں وہ تو میں دیکھ ہی رہی ہوں۔ ( کھڑے کھڑے اردگرد دکان کا جائزہ لیتے ہوۓ) دکان بڑی خوبصورت لگ رہی ہے بیکری کے ساتھ ساتھ یہ ایک ریستوان  کا منظر بھی پیش کر رہی ہے ۔


لڑکا: (اسی طرح سامان ٹرے میں رکھتے ہوۓ سر اوپر اٹھاۓ بغیر) ہاں تو اصل میں تو یہ ایک ریستوران ہی ہے جہاں پہ لوگ بیٹھ کر مختلف سویٹ ڈشز چاۓ یا کافی کے ساتھ لے سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ مٹھائیوں کی دکان بھی ہے۔ 


لڑکی: اچھا تو کچھ چکھاؤ تو سہی میں چاہتی ہوں تمہاری پہلی گاہک میں ہی بنوں۔


لڑکا: (کاؤنٹر پر آکر چیزیں نیچے کاؤنٹر میں سجاتے ہوۓ) افسوس کہ تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ تم سے تھوڑی دیر پہلے انکل عرفان آکر چکھ چکے ہیں۔


لڑکی: ایک تو یہ انکل عرفان کو ہر جگہ پہلے گھسنے کی عادت ہے۔ خیر اب کیا ہو سکتا ہے چلو پہلے نمبر پہ نہ سہی دوسرے نمبر پہ تو آ ہی سکتی ہوں۔ (پیچھے جا کر کرسی پر بیٹھ جاتی ہے) ویسے اسد یہ تمہارا جو آئیڈیا تھا رات کے وقت ریستوران کا افتتاح کرنے کا وہ بھی نیو ائیر نائٹ کو، عجیب ہونے کے باوجود ہے بڑا دلچسپ۔ تم دنیا کے واحد آدمی ہو گے جس نے اپنی دکان کی ابتدا رات کے وقت کی بلکہ آدھی رات کے وقت وہ بھی ایک ہل اسٹیشن کی سرد ترین رات جب سارا جہان سخت سردی سے گبھرا کر گھروں میں دھبکا بیٹھا ہے اور صبح تک کسی گاہک کے آنے کی امید نہیں۔ آخر کیا سوچ کر تم نے دکان رات کے وقت کھولی؟


لڑکا: ( اٹھ کر کاؤنٹر پر دونوں بازو رکھتا ہے) معلوم نہیں بس ایسے ہی۔۔۔ مجھے ان راتوں سے کچھ عشق سا ہو گیا ہے، سردیوں کی یہ راتیں کتنی بھلی لگتی ہیں، تنہا، خاموش ، پرسکون۔ ( کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ) ابھی دیکھو کتنی گہری دھند چھاںئ ہے کیا پتہ کچھ ہی دیر میں برف باری بھی ہونے لگے، پھر تو اس رات کا لطف دوبالا ہو جاۓ گا۔ 


لڑکی: وہ تو ٹھیک ہے جناب سردیوں کی راتیں آپ کے لیۓ لطف اندوز ہوتی ہوں گی مگر اس سرد ترین رات میں دکان کھولنے کا کیا تک، گاہک تو کوںئ آۓ گا نہیں۔


لڑکا: ہاں وہ تو ہے گاہک کیوں آۓ گا بھلا اتنی سخت سردی میں، وہ بھی صرف مٹھاںئ لینے۔۔۔ بس ایسے ہی مجھے نیو ائیر نائٹ کو دکان کا افتتاح کرنے کا خیال آیا تو صبح تک کا انتظار کرنے کی بجاۓ ابھی سے دکان پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔(ٹرے کو ایک ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے سے بجا کر خوشی سے) اور اب دیکھو تم آگئ میری پہلی گاہک بن کر۔ 


لڑکی: پہلی نہیں دوسری۔


لڑکا: ( ہنستے ہوۓ) ہاں بھئ دوسری۔ اچھا کیا لو گی،  کیا کھانا پسند کرو گی؟


لڑکی: اتنا عرصہ ہو گیا ابھی تک تمہیں میرے پسندیدہ   کھانے کا علم نہیں۔


لڑکا: تم نے کبھی بتایا ہی نہیں تو کیسے پتہ چلے گا۔


لڑکی: اچھا چلو آج تم اپنی مرضی کا کچھ بھی کھلا دو۔


لڑکا: یہ بات ہے۔۔۔چلو پھر آج تمہیں ہماری دکان کی سب سے خاص ڈش کھلاتا ہوں۔ بوجھو ہاں بھلا کیا ہو گی؟


لڑکی: مجھے کیا معلوم ابھی تک تو تمہاری دکان شروع بھی نہیں ہوںئ اور خاص ڈش بھی آگئ۔


لڑکا: دیکھنا تم یہی ڈش اس دکان کی خاص پہچان بنے گی۔ یہی ہو گی خاص ڈش۔  


لڑکی: او ہو! اب بتاؤ گے بھی کون سی ہے وہ خاص ڈش یا سسپینس ہی بڑھاتے جاؤ گے۔


لڑکا: وہ ہے گاجر کا حلوہ۔


لڑکی:  فٹے منہ، میں سمجھی پتہ نہیں کون سی خاص سوغات ہے جس کی بات کر رہے ہو۔


لڑکا: کیوں اچھی نہیں، تمہیں پسند نہیں؟


لڑکی: نہیں ایسی بات نہیں اچھی ہے مجھے پسند بھی ہے، مگر تم نے کہا اس انداز سے جیسے کوںئ خاص الگ سی چیز ہو۔


لڑکا: میں نے یہ تو نہیں کہا کہ کوںئ الگ قسم کی یونیک سی چیز ہے میں نے تو بس یہ کہا کہ یہ اس دکان کی خاص ڈش بنے گی لوگ دور دور سے اس ڈش کے لیۓ یہاں آئیں گے۔


لڑکی: اچھا اب تعریفیں ہی کرتے رہو گے یا کھلاؤ گے بھی۔


لڑکا: ہاں ابھی لایا۔ 


(پیچھے جاتا ہے اور کسی جگہ پر بڑے سے ٹرے میں رکھے حلوے کو پلیٹ میں ڈالنے لگتا ہے)


لڑکی: (تھوڑی اونچی آواز سے)  تم کیا اکیلے ہی  ریستوران چلاؤ گے جب رش ہو جاۓ گا تو پھر کیا کرو گے ، اکیلے سارا کام تم کیسے سنبھالو گے؟


لڑکا: (اپنا کام کرتے ہوۓ) نہیں اکیلا تو نہیں ہوں صبح دو لڑکے اور آجائیں گے۔۔۔ ابھی کے لیۓ دو ہی کافی ہوں گے بعد میں اگر کام چل پڑا تو دیکھیں گے۔


(پلیٹ لا کر اس کے آگے رکھتا ہے)


لڑکا: یہ لو چکھ کر بتاؤ کیسا ہے۔


لڑکی: (چمچ منہ میں ڈال کر ذائقہ محسوس کرتے ہوۓ)  واہ! بہت مزیدار ہے۔ (ایک اور چمچ چکھنے کے بعد) واقعی بہت  لذیز ہے۔ ۔ تم تو سچ میں بہت اچھے کک ہو۔


لڑکا: (ایپرن اتار کر لڑکی کے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھتا ہے) مزیدار ہے ناں۔۔۔دیکھا میں نے کہا تھا نہ کہ یہی ڈش اس ریستوران کی خاص ڈش بنے گی۔


لڑکی: (ساتھ ساتھ کھاتے ہوۓ) ہاں اور خاص بننے کے لائق بھی ہے یہ۔۔۔۔  اگر یہ ڈش چل پڑی تو تمہیں تو لوگ حلوے والا پکارنا شروع کر دیں گے۔۔۔کیسا عجیب لگے گا جب لوگ یہ کہیں گے اسد حلوے والا۔۔۔ (ہنستے ہوۓ) یا اسد مٹھاںئ والا۔ یا اسد۔۔۔


لڑکا:  جلیبی والا۔


لڑکی: ہاں۔ 


(دونوں ہنس پڑتے ہیں۔)



لڑکی: تمہیں عجیب نہیں لگے گا جب تمہیں لوگ ان ناموں سے پکاریں گے۔ آخر کار تم ایک اعلی تعلیم یافتہ ماڈرن لڑکے ہو ایم بی اے ہو اور اچھی خاصی  بنک کی نوکری چھوڑ کر نجانے تمہارے دماغ میں کیا سمایا کہ یہ مٹھائیوں کی دکان کھول لی۔ 


لڑکا: اگر تم اسے مٹھائیوں کی دکان پکارو گی تو سچ میں عجیب لگے گا بلکہ برا لگے گا۔


لڑکی: تو اور اسے کیا پکاروں؟


لڑکا: تم نے باہر بورڈ پر نام نہیں پڑھا؟


لڑکی: پڑھا ہے، تو۔۔۔؟


لڑکا: تو کیا نام پڑھا؟ 

Sweet Inn    لڑکی ۔


لڑکا: ہاں یعنی میٹھی سراۓ۔


لڑکی: (ہنستے ہوۓ) اچھا تو نام ایسا رکھ لینے سے کیا ہوتا ہے لوگ تو یہی کہیں گے مٹھائی والا ہے۔


لڑکا: لوگوں کی چھوڑو، لوگ کچھ تو کہیں گے آخر ان کا کام ہے کہنا۔ 


لڑکی: (ہنستی ہے)


لڑکا: (کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ) لو باہر دیکھو برف باری شروع ہو گئ۔


لڑکی: آہا! (پلیٹ ہاتھ میں پکڑ کر اٹھتی ہے اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی۔ کھڑکی کے شیشے سے باہر گرتی ہوںئ برف دکھاںئ دیتی ہے۔) رات کے وقت برف باری کا منظر مجھے بے حد پسند ہے، جب کبھی بھی رات کے وقت برف گرتی ہے تو میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے یا ٹیرس سے اس منظر کو ضرور دیکھتی ہوں ، یہ روںئ کے گالوں ایسی سفید نرم و نازک برف جب رات کی سیاہی سے ملتی ہے تو اور بھی دلکش دکھاںئ دیتی ہے۔ مجھے لگتا ایسا حسن ایسی دلفریبی کسی اور منظر میں نہیں۔ آدمی کو مسرت اور راحت کے حصول کے لیۓ اور کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں بس قدرت کے ایسے ہی حسین مناظر سے لطف اندوز ہوکر خوش ہو سکتا ہے۔


لڑکا: (کرسی سے اٹھتے ہوۓ) اور اس حسین و دلکش منظر کے ساتھ اگر گرما گرم ذائقے دار کافی ہو جاۓ تو کیا ہی کہنے۔۔۔


لڑکی: (ہاتھ کے اشارے سے داد دینے کے انداز میں) واہ بہت خوب بہت خوب داد دینے پڑے گی آپ کے ذوق کی۔ (بات کرکے خود ہی ہنس پڑتی ہے)


لڑکا: (ہنستے ہوۓ ہاتھ ماتھے تک لے جا کر) شکریہ شکریہ، بہت بہت نوازش۔۔۔(دونوں ہنستے ہیں) ٹھیک ہے پھر میں ابھی بنا کر لایا۔


(دوبارہ کاؤنٹر کے پیچھے چلا جاتا ہے اور کافی بنانے لگتا ہے۔ لڑکی اب بھی کھڑکی کے پاس کھڑی ہے اور باہر دیکھتے ہوۓ حلوہ کھا رہی ہے۔) 


لڑکا: (کافی بناتے ہوۓ) اچھا ہاں معلوم پڑا کہ پرسوں تمہارا رشتہ آیا تھا؟


لڑکی: (حیران ہوتے ہوۓ) ہاں ! تمہیں کس نے بتایا؟


لڑکا: بس دیکھ لو ہم ساری خبریں رکھتے ہیں ہمارے ذرائع کافی تگڑے ہیں۔


لڑکی: کیا خاک تگڑے ہیں جانتی ہوں کس نے بتایا ہو گا۔


لڑکا: چلو چھوڑو جس نے بھی بتایا ہو، تم نے بھی تو مجھے بتا ہی دینا تھا فرق صرف یہ ہے مجھے پہلے ہی پتہ چل گیا۔


لڑکی: ہاں یہ تو ہے۔


لڑکا: تو پھر کیا بنا؟


لڑکی: بننا کیا تھا ظاہر ہے بھگانا ہی تھا لہذا بھگا دیا۔


لڑکا: (شرارت سے) یہ تو کوںئ اچھی بات نہ ہوںئ کسی گھر آۓ کو اس طرح تھوڑی بھگاتے ہیں۔


لڑکی:  اچھا چلو ٹھیک ہے اگلی دفعہ جب کوںئ آیا تو اسے نہیں بھگاؤں گی۔ منظور ہے؟


لڑکا: (کافی بنا کر اسے پکڑاتے ہوۓ) نہیں یہ تو بلکل منظور نہیں، وہ بھگانے والا طریقہ ہی بہتر ہے۔


لڑکی: (ہنستے ہوۓ) ہاں اب آۓ نہ سیدھی لائن پہ۔۔۔ (حلوے کی پلیٹ نیچے رکھتے ہوۓ) یہ لو ساری چٹ کر گئ، واقعی حلوہ بہت مزیدار تھا۔۔۔


 (دونوں کچھ دیر خاموشی سے کھڑکی سے باہر گرتی برف کو دیکھنے لگتے ہیں)


لڑکی: اچھا سچ سچ بتاؤ تم نے بنک کی نوکری چھوڑ کر یہ مھٹائیوں کی دکان کیوں کھولی ؟


لڑکا: پھر دکان۔۔۔


لڑکی: اوہو! میرا مطلب ہے یہ مٹھائیوں اور میٹھی غذائوں کی سراۓ بنانے کا خیال تمہارے من میں کیوں آیا؟


لڑکا: خیال کیوں آیا؟۔۔۔ کوںئ خاص وجہ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔ایک تو یہ کہ میں خود ایسی چیزیں بنانے کا شوق رکھتا ہوں اور۔۔۔


لڑکی: اور کیا؟


لڑکا: (کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ) اور کچھ نہیں بس میں نے سوچا کہ یہاں ایسی میٹھی سراؤں کی بڑی ضرورت ہے، جہاں لوگ آئیں، بیٹھیں اور میٹھے ہو کر جائیں۔ یہاں انہیں اتنی شیرینی ملے گی کہ ساری کرواہٹیں بھول جائیں گے اور باہر جاکر شیرینی ہی بانٹیں گے۔ 


لڑکی: (ہاتھ کے اشارے سے) واہ واہ واہ۔۔۔ویسے  آپس کی بات ہے یہ سب کیا بکواس تھی؟ 


لڑکا: (قہقہہ لگا کر ہنستا ہے ) بس ایسی بکواسیں میں اکثر کر جاتا ہوں، یوں سمجھو کہ باتوں باتوں میں مجھ سے ایسی بکواسیں نکل جاتی ہیں۔


 ( لڑکی پاس رکھی کرسی پر بیٹھ جاتی ہے) 


لڑکا: (چند سیکنڈ خاموش رہنے کے بعد) تم جانتی ہو میں نے اس سراۓ کا افتتاح رات کے وقت کیوں کیا وہ بھی سال کی آخری رات کو؟


لڑکی: (آرام سے کافی کا گھونٹ بھرنے کے بعد) ہاں کیوں کیا؟


لڑکا: اس امید پر کہ شاید کڑوے اور پھیکے ذائقوں کی یہ آخری رات ہو اور نۓ سال کی صبح کا سورج جب طلوع ہو تو ہر زبان پر میٹھے اور لذیذ ذائقوں کا سواد ہو۔۔۔ اس دعا کے ساتھ کہ اس سال ہر شخص کو اتنی خوشیاں اور مسرتیں حاصل ہوں کہ لوگ ہر طرف مٹھائیاں بانٹتے پھریں۔


لڑکی: تمہاری دعا اچھی ہے اسد۔۔۔ مگر لوگوں کو یہ  سمجھنا ہو گا جب تک وہ اسلحے اور بارود کی دکانوں پر تالے نہیں لگائیں گے اور پنجروں کو نہیں کھولیں گے  اور ایسی بے شمار میٹھی سراۓ آباد نہیں کریں گے تب تک وہ حقیقی اور مکمل خوشیوں سے محروم ہی رہیں گے۔ 


لڑکا: (کھڑکی سے باہر کہیں دیکھتے ہوۓ) ہاں۔۔۔

(کافی کا ایک گھونٹ بھرتا ہے۔) ہاں شاید ایسا ہی ہے مگر امید تو رکھی جا سکتی ہے، دعا تو کی جا سکتی ہے، خواب تو دیکھا جا سکتا ہے، آرزو تو پالی جا سکتی ہے اور جہاں تک ممکن سکے کوشش تو کی جا سکتی ہے۔


لڑکی: ہاں ایسا ہی ہے۔ 


(ایک پچاس پچپن سال کا آدمی اندر دکان میں داخل ہوتا ہے جو ہے تو کچھ فربہ مگر ہے خوبصورت۔)


آدمی: (اندر داخل ہوتے ہی اونچی آواز سے) پکڑ لیا پکڑ لیا۔ (دونوں ایک دم دروازے کی طرف دیکھتے ہیں) میں جانتا تھا تم یہیں ہو گی، اسی لیۓ میں چلا آیا تا کہ تم سب کچھ اکیلے ختم نہ کر سکو۔


(دونوں ایک دم دروازے کی طرف دیکھتے ہیں)


لڑکی: آپ یہاں کہاں آپ کو تو ڈائبٹیز ہے ناں آپ کو تو ان چیزوں کے قریب بھی نہیں آنا چاہیۓ۔


آدمی: (پاس آکر کرسی پر بیٹھتے ہوۓ) کوںئ بات نہیں۔ آج کے دن تو بلکل پرواہ نہیں کیوں کہ آج اسد کا پہلا دن ہے اور ویسے بھی ایک دن میں تھوڑا سا کھانے سے کچھ نہیں ہوتا۔


لڑکی: اور وہ تھوڑا سا آپ کھا چکے ہیں، مجھے اسد نے بتا دیا ہے کہ آپ کچھ دیر پہلے یہاں سے ہو کر گۓ ہیں۔


آدمی: (لڑکے کی طرف مخاطب ہوکر) او یار میں نے تمہیں بولا تھا کہ اسے مت بتانا مگر تمہارے پیٹ میں بھی لڑکیوں کی طرح کوںئ بات نہیں ٹکتی۔


لڑکی: آپ تو رہنے ہی دیں میں جانتی ہوں آپ کے پیٹ میں کتنی دیر بات ٹکتی ہے۔


آدمی: تمہارا اشارہ کس طرف ہے؟


لڑکی: اسی طرف جس طرف آپ سمجھے ہیں۔



آدمی: (لڑکے کو مخاطب کر کے) وہ بھی بتا دیا، یار تم بھی کیا آدمی ہو۔


لڑکا: میں نے کچھ نہیں بتایا انکل، میں نے تو آپ کا نام بھی نہیں لیا اسے خود ہی پتہ چل گیا کہ وہ بات آپ نے ہی مجھے بتاںئ ہو گی۔


لڑکی: ہاں اور یہ جاننا کون سا مشکل ہے سب کو پتا ہے کہ ایسی باتیں سب سے پہلے اگر کوںئ لیک کرتا ہے تو وہ انکل عرفان ہیں۔ 


لڑکا: بلکل یہی بات ہے۔


آدمی: اچھا چلو چھوڑو یار کچھ کھلاؤ پھر۔۔۔


لڑکی: پھر وہی بات آپ کو یہ بالکل بھی نہیں کھانی۔


لڑکا: (سامنے بیٹھتے ہوۓ) انکل میرے پاس آپ کے مسئلے کا حل ہے لیکن اس وقت نہیں۔


آدمی: کیا مطلب کون سا حل؟


لڑکا: مطلب یہ کہ میں آپ کے لیۓ شوگر فری کیک اور پیسٹریاں وغیرہ بنا سکتا ہوں مگر۔۔۔


آدمی: مگر کیا، بنا سکتے ہو تو بناؤ۔


لڑکا: اس وقت نہیں بنا سکتا کیوں کہ اس کے لیۓ جو سامان چاہیۓ وہ ابھی یہاں نہیں ہے، ہاں البتہ کل یہ ممکن ہو سکتا ہے۔


آدمی: (کھڑے ہو کر) پھر میرا یہاں رکنے کا فائدہ میں جا رہا ہوں کل ہی آؤں گا۔ (دروازے کی طرف جانے لگتا ہے)

(لڑکا لڑکی اکٹھے)

 ارے ارے کہاں چل دیۓ۔۔۔کچھ دیر بیٹھیۓ تو صحیح۔


آدمی: (پیچھے دیکھے بنا ہاتھ اوپر اٹھا کر اشارہ سے) نہ بھئ نہ میں تو چلا تم لوگ بیٹھو صبح ملاقات ہو گی۔ (باہر نکل جاتا ہے) 


لڑکی: میرا خیال ہے اب مجھے بھی چلنا چاہیۓ کافی رات ہو گئ ہے۔


لڑکا: کیوں بیٹھو تھوڑی دیر پھر چلے جانا۔۔۔۔(کچھ سوچنے کے بعد) چلو ڈانس کرتے ہیں۔


لڑکی: یہاں؟


لڑکا: کیوں یہاں کیا ہے؟


لڑکی: جناب یہ آپ کے گھر کا ڈرائینگ روم نہیں ، دکان ہے یہاں کسی وقت بھی کوںئ بھی گاہک آسکتا ہے۔


لڑکا: اس وقت اتنی سخت سردی میں بھلا کون مٹھاںئ لینے آۓ گا وہ بھی اس دکان میں جس کی ابھی کسی کو خبر ہی نہیں۔


لڑکی: پھر بھی یہاں ڈانس کرنا مناسب نہیں۔


لڑکا: اوہ ہو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ (اٹھ کر ہاتھ آگے بڑھاتا ہے) چلو آؤ۔


(لڑکی جھجکتے ہوۓ ہاتھ پکڑتی ہے اور درمیان میں کھلی جگہ پر آجاتی ہے)


لڑکا: ایک منٹ۔ (پیچھے کاؤنٹر کی طرف بڑھتا ہے)


لڑکی: اب کیا ہوا؟


لڑکا: موبائل پر کوںئ میوزک لگا لینا چاہیۓ۔


(لڑکی مسکراتی ہے، لڑکا موبائل سے کوںئ میوزک پلے کرتا ہے اور دوبارہ لڑکی کے پاس آجاتا ہے۔ دونوں مدھم سی کسی موسیقی کی دھن پر کچھ دیر تک ڈانس کرتے ہیں، پیچھے کھڑکی سے باہر برف باری کا منظر دکھاںئ دیتا ہے۔ اچانک لڑکے کا پاؤں پھسلتا ہے اور وہ نیچے گر جاتا ہے۔)


تیسرا منظر:


ایک کمرے میں وہی لڑکا بیڈ پر لیٹا ایک دم زمین پر گرتا دکھاںئ دیتا ہے۔ گرتے ہی چونک کر اردگرد دیکھتا ہے جیسے کسی گہرے خواب سے بیدار ہوا ہو۔


لڑکا: (سر پر ہاتھ رکھ کر سوچنے کے انداز میں) (منہ میں اپنے آپ سے بڑبڑاتے ہوۓ ) تو کیا وہ سب خواب تھا؟
















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات