Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




 میں نے اسے دیکھا تو ششدر رہ گیا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ ہو بہ ہو وہی چہرہ، وہی بڑی بڑی خوبصورت بھوری آنکھیں، پتلا ناک، باریک ہونٹ۔ یہ تو وہی تھی۔ اگر میں بھوت پریت پر ایمان رکھتا ہوتا تو یقیناً اسے ایک بھوت تصور کرتا۔ وہ بلکل میری نظروں کے سامنے تھی۔  نمائش کا آج پہلا دن تھا اور ہم ابھی کچھ ہی دیر پہلے یہاں آۓ تھے۔ اس صنعتی نمائش میں ہر سال بہت سے ادارے اور کمپنیاں یہاں اسٹال لگاتے تھے اور ادارے کی تشہیر اور مارکیٹنگ وغیرہ کا کام کرتے تھے۔ ان کا اسٹال ہم سے پہلے یہاں لگ چکا تھا مگر وہ ابھی آںئ تھی یا میرا دھیان اس پر ابھی ابھی پڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہی میں چونک اٹھا، ایک پل کے لیۓ مجھے لگا میں کوںئ خواب دیکھ رہا ہوں، کچھ دیر بعد جب مجھے یقین آ گیا کہ یہ کوںئ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے تو میں نے دوبارہ اسے غور سے دیکھا، اس کے چہرے کے خدوخال بلکل اس سے ملتے جلتے تھے۔ اس نے سر پر اسکارف اوڑھ رکھا تھا اور گہرے بھورے رنگ کی جیکٹ اور غالباً سیاہ رنگ کی جینز پہن رکھی تھی۔ اس نے مجھے دیکھ لیا تھا اور اس کے دیکھنے کے انداز سے یوں لگا جیسے وہ مجھے پہلے سے جانتی ہے۔ بے شک اس کی شکل اس سے ملتی جلتی تھی مگر یہ وہ تو نہیں تھی، ہاں یوں ہو سکتا تھا کہ اس کی کوںئ قریبی رشتہ دار ہو جس کے باعث دونوں کی شکلوں میں مماثلت پاںئ جاتی ہو اور اسی نسبت سے وہ مجھے پہلے سے پہچانتی ہو۔ بہرحال یہ صرف ایک قیاس تھا ابھی تک کچھ واضح نہیں ہوا تھا۔


 ہم دونوں کے اسٹال آمنے سامنے کچھ فاصلے پر تھے، اس لیۓ ہم ایک دوسرے کو آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔ میں نے اپنے اسٹال میں بیٹھے کئ بار اسے کن اکھیوں سے دیکھا وہ بھی باتیں کرتے یا کام کرتے کرتے اکثر اس طرف نگاہ کرتی۔ اس کے انداز سے اب بھی مجھے ایسے ہی محسوس ہوتا کہ وہ مجھے پہچانتی ہے۔ لیکن میری دلچسپی اس بات کے لیۓ نہیں تھی کہ وہ میری طرف دیکھ رہی ہے اور مجھے پہچانتی ہے بلکہ اس بات کے لیۓ تھی کہ اس کی شکل اس سے ملتی جلتی تھی۔ 


پورا دن گزر گیا لیکن میں نے اس سے کوںئ بات کرنے کی کوشش نہ کی نہ ہی اس کے کسی انداز سے ظاہر ہوا کہ وہ کوںئ ایسا ارادہ رکھتی ہے۔ شام ہوںئ تو لوگوں کی آمدورفت پہلے سے بڑھ گئ۔ سردی کا موسم تھا لیکن پنڈال کے اندر بھیڑ کی وجہ سے حبس ہو گیا تھا جس کے باعث دم گھٹنے لگا تھا۔ میں ہوا خوری کے لیۓ پنڈال سے باہر نکل آیا۔ باہر کا موسم خوشگوار تھا، رات ہو گئ تھی اور آسمان پر ستارے نمودار ہونا شروع ہو گۓ تھے۔ باہر اندر سے زیادہ رونق اور بھیڑ تھی مگر کھلے میدان کے باعث گھٹن محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایک طرف مختلف کھانے پینے کی دکانیں سجی تھیں، یہ دکانیں مستقل یہاں نہیں تھیں بلکہ خاص نمائش کے لیۓ انہیں عارضی طور پر بنایا گیا تھا۔ دوسری طرف بچوں کے لیۓ مختلف جھولے لگاۓ گۓ تھے جہاں پر اس وقت بچوں بڑوں دونوں کا خوب رش تھا۔ میں جھولوں والی سمت چلا آیا اور ایک قدرے اندھیرے کونے میں جا کر ایک لوہے کے بڑے سے بانس کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ یہ لوہے کا لمبا سا بانس شاید جھولا باندھنے کے لیۓ زمین میں گاڑھا گیا تھا۔ میں کافی دیر تک وہیں کھڑا بچوں کو جھولے جھولتے دیکھتا رہا۔ پھر اک خیال آیا جو مجھے تین چار برس پیچھے لے گیا۔ چار برس پہلے اسی نمائش میں ہم دونوں اکٹھے آۓ تھے ، وہ مجھے پنڈال سے کھینچ کر باہر لے آںئ۔


"چلو نہ جھولے لیتے ہیں"


"اوہو یہ بچوں والے کام ہم کرتے ہوۓ اچھے لگیں گے؟ ۔۔۔ میں نہیں لیتا جھولا وولا۔"


"سیدھی طرح کہو تمہیں ڈر لگتا ہے۔" وہ شرارت سے بولی۔


"ڈر۔۔۔؟ اور مجھے۔۔۔کبھی نہیں۔" میں نے اکڑتے ہوۓ کہا۔


"اچھا تو چلو آؤ پھر۔" اس نے ایک طرف چلتے ہوۓ کہا۔


"ہاں ہاں چلیں گے، لیں گے،  جھولا بھی لیں گے پر بعد میں ابھی اتنی جلدی کیا ہے۔" 


وہ مسکراںئ، "ہاں دیکھا! مان کیوں نہیں لیتے تم ڈرتے ہو"


"اچھا چلو مان لیا ڈرتا ہوں , اب چلو یہاں سے۔ "


 میں اسے کھینچ کر کھانے پینے کی دکانوں کی طرف لے گیا۔ ایک جگہ پر ایک چھوٹا سا جوس کارنر بنا تھا ہم دکان کے باہر ہی رکھی کرسیوں پر بیٹھ گۓ۔


گرمیاں آخری دموں پر تھیں اور سردیاں اپنی باری کے انتظار میں کھڑی تھیں , اس لیۓ موسم معتدل تھا، نہ تو زیادہ سردی تھی اور نہ ہی زیادہ گرمی۔ میں نے دکان والے کو دو جوس کا آرڈر دینے کے بعد اس سے پوچھا: "ہاں تم نے بتایا نہیں پھر کہاں تھی کل؟"


"یہیں تھی، وہ میں ڈرائیونگ سیکھنے کے لیۓ گئ تھی۔" اس نے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو میز پر رکھتے ہوۓ کہا۔


"ڈرائیونگ سیکھنے۔۔۔؟" میں بولا، "کس کے پاس,  کسی ڈرائیونگ اسکول میں داخلہ لیا ہے؟"


"نہیں ایک جاننے والے ہیں ان سے سیکھ رہی ہوں."


"تو بتا کر تو جانا تھا۔ ہزار دفعہ کہا ہے اگر اس طرح جانا ہو تو اطلاع دے کر جایا کرو، پورا دن تمہارا نہ کوںئ پیغام نہ کوںئ اطلاع۔۔۔ خیر چھوڑو اب سے اس طرح کہیں جانا ہوا تو بتا کر جانا۔"


"اچھا بابا آئیندہ سے بتا کر جاؤں گی۔"


میں خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور جھولوں والی جگہ سے چل کر کھانے کی دکانوں کے پاس چلا آیا۔ غیر ارادی طور پر میری نظریں اسی جوس کارنر کو تلاش کرنے لگیں۔ اور جب وہ مل گیا تو اسی جگہ آکر بیٹھ گیا، جہاں چند برس پہلے بیٹھا تھا۔


اگلے برس ہم دونوں پھر اس نمائش پر آۓ، مگر یہ اس کی آخری نمائش تھی جو اس نے میرے ساتھ دیکھی تھی۔ ہم دونوں پنڈال سے باہر نکل کر ایک طرف قدرے خاموش اور ویران جگہ پر آ کھڑے ہوۓ۔ رات ہو چکی تھی اور اندھیرا پھیل چکا تھا۔ سامنے ایک موٹا سا رسہ تھا جس سے پنڈال کا تنبو باندھا گیا تھا، رسے کا دوسرا سرا ایک موٹے سے لکڑی کے دستے یا کلے سے بندھا تھا جو نیچے زمین میں گڑھا تھا۔ میں جھک کر  دونوں ہاتھ رسے پر ٹکا کر کھڑا ہو گیا۔ کافی دیر تک ہم دونوں خاموش کھڑے رہے۔ پھر میں بولا: " تو تم نے فیصلہ کر لیا ہے تم پکا جا رہی ہو۔؟"


"میرے فیصلہ کرنے کا سوال ہی ہیدا نہیں ہوتا میری ساری فیملی جا رہی ہے تو مجھے بھی تو جانا ہی پڑے گا۔" 


"لیکن پھر بھی کوںئ تو حل ہو گا آخر سوچو تو سہی تم دوسرے شہر نہیں بلکہ دوسرے ملک جا رہی ہو، مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ دور۔"


"تو کیا کر سکتی ہوں میں" وہ بولی "بتایا تو ہے میری پوری فیملی وہاں منتقل ہو رہی ہے تو میں اکیلے یہاں کیسے رہوں۔"


اس کے بعد ہم دونوں نے کوںئ بات نہ کی۔ میں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا چاند کہیں دکھاںئ نہیں دے رہا تھا اور ستاروں کی روشنی پھیکی پڑ گئ تھی۔ وہ رات ہم دونوں کی ملاقات کی آخری رات تھی۔ اس کے بعد میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ چند دن بعد اسے جانا تھا، جاتے ہوۓ اس کا پیغام ملا کہ وہ ہواںئ اڈے کے لیۓ نکل گۓ ہیں۔ اس کا پیغام ملنے کے بعد میں کافی دیر تک ایسے ہی بے چین گھومتا رہا پھر خود بخود میرے قدم ائیرپورٹ کی سمت بڑھ گۓ۔ جب میں ائیرپورٹ پہنچا تو معلوم پڑا کہ جہاز اڑ چکا ہے اور وہ جا چکے ہیں۔ میں واپس پلٹ آیا۔ کچھ دیر بعد پتا چلا وہ جہاز اڑا ضرور مگر لینڈ نہیں کیا۔ سب مسافر مارے گۓ تھے۔ 


میرے موبائل کی گھنٹی بجی، ایک دم میں چونک اٹھا, میں اپنے خیالوں سے باہر ماضی سے حال میں لوٹ آیا. میں نے ہڑبڑا کر اردگرد دیکھا تو خود کو اسی جوس کارنر میں اکیلا بیٹھا پایا۔ فون کی گھںٹی بجی جارہی تھی,چند لمحوں بعد جب سنبھلا تو فون اٹھایا, میرے ساتھی مجھے اندر بلا رہے تھے۔ فون بند کر کے کچھ سیکنڈ میں اسی طرح بیٹھا رہا پھر اٹھا اور پنڈال کی طرف چل دیا۔ اندر داخل ہونے سے پہلے میں نے آسمان کی طرف جھانکا، چاند اب بھی غائب تھا اور ستاروں کی روشنی پھیکی پڑ گئ تھی۔ اندر جانے کے بعد میں نے سامنے والے اسٹال پر نظر دوڑاںئ وہ بھوری آنکھوں والی ہم شکل لڑکی بھی غائب تھی، شاید وہ اک بھوت ہی تھی۔







Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات