ہاں اگلے ہفتے آرہا ہے۔' سدرہ نے پالک کے پتوں سے ڈنڈیوں کو چھری سے الگ کرتے ہوۓ بتایا۔ لبنیٰ جو اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی شرارت سے بولی۔ 'آرہا ہے'؟
سدرہ اس کا مطلب سمجھتے ہوۓ مسکراںئ۔ 'میرا مطلب ہے آرہے ہیں'۔
یہ ہوںئ نا بات۔' لبنیٰ اس کے پاس زمین پر بیٹھ گئ اور دوسری چھری سے شلجم چھیلتے ہوۓ بولی۔
اس دفعہ ویسے پکا ہے کہ عاصم بھاںئ جان شادی کے لیۓ ہی آرہے ہیں'؟
ہاں بھئ، اس دفعہ شادی کر کے ہی جائیں گے ماموں نے تو ابو کے ساتھ مل کر تاریخ بھی طے کر دی ہے'۔
اچھا سچ میں؟ کون سی تاریخ طے ہوئی ہے؟ لبنیٰ نے متجسس ہوتے ہوۓ پوچھا۔
معلوم نہیں۔ ابھی ابو نے کسی کو بھی نہیں بتایا'۔
ہاۓ کتنا مزا آۓ گا۔' لبنیٰ نے کہا۔ 'اتنے عرصے بعد ہمارے خاندان میں کوںئ شادی ہو گی، تمہیں پارلر سے تیار نہیں کروائیں گے بلکہ میں خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے تیار کروں گی آخر میں نے بھی بیوٹیشن کا کورس کیا ہوا ہے'۔
پھر تو میرا اللّٰه ہی حافظ ہے۔ سدرہ نے شرارت سے کہا۔ 'میں نے شادی میں سب کو ڈرانا نہیں جو تمہارے ہاتھوں سے تیار ہوں۔ یہ نہ ہو تمہارے بھاںئ جان بارات چھوڑ کر بھاگ جائیں'۔
لبنیٰ نے برا سا منہ بنایا۔
میں نے سوچا ہے بارات والے دن میں تمہارے ساتھ بیٹھ کر جاؤں گی۔۔۔ پر کیا فائدہ بارات جانی بھی تو اسی گاؤں کے آخر میں ہے، تمہارے ماموں لوگوں کو بھی ادھر ہی گھر بنانا تھا کتنا مزا آتا اگر بارات کہیں دور جاتی۔ جانتی ہو مجھے بڑا مزا آتا ہے اگر بارات دور کسی شہر جاۓ۔ یاد ہے بھاںئ عرفان کی شادی پہ کتنا مزا آیا تھا جب بارات فیصل آباد گئ تھی۔ راستے میں کیا کیا مزے کیۓ تھے'۔
سدرہ ہنسنے لگی۔ 'تم بھی ایک الگ ہی نمونہ ہو، کبھی تو اپنے چھوٹے سے دماغ پر تھوڑا سا بوجھ ڈال لیا کرو کچھ نہیں ہوگا، بیوقوف بارات جاۓ گی نہیں آۓ گی ہم لڑکی والے ہیں۔
اوہ یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔' لبنیٰ نے اپنے سر کے پچھلے حصے پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوۓ کہا۔
اتنی سی سے کیا ہو گا۔' سدرہ بولی۔ 'مجھ سے ایک چپیڑ کھاؤ دیکھنا پھر آئیں گی تمہارے ذہن میں اچھی اچھی باتیں'۔
لبنیٰ اٹھی اور ساتھ ہی منڈیر کے پاس جا کر کھڑی ہو گئ، ہاتھ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ کر سایا کیا اور دور کہیں دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔
بھاںئ عاصم لوگوں کا گھر یہاں سے صاف دکھاںئ دیتا ہے دیکھوں تو وہ لوگ کیا کر رہے ہیں'۔
یہاں سے صرف گھر دکھاںئ دیتا ہے گھر والے دکھاںئ نہیں دیتے۔ اتنی دور سے تمہیں بھلا کیا دکھے گا کہ کون کیا کر رہا ہے'۔
سدی وہ دیکھو ایسا لگ رہا ہے نہر میں کوںئ ڈوب رہا ہے۔' لبنی نے تیزی سے کہا۔
سدرہ سبزی چھوڑ کر جلدی سے اٹھی اور منڈیر کے پاس جا کر نہر کی طرف دیکھنے لگی۔ 'کہاں ہے'؟
وہ دیکھو اس طرف۔' لبنیٰ نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوۓ اسے بتایا۔
ہاں لگ تو ایسا ہی رہا ہے۔۔۔مگر شاید کوںئ نہا رہا ہو گا'۔
اس وقت کون نہاۓ گا؟' لبنیٰ نے پریشانی ظاہر کرتے ہوۓ کہا۔ 'وہ بھی اتنی دھوپ میں'۔
تو کیا رات کو نہائیں گے، تم اپنے دماغ پہ ذرا کم زور ڈالا کرو۔ پہلے ہی کافی کم ہے اور کم ہو جاۓ گا۔
مگر ابھی تو تم نے کہا تھوڑا بوجھ ڈالا کرو کچھ نہیں ہو گا'۔
'معافی دے دو میں اس وقت غلطی پر تھی۔
سدرہ واپس اپنی جگہ پر آگئ اور دوبارہ سبزی کاٹتے ہوۓ بولی۔
اب مجھے مت اٹھانا اگر اور تھوڑی دیر تک سبزی نہ
کٹی تو امی نے میرا جو خشر کرنا ہے تم نہیں جانتی'۔
جانتی ہوں، اچھی طرح جانتی ہوں۔' لبنیٰ نے واپس اپنی جگہ پر آکر کہا۔ 'مجھے یاد ہے وہ دن جب خالہ کا پارہ آسمان چھو رہا تھا، یقین کرو اس سے پہلے میں نے کبھی انہیں اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا میں تو سچ میں ڈر گئ تھی ایسا لگتا تھا ان کے اندر کوںئ باہر کی چیز، کوںئ بھوت گھس گیا ہے، آدھے گاؤں تک ان کے چلانے کی آواز سناںئ دے رہی تھی'۔
"ہاں اور جو اس کے بعد میرا حال ہوا تھا؟
دونوں کی باتوں کے دوران مناحل بالکنی میں داخل ہوںئ اور پوچھنے لگی۔
"یہ آپ لوگ اتنی گرمی میں ٹیرس پر کیا کر رہی ہیں؟
چند سیکنڈ رکو تمہیں خود ہی پتہ چل جاۓ گا کیا کر رہی ہیں۔' لبنیٰ نے جواب دیا۔
کیا مطلب؟' اس نے خیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔
ہمارا گھر نہر کے پاس ہونے کی وجہ سے ٹھنڈی ہوا ادھر آتی ہے اور اکثر اس وقت بجلی بھی نہیں ہوتی اس لیۓ ہم روزانہ اس وقت یہاں آجاتی ہیں۔' اس دفعہ سدرہ نے جواب دیا۔
ہاں ٹھنڈی ہوا تو آرہی ہے۔' مناحل نہر کی طرف دیکھتے ہوںئ بولی۔ 'اور یہاں سے نظارہ بھی کتنا خوبصورت ہے، سرسبز کھیت، لہلہاتی فصلیں، درخت، پیاری سی نہر اور کھلی ڈھلی فضا۔ سچ میں باجی یہاں آپ کی موجیں ہیں ورنہ ہم شہر میں جس محلے میں رہتے ہیں بہت ہی بری حالت ہے اس کی۔ تنگ سا محلہ ہے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں، بلکل ساتھ ساتھ ایسے جیسے ایک مکان کے اوپر دوسرا مکان چڑھا ہو، قسم سے اس موسم میں تو دم گھٹتا ہے وہاں'۔
ہاں میں نے دیکھا ہے تمہارا گھر'۔ لبنیٰ نے کہا۔
جی ہاں پر باجی سدرہ نے نہیں دیکھا۔ باجی آپ کبھی شہر نہیں گئیں اور کبھی ہمارے گھر نہیں آئیں؟ میں نے آپ کے بارے میں سن رکھا ہے کہ آپ کبھی شہر نہیں گئیں اور گاؤں سے باہر بھی شاید ایک دو دفعہ ہی گئ ہیں۔' مناحل نے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا۔
ہاں تم نے ٹھیک سنا ہے ایک دفعہ تو کچھ ہی عرصہ پہلے گئ تھی بھاںئ عرفان کی شادی پہ اور اس سے پہلے تو شاید اسے بھی یاد نہیں ہو گا۔' لبنیٰ نے اسے بتایا۔
اس سے پہلے بھی شاید کسی شادی پہ ہی گئ تھی'۔ سدرہ نے شلجم چھیلتے ہوۓ کہا۔ 'پر تم بھی تو کبھی کبھار ہی ہمارے گھر آتی ہو مجھے تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے ہر دوسرے دن تم یہاں ہوتی ہو'۔
لیکن میں اور بہت سی جگہ پر بھی تو جاتی ہوں آپ تو کہیں آتی جاتی ہی نہیں'۔
سدرہ نے سبزی کی ٹوکری اور چھری اسے پکڑاںئ اور بولی۔ 'یہ سب کام پھر تم کر لیا کرو تا کہ میں کہیں آ جا سکوں۔ تم اگر اکیلی بہن ہوتی تو تمہیں پتہ چلتا کہ گھر سے نکلنا کتنا مشکل ہوتا ہے، صبح سے لے کر شام تک گھر کے اتنے کام ہوتے ہیں کہ گاؤں میں کسی گھر جانا مشکل ہوجاتا ہے اور تم بات کر رہی ہو گاؤں سے باہر شہر جانے کی۔ یہ لبنیٰ کا گھر تو ساتھ میں ہی ہے پر پوچھو اس سے کہ مجھے اس کے گھر گۓ ہوۓ کتنے دن گزر گۓ۔ یہ تو مہربانی ہے اس کی کہ یہ روز اس وقت آجاتی ہے اور تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جاتی ہے'۔
ہاں یہ بات تو ہے۔' لبنیٰ بولی۔ 'یہ اگر ایک دن گھر سے باہر رہے تو گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو جاۓ اکیلی خالہ سے تو پورا گھر نہیں سنبھلتا'۔
ہاں جی! عاصم بھاںئ جان تو بڑے خوش نصیب ہیں کہ انہیں اس قدر سگھڑ لڑکی ملی ہے'۔
اور سدرہ کی خوش نصیبی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟' لبنیٰ نے پوچھا۔
یہ بھی خوش نصیب ہے۔ عاصم بھائی جان اچھے آدمی ہیں۔ فوج کی اچھی ملازمت ہے، اپنا گھر ہے اور کیا چاہیۓ۔ خوش رہیں گی باجی'۔
چلو ادھر لاؤ سبزی، میں جاؤں کافی دیر ہو گئ ہے اگر امی اوپر آ گئیں تو ساری خوشیاں ماتم میں بدل جائیں گی۔' سدرہ نے اٹھتے ہوۓ کہا۔
اگلے دن موسم خوشگوار تھا، گہرے بادلوں سے سورج گھرا ہوا تھا اور نہر سے آتی ٹھنڈی ہوا مزید ٹھنڈی ہو گئ تھی اس لیۓ سدرہ اور مناحل آج دونوں دوپہر کے وقت ہی ٹیرس پر آگئیں۔ انہوں نے لبنیٰ کو پیغام بھیجا مگر وہ ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔
سدرہ اپنے سامنے سلاںئ مشین رکھے کچھ سینے میں مصروف ہو گئی جبکہ مناحل ٹیرس پر ادھر ادھر گھومنے لگی۔ ٹیرس چھت کی طرح کافی کھلی اور وسیع تھی۔ وہ کبھی ایک طرف جاتی جہاں گاؤں کے باقی گھر تھے اور وہاں کھڑے ہوکر گھروں میں تانک جھانک کرتی اور کبھی دوسری طرف چلی جاتی جس طرف نہر تھی۔
باجی وہ دیکھیں ایسے لگتا ہے نہر میں کوںئ ڈوب رہا ہے۔' مناحل نے منڈیر پر تقریباً جھکتے ہوۓ کہا۔
نہیں ڈوب نہیں رہا تیر رہا ہو گا یہاں سے یونہی لگتا ہے کہ جیسے کوںئ ڈوب رہا ہے۔' سدرہ نے سر اوپر اٹھاۓ بغیر اپنا کام کرتے ہوۓ کہا۔ 'یہ لبنیٰ کی بچی کہاں رہ گئ ہے ابھی تک نہیں آںئ'؟
میں نے پیغام تو بھیجا تھا کہہ رہی تھی بس پانچ منٹ تک آتی ہوں۔ کافی دیر ہو گئ ہے اب تک تو آجانا چاہیۓ تھا'۔
ہاں آ تو جانا چاہیۓ تھا۔' سدرہ بولی۔
لبنٰی گھر سے نکل کر جب سدرہ کے گھر پہنچی تو مناحل کی امی اور سدرہ کی امی کو سدرہ کے بارے میں باتیں کرتے سنا تو ان کے پاس ہی رک گئ۔
ویسے تو سب ٹھیک ہے' سدرہ کی امی بولیں۔ 'بس تھوڑا سا ڈر رہی ہوں میری سدرہ سیدھی سادھی ہے کہیں آںئ گئ نہیں لوگوں کو زیادہ جانتی نہیں شادی کے بعد پتہ نہیں سنبھال پاۓ گی بھی کہ نہیں'۔
گبھرانے کی کوںئ بات نہیں تم کون سا اسے کہیں دور بھیج رہی ہو اسی گاؤں میں ہی تو رہے گی اور عاصم اپنا ہی بچہ ہے کون سا کوںئ غیر ہے خوش رکھے گا سدرہ کو'۔ مناحل کی امی نے کہا۔
لبنیٰ مزید کچھ دیر تک ان کے پاس بیٹھی رہی پھر اوپر چلی آئی۔
میں آگئ۔ بڑی پتے کی بات سن کر آںئ ہوں۔' وہ وہیں سدرہ کے پاس بیٹھ گئ۔ اس کی بات سن کر مناحل بھی پاس آگئ۔
کیسی بات؟' اس نے متجسس ہو کر پوچھا۔
تمہاری امی اور سدرہ کی امی کی باتیں سن کر آرہی ہوں۔ وہ تمہاری امی سے کہہ رہی تھیں سدرہ بہت سیدھی سادھی ہے کبھی میرے بغیر اکیلے نہیں رہی کچھ ڈر سا لگتا ہے اسے بھیجتے ہوۓ وغیرہ وغیرہ'۔
یہ بات پتے کی ہے؟' سدرہ اور مناحل دونوں نے برا سا منہ بنایا۔
'نہیں۔' اس نے کہا۔ 'پتے کی بات آگے ہے۔'
ہاں تو وہ بتاؤ۔' سدرہ بولی۔
تمہیں جاننے کی بڑی جلدی ہے۔ لبنیٰ نے اسے چھیڑتے
ہوۓ کہا۔ 'اچھا بتاتی ہوں وہ یہ کہ انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے عاصم بھاںئ جان آرہے ہیں اور اس سے اگلے ہفتے شادی'۔۔۔
آہا۔' مناحل نے نعرہ لگایا۔
چند دن گزرے تو عاصم کا پیغام آیا کہ سرحد پر جھڑپیں شروع ہو گئ ہیں اس لیۓ وہ ابھی نہیں آسکتا اور یہ کہ اس نے بہت کوشش کی کہ چھٹی مل سکے مگر نہیں ملی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگ شادی کی تیاریاں جاری رکھیں جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے وہ پہلی فرصت میں آجاۓ گا۔ چند دن مزید گزرے تو حالات بہتر ہونے کی بجاۓ اور بگڑ گۓ جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا۔ ہر طرف خوف اور سراسیمگی کا عالم تھا کسی وقت بھی جنگ چھڑ سکتی تھی۔
سدرہ اور لبنیٰ اب بھی باقاعدگی سے ٹیرس پر بیٹھتی تھیں جبکہ مناحل گھر واپس جا چکی تھی۔ پھر ایک دن عاصم کا پیغام ملا کہ اس نے چھٹی کی درخواست دی ہے امید ہے منظور ہو جاۓ گی تو وہ جلد آجاۓ گا۔
لیکن اس کی چھٹی کی درخواست کبھی منظور نہ ہوئی اور نہ وہ خود آیا۔ اس کی بجاۓ ایک ایسی خبر جو کبھی نہیں آنی چاہیۓ، ایسی خبر جس سے دل دہل جاتے ہیں، سینے پھٹ جاتے ہیں، آنکھیں پھر جاتی ہیں، اور دماغ شل ہو جاتے ہیں۔ ایسی خبر جو بہت چھوٹی سی ہوتی ہے مگر جس کے اثرات برسوں تک آپ کے دل و دماغ پر رہتے ہیں۔ ایسی خبریں کیوں بنتی ہیں، ان کا ذمے دار کون ہے اور ایسی خبریں آنا کب بند ہوں گی، معلوم نہیں، شاید تب تک نہیں جب تک کوںئ بڑی خبر نہ آجاۓ، وہ خبر جس کا وعدہ ہے۔
سدرہ نے جب یہ سنا تو کچھ بھی نہ بولی۔ ایسی خاموش ہوںئ جیسے بولنا جانتی ہی نہیں۔ کافی دیر تک وہ ٹیرس پر کھڑی نہر کو گھورتی رہی۔ پھر اس نے بولنے کے لیۓ لب ہلاۓ، اسے لگا کہ وہ کسی گہری کھاںئ سے بول رہی ہے جہاں سے اس کی آواز لبنیٰ تک نہیں پہنچ پاۓ گی۔
لبنیٰ وہ دیکھو۔۔۔' اس نے انگلی سے نہر کی طرف اشارہ کیا۔ 'وہ دیکھو ایک لاش جو پانی پر تیر رہی ہے'۔
Post a Comment
Thank you for your comment