Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





 کمرے کی کھڑکی سے خشک پتوں کے گرنے کا منظر دیکھنے کا مشغلہ ترک کر کے اب سیماب خود اس منظر کا حصہ بن گیا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف لگے درختوں کی قطاروں سے خشک پیلے اداس پتوں کی بارش رواں تھی جن سے سڑک مکمل طور پر بھیگ گئ تھی۔ وہ اسی سڑک پر ہاتھ جیبوں میں ڈالے اپنی دھن میں آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔ وہ جیسے ہی پاؤں زمین پر رکھتا خشک پتوں کے کڑکنے کی آواز پیدا ہوتی، اس کو نجانے کیوں یہ آواز بھلی لگ رہی تھی۔ سارے منظر پر اداسی چھاںئ تھی، وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کے اندر کا موسم  اداس ہے جس سے باہر کی فضا سوگوار لگ رہی ہے یا باہر کی فضا ایسی ہے جس سے اس کا من اداس ہو گیا ہے۔ وہ پاس ہی ایک درخت کے نیچے رکھے لوہے کے بنچ پر بیٹھ گیا۔ باہر کی فضا کچھ کچھ ایسی ہی تھی، جابجا بکھرے پڑے ٹوٹے پتے اور اجاڑ ہوتے درخت جن پر کبھی برگ وبار تھا مگر اب وہ برہنہ کھڑے تھے۔ اور شمال سے آتی دھیمی سی ٹھنڈی ہوا کا پرسوز شور یوں تھا جیسے کسی فلم میں پس منظر میں کوںئ مدھم سا سوگوار سا ساز بجتا ہے جس سے سارا منظر اداس دکھاںئ دینے لگتا ہے۔


پت جھڑ تو پہلے بھی ہر بار اداسیاں لیۓ ہی آتی مگر اس دفعہ اس موسم کے کچھ الگ ہی انداز تھے۔ اس بار وہ پہلے سے زیادہ اداس دکھاںئ دے رہا تھا، درختوں سے آہستہ آہستہ پتے گرتے تو اسے یوں لگتا کہ اس کے دل کا سر سبزو شاداب درخت بھی آہستہ آہستہ جھڑ رہا ہے اور اس کی زمین پر غموں کے پتے گر گر کر بکھر رہے ہیں۔ سڑک خشک پتوں سے ڈھک گئ تھی اور اس کی دل کی شاہراہ بھی خشک اداس پتوں سے بھرتی جا رہی تھی۔ مگر یہ اداسی ایسی تھی جس سے اسے کچھ کچھ لذت بھی ملنے لگی تھی اس لیۓ وہ کھڑکی سے اٹھا اور باہر باغ میں آگیا۔ باغ میں خزاں اپنے پورے جوبن میں دکھاںئ دے رہی تھی۔ 


وہ اس باغ میں کئ بہاریں بھی دیکھ چکا تھا جو اسے ازبر تھیں خاص کر وہ بہاریں جو اس نے انجلینا کے ساتھ گزاری تھیں۔ انجلینا اسے یورپ میں ملی تھی اور وہ اسے دیکھتے ہی اس پر فدا ہو گیا تھا۔ پھر وہ اپنے وطن لوٹ آیا تھا اور کچھ عرصے بعد انجلینا اسے ملنے یہاں آںئ تھی۔ وہ دن ان کی زندگی کے شاندار دن تھے۔ باغ میں بہار اتر آںئ تھی، رنگا رنگ پھول کھلے تھے جن کی مہک سے پورا باغ معطر ہو گیا تھا، ٹھنڈی ٹھنڈی دل گداز ہوائیں چلتی تھیں جو پھولوں کی تازہ مہک کو سارے میں اڑاۓ پھرتی تھیں۔ رنگ برنگی حسین تتلیاں ان پھولوں پر آکر بیٹھتی تھیں اور سرسبزوشاداب درختوں پر بلبلیں اور فاختائیں گنگناتی پھرتی تھیں۔ نرم و نازک سبزہ تھا جس پر صبح کے وقت شبنم کے قطرے سورج کی ہلکی سی روشنی میں موتیوں کی طرح چمکتے دکھاںئ دیتے تھے۔ وہ دونوں اکثر صبح سویرے اس شبنم آلود گاس پر ننگے پاؤں سیر کیا کرتے۔ دن کے وقت کسی گھنے درخت کی چھاؤں میں گاس کے کسی قطعے پہ گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے، اک دوسرے کو محبت کی، رنگین پھولوں کی اور حسین تتلیوں کی شاعری سنایا کرتے اور کوئلوں، بلبلوں اور فاختاؤں کے نغمے سنا کرتے۔ 


شام کے وقت جب سورج چوٹیوں کے پیچھے جا چھپتا اور تاریکی چار سو پھیل جاتی تو وہ پیانو پر انجلینا کی پسندیدہ دھن بجاتا اور وہ دیوار کے ساتھ کندھا ٹکاۓ کھڑکی میں سے سامنے برقی قمقموں کی روشنی میں چمکتے یوکلپٹس کے درختوں کو دیکھتی رہتی۔ دیر تک وہ مختلف دھنیں بجاتا رہتا جنہیں وہ بڑے انہماک سے  سنتی اور جب وہ تھک کر اپنی انگلیوں کی حرکت کو ساکت کرتا تو وہ پرزور انداز میں تالی بجا کر اسے داد دیتی۔ گھنٹوں اس کی بجاںئ دھنیں اسے مسحور کیۓ رکھتیں۔ پھر دونوں باہر لان میں آجاتے اور اجلے صاف شفاف چاند کی چھاؤں میں بیٹھ جاتے اور ٹھنڈی چاندنی اوڑھ لیتے۔ دونوں کے کافی کے مگ میں سے سفید دھواں اڑ اڑ کر رات کی تاریکی میں تحلیل ہوتا رہتا اور وہ دونوں کبھی خاموشی سے اور کبھی سرگوشیوں میں گفتگو کرتے۔ 


پھر اسے وہ دن یاد آیا جب دونوں باغ میں بیٹھے تیز بارش سے لطف اندوز ہو رہے تھے، وہ اس وسیع و عریض باغ کے بلکل مرکز میں چھوٹے سے بنچ پر بیٹھے تھے جس کے اوپر لوہے کی چھوٹی سی چھت تھی، بارش ان کے اردگرد چاروں طرف پڑ رہی تھی۔ دور سے یوں لگتا جیسے کسی سمندر کے عین درمیان میں چھوٹا سا جہاز کھڑا ہو اور ان کے اردگرد چاروں طرف دور دور تک پھیلا وسیع سمندر ہو۔ کافی دیر تک دونوں خاموش بیٹھے رہے، پھر انجلینا ہولے سے بولی"سیماب"


وہ کہیں اپنے خیالوں میں گم جیسے کسی خواب میں ہو، اس کی طرف دیکھے بغیر بولا،  

 "ہوں 


  مجھے کبھی کبھی ڈر محسوس ہوتا ہے" انجلینا اسی لہجے میں بولی۔


  "ڈر۔۔۔ کیسا ڈر؟" وہ ابھی بھی کھوۓ ہوۓ انداز سے بولا۔


  "یہی کہ یہ بہار کے دن کہیں تمام نہ ہو جائیں۔" کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولی، "میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔"


خواب۔۔۔کیسا خواب؟" اس نے پھر اسی انداز سے کہا۔


ڈراؤنا خواب" اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ "ایسا خواب جو دل دہلا دے۔۔۔ خوفناک۔۔۔ بیانک۔"


 چند سیکنڈ خاموش رہنے کے بعد بولی، "میں نے دیکھا کہ یہ باغ جس میں ہم بیٹھے ہیں بلکل اجڑ چکا ہے، درختوں کی سرسبز ڈالیاں، پتے ٹوٹ کر بکھر گۓ ہیں اور رنگین پھول مرجھا گۓ ہیں۔ باغ میں خزاں اتر آئی ہے۔"


  "ہاں" اس نے پہلی مرتبہ اس کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ بولا، " یہ باغ ہمیشہ سر سبزو شاداب رہے گا، تم فکر مت کرو یہاں کبھی خزاں نہیں آۓ گی۔"


 "خزاں کا آنا کوںئ اپنے بس میں تھوڑی ہوتا ہے" اس نے پلکیں جھپکیں، "یہ تو بس اپنے آپ وارد ہو جاتی ہے، بغیر دستک دیۓ آ دھمکتی ہے۔ چپ چاپ، بغیر کوںئ پیشگی اطلاع دیۓ۔"


وہ اٹھا اور ہاتھ بارش کے نیچے کر کے ہتھیلی پر بارش محسوس کرنے لگا۔


 "شاید ایسا ہی ہو" وہ بولا  "مگر ابھی۔۔۔" پھر جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور خاموش ہو گیا، آنکھیں بند کر کے ایک لمبا سا سانس اندر کھینچا۔ "گیلی مٹی کی خوشبو۔۔۔"


   "ہوں"۔ 


اب باغ میں شام کی آمد شروع ہو گئ تھی وہ اٹھا اور باغ کے بیچوں بیچ گزرتی سڑک پر چلنے لگا۔ ٹوٹے خشک پتے اس کے پاؤں کے نیچے آکر کچلے جا رہے تھے اور چر چر کی آواز پیدا کر رہے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ان بیچارے پتوں کو خبر بھی نہ ہوںئ ہو گی کہ کیسے اچانک خزاں آںئ اور سب کچھ اجاڑ کر چلی گئ۔ ہم دونوں کو بھی تو کچھ پتہ نہ چلا تھا کہ کب خزاں ہماری زندگی میں بغیر دستک دیئے داخل ہو گئ۔ ایسا خاص کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا پھر کیا ہوا تھا کہ سب کچھ اچانک بدل گیا۔ کبھی کبھار ایسا کیوں ہو جاتا ہے کہ بغیر کچھ ہوۓ ہی بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ بلکل ایک دم سے اچانک سے کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ حالات پلٹا کھا جاتے ہیں ، وقت بدل جاتا ہے۔ سمندر کی سطح پر سکون سے چلنے والا جہاز اچانک بغیر کسی طوفان کے بس ایک چھوٹی سی لہر سے ہی ڈول جاتا ہے۔ 


چلتے چلتے وہ رک گیا۔ یہاں سے دو راستے بن رہے تھے ایک راستہ سیدھا جا رہا تھا اور ایک بائیں ہاتھ کو مڑ رہا تھا۔ وہ دونوں راستوں کے بیچ میں کھڑا ہو گیا۔ پھر کچھ سوچنے لگا۔


    "تمہیں کسی راستے کا انتخاب کرنے سے پہلے ایک مرتبہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیۓ۔" اس نے انجلینا کے پیچھے چلتے ہوۓ کہا۔


 "میں فیصلہ کر چکی ہوں میں اب پیچھے مڑنے والی نہیں۔" انجلینا بیگ ہاتھ میں لیۓ تیزی تیزی سے قدم اٹھاتے ہوۓ بولی۔


 "مگر ایسا کیا ہوا ہے" وہ بدستور اس کے پیچھے چلتے ہوۓ چلایا "یقین مانو تمہیں غلط فہمی ہوںئ ہے میرا ارادہ تمہیں ٹھیس پہنچانے کا بلکل نہیں تھا، جس زاویۂ نظر سے تم نے اس سارے معاملے کو لیا ہے وہ ایسا نہیں تھا۔ تم نے میرا نقطہ نظر سنے اور سمجھے بغیر ہی بوریا بستر باندھا اور چل دی۔" 


 "میں کچھ بھی سننا اور سمجھنا نہیں چاہتی میرے پیچھے اب مت آنا۔" انجلینا تیزی سے بائیں طرف مڑ گئ اور وہ وہیں رک گیا دونوں راستوں کے بیچ۔


  "آج بھی میں یہیں کھڑا ہوں دونوں راستوں کے بیچ۔ اس نے سوچا۔ "اس انتظار میں کہ بہار شاید اسی راستے سے لوٹ آۓ۔ مگر باغ میں خزاں کی شام اتر آںئ ہے اور وہ شام اس قدر طویل ہو گئ ہے کہ بہار کی آمد کی تمام امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔" 










Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات