Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 




تین دن سے لگاتار بارش ہو رہی تھی۔ وہ کمرے کی کھڑکی سے باہر لان میں پودوں اور ہری بھری گاس پر پڑتی بارش کو پچھلے دو گھنٹے سے مسلسل گھورے چلا جا رہا تھا۔ اس کے فون کی گھنٹی ضدی بچے کی طرح چیخے جا رہی تھی مگر اس نے ایک بار بھی فون نہ اٹھایا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے فون کی گھنٹی سناۓ ہی نہیں دے رہی۔ ابھی چند دن پہلے تک اس کی زندگی کتنی عمدہ چل رہی تھی۔ وہ ایک بیمہ کمپنی میں بڑے اعلیٰ عہدے پر ایک شاندار ملازم کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ تنخواہ اور مراعات وغیرہ  اچھی تھیں، فلیٹ کمپنی کی طرف سے ملا ہوا تھا، اور گاڑی بھی تھی۔ یہ ساری مراعات تو اس کے پاس اب بھی تھیں مگر اس کی زندگی میں کچھ تبدیلی آگئ تھی۔ چند دن پہلے بالکل اسی طرح شدید بارش میں اس نے اپنی گاڑی سڑک کے کنارے درختوں کے جھنڈ کے پاس کھڑی کر دی۔ تہمینہ جو اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی، اس نے حیرت سے پوچھا۔ 
یہ تم نے گاڑی یہاں کیوں روک دی'؟' 

بس ایسے ہی تھوڑی دیر رک کر چلیں گے۔' اس نے جواب دیا اور باہر درختوں پر پڑتی بارش کو دیکھنے لگا۔ اس کی تہمینہ سے ملاقات کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ چند ہفتے پہلے ہی تو وہ اس کی کمپنی میں ملازمت کے لیۓ آںئ تھی۔ شروع دن سے وہ اس کو بہت اچھی لگی تھی۔ اس کی خوبصورتی، اس کا کام کرنے کا انداز اور اس کا مزاج اور رویہ صرف اس کو ہی نہیں بلکہ دفتر کے ہر فرد کو بہت اچھا لگا تھا۔ دفتر کی دوسری لڑکیاں بھی اسے بہت پسند کرتی تھیں۔ بہت جلد اس کی سب سے دوستی ہو گئ۔ وہ اور تہمینہ بھی بہت اچھے دوست بن گۓ تھے۔ پہلے پہل اپنے دفتر میں ہی ان کی ملاقاتیں ہوتیں رہیں پھر فون پر گفتگو کا سلسلہ چلا اور اس کے بعد انہوں نے باہر بھی ملنا شروع کر دیا تھا۔ ابھی بھی وہ کسی ریسٹورنٹ سے کھانا کھا کر واپس لوٹ رہے تھے۔ کچھ دیر تک دونوں خاموش بیٹھے کھڑکی کے راستے سے  آنے والی بارش کی مترنم آواز سنتے رہے۔ پھر تہمینہ نے ہی خاموشی کو توڑا 'گاڑی کھڑی کی ہے تو کچھ بات بھی کرو، کیا ایسے ہی خاموش بیٹھے رہنا ہے۔' اس نے جواب دینے کی بجاۓ گاڑی آگے بڑھا دی۔
 'چلو چلتے ہیں۔


اس کو اس کے گھر اتارنے کے بعد وہ اپنے گھر کی طرف پلٹا مگر راستے میں پودوں کی ایک نرسری پر رک گیا وہاں سے اس نے کمرے کے اندر رکھنے والا ایک خوبصورت سا پودا خریدا اور گھر کی طرف چل دیا۔ اسے شروع ہی سے انڈور پلانٹس بہت پسند تھے۔ جب اسے نیا نیا یہ فلیٹ ملا تھا تب اس نے  گھر کو خوبصورت اور دلکش پودوں سے بھر دیا تھا۔ مگر اب اسے کوئی پودا خریدے ہوۓ کافی عرصہ بیت گیا تھا۔ مصروفیت اور کچھ سستی کی بدولت اسے ان سب کا خیال ہی نہ آیا تھا۔ شروع شروع میں ہر چھٹی والے دن وہ ان کو اچھے طریقے سے تراشتا، ان میں کھاد ڈالتا اور کبھی کبھی بازار سے کوںئ سپرے لا کر بھی چھڑکتا۔ ان کی بہت دیکھ بھال کرتا مگر اب اس نے پچھلے کئ ماہ سے ان کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا۔ ایسا نہیں کہ اسے ان سے محبت نہیں رہی تھی یا اب اسے یہ پودے دلکش نہیں لگتے تھے بس روزمرہ کی تھکا دینے والی یکسانیت اور زندگی کے بوجھل پن نے اسے ان سے ذرا غافل کر دیا تھا۔ مگر اب تہمینہ کی صورت میں اس کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی آئی تھی اس لیۓ اسے اتنے عرصے بعد آج دوبارہ ان سب کا خیال آیا۔ 


فلیٹ میں پہنچتے ہی خال کے اندر رکھے پرانے گملے کو اس نے ایک طرف رکھا اور اس کی جگہ پر سبز رنگ کا ایک خوبصورت گملا رکھ دیا۔ پھر کچھ سوچنے کے بعد وہ حال کے دوسری طرف رکھے دوسرے پودے کی طرف بڑھا اور اسے صاف کرنے لگا آج اس کو اتنے عرصے بعد ان پودوں کی صفاںئ ستھراںئ کا خیال آیا تھا۔ اس نے سوچا اب وہ سارے گھر کو دوبارہ سے خوبصورت انڈور پلانٹس سے سجاۓ گا۔


وہ ایک پودے پر جھکا اس کی کانٹ چھانٹ کر رہا تھا تبھی اس کی ماں باورچی خانے سے حال میں داخل ہوںئ۔ آتے ہی اس نے کہا 'کپڑے تو تبدیل کر لو گھر میں داخل ہوتے ہی ان پودوں کے ساتھ چپک گۓ۔ آج تمہیں اتنے عرصے بعد کیسے ان کا خیال آگیا۔ میں تو بہت خوش تھی تم نے ان کی یا انہوں نے تمہاری جان چھوڑ دی ہے ورنہ تو دفتر سے آنے کے بعد باقی سارا دن تم انہی کے ہو کر رہ جاتے تھے۔ کہا بھی تھا کہ ان کم بختوں کو باہر لان میں رکھا کرو، اتنی جگہ ہے، پھر بھی تم انہیں کمروں میں پتہ نہیں کیوں گھساتے رہتے ہو۔' باتیں کرتے کرتے وہ صوفے پر بیٹھ گئیں اور وہ ان کی باتیں سن کر مسکراتا رہا، پھر بولا۔ 'امی بتایا تو تھا کہ یہ انڈور پلانٹس ہیں انہیں کمرے کے اندر کم روشنی میں ہی رکھا جاتا ہے۔ زیادہ روشنی یا دھوپ سے یہ مرجھا جائیں گے۔"


'اے ہے دفعہ کرو ان کو۔' 


کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔  کھڑکی کھول کر اس نے باہر لان میں دیکھا بارش اب بھی جاری تھی۔ کوٹ اتارنے کے بعد وہ اپنے بستر پر دراز ہو گیا اور پھر کوئی خیال آنے کے بعد دوبارہ اٹھا اور سامنے میز پر رکھے میوزک ریکارڈر کو آن کر دیا۔ مدھم سی آواز میں انگریزی گانا بجنے لگا۔ وہ آگے بڑھ کر کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔


'ایک بار مجھے اس سے مکمل طور پر بات کر کے پھر امی سے بات کرنی چاہیۓ۔' اس نے سوچا۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے جیب سے فون نکالا سکرین پر تہمینہ کا نام لکھا آرہا تھا۔ 


'ہیلو'


'ہیلو۔ کیا کر رہے ہو؟'


'کچھ نہیں۔ بس یونہی کھڑکی سے بارش کو دیکھ رہا ہوں۔'


'یہ بھی اچھا کام ہے۔' اس نے شرارت سے کہا۔


 'ہاں! ہے تو اچھا۔۔۔ اچھا چھوڑو یہ بتاؤ پھر کب ملنے آنا ہے امی سے؟ میں ان سے تب ہی بات کروں گا جب تم کنفرم کرو گی۔'


'اس سنڈے کو کنفرم۔' 


'ٹھیک ہے۔  پکا نا؟'


'ہاں بھئ پکا۔'


بات کر کے وہ بستر پر لیٹ گیا اور بے مقصد چھت کو گھورنے لگا۔ شادی کا فیصلہ انہوں نے بہت پہلے کر لیا تھا مگر ابھی تک نہ تو انہوں نے اپنے گھر اور نہ ہی دفتر میں کسی کو بتایا تھا۔ مگر اب انہوں نے گھر بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اسی خیال میں کھویا تھا کہ وہ آج اپنی امی سے اس بارے میں بات کرے گا۔ اس کے پاس صرف اس کی والدہ  رہتی تھیں۔ والد کچھ عرصہ پہلے گزر گۓ تھے، بھاںئ کوںئ تھا نہیں اور دو بہنیں شادی کے بعد اپنے سسرال جا چکی تھیں۔ تہمینہ کے والد والدہ دونوں حیات تھے، دو بھاںئ کافی چھوٹے تھے اور دونوں بہنوں کی شادی ہو چکی تھی۔


اپنی سوچوں میں گم وہ کافی دیر تک وہیں لیٹا رہا، بارش قدرے تھم چکی تھی اور گو کہ ابھی شام کا وقت نہیں ہوا تھا مگر گھنے بادلوں کے باعث اندھیرا جلد اتر آیا تھا۔ وہ اٹھا اور میوزک ریکارڈر کو بند کرنے کے بعد دوبارہ کھڑکی کے پاس چلا آیا۔ بارش کے بعد لان میں پتنگے بھی کہیں سے آگۓ تھے اور دوسرے کیڑوں اور مینڈکوں کے ٹرٹرانے کی آوازیں بھی سناںئ دے رہیں تھیں۔ گیلی مٹی کی خوشبو بھی کھڑکی کے راستے اندر جھانک رہی تھی۔ چند لمحوں تک وہ یونہی اپنے سر سبز باغیچے کو بارش میں بھیگتے دیکھتا رہا پھر کمرے سے باہر نکل آیا۔ 


باہر آکر اس نے اپنی والدہ کو اس کے بارے میں بتایا تو اس کی والدہ نے پوچھا۔ 'یہ وہی لڑکی ہے جس سے تم نے مجھے ایک بار ملایا تھا۔ شاید تب جب میں تمہارے دفتر میں کسی کام سے گئ تھی۔'  


'جی ہاں وہی ہے۔'


اپنی والدہ سے بات کرنے کے بعد وہ خوشی خوشی اتوار کے دن کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے سارے گھر کو پھولوں اور پودوں سے سجا دیا تھا۔ باغیچے میں بھی لال، پیلے ، سفید کئ رنگوں کے پھولوں سے بھرے گملے لا کر رکھے۔ دیواروں پر بازار سے خوبصورت تصویریں لا کر آویزاں کیں۔ اور گھر کے ایک ایک کونے کو صاف کروایا۔ 


 طویل انتظار کے بعد اتوار کا دن آیا تو وہ بہت جلد اٹھ گیا۔ صبح سے موسلادار بارش ہو رہی تھی۔ کمرے کی کھڑکی کھول کر وہ باہر درختوں پر پڑتی بارش کو دیکھنے لگا۔ وقت بہت آہستگی سے گزر رہا تھا۔ مگر گزرتے گزرتے گزر گیا۔ پہلے سیکنڈز گزرے، پھر منٹس  اور پھر گھنٹوں گزر گۓ ۔۔۔ اس کے بعد دن، پھر مہینے اور پھر برسوں بھی گزر گۓ مگر وہ اتوار کا دن کبھی نہ آیا۔


آج بھی اتوار تھی۔ تین دن سے لگاتار بارش ہو رہی تھی۔ وہ کمرے کی کھڑکی سے باہر پودوں پر پڑتی بارش کو پچھلے دو گھنٹے سے مسلسل گھورے جا رہا تھا۔ اس کے موبائل کی گھنٹی ضدی بچے کی طرح چیخے جا رہی تھی۔ مگر یوں لگتا تھا اسے گھنٹی سناںئ ہی نہیں دے رہی تھی۔











Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post