Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 




"بیپ بیپ" (beep) موبائل پر مدھم سی آواز میں  گھنٹی بجی ، میں نے کتاب ایک طرف کی اور میز پر رکھا موبائل اٹھا لیا۔ سائرہ کا وٹس ایپ پیغام تھا،  "میں پنڈی میں ہوں۔" کچھ دیر پہلے میں نے ہی اسے وٹس ایپ پر یہ پوچھنے کے لیۓ پیغام بھیجا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ "اچھا سفر میں ہو؟" میں نے دوبارہ میسج بھیجا۔


اس نے جواب دیا" نہیں۔۔۔ سفر ابھی شروع ہی کہاں ہوا ہے۔۔۔" مجھے شاید اندازہ ہو گیا کہ یہ بات اس نے کن معنوں میں کی ہے مگر نجانے کیوں میں نے نا چاہتے ہوۓ بھی اسے نظرانداز کر دیا اور اس سے کچھ اور پوچھا، "اچھا کب نکلنا پنڈی سے؟"


"بس ٹرین میں بیٹھنے لگے ہیں۔" اس نے دوبارہ پیغام بھیجا، " توبہ اتنی سردی ہے لگتا ہے گھر پہچنے تک نمونیہ ہو جانا مجھے۔"


میں نے ہاہاہا لکھا اور اس کے ساتھ وٹس ایپ پر ٹیکسٹ کے ساتھ دیۓ مخصوص اینیمیٹڈ چہروں یا اموجیز سے ایک مسکراتا ہوا اموجی (emoji)منتخب کیا اور اسے بھیج دیا۔ اس کے بعد کچھ دیر تک ہماری باتیں ہوتی رہیں۔ 


اگلے دن دفتر سے چھٹی تھی اس لیۓ میں صبح تھوڑا تاخیر سے اٹھا، منہ ہاتھ دھویا اور ناشتہ کرنے کے بعد چاۓ کا کپ اور کتاب پکڑی اور چھت پہ چلا آیا۔ بڑی پیاری دھوپ نکلی تھی۔ بستر سے نکلنے اور ناشتہ کرنے کے بعد سردی محسوس ہورہی تھی مگر چھت پر پہنچتے ہی دھوپ کی حدت سے جسم کو سکون ملنے لگا۔ کچھ دیر کھڑے ہو کر میں نے اردگرد پھیلے مکانات پر ایک نگاہ ڈالی، چند ایک چھتوں پر کچھ کچھ لوگ تھے مگر زیادہ تر ویران ہی تھیں۔ چاروں طرف تاحد نگاہ اونچے لمبے چھوٹے بڑے مکان اور ان کی چھتیں جو میری روز کی دیکھی بھالی تھیں اپنے اندر بڑی جاذبیت رکھتی تھیں۔ یہاں سے کالونی کا نظارہ بڑا شاندار تھا۔ دور دور تک پھیلی دو منزلہ سہہ منزلہ کوٹھیاں دھوپ کی روشنی میں یوں کھڑی تھیں جیسے کسی جنگل میں ایستادہ درختوں کے جھنڈ۔  کسی زمانے میں یہ درخت شام تک ہم جیسے پرندوں سے آباد رہتے تھے مگر اب ان پر کہیں دور سے آتی ہوائیں ہی بسیرا کرتی تھیں۔ برسوں پہلے سردیوں کی دوپہروں میں سکول سے آنے کے بعد یہ چھتیں آباد ہو جاتیں اور پھر سورج ڈھلنے تک آباد ہی رہتیں۔ کالونی کے سب بچے یا تو گلیوں میں پاۓ جاتے یا ان چھتوں پر, شام تک ان پر رونق رہتی۔ لیکن اب یہاں ایسی ویرانی ہوتی کہ دشت یاد آتا۔ کالونی میں بچے اب بھی تھے مگر وہ چھتوں پر کم کم ہی آتے ، اب ان کے پاس اور بہت سے مشاغل تھے مگر تب شاید دل بہلانے کے لیۓ یہ چھتیں تھیں یا شہر کی گلیاں۔ مجھ ایسوں کے لیۓ مگر راحت کے سامان اور بھی تھے جن میں کوہ قاف کے شہزادوں، شہزادیوں اور  جنوں، پریوں کی کہانیاں تھیں، ٹارزن کی بہادری کے قصے تھے، عمروعیار کی عیاریاں تھیں اور سندھ باد جہازی کی سمندری مہم جوئیاں تھیں۔ کچھ بڑے ہوۓ تو ابن صفی کی جاسوسی دنیا اور اے حمید کی پراسرار، خوفناک اور رومانوی دنیا کی سیر کرنے لگے۔ گانے سننے کے لیۓ واک مین تھے اور پاکٹ سائز ریڈیو جس میں ریڈیو ڈرامے بھی کبھی کبھار سن لیا کرتے تھے۔ ٹی وی پر عینک والا جن تھا یا الف لیلیٰ کے اڑتے قالینوں کی داستانیں جنہیں ڈرامے کی شکل میں دکھایا جاتا۔ فلموں کے لیۓ بس وی سی آر  ہی تھا۔ تہوار جن میں عیدین، محرم، ربیع الاول وغیرہ تھے جو کہ اب بھی ہیں مگر شاید اس طرح مناۓ نہیں جاتے جیسے کبھی مناۓ جاتے تھے۔  بڑے  بزرگوں کے عرسوں پر میلے لگتے تھے جنہیں ہم سب بچے بڑے شوق سے دیکھنے جاتے۔ بسنت کے تہوار پر تو سارا دن اور ساری رات چھتیں قہقہوں، سیٹیوں اور بو کاٹا کے نعروں سے بھری رہتیں اور آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے۔ یہ کچھ تھا اور کل ملا کر یہی کچھ تھا۔



سائرہ کا گھر میرے گھر کے ساتھ ہی تھا۔ ایسا نہیں کہ اس کا گھر میرے بچپن سے ہی یہاں تھا بلکہ وہ تو ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا ہمارے محلے میں آکر آباد ہوۓ تھے۔ میری سائرہ سے باقاعدہ ملاقات چند برس پہلے ہی ہوںئ تھی جب مجھے وہاں ملازمت ملی جہاں وہ پہلے سے نوکری کر رہی تھی۔ 


میں نے کھڑے کھڑے چاۓ ختم کی اور کپ منڈیر کی دیوار پر رکھ کر پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور کتاب پڑنے میں مگن ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اس کا واٹس ایپ پر پیغام آیا، " کیا کر رہے ہو؟"


"چھت پر بیٹھا ہوں"۔



"او کے۔" اس نے کہا اور غائب ہو گئ۔ چند منٹ بعد وہ چھت پر تھی۔ آنکھیں شاید رات کو دیر سے سونے اور نیند پوری نہ ہونے کے باعث سوجھی ہوںئیں تھیں۔ سیاہ رنگ کی شلوار قمیض پہنے تھی اور اوپر معرون رنگ کا سویٹر تھا، گلے میں دوپٹہ تھا جس کا رنگ بھی شاید معرون یا سرخ تھا۔ بال پیچھے کو بندھے ہوۓ تھے، پاؤں میں چپل تھی۔ اس نے آتے ہی پوچھا، "کیا پڑھ رہے ہو؟" میں نے کتاب کے نام والا حصہ اس کے سامنے کر دیا۔ " اچھا یہ ناول جس میں لڑکا لڑکی کہانی کے آخر میں بچھڑ جاتے ہیں۔" میں نے کتاب پرے پھینکتے ہوۓ کہا،"اب پڑھنے کا فائدہ تم نے اختتام پہلے ہی بتا دیا۔"


"اچھا ہے نہ پڑھو، بورنگ ہے، ویسے بھی مجھے ہیرو ہیروئین کے آخر میں بچھڑ جانے والی کہانیاں اور ناخوشگوار اختتام اچھا نہیں لگتا۔ مجھے تو ہیپی اینڈنگ (happy ending) پسند ہیں۔"


میں مسکرایا، "ہوں"۔ 


وہ پھر بولی، "اچھا ایک بات تو بتاؤ۔۔۔ یہ اردو شاعری میں ہر وقت ہجر کی، فراق کی،  دکھ، درد ، غم و اندوہ اور آنسوؤں ہی کی باتیں کیوں ملتی ہیں؟"


"شاید اس لیۓ کہ جس سماج سے اس زبان کا تعلق ہے وہاں یہی سب کچھ ہے۔" میں کرسی سے اٹھ کر اس کے ساتھ والی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا "یہاں وصل کی خوشیاں کم ہی کسی کو نصیب ہوتی ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ اس کے علاوہ بھی اس سماج میں بہت سے مسائل ہیں جس کی وجہ سے ہماری شاعری یا ادب میں یہ سب کچھ نظر آتا ہے۔ ہمارا معاشرہ کوںئ خوشحال یا خوشگوار معاشرہ تو ہے نہیں کہ شاعر مسرتوں کے گیت گاتا پھرے ، وہ تو جو کچھ محسوس کرتا ہے یا دیکھتا ہے وہی کہہ دیتا ہے"۔۔۔ میں چند لمحے رکا پھر بولا، "لیکن ایسی بھی بات نہیں خوشگوار باتیں بھی کم ہی سہی مگر مل ہی جاتی ہیں۔"


"ہاں یہ تو ہے۔۔۔" اس نے موضوع بدلا، "اچھا تم نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ میرا پنڈی کا ٹوور کیسا رہا۔" 


"تم نے موقع ہی کب دیا پوچھنے کا۔"


"تو اب پوچھ لو۔"


"اب کیا فائدہ، رہنے دو۔" میں نے شرارت سے کہا۔  "ویسے کل تم نے فون پہ کافی کچھ بتا تو دیا تھا۔"


"ہاں بتا تو دیا تھا۔ لیکن تمہیں ایک بات نہیں بتاںئ، اتنی سخت سردی تھی کہ میں روز دو سویٹر ، دو دستانے اور یہاں تک کہ دو موزے بھی پہنتی تھی۔۔۔ خیر دو موزے تو میں ہر دفعہ ہی پہنتی ہوں۔"


"دو دو موزے۔۔۔؟" میں ہنسا۔


"ہاں تو اور کیا۔۔۔مجھے بڑی سردی لگتی ہے۔"


"سردی تو مجھے بھی بڑی لگتی ہے لیکن دو دو موزے۔۔۔؟ ایسا تو مجھ سے کبھی نہیں ہوا۔"



"لیکن مجھ سے ہو جاتا۔" 


میں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ وہ بھی مسکرا دی۔ نیچے سے کسی نے اسے آواز دی۔۔۔"آںئ" اور وہ بھاگ گئ۔ 


اگلے دن میں دفتر پہنچا تو وہ پہلے سے آچکی تھی، اپنے ڈیسک پر نہیں تھی مگر اس کا بیگ پڑا تھا۔ شاید سر ہشام کے دفتر میں تھی۔ سر ہشام اس ادارے کے مالک تھے اور شاید انہوں نے ہی اسے کسی کام سے بلایا تھا۔ ابھی ان کے آنے کا وقت نہیں ہوا تھا مگر کبھی کبھار وہ جلدی آجایا کرتے تھے خاص کر پیر والے دن اور آج پیر ہی کا دن تھا۔ میں اپنے ڈیسک پر جا کر بیٹھ گیا, میرا ڈیسک اس کے ڈیسک کے پاس ہی تھا۔ دفتر میں تقریباً سبھی لوگ آچکے تھے اور چند ایک تو وزیٹرز بھی موجود تھے۔ میں نے اپنے سامنے رکھے کمپیوٹر کو آن کیا اور دراز سے فائل نکال کر دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد امجد نے پیچھے سے مجھے ہلکی سی چپت لگاںئ،


"آج پھر دیر سے آۓ ہو نا، بیٹا ہشام سر آج صبح کے آکر بیٹھے ہوںۓ ہیں۔"


امجد میرا دوست اور کولیگ ہے بہت اچھا لڑکا ہے اور دفتر میں ہم سب سے قابل بھی ہے ، دفتر کا کوںئ بھی مسئلہ ہو منٹوں میں حل کر دیتا ہے۔ مجھ سے سینیئر ہے اور عمر میں بھی مجھ سے کچھ سال بڑا ہے، کچھ ہی عرصہ پہلے اس کی شادی ہوںئ مگر بیوی سال بعد ہی کسی بیماری سے گزر گئ۔ اب دوبارہ شادی کا ارادہ کیۓ ہوۓ ہے اور لڑکی کی تلاش میں ہے۔ 


"اچھا کچھ پوچھا تو نہیں انہوں نے میرے بارے میں؟" میں نے بے چینی سے پوچھا۔


"نہیں پوچھا تو نہیں چپ چاپ آۓ اور سیدھا اپنے کیبن کی طرف نکل گۓ۔"


"پھر تو ٹھیک ہے۔" میں نے پرسکون انداز میں کہا۔  "انہیں یقیناً پتا نہیں چلا ہو گا۔"


"پتہ تو نہیں چلا ہو گا مگر تم جلدی آتے کیوں نہیں، روزانہ دیر سے آؤ گے تو ان تک کسی نہ کسی طرح خبر تو پہنچ ہی جاۓ گی۔ اور تم شاید نہیں جانتے ان کے بھی بڑے مخبر ہیں اس دفتر میں۔"


"جانتا ہوں یار مگر کیا کروں ایک تو گھر کے کچھ کام مجھے خود کرنے پڑتے ہیں کیونکہ امی کی طبعیت ٹھیک نہیں رہتی ، جب سے بڑی بہن کی شادی ہوںئ ہے سارا بوجھ امی پر آگیا ہے۔ اور اوپر سے میرا یہ ڈھیٹ موٹر سائیکل عین وقت پر بے وفاںئ کر جاتا ہے۔"


" تو تم سے کہا تو ہے اسے اب بیچ دو اور قسطوں پہ نیا موٹر سائکل لے لو، میرا ایک دوست ہے جو یہ کام کرتا ہے اس سے کہہ کر تمہیں قسطوں میں کچھ رعایت بھی کروا دوں گا۔"


"چلو یار دیکھیں گے ابھی تو چل رہا ہے چلنے دو، جس دن بلکل چلنا بند ہو گیا اس دن نیا لینے کے بارے میں سوچیں گے۔"


"چل صحیح ہے،  پھر ملتے ہیں مجھے تھوڑا کام ہے۔" یہ کہہ کر امجد اپنے ڈیسک پر چلا گیا۔


میں نے گود میں رکھی فائل کو کھولا اور کمپیوٹر پر کام کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد سائرہ سر ہشام کے کیبن سے نکل کر آتی دکھاںئ دی. اس نے آتے ہی اپنے ڈیسک پر زور سے فائل ماری جو اس نے ہاتھ میں پکڑی تھی۔


"مجھ سے نہیں ہوتا یہ سب۔" اس نے غصے سے کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔


"کیا ہوا"؟ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کچھ ہوا ہو گا کیوں کہ یہ تقریباً روز کا تھا، سر ہشام کے دفتر سے جو بھی نکلتا تھا یوں ہی نکلتا تھا شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کوںئ ان کے کیبن سے خوش خوش باہر نکلا ہو۔ اس نے مجھے فائل کھول کر دکھاتے ہوۓ کہا، " یہ دیکھو یہ سب میں نے کل تین گھنٹے لگا کر تیار کیا اور اب کہہ رہے ہیں اسے بدل دو، یہ نہیں چاہیۓ۔ اب یہ کوںئ تک ہوںئ بھلا، بندہ اتنی محنت بھی کرے اور پھر یہ سب۔۔۔اب پھر سے دو تین گھنٹے لگا کر نیا تیار کرنا پڑے گا سارا پروجیکٹ۔" 


"تم نے انہیں سمجھانے کی کوشش نہیں کی؟"


میں جانتا تھا یہ پوچھنے کا کوںئ فائدہ نہیں سر ہشام  کو جتنا مرضی سمجھا لیا جاۓ لیکن اگر انہوں نے کوںئ بات کہہ دی ہے تو وہ اب اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، یہ اب کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن میں نے محض سائرہ کا دل رکھنے اور اس کا ذہن بٹانے کے لیۓ یہ بات پوچھ لی۔


 "انہوں نے پہلے کوںئ مانی ہے جو یہ مانیں گے۔" اس نے چلاتے ہوۓ کہا پھر اردگرد کا خیال آیا تو خود کو روک لیا اور آہستہ آواز میں بولی، "جب آدمی پہلے سے ہی طے کر چکا ہو کہ اس نے نہیں سمجھنا تو اسے بھلا کون سمجھا سکتا ہے، کسی کو سمجھایا یا قائل تو اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب وہ سمجھنا چاہے، جب وہ کسی کی دلیل ہی نہ سنیں تو کوںئ کیا کرے پھر۔"


سائرہ نے کافی دیر تک غصے اور ناراضی سے کسی کام کو ہاتھ نہ لگایا مگر پھر جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو مجبورا ہی صحیح مگر چپ چاپ فائل اٹھا کر کام کرنے لگی۔ مجھے بھی کافی کام تھا اس لیۓ میں بھی کام میں لگ گیا۔ کھانے کے وقفے تک ہم دونوں مصروف رہے ، بس ایک دو دفعہ پانی پینے یا واش روم کے لیۓ اٹھے۔ وقفے کے دوران وہ دفتر کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ گئ اور میں امجد کے ساتھ باہر آگیا۔ ہم دونوں نے اکٹھے ہی کھانا کھایا اور سگریٹ پینے باہر بالکنی میں آگۓ، دفتر کے اندر سگریٹ پینے کی ممانعت تھی اور ہمارا دفتر بھی تیسری منزل پر تھا اس لیۓ جب کبھی کام کے دوران سگریٹ کی طلب محسوس ہوتی تو نیچے جانے کی بجاۓ اسی بالکنی یا گیلری میں کھڑے ہو کر سگریٹ پی لیا کرتے۔ میں سگریٹ ہاتھ میں لیۓ، ریلنگ پر کہنیاں ٹکاۓ، نیچے دھوپ میں بیٹھے چوکیداروں اور سڑک پر دوڑتی بھاگتی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔ امجد بھی ساتھ ہی دیوار سے ٹیک لگاۓ چپ چاپ سگریٹ پینے میں مشغول رہا۔ کچھ دیر بعد وہ بولا، " یہ آج سائرہ کو کیا ہوا موڈ خراب لگ رہا تھا اس کا؟" 


"ہونا کیا ہے وہی ہمیشہ کی طرح سر ہشام۔۔۔"


"ہوں"۔


"ویسے یار واقعی سمجھ نہیں آتی یہ سر ہشام چیز کیا ہیں انہیں لگتا ہے جو بات انہوں نے کہہ دی وہی درست ہے، انہیں آخر کوںئ بھی بات سمجھانا اتنا مشکل کیوں ہے؟"


میں مڑ کر ریلنگ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا، "میرے بھاںئ ہر صاحبِ اختیار آدمی کو سمجھانا بڑا مشکل ہے، چاہے وہ کہیں سے بھی ہو، اسے لگتا ہے کہ یہ اختیار یا اقتدار جو اس نے حاصل کیا ہے اپنی محنت، ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے لہذا باقی لوگ اس لیۓ پیچھے رہ گۓ ہیں اور اس کے نیچے کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہیں، ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہے، بلکہ وہ تو جاہل ہیں جو اپنا اچھا برا بھی نہیں سمجھتے، اس لیۓ جس بات کو وہ درست مانتے ہیں وہی صحیح ہے، وہی حرفِ آخر ہے۔ یہ صاحبِ اختیار لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں پھر چاہے وہ کسی ادارے کے ہوں یا کسی سلطنت کے."


میں دوبارہ مڑا اور ریلنگ پر کہنیاں ٹکا کر سڑک کے دوسرے کنارے سگریٹ پان والے کھوکھے پر پانوں والے کو پھرتی اور مہارت سے پان بناتے دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ امجد بھی ایک ٹانگ ریلنگ میں پھنساۓ، منہ میں سگریٹ دباۓ نجانے کن سوچوں میں گم تھا۔ پھر اسی نے سوال کیا، " اچھا تم نے سائرہ سے شادی کے متعلق بات کی؟" 


"ہاں کی تھی کچھ دن پہلے۔" میں نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لگاتے ہوۓ کہا۔


"تو پھر کیا بولا اس نے؟"


"اس نے کہا میں موقع دیکھ کر گھر بات کروں گی پھر تم اپنے گھر والوں کو بھیجنا۔ اب دیکھو کب تک وہ بات کرتی ہے۔"


"ہوں، … صحیح ہے۔" وہ بولا۔


اس کے بعد پورا دن دفتر میں مصروفیت کی وجہ سے میری سائرہ سے بہت کم بات ہوںئ۔ چھٹی کے وقت وہ نکل رہی تھی تو میں نے اسے روک لیا۔ "یاد ہے نا آج گھر میں بات کرنی ہے۔" 


"ہاں بابا یاد ہے میں شام کو تمہیں فون کر کے بتاؤں گی۔" اس نے کہا اور باہر نکل گئ۔ میں دروازے میں ہی کھڑے ہو کر امجد کا انتظار کرنے لگا جو ابھی اندر ہی تھا۔ کچھ دیر بعد وہ آگیا اور ہم باہر نکل آۓ۔ باہر سورج غروب ہو چکا مگر ابھی اندھیرا نہیں ہوا تھا، سردی کافی تھی، دانت تو نہیں بج رہے تھے مگر میں جان بوجھ کر دانت بجنے کی آوازیں نکالنے لگا۔ میں نے ہاتھ میں پکڑی جیکٹ پہن لی۔ امجد بھی اتنی دیر تک دستانے اور ہیلمٹ وغیرہ پہن چکا تھا۔ میں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرنے لگا، مجھے معلوم تھا یہ سٹارٹ ہونے میں کافی وقت لگاۓ گا۔ اتنے میں چوکیدار جو پاس ہی اپنے چھوٹے سے ہجرا نما کمرے میں بیٹھا تھا بولا، "او جناب ہن ایدے تے رحم کھاؤ تے اینوں کسے غریب مسکین نوں دے دیو۔" (جناب اس پر ترس کھاؤ اور اسے کسی غریب مسکین کو دے دو۔)


"او نئ شاہ جی اینوں نئ ویچنا اے میرے والد صاب دی نشانی اے او ایدے تے کالج جاندے سن۔" (نہیں شاہ جی اسے میں نے نہیں بیچنا یہ میرے والد صاحب کی نشانی ہے وہ اس پر کالج جایا کرتے تھے۔) میں نے مزاق سے کہا۔


امجد نے یہ بات سنی تو ہنسنے لگا اور بولا، "شاہ جی ایدے والد صاب وی اے ای کیندے سن کہ میرے والد صاب ایدے تے کالج جاندے سن۔" ( شاہ جی اس کے والد صاحب بھی یہی کہتے تھے کہ میرے والد صاحب اس پر کالج جاتے تھے۔)


ہم ہنستے ہنستے اپنے اپنے گھر کی طرف چل دیۓ۔ 


رات کو سائرہ نے مجھے فون کر کے بتایا کہ اس نے سرسری سی اپنی امی سے اشاروں کنایوں میں بات تو کی ہے مگر امی کی باتوں سے اسے کچھ اندازہ ہوا ہے کہ اس کے گھر والے اس کی شادی کے متعلق پہلے ہی کوںئ فیصلہ کر چکے ہیں۔ اسے پوری طرح تو معلوم نہیں ہوا کہ حقیقت کیا ہے مگر اسے شک ضرور ہو گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اب ان حالات میں تم جتنی جلدی ہو سکے اپنی امی کو میرے گھر بھیج دو۔ یہ سن کر ہمیں پریشانی تو ہوںئ بہرحال دو تین دن ایسے ہی گزر گۓ۔ اسے مزید کوںئ بات اپنے گھر والوں سے پتہ نہ چلی اور نہ ہی اس نے کوںئ اس قسم بات ان سے چھیڑی۔ آخر کار کچھ دن بعد میں نے اپنی امی کو ان کے گھر بھیج ہی دیا۔ 


انہیں گۓ ہوۓ کافی وقت ہو گیا تھا اور میری بے چینی بڑتی جا رہی تھی۔ میں نے سائرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اس کا بھی کوںئ جواب نہیں آرہا تھا۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا اس لیۓ صبح دفتر پہن کر جانے کے لئے اپنے کپڑے استری کرنے لگ پڑا، بالآخر امی آہی گئیں، میں نے ان کے چہرے کے تاثرات سے کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کی مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔ تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر میں نے ہی پوچھا، "کیا بولا انہوں نے؟"


امی چند لمحے چپ رہیں پھر بولیں، " میں باتوں میں بات گھمانے کی بجاۓ سیدھا مدعا پر آتی ہوں۔.. انہوں نے انکار کر دیا ہے۔"


مجھے لگا کہیں زور دار بادل کڑکے ہیں اور بجلی گری ہے۔ "لیکن کیوں؟" میں نے بمشکل پوچھا۔



"وہ اس کا رشتہ پہلے ہی کہیں طے کر چکے ہیں، یہ رشتہ اس کے ابو نے پسند کیا ہے اور ان کا فیصلہ اٹل ہے۔"


"مگر انہوں نے تو سائرہ سے پوچھا بھی نہیں۔"


"سائرہ سے پوچھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان میں بڑے ہی بچوں کی شادیوں کے اور دیگر بہت سے فیصلے کرتے ہیں اور یہ کہ سائرہ کا فیصلہ بھی انہوں نے بہت پہلے ہی کر دیا تھا بس ابھی تک کسی کو بتایا نہیں تھا۔"


"مگر وہ اپنا فیصلہ بدل بھی تو سکتے ہیں۔" 



"نہیں بد لیں گے وہ، اس کی امی نے خود مجھے تنہاںئ میں لے جا کر کہا ہے کہ اس کے ابو نے ایک دفعہ جو فیصلہ کر دیا ہے اب وہی ہو گا، وہ کسی صورت نہیں بدلیں گے۔"


امی یہ کہہ کر چلی گئیں اور میں وہیں سوچتا رہ گیا۔ میں نے سائرہ سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر اس کا نمبر بند جا رہا تھا، اگلے دن وہ دفتر بھی نہیں آںئ، شام کو گھر آیا تو کافی دیر کے بعد اس سے رابطہ ہوا۔ اس نے کہا کہ اس نے بہت کوشش کی ہے مگر گھر والے نہیں مانے بلکہ وہ تو صبح میری منگنی کرنے جارہے ہیں اور یہ کہ کچھ دن تک وہ نوکری سے بھی استعفیٰ دینے والی ہے۔ پھر کئ دنوں تک اس سے میری بات نہ ہوںئ اور نہ ہی وہ دفتر آںئ شاید اس نے چھٹیاں لے لیں تھیں۔


کافی دنوں بعد وہ آخری دفعہ دفتر آںئ۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور سوجھی ہوںئ تھیں اور چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے کوںئ بات نہ کی، مجھے بھی اسے بلانے کی ہمت نہ ہوںئ۔ جب وہ دفتر سے باہر نکل گئ تو میں جلدی سے بھاگا اور بالکنی میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ میں اسے اوپر سے جاتا دیکھ رہا تھا، سڑک پر موڑ مڑنے سے پہلے اس نے پیچھے مڑ کر اوپر دیکھا، ہماری آخری دفعہ نظریں ٹکرائیں، اس نے نظروں ہی نظروں میں کچھ کہنے کی کوشش کی اور پھر بنا کچھ کہے چلی گئ۔ اس کے بعد میری نہ کبھی اس سے ملاقات ہوںئ اور نہ ہی میں نے اسے کبھی دیکھا، اور نہ کبھی فون پر رابطہ ہوا۔ اس بات کو ہفتوں گزرے، پھر مہنیوں گزرے اور پھر برسوں گزر گۓ۔


ایک دن میں اپنے معمول کے مطابق کتاب لیۓ اپنے چھت پر بیٹھا تھا مگر کتاب پڑھ نہیں رہا تھا یونہی بلامقصد آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھے جا رہا تھا کہ میرا گود میں رکھا موبائل بیپ بیپ کی آواز سے گونجا، میں نے موبائل اٹھایا تو واٹس ایپ پر پیغام تھا۔ دیکھا تو حیران رہ گیا، برسوں بعد سائرہ کا میسج آیا تھا۔ لکھا تھا،


"میں بھی اب المیہ کہانیاں( Tragedies ) شوق سے پڑھتی ہوں، ہیپی اینڈنگ اب مجھے پسند نہیں رہیں اور ہجر و فراق کی شاعری سے تو مجھے عشق ہو گیا ہے۔" 


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات