سرد، سنسان، سیاہ رات تھی، موسلادار بارش ہورہی تھی، جھکڑ چل رہے تھے اور تیز آندھی ایسی ہوا سے بارش کبھی یوں اور کبھی یوں ڈھلوتی جاتی تھی جیسے کوںئ رقاصہ تیز موسیقی کی دھن پر تھرک رہی ہو۔ وہ ہاتھ میں پکڑی فائل کو چھتری کے جیسے سر پر رکھے تیزی سے بھاگتے ہوۓ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے نیچے جا کھڑا ہوا۔ وہ پوری طرح سے بھیگ چکا تھا، اس لیۓ اسے ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی۔ سانس بحال کرنے کے بعد اس نے اردگرد کوںئ مناسب کونا تلاش کرنے کی کوشش کی تا کہ سامنے سے آنے والی تیز ٹھنڈی ہوا سے کسی حد تک خود کو محفوظ کر سکے۔ برآمدے میں زیادہ رش نہیں تھا، ایک طرف ستون کے ساتھ لوہے کے بینچ پر ایک عورت اور ایک مرد اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھے تھے، چھوٹا بچہ عورت کی گود سے بار بار نکلنے کی کوشش کرتا مگر عورت مظبوطی سے اسے اپنے بازوؤں میں جکڑے اس کے ارادوں کو ناکام بنانے میں لگی تھی۔ بڑا بچہ جو اس سے تھوڑا بڑا تھا بنچ کے ایک طرف سے بھاگتا ہوا جاتا اور ستون کے اوپر سے پورا چکر لگا کر وہیں آکر رک جاتا۔ جبکہ مرد موبائل فون پر کوںئ ویڈیو دیکھنے میں مگن تھا جس کی ہلکی سی آواز اس تک پہنچ رہی تھی۔ دوسری طرف ایک آدمی بنچ پر چت لیٹا سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو چادر سے ڈھانپے سو رہا تھا۔ اس کے پاس ایک کونے میں ایک اور بنچ خالی تھا، وہ وہاں پہنچا، فائل بنچ پر رکھی اور جوتے اتار کر کپڑے جھاڑتا ہوا پاؤں اوپر کر کے بیٹھ گیا۔ یہاں وہ ہوا سے کسی حد تک محفوظ ہو گیا مگر بھیگے ہونے کے باعث اسے اب بھی کافی سردی محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ دیر تک وہ یونہی بیٹھا ہاتھوں اور بازوؤں کو آپس میں رگڑ رگڑ کر گرم رکھنے کی ناکام کوشش کرتا رہا پھر تنگ آکر چھوڑ دیا۔ اس نے اپنے سامنے دوسرے بینچ پر منہ سر چادر سے ڈھانپ کر سوۓ ہوۓ شخص کو دیکھا۔ پھر اردگرد نظر دوڑاںئ، پورا برآمدہ نیم تاریکی میں ڈوبا تھا، سامنے رات کی سیاہی پھیلی تھی۔ اسے کچھ خوف محسوس ہونے لگا، ریلوے اسٹیشن کی یہ ویران اور نیم تاریک عمارت اسے پراسرار سی لگنے لگی، اسے خوفناک فلموں اور ناولوں میں دی گئ ایسی ہی سچوایشنز کا خیال آیا، اسے لگا کہ ابھی اس کے سامنے سویا ہوا شخص ایک دم دہشت زدہ آواز کے ساتھ اٹھے گا اور اپنا ہیبت ناک چہرہ لیۓ اس کے سامنے آجاۓ گا۔ پھر سارے عالم میں تاریکی چھا جاۓ گی اور کہیں سے بدروحوں کا بھیانک شور سناںئ دینے لگے گا، ایک بدروح یا بھوت جو اس کے سامنے ہوگا اس کے ناک، آنکھوں اور منہ سے خون رسنے لگے لگا۔ اسے ایک دم بدن پر جھرجھری سی محسوس ہوںئ۔ وہ ہنس پڑا، کچھ دیر وہ یونہی مسکراتا رہا پھر پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکالا اور گود میں رکھ لیا، پھر پیچھے والی جیب میں ہاتھ ڈالا اور بٹوہ اور چند کاغذات نکال لیۓ۔ اس نے گیلے کاغذات اپنے ساتھ بنچ پر رکھے اور اس کے اوپر بٹوہ رکھ دیا۔ اس کے بعد اپنا موبائل فون آن کرنے کی کوشش کرنے لگا، موبائل آن ہوا مگر ساتھ ہی بیٹری ختم ہونے کے باعث پھر بند ہو گیا۔ اس نے اسے بھی پرے رکھ دیا اور خود دوسری طرف بچے کو کھیلتا ہوا دیکھنے لگا۔ بچے نے ستون کے گرد ایک چکر مکمل کیا اور واپس اسی جگہ آ کر کھڑا ہو گیا، چند لمحے اسی طرح کھڑا رہنے کے بعد اس نے اپنے چھوٹے بھاںئ کو جو ماں کی گود سے نکلنے کے جتن کر رہا تھا شرارت سے ہلکی سی چپت لگاںئ اور بھاگ کھڑا ہوا، چھوٹے بچے نے ماں سے اختجاج کیا تو ماں نے اسے ڈانٹا: "احمر انسان بنو، کیوں بھاںئ کو تنگ کرتے ہو۔" احمر چکر پورا کرکے پھر وہیں آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس بار وہ اپنے چھوٹے بھاںئ کو منہ سے اس کی نقلیں اتار کر چڑانے لگا۔ چھوٹا بھائی ایک بار پھر ماں سے اختجاج کے انداز میں چلایا تو ماں نے اپنے خاوند کو پکارتے ہوۓ کہا۔
اس کے خاوند نے موبائل سے نظریں ہٹائیں اور گردن ہلاۓ بغیر احمر کو ڈانٹنے کے انداز سے بس اس کا نام پکارا: "احمر" باپ کے منہ سے اپنا نام سن کر اس نے فوراً بھاگنا بند کر دیا اور خاموشی سے ستون کے پاس کھیلنے لگا۔
وہ کچھ دیر تک یہ منظر دیکھتا رہا پھر وہاں سے نظریں ہٹا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ چند لمحوں بعد اس نے پاس پڑی فائل اٹھا لی جسے کچھ دیر پہلے وہ بارش میں بھیگنے سے بچنے کے لیۓ چھتری بناۓ بھاگ رہا تھا۔ فائل کے اوپر والے فولڈر کو کھولنے کے بعد اس نے اندر سے کاغذات نکالے اور دیکھنے لگا۔ روشنی کم ہونے کی وجہ سے اسے ٹھیک طرح سے دکھاںئ نہیں دیا، اس نے سویٹر کے اندر ہاتھ ڈالا اور قمیض کی اوپر والی جیب سے اپنی چھوٹی سی سفید رنگ کی نظر کی عینک نکالی۔ عینک کو آنکھوں پر چڑھانے کے بعد اس نے پھر سے پڑھنے کی کوشش کی مگر ابھی بھی ٹھیک طرح سے دکھاںئ نہیں دے رہا تھا۔ وہ بنچ کے بائیں کونے سے اٹھ کر دائیں کونے پر آکر بیٹھ گیا جہاں سے کچھ فاصلے پر جلتی ٹیوب لائٹ کی روشنی کسی حد تک وہاں پہنچ رہی تھی۔ اب اسے کچھ کچھ صاف دکھاںئ دینے لگا تھا۔ اس نے قلم سے صفحے پر دو تین نشان لگاۓ، اس کا مطلب تھا کہ وہ ان ان جگہوں پر ہو آیا ہے، پھر اس نے ایک مختلف نشان مزید دو تین جگہوں پر لگایا، ان جگہوں پر اس نے صبح جانا تھا۔ وہ پچھلے تین چار ماہ سے بے روزگار تھا اور نوکری کی تلاش میں شہر بھر میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ جہاں سے بھی اسے سن گن لگتی کہ یہاں آدمی کی ضرورت ہے وہ وہاں پہنچ جاتا، آج بھی وہ تین چار جگہوں پر انٹرویو دے کر آیا تھا اور رات کو جب واپس لوٹ رہا تھا تو تیز بارش نے اسے راستے میں آ لیا تھا۔ پاس ہی اسے ریلوے اسٹیشن کی عمارت دکھی تو وہ کچھ دیر پناہ لینے کے لیۓ یہاں آکر بیٹھ گیا۔
لیکن بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، رات کافی ہو چکی تھی اور بارش کے باعث اسے اردگرد کوںئ سواری بھی نہیں مل رہی تھی جس پر بیٹھ کر وہ گھر جا سکے اور سچی بات تو یہ تھی کہ اس کے پاس کرایہ ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں تھے، تھوڑے بہت پیسے جو اس کے پاس تھے وہ کچھ تو آج خرچ ہو گۓ تھے اور کچھ اس نے صبح کے لیۓ رکھ چھوڑے تھے۔ اسے اپنی چھوٹی بہن کا خیال آیا جو گھر میں اکیلی تھی اور اس کے گھر نہ پہنچنے پر وہ کافی پریشان ہو رہی ہوگی۔ اپنے ماں باپ کے ایک کار حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد اس نے ہی خود کو اور اپنی بہن کو اکیلے پالا تھا، مختلف طرح کے کام کر کے اس نے اپنی بہن کو پڑھایا لکھایا اور خود بھی کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لیا۔ مگر پچھلے کچھ عرصے سے وہ مسلسل بے روزگار چلا آرہا تھا اسے کوںئ کام نہیں مل رہا تھا۔ لیکن اب ان دونوں کو ایک تسلی تھی کیونکہ اب اس کی بہن بھی کام کرنے لگی تھی، وہ صبح ایک نجی اسکول میں پڑھاتی تھی اور شام کو گھر آکر بھی بچوں کو ٹیوشنز پڑھاتی جس سے ان کی کسی حد تک گزر بسر ہورہی تھی۔
اس نے فائل ایک طرف رکھی اور بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا، جوتے پہنے اور ان میاں بیوی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔
"جی اسلام علیکم"
دراصل میرا موبائل بند ہو گیا ہے تو آپ۔۔۔" اس نے جھجکتے ہوۓ کہا۔ "وہ۔۔۔ میں۔۔۔ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ مہربانی کر کے مجھے اپنے موبائل سے ایک کال کرنے کی اجازت دیں گے۔۔۔میں یہاں پھنس گیا ہوں اور میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے بس انہیں اطلاع دینی ہے کہ میں خیریت سے ہوں اور بارش رکتے ہی گھر آ جاؤں گا۔
"جی جی نمبر بتایے میں ملاتا ہوں۔"
مرد نے اس سے نمبر پوچھ کر ملایا اور موبائل اسے تھما دیا۔ اس نے موبائل پکڑا، دوسری ہی گھنٹی پر کسی نے اٹھا لیا۔
اس نے فون بند کر کے مرد کو پکڑایا اور شکریہ ادا کر کے اپنے بنچ پر واپس آگیا۔ بارش اسی رفتار سے جاری تھی اور یوں لگتا تھا کہ رکنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ وہ بنچ پر ہی نیم دراز ہو گیا، چند منٹ بعد اس کی آنکھ لگ گئ اور پھر کچھ ہی دیر میں ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا، پلیٹ فارم سے کسی ریل گاڑی کے پہنچنے کا اعلان ہو رہا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے دیوار پر لگی بڑی سی گھڑی پر وقت دیکھا اسے سوۓ ہوۓ ابھی صرف پندرہ منٹ ہی گزرے تھے مگر اسے یوں لگا جیسے کئ گھنٹے سو کر اٹھا ہے۔ وہ میاں بیوی اور بچے جو دوسرے بنچ پر بیٹھے تھے ٹرین کے آنے کا اعلان سن کر اٹھ کھڑے ہوۓ اور اندر پلیٹ فارم میں چلے گۓ۔ اب برآمدے میں صرف وہ اور چادر والا آدمی رہ گۓ تھے۔ وہ آدمی ابھی بھی اردگرد سے بے خبر گہری نیند سویا تھا۔ وہ حیران ہو رہا تھا کہ ایسی جگہ پر اتنی سخت سردی میں کوںئ آدمی کیسے اتنی بے خبری سے سو سکتا ہے۔ "مگر شاید یہ اس کا معمول ہے" اس نے سوچا۔ اس نے پہلے بھی کئ دفعہ بہت سے لوگوں کو فٹ پاتھوں یا پارکوں میں سوتے دیکھا تھا مگر یہ آدمی کچھ زیادہ ہی گہری نیند میں سویا تھا۔
بارش ابھی بھی مسلسل جاری تھی اور اب تو اتنا پانی کھڑا ہو چکا تھا کہ پیدل چلنا بھی ممکن نہ تھا۔ وہ پھر سے بنچ پر نیم دراز ہو گیا اور بارش کے رکنے کا انتظار کرنے لگا مگر یہ انتظار محبوب کے انتظار کی مانند خاصا طویل ہو گیا تھا۔ کئی گھنٹوں تک لگاتار بارش ہوتی رہی۔ بیچ بیچ میں کسی وقت اس کی آنکھ لگ جاتی اور پھر کسی شور یا کسی وجہ سے وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ بیٹھتا۔ آخرکار بارش رک گئ مگر اس وقت صبح ہو چکی تھی۔ چند گھنٹوں بعد اس نے ایک اور جگہ نوکری کے لیۓ جانا تھا جو اسی جگہ کے قریب تھی جس جگہ پہ وہ اب موجود تھا جبکہ گھر اس کا یہاں سے کافی دور تھا۔ گھر جاکر اسے پھر کچھ دیر بعد یہیں دوبارہ واپس آنا پڑتا اس لیۓ اس نے سوچا کہ باقی کا وقت یہیں گزار لے۔ چند لمحے سوچنے کے بعد وہ اٹھا اور اپنی چیزیں جیب میں رکھنے اور فائل ہاتھ میں پکڑنے کے بعد دروازہ عبور کیا اور پلیٹ فارم میں چلا آیا۔ یہاں کسی حد تک رونق تھی۔ ایک ریل گاڑی کھڑی تھی جس میں چند مسافر سوار ہو رہے تھے۔ وہ اس طرف چل دیا جہاں کینٹین تھی، کینٹین میں چند ہی لوگ بیٹھے تھے کچھ چاۓ پی رہے تھے اور کچھ اخبار پڑھ رہے تھے، چند ایک اپنے موبائل اسکرین پر نظریں جماۓ بیٹھے تھے۔ وہ بھی لکڑی کے ایک بنچ پر جا کر بیٹھ گیا اور ایک کپ چاۓ کا آرڈر دینے کے بعد اخبار اٹھا لیا۔ چاۓ پینے اور اخبار کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نے کسی سے وقت پوچھا۔۔۔ ابھی بہت وقت بچا تھا وہ سوچنے لگا کہ باقی کا وقت کیسے گزارے، اس نے کینٹین سے ایک سگریٹ خرید کر سلگایا اور ایک طرف کو چل دیا۔ وہ سگریٹ نوشی کا عادی نہیں تھا بس کبھی کبھار ایسے لمحات میں ایک آدھ پھونک لیا کرتا تھا۔ اس نے پلیٹ فارم کا ایک لمبا چکر کاٹا اور پل عبور کر کے دوسری طرف نکل گیا۔ کافی دیر تک وہ وہاں ٹہلتا رہا اور خالی ڈبوں اور ناکارہ کھڑے انجنوں کا معائنہ کرتا رہا۔ پھر واپس پلٹا اور پل پر چلا آیا۔ یہاں کچھ دیر رک کر وہ نیچے کھڑی ٹرین کو بلا مقصد گھورتا رہا۔ اس کے بعد نیچے اتر آیا۔ چلتا چلتا وہ پلیٹ فارم کے باہر آگیا اور ایک جگہ کھڑا ہو کر چند لمحے سوچنے کے بعد پھر ایک سمت کو چل دیا۔ اس نے بنچ پر ایک نظر ڈالی، چادر والا آدمی اٹھ کر جا چکا تھا۔ وہ فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔ اردگرد دکانیں وغیرہ کھل چکی تھیں اور سڑک پر گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور رکشوں کا شور سناںئ دینے لگا تھا۔ پانی کے باعث سڑک دکھاںئ نہیں دے رہی تھی اور کہیں کہیں سے پانی فٹ پاتھ تک آگیا تھا۔ وہ بہت مشکل اور احتیاط سے کودتا پھاندتا چلا جا رہا تھا، آگے ایک گندا نالا تھا جس کا گدلا اور بدبودار پانی نکل نکل کر سڑک کے پانی میں شامل ہو رہا تھا۔ اس نے اپنا بازو اپنی ناک پر رکھ لیا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ کچھ دور جا کر وہ ایک جانب مڑ گیا جہاں تین چار دکانیں ایک قطار میں تھیں۔ وہ ایک حجام کی دکان میں گھس گیا۔ حجام والے سے کوںئ دو چار باتیں کرنے کے بعد وہ پیچھے دیوار کے ساتھ رکھے ایک لمبے سے صوفے پر بیٹھ گیا جس پر چند آدمی پہلے ہی براجمان تھے اور جو اس وقت دروازے کے اوپر کونے پر دیوار کے ساتھ کسی چیز پر ٹنگا چھوٹا سا ٹی وی دیکھنے میں مگن تھے۔ وہ بھی کچھ دیر تک ٹی وی دیکھتا رہا، پھر اٹھا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر قمیض ٹھیک کرنے لگا۔ پھر بال تر کرنے والا شاور اٹھا کر بالوں کو تر کیا، کنگھی کی اور حجام والے سے کچھ کہہ کر باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد دائیں جانب ایک بڑی سی عمارت میں جا گھسا، سیڑیاں چڑھ کر اوپر پہنچا آگے ایک شیشے کا دروازہ تھا، دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے کاؤنڑ پر ایک لڑکی بیٹھی تھی، وہ لڑکی سے مخاطب ہوا
جی میرا نام راحیل ہے میں انٹرویو کے لیۓ آیا ہوں۔"
لڑکی نے وقت دیکھتے ہوۓ کہا: " آپ تھوڑا جلدی آگۓ ہیں ابھی دفتر کا وقت شروع ہونے میں کچھ دیر ہے۔" وہ سامنے رکھے صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوںۓ بولی: "آپ تشریف رکھیۓ وقت ہونے پر میں آپ کو بلا لوں گی۔
وہ سامنے صوفوں پر جا بیٹھا اور ایسے ہی وقت گزاری کے لیۓ دفتر کا جائزہ لینے لگا۔ دفتر بڑا خوبصورت اور صاف ستھرا تھا، ہر چیز قرینے سے رکھی تھی، دیواریں بھی بڑی خوبصورتی سے سجی تھیں۔ پورے حال میں اس کے اور لڑکی کے سوا اور کوںئ نہیں تھا، اسے احساس ہوا کہ واقعی وہ کافی جلدی آگیا ہے۔ اس نے میز پر رکھے میگزین میں سے ایک میگزین اٹھا کر ورق گردانی شروع کر دی۔ وقفے وقفے سے وہ کبھی نظر اٹھا کر اس لڑکی کی طرف دیکھتا اور کبھی اس کے پیچھے دیوار پر لگی گھڑی پر نگاہ ڈال لیتا۔ قریباً آدھے پونے گھنٹے بعد لڑکی نے اسے آواز دی تو وہ اٹھا اور لڑکی کی ہدایت کی پیروی کرتے ہوںۓ ایک جانب کچھ فاصلے پر ایک کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ اجازت لینے کے بعد وہ ایک کرسی پر جا بیٹھا۔ اس کے سامنے ایک میز تھا جس کے دوسری طرف ایک قدرے فربہ لیکن خوبصورت آدمی، کلین شیو، کوٹ ٹاںئ میں ملبوس بیٹھا تھا۔ آدمی کی عمر پچاس کے اوپر تھی مگر بال سیاہ اور چمکدار تھے اور بڑی خوبصورتی سے بنے تھے۔ کمرے میں پہنچتے ہی اسے نہایت ہی عمدہ خوشبو نے گھیر لیا جو شاید اس آدمی سے آرہی تھی۔ اس نے اپنا سی وی اس آدمی کے سامنے میز پر رکھ دیا اور خود خاموشی سے بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ آدمی نے ایک دو نظر اس کی سی وی پر ڈالی اور بولا
دیکھیۓ مسڑ راحیل تعلیم آپ کی اس کام کے لیۓ کسی حد تک مناسب ہے اور تھوڑا بہت تجربہ بھی ہے جیسا کہ آپ کی سی وی میں درج ہے، مگر۔۔۔" چند سیکنڈ خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولا، " مگر یہ تجربہ دراصل آپ کا دوسرے میدانوں میں ہے، مارکیٹنگ میں آپ کا تجربہ بلکل نہیں ہے جبکہ مارکیٹنگ بڑی ہی مختلف فیلڈ ہے۔
جی سر میں جانتا ہوں" وہ بولا، "لیکن میں جلد ہی سیکھ جاؤں گا اور مجھے اعتماد ہے کہ یہ کام بھی میں کر لوں گا۔
لیکن سر آپ ٹراںئ تو کیجیۓ میں یقین دلاتا ہوں میں تجربہ کار ورکر سے زیادہ بہتر کام کروں گا۔
سر میرا خیال ہے پہلے اس پراڈکٹ کے بارے میں پوری معلومات حاصل کرنی چاہئیں" وہ کچھ دیر ہچکچایا پھر بولا، " یعنی کہ اگر مجھے کسی چیز کو بیچنا ہے تو میں اس چیز کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کروں گا تبھی اس کی مارکیٹنگ کر سکوں گا۔
"ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ پھر۔۔۔؟"
پھر۔۔۔پھر میں گاہک کو وہ سب کچھ بتاؤں گا جو اس پراڈکٹ میں ہو گا"۔
جی سر میرا خیال ہے۔" اس نے جواب دیا، "اگر کسٹمر کو سب سچ سچ بتا دو تو وہ ضرور خریدے گا۔
تمہارا خیال غلط ہے مسٹر، کسی بھی پراڈکٹ کو بیچنے کے لیۓ اس کے بارے میں سب سچ سچ بتانے سے وہ نہیں بکتا بلکہ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر پراڈکٹ میں دو تین کوالیٹیز ہیں تو آپ کسٹمر کو آٹھ دس بتائیں اور اسے اس طرح اس کے سامنے بیان کریں کہ اسے لگے کہ اس سے زیادہ ضروری اس کے لیۓ اور کچھ نہیں اور اگر اس نے یہ نہیں خریدا تو اس کا بہت نقصان ہو جاۓ گا۔ یہی مارکیٹنگ ہے۔
لیکن جناب اگر کسی پراڈکٹ میں اچھی کوالیٹیز ہوں گی تو وہ خود ہی بک جاۓ گا اس کی جھوٹی شان وشوکت بیان کرنے سے کیا حاصل؟" اس نے سوالیہ نظروں سے آدمی کو دیکھتے یوۓ کہا۔
تم مارکیٹنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے"۔ آدمی نے یہ جملہ انگریزی میں ادا کیا۔ "کوںئ بھی پراڈکٹ اپنی کوالٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھی مارکیٹنگ کی وجہ سے بھگتا ہے۔۔۔ اچھا تم ایسا کرو" آدمی اسے سمجھانے کے انداز سے بولا، "کسی چھوٹی سی کمپنی میں کچھ ماہ کے لیۓ انٹرن شپ کر لو تمہیں مارکیٹنگ کی سمجھ آجاۓ گی۔ پھر تم یہاں آنا۔
وہ تو ٹھیک ہے سر میں جانتا ہوں مجھے مارکیٹنگ کی سمجھ بوجھ نہیں ہے یقیناً آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں میں تو صرف اس کے اخلاقی پہلوؤں سے متعلق بات کر رہا تھا، جھوٹ بول کر کوںئ بھی چیز بیچنا کیا درست ہے؟
Post a Comment
Thank you for your comment