Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 





کردار:

سیماب (ایک نوجوان لڑکا) سحرش (نوجوان لڑکی) 

دو لڑکے دو لڑکیاں ( سیماب اور سحرش کے دوست) ایک بچہ (آٹھ دس سال کا)


پہلا منظر:


دن کا وقت ہے، ایک چھوٹے سے گھر کا خوبصورت وسیع صحن جس کے درمیان میں ایک چھوٹا سا درخت ہے یا بڑا سا پودا ہے جس کے نیچے ایک تخت نما تختہ یا میز پڑا ہے جس کے اوپر قالین وغیرہ بچھا ہے۔ اس کے پاس ایک دو کرسیاں پڑی ہیں۔ ایک طرف ہٹ کر دیوار کے ساتھ کیاری ہے جس میں چھوٹے چھوٹے خوبصورت پودے لگے ہیں، جن پر سفید رنگ کے پھول کھلے ہیں، گھر چھوٹا اور سادہ ہے مگر صاف ستھرا اور پیارا ہے۔ ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی باہر والے مرکزی دروازے سے باتیں کرتے ہوۓ اندر داخل ہوتے ہیں۔ لڑکے نے کندھے پر ایک کالج بیگ لٹکا رکھا ہے اور جینز ٹی شرٹ میں ملبوس ہے، لڑکی بھی خواتین کے قمیض پاجامے میں ملبوس ہے اور اس کے کندھے پر بھی لیڈیز بیگ ہے اور ہاتھ میں ایک دو کتاب ہے۔ لڑکے کا نام سیماب ہے اور لڑکی کا نام سحرش ہے۔ 



سحرش: اچھا اچھا ٹھیک ہے اب گھر پہنچ گۓ ہیں بحث ختم کرو۔ (لکڑی کے تختے پر بیگ پھینکتی ہے ) آج تو تم نے مجھے پیدل چلا چلا کر تھکا ہی دیا۔ (خود بھی تختے پر تقریبا گر جاتی ہے۔) اب میں پچھتا رہی ہوں ایسے ہی تمہاری پیشکش قبول کی۔


سیماب: (کرسی پر بیٹھتے ہوۓ) تو میں نہیں تھکا کیا، مجھے تو جیسے چلنے کا شوق تھا، مجھے کیا علم تھا کہ آج ایسا ہو گا۔۔۔ اوپر سے یہ بسوں والوں کی ہڑتال، یہ بھی آج ہی ہونی تھی۔۔۔ایک تو جب مصیبتیں آتی ہیں تو ساری اکٹھی ہی آتی ہیں۔


سحرش: اچھا چھوڑو اب موڈ خراب کرنے سے فائدہ، جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔۔۔ ( اندر کمرے میں جھانکتے ہوۓ) اور یہ آنٹی کہیں نظر نہیں آرہیں، کہیں گئیں ہیں؟


سیماب: اب یہ میں کیسے جان سکتا ہوں کہ کہیں گئ ہیں یا نہیں، میں بھی تو تمہارے ساتھ ہی آیا ہوں۔ (پیچھے مڑ کر اندر جھانکتے ہوۓ) ہاں کہیں دکھاںئ تو نہیں دے رہیں اور اگر ہوتی تو انہوں نے ہماری آوازیں سن کر ابھی تک آجانا تھا، لگتا ہے ہمسایوں کے گھر گئ ہوں گی، ان کی آنٹی طاہرہ سے بڑی دوستی ہے اس لیۓ کبھی کبھار وقت گزارنے کے لیۓ ان کے ہاں چلی جاتی ہیں۔ 


سحرش: یہ آنٹی طاہرہ وہی ہیں نا جن کی بہو کسی سرکاری محمکہ میں بڑی آفیسر ہے؟


سیماب: ہاں وہی ہے۔ لیکن تمہیں کیسے پتہ؟


سحرش: وہ پچھلے دنوں جب میں آںئ تھی تو وہ آنٹی طاہرہ کے ساتھ تمہاری امی سے ملنے آںئ تھی، مجھے تو بڑی اکڑو لگی تھی۔


سیماب: یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟


سحرش: بھئ بندے کی باتوں سے اندازہ ہو ہی جاتا۔


سیماب: تو اندازہ غلط بھی تو ہو سکتا، اس طرح کسی کو جج کرنا بڑی بری عادت ہے اور وہ بھی خاص کر پہلی ملاقات میں اور وہ ملاقات بھی اگر صرف کچھ ہی پل کی ہو۔


سحرش: تمہیں بڑی ہمدردی ہو رہی ہے اس سے، خیریت تو ہے؟


سیماب: نہیں ایسی بات نہیں میں تو صرف ایک اخلاقی براںئ کی طرف توجہ دلا رہا تھا۔


سحرش: یہ توجہ دلانا تمہیں صرف اس کے معاملے میں ہی کیوں یاد آیا؟


سیماب: (اکتاتے ہوۓ) اوہ ہو۔۔۔چھوڑو بھی تم بھی کمال کرتی ہو میں نے تو ایسے ہی بات کی، میں تو اسے جانتا تک نہیں اور دیکھا بھی بس اسے ایک دفعہ ہی ہے۔۔۔ (کرسی سے اٹھتے ہوۓ) چلو آؤ تمہیں وہ پودا دکھاؤں جو ہم نے مل کر لگایا تھا، کافی بڑا ہو گیا ہے، چھوٹی چھوٹی کلیاں بھی اگ آںئ ہیں۔


سحرش: (اٹھتے ہوۓ) چلو! (خوش ہو کر) میں ضرور دیکھوں گی۔


(کیاری میں دو تین بڑے پودوں کے بیچ ایک چھوٹا سا پودا ہے جس پر چھوٹی چھوٹی سفید رنگ کی کلیاں لگی ہیں۔ )


سحرش: (نیچے بیٹھ کر پودے پر جھکتے ہوۓ) واہ، کتنے پیارے ہیں۔ (پودے کو چھوتی ہے، اسے سہلاتی ہے) اتنی جلدی اتنا بڑا ہو گیا ہے ابھی چند دن ہی تو ہوۓ ہم نے اس کو لگایا تھا۔


سیماب: ہاں میرا ماننا ہے جب پیار اور محبت سے کوںئ بھی پودا لگایا جاتا ہے تو وہ بہت جلد اگتا ہے اور اس پر پھول بھی جلدی لگتے ہیں۔۔۔ سحر۔۔۔


سحرش: (اس کی طرف دیکھے بغیر) ہوں۔۔۔



سیماب: (ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈالتا ہے اور لمبی آہ بھرتا ہے، فضا میں کہیں گھورتے ہوۓ) میں چاہتا ہوں ایسے پودے ہر جگہ لگیں جن پر سفید ننھی ننھی کلیاں اگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کلیاں توانا پھول بن جائیں پھر یہ سفید پھول سارے عالم میں پھیل جائیں، میں ان سفید پھولوں والے پودوں کو ساری زمین، ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتا ہوں۔ 


سحرش: ہاں۔۔۔ (بات سنتی ہے مگر دھیان بدستور پھولوں کی طرف ہے) 


سیماب: (بات جاری رکھتے ہوۓ) میرا دل کرتا ہے سحر، جہاں کہیں بھی سرخ خونی رنگ والے پھول دیکھوں انہیں پودوں سمیت اکھاڑ پھینکوں، اور ان کی جگہ پہ سفید پھولوں والے پودے لگاؤں۔ نرم و نازک سفید پھول ، جن پر تتلیاں بغیر کسی خوف و دہشت کے جھومتی رہیں اور بلبلیں گنگناتی پھریں۔ ہر جگہ بس سفید پھولوں کا راج ہو۔


سحرش: (اٹھتے ہوۓ) اچھا وہ سب تو ٹھیک ہے اب خوابوں کی دنیا سے باہر آجاؤ اور یہ بتاؤ اس دفعہ یونیورسٹی کے سالانہ فنکشن میں کون سا پلے(play) تیار کرنا ہے، سر الیاس مجھے دو تین دنوں سے لگاتار کہہ رہے ہیں کہ باقی سب لوگوں سے مشورہ کر کے جلدی کچھ ڈیسائڈ (decide)کرو اور تیاری شروع کردو۔ 


سیماب: (واپس اپنی جگہ کی طرف چل پڑتا ہے) ایک تو سر الیاس کو بڑی جلدی ہوتی ہے ہر کام کی، ہو جاۓ گا ابھی تو کافی وقت ہے۔



سحرش: وقت کہاں ہے سیمی، صرف دو ماہ رہ گۓ ہیں اور ابھی تک کچھ پتہ نہیں کیا تیار کرنا ہے۔ 


سیماب: (اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ لاپرواہی سے)  اچھا بھئ دیکھیں گے ایک تو جب سے تم ڈرامہ کمیٹی میں اسٹوڈنٹس کی ہیڈ بنی ہو ہماری جان عذاب ہوگئ ہے۔۔۔ اور ویسے بھی یہ تم اپنے چہیتے سر الیاس سے ہی کیوں مشورہ نہیں مانگ لیتی۔۔۔


سحرش: انہوں نے ایک سجیسٹ (suggest) تو کیا ہے پر تم لوگوں کو وہ بلکل پسند نہیں آنا اس لیۓ میں نے تمہیں بتایا ہی نہیں۔ 


سیماب: اچھا تو کیا سجیسٹ کیا ہے انہوں نے؟


سحرش: (تحتے پر بیٹھتے ہوۓ) وہی شیکسپیئر کا ونٹر ٹیل ( winter's tale)۔


سیماب: ہاں میں جانتا تھا ان کے پاس اور کچھ نیا  نہیں ہو گا ہر دفعہ شیکسپیئر کا کوںئ پلے اٹھاؤ اس کو مختصر کرو اور اس کا ستیاناس کر کے فنکشن پہ پیش کر دو،  اللّٰه‎ اللّٰه‎ خیر سلا۔ 


سحرش: اوفو! ا انہوں نے تو صرف مشورہ دیا ہے ہم مل کر خود کچھ سوچ لیں گے۔  


(فون کی گھنٹی بجتی ہے، سیماب جیب سے فون نکالتا ہے)


سیماب: ہیلو۔۔۔جی امی۔۔۔کدھر رہ گئ ہیں آپ؟۔۔۔جی۔۔۔ہاں جی۔۔۔ موبائل تو آن تھا شاید سگنل کا کوںئ مسئلہ نہ ہو۔۔۔تو پھر دروازہ کیوں کھلا چھوڑ گئیں تھیں، میں سمجھا ساتھ والوں کے گھر ہوں  گی ۔۔۔اچھا چلیں ٹھیک ہے پھر۔۔۔صحیح ہے۔۔۔ہاں میں کر لوں گا۔۔۔ ٹھیک ہے اللّٰه‎ حافظ۔ 


(فون بند کرکے دوبارہ جیب میں ڈال لیتا ہے)


سحرش: کیا کہہ رہی تھیں آنٹی؟


سیماب: کچھ نہیں وہ کسی فوتگی پہ گئ ہیں کہہ رہی تھیں دیر سے آؤں گی۔۔۔ اچھا اب تم ایسا کرو کچن میں جاؤ اور چاۓ وغیرہ بناؤ اور مجھے بھی پلاؤ۔



سحرش: میں ایسے ہی بناؤں میں تو مہمان ہوں۔ 



سیماب: تم کس بات کی مہمان ہو بچپن سے لے کر اب تک اتنا تو میں اپنے گھر نہیں رہا جتنا تم میرے گھر رہی ہو۔ پہلے تو تم صرف میری کزن تھی اب تو تم میری کلاس فیلو بھی ہو گئ ہو۔۔۔


سحرش: ہاں وہ تو ہے۔


سیماب: پتہ نہیں کون سی منحوس گھڑی تھی، میری امی کو نجانے کیا سوجھی جو تمہاری امی کو مشورہ دے دیا کہ اسے اس یونیورسٹی میں داخلہ دلوائیں۔ اب جب سے تم آںئ ہو میری جان عزاب بنا دی ہے۔


سحرش: (ہنستے ہوۓ) ہاں ویسے آنٹی نے تمہیں اور مجھے دونوں کو اسی یونیورسٹی میں ایڈمشن لینے کے لیۓ کیوں فورس کیا۔


سیماب: اس لیۓ کہ اسی یونیورسٹی میں وہ خود پڑھتی رہی ہیں اور اس کے بعد کچھ عرصہ یہاں پڑھا بھی چکی ہیں۔ لہذا چونکہ ان کو یہاں بہت سے اساتذہ اور دوسرے اسٹاف ممبرز جاتنے ہیں اس لیۓ ان کا خیال تھا کہ ہمیں یہاں کوںئ مشکل پیش نہیں آۓ گی۔ مگر اصل بات میں جانتا ہوں یہ نہیں تھی یا صرف یہ نہیں تھی۔ 


 سحرش: تو پھر اصل بات کیا تھی؟


سیماب: اصل میں ان کا خیال تھا کہ ہم یہاں پر ان کی نظر میں رہیں گے یعنی کہ وہ ہماری خرکتوں کی پل پل کی خبر اپنے دوستوں سے لے سکیں گی۔ 



سحرش: ہاں یقیناً یہی وجہ ہوگی۔ تبھی میں کہوں میری امی نے اتنی آسانی سے اس یونیورسٹی کے لیۓ کیسے اجازت دے دی جبکہ ہمارے گھر کے قریب بھی یونیورسٹی ہے۔ ان کو تمہاری امی نے ہی یہ سب لالچ دیا ہو گا تبھی وہ مانی ہیں۔



سیماب: ہاں دیکھا دونوں بہنوں کی سازشیں۔


(دونوں ہنستے ہیں)


سحرش: (اٹھتے ہوۓ) اچھا میں چاۓ بنا کر لاتی ہوں۔ 


(سحرش اندر چلی جاتی ہے اور سیماب موبائل فون پر کچھ دیکھنے میں مصروف ہو جاتاہے۔ چند لمحوں بعد کوںئ چیز آکر صحن میں گرتی ہے، سیماب ایک دم اس طرف دیکھتا ہے جہاں سے آواز آںئ ہے۔ ابھی وہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ کیا چیز تھی تبھی دروازہ بجنے کی آواز آتی ہے۔ وہ اٹھ کر دروازہ کھولنے جاتا ہے۔ دروازہ کھولتا ہے تو ایک آٹھ دس سال کے بچے کو دروازے میں کھڑا پاتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک کھلونا پستول ہے)


بچہ: بھاںئ وہ ہمارا بال گرا ہے، دیں گے پلیز؟


سیماب: (بچے کو گھور سے دیکھتے ہوۓ) آؤ اندر آ کے دیکھ لو کدھر ہے۔ 


(بچہ اندر آتا ہے اور ادھر ادھر دیکھتا ہے ایک جگہ اسے بال نظر آتا ہے وہ بھاگ کر وہاں جاتا ہے اور بال اٹھا کر واپس بھاگتا ہے۔ راستے میں اسے سیماب روک لیتا ہے۔)


سیماب:( اسے پکڑتے ہوۓ تیزی سے) ایک منٹ ایک منٹ، صبر تو کرو۔ پہلے یہ تو بتاؤ تم کرکٹ کھیل رہے ہو یا یہ پستول سے کھیل رہے ہو، لینے تم بال آۓ ہو اور پکڑی تم نے پستول ہوںئ ہے۔۔۔


بچہ: نہیں بھاںئ ہم کرکٹ تو نہیں کھیل رہے بلکہ اس پستول سے ہی کھیل رہے ہیں اور یہ بال نہیں بلکہ یہ تو میں نے گرنیڈ بنایا ہوا ہے۔ یہ میں نے کھلیتے کھیلتے اپنے دوست کی طرف پھینکا تو وہ آپ کے گھر آگرا۔


سیماب: (ہاتھ کے اشارے سے) اچھا ایک منٹ رکو۔


(ساتھ کیاری میں لگے دو سفید پھول توڑ کر اسے دیتا ہے۔ )


سیماب: (اس کے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوۓ) یہ ایک تم رکھ لو اور ایک اپنے اس دوست کو دینا جس کو تم گرنیڈ مار رہے تھے۔ اور کوشش کرکے یہ دونوں کھلونے کہیں دور پھینک دینا۔۔۔جانتے ہو یہ سفید رنگ کس کی علامت ہے؟



بچہ: نہیں۔ 


سیماب: یہ۔۔۔(کچھ بولنے لگتا ہے پھر چپ ہو جاتا ہے اور مسکرانے لگتا ہے) اچھا چلو جاؤ۔ 


(بچہ بھاگ جاتا ہے۔ وہ کچھ دیر یونہی گھٹنوں کے بل بیٹھا رہتا ہے، چند لمحے کسی نکتے پر نظریں جماۓ کچھ دیر سوچنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ اتنے میں سحرش چاۓ کا ٹرے ہاتھ میں پکڑے اندر سے نکلتی ہے۔)


سحرش: (ٹرے نیچے رکھتے ہوۓ) کون تھا باہر؟


سیماب: بچہ تھا اپنا بال لینے آیا تھا۔ 


سحرش: (تختے پر بیٹھ کر چاۓ کا کپ دیتے ہوۓ) یہ لو چاۓ۔


سیماب: کھانے کو کچھ نہیں ملا؟


سحرش: نہیں فرج میں بھی کچھ بنا ہوا نہیں ملا۔


(کپ پکڑتا ہے اتنے میں پھر موبائل کی گھنٹی بجتی ہے، کپ دوبارہ اسے پکڑا دیتا ہے)


سیماب: (فون پر) ہیلو۔۔۔ ہاں گھر ہی ہوں۔۔۔اچھا کون کون؟۔۔۔ٹھیک ہے پھر تو۔۔۔ہاں وہ بھی ادھر ہی ہے۔۔صحیح ہے آجاؤ۔ (فون بند کرکے نیچے رکھ دیتا ہے)


سحرش: کون تھا؟


سیماب: فرحان کا فون تھا سب یہاں آرہے ہیں۔ 


سحرش: اچھا واؤ۔۔۔ویسے خیریت تو ہے؟


سیماب: ہاں خیریت ہی ہے ویسے ہی آرہے ہیں کہہ رہے تھے کہ سالانہ فنکشن کے حوالے سے بھی کچھ بات چیت ہو جاۓ گی۔


سحرش: یہ تو پھر اچھا ہی ہو گیا مل کے کچھ ڈیسائیڈ کر لیں گے۔


سیماب: ہاں


(دونوں کچھ دیر خاموش بیٹھے چاۓ پیتے رہتے ہیں۔ کہیں سے اڑ کر دو چھوٹے سے ننھے ننھے رنگ بھرنگے پیارے سے پرندے آکر سامنے پودے پر بیٹھتے ہیں۔ سیماب انہیں دیکھنے لگتا ہے۔ چند لمحے دیکھتا رہتا پھر باہر کا دروازہ بجتا ہے۔ )


سیماب: (اٹھتے ہوۓ) لگتا ہے آگۓ۔ 


سحرش: اتنی جلدی؟


سیماب: ہاں کہہ رہا تھا نزدیک ہی ہیں پہنچنے ہی والے ہیں۔ 


(سیماب دروازہ کھولتا ہے، دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہنستے قہقہے لگاتے اور باتیں کرتے اندر داخل ہوتے ہیں۔)


پہلا لڑکا:(چلتے ہوۓ) کیوں میں نے کہا نہیں تھا سحرش یہیں ہو گی۔ دیکھا تمہارے بھاںئ کا اندازہ کبھی غلط نہیں ہوتا، اس کا مطلب ہے مجھے نجومیوں کا یا اس قسم کا کوںئ کام دھندہ شروع کر لینا چاہیۓ جو بنا دیکھیں بتا دیتے ہیں کہ کون کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔  


دوسرا لڑکا: (چلتے ہوۓ) ایسے ہی پھینکو نہ تم نے اس سے فون پر پوچھا تھا۔


لڑکی: (سحرش سے مل کر تختے پر بیٹھتے ہوۓ) ہاں اس وقت پٹرول پمپ پر رک کر تم نے جب فون پر اس سے بات کی تھی تو تم گاڑی سے اتر کر میری ونڈو کے پاس ہی کھڑے تھے تم نے میرے سامنے سیماب سے سحرش کا پوچھا تھا۔ 


پہلا لڑکا: (شرارت سے مسکراتے یوۓ) اچھا پوچھا  ہو گا پھر۔


سحرش: (سب کے بیٹھ جانے کے بعد) اچھا کچھ سوچا ہے سالانہ فنکشن پہ ڈرامے کے بارے میں؟


پہلی لڑکی: ابھی تک تو کچھ نہیں سوچا۔ تم ہی کچھ بتاؤ۔


سحرش: میں کیا بتاؤں، سر الیاس نے ایک مشورہ دیا ہے پر سیماب کو پسند نہیں آیا۔ اور مجھے یقین ہے باقی لڑکوں کو بھی ہسند نہیں آۓ گا۔ 



پہلی لڑکی: کیا مشورہ دیا ہے؟


سحرش: شیکسپئر کا ونٹرز ٹیل۔


پہلی لڑکی: اچھا تو ہے۔۔۔


دوسری لڑکی: ہاں اچھا ہے اپنے سلیبس میں بھی ہے۔ 


دوسرا لڑکا: اسی لیۓ تو پسند نہیں آیا کہ سلیبس میں ہے۔ (ہنستا ہے)


پہلالڑکا: (ہنستے ہوۓ) ہاں سلیبس کی چیزیں بھی کبھی کسی کو پسند آںئیں ہیں بھلا۔ وہاں بھی سر کھپا کے یاد کریں اور پھر یہاں بھی یہی کریں۔ نہ بابا نہ ہمیں تو معاف ہی رکھو۔ کیوں سیماب؟ (سیماب کی طرف دیکھتے ہوۓ)


سیماب: (مسکراتے ہوۓ) ہاں ٹھیک بات ہے۔ ویسے میرے ذہن میں ایک پلے آرہا ہے اگر تم لوگ مانو تو۔۔۔


(سبھی ایک ساتھ) ہاں۔۔۔کیا۔۔۔بولو۔۔۔کون سا۔۔۔


سیماب: اس دفعہ اردو ڈرامہ کرتے ہیں امتیاز علی تاج کا "قرطبہ کا قاضی"۔۔۔پڑھا ہے تم لوگوں نے؟


سحرش: ہاں میں نے پڑھا ہے۔


پہلا لڑکا: میں نے بھی پڑھا ہے مگر وہ تو اردو ڈیپارٹمنٹ والوں کے لیۓ ہو گا۔ 


دوسری لڑکی: تو اس میں کیا ہے انہوں نے بھی پچھلی دفعہ ایک انگلش پلے کیا تھا۔ اور ویسے بھی سالانہ فنکشن میں اردو انگلش ڈیپارٹمنٹ والے مل کر ہی تیار کرتے ہیں اور پرفارم بھی مل کر ہی کرتے ہیں۔


سحرش: وہ سب معاملات تم مجھ پر چھوڑ دو آخرکار I'm the head of the drama committi.


پہلی لڑکی: تو پھر ڈن ہو گیا ہم یہ ہی ڈرامہ کریں گے۔۔۔


چوتھا لڑکا: ہاں ڈن ہو گیا، اب اس خوشی میں کچھ کھانے کو ہو جاۓ۔۔۔ بڑی بھوک لگی ہے یار۔


سیماب: ۔۔۔اس وقت گھر میں تو کچھ نہیں ملے گا باہر سے ہی آرڈر کرنا پڑے گا، کیا آرڈر کروں؟


پہلا لڑکا: وہی کردو ہم سب کا فیورٹ۔۔۔(سب کو مخاطب کر کے) کیوں کیا خیال ہے؟


دوسری لڑکی: ہاں ٹھیک ہے۔


سیماب: (اٹھتے ہوۓ) اچھا میں آرڈر کرتا ہوں۔ ( موبائل سے کال ملا کر صحن کے دوسری طرف چلا جاتا ہے۔)


سحرش: (باقی سب کو مخاطب کر کے) آج بہت بری ہوںئ یار، یونی سے واپسی پر سیماب کا بائیک خراب ہو گیا تو ہمیں سارا راستہ پیدل چلنا پڑا۔ اس نے بولا کہ تم بس پکڑ کر چلی جاؤ میں بائیک ٹھیک کروا کے آجاتا ہوں مگر بسوں کی ہڑتال تھی۔ لہذا اس کے ساتھ ہی پیدل آنا پڑا۔


دوسری لڑکی: تو رکشہ پکڑ لینا تھا۔


سحرش: کہاں رکشہ پکڑ لیتی، کوںئ ایک رکشہ بھی نظر نہیں آیا پورے راستے پر۔


(سیماب واپس آجاتا ہے۔)


سیماب: (بیٹھتے ہوۓ) کر دیا ہے آرڈر کچھ دیر میں آجاۓ گا۔


دوسرا لڑکا: (دوسری طرف پھولوں پر نگاہ ڈالتے ہوۓ) یار سیماب تمہارے سفید پھول تو کافی ہو گۓ ہیں پچھلی دفعہ جب ہم آۓ تھے تو کم تھے۔


پہلا لڑکا: ویسے یار سیماب! تم بھی عجیب آدمی ہو ایک طرف تم صوفیا اور تصوف سے متاثر ہو اور دوسری طرف تم خوابوں، خواہشوں، آرزوؤں کی بات بھی کرتے ہو، خود بھی خوابوں اور خواہشوں سے بھرے رہتے ہو اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہو جبکہ صوفیا تو خواہشوں کو مارنے اور آرزوؤں کا قتل کرنے کا درس دیتے ہیں۔


سیماب: نہیں یار میں نے کیا کسی سے متاثر ہونا ہے یا کسی کے خلاف ہونا ہے میرا علم اتنا نہیں بلکہ بلکل بھی نہیں کہ میں کسی نقطہ نظر پر راۓ دے سکوں میں تو ابھی سیکھ رہا ہوں اور مسافر ہوں اور ہمیشہ ہی مسافر ہی رہوں گا۔۔۔اور صوفیا سے یا تصوف سے متاثر میں اس لیۓ ہوں کیوں کہ میں سمجھتا ہوں یا مجھے ایسا لگتا ہے کہ پیغمبروں کے بعد صوفیا کرام نے ہی انسانوں کے اندر ان کے اصل گناہوں جو سب گناہوں اور برائیوں کی جڑ ہیں ان کو ختم کرنے یا کم کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔مثلا نفرت، حسد ،بغض ، کینہ، غرور، تکبر، لالچ اور انتقام جیسے گناہ جو اصل میں دوزخ کے انگارے ہیں اور یہی جرائم کا باعث بھی ہیں ان سے چھٹکارا پانے کی یا ان سے بچنے کی اپنے عمل سے ترغیب اگر کسی نے دی ہے تو وہ پیغبروں کے بعد صوفیا ہی ہیں۔ 


پہلی لڑکی: لیکن انہوں نے خواہشات پر قابو پانے کا درس بھی تو دیا ہے یہاں تک کہ بہت سے صوفیا تو تارک الدنیا ہی ہو گۓ۔ 


سیماب: ہاں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خواہشیں اور خواب ہی تو سب کچھ ہیں۔ انسان نے اڑنے کی خواہش کی اور اڑنے لگا، انہی آرزؤں اور امنگوں کے باعث ہی تو انسان غاروں سے نکل کر آج چاند پر پہنچ چکا ہے۔ اگر انسان یہ سب خواب نہ دیکھتا یا ان کی خواہشات نہ رکھتا تو آج وہیں ہوتا۔ اسی لیۓ  آرزو کا دیا روشن رہنا چاہیۓ۔


دوسرا لڑکا: (پرجوش انداز میں) بھاںئ میرے کن اخلاقیات کی بات کرتے ہو یہ ساری بد اخلاقیاں اور جرائم دراصل بھوک کی وجہ سے ہیں ، غربت کی وجہ سے یہ برائیاں جنم لیتی ہیں۔ ہر طرف بھوک ننگ ہے اس لیۓ یہ لڑاںئ ، جھگڑے دھنگے فساد ، اور دوسری ساری برائیاں ہیں۔


سیماب: (مسکراتے ہوۓ نرمی سے) کسی حد تک تمہاری بات ٹھیک ہے یا یوں کہہ لو میرے مطابق ہے، ہاں بھوک اور غربت کی وجہ سے بھی بہت سے جرائم جنم لیتے ہیں، لیکن اپنی ایمانداری سے بتاؤ ہم میں سے کتنے ہیں جو بھوک سے تنگ آکر یا غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر جھوٹ بھولتے ہیں۔ جو وکیل عدالتوں میں جھوٹ بولتا ہے اور اپنا مقدمہ جیتنے کے لیۓ جھوٹی گواہیاں پیش کرتا ہے وہ بھوک سے مجبور ہو کر ایسا کرتا ہے، جو تاجر یا دکاندار اپنا مال جھوٹ بول کر بیچتا ہے وہ غربت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے، جھوٹی خبروں، جھوٹی افواہوں اور جھوٹے سکینڈلز یا الزامات کا تو ہمارے ہاں اب رواج چل نکلا ہے، اس کے علاوہ بھی ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ہر وقت اور ہر کسی سے جھوٹ بولتے ہیں، یہ سب لوگ کیا غریب ہیں؟ بھوک سے تنگ آکر روٹی کے لیۓ ایسا کرتے ہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے بس ہم سب نے جھوٹے جواز گھڑ رکھے ہیں اپنی بے شرمیوں، بے غیرتیوں اور خرام زدگیوں کے۔۔۔ کبھی ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مجبوری میں  غلط کام کرتے ہیں یا جھوٹ بولتے ہیں اور کبھی ہمارا ماننا ہے کہ کسی کی بھلاںئ کے لیۓ یا کسی بڑے نیک مقصد کے لیۓ جھوٹ بول لینے میں کوںئ ہرج نہیں۔ یہ سب بکواس ہے جو صرف اور صرف ہم خود کو مطمئین کرنے کے کیۓ گھڑتے ہیں۔ یہ سارے دھنگے فساد، لڑاںئ جھگڑے کیا صرف بھوک اور غربت کی وجہ سے ہیں؟


سحرش: او ہو! تم لوگوں نے تو لمبی بحث چھیڑ دی ابھی ہم کیا ڈسکس کرنے بیٹھے تھے اور تم لوگ کیا لے کر بیٹھ گۓ۔


پہلا لڑکا: تو ہو تو گیا ہے ڈیسائیڈ کہ وہی پلے کریں گے۔ اب باقی معاملات تم دوسرے ڈیپارٹپنٹ والوں سے خود طے کر لینا۔


دوسرا لڑکا: یار سیماب تیرا کھانا کدھر رہ گیا ہے بھوک لگی ہے بھاںئ۔ اس وقت کی باتیں سناںئ جا رہے ہو۔


دوسری لڑکی: اس کو تو ہر وقت بھوک ہی لگی رہتی ہے اور میں شرط لگا کہ کہہ سکتی ہوں کہ گھر سے کھا کر بھی آیا ہو گا اور یہاں آنے تک اسے پھر بھوک لگ گئ۔ 


دوسرا لڑکا: تھوڑا سا ہی تو کھایا تھا۔ 


دوسری لڑکی: ہاں ہاں دیکھا۔۔۔


(سب ہنس پڑتے ہیں، اتنے میں دروازہ بجتا ہے، سیماب اٹھ کر جاتا ہے۔ دروازہ کھول کر ڈلیوری بواۓ سے کھانا لیتا ہے اور پیسے ادا کر کے واپس آجا جاتا ہے۔ سب کھانا کھانے لگتے ہیں۔)


دوسرا منظر:


(شام کا وقت ہونے والا ہے۔ سیماب اور سحرش  گھر کے اندر دروازے کے پاس کھڑے ہیں۔)



سحرش: سب چلے گۓ اب مجھے بھی چھوڑ آؤ شام ہو گئ ہے۔ 


سیماب: چلو چھوڑ آتا ہوں اب تک اس نے بائیک بھی ٹھیک کر ہی دی ہو گی۔۔۔ (ایک دم کچھ یاد آنے پر) اوہ! شام ہو گئ ہے میں نے اپنا اہم کام تو کیا ہی نہیں۔


سحرش: کون سا کام۔۔۔(پھر کچھ یاد آنے پر) اوہو۔۔۔ایک تو تمہارا وہ اہم کام۔۔۔اچھا جلدی کرو پھر۔۔۔


(دونوں چل کر صحن کے دوسری طرف جاتے ہیں۔ دیوار میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہے جس میں ایک دیا رکھا ہے پاس ہی ماچس پڑی ہے۔ سیماب ماچس سے چراغ جلاتا ہے۔)


سیماب: ( دو قدم پیچھے ہٹ کر خوشی سے چراغ کو دیکھتے ہوۓ ہلکا سا پکارتا ہے) چراغِ آرزو۔




  









Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات