Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 


کردار: ا

یک آدمی ایک عورت (میاں بیوی)، ملازم



منظر:


گھر کا ایک خوبصورت کمرا ہے، جس میں ایک پنتیس سے چالیس سال کا آدمی صوفے پر تقریباً نیم دراز ہے۔ ٹانگے نیچے زمین پر آگے کی طرف پھیلاۓ ہے اور سر صوفے کی ٹیک کے ساتھ لگاۓ ہوۓ ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ شلوار قمیض پہنے ہے اور کندھوں اور سینے پر خوبصورت سی چادر یا شال اوڑھ رکھی ہے۔ فرش پر قالین بچھا ہے کھڑکیوں پر رنگین پردے ہیں، پردے کھلے ہوۓ ہیں جس سے باہر کا منظر دکھاںئ دے رہا ہے، باہر برآمدہ ہے اور اس سے پرے صحن ہے، تیز بارش ہو رہی ہے جس کے باعث کھڑکیوں کے شیسشے نم آلود ہیں۔ کبھی کبھی بارش کی پھوار کھڑکیوں پر پڑتی ہے۔ کمرے میں ایک دو صوفے اور بھی رکھے ہیں اور اس کے علاوہ کونے میں ایک گلدان پڑا ہے جس میں نقلی پھول سجے ہیں۔ کسی جگہ میوزک ریکارڈر بج رہا ہے جس سے گانے کی آواز آرہی مگر ریکارڈر کہیں دکھاںئ نہیں دے رہا۔ آدمی گانے کے بول کے ساتھ ساتھ کسی وقت سر کو ہلکی سی جنبش دیتا ہے اور ساتھ ساتھ ہاتھ کو بھی ہوا میں محذوز ہونے کے انداز سے لہراتا جاتا ہے۔ وہ گانے سے بے حد لطف اندوز ہو رہا ہے اور اردگرد سے بے خبر پوری طرح گانا سننے میں مگن ہے۔ گلوکار کی آواز ابھرتی ہے۔ 






یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا۔۔۔









آدمی غزل کے بولوں کو ساتھ ساتھ دہراتا جاتا ہے مگر صرف ہونٹ ہل رہے ہیں اس کی آواز نہیں آرہی۔ چند لمحے سننے کے بعد اٹھتا ہے اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کھڑکی کے شیشوں سے باہر صحن پر گرتی بارش کو دیکھنے لگتا ہے۔  کچھ دیر تک ایسے ہی دیکھتا رہتا ہے۔ گلوکار کی آواز بدستور آرہی ہے، 






کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے۔۔۔






اب پیچھے مڑتا ہے اور ہاتھ کو اسی طرح ترنگ میں لہراتا ہوا کونے میں رکھے گلدان کے پاس جاتا ہے، کاغذی پھولوں کو ہلکے سے انگلیوں سے چھوتا ہے، پھر پلٹ آتا ہے، آکر پھر صوفے پر بیٹھ جاتا ہے، صوفے کے ساتھ رکھے چھوٹے سے میز پر پڑی ایش ٹرے کو ایک انگلی سے گمانے لگتا ہے، غزل اب بھی جاری ہے،






یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح۔۔۔






چند لمحوں کے بعد ایک عورت کی آواز کمرے میں آتی ہے، پھر گانا بند ہو جاتا ہے۔ یہ عورت اس آدمی کی بیوی ہے۔






عورت: ( اونچی آواز سے) یہ کیا آپ ہر وقت غزلیں سنتے رہتے ہو اور سارا دن ایسے ہی پڑے رہتے ہو اور کوںئ کام نہیں۔۔۔ ایک تو ستیاناس ہو اس کرونا کا پہلے ہی اس گھر میں نکموں کی کمی تھی جو اس لاک ڈاؤن نے ایک اور کو لا کے گھر بٹھا دیا۔






آدمی: میں نے تمہیں پہلے بھی کئ دفعہ کہا ہے خود ٹیپ ریکارڈر آف نہ کیا کرو پہلے بھی ایک بار تم خراب کر چکی ہو۔






عورت: (سامنے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ) اچھا جی! وہ میرے ہاتھ لگانے سے خراب ہوا تھا؟ جبکہ جتنا وہ پرانا ہے صرف ہوا کا جھونکا ہی گزرے تو وہ خراب ہو جاۓ۔۔۔ہزار دفعہ کہا ہے کہ اگر تمہیں گانے سننے کا اتنا ہی شوق ہے تو اسے پھینک دو اور نیا لے لو یا پھر موبائل سے سن لیا کرو۔






آدمی: اچھا پرانا ہو گیا ہے تو بدل لوں ( شرارت سے)  پرانی تو پھر تم بھی کافی ہو گئ ہو تو تمہیں بھی بدل لوں۔۔۔






عورت:  میں ٹیپ ریکارڈر یا کوئی چیز نہیں جو پرانی ہونے پر پھینک دی جاۓ  بلکہ جیتی جاگتی انسان ہوں اور انسان سے رشتہ جتنا پرانا ہو اتنا مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے۔






آدمی: ۔۔۔ لیکن بجتی تو تم ٹیپ ریکارڈر کی طرح ہی ہو۔۔۔بلکہ تم بجتی نہیں برستی ہو (بارش کی طرف اشارہ کرکے) بالکل اس بارش کی طرح۔






عورت:  میں نہ صرف بجتی ہوں اور نہ برستی ہوں بلکہ وقت آنے پر گرجتی بھی ہوں ۔۔۔ بادل کی طرح۔






آدمی: (ہنستے ہوۓ) بلکل اور کبھی کبھی کڑکتی بھی ہو،۔۔۔ بجلی کی طرح۔






عورت: اچھا آج کھانا نہیں کھانا، کیا یہی سب کچھ کرتے رہنا۔۔۔






آدمی: ہاں کھانا تو ہے ، کیا بنایا ہے؟






عورت: ابھی تو کچھ نہیں۔





آدمی: تو پھر پوچھا کیوں؟






عورت: اس لیۓ کہ میں سبزی وغیرہ منگوانے لگی ہوں تم نے کچھ اپنی مرضی کا پکوانا ہے تو منگوا لو۔






آدمی: نہیں تم اپنی مرضی سے کچھ بھی منگوا لو۔






عورت: ٹھیک ہے۔۔۔ اور وہ پچھلے کمرے کے باتھ روم کا نل پھر خراب ہو گیا ہے اور بیسن کی ٹونٹی بھی بگڑ گئ ہے ذرا پلمبر کو کال تو کرو آکے ٹھیک کر جاۓ۔






آدمی: بعد میں کروں گا اب اتنی تیز بارش میں کیسے آۓ گا وہ۔






عورت: آجاۓ گا اس کا روز کا کام ہے تم کال تو کرو۔






آدمی: (اٹھتے ہوۓ) اچھا بابا کرتا ہوں۔






(صوفے کے دوسری طرف میز پر رکھے فون سے کال ملاتا ہے۔)






آدمی: (فون پر) ہیلو۔۔۔جی میں احسان بات کر رہا ہوں۔۔۔جی جی وہی۔۔۔






عورت: (بیٹھے بیٹھے ملازم کو آواز دیتی ہے)


 رمضانی۔۔۔رمضانی۔۔۔






آدمی: (فون پر) بس ایک دو کام تھا۔۔۔






(ملازم اندر آتا ہے)






ملازم: جی بی بی جی۔






عورت: (ملازم سے) اچھا رمضانی تم ایسا کرو جاؤ اور دو کلو آلو لے آؤ۔۔۔(اونچی آواز سے ڈانتے ہوۓ) اور دیکھ کر لانا اب کی بار تم نے خراب آلو لاۓ تو تمہاری خیر نہیں۔






آدمی: (فون پر) جی وہ آلو خراب ہوگۓ ہیں ۔۔۔اوہ سوری جناب میرا مطلب ہے نل خراب ہو گیا ہے وہ ٹھیک کروانا ہے۔






عورت: (ملازم سے بات جاری رکھتے ہوۓ) ہاں اور اس کے علاوہ آدھا کلو ٹماٹر بھی لے آنا اور دھیان سے دیکھ لینا ٹماٹر باسی نہ ہوں وہ کبھی کبھی پچھلے دن کے پھسے ہوۓ باسی ٹماٹر ڈال دیتا ہے۔









آدمی: (فون پر) ہاں جی ایک یہ ہے اور باسی ٹماٹر ہیں۔۔۔اوہ نہیں جناب معذرت۔۔۔(بیوی سے) کیا کرتی ہو دیکھ نہیں رہی میں فون پر بات کر رہا ہوں۔ (فون پر) جی نہیں جناب آپ سے نہیں آپ بولیں۔۔۔






عورت: (پہلے سے ذرا آہستہ) ہاں اور ڈیڑھ کلو گوبھی بھی لے آنا۔۔۔(پھر اونچی آواز سے) اور اس دفعہ گوبھی صاف ستھری ہونی چاہیۓ پچھلی دفعہ جو تم گھوبھی لاۓ تھے اس میں گوبھی تو براۓ نام ہی تھی بیچ میں کیڑے ہی کیڑے تھے۔






آدمی: جی جی۔۔۔ اور دیکھیۓ ہر دفعہ آپ سے کام کرواتے ہیں پھر بھی گوبھی ہمیں کیڑوں والی دے دیتے ہیں آپ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ جی نہیں میں معافی چاہتا ہوں،  وہ آپ سے نہیں میں کسی اور سے۔۔۔خیر چھو ڑیۓ ہاں تو میں کہہ رہا تھا ٹونٹی بھی۔۔۔


(ملازم بات سن کر باہر نکلتا ہے تو پیچھے سے پھر اسے آواز دیتی ہے)


عورت: (اونچی آواز سے) اور ہاں جاتے ہوۓ دودھ فرج میں رکھ جانا کل بھی فراز کے لیۓ کھیر بنانے کے لیۓ باہر رکھا تھا تو خراب ہو گیا تھا۔ 


ملازم: (باہر سے آواز دیتا ہے) اچھا بی بی جی۔


آدمی: (فون پر) اور کچھ نہیں بس دودھ خراب ہو گیا ہے اب کھیر نہیں بن سکتی۔۔۔نہیں جی معافی چاہتا ہوں بس یہی کام ہیں آپ آجائیں۔۔۔ ٹھیک ہے بھاںئ شکریہ۔


(فون بند کر دیتا ہے)


آدمی: کیا شور مچایا ہوا ہے دیکھ بھی رہی تھی میں  فون پر بات کر رہا ہوں۔


عورت: میں نے کیا شور مچانا ہے وہ آپ کے چہیتے ملازم رمضانی کو سمجھا رہی تھی کہ اب کوںئ چیز خراب نہ لاۓ۔ منحوس مارا ہر دفعہ کچھ نہ کچھ بگاڑ کر ہی آتا ہے۔۔۔اور مجھ سے شرط لگا لیں آج بھی ڈانٹنے اور سمجھانے کے باوجود کوںئ نہ کوںئ چیز غلط ہی لاۓ گا۔


آدمی: (پاس رکھا اپنا موبائل اٹھاتے ہوۓ) تم تو خواہ مخواہ اس کے پیچھے پڑی رہتی ہو بیچارہ اتنے کام تو کرتا ہے۔


عورت: کام تو کرتا ہے پر ٹھیک سے نہیں نہ کرتا۔


آدمی: (موبائل اسکرین کی کی طرف دیکھتے ہوۓ) یہ تو تمہاری عادت ہے اس طرح تو تم مجھے بھی کہتی رہتی ہو کہ میں بھی کوںئ کام ٹھیک سے نہیں کرتا۔


عورت: (مسکراتے ہوۓ شرارت سے) ہاں پر اس کی شکایت تو آپ کو لگا سکتی ہوں اب آپ کی شکایت کس کو لگاؤں۔۔۔


آدمی: (ہنستے ہوۓ موبائل سے نظریں ہٹاۓ بغیر) ہاں یہ بھی صحیح ہے۔


عورت: اچھا سنیں۔۔۔


آدمی: ہاں سناؤ!


عورت: پہلے یہ موبائل کو تو چھوڑو۔


آدمی: میں سن رہا ہوں تم کہو۔۔۔


عورت: نہیں پہلے موبائل ہٹاؤ۔


آدمی: اوہو اتنی کون سی ضروری بات ہے (موبائل نیچے رکھتے ہوۓ) یہ لو ہٹا لیا، اب بولو۔


عورت: اچھا اب بتاؤ تم کو میری براںئ کرنی ہو تو کیا کرو گے؟


آدمی: یہ کیسا بہیودہ سوال ہے؟ کیا مطلب ہے اس کا؟


عورت: مطلب یہ کہ تم کو مجھ میں کیا برا لگتا ہے؟


آدمی: (جان چھڑاتےہوۓ) کچھ نہیں تم میں سب اچھا ہے۔


عورت: پھر بھی کوںئ بات تو بری لگتی ہو گی۔۔۔


آدمی: نہیں تم میں سب اچھا ہے جس طرح ہمارے ملک ہمارے معاشرے میں سب اچھا ہے۔


عورت: (منہ بناتے ہوۓ) یہ تعریف ہے یا بے عزتی؟


آدمی: تم جو مرضی سمجھ لو۔


عورت: لیکن اس طرح سب اچھا کہنے سے کیا سب اچھا ہو جاتا ہے؟


آدمی: نہیں لیکن اس سے کہنے والے کے ساتھ مزید کچھ برا نہیں ہوتا۔۔۔اور کبھی کبھی تو فائدہ بھی حاصل ہوجاتا ہے۔


عورت: اچھا ٹھیک ہے ہوتا ہو گا۔۔۔ ویسے تم کوںئ اور ملازم کیوں نہیں رکھ لیتے؟


آدمی: اس لیۓ کہ وہ ٹھیک کام کرتا ہے تم ہی اس میں سے نقص نکالتی رہتی ہو۔


عورت: اچھا وہ ٹھیک کام کرتا ہے۔۔۔چلو پھر آج اگر اس نے کوںئ کام خراب کیا تو پھر تمہیں سزا ملے گی۔


آدمی: (گبھراتے ہوۓ) سزا۔۔۔کیسی سزا؟


عورت: بتاؤں گی وہ بھی بتاؤں گی۔ وقت تو آ لینے دو۔


آدمی: (کچھ کچھ سمجھتے ہوۓ) لیکن۔۔۔ ایسا کیسے۔۔۔ (کچھ کہنے لگتا ہے اتنے میں رمضانی کمرے میں داخل ہوتا ہے)


عورت: یہ آگیا رمضانی۔۔۔ہاں ساری چیزیں لے آۓ؟


ملازم: جی بی بی جی سب لے آیا۔


عورت: (شاپروں میں سب چیزیں چیک کرتے ہوۓ) یہ رہے آلو۔۔۔پر یہ تو کم لگ رہے ہیں۔۔۔ رسید کدھر ہے؟


ملازم: شاپر کے اندر ہی ہے بی بی جی۔


عورت: (رسید نکال کر پڑھتے ہوۓ) اچھا (ذرہ لمبا کر کے) آآآلو ایک کلو۔۔۔ میں نے تو آلو دو کلو کہا تھا۔۔۔


ملازم: (پریشان ہوتے ہوۓ) میں نے تو دو کلو ہی کہا تھا بی بی جی شاید دکاندار بھول گیا ہو گا۔


عورت: (ڈانتے ہوۓ) سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ تو خود بھول گیا تھا۔۔۔(رسید پر دوسری چیزیں پڑھتی ہے) اور یہ گوبھی دو کلو لے آۓ ہو اور ٹماٹر کلو جبکہ میں نے گوبھی ڈیڑھ کلو کہا تھا اور ٹماٹر آدھا کلو۔۔۔کم بخت کوںئ کام تو ٹھیک سے کیا کر۔۔۔تمہارا دھیان کدھر رہتا ہے۔


آدمی: (ڈرتے ہوۓ) چلو جانے دو اب لے آیا ہے تو یہ ہی پکا لو۔


عورت: (تھوڑا چیختے ہوۓ) جانے کیسے دوں اور تم نے ہی کہا تھا نا کہ ٹھیک کام کرتا ہے اب تم سزا کے لیۓ تیار ہو جاؤ۔


آدمی: (گبھراتے ہوۓ) لے۔۔۔لیکن۔۔۔میں۔۔۔میں کیوں، کام تو اس نے خراب کیا ہے تو سزا بھی اسے ہی۔۔۔


عورت: (بات کاٹتے ہوۓ) نہیں میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر وہ خراب چیزیں لایا تو سزا تمہیں ملے گی۔ (چلا کر حکم دینے کے انداز میں ) اب اٹھو جلدی یہاں سے۔۔۔


آدمی: (تیزی سے اٹھتے ہوۓ) لیکن میں کیا کروں اٹھ۔۔۔کر۔۔۔


عورت: اب یہ ساری چیزیں تم لے کر آؤ گے فوراً ۔


آدمی: (گبھراتے ہوۓ) میں۔۔۔میں۔۔۔ لیکن میں کیسے۔۔۔میرا مطلب ہے باہر بارش۔۔۔رات۔۔۔شام۔۔۔سردی۔۔۔وغیرہ۔۔۔


عورت: جو بھی ہے اب تم ہی جاؤ گے۔ اور جلدی سے باہر شام ہو گئ ہے وقت کم ہے۔(اٹھ کر باہر چلی جاتی ہے۔)


(چند لمحے ساکت کھڑا رہتا یے پھر غصے سے ملازم کو ڈانٹنے لگتا ہے۔)


آدمی: شرم نہیں آتی کام چور، نالائق، نمک خرام ٹھیک سے کام نہیں کرتے دفع ہو جاؤ آج سے تم فارغ ہو۔


(ملازم باہر نکل جاتا ہے)


(آدمی کچھ دیر کھڑا رہتا ہے اور کھڑکی کے شیشوں سے باہر جھانکتا ہے۔ باہر اندھیرا ہو چکا ہے، مگر بجلی کے چمکنے پر تیز برستی بارش کا نظارہ کرکے برا سا منہ بناتا ہے۔۔۔۔پھر سے غزل چلتی ہے)


کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے

























Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات