اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لگایا اور اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے سگریٹ کے فلٹر کو مسلنا شروع کر دیا۔ یہ اس کی عادت تھی وہ جب بھی کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوتا تو سگریٹ پینے کے دوران تقریبا ہر کش کے بعد ایسا کرتا یہاں تک کہ سگریٹ کے فلٹر والا حصہ بلکل دب سا جاتا۔ اس دوران اسے بلکل ہوش نہ رہتا کہ کب سگریٹ ختم ہوا، یہاں تک کہ ہونٹ یا انگلی جلنا شروع کر دیتے تو اسے پھینکنا یاد آتا۔ وہ پچھلے دس منٹس سے سڑک کے کنارے راستے کی نشاندہی کرنے والے سفید پتھر یعنی سنگ میل پر پاؤں رکھے اپنے سامنے پھیلی وسیع و عریض زمینوں پر نظریں جماۓ کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ وہ چین اسموکر نہیں تھا مگر اس وقت ایک سگریٹ ختم ہونے پر ساتھ ہی اس نے دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔ اس کا ملازم جسے وہ منشی بابا کہتا تھا اور اس کا ڈرائیور کچھ فاصلے پر اس کے پیچھے کھڑے تھے۔ ایک کالے رنگ کی پجیرو گاڑی سڑک کے دوسرے کنارے تنہا کھڑی تھی۔ کچھ دیر اسے اسی طرح کھوۓ ہوۓ دیکھ کر منشی آگے بڑھا اور اس کے قریب آکر بولا۔ 'ہارون صاحب اب چلنا چاہیۓ کافی وقت ہو گیا ہے۔
منشی بابا سمجھدار آدمی تھا جو پچھلے کئ عشروں سے اس کے خاندان کے ہاں ملازمت کر رہا تھا۔ خاندان کے سبھی افراد اس کی بڑی قدر کرتے تھے اور اس سے اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح برتاؤ کرتے تھے۔ وہ بہت کم عمر تھا جب ان کے ہاں ملازم ہوا تھا۔ ہارون صاحب جس کو ابھی اس نے پکارا تھا اس کے سامنے ہی بڑے ہوۓ تھے۔ وہ جب یہاں آیا تھا تب ابھی ہارون کے والد کی شادی بھی نہیں ہوںئ تھی۔ اس کے والد کو وہ پہلے دن سے پسند آیا تھا اور تب سے لے کر اب تک وہ ہر وقت اسے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ منشی بابا نے بھی اپنی محنت اور ایمانداری سے ان پر اپنا پورا اعتماد قائم کر لیا تھا اور اب وہ آنکھیں بند کر کے بھی اس پر اعتبار کر سکتے تھے۔ وہ پچھلی چار دہائیوں سے ان کے کاروبار اور زمینوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا اور ایک ایک پاںئ کا حساب اپنے پاس رکھتا تھا۔ ہارون احمد کے والد چوہدری غلام احمد اسے ملازم سے زیادہ اپنا دوست سمجھتے تھے اور کاروبار کے علاوہ اس سے اپنی ذاتی زندگی سے متعلق بھی مشاورت کر لیا کرتے تھے۔
منشی بابا کے آواز دینے پر ہارون ایک دم چونکا پڑا۔ہوں'۔۔۔ اس نے پیچھے مڑتے ہوۓ کہا۔ 'جی منش بابا۔۔۔
میرا خیال ہے اب چلنا چاہیۓ کافی وقت ہو گیا اور یہ جگہ خطرناک بھی ہے۔' منشی بابا نے اپنا جملہ دہراتے ہوۓ کہا۔
ہارون نے پتھر سے پاؤں ہٹالیا اور بابا کی طرف مڑتے ہوۓ ہاتھ میں پکڑا ہوا سگریٹ پھینک کر دوسرا جلا لیا۔
بابا پھر گویا ہوا۔ 'ایک تو یہ جگہ خطرے سے خالی نہیں اور اوپر سے آپ گارڈز کو بھی ساتھ نہیں رکھتے۔ اب اگر یہاں وہ لوگ آپ پر حملہ کر دیں تو میں اور ڈرائیور اکیلے کیا کر لیں گے'۔
آپ فکر نہ کرو بابا اب وہ لوگ کچھ نہیں کریں گے جو کچھ انہوں نے کرنا تھا کر چکے ہیں'۔ ہارون نے ایک لمبا کش لیتے ہوۓ اطمینان سے جواب دیا۔
چند لمحے وہاں مزید کھڑا رہنے کے بعد اس نے چلنے کا حکم دیا اور گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔ گاڑی دونوں اطراف کھلے کھیتوں کے درمیان پکی سڑک پر بھاگنے لگی۔ وہ اپنے خیالوں میں گم بیٹھا کھیتوں کو پیچھے کی طرف بھاگتے ہوۓ دیکھے جا رہا تھا۔ اسے وطن واپس لوٹے ہوۓ ابھی چند ماہ ہوۓ تھے کہ آتے ہی اسے اپنے والد کے قتل کا حادثہ دیکھنا پڑا۔ برسوں سے وہ تعلیم کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم تھا اور حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے لوٹا تھا۔ آنے کے چند دن بعد تبدیلی آب و ہوا کے باعث وہ بیمار پڑ گیا تو گاؤں کے لوگوں اور عزیز رشتے داروں نے تب ہی سے اس کے بارے میں راۓ قائم کر لی کہ باہر جا کر وہ بہت نازک مزاج ہو گیا ہے۔ ان کی اس راۓ کو مزید تقویت اس بات سے ملی جب بعد میں آنے والے دنوں میں انہوں نے ہارون کی حرکات کا مشاہدہ کیا۔ وہ اپنے دوسرے عزیز رشتے داروں کے برعکس دشمن داری کے معاملات سے دور ہی رہتا تھا۔ اور اب تو گاؤں کے لوگوں اور اس کے دیگر احباب نے اس کے بارے میں یہ راۓ قائم کر لی تھی کہ وہ بزدل اور ڈرپوک ہے جو اپنے والد کے قتل کا بدلہ بھی ملکوں سے نہیں لے سکتا۔ ملکوں کے خاندان اور اس کے خاندان میں عشروں سے دشمنی چلی آرہی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے بہت سے افراد قتل کر چکے تھے۔ خود اس کے اپنے بڑے بھاںئ نے اٌن کے خاندان کے دو افراد کو قتل کیا تھا اور پھر کچھ عرصے کے بعد وہ خود بھی مارا گیا تھا۔ تب وہ بہت چھوٹا تھا اس نے دیکھا اس کے بڑے بھاںئ کی خون میں لت پت لاش گھر کے صحن میں لاںئ گئ تھی۔ اس وقت تو وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا مگر سب کا یہی خیال تھا کہ بڑا ہو کر وہ اپنے بھاںئ کا بدلہ ضرور لے گا۔ اور اب جب اس کے باپ کو بھی مار دیا گیا تھا تو سب کو یقین تھا کہ اب ملکوں کے خاندان کے دو تین آدمی ضرور مارے جائیں گے۔ ملکوں کو بھی اس بات کا خدشہ تھا اس لیۓ انہوں نے بھی اپنی سیکیورٹی مزید سخت کر دی تھی اور اس کی طرف سے کسی وار کے لیۓ تیار بیٹھے تھے۔ مگر سب کی توقعات کے برعکس ہارون نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور ملکوں کے خلاف مقدمہ عدالت میں لے کر گیا۔ گاؤں کے لوگ اور اس کے عزیز و اقارب اسے لعن طعن کرنے لگے کہ اس نے اپنے خاندان کی ناک کٹوا دی ہے، اپنے والد اور بھاںئ کی موت کا بدلہ بھی اگر عدالت لے گی تو ایسے جوان بیٹے کے ہونے کا کیا فائدہ اور ویسے بھی عدالتوں سے بھلا کس کو انصاف ملا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ چوہدری غلام احمد کا بڑا بیٹا تو شیر تھا مگر اس کے چھوٹے بیٹے میں وہ دم نہیں، باہر سے تعلیم حاصل کرکے آنے کے بعد تو اس میں مردوں اور جوانوں والی کوںئ بات ہی نہیں رہی۔
ہارون احمد جانتا تھا لوگ اس کے بارے میں کیا راۓ رکھتے ہیں اور پورے گاؤں میں اس کے بارے میں کیا چہ میگوئیاں ہوتی ہیں مگر وہ خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہا۔ مقدمے کو آٹھ مہینے ہو گۓ تھے اور ابھی تک جس حساب سے کیس چل رہا تھا سب کا یہی خیال تھا کہ یہ کیس آٹھ سال تک بھی ختم نہیں ہو گا۔ گو کہ لوگ جانتے تھے کہ وہ کوںئ معمولی آدمی نہیں ہے اس کا خاندان انتہاںئ طاقت ور اور اثرو رسوخ رکھنے والا خاندان ہے مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس کا دشمن ملکوں کا خاندان بھی انتہاںئ با اثر خاندان ہے۔ لہذا یہی ہوا دونوں نے اس مقدمے میں اپنا خوب اثرورسوخ اور پیسہ استعمال کیا مگر ملکوں کے برعکس ہارون نے جو پیسہ یا رسوخ استعمال کیا وہ ججوں، وکیلوں اور گواہوں کو خرید کر یا دمھکا کر فیصلہ اپنے حق میں کروانے کے لیۓ نہیں بلکہ محض اس بات کے لیۓ کہ یہ کیس جلد سے جلد ختم ہو۔ اس کے وکیل کو بھی بہت بار دھمکی بھرے پیغام موصول ہوۓ اور اسے رشوت کے طور پر بھاری رقم کی پیشکش بھی کی گئ مگر وہ اس کے والد کا پرانا وفادار ساتھی تھا جو برسوں سے اس کے خاندان کے تمام مقدمات کو دیکھتا چلا آرہا تھا اس لیۓ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہ بات ملک اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ ان کا خاندانی وکیل ہے اس لیۓ وہ کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا اور اگر چوہدری غلام احمد زندہ ہوتا تو وہ ایسی جرات کبھی نہ کرتے مگر ان کے خیال میں ہارون احمد چونکہ بزدل آدمی تھا اور یہاں کے دشمن داریوں اور تھانے کچہری کے معاملات کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتا تھا لہذا انہوں نے سوچا کہ وہ خود ہی یہ سب دیکھ کر پیچھے ہٹ جاۓ گا یا یہاں سے بھاگ جاۓ گا۔ یہ بات ہارون کا وکیل بھی اچھی طرح سمجھتا تھا اس لیۓ اس نے ہارون کو بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ محتاط رہے کیونکہ وہ اسے بھی ڈرانے دھمکانے کے لیۓ اس پر حملہ کر سکتے ہیں مگر ہارون نے اس کی بلکل بھی پرواہ نہ کی تھی۔
گاڑی ابھی گاؤں کے باہر ہی تھی کہ اچانک سامنے سے دو کالے رنگ کی لینڈ کروزر تیزی سے ان کے آگے آکر رک گئیں ڈرائیور کو مجبوراً بریک لگانا پڑی۔ جونہی ان کی گاڑی رکی سامنے کی گاڑیوں سے دو مسلح افراد نکلے اور ان کی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی ، چند لمحے فائرنگ کرنے کے بعد وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گۓ۔ خوش قسمتی سے ان میں سے کسی کو بھی گولی نہ لگی تھی کیونکہ شاید وہ لوگ انہیں مارنے نہیں صرف ڈرانے آۓ تھے۔ اس دن کے بعد گھر والوں، پولیس اور وکیل کے مجبور کرنے پر ہارون کو اپنے ساتھ گارڈز رکھنے پڑے۔ اس نے گارڈز تو رکھ لیۓ تھے مگر اس کے بعد اس نے ڈرنے یا پیچھے ہٹنے کی بجاۓ مقدمے کے لیۓ بھاگ دوڑ پہلے سے بھی تیز کر دی تھی۔ اس کے گھر والوں نے اس کی بڑی منتیں کیں اور کہا کہ وہ واپس بیرون ملک لوٹ جاۓ کیونکہ یہ سب دشمن داریاں اور مقدمے بازیاں اس کے بس کی بات نہیں۔ مگر اس نے کہا کہ وہ یہ کیس ختم ہونے سے پہلے کہیں نہیں جاۓ گا۔
آخر کار ایک دن اس کی محنت رنگ لے آںئ اور فیصلے کا دن آگیا۔ اس دن جتنا عدالت کے کمرے میں رش تھا اس سے کئ گنا زیادہ بھیڑ عدالت کے باہر تھی۔ آس پاس کے گاؤں سے بھی بہت سے افراد یہ فیصلہ سننے آۓ تھے۔ صبح سے لوگ عدالت کے باہر شدید گرمی اور دھوپ میں کھڑے تھے اور عدالت کا فیصلہ سننے کے منتظر تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کا اس مقدمے سے کوںئ تعلق نہیں تھا لیکن پھر بھی ان کو اس مقدمے سے ذاتی نوعیت کی دلچسپی پیدا ہو گئ تھی۔ اس کی وجہ ہارون احمد تھا۔ لوگوں کو اس مقدمے سے زیادہ ہارون احمد سے دلچسپی تھی اور وہ اسی کے لیۓ یہاں آۓ تھے۔ سب کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں اور وہ دل سے یہ چاہتے تھے کہ یہ مقدمہ وہی جیتے۔ شروع شروع میں لوگوں نے اس کے خلاف راۓ بناںئ تھی مگر وہ دل سے یہ سمجھتے تھے کہ وہ جو کر رہا ہے صحیح کر رہا ہے۔ بالآخر ایک اذیت ناک انتظار کے بعد وہ لمحہ آ گیا۔ جج نے فیصلہ سناتے ہوۓ کہا۔
عدالت ملک اللّٰه رکھا کے بیٹے ملک قاسم کو چوہدری غلام احمد اور اس کے ساتھیوں کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سناتی ہے۔
جج کا یہ کہنا تھا کہ کمرۂ عدالت تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھا۔ جب یہ خبر عدالت کے باہر کھڑے لوگوں تک پہنچی تو وہ بھی زوروشور سے نعرے لگانے لگے۔ مگر ہارون احمد چپ چاپ سر جھکاۓ اپنی کرسی پر بیٹھا رہا۔ چند لمحوں کے بعد وہ اٹھا اور جج سے اپنی بات کہنے کی اجازت طلب کی۔ جج نے اجازت دی تو وہ کٹہرے میں آکر کھڑا ہو گیا۔ کمرے میں پھر سے سکوت طاری ہو گیا۔ لوگ بڑے دھیان سے اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگے۔ اس نے آہستہ سے بات شروع کی۔ 'محترم جج صاحب! میں کہنا چاہتا ہوں چونکہ مقدمے کا فیصلہ ہو گیا ہے اور اس میں حق اور سچ کی جیت ہوںئ ہے اس لیۓ میں ملزم اور اس کے خاندان کو معاف کرتا ہوں۔' لوگ ایک دم سے حیرت زدہ ہو کر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ جج نے انہیں چپ رہنے کا حکم دیا۔ ہارون پھر بولا۔ 'محترم جج صاحب میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اسے معاف کردے اور اس کی سزا بخش دے یا اگر سزا دینا بہت ضروری ہے تو اسے پھانسی کی سزا کے بجاۓ کوںئ اور سزا سناۓ'۔
وہ خاموش ہوا تو جج نے اس سے پوچھا۔ 'آپ یہ بات اپنی مرضی سے سوچ سمجھ کر کہہ رہے ہیں'؟
جی جج صاحب میں یہ بات سوچ سمجھ کر اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے کہہ رہا ہوں۔' وہ بولا۔ملزم پکڑا جا چکا ہے اور اسے سزا بھی سنانئ جا چکی ہے۔ انصاف کا بول بالا ہوا ہے۔۔۔ لیکن میں اس سے اپنے والد اور بھاںئ کے قتل کا انتقام لینا نہیں چاہتا ہوں۔۔۔ مجھے لگتا ہے معافی ہی اس کے لیۓ انتقام ہے۔ لہذا آپ مہربانی کر کے اسے معاف کر دیں'۔
جج خیران ہوا پھر بولا۔ 'ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی مگر مجرم کا جرم سنگین ہے اس لیۓ اسے باعزت بری نہیں کیا جا سکتا البتہ اس کی سزا کم کی جا سکتی ہے۔۔۔ جج نے دوبارہ اپنا فیصلہ سنایا۔
جج جب خاموش ہوا تو کمرا پھر سے تالیوں اور سیٹیوں کے شور سے گونج اٹھا۔
Post a Comment
Thank you for your comment