رات گہری تھی اور اس سے زیادہ گہری خاموشی تھی، ایسی خاموشی جو سرد راتوں میں چپکے سے آتی ہے اور سارے عالم پہ چھا جاتی ہے جو دل کو اداس اور ویران کر جاتی ہے۔ ایسی ہی خاموشی چہار سو پھیلی تھی۔ البتہ وقفوں وقفوں سے نیچے سڑک پر کتوں کے بھونکنے کی صدائیں اس خاموشی کی راہ میں کبھی کبھار حائل ہو جاتی تھیں۔ میں نے اکتا کر کتاب بند کر دی اور دوسرے بستر پر پڑے ہوۓ سکندر کو آواز لگاںئ۔
"اٹھو یار چلو نیچے چلیں"
سکندر پچھلے دو گھنٹے سے موبائل فون پہ ایک لڑکی سے باتیں کر رہا تھا۔ اس لڑکی سے اس کی ملاقات کیسے ہوںئ اور یہ لڑکی اسے کیسے ملی یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔۔۔
ہاں! کیا کہا، نیچے!۔۔۔دماغ ٹھیک ہے تمہارا، باہر سردی دیکھ رہے ہو کتنی بڑھ گئ ہے۔" اس نے فون کان سے ہٹاۓ بغیر کہا۔
اسی لیۓ تو کہہ رہا ہوں نیچے چاۓ والے نے آگ جلاںئ ہو گی اس کے پاس جا کر آگ سینکتے ہیں اور گرما گرم چاۓ پییتے ہیں'۔
نہیں بھاںئ مجھ سے اس گرم بستر سے نہیں نکلا جاتا۔" وہ دوبارہ فون پر بات کرنے میں مصروف ہو گیا۔
ہاں تم نے کیا کہا۔۔۔۔میں ہو آؤں۔۔۔نہیں تم کرو بات اس کی تو عادت ہے اس وقت اسے کچھ نہ کچھ سوجھتا ہی رہتا ہے۔۔۔اچھا پکی بات ہے۔۔۔ چلو ٹھیک ہے پھر بعد میں کرتے ہیں۔" اس نے فون بند کر دیا۔
میں نے فوراً کہا، "چلو اب تو اس نے بھی کہہ دیا اب تو چلیں"۔
"اچھا یار چلو چلے چلتے ہیں۔"
سکندر اور میں ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ کمرا بالاںئ منزل پر ہے اور اس کے نیچے گاڑیوں کی ورکشاپ ہے۔ اس کے علاوہ اردگرد چند دکانیں اور ایک دو دفاتر ہیں۔ دن کے وقت یہ علاقہ لوگوں کی آمدورفت سے بھرا رہتا ہے مگر رات کے وقت یہاں مکمل ویرانہ ہوتا ہے، سواۓ ایک چاۓ خانے، ایک سگریٹ کے کھوکھے اور ایک میڈیکل سٹور کے جو ساری رات کھلے رہتے ہیں باقی سب دکانیں جلد ہی بند ہو جاتی ہیں۔ کھانے پینے کے لیۓ چھوٹے چھوٹے ڈھابہ نما ہوٹل ہیں جو یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ہیں۔
ہم دونوں گرم چادریں اوڑھ کر نیچے اتر آۓ۔ میں نے تو چپل میں بھی جرابیں پہن رکھی تھیں مگر سکندر ننگے پاؤں ہی تھا۔ چاۓ کی دکان سڑک کے دوسری طرف تھی ہم سڑک عبور کر کے دوسری طرف پہنچ گۓ۔ چھوٹی سی دکان ذرا اندر کو دھنسی ہوںئ تھی اور کچھ گہری بھی تھی یعنی چند سیڑھیاں اتر کر نیچے جانا پڑتا تھا۔ اندر بیٹھے ہوۓ یوں لگتا جیسے کسی فوجی بیرک میں بیٹھے ہوں۔ باہر سے دکان کا اندرونی حصہ بمشکل نظر آتا تھا لیکن اندر سے باہر سڑک کا منظر صاف دکھائی آتا تھا۔ دکاندار نے انگیٹھی میں آگ جلا رکھی تھی، ہم ایک کونے میں انگیٹھی کے پاس بیٹھ گۓ۔ دکان میں بیک وقت تقریباً آٹھ دس آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی مگر اس وقت بس دو ہی آدمی موجود تھے۔ دونوں کے الگ الگ جگہ پر بیٹھے ہونے سے یہ تو ثابت ہوتا تھا کہ دونوں کا آپس میں کوںئ تعلق نہیں۔ ایک آدمی گزشتہ دن کا باسی اخبار پڑھنے میں مشغول تھا اور دوسرا اپنے موبائل میں کھویا تھا۔ ہمارے دکان میں داخل ہونے پر اخبار والے آدمی نے آنکھیں اوپر اٹھا کر اک نظر ہمیں دیکھا اور دوبارہ اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ بیٹھتے ہی میں نے چاۓ والے کو اپنی دو انگلیاں اوپر اٹھا کر دو کپ چاۓ کی صدا لگاںئ۔ باہر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا اور دکان کے اندر بھی خاموشی تھی بس چاۓ والے کا چولہا جلنے کی آواز آرہی تھی۔ سکندر نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور پوچھا
"اچھا پھر کیا فیصلہ کیا، صبح جاؤ گے؟"
اس میں فیصلہ کرنے کی کیا بات ہے۔ میں نے کہا، صبح انٹرویو کے لیۓ تو لازماً جاؤں گا"۔
" لیکن روزانہ اتنی دور جانا بڑا مشکل ہو جاۓ گا۔"
وہ سب تو تب دیکھیں گے جب نوکری ملے گی ابھی فی الحال انٹرویو کے لیۓ تو جاؤں شاید اس کا بھی کوںئ حل نکل آۓ"۔
باہر سڑک پر ایک گاڑی زناٹے سے گزر گئ۔ اک لمحے کے لیۓ شور برپا ہوا اور پھر مکمل سکوت طاری ہو گیا، جیسے ساکن جھیل کی سطح پر پتھر پھینکنے سے پانی پر اک گڑھا سا بنتا ہے، لہریں پیدا ہوتی ہیں اور چند لمحوں بعد گڑھے والی جگہ ویسے ہی دوبارہ سپاٹ ہو جاتی ہے جیسے پہلے تھی۔
چاۓ والے نے چاۓ بنا کر چار کپوں میں انڈیلی اور ہم چاروں کو باری باری پیش کر دی۔ سخت سردی میں چاۓ کا پہلا ہی گھونٹ بھرنے سے جسم کو گرمائش اور طمانیت کا احساس ہوا۔ ذائقے کے ساتھ چاۓ کی خوشبو بھی اچھی تھی۔ دو چار گھونٹ بھرنے کے بعد میں نے سگریٹ سلگا لیا۔ سگریٹ کا کڑوا ذائقہ چاۓ کے شیریں ذائقے سے مل کر بہت لطف دینے لگا۔ سکندر موبائل پر اسی لڑکی کے ساتھ میسجز کرنے میں مصروف ہو گیا اور میں اپنی کرسی گھسیٹ کر سامنے رکھے میز کے اور قریب لے آیا اور ٹانگیں میز کے نیچے سے پھیلا کر اپنے سامنے بیٹھے سکندر کی کرسی کے ساتھ پڑی دوسری کرسی پر رکھ لیں اور سر پیچھے کرسی کی پشت سے ٹکا لیا۔ میں کچھ اس طرح بیٹھا تھا کہ پیچھے سر ٹکانے کے باوجود سامنے سڑک ابھی بھی صاف دکھاںئ دے رہی تھی۔ سڑک یوں تو ویران تھی مگر کبھی کبھی کوںئ گاڑی یا موٹر سائیکل گزر جاتا تھا۔ میں سڑک کے دوسری جانب بند دکان کے اوپر چمکتے سائن بورڈ کو بلا مقصد دیکھنے لگا۔ دکان کا مالک ہمیں چاۓ پیش کرنے کے بعد اب چولہے کے پاس اپنی نشست پر بیٹھ کر اونگ رہا تھا۔ اچانک سڑک پر سے ٹریکٹر ٹرالی گزری جس میں بہت بلند آواز میں کوںئ بیہودہ قسم کا گانا بج رہا تھا۔ دکان کے مالک کی ایک جھٹکے سے آنکھ کھل گئ، اس نے چونک کر سڑک پر نگاہ ڈالی مگر طوفان گزر چکا تھا لہٰذا وہ دوبارہ اونگنے لگا۔ دوسرے دو آدمیوں میں سے ایک جو اخبار پڑھ رہا تھا اس نے اخبار نیچے رکھ دیا تھا اور اب صرف چاۓ پینے میں مصروف تھا۔ دو تین دکانیں چھوڑ کر ساتھ ہی سگریٹوں کا کھوکھا تھا جہاں کسی نے ابھی ابھی ریڈیو آن کیا تھا جس سے ہلکی ہلکی گانے کی مدھم آواز یہاں تک پہچنے لگی تھی، مگر یوں کہ گانے کے بول سناںئ نہیں دے رہے تھے بس اس کی دھن اور موسیقی کسی حد تک سنائی دے رہی تھی۔ اس سرد، سنسان اور سحرزدہ رات میں پراسرار سے بیرک نما چاۓ خانے میں گرما گرم چاۓ اور سگریٹ نوش کرتے ہوۓ گانے کی دھن نے اس رات کو اور بھی سحرزدہ بنا دیا تھا۔
میرا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ ہم وہاں سے اٹھ کر کمرے میں جائیں۔ رات کے اس پرسکون، مسحور کن پہر کو چھوڑ کر کس کا جی جانے کو چاہے گا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ سکندر جو کچھ دیر پہلے بستر سے نکلنے کو تیار نہیں تھا اس کا بھی دل یہاں سے اٹھنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ دونوں آدمی بھی چاۓ پینے کے بعد ابھی تک وہیں بیٹھے تھے۔ انگیٹھی سے اندر کی فضا خوشگوار حد تک گرم ہوگئ تھی۔
ہم تقریباً روزانہ رات کے وقت کام سے فارغ ہونے کے بعد اس چاۓ خانے میں آکر بیٹھتے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے مگر آج کی رات تو اٹھنے کو دل بالکل نہیں مان رہا تھا۔ سردیاں ہو یا گرمیاں ہم روز یہاں آتے اور دیر تک بیٹھے رہتے تھے۔ چند ایک ضروری کام ہم یہی آکر بیٹھے بیٹھے کر لیا کرتے تھے۔ گرمیوں میں دکان کا مالک اندر گرمی کی وجہ سے کرسیاں باہر فٹ پاتھ پر لگا دیتا جس سے باہر کی رونق اور چہل پہل کا نظارہ کرنے کا موقع مل جاتا۔ اس موسم میں رات دیر تک چہل پہل رہتی۔ دکانیں دیر سے بند ہوتیں اور رات گۓ تک ٹریفک رواں دواں رہتا۔ یہ چاۓ خانہ بھی چوبیس گھنٹے کھلا رہتا۔ چاچا شریف جو اس دکان کا مالک تھا اور جسے سب یہاں چاچا شیفا کہہ کر مخاطب کرتے تھے دن کے وقت یہاں بیٹھتا اور رات کے وقت اس کے دو بیٹے دکان سنبھالتے تھے۔ مگر آج اس کے دونوں بیٹے شاید کسی کام سے کہیں گۓ تھے اس لیۓ آج رات کے وقت چاچا شیفا دکان پر بیٹھا تھا اور ہر پانچ منٹ کے بعد اونگنے لگتا تھا۔
ہم کافی دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔ پھر پتہ نہیں کب نہ چاہتے ہوۓ ہم اٹھ کر اپنے کمرے میں آگۓ۔ ہم دونوں نے چونکہ صبح اپنے اپنے کاموں پہ جانا تھا اس لیۓ دونوں لیٹتے ہی سو گۓ۔
صبح میری آنکھ کھلی تو بند دروازے کے درمیان خالی جگہ سے دھوپ کی ہلکی سی لکیر گزر کر میرے پاؤں پر پڑ رہی تھی۔ گرمیوں میں یہی لکیر میرے ماتھے تک آجاتی تھی۔ دیر تک میں دھوپ کی لکیر میں سے چمکتے دھول کے ذرات کو دیکھتا رہا۔ جب میں بچہ تھا تو ایسے ذرات کو دیکھ کر خیران ہوتا تھا کہ دھوپ میں یہ کہاں سے آجاتے ہیں اور چمکنے لگتے ہیں۔ نہ جانے کتنی دیر تک میں ایسے ہی پڑے دھول کے ذرات کو دیکھتا رہا۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا اور نہا دھو کر تیار ہو گیا۔ جوتے پہننے کے بعد میں نے آخری دفعہ دیوار پر ٹنگا چھوٹا سا آئینہ دیکھ کر ٹاںئ درست کی اور فائل پکڑ کر باہر نکل آیا۔ انٹرویو کا وقت گیارہ بجے کا تھا، ابھی گیارہ ہونے میں پونا گھنٹہ تھا لیکن مجھے کافی دور جانا تھا اس لیۓ میں فوراً گاڑی میں سوار ہو گیا۔ میں جب اپنی منزل پر پہنچا تو گیارہ بج کر دس منٹ ہو چکے تھے۔ دفتر عمارت کی دوسری منزل پر تھا میں جلدی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اندر پہنچا تو کافی بھیڑ لگی تھی، بہت سے لوگ انٹرویو کے لیۓ آۓ تھے کوںئ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد میری باری آںئ۔ پندرہ بیس منٹ کے انٹرویو کے بعد میں باہر نکل آیا۔ انٹرویو لینے والے نے کہا کہ وہ بعد میں کال کر کے بتاۓ گا۔ میں جانتا تھا اس کا مطلب کیا ہے۔ میں عمارت سے باہر نکلا تو بارش ہونے لگی اتنی سردی میں میں بھیگنا نہیں چاہتا تھا اس لیۓ میں اردگرد کوںئ محفوظ جگہ تلاش کرنے لگا۔ عمارت کے باہر ہی ایک جگہ پر ایک آدمی نے لوہے کی چھت کے نیچے چند کرسیاں لگا رکھی تھیں اور ایک طرف چاۓ اور کافی کا سامان رکھے بیچ رہا تھا۔ اس نے چھوٹا سا اوپن ائیر کیفے بنا رکھا تھا۔ میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور ایک کپ چاۓ کا آرڈر دیا۔ کیفے چھوٹا تھا لیکن خوبصورت تھا اوپر سے کھلی فضا میں ہونے کے باعث زیادہ پرکشش لگتا تھا۔ اور آج تو بارش کی وجہ سے اس کی خوبصورتی اور کشش کو چار چاند لگ گۓ تھے۔ میں نے موبائل نکال کر وقت گزاری کے لیۓ تصویریں بنانی شروع کر دیں۔ ابھی میں اسی کام میں مصروف تھا کہ عمارت کے اندر سے ایک خوبصورت لڑکی باہر نکلتی دکھاںئ دی۔ بارش کی وجہ سے وہ بھی بھاگتی ہوںئ ادھر ہی آ نکلی اور دوسری قطار میں ایک میز پر بیٹھ گئ۔ اس نے اپنا موبائل بیگ میں سے نکالا مگر شاید موبائل کی بیٹری ختم ہونے کے باعث وہ بند ہو چکا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ میں کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کچھ سوچنے کے بعد وہ اٹھی اور میری جانب بڑھی میں کچھ خیران اور کچھ پریشان سا ہوا کہ یہ میری طرف کس لیۓ آرہی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا اس نے آتے ہی مجھ سے کہا: "آپ مہربانی کرکے مجھے ایک سیکنڈ کے لیۓ اپنا موبائل دیں گے میں نے ایک ضروری کال کرنی ہے میرا موبائل بند ہو گیا ہے۔"
جی جی ضرور۔" میں نے اسے اپنا موبائل فون دیتے ہوۓ کہا۔ اس نے کال ملا کر کسی سے بات کی اور اسے بتایا کہ وہ کس جگہ پر ہے اور بارش کی وجہ سے کچھ دیر کو رکی ہوںئ ہے وغیرہ وغیرہ۔ بات کرنے کے بعد اس نے موبائل میرے حوالے کیا اور شکریہ ادا کر کے واپس اپنی سیٹ پر جا بیٹھی۔ کافی دیر بعد بارش تھمی تو وہ اٹھی اور ایک طرف کو چل دی ، میں بھی اٹھا، پیسے ادا کیۓ اور دوسری طرف اپنے راستے چل دیا۔
بہت دنوں بعد میں ایک اور نوکری کے لیۓ ایک اور جگہ انٹرویو کے لیۓ گیا اور اسی طرح انٹرویو کے بعد دفتر سے نکل کر باہر سڑک پر آگیا۔ سڑک پر کھڑے ہو کر میں گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ چند منٹ بعد میری نظر ایک طرف سے آتی ہوئی ایک لڑکی پر پڑی۔ یہ وہی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس دفعہ بھی اس کا موبائل بیٹری ختم ہونے کے باعث بند تھا۔ وہ قریب آںئ اور آتے ہی مسکراتے ہوۓ بولی، " میں معافی چاہتی ہوں آپ کو دوبارہ تکلیف دے رہی ہوں۔۔۔آپ نے مجھے پہچان تو لیا ہو گا میرے موبائل کی بیٹری آج بھی ختم ہوگئ ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے ایسا میں جان بوجھ کر کر رہی ہوں مگر یقین کیجیۓ ایسا محض اتفاق ہے کہ دوسری بار بھی آپ ہی مجھے مل گۓ۔
میں نے ہنستے ہوۓ موبائل آگے کر دیا، "کوئی بات نہیں آپ کال کر لیجیۓ ہو جاتا ہے ایسا کبھی کبھی۔"
اس نے فون پر کسی کو بتایا کہ اس کا موبائل بند ہو گیا ہے اور یہ کہ وہ جس کام سے آئی تھی اس سے فارغ ہو گئ ہے۔ بات کر کے اس نے میرا موبائل مجھے شکریے کے ساتھ واپس لٹا دیا۔ مگر اس بار یونہی جانے کی بجاۓ ہماری وہیں کھڑے کھڑے کافی باتیں ہوئیں یہاں تک کہ ہم نے ایک دوسرے کو اپنا فون نمبر بھی دے دیا۔ اس نے بتایا اس کا نام سدرہ ہے۔ دوسری بات جو اس نے مجھے بتاںئ اس سے میں کسی حد تک چونک اٹھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد شہر کے بہت بڑے بزنس مین ہیں اور وہ ان کی اکلوتی بیٹی ہے۔ پہلے تو میں خیران ہوا پھر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا، " لیکن پھر آپ ایسے کیوں گھومتی ہیں، میرا مطلب اپنی گاڑی وغیرہ۔۔۔اس دن بھی آپ۔۔۔" میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
وہ بولی "میری گاڑی میرے ڈرائیور کے پاس ہے میں یہاں کسی کام سے آںئ تھی یہاں کافی دیر رکنا تھا اس لیۓ اسے واپس بھیج دیا میں نے اس کہا کہ میں خود ہی آجاؤں گی تم جاؤ۔"
میں اس سے کافی معروب ہو چکا تھا اس لیۓ جب اس نے مجھ سے میرے متعلق پوچھا تو پہلے تو میں سوچ میں پڑ گیا پھر میں نے اس سے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میں بھی ایک رئیس آدمی ہوں۔ بلکہ اس سے دو چار ہاتھ آگے بڑھ کر کہا کہ میں تو حال ہی میں یورپ سے لوٹا ہوں اور پہلی بار پاکستان سیرو تفریح کے لیۓ آیا ہوں۔ اور یہ کہ میری تو پیدائش ہی لندن میں ہوںئ تھی۔ اسی طرح کی باتیں بنانے کے بعد میں گھر آگیا۔
اگلے بہت سے دن ہماری فون پر باتیں ہوتی رہیں اور میں نے اسے اسی دھوکے میں رکھا، یہاں تک کہ میں نے اسے یورپ امریکہ کے جھوٹے اور فرضی قصے سناۓ۔ پہلے تو میں یہ قصے گھڑتے ہوۓ ڈرتا کہ کہیں اسے شک نہ ہو جاۓ اور میں پکڑا جاؤں مگر جب میں نے محسوس کیا وہ میرے فرضی قصے بڑی دلچسپی سے سنتی ہے اور اسے شک بھی نہیں ہوتا تو میں اور اعتماد سے جھوٹ بولنے لگا۔ میں خود بھی خیران تھا کہ اسے آخر پتہ کیوں نہیں چلتا یا ذرا سا بھی شک کیوں نہیں گزرتا کیونکہ جب ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ کیا کرتی ہے مطلب پڑھتی ہے یا نوکری وغیرہ تو اس نے کہا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں کرتی بس ملکوں ملکوں گھومتی ہے۔ اس نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ ملک میں کم اور بیرون ملک زیادہ رہتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ میرے گھڑے ہوۓ قصوں کو وہ پکڑ نہیں پاتی۔ بہرحال میں نے اس متعلق کوںئ زیادہ توجہ نہ دی اور اپنے کام میں لگا رہا۔ وقت گزرتا رہا۔ دوسری طرف میں اپنی نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا مگر مجھے ابھی تک کامیابی حاصل نہ ہوںئ تھی۔ پچھلی نوکری چھوٹے ہوۓ مجھے سات آٹھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا تھا اور اس دوران میں گھر والوں سے پیسے منگوا کر کھا رہا تھا۔ بڑے بھاںئ نے تو اب کہہ دیا تھا کہ اگر نوکری نہیں ملتی تو واپس گھر آجاؤ یہاں آکر کوشش کر دیکھو شاید یہاں کام بن جاۓ۔ والد صاحب نے تو مجھے پیشکش بھی کر دی تھی کہ تم اگر واپس آجاؤ تو میں کسی سے بات کر کے تمہیں اچھی سی ملازمت بھی دلوا دوں گا، وہ تو پہلے بھی میرے کراچی آنے کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ وہاں نوکری ملنی مشکل ہے اس لیۓ یہیں رہو مگر جب آتے ہی مجھے ملازمت مل گئ تو انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ مگر اب پھر دوبارہ ان کی پرانی خواہش جاگ اٹھی تھی، اس لیۓ میرے سر پر چار سو چالیس وولٹ کا خطرہ منڈلا رہا تھا کیونکہ کسی وقت بھی وہ حکم صادر کر سکتے تھے کہ اب اپنا بوریا بستر باندھو اور گھر لوٹ آؤ اب ہم سے مزید پیسے نہیں بھیجے جاتے کیونکہ آپ جناب کوںئ ریئس زادے نہیں بلکہ ایک معمولی سے اسکول ٹیچر کے فرزند ہیں۔
دس پندرہ دن اور اسی طرح گزر گۓ۔ ایک دن سکندر کو چھٹی تھی ہم دونوں دن کے وقت اپنے کمرے کے باہر چھوٹی سی بالکنی میں دھوپ میں بیٹھے تھے۔ بالکنی کیا تھی بس کمرے سے باہر چھوٹی سی دو تین آدمیوں کے کھڑے ہونے کے لیۓ جگہ تھی ہم سردیوں میں چھٹی والے دن دوپہر کو یہاں پیڑھے یا موڑھے رکھ کر بیٹھ جاتے اور نیچے گزرتی ٹریفک اور بھیڑ بھاڑ کو دیکھتے رہتے تھے۔ اس دن بھی ہم اسی طرح بالکنی میں بیٹھے دھوپ میں مالٹے کھا رہے تھے اور ان کے چھلکے شرارتاً نیچے گزرنے والوں پر پھینک رہے تھے۔ باتوں باتوں میں سدرہ کی بات چل نکلی۔ سکندر نے کہا، " تمہیں اس سے اس قدر جھوٹ نہیں بولنا چاہیۓ تھا اول تو بولنا ہی نہیں چاہیۓ تھا اور اگر بول دیا تھا تو اس کو اتنا طول نہیں دینا چاہیۓ تھا۔
بس یار کیا کروں" میں نے مالٹے کا چھلکا زور سے ہوا میں اچھالتے ہوۓ کہا: "اس وقت ایسے ہی بول دیا تھا اور پھر بولتا ہی چلا گیا سچ بتانے کا موقع ہی نہیں ملا"۔
تو اب بتا دو۔ معذرت کر لینا اور کہنا کہ ویسے ہی تمہارے اسٹیٹس سے متاثر ہو کر بول دیا تھا۔" سکندر نے مجھے سمجھاتے ہوۓ کہا۔
ہاں ٹھیک ہے پرسوں ہم نے ملنے کا پروگرام بنایا ہے مل کر بتا دوں گا، فون پر ایسی بات بتانا مناسب نہیں۔" میں نے چھلکا نیچے پھینکا جو کسی آدمی کے سر پر لگا اس نے سر اوپر اٹھایا اور اول فول بکنا شروع کر دیا ہم کچھ اس طرح بیٹھے تھے کہ نیچے سے اوپر دکھاںئ نہیں دیتا تھا۔ ہم زور زور سے ہنسنے لگے۔
اگلے دن مجھے ایک کال موصول ہوںئ۔ کال ایک کمپنی کی طرف سے تھی جہاں میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنا سی وی جمع کرایا تھا کیونکہ وہاں آدمی کی ضرورت تھی۔ انہوں نے مجھے کل انٹرویو کے لیۓ بلایا مگر مسئلہ یہ تھا کہ کل میں سدرہ کے ساتھ ملاقات کا وعدہ کر چکا تھا اور یہ ملاقات میں کسی صورت کینسل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ پچھلے دنوں بھی میں اس سے ایک ملاقات کا پروگرام بنا کر کینسل کر چکا تھا۔ اور اب کی بار اگر میں نے ایسا کیا تو اسے ضرور یہ خیال گزرے گا کہ میں یہ جان بوجھ کر اسے نظرانداز کرنے کے لیۓ کر رہا ہوں۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ سکندر نے مجھے مشورہ دیا کہ تم اس سے ملو اب کی بار کینسل مت کرو، اب کی بار اگر نہیں ملو گے تو وہ سچ مچ کچھ اور ہی سوچے گی۔ رہی انٹرویو کی بات تو انہوں نے تمہیں صرف انٹرویو کے لیۓ بلایا ہے ملازمت پر رکھ نہیں لیا، ایسے کتنے انٹرویو تم پہلے بھی دے چکے ہو وہاں کچھ بنا کیا؟ اس لیۓ اب کی بار بھی یوں سمجھنا کہ کچھ نہیں بنا۔ مجھے سکندر کی بات معقول لگی کیونکہ واقعی اگر میں اس دفعہ کوںئ بہانا بناتا تو سدرہ ضرور میرے بارے میں غلط خیال کرتی پہلے ہی میں بہت سے جھوٹ بول چکا تھا۔ شاید اسے پہلے بھی شک ہوا ہو مگر اس نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا ہو۔ یہی سوچ کر میں نے اگلے دن کی تیاری کی اور سکون سے سو گیا۔
صبح میں اپنے معمول کے مطابق اٹھا، روزمرہ کے کام نمٹاۓ اور وقت پر تیار ہو کر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد میں منزل پر پہنچ گیا، میں سوچ رہا تھا مجھے دیر ہوگئ ہے وہ میرا انتظار کر رہی ہو گی مگر وہ ابھی نہیں آںئ تھی۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد جب وہ نہ پہنچی تو میں نے فون ملایا، اس کے فون اٹھاتے ہی میں برس پڑا۔
کہاں رہ گئ ہو معلوم ہے میں ایک گھنٹے سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔" میں نے ایسے ہی اس پر رعب جمانے کے لیۓ ایسا کہا ورنہ حقیقت میں مجھے یہاں آۓ صرف دس منٹ ہوۓ تھے۔ وہ بیچاری کچھ شرمندہ سی ہوںئ اور بولی: "میں معافی چاہتی ہوں وہ دراصل کل ہماری بات نہیں ہو سکی مجھے تمہیں بتانا تھا کہ میں آج نہیں آسکتی مجھے کسی ضروری کام سے کہیں جانا ہے"۔
"مگر میں یہاں۔۔۔مطلب مجھے بتانا تو چاہیۓ تھا۔۔۔میں۔۔۔" میں نے غصے سے فون بند کر دیا۔ بعد میں اس نے دو تین بار مجھے کال کر کے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر میں نے جان بوجھ کر فون نہ اٹھایا۔ میں نے وقت دیکھا تو ابھی انٹرویو کا وقت باقی تھا میں نے سوچا اگر میں ابھی بھی جلدی کروں تو شاید اپنی باری تک پہنچ جاؤں۔ اس لیۓ میں جلدی سے بس میں بیٹھا اور کچھ سفر طے کرنے کے بعد اتر کر رکشہ پکڑ لیا تا کہ وقت پر پہنچ سکوں۔ میں جب وہاں پہنچا تو دیکھا دفتر میں انٹرویو کے لیۓ صرف ایک دو آدمی بیٹھے ہیں اس کا مطلب تھا کہ باقی لوگ انٹرویو دے کر جا چکے ہیں۔ میں استقبالیہ کاؤنٹر پر گیا وہاں ایک لڑکی بیٹھی تھی میں نے اس سے پوچھا۔
میرا نام اختر ہے اور مجھے یہاں جاب انٹرویو کے لیۓ بلایا گیا ہے"۔
ریسپشنسٹ نے مجھے اوپر سے لے کر نیچے تک دکھا پھر بولی: "میں معذرت خواہ ہوں، آپ کافی دیر سے آۓ ہیں انٹرویو تو ہو چکے ہیں بلکہ اب تو ایک امیدوار کو منتخب بھی کر لیا گیا یے"۔
اچھا آپ بتا سکتی ہیں وہ کون ہیں جس کو یہ نوکری دی گئ ہے؟" مجھے اس سے قطعاً کوںئ دلچسپی نہیں تھی مگر ایسے ہی میں نے اپنی خفت مٹانے کے لیۓ یہ سوال کر ڈالا۔
جی ضرور" وہ مسکراتے ہوۓ بولی، " ان کا نام سدرہ حسین ہے۔
نام سن کر میں چونکا: "جی کیا کہا آپ نے۔۔۔ سدرہ حسین"؟
اس نے قدرے خیرت سے پوچھا، " جی ہاں، آپ جانتے ہیں انہیں؟ ۔۔۔ وہ ابھی دفتر میں ہی ہیں کچھ ضروری کاغذات پر ان کے دستخط چاہیۓ تھے اس لیۓ ابھی انہیں روک کر رکھا ہے۔
"نہیں جانتا نہیں۔۔۔۔ہوں۔۔۔شاید"
میں واپس پلٹا اور کچھ دور جا کر ایک طرف کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا۔ "وہ تو نہیں ہو سکتی یقیناً، وہ اتنے بڑے باپ کی بیٹی ہے وہ بھلا یہ معمولی سی نوکری کیوں کرنے لگی۔" میں یہی سوچ رہا تھا کہ ایک طرف سے ایک کمرا کا دروازہ کھلا اور ایک لڑکی باہر نکلی، نکلتے ہی ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا، دونوں کی نظریں ملیں اور پھر بیک وقت جھک گئیں۔
۔
Post a Comment
Thank you for your comment