یہاں سے جلدی چلو یہاں خطرہ ہے۔" کاشف نے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوۓ کہا۔
خطرہ کہاں نہیں ہے میری جان۔' محمود اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوۓ بولا، "اب تو ہر جگہ خطرہ ہے اور میں اس میں خواہ مخواہ پھنس گیا ہوں۔"
"ایک تو تم اپنا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہو" کاشف نے چڑتے ہوۓ کہا، " تم پھنسے ہو تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔"
محمود اس کے برابر آتے ہوۓ بولا، "اچھا تو کس کا قصور ہوا پھر۔۔۔وہ میرے پیچھے اس لیۓ پڑے ہیں کہ میں تمہارا دوست ہوں اور انہیں شبہ ہے کہ میں بھی انہی سرگرمیوں میں ملوث ہوں جن میں تم ہو۔ اور آج تو وہ مجھے پکڑ ہی لیتے اگر عین وقت پر میں وہاں سے فرار نہ ہو جاتا۔"
اچھا! تو وہاں سے تمہیں فرار کروایا کس نے؟" کاشف چلتے چلتے ایک دم رک گیا۔ "میں ہی تمہیں وہاں سے نکال کے لایا ہوں۔ سمجھے۔۔۔؟"
" ہاں تو کون سا احسان کیا ہے پھنسا بھی تو تمہاری وجہ سے ہی تھا۔"
"چلو ٹھیک ہے اب اپنی بکواس بند کرو۔" کاشف پھر سے تیزی سے چلنے لگا۔ ابھی وہ چند قدم چلا تھا کہ ایک طرف سے پولیس کی گاڑی کے سائرن کی آواز سناںئ دی۔ دونوں جلدی سے سڑک سے نیچے اتر گۓ اور جھاڑیوں میں چھپ گۓ۔ پولیس کی گاڑی آںئ اور گزر گئ۔ دونوں باہر نکل آۓ، کاشف نے کپڑے جھاڑتے ہوۓ کہا، " کہا تھا نا یہاں خطرہ ہے پھر بھی تمہیں بکواس سوجھی ہوںئ تھی۔ اب جلدی چلو صبح ہونے والی ہے اس لیۓ اجالا ہونے سے پہلے ہمیں اپنی منزل پر پہنچ جانا چاہیۓ۔" محمود چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا۔
سڑک ویران اور سنسان تھی اردگرد کوںئ عمارت بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کچھ دیر چلنے کے بعد وہ قدرے بارونق علاقے میں پہنچ گۓ، جہاں دونوں اطراف عمارتیں تھیں جن میں زیادہ تر ہوٹلز، ریستوران اور پڑول پمپس تھے۔ یہاں خطرہ پہلے سے بھی بڑھ کر تھا اس لیۓ وہ مختاط انداز سے چلنے لگے۔
"یار گاڑی میں بیٹھ جانا چاہیۓ"۔ محمود دونوں ہاتھوں سے اپنی ٹانگوں کو دباتے ہوۓ بولا، "میں پیدل چل چل کر تھک گیا ہوں میری ٹانگیں جواب دے گئ ہیں۔"
"بس تھوڑی دیر اور چلتے رہو آگے سے ہمیں گاڑی مل جاۓ گی۔" کاشف نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔
وہ وہیں سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ "میں کہیں نہیں جا رہا۔ یہ اچھی بات ہے۔۔۔ میرا کوںئ تعلق بھی نہیں اور میں ایسے ہی بھاگتا پھروں۔ دھنگے، ہڑتالیں، سڑکیں تم لوگ بند کرتے ہو اور مجھے خواہ مخواہ پکڑا جا رہا ہے صرف اس لیۓ کہ میں تمہارا دوست ہوں۔"
" دیکھو میرے یار"۔۔۔ محمود اس کے پاس آکر پیار سے بولا، "فی الحال ان باتوں کا کوںئ فائدہ نہیں اگر اس وقت پولیس نے یہاں ہمیں دیکھ لیا اور ہمیں پہچان لیا تو فوراً گرفتار کر لیں گے اس لیۓ بہتری اسی میں ہے جلدی سے یہاں سے نکل جائیں ٹھکانے پر پہنچ کر بات کریں گے۔"
کاشف مجبوراً اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں پھر سے چلنے لگے۔ کچھ ہی دور جا کر انہیں ایک بس مل گئ۔
بس مسافروں سے تقریباً بھری ہوںئ تھی۔ آدھی رات سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا اس لیۓ سب مسافر اونگ رہے تھے۔ گھنٹے بھر بعد بس نے انہیں ایک بڑی سڑک پر اتار دیا۔ ہلکی سی روشنی پھیل چکی تھی اور کہیں کسی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز آرہی تھی۔ دونوں سڑک سے ہٹ کر ایک طرف چلنے لگے۔ سڑک کے کنارے ایک چاۓ کا کھوکھا تھا اور چند ایک دوسری دکانیں تھیں جو ابھی بند تھیں۔ کھوکھے کے باہر بنچ پر دو آدمی بیٹھے چاۓ، سگریٹ وغیرہ پی رہے تھے۔ کاشف نے ان کے پاس جا کر پوچھا، " السلام علیکم بھاںئ جی۔۔۔ یہاں سے محلہ کریم آباد کے لیۓ کوںئ گاڑی یا رکشہ وغیرہ مل جاۓ گا؟" ایک آدمی بولا، " یہاں سے تو نہیں اس سڑک پر چلے جائیں،" اس نے ایک طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوۓ کہا، "وہاں کچھ فاصلے پر رکشہ سٹینڈ ہے وہاں آپ کو رکشہ یا چاند گاڑی مل جاۓ گی۔"
"بہت مہربانی جناب۔"
دونوں اس سڑک پر چل پڑے چند قدم چلنے کے بعد انہیں وہاں چاند گاڑیاں کھڑی دکھاںئ دیں۔ ڈرائیور مختلف علاقوں کی آوازیں لگا کر سواریوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔ محلہ کریم آباد کی آواز سنتے ہی وہ ایک چنگ چی رکشہ کے پاس رک گۓ۔ محلہ کریم آباد جاؤ گے؟" کاشف نے اس سے تصدیق کی غرض سے پوچھا۔
"جی ہاں بابو جی جاواں گے کیوں نہیں، جان واسطے ای تے کھلوتے آں۔"
دونوں خالی رکشے میں بیٹھ گۓ۔ اردگرد اگرچہ اور کوںئ سواری دکھاںئ نہیں دے رہی تھی مگر ڈرائیور مسلسل صدا لگا رہا تھا۔ " کریم آباد۔۔۔کریم آباد۔۔۔کریم آباد۔"
" کتنی دیر تک چلو گے؟" اس بار محمود نے سوال کیا۔
"بس باؤ جی چلنے ہی لگے ہیں۔" رکشہ ڈرائیور کا جواب سن کر دونوں بالکل متاثر نہ ہوۓ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ڈرائیور نے یہ بات محض انہیں ٹالنے کے لیۓ کہی ہے چلے گا وہ تب ہی جب رکشہ بھر جاۓ گا یا چند سواریاں اور آجائیں گیں۔ کافی دیر گزر گئ کوںئ سواری نہ آںئ دونوں نے اکتا کر سگریٹ سلگا لیۓ۔ ابھی وہ سگریٹ پی رہے تھے کہ اسی جانب سے جہاں سے وہ دونوں آۓ تھے چند لوگ آتے دکھاںئ دیۓ۔ انہی میں سے دو ایک سواریاں ڈرائیور کو مل گئیں۔ کچھ دیر بعد اردگرد سے بھی چند لوگ آگۓ اور رکشہ چل پڑا۔ لگ بھگ بیس پچیس منٹ کے سفر کے بعد وہ کریم آباد پہنچ گۓ۔ انہوں نے ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا اور سڑک پار کرکے دوسری طرف بڑی سی گلی میں اتر گۓ۔
گلی کے دونوں جانب مکانات تھے۔ کہیں کہیں گھروں کے اندر لوگوں نے کریانے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ انہوں نے ایک دکان سے اختر حسین کے گھر کا پتہ پوچھا دکان والے نے انہیں سیدھا چلتے رہنے کو کہا اور کافی آگے بائیں جانب ایک موڑ مڑنے کو کہا۔ وہ سیدھا چلتے رہے، صبح صبح کا وقت تھا گلی میں سکول اور کالج جاتے ہوۓ بچوں کی اور ان کو سکول کالج چھوڑنے والی گاڑیوں اور رکشوں کی آمدورفت شروع ہو چکی تھی۔ ہلکی ہلکی دھوپ بھی نکل آئی تھی مگر گلی کے اندر اس قدر دھوپ کا احساس نہیں ہوتا تھا بس کہیں کہیں جہاں مکان چھوٹے تھے یا جہاں دو گھروں کے بیچ ایک خالی جگہ سی بن گئ تھی وہاں سے دھوپ کی ایک لیکر گلی میں داخل ہو رہی تھی۔ گلی کہیں سے ٹوٹی ہوںئ تھی اور کہیں گھڑے سے بن گۓ تھے جن کے اندر پانی اور کیچڑ کھڑا رہتا تھا۔ اوپر بجلی کی تاروں کا ایک جال تھا جس نے گلی کے اوپر ایک قسم کی چھت سی بنا رکھی تھی۔ دونوں طرف نالیاں تھیں جن سے گدلا پانی ابل ابل کر باہر آرہا تھا۔ مرکزی گلے کے اردگرد چھوٹی چھوٹی تنگ و تاریک گلیاں تھیں جہاں سے بمشکل ایک وقت میں ایک آدمی ہی گزر سکتا تھا۔ ان تنگ گلیوں کے اندر بھی دونوں اطراف چھوٹے چھوٹے مکان تھے۔
گلی کے درمیان میں جا کر بلکل ویسا ہی موڑ آگیا جیسا انہیں دکاندار نے بتایا تھا۔ موڑ مڑ کر کاشف کو سگریٹ کا خیال آیا اس نے محمود سے سگریٹ مانگا۔
"وہ تو ختم ہو چکے ہیں" محمود بولا، " وہ آگے دکان نظر آرہی ہے وہاں سے سگریٹ بھی لے لیتے ہیں اور ایک بار پھر اختر کے گھر کا پتہ پوچھ لینا چاہیۓ کہیں ہم غلط سمت نہ جا رہے ہوں۔" اس نے سامنے ایک دکان کی طرف بڑھتے ہوۓ کہا۔ دکان چھوٹی سی تھی جس میں دو لوگ پہلے سے ہی اندر کھڑے تھے اس لیۓ محمود باہر رک کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ دکان کا مالک جو کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑا تھا دونوں گاہکوں میں سے ایک کو جو بارہ تیرا سال کا بچہ تھا کوںئ چیز دیتے ہوۓ کہہ رہا تھا، "ابو سے کہنا یہ آج والے سودے کو ملا کر پندرہ سو روپے ہو گئے ہیں انہوں نے جمعے کی بات کی تھی آج چوتھا دن ہے مگر ابھی تک پیسے نہیں ملے۔"
"جی اچھا۔" لڑکا دکان سے باہر نکل آیا۔ اس کے نکلنے کے بعد محمود سلام کرتے ہوۓ اندر داخل ہوا، " ایک گولڈ لیف کا پیکٹ دینا۔" اس نے پیکٹ مانگا جو دکاندار نے پاس ہی ایک خانے سے اٹھا کر اسے دے دیا۔ "یہ لیں جی گولڈ لیف، اور کوںئ چیز؟" دکاندار نے پیکٹ دیتے ہوۓ پوچھا۔
"جی نہیں شکریہ"۔۔۔ اچھا آپ بتا سکتے ہیں اختر حسین کا گھر کہاں ہے؟"
"اختر حسین۔۔۔" دکاندار نے سوچتے ہوۓ کہا، "وہ جو ابھی ابھی نیا نیا وکیل لگا ہے وہی اختر حسین؟"
"جی جی وہی۔"
"اچھا اچھا! اس کا گھر یہ پاس ہی ہے آپ ایسا کریں سیدھا چلتے جائیں آگے ایک موڑ آۓ گا وہ موڑ مڑنے سے پہلے اسی ہاتھ ایک ہرے رنگ کا لوہے کا دروازہ آۓ گا وہ اشرف حسین کا ہی گھر ہے۔ " دکاندار خاموش ہوا مگر اس سے پہلے کہ محمود کچھ کہتا پھر بول پڑا، " ویسے ایک بات ہے آج کل اس کے گھر جانا بڑا خطرناک ہے شہر بھر میں ہڑتالیں اور دھنگے ہورہے ہیں اور آپ جانتے ہی ہوں گے اختر کو پولیس کسی وقت بھی گرفتار کر سکتی ہے۔"
"جی جی میں جانتا ہوں میں بھی انہی میں سے ایک ہوں بس سمجھیۓ اگر گرفتار ہوۓ تو ہم دونوں اکٹھے ہی ہوں گے۔" محمود نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"پھر تو ٹھیک ہے۔" دونوں ہنس پڑے۔ محمود نے سلام کیا اور باہر نکل آیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد دائیں جانب ایک سبز رنگ کا لوہے کا دروازہ آیا، "شاید یہی گھر ہے۔" محمود نے رکتے ہوۓ کہا پھر دروازے کی جانب بڑھا دروازے پر گھنٹی نہیں تھی اس نے ہاتھ سے دروازہ بجایا اور انتظار کرنے لگا۔ مگر جب کوںئ باہر نہ آیا تو اس نے دوبارہ دروازہ بجایا۔ چند لمحوں بعد چھت سے آواز آںئ، "شکر ہے تم لوگ آگۓ میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔" انہوں نے اچانک اوپر دیکھا چھت پر اختر ڈرتے ڈرتے گلی میں جھانک رہا تھا۔ "ایک سیکنڈ میں نیچے آکر دروازہ کھولتا ہوں۔"
اس نے مرکزی دروازے کے ساتھ بائیں جانب بیٹھک کا دروازہ کھولتے ہوۓ انہیں جلدی سے اندر آنے کو کہا۔ جونہی وہ اندر آۓ وہ ان پر برس پڑا، " یار کہاں تھے تم لوگ میں رات بھر سے تم لوگوں کو فون کر رہا ہوں مگر تم فون اٹھا ہی نہیں رہے تھے۔ میں نے سمجھا شاید تم لوگ بھی پکڑے گۓ ہو۔"
"یار میرا فون تو کل جلدی میں بھاگنے کی وجہ سے وہیں چھوٹ گیا تھا"۔ کاشف نے کھڑکی کے پاس رکھی ایک کرسی پر گرتے ہوۓ کہا۔
" اور میرا فون راستے میں کہیں گر گیا۔" محمود بھی دیوار کے ساتھ نیچے فرش پر بچھی ایک چھوٹی سی چٹاںئ بیٹھ گیا۔ " تم نہ پوچھو کتنی مشکلوں سے بھاگتے بھاگتے ہم یہاں پہنچے ہیں۔" محمود نے اسے بتایا۔
"مشکلیں تو پھر ایسے کاموں میں اٹھانی پڑتی ہیں۔" اختر نے دیوار کے ساتھ بچھی ہوںئ چارپاںئ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
" تو میں کیوں اٹھاؤں مشکلیں، تم لوگ اٹھاؤ" محمود چلایا، "میں تو اس پوری تحریک میں کہیں شامل نہیں ہوں بلکہ الٹا میں تو اس کے خلاف ہوں۔ صرف تم لوگوں سے دوستی ہے اس کا مطلب کیا یہ ہوا میں بھی اس میں شریک ہوں۔"
"یار محمود میری بات سنو تم اس میں شامل نہیں تھے اور یقیناً اب بھی نہیں ہو مگر یہ بات صرف ہم جانتے ہیں وہ لوگ نہیں جانتے۔" اختر نے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا"اس لیۓ اب کچھ عرصہ کے لیۓ تو تمہیں یہ سب برداشت کرنا ہی پڑے گا۔"
"بالکل یہی بات میں اسے سارے راستے سمجھاتا آرہا ہوں۔" اس بار کاشف نے کہا۔
"اچھا چلو اب میں تمہارے لیۓ ناشتے وغیرہ کا بندوبست کرتا ہوں تم اتنی دیر کمر سیدھی کر لو۔"
اختر نے اٹھتے ہوۓ کہا اور کمرے کے دوسرے دروازے سے جو گھر کے اندر کھلتا تھا باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد کاشف چارپاںئ پر آکر لیٹ گیا اور محمود وہیں چٹاںئ پر دراز ہو گیا۔ کاشف لیٹتے ہی خراٹے لینے لگا مگر محمود نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ کمرا زیادہ چھوٹا نہیں تھا مگر اتنا بڑا بھی نہیں تھا۔ جدید طرز کے ڈرائینگ روم کی طرح تو نہیں البتہ پرانی بیٹھکوں سے ملتا جلتا تھا جس کا دروازہ باہر گلی میں کھلتا تھا۔ دیوار میں ایک ڈھلوان سی بنا کر اس میں لکڑی کی پھٹیوں سے دو تین خانے بنا دیۓ جاتے تھے جن کو خوبصورت شیٹوں سے ڈھانپ دیا جاتا اور جن کے اوپر پیتل اور چاندی کے برتن خوبصورتی سے سجاۓ جاتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا وہاں برتنوں کی بجاۓ دوتین کتابیں رکھی ہوئی تھیں اور چند ایک گھریلو اشیا جیسا کہ کنگھی اور آئینہ وغیرہ پڑے تھے۔ سامان بھی سادہ سا تھا جس میں دو ایک پلاسٹک کی کرسیاں تھیں اور ایک لکڑی کا میز تھا جو یقیناً مہمانوں کو چاۓ وغیرہ پیش کرنے کی غرض سے رکھے گۓ تھے۔ دیوار کے ساتھ چارپاںئ بھی مہمان کے لیۓ یا گھر میں جگہ کم ہونے کے باعث یہاں رکھ دی گئ تھی۔ یہ چیزیں تو یہاں مستقل طور پر تھیں مگر چٹاںئ معلوم نہیں کس وجہ سے پڑی ہوئی تھی۔ یہاں سب گھر اسی طرح کے تھے۔ چھوٹے چھوٹے، تنگ و تاریک۔۔۔ مشکل سے تین تین چار چار کمروں کا ایک ایک مکان تھا جس میں دس پندرہ افراد ایک ساتھ رہتے تھے۔
بیٹھک میں دروازے کے ساتھ ایک کھڑکی تھی جس کے آگے ایک رنگین پردہ جھول رہا تھا۔ اس کے عین اوپر دیوار پر ایک گھڑی ٹنگی تھی اور اس کے ساتھ ہی ایک کیلنڈر لٹکا تھا جو دو ماہ پہلے کی تاریخ دکھا رہا تھا۔ چھت پر عین وسط میں پنکھا لٹک رہا تھا۔ اگرچہ جرسی ،سویٹر وغیرہ کا موسم ابھی نہیں آیا تھا مگر پنکھا چلانے سے سردی محسوس ہوتی تھی اسی لیۓ یہ اس وقت بند پڑا تھا۔
کچھ دیر بعد محمود بھی گہری نیند سو گیا۔ کوںئ آدھ گھنٹے بعد اختر ہاتھ میں ناشتے کا سامان لیۓ کمرے میں داخل ہوا۔ منہ ہاتھ دھونے اور ناشتہ کرنے کے بعد کاشف کو اپنے کپڑوں اور جوتوں کا خیال آیا۔ محمود نے جینز، ٹی شرٹ اور بوٹ پہن رکھے تھے اس لیۓ اس کے کپڑے تو سلامت تھے مگر کاشف کا کل رات بھاگتے ہوۓ شلوار کا پائنچہ پھٹ گیا تھا اور سینڈل کی ہک بھی ٹوٹ گئ تھی۔ اختر نے اسے اپنے کپڑے لا کر دیۓ جسے پہننے کے بعد وہ غسل خانے سے نکل کر کمرے میں پہنچا ہی تھا کہ باہر گلی میں پولیس کی گاڑی کے سائرن کی تیز آواز گونجی۔ تینوں فوراً چوکنے ہو گۓ۔ اختر نے انہیں جلدی سے اپنے پیچھے آنے کو کہا اور خود دروازے سے نکل کر گھر کے اندر کمرے کے ساتھ سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گیا۔ وہ دونوں بھی اس کی پیروی کرتے ہوۓ سیڑھیاں چڑھ گۓ۔ چھت پر پہنچ کر اختر نے نظر بچاتے ہوۓ نیچے گلی میں جھانکا مگر وہاں کوںئ نہیں تھا۔ وہ منڈیر سے ہٹ آیا۔ "لگتا ہے گاڑی آگے گزر گئ۔" انہوں نے سکھ کا سانس لیا اور واپس کمرے میں آگۓ۔ چند لمحے تینوں خاموشی سے بیٹھے نہ جانے کن خیالوں میں گم رہے بالآخر اختر نے خاموشی کو توڑتے ہوۓ کہا، "میں تو سوچ رہا تھا آج شام کے جلسے میں شرکت کریں گے مگر ان حالات میں تو مشکل لگ رہا ہے."
"اب تو شاید جلسہ ہو گا بھی نہیں یا اگر ہوا بھی تو بہت کم تعداد ہو گی۔" کاشف بولا۔
" تم لوگ پاگل ہوگۓ ہو" محمود نے تقریباً چیختے ہوۓ کہا," اب بھی جلسے میں جانے کا سوچ رہے ہو۔۔۔"
"تو کیا کریں تمہاری طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھیں رہیں یا موج مستی کریں۔" کاشف چلایا۔
"ہاں یہ بات تو صحیح ہے موج مستی کرنے سے تو انقلاب نہیں آۓ گا۔" اس بار اختر نے کہا۔
"تو تم لوگ انقلاب لانا ہی کیوں چاہتے ہو۔۔۔میرے بھاںئ یہ انقلاب واب سب فراڈ ہوتے ہیں۔۔۔یہ نظر کا دھوکا ہیں محض نظر کا دھوکا۔ انہوں نے آج تک دنیا کو فساد اور تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا۔"
"رہنے دو تم اپنی فلاسفی اپنے پاس رکھو۔" کاشف نے اسے ڈانتے ہوۓ کہا، "اگر یہ سب نہ ہو تو تبدیلی کیسے آۓ گی۔"
محمود نے نرمی سے ٹھہر ٹھہر کر کہا، "میرے بھاںئ تبدیلی علم سے آۓ گی۔۔۔ تعلیم سے آۓ گی۔۔۔ محبت سے، بھاںئ چارے سے، شعور سے آۓ گی اور ۔۔۔ اور اعلیٰ اخلاق سے آۓ گی۔۔۔ ان دھنگے فساد ،لڑاںئ جھگڑوں ، مارکٹاںئ ، اور نفرت انگیز نعروں سے کبھی بھی مثبت تبدیلی یا مثبت انقلاب نہیں آسکتا۔"
چھوڑو یار اس بحث کو۔" اختر نے موضوع بدلا، "ابھی ہمیں یہ سوچنا چاہیۓ کہ ہم پولیس سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔"
"اس کے لیۓ ہم کیا کر سکتے ہیں اب تو جو کرنا ہے پولیس نے ہی کرنا ہے۔" محمود مسکرایا۔ وہ دونوں بھی ہنس پڑے۔
"اچھا یار اختر تمہارا سارا گھر خالی کیوں ہے گھر والے کہیں گۓ ہوۓ ہیں؟" محمود نے پوچھا۔
"ہاں وہ ہمارے گاؤں میں شادی ہے سب گھر والے وہیں گۓ ہوۓ ہیں۔"
تینوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور پھر تینوں رات بھر کی بیداری سے تھک کر سو گۓ۔
جب محمود کی آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں اکیلا تھا۔ اس نے اٹھ کر پردہ ہٹا کر کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا گلی میں شام اتر آئی تھی۔ وہ کمرے سے باہر نکل آیا باہر بھی کوںئ نہیں تھا پھر کچھ سوچ کر چھت پر چڑھ گیا۔ کاشف منڈیر کی دیوار پہ ہاتھ ٹکاۓ سامنے کہیں دیکھ رہا تھا مگر اختر کہیں نہیں تھا شاید کسی کام سے باہر گیا تھا۔ چند لمحے کاشف کو بالکل بھی معلوم نہ ہوا کہ محمود اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ محمود نے اسے پکارا، "خیریت تو ہے اتنے مگن ہو کر کیا دیکھ رہے ہو۔" اس نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ "ہونہہ" ۔۔۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولا، "ایک خاص چیز دیکھی ہے۔"
"اچھا! ایسا کیا خاص دیکھ لیا؟" محمود نے خیرت سے پوچھا۔
"دو آنکھیں۔۔۔دو حسین آنکھیں۔"
"اچھا جی! کہاں، کیسے۔۔۔پھر تو کمال ہو گیا؟
"ہاں سچ میں کمال ہو گیا۔" اس نے پاس پڑی چارپاںئ پر گرتے ہوۓ کہا۔
رات بھر کاشف بے چین رہا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کب صبح ہو اور کب اگلی شام آۓ اور وہ پھر سے ان دو آنکھوں کو دیکھے۔ تمام شب اس نے سوتے جاگتے میں کاٹی۔ دن بھر اس نے ان دونوں سے پولیس، جلسے اور انقلاب وغیرہ کے متعلق کوںئ بات نہ کی۔ اور نہ ہی محمود سے کسی قسم کی کوںئ بحث کی۔ وہ شام کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا یہ جانتے ہوۓ بھی کہ اس بات کے امکانات بہت کم تھے کہ آج شام کو پھر سے اسے وہ دو حسین آنکھیں دکھائی دے جائیں۔ محمود اور اختر نے بھی اس کی بے چینی بھانپ لی تھی اور وہ جانتے تھے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ وہ دونوں دن بھر اسے چھیڑتے رہے۔
شام ہونے سے کافی دیر پہلے ہی وہ چھت پر پہنچ گیا اور بے صبری سے ان دو آنکھوں کا انتظار کرنے لگا۔ آخرکار اس کا انتظار ختم ہوا وہ دو آنکھیں بالکل اس کے سامنے تھیں۔ وہ انہیں ٹکٹکی باندھیں دیکھ رہا تھا۔ اس بار اس نے ان آنکھوں میں چھپی ہوئی مسکراہٹ بھی دیکھ لی تھی۔ اس نے سوچا اگر وہ مصور ہوتا تو مونالیزا کے بعد دنیا کو ایک نیا شہکار دے سکتا تھا۔ ابھی وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ محمود اور اختر بھی چھت پر پہنچ گۓ۔ اختر دور ہی سے بولا، "کیوں دیکھیں پھر وہ دو آنکھیں ۔۔۔"
"اش آہستہ۔۔۔آواز جاتی ہے ادھر۔۔۔ہاں دیکھیں ہیں۔"
"واہ بھاںئ واہ پھر تو کمال ہی ہو گیا۔" اختر دوبارہ بولا۔ "اور وہ جلسہ۔۔۔ آج میں سوچ رہا تھا کہ کیوں نا جلسے میں چلیں۔" اختر نے شرارتاً کہا۔
"نہیں میں نے فیصلہ کر لیا ہے اب میں جلسے میں شرکت نہیں کروں گا۔" اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوۓ کہا۔ " بلکہ اب سے یہ ساری سرگرمیاں بند۔"
اور وہ انقلاب۔۔۔؟" اس بار محمود نے پوچھا۔
"نہیں میں جان گیا ہوں تم ٹھیک کہتے ہو، تبدیلی صرف علم سے آۓ گی اور محبت سے۔" اس نے سگریٹ کا کش لیا اور دھواں فضا میں چھوڑتے ہوۓ کہا۔
"ہاں اور اگر محبت خاص کر ان دو آنکھوں سے ہو تو کیا ہی کہنے۔۔۔" محمود نے شرارت سے کہا۔
تینوں نے بلند آواز سے قہقہہ لگایا۔
Post a Comment
Thank you for your comment