Drizzling Of Love

Drizzling Of Love


 


"جھوٹ مجھے ذرہ پسند نہیں۔" میں نے لوہے کے چھوٹے سے جنگلے پر کہنی ٹکاتے ہوۓ کہا، "بلکہ جھوٹ سے مجھے نفرت ہے۔"


"آہاہاہا۔۔۔تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے تم نے کبھی زندگی میں جھوٹ بولا ہی نہیں۔" وہ لڑنے کے سے انداز سے بولی۔ 


"نہیں ایسا نہیں ہے میں نے بھی کئ دفعہ بولا ہو گا، مگر میں آخری حد تک کوشش کرتا ہوں کہ جھوٹ بولنے سے بچ سکوں، خاص کر اپنی زندگی سے متعلق تو میں ہمیشہ سچ ہی بتانے کی کوشش کرتا ہوں اور اگر نہ بتا پاؤں تو خاموش رہتا ہوں۔" میں نے وہیں کھڑے کھڑے، دروازے پر کہنی ٹکاۓ اپنی بات کی وضاحت کی۔ 


"تو اس سے تو زندگی مشکل نہیں ہو جاتی؟" اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔


"نہیں" میں بولا، " یقین کرو بلکہ بہت سہل ہو جاتی ہے۔" 


"ہوں!۔۔۔اچھا بتاؤ تم نے زیادہ تر جھوٹ کب بولا یا کب بولتے ہو"؟ اس نے وہیں کھڑے کھڑے دوبارہ سوال کیا۔


میں نے جنگلے سے ہاتھ اٹھایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کو کھینچتے ہوۓ بولا، " چلو اب یہاں سے کہ یہیں کھڑے کھڑے ساری باتیں کرنی۔" وہ میرے ساتھ چل پڑی، ہم گلی میں چلنے لگے۔ " ہاں تو کیا پوچھا تم نے میں جھوٹ کب بولتا ہوں؟" میں نے اس کا سوال دہرایا، "سچی بتاؤں تو ابھی تو اتنا نہیں ہاں بچپن میں سکول کا کام نہ کرنے کی وجہ سے اگر ٹیچر کی مار کا ڈر ہوتا تو بول دیا کرتا تھا۔ "


"واہ نائیس(nice)۔ یہ بھی اچھا ہے، اس وقت تو سبھی بولتے ہیں۔ اچھا یہ تم مجھے میری سالگرہ والے دن کہاں لے آۓ۔ یہ بھی کوںئ جگہ ہے سالگرہ منانے کی۔ " 


"اتنی اچھی جگہ تو ہے مجھے تو پورے شہر میں اس سے اچھی جگہ کہیں نہیں ملی۔" ہم دونوں بائیں جانب ایک گلی میں مڑ گۓ۔ گلی کافی کشادہ تھی جس کے دونوں اطراف خوبصورت کھانے پینے کی دکانیں اور ریستوران قطار میں دور تک پھیلے تھے۔ کہیں کہیں ٹھیلے والے بھی مختلف کھانے پینے کی چیزیں سجاۓ بیٹھے تھے۔ "واہ برف گولا" وہ تقریباً اچھلتے ہوۓ چلاںئ، "چلو برف گولا کھائیں۔" 


"اوہ ہو۔ یہ بھی کوںئ کھانے کی چیز ہے۔" میں نے مزاقاً کہا۔ " اتنے اچھے خاصے ریسٹورنٹس چھوڑ کر  کر اب بندہ یہ کھاۓ۔" 


"ہاں نا مجھے فی الحال یہی کھانا ہے۔" ہم گولے والے کے پاس رک گۓ۔ گولے والا ہمیں دیکھتے ہی کام پر لگ گیا۔ اس نے دو بڑے سے برف کے گولے بناۓ اور اس پر سرخ سبز مختلف رنگوں کے شربت ڈال کر اوپر کھویا ڈالا اور ہمیں پکڑا دیۓ۔ رنگ گولے سے پھسل پھسل کر نیچے گر رہے تھے، وہ تیزی سے برف سے رنگدار شربت چوسے جا رہی تھی ، میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا، "ویسے تم نے ٹھیک کہا لبنیٰ، واقعی گرمیوں کے موسم میں اگر برف گولا نہ کھایا تو کیا کھایا بھلا۔"


"ہاں ناں اسی لیۓ تو بولا یہ تو اس موسم کی خاص سوغات ہے ایک دفعہ تو کھانا بنتا۔" اس نے بالوں کو پیچھے سمیٹتے ہوۓ کہا جو بار بار آگے آرہے تھے اور اسے گولا کھانے میں دقت پیدا کر رہے تھے۔ ہم گولے ہاتھ میں پکڑے آگے چل دیۓ۔ وہ کھاتے کھاتے باتیں کرتی جارہی تھی اور میں اسے دیکھتا جاتا تھا اور مسکراتا جاتا تھا۔ اس نے نظریں اٹھائیں اور میری طرف دیکھا، "اوہ تمہارے کپڑے" میرے کپڑوں پر رنگ گر گیا تھا۔ "اوہ" میں  ہاتھ ساتھ اپنی شرٹ صاف کرنے لگا۔ ہم چلتے چلتے گولا ختم کر چکے تو کھانا کھانے کے لیۓ ریسٹورنٹ کا انتخاب کرنے لگے۔ دونوں اطراف کافی سارے خوبصورت ریستورانز تھے مگر ہمیں کوںئ پسند ہی نہیں آرہا تھا۔ آخر کار اسی نے ایک طرف اشارہ کیا، "وہ کیسا ہے۔" میں اسی انتظار میں تھا۔ "بہت شاندار، چلو اندر چلیں۔" 


ریستوران میں بھیڑ اتنی نہیں تھی، باہر گرمی تھی لیکن اندر کا موسم سازگار تھا۔ پیچھے کسی گانے کی دھن بج رہی تھی جس کی آواز سپیکر سے ہمیں سناںئ دے رہی تھی جو بلکل ہمارے سر کے اوپر چھت پر نصب تھا۔ میں نے دھن پہچاننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ "یہ کس گانے کی دھن ہے" میں نے اس پوچھا، اس نے مینیوکارڈ سے توجہ ہٹا کر دھن پہچاننے کی کوشش کی مگر وہ بھی نہ پہچان سکی۔ دھن اچھی تھی اس لیۓ ہم کافی دیر تک اس سے مخذوز ہوتے رہے۔ کھانا آرڈر کرنے کے بعد اس نے کہا "اچھا میری سالگرہ کا تحفہ۔۔۔"


"اس سب کے بعد ابھی تحفہ باقی ہے۔۔۔؟"


"جی ہاں یہ سب اپنی جگہ پر گفٹ اپنی جگہ۔"


"واہ بھاںئ واہ یہ اچھی بات ہوںئ۔۔۔اچھا جی مل جاۓ گا گفٹ بھی۔ یا  اللّٰه اب تو ہی بچا ان ظالم لوگوں سے۔" وہ ہنس پڑی۔ چند منٹ بعد کھانا بھی آگیا۔ کھانا کھاتے ہوۓ اس نے کہا، " تم نے ایک دفعہ میری آنکھوں کی تعریف کی تھی۔"


"بس ایک دفعہ؟" میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"نہیں کی تو کافی دفعہ تھی"


"تو پھر"


"پھر یہ کہ آج کل یہ خراب رہنے لگی ہیں۔"


"کیوں کیا ہوا"؟ میں نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔ 


"شاید نظر لگ گئ ہے انہیں۔" 


" تو تم نے کالا دھاگہ باندھ لینا تھا نا۔" 


"ہاں اب سے باندھ لوں گی۔" اس نے ہنستے ہوۓ کہا۔


کھانے کھاتے ہوۓ اسے اک دم کوںئ خیال آیا۔ اس نے موبائل نکالا اور کھانے کی تصویر بنانے لگی۔ "میں تو تصویر لینا بھول ہی گئ تھی بعد میں فیس بک پہ سٹیٹس بھی لگانا۔" میں نے قہقہہ لگایا، "میں یہی سوچ رہا تھا تم نے یہ حرکت ابھی تک کیوں نہیں کی۔"


"کیوں اس میں کوںئ براںئ ہے؟" اس نے اپنے بال موبائل کے کیمرے میں درست کرتے ہوۓ کہا۔


"نہیں براںئ تو کوںئ نہیں۔ بس ایسے ہی کہہ رہا کہ بندہ کھانا پہ فوکس کرے تو زیادہ بہتر نہیں۔۔۔؟"


وہ ہنستے ہوۓ بولی، "میرا فوکس وہاں بھی ہے۔" 


میں نے پھر قہقہہ لگایا، "پھر تو ٹھیک ہے۔ "


کھانا کھانے کے بعد ہم باہر نکل آۓ۔ باہر موسم خوشگوار ہو گیا تھا۔ بادل گھر آۓ تھے اور ٹھنڈی تیز ہوا چل پڑی تھی۔


"یہ تو گڈْ ہو گیا۔" میں نے نعرہ لگایا۔ ہم سڑک پر یونہی گھومنے لگے، کچھ ہی فاصلے پر آئس کریم والا کھڑا تھا۔ 


"آئس کریم"؟ میں نے پوچھا۔ اس نے خوش ہوتے ہوۓ اثبات میں سر ہلا دیا۔ آئس کریم خریدنے کے بعد ہم آگے چل پڑے۔ 


"ام۔۔۔سڑابری ماۓ فیورٹ۔" اس نے آئس کریم کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا۔ ایک جگہ ایک خوبصورت سا فوارہ بنا تھا جس کے پاس بہت سے لوگ سیلفیاں لے رہے تھے۔ "چلو ہم بھی اس فاؤنٹین کے پاس سیلفی لیتے ہیں۔" اس نے کہا اور چل پڑی۔ 
دو تین سیلفیاں لینے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔ واپسی پر ہم نے ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ ایک چھوٹی سی دکان کے باہر ایک ٹھیلے والے کو دیکھ کر وہ رک گئ۔ "یہاں سے کچھ خریدتے ہیں۔"
اس کے پاس خوبصورت سے بریسلٹ اور کی چینز تھے اور دوسرے بہت سے چھوٹے موٹے گفٹس تھے۔ اس نے ایک دو بریسلٹ پسند کیۓ اور مجھے دکھاۓ۔ "ہاں اچھے ہیں۔" میں نے اس کی پسند کی تصدیق کی۔ اتنے میں دکاندار نے نجانے 
کیا سمجھتے ہوۓ اسے ایک بینگل دکھایا جس پر لکھا تھا۔
 Happy married couple ب
بی بی جی یہ دیکھیں یہ آپ کو پسند آۓ گا۔" اسے اچانک نجانے کیا ہوا اس نے باقی چیزیں وہیں گرائیں اور بھاگ کھڑی ہوںئ۔ "چلو احسن, جلدی چلو یہاں سے, مجھے گھر چھوڑ دو۔" 


"لیکن ہوا کیا؟" میں نے خیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔


"کچھ نہیں میں مزید یہاں ٹھہرنا نہیں چاہتی۔ " 


سارے راستے اس نے مجھے کچھ نہ بتایا کہ کیا ہوا، میں نے اسے گھر چھوڑا اور اپنے گھر لوٹ آیا۔ اگلے کئ دن میں نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اس نے کوںئ جواب نہ دیا۔








Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات