Drizzling Of Love

Drizzling Of Love


گاڑی آہستگی سے چل رہی تھی مگر کبھی کبھی زندگی کی گاڑی اتنی سبک رفتاری سے چلتی ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اور آدمی کو احساس ہی نہیں ہو پاتا، احساس تب ہوتا ہے جب آدمی کافی آگے بڑھ چکا ہوتا ہے۔ خالد حسین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ گاڑی میں بیٹھے ہوۓ سڑک کے دونوں اطراف کے مناظر پیچھے بھاگ رہے تھے مگر اس کے ذہن کی سڑک پر ماضی کے مناظر بار بار اس کے سامنے آرہے تھے۔ رات کا تقریباً ایک بجا تھا اور وہ ایک ویران سڑک پر بڑے آرام سے گاڑی چلاتا چلا جا رہا تھا۔ موسم معتدل تھا، رات کے وقت خنکی قدرے بڑھ جاتی مگر گاڑی کے اندر ایسا کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تھا۔ اس کے ذہن کی گاڑی بھی ایک منظر پر آ کر رک گئ۔ پروفیسر حمید کی جماعت میں وہ پچھلی قطار میں بیٹھا اپنے سامنے ڈیسک پر سر رکھے سو رہا تھا۔ ایسا پہلی بار تھوڑی تھا۔ وہ تقریباً ہر روز پروفیسر حمید کے پیریڈ میں سو جایا کرتا تھا۔ اس کے ہم جماعتوں کا تو یہ خیال تھا کہ وہ اس پیریڈ میں جاتا ہی سونے کے لیۓ ہے۔ پروفیسر حمید ویسے تو بہت ذہین آدمی تھے، اچھا پڑھاتے تھے تقریبا سبھی طلبہ انہیں پسند کرتے تھے مگر کمرۂ جماعت میں ان کی نظر پچھلے بنچوں پر کم کم ہی جاتی تھی۔ وہ طالب علموں سے کھل کر بہت سے موضوعات پر گفتگو اور بحث ومباحثہ کرتے اور کبھی کبھار تو کسی طالب علم سے بحث میں اتنے مگن ہو جاتے کہ سارا وقت وہیں گزر جاتا۔ایسے میں ان کو دھیان ہی نہیں رہتا کہ جماعت میں کون سا طالب علم کیا کر رہا ہے۔ بس اسی بات کا فائدہ خالد اٹھاتا۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے پروفیسر حمید پسند نہیں تھے یا اس کو ان موضوعات سے کوںئ دلچسپی نہیں تھی یا یہ کہ وہ ان موضوعات کے متعلق کوںئ اپنا نقطئہ نظر نہیں رکھتا تھا، ایسا نہیں تھا، بس اس کو بحث و مباحثے سے ذرہ چڑ تھی اور اس نے کسی بات کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اسی لیۓ وہ پروفیسر حمید کی جماعت میں آکر سکون سے نیند پوری کرتا، اور خفاظتی اقدامات کے طور پر اپنے دوستوں کی خدمات لیتا۔ جب کبھی پروفیسر صاحب پچھلی قطاروں کی طرف نظر دوڑاتے اس کا پاس بیٹھا کوںئ بھی دوست اس کو کہنی مار کر اٹھا دیتا مگر ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا کیونکہ پروفیسر صاحب پیچھے دیکھتے ہی بہت کم تھے۔ وہ اسی جگہ تختہْ سفید کے پاس کھڑے کھڑے سارا لیکچر دے ڈالتے۔ اور جب وقت ختم ہو جاتا تو چپ چاپ اپنا لیپ ٹاپ کا بیگ اور دو ایک کتاب جو ہمیشہ ان کے ہاتھ میں ہوتی اٹھاتے اور چلے جاتے۔ پروفیسر حمید ایک ملنسار اور شفیق استاد تھے مگر شکل و صورت سے واجبی شخصیت کے مالک تھے۔ عمر پچاس کے قریب تھی، سر کے درمیانی حصے سے بال کافی حد تک اڑ چکے تھے، منہ پر قدرے موٹی سی مونچھیں تھیں، قد مناسب تھا ہاں جسم قدرے فربہ اور بے ڈھنگا تھا اکثر پتلون قمیص پہنتے جس سے انکی توند باہر کو نکلی ہوںئ نظر آتی، کبھی کبھار خاص کر جمعہ والے دن شلوار قمیض بھی پہن لیا کرتے تھے۔ ابھی تو معمولی سی شکل تھی مگر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ممکن ہے جوانی میں قدرے بہتر صورت کے مالک ہوں۔ دن کا بیشتر حصہ بچوں کو پڑھانے اور خود پڑھنے میں صرف کرتے اور شام کے وقت اپنے گھر کے سامنے چھوٹے سے پارک میں سیر کیا کرتے۔ سیر بھی کیا کیا کرتے بس پورے پارک کا ایک آدھ چکر لگاتے اور پھر اپنے ساتھی استاذہ سے گپوں اور بحثوں میں شریک ہو جاتے۔ 

اس دن بھی خالد پروفیسر حمید کے پیریڈ میں پچھلی قطار میں سویا ہوا تھا اور پروفیسر حمید کسی طالب علم سے گفتگو میں مگن تھے۔ "ہاں یہ بات تو صحیح ہے تمہاری، انسان نے اپنی زندگی کو سنوارنے اسے خوشگوار اور پرمسرت بنانے کے لیۓ ہی بہت سی ایجادات کی ہیں مگر دوسری طرف اس نے اپنے لیۓ بہت سے دکھ، تکلیفیں اور مصیبتیں بھی ایجاد کر لی ہیں۔ اس زندگی میں دکھ اور تکلیفیں بھی انسانوں ہی کی وجہ سے ہیں۔"

پروفیسر حمید خاموش ہوۓ تو سامنے بیٹھا لڑکا پھر بولا، "تو سر کیا ایسا ممکن ہے اگر کوںئ آدمی اپنی مرضی سے کسی ویران جزیرے پر چلا جاۓ جہاں اسے سب سہولیات میسر ہوں مگر وہاں اس کے سوا اور کوںئ دوسرا آدمی نہ ہو تو کیا اس صورت میں وہ دکھوں اور غموں سے نجات حاصل کر لے گا۔۔۔"

"ہو سکتا ہے وہ کسی حد تک ان سب سے نجات حاصل کر پاۓ مگر میرا خیال ہے کہ وہ لمبے عرصے تک خوش نہیں رہ پاۓ گا کیونکہ خوشی کا تعلق آزادی کے ساتھ ضرور ہے مگر جہاں ہمیں دکھ اور تکلیفیں لوگوں سے ملتی ہیں وہاں مسرتیں اور خوشیوں کا حصول بھی لوگوں ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ گھر کے آنگن یا بھیڑ میں تنہا ہونے کا لطف اپنی جگہ مگر کسی ویران جزیرے کی تنہاںئ اور اکیلے پن میں شاید یہ ممکن نہ ہو سکے۔ لہذا اگر ہمیں دکھوں اور تکلیفوں سے نجات حاصل کرنی ہے اور ہم پر مسرت اور خوشگوار زندگی چاہتے ہیں تو  زیادہ سے زیادہ انسانی معاشروں کو با اخلاق اور با کردار، مہذب اور شائستہ بننا پڑے گا تا کہ کسی کے حقوق سلب نہ ہوں اور لوگ ایک دوسرے کو آزادیاں اور آسانیاں دینے میں بخیل نہ ہوں۔" اچانک پروفیسر صاحب کی نظر پچھلے بنچوں پر گئ اور وہیں ٹھہر گئ، وہ چلاۓ "یہ کون نامعقول میری کلاس میں سویا ہے۔ " یہ حملہ اتنی جلدی تھا کہ خالد کے پاس بیٹھے عرفان کو اسے خبردار کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ خالد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ "اوۓ احمق تم کلاس میں کیوں سو رہے تھے۔ " پروفیسر صاحب کی ڈانٹ بس انہی دو تین الفاظ تک محدود ہوتی تھی۔ احمق، نامعقول، نالائق وغیرہ۔ وہ جب غصے میں آتے تو چلاتے ضرور مگر ان کا چلانا بھی کمرۂ جماعت سے باہر نہیں جاتا تھا۔ خالد اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ "وہ۔۔۔سر۔۔۔وہ۔۔۔میں" اس سے کوںئ جواب بن نہیں پا رہا تھا۔ "وہ دراصل۔۔۔میں رات کو دیر سے سویا تھا تو ابھی نیند آگئ۔" پروفیسر صاحب ان عذر تراشیوں کو خوب جانتے تھے۔ " اچھا تو کیا وجہ بن گئ تھی جناب کی جو رات دیر سے سوۓ؟" 

"وہ سر۔۔۔وہ ایک کام تھا۔ " 

"اچھا کام۔۔۔کیسا کام؟"

"وہ رات کو ابو نے کسی کام سے بھیج دیا تھا۔"

خالد جان چھڑانے کی کوشش میں تھا مگر پروفیسر صاحب اسے اتنی آسانی سے کب چھوڑنے والے تھے۔

"کس کام سے؟" 

خالد کو اور تو کچھ نہ سوجھا اس نے کہہ دیا، "سر وہ بینک چلا گیا تھا بل ادا کرنے۔" 

خالد کا یہ کہنا تھا کہ پوری کلاس قہقہوں سے گونج اٹھی۔ تب خالد کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

"رات کو دیر تک تمہارے ابو کا ہی بینک ہو گا جو کھلا ہو گا۔تبھی تو انہوں نے تمہیں اس وقت بھیجا۔۔۔ شرم نہیں آتی ایک تو غلطی کرتے ہو اوپر سے جھوٹ بھی بولتے ہو۔"

پروفیسر حمید جانتے تھے کہ خالد ایک اچھا لڑکا ہے بس اکثر اس طرح کی چھوٹی موٹی شیطانیاں اور شرارتیں کرتا رہتا ہے اس لیۓ انہوں نے اسے تھوڑا سا ڈانٹ ڈپٹ کر کے چھوڑ دیا۔ وہ اسے اکثر کہتے "تم ایک غیر سنجیدہ آدمی ہو لیکن تمہیں شاید پتا نہیں زندگی مزاق نہیں ہوتی اس لیۓ زندگی میں سنجیدہ رہنا سیکھو"۔ مگر اس نے کبھی بھی پروفیسر صاحب کی بات پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اول تو وہ ایسی نوبت ہی نہ آنے دیتا کہ سنجیدگی اس کے اندر جگہ بنا سکے لیکن اگر کبھی زندگی میں حالات  پلٹا کھاتے اور اسے سخت سے سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا جس سے اس کے اندر سنجیدگی کی کاںئ سی جم جاتی جسے وہ کھرچنے کی کوشش کرتا رہتا، جب کبھی سنجیدگی اس کے اندر برف کی سِل کی طرح سخت ہو جاتی تو وہ ہتھوڑا لے کر اس پر ضربیں لگا لگا اسے توڑ ڈالتا، یوں حالات کے جبر اور زندگی کے سخت پن کے باوجود وہ کسی حد تک ہی سہی مگر غیر سنجیدگی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتا۔ 

پروفیسر حمید اور خالد میں بظاہر کچھ بھی مشترک نہیں تھا۔ پروفیسر حمید ایک پچاس سال کے میچور اور سنجیدہ آدمی تھے جو اپنی زندگی میں اچھا برا، ناکامیاں اور کامیابیاں بہت کچھ دیکھ چکے تھے۔ اس کے برعکس خالد ایک خوابوں اور خواہشوں سے بھرپور خوش مزاج ، زندہ دل نوجوان تھا۔ جو زندگی سے لطف اندوز ہونا جانتا تھا اور ہر مشکل وقت میں بھی لطف اندوزی اور خوشگواریت کے چند لمحات کہیں نہ کہیں سے تلاش کر لیتا تھا۔ پروفیسر حمید پڑھے لکھے اور خاصے باعلم ہونے کے  ساتھ ساتھ عام دنیا دار آدمی بھی تھے جبکہ خالد دنیا داری کے عام معاملات اور تکلفات سے ہمیشہ دور ہی رہتا تھا۔ 

 

اتنا کچھ مختلف ہونے کے باوجود خالد کو ان سے کچھ انسیت سی ہو گئ تھی۔ ان کو بھی خالد سے بڑی محبت تھی، وہ تو اپنے ہر طالب علم سے محبت کرتے تھے مگر چند طالب علموں سے انہیں کافی لگاؤ تھا، جن میں سے ایک خالد بھی تھا۔ 

خالد گاڑی چلاتے چلاتے سوچتا چلا جا رہا تھا۔ اس کے ذہن کی گاڑی پھر ایک منظر پر رک گئ۔ خالد موٹر سائیکل پر سوار, جینز ٹی شرٹ میں ملبوس کہیں جا رہا تھا تب جوں ہی اس نے چوک عبور کیا تو اس کی نظر سڑک کے کنارے دائرے کی شکل میں کھڑے چند لوگوں پر پڑی۔ اس نے موٹر سائیکل آہستہ کی اور لوگوں کے بیچ میں سے رستہ بناتے ہوۓ اندر نظر دوڑاںئ. اس نے دیکھا ایک آدمی زمین پر پڑا تھا اور اس کی موٹرسائیکل اس کے پاس پڑی تھی۔ اسے کچھ شک ہوا تو اس نے موٹرسائیکل کھڑی کی اور غور سے دیکھنے کی کوشش کی،پھر اچانک کچھ پہچان کر تیزی سے موٹرسائیکل سے اترا اور لوگوں کو پیچھے دھکیلتا اور جگہ بناتا ہوا بیچ میں گھس گیا۔ پروفیسر حمید زمین پر لیٹے تھے ان کے سر اور بازو سے خون بہہ رہا تھا اور دو آدمی انہیں اٹھانے اور سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے جلدی سے لوگوں کی مدد سے انہیں اٹھایا اور ہسپتال لے کر گیا۔ ہسپتال پر ان کی مرہم پٹی کے بعد انہیں گھر چھوڑنے گیا۔ وہ انہیں چھوڑ کر واپس پلٹنے ہی والا تھا کہ پروفیسر صاحب نے اسے روک لیا، "چاۓ پی کر جانا، بیٹھ جاؤ۔" اس کے لاکھ منع کرنے پر پروفیسر صاحب نے اسے وہاں ٹھہرا لیا۔ پروفیسر صاحب اسے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر چلے گۓ تو وہ گھر کا جائزہ لینے لگا۔ گھر چھوٹا سا تھا مگر خوبصورت تھا۔  ایک چھوٹا سا پکے فرش کاصحن تھا، دیوار کے ساتھ ایک چھوٹی سی کیاری تھی جس میں چند پودے لگے تھے۔ دو ایک تو گلاب کے تھے اور ایک دو موتیے کا اور ایک کونے میں لیمو کا پودا لگا تھا جس پر چھوٹے چھوٹے ہرے رنگ کے لیمو لگے تھے۔ لیمو شاید ابھی کچے تھے کیوں کہ یہ لیموؤں کا موسم نہیں تھا۔ البتہ سفید گلاب اور موتیے کے پھول کھلے تھے جن کی پیاری پیاری خوشبو سارے صحن میں پھیلی تھی۔ باہر والی دیوار کے ساتھ ایک بیل تھی جو دیوار سے ہوتی ہوںئ دوسری طرف نکل گئ تھی۔ صحن کے ساتھ چھوٹا سا برآمدہ تھا جس میں دو ایک پلاسٹک کی کرسیاں پڑی تھیں۔ ڈرائینگ روم بھی چھوٹا سا تھا جس میں دو بڑے لیکن معمولی سے صوفے آمنے سامنے رکھے تھے۔  اس کے درمیان ایک میز تھا جس کے اوپر نقش ونگار والی نہایت ہی خوبصورت میز پوش بچھی تھی ، جس کے اوپر ایک سگریٹ ایش ٹرے پڑی تھی جو بلکل صاف تھی۔ دائیں جانب دیوار پر ایک نہایت ہی خوبصورت مرد کی تصویر آویزاں تھی۔ مرد نے سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور سر پر پگڑی یا کلاہ باندھ رکھا تھا۔ پیڑھے پر بیٹھا تھا اور ہاتھ میں حقے کی نلی تھی۔ مگر تصویر میں حقہ کہیں دکھاںئ نہیں دے رہا تھا۔ ہونٹ باریک تھے جس پر موٹی سی گہری گھنی مونچھیں تھیں۔ خالد بڑے غور سے تصویر کو دیکھ رہا تھا تبھی پروفیسر صاحب کمرے میں داخل ہوۓ۔ ان کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں چاۓ اور بسکٹ وغیرہ تھے۔ ان کے آتے ہی خالد کھڑا ہو گیا، "بیٹھو بیٹھو۔۔۔کھڑے کیوں ہو گۓ۔" انہوں نے ٹرے میز پر رکھتے ہوۓ کہا۔ "یہ آپ کی تصویر ہے؟" خالد نے تصویر کی طرف اشارہ کیا۔

"نہیں نہیں۔۔۔یہ تو میرے والد صاحب ہیں۔" انہوں نے چاۓ کا کپ خالد کو پکڑایا۔ "یہ گھر جس میں تم بیٹھے ہو دراصل یہ جگہ انہوں نے ہی خریدی تھی۔ وہ یہاں گھر بنانا چاہتے تھے مگر نہیں بنا سکے۔ ان کے جانے کے بعد پھر آہستہ آہستہ کر کے میں نے یہ گھر تعمیر کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ بھلے وقتوں میں انہوں نے یہ جگہ خرید لی تھی اور میں یہاں گھر بنانے کے قابل ہو گیا ورنہ تم تو جانتے ہو آج کل جگہ کا جو ریٹ چل رہا ہے میں تو کبھی یہاں پر جگہ ہی نہ لے پاتا گھر بنانا تو دور رہا۔ " وہ باتیں کر رہے تھے کہ دوسرے کمرے سے ایک دس بارہ سال کا لڑکا بھاگتا ہوا آیا اور پروفیسر صاحب سے لپٹ گیا۔ خالد لڑکے کو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ لڑکے میں کوںئ مسئلہ ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں کچھ ٹیرے تھے جیسے پولیو سے یا کسی اور بیماری سے معزور بچوں کے ہوتے ہیں۔ وہ جب بولا تو اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کا ذہنی توازن بھی کچھ ٹھیک نہیں۔ "سلام کرو حسن ...بھاںئ کو سلام کرو۔" پروفیسر صاحب نے اس سے کہا تو وہ اپنا ہاتھ ماتھے تک لے گیا اور اپنی مخصوص زبان میں بولا، "سلم عکم۔"

" یہ میرا ایک ہی بیٹا ہے حسن۔ یہ پیدائشی ایسا ہے۔ پہلے اسے مہینے میں ایک دو بار دورہ پڑتا تھا مگر کچھ دواؤں کی وجہ سے اتنا فرق پڑا ہے کہ اب دو تین ماہ میں ایک آدھ بار ہی ایسا ہوتا ہے۔ اس کا مکمل علاج ممکن تو ہے مگر ہمارے بس میں نہیں ہے۔  اوہ۔۔۔آرام سے بیٹا حسن میرے بازو پہ چوٹ لگی ہے۔" اس نے پروفیسر صاحب کے بازو جس پر پٹی بندھی تھی کو چھیڑا تو پروفیسر صاحب نے کراہتے ہوۓ اسے ہلکا سا ڈانٹا۔

"تم چاۓ پیو نا ٹھنڈی ہو جاۓ گی۔" 

"جی، جی میں پی رہا ہوں۔ " 

 

پروفیسر صاحب پھر گویا ہوۓ۔ " کبھی کبھار بڑی پریشانی ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ میری اور اولاد تو ہے کوںئ نہیں اور نہ ہی میرا کوںئ بھاںئ بہن ہے۔ باقی رشتہ دار بھی دور گاؤں میں رہتے ہیں۔ یہاں اس کا میرے اور میری بیوی کے سوا اور کوںئ بھی نہیں میرے بعد تو اسے میری بیوی کو اکیلے سنبھالنا پڑے گا اور ہم دونوں کے بعد اسے کون سنبھالے گا۔" اس نے پروفیسر صاحب کی آنکھوں میں غور سے جھانکا ان کی آنکھوں میں سچ میں دکھ اور پریشانی تھی۔ وہ حیران ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا پروفیسر صاحب جو ہمیشہ کمرۂ جماعت میں علم وفضل کی باتیں کرتے ہیں اور ہر ایک سے خوش اخلاقی اور خوش مزاجی سے پیش آتے ہیں، اپنے ساتھی اساتذہ اور طالب علموں سے گھنٹوں علم وفلسفہ پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں آج یہ کیسی باتیں کر رہے تھے۔ اس نے ہمیشہ ان کو خوش گوار لہجے میں دوسروں سے گپ شپ کرتے ہی پایا تھا۔  ان کی چہرے سے پریشانی یا دکھ کے کبھی بھی کوںئ آثار ظاہر نہیں ہوۓ تھے۔ اس سے زیادہ دیر وہاں نہ بیٹھا گیا۔ اس نے انہیں سلام کیا اور وہاں سے نکل آیا۔ 

گاڑی چلاتے ہوۓ اس نے موبائل سے وقت دیکھا تو دو بج چکے تھے۔ اسے پھر اک خیال آیا مگر یہ خیال زیادہ پرانا نہیں تھا بلکہ ابھی چند گھنٹوں پہلے کا تھا۔ وہ پروفیسر صاحب کے اسی گھر کے باہر کھڑا تھا، اس کے ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ تھا اور ایک دو دیگر تخائف تھے۔  وہ برسوں بعد بیرون ملک سے لوٹا تھا اور آج پروفیسر صاحب سے ملنے ان کے گھر آیا تھا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ جرمنی چلا گیا تھا اس لیۓ پروفیسر صاحب سے اس کا رابطہ بلکل نہیں رہا تھا, مگر وطن واپس لوٹنے کے بعد اسے ان سے ملنے کا خیال آیا تو وہ چلا آیا۔ اس نے باہر کھڑے ہو کر بیل دی تو چند لمحوں بعد ایک جوان لڑکا باہر نکلا۔ خالد اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔ حسن کی شکل تو بدل چکی تھی مگر اس کی چند نشانیاں تو ہمیشہ اس کے ساتھ رہنی تھیں۔ اس کے ہاتھ پاؤں ویسے ہی ٹیڑے تھے اور وہ بولتا بھی کچھ ویسا ہی تھا۔ مگر اب قدرے صاف الفاظ میں۔ " جی آآآپ۔۔۔کون؟" اس نے مشکل سے الفاظ ادا کیۓ تو خالد نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوۓ کہا۔ "میں خالد ہوں پروفیسر صاحب کا اسٹوڈنٹ، پروفیسر صاحب گھر پر ہیں؟" اتنے میں ایک عورت پیچھے سے باہر آتی ہوںئ دکھاںئ دی۔ یہ یقیناً پروفیسر صاحب کی بیوی تھی۔ خالد اب کی بار اس سے مخاطب ہوا۔ "جی پروفیسر صاحب۔۔۔" نجانے کیوں وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکا اور خاموش ہو گیا۔ عورت تھوڑی دیر خاموش رہی پھر بولی، "جی ان کو گزرے ہوۓ... تو دو سال ہو چکے ہیں" عورت نے مشکل سےجملہ مکمل کیا.

خالد نے گاڑی روک دی اور باہر نکل آیا۔ سڑک کے کنارے گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ نکالا، سلگایا اور پینا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی بارش شروع ہو گئ، مگر وہ اسی جگہ کھڑا رہا۔ سگریٹ کا سفید دھواں رات کی سیاہی میں گھل رہا تھا۔ اس نے دور تک جاتے ہوۓ راستے کی طرف دیکھا وہاں ایک گاڑی زندگی کی طرح رواں دواں تھی۔

Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات