Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 





کیسا شاندار منظر تھا۔ بارش کے باعث گرد سے اٹے پودے اور درخت نکھر گۓ تھے اور پتوں پر پانی کے ننھے ننھے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔  کچھ دیر پہلے سخت گرمی سے مرجھاۓ اور کملاۓ پھولوں پر پانی کے چھینٹے پڑنے سے ان میں جان آگئ تھی ،  یوں لگتا تھا جیسے وہ کھلکھلا کر ہنس رہے ہوں قہقہے لگا رہے ہوں۔ گردو غبار سے اٹی فضا دھل دھلا کر صاف شفاف ہو چکی تھی، دوو دور تک پھیلا نیلا آسمان صاف دکھاںئ دے رہا تھا۔ بادل کسی کسی جگہ موجود تھے جن کے پیچھے سے سورج گھونگھٹ اوڑے دلہن کی طرح کبھی کبھار جھانکتا اور پھر چہرہ چھپا لیتا۔ کافی حد تک مطلع صاف تھا اور آسمان شفاف۔ اسی کے باعث مشرق کی سمت قوس قزح کے سات رنگ نمودار ہوۓ اور کمان کی صورت اختیار کرگۓ، سات منٹ تک دکھاںئ دینے والی اس دھنک سے فضا اور بھی رنگین اور جاذب ہوگئ تھی۔ ایک کونے میں آدھے سیاہ اور آدھے سفید بادلوں کا ایک دائرہ سا بن گیا تھا جس کے درمیان کی جگہ بلکل خالی تھی جہاں نیلا آسمان صاف دکھاںئ دیتا تھا۔ وسیع و عریض کھیت اور فصلیں دور دور تک پھیلی تھیں جو ٹھنڈی اور تیز ہوا کے باعث لہلہاتی اور جھومتی جاتی تھیں، یوں لگتا جیسے خوشی سے ناچ رہی ہوں۔ کچھ پرندے درختوں کی ڈالیوں پر بیٹھے تھے جن کے چہکنے اور گنگنانے کی آوازیں سارے منظر پر پھیلی تھیں۔ دوسرے بہت سے پرندے آسمان پر قلانچیں بھرتے ، اڑتے ، ہوا میں غوطے لگاتے اور جھومتے پھرتے تھے۔ ایک طرف ایک درخت کے نیچے دو بچے کھڑے تھے، ایک نے شرارتاً ایک ڈالی پکڑ کر زور سے ہلاںئ اور خود پھرتی سے پیچھے ہٹ گیا، دوسرا بچہ جو اس کے نیچے کھڑا تھا پوری طرح بھیگ گیا۔ پہلے والا بھاگ کھڑا ہوا اور دوسرا اس کو پکڑنے اس کے پیچھے بھاگا۔


کچھ فاصلے پر کھیتوں سے ایک طرف ہٹ کر ایک نالہ نما نہر تھی جو بڑی تیز رفتاری سے بہہ رہی تھی۔ اس کے بہتے پانی کا پرشور ساز پرندوں کے نغموں سے جا ملا تھا۔ نہر کے اوپر چھوٹا سا لکڑی کا پل تھا جو انتہاںئ خوبصورت تھا۔


چند قدم آگے سیبوں اور خوبانیوں کے باغات تھے جن کے بیچ میں سے ایک چھوٹی سی نہایت ہی خوبصورت پر سکون جھیل تھی، جس میں چھوٹی چھوٹی خوبصورت بطحیں پٹ پٹ کی آواز  کرتیں تیر رہیں تھیں۔ جھیل کے کنارے ایک درخت تھا جس کی شاخ پانی میں یوں جھکی اپنا عکس دیکھ رہی تھی جیسے کوںئ حسین لڑکی آئینے میں اپنا چہرا دیکھنے میں مگن ہو۔ "کیسا دلکش منظر ہے۔" فواد نے سوچا اور چند لمحے وہاں کھڑا رہنے کے بعد آگے چل دیا۔


آگے دور تک درختوں پر سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے سیب لٹک رہے تھے۔ اس نے ایک دو سیب اتار کر کھاۓ جن کا ذائقہ نہایت ہی لذیذ تھا، اس نے زندگی میں کبھی ایسے لذیذ سیب نہیں کھاۓ تھے۔ پاس ہی کچھ درختوں پر زرد رنگ کی نرم ونازک خوبانیوں کے گچھے لٹکے تھے وہ کتنی دیر خوبانیوں کے گچھوں کو ہاتھوں میں لے کر ٹٹولتا رہا پھر انہیں اتار لیا، بہت ہی نرم اور لذیذ خوبانیاں تھیں۔ وہ کافی دیر تک باغ میں گھومتا رہا، اس نے جوتے اتارے اور ہری بھری نرم و نازک گھاس پر ننگے پاؤں چلتا رہا۔گھاس بارش کے باعث گیلی تھی اور بہت ترتیب سے کٹی تھی، زیادہ بڑی نہیں تھی۔ وہ ایسے گھوم رہا تھا جیسے اپنے گھر کے لان میں چہل قدمی کر رہا ہو۔ 


گھومتے گھومتے وہ واپس جھیل کے پاس آگیا۔ کنارے پر کھڑے ہو کر وہ دور تک جھیل کے پر سکون پانی کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد نیچے سے چھوٹا سا ایک کنکر اٹھایا اور جھیل میں پھینکنے کو ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آںئ۔ "کیوں کسی کا سکون برباد کرتے ہو۔" اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سائرہ تھی۔ سائرہ، جو اس کے لئے سب کچھ تھی۔ دونوں نے آج یہاں ملنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ دونوں نے وقت پر آنے کا وعدہ کیا تھا مگر سائرہ کو کافی دیر ہو گئ تھی۔


"اور جو تم نے آنے میں اتنی تاخیر کر کے میرا سکون برباد کیا وہ۔۔۔"


"ہاں وہ بس ٹریفک میں پھنس گئ تھی۔" وہ بھی پاس آکر کھڑی ہو گئ،  "اور ویسے بھی تم ہی کو شوق تھا یہاں آکر ملنے کے لیۓ ، ورنہ تو شہر کے اندر بھی کافی جگہیں ہیں۔"


"سچ بتاؤ وہاں کیا ایسا خوبصورت اور پر سکون ماحول مل سکتا تھا جو یہاں ہے۔ "


"ہاں یہ بات تو ہے یہ جگہ تو بڑی پیاری اور خوبصورت ہے۔" سائرہ نے قائل ہوتے ہوۓ کہا۔ 


دونوں کنارے سے اترے اور دوسری طرف نکل گۓ۔ فواد اسے سیب اور خوبانیاں توڑ توڑ کر دیتا اور خود بھی مزے سے کھاتا رہا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد انہیں پانی کا ایک چھوٹا سا چشمہ نما کوںئ چیز نظر آںئ اور وہ وہیں رک گۓ۔  دراصل یہ پانی کا قدرتی چشمہ نہیں تھا یوں لگتا تھا علاقے کے مکینوں نے اپنی کسی ضرورت کے تحت یا سیاخوں کو متوجہ کرنے کے لیۓ اسے خود مصنوعی طریقے سے بنایا ہے۔ اس علاقے میں سیاح عموماً آتے بھی کم کم ہی تھے کیونکہ یہ علاقہ میدانی علاقہ تھا اور گرمیوں میں یہاں بہت گرمی پڑتی تھی۔ بس قریبی شہر کے مکین ہی کبھی کبھار چھٹی والے دن یہاں کا رخ کر لیا کرتے۔


ان دونوں نے چشمے سے پانی پیا اور کچھ دیر وہاں ٹھہرنے کے بعد لوٹ آۓ۔ کچھ دیر ادھر ادھر گھومنے کے بعد دوبارہ اسی جھیل پر واپس آگۓ۔ اب شام ہونے والی تھی، سورج غروب ہونے کے قریب تھا ویسے بھی آج سورج نے کم ہی جھلک دکھلاںئ تھی۔ جھیل میں بطخیں اسی طرح پٹ پٹ کی آواز کرتیں یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں تیر رہی تھیں۔ اس وقت اس جگہ پر ان دونوں کے سوا اور کوںئ بھی نہیں تھا، عام طور پر بھی یہ جگہ اکثر سنسان ہی رہتی تھی۔ وہ وہیں گھاس کے ایک قطعے پر بیٹھ گۓ۔ کچھ دیر دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ فواد نے ایک کنکر اٹھایا اور جھیل میں پھینکنے کو ہی تھا کہ سائرہ نے اسے پھر روک دیا۔ تمہیں کیا مزا آتا ہے کسی کا سکون برباد کر کے؟" 


"ہاں بھئ مجھے خوشی ملتی ہے جھیل کے پر سکون پانیوں میں پتھر پھینک کر اس کے اندر ہلچل پیدا کرنا۔" وہ مسکرایا۔ 


"یعنی تمہیں کسی کا سکون برباد کرکے خوشی ملتی ہے؟"


"صرف مجھے نہیں سائرہ میڈم! شاید ہم سب کو ہی ایسے ہی خوشی ملتی ہے، ہم سب ہی دوسروں کا سکون برباد کر کے محذوز ہوتے ہیں۔"


"کیا زندگی اس پرسکون جھیل کی مانند ہونی چاہیئے یا اس پر شور تیز رفتار ندی کی طرح...؟" اس نے سوچتے ہوئے کہا.


"معلوم نہیں...شاید اس جھیل کی طرح."


فواد نے اوپر دیکھا، آسمان پر پرندوں کے غول کے غول اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ دور سے کسی درخت سے کوئل کے کوکنے کی آواز آںئ۔ اسے ورڈز ورتھ کی نظم ٹو دی کوکو(To the cuckoo) یاد آگئ۔"نیچر کے اتنے قریب ہو کر اگر نیچر کے دیوتا ورڈز ورتھ کو یاد نہ کریں تو کیسی بدذوقی ہو گی۔" اس نے اپنے بازو پیچھے ٹکا لیۓ۔ سائرہ جو جھیل کے دوسرے کنارے پر لگے پھولوں کو دیکھے جا رہی تھی بولی۔ "ہاں۔۔۔ہاں صحیح کہا۔ وہ دیکھو نرگس کے پھول۔کتنے پیارے لگ رہے ہیں نا" ۔ اس نے مڑ کر دیکھا نرگس کے زرد پھولوں کی ایک طویل قطار تھی۔ وہ بلا اختیار ورڈزورتھ کی نظم ڈیفوڈلز(Daffodils) دہرانے لگا۔


سائرہ نے آسمان کی طرف نگاہ کی سورج سرخ ہو چکا تھا اور اس کی لالی اردگرد پھیلی تھی۔ "چلو جھیل میں کشتی چلائیں۔"


"اس وقت؟" فواد خیرت سے بولا، "ابھی تھوڑی ہی دیر میں اندھیرا ہو جاۓ گا۔" 


" تو کوںئ بات نہیں۔" سائرہ نے اٹھتے ہوۓ کہا، پھر فواد بھی اٹھ کھڑا ہو۔ دونوں ایک طرف لگی سیڑھیوں سے نیچے اترے، کشتی کا رسہ کھولا اور سوار ہو گۓ۔ فواد نے چپو سنبھال لیۓ اور سائرہ اس کے سامنے بیٹھ گئ۔ چھوٹی سی کشتی تھی فواد کے چپو چلاتے ہی بڑے آرام سے جھیل کے ساکت پانیوں پر تیرنے لگی۔ وہ ایسے کشتی چلا رہا تھا جیسے اس کام کا بہت ماہر ہو۔ " تم کبھی ملاح بھی رہ چکے ہو کیا؟"


"ہاں پچھلے جنم میں۔" وہ ہنس دی، جس سے اس کا کان میں لٹکا گول بڑا سا کانٹا پینڈولم کی طرح جھولنے لگا۔


کشتی لہریں بناتی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اب سورج مکمل طور پر غروب ہو گیا تھا اور کافی حد تک اندھیرا پھیل گیا تھا۔ اس نے کشتی درمیان میں کھڑی کر دی۔ "کیوں نا ایک سیلفی بناںئ جاۓ۔"
اس نے موبائل اپنی جیب سے نکالتے ہوۓ کہا۔


"بالکل ضرور یہ تو ہونی ہی چاہیۓ۔ " وہ سامنے سے اٹھ کر اسی کے پاس آکر بیٹھ گئ۔ فواد نے کیمرا کھولا، فلیش آن کیا اور کلک کر دیا۔ "یہ تصویر ہمیشہ میرے پاس رہے گی چاہے ہم الگ بھی ہو جائیں۔" 


"ہاۓ۔۔۔ ایسا مت کہو ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور یہاں پھر آئیں گے۔ " اس نے اس کے کندے پر سر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ فواد پھر کشتی چلانے لگا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ مزید وہاں ٹھہرنے کے بعد اس نے کشتی موڑ لی اور واپسی کی راہ لی۔ اب چاند نکل آیا تھا اور اس کی سنہری چاندنی اردگرد پھیل گئ تھی۔ چاندنی سے پانی کا سیاہ رنگ زردی مائل ہو گیا تھا۔ دونوں خاموش تھے۔ بلکہ دور تک گہرا سناٹا تھا اس میں صرف پانی پر چپوؤں کے چلنے کی ہلکی سی آواز آرہی تھی۔ " اچھا سنو" وہ بولی اور چار سو برف کی طرح جمی ہوںئ خاموشی میں دراڑ پڑ گئ۔ "ہاں۔۔۔کہو" 


"کیا ایسا ہو سکتا ہے یہ جھیل اتنی طویل ہو جاۓ کہ کبھی ختم نہ ہو۔ تم اسی طرح کشتی چلاتے رہو اور میں اسی طرح ۔۔۔"


"کاش ایسا ہو سکتا۔"


اب پندرہ برس بعد وہ پھر یہاں آیا تھا۔ اس کے سامنے اور کنپٹیوں کے بالوں میں چاندی اتر آںئ تھی۔ وہ یہاں آنا نہیں چاہتا تھا مگر نجانے کون سی طاقت اسے کھینچ کر یہاں لے آںئ تھی۔ اسی جھیل کے کنارے کھڑے ہو کر اس نے دور تک پرسکون جھیل کو دیکھا۔ جیب سے موبائل نکال کر اسی تصویر کو دیکھنے لگا جو اس نے پندرہ برس پہلے بناںئ تھی۔ اس کے کانوں میں وہی الفاظ گونجے۔


"یہ تصویر ہمیشہ میرے پاس رہے گی چاہے ہم الگ بھی ہو جائیں۔"


"ہاۓ۔۔۔ایسا مت کہو ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور یہاں پھر آئیں گے۔"


انہیں الگ ہوۓ پندرہ برس بیت چکے تھے اور وہ اب یہاں اکیلا آیا تھا۔ وہ کچھ دیر تک جھیل کو گھورتا رہا پھر ایک کنکر اٹھایا اور جھیل میں دے مارا۔ پر سکون پانی میں ارتعاش پیدا ہوا اور جھیل میں ہلچل مچ گئ۔ 



Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات