Drizzling Of Love

Drizzling Of Love


 


کردار:
عظمیٰ: ایک جوان لڑکی
سدرہ: عظمیٰ کی بڑی بہن
منیب: عظمیٰ کا ہونے والا شوہر
فرحان: سدرہ کا شوہر
امی: عظمیٰ اور سدرہ کی امی


منظر: گھر کا برآمدہ یا صحن جس میں منیب اور عظمیٰ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ شام کا وقت ہے سورج تقریباً غروب ہو چکا ہے۔ 


عظمیٰ : چلو کچھ تو کہو۔۔۔


منیب : کیا کہوں؟


عظمیٰ: کچھ بھی، ایسے خاموش تو نہ بیٹھو۔


منیب : بھئ کوںئ بات ہے ہی نہیں کرنے کے لیۓ۔


عظمیٰ : خدا کی قسم منیب جب تم ایسے خاموش رہتے ہو ناں تو میرا دل دہل جاتا ہے۔


منیب : ہاہاہا۔۔۔ تم بھی عجیب لڑکی ہو۔ ویسے تو تم اتنی بہادر ہو کہ پورے خاندان سے لڑاںئ مول لے لیتی ہو اور اب اس معمولی سی بات سے خوف زدہ ہو۔


عظمیٰ:  وہ اور بات تھی ، مگر یہ ۔۔۔ خیر چھوڑو بس دعا کرو اب زندگی صحیح ڈگر پر چل پڑے۔


منیب : ایسا زندگی میں تو ممکن نہیں۔۔۔شاید۔


عظمیٰ:   کیسا؟


منیب : یہی ، زندگی کا صحیح ڈگر پہ چلنا۔


عظمیٰ: خدا کے لئے ایسی منخوس باتیں مت کیا کرو۔ اور خاص کر اس وقت تو بلکل بھی نہیں۔ باہر دیکھو، آنگن میں شام اتر آںئ ہے، سنا ہے اس وقت ایسی نخوست زدہ باتیں کریں تو بہت برا ہوتا ہے۔ یہ دن کے زوال کا وقت ہوتا ہے۔


منیب : اوہ ہو رہنے بھی دو ایسی بیکار کی باتوں کو۔ تم اچھی خاصی پڑھی لکھی ماڈرن لڑکی ہو کر بھی ایسی تواہم پرستانہ باتوں کو مانتی ہو۔ مجھے معلوم نہیں تھا تم اتنی superstitious ہو گی۔


عظمیٰ: نہیں میں superstitious بلکل نہیں ہوں۔ بس آج کل تھوڑا گھبرا جاتی ہوں۔


منیب : گھبراہٹ! کیسی گھبراہٹ۔۔۔ تم اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھی ہو جہاں کیسے رنگ برنگے خوبصورت پھول کھلے ہیں، جن کی خوشبو سے پورا گھر مہک اٹھا ہے اور جن پر رنگین اور شوخ تتلیاں آکر بیٹھتی ہیں جن سے آنگن کی خوبصورتی اور دلکشی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اور رات کو جب یہ پھول نیند میں جانے لگتے ہیں تو ٹھنڈی شفاف چاندنی ان پر اپنا سایا کر لیتی ہے۔ پھر صبح جب شبنم کے ننھے ننھے قطرے ان پھولوں کا منہ دھلانے آتے ہیں تو یہ دوبارہ کھل اٹھتے ہیں۔


 عظمیٰ: اف خدایا تم کو تو شاعر ہونا چاہیۓ تھا۔۔۔ہاں بھئ یہ سب تو ہے مگر۔۔۔


منیب : مگر کیا۔۔۔ اس کے علاوہ شام کے اس خوبصورت اور رومان پرور لمحات میں تم اپنے ہونے والے پیارے سے شوہر کے پاس بیٹھی ہو جس سے شادی کے لئے۔۔۔


عظمیٰ : بس بس خدا کے لیۓ اس سے آگے کچھ مت کہنا میں وہ سب کچھ پھر سے یاد کرنا نہیں چاہتی۔


منیب: یہ بھی ٹھیک ہے۔ ویسے بھی اس میں یاد کرنے لائق کچھ ہے بھی نہیں۔۔۔
اچھا وہ تمہاری امی کہاں گئیں ان کے پاس کوںئ سامان تھا جو میں نے لے کر جانا ہے۔


عظمیٰ : سامان۔۔۔کیسا سامان؟


منیب : پتا نہیں امی نے ہی پیغام بھیجا تھا کہ بس تم ان کو کہنا وہ سمجھ جائیں گیں۔ اب معلوم نہیں کیا ہے۔ نہ انہوں نے بتایا نہ میں نے پوچھا۔ ویسے وہ تمہاری امی ہیں کہاں؟


عظمیٰ : بھئ باورچی خانے میں ہیں تمہارے لیۓ چاۓ اور سینڈوچ بنا رہی ہیں کیونکہ ان کو مجھ پر بھروسا نہیں، کہہ رہیں تھیں تم نے پچھلی بار بھی اسے بلکل پتلی چاۓ پلاںئ تھی اور سینڈوچ تو اتنے تیکھے تھے کہ اس بیچارے سے کھانے ہی نہیں ہو رہے تھے۔


منیب : ہاں یہ بات تو ویسے سچ ہے سینڈوچ تو واقعی بہت تیکھے تھے۔


عظمیٰ: ایسے تیکھے بھی نہیں تھے اس وقت تو بڑے مزے لے لے کر کھا رہے تھے۔


منیب : وہ تو مجبوری تھی تم پاس جو بیٹھی تھی۔


عظمیٰ : اچھا جی، تم نکالنا شادی کے بعد نقص میرے کھانوں میں پھر تمہیں بتاؤں گی۔ 


منیب : مجھے تو لگتا ہے ہمیں ایک عدد باورچی رکھنا پڑے گا۔ کیونکہ تمہاری کوکنگ تو۔۔۔


عظمیٰ : (لڑنے کے انداز میں ) کیوں کیا ہے میری کوکنگ کو بتاؤ، بتاؤ ہاں ذرا۔


منیب : نہیں میرا مطلب ہے تمہاری کوکنگ تو اچھی ہے میں کہہ رہا تھا تمہاری مدد کے لیۓ ایک شیف رکھ لیں گے تا کہ تمہیں زیادہ کام نہ کرنا پڑے۔


عظمی : ہاں یہ ہوںئ نا بات (دونوں ہنس پڑتے ہیں۔) بس منیب دعا کرو اب کوںئ مسئلہ پیش نہ آۓ کوںئ اور مصیبت نہ پڑے۔


منیب : دعا تو ہے مگر شاید زندگی مصیبتوں کا گڑھ ہے یہاں ایک مصیبت ختم ہوتی ہے تو دوسری شروع ہو جاتی ہے۔



(سدرہ اور اس کا شوہر فرخان گھر میں داخل ہوتے ہیں)


سدرہ : اسلام علیکم۔۔۔ 


عظمیٰ : ارے واہ۔ فرخان بھاںئ اور سدرہ باجی آپ اس وقت۔۔۔


فرحان : (مزاق کے انداز میں ) کیوں اس وقت ہمارا آنا منع ہے تو ہم واپس چلے جاتے ہیں۔


عظمیٰ : نہیں بھاںئ جان آپ بھی نا۔۔۔میرا مطلب تھا کہ خیریت تو ہے کوںئ اطلاع دیۓ بغیر وہ بھی شام کے اس وقت۔۔۔


فرحان : اپنی آپی سے پوچھو یہ زبرستی لے آئیں ہمیں کھینچ کر، رو رہی تھیں کہہ رہی تھیں میں نے ابھی جانا ہے امی کے گھر۔۔۔


سدرہ : کچھ نہیں ہے یہ تو ایویں ای مارتے رہتے اصل میں ہم یہاں کسی کام سے آۓ تھے تو کافی دیر ہو گئ اس لیۓ ادھر ہی آگۓ ۔


عظمیٰ: چلو یہ تو پھر اچھا کیا آپ لوگوں نے۔


فرحان : کیوں بھاںئ منیب تمہارے کیا حال چال ہیں گھر میں سب کیسے ہیں؟


منیب : جی بھاںئ جان اَللّٰه ‎‎کا شکر ہے سب ٹھیک ہیں۔


فرحان : ( بیٹھتے ہوۓ) اور کیا ہو رہا آج کل؟


منیب : کچھ نہیں وہی دفتر، کام وغیرہ۔


(اب سب بیٹھ جاتے ہیں)


سدرہ : اچھا ویسے منیب تم نے اس عظمیٰ کی بچی کو پسند کیسے کیا اس کی تو جو خرکتیں ہیں سب لڑکے اسے دیکھ کر ہی بھاگ جائیں۔


عظمیٰ: باجی۔۔۔(سدرہ کو پیار سے مارتی ہے)


سدرہ : اور ویسے بھی میرا جہاں تک خیال ہے تم دونوں کئ معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف ہو۔ پھر کیسے۔۔۔


منیب : بس آپی دیکھ لیں میرا حوصلہ۔۔۔ (ہنستا ہے) ویسے اگر آپ سنجیدگی سے پوچھیں تو واقعی کئ معاملات میں ہم مختلف تو ہیں۔ مگر ایسے تو ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ہر انسان کی زندگی کے بارے میں اور زندگی کے معاملات کے بارے میں راۓ، سوچ یا نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے۔ کوںئ بھی انسان نہ تو سو فیصد کسی ایک انسان سے اتفاق کر سکتا ہے اور نہ اختلاف۔ ان کی پسند نہ پسند بھی مختلف ہو سکتی ہیں۔ اور ویسے بھی مجھے تو ایسی ہی لڑکی پسند تھی جو زندگی کے بارے میں اپنی ایک ٹھوس راۓ رکھتی ہو چاہے وہ مجھ سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو۔


فرحان : ارے واہ بھاںئ واہ۔۔۔ یہ بات تو تم نے خوب کہی۔ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے کوںئ بھی آدمی مکمل طور پر کسی کے ہر معاملے سے اتفاق کر سکتا ہے اور نہ اختلاف۔ بس یہ تو رویے کی بات ہے کہ آپ دوسرے کے اختلافات کے ساتھ کس طرح ڈیل کرتے ہیں۔ یہ سارا دھنگا فساد ، لڑاںئ جھگڑے، قتل وغارت گری ، جنگیں سب انسان کے اسی منفی رویوں کے باعث ہیں، ہم دوسروں کو زبردستی اپنے نظریات پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔



عظمیٰ :  لو امی بھی آگئیں۔ (عظمیٰ اٹھ کر امی سے چاۓ کا سامان لے لیتی ہے۔)


(امی ملنے کے بعد کرسی پر بیٹھ جاتی ہیں۔)


امی : ہاں تو فرخان بیٹا کیسا چل رہا ہے تمہارا کام وام سب ٹھیک ٹھاک ہے نا؟


فرخان : جی آنٹی اَللّٰه کا شکر ہے اچھا چل رہا ہے۔


سدرہ : اچھا امی یہ آپ کچن میں کیا رہی تھیں یہ عظمیٰ ویلی ہی رہتی سارا دن اس کو کام کروایا کریں ویسے بھی یہ چند مہینوں کی مہمان ہے ادھر۔ 


عظمیٰ : میں ہی بنانے جا رہی تھی آپی پر امی کو میری کوکنگ پر بھروسہ نہیں ہے۔


فرحان : یہ ویسے انہوں نے اچھا ہی کیا کہ اس دفعہ تم پر بھروسہ نہیں کیا چند دن پہلے مجھے اس کا تجربہ ہو چکا ہے وہ جو حلوہ تم نے بنایا تھا وہ تو اتنا لذیذ تھا کہ بس مشکل سے ایک چمچ ہی کھانے ہوا، پھر تو میرا خیال ہے وہ گھر کی بلی نے ہی کھایا تھا۔


عظمیٰ : (لڑنے کے انداز میں) جی نہیں بلی نے نہیں کھایا تھا۔


فرحان: اچھا اس نے بھی کھانے سے انکار کر دیا۔۔۔


(سب ہنس پڑتے ہیں۔)


عظمیٰ : بس اب دعا کریں ایسے ہی ہنست رہیں سب۔ اب کوںئ مسئلہ نہ اٹھ کھڑا ہو پہلے ہی ہماری شادی کو لے کر خاندان میں بہت بکھیڑا ہو چکا ہے۔ مجھے تو ابھی بھی بعض اوقات گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں پھر سے کچھ ہو نہ جاۓ۔


منیب : میں نے تم سے پہلے بھی کہا ہے کس بات کی گھبراہٹ ہو رہی تمہیں اب سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے سب ہماری شادی کے لیۓ مان گۓ ہیں۔ اب کیا ہونا۔ کیوں آنٹی آپ ہی اسے سمجھائیں کہ گبھرانے کی ضرورت نہیں۔


دوسرا منظر:


( سپہر کے وقت اسی جگہ پر امی اور عظمیٰ بیٹھے ہیں۔ امی کوںئ کتاب پڑھ رہی ہیں اور عظمیٰ اپنے خیالوں میں گم آنگن میں لگے پھولوں کو دیکھے جارہی ہے۔ پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں)


امی: (کتاب سے سر اٹھا کر) کیا سوچ رہی ہو عظمیٰ پچھلے ایک گھنٹے سے تم چپ چاپ ایک ہی جگہ پر بیٹھی پھولوں اور پودوں کو دیکھے جا رہی ہو۔ کوںئ مسئلہ ہے کیا؟


عظمیٰ: (چونکتے ہوۓ) جی۔۔۔نہیں کوںئ مسئلہ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔ (تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد) اچھا امی ایک بات تو بتائیں؟


امی: ہاں پوچھو؟


عظمیٰ: امی کبھی کبھی آدمی کوںئ غلطی بھی نہیں کرتا کوںئ غلط فیصلہ بھی نہیں کرتا اور نہ ہی کوںئ گناہ کرتا ہے پھر بھی بعض اوقات وہ ناکام  کیوں ہو جاتا ہے یا اسے سزا کیوں ملتی ہے؟


امی : ایسا سوال تم کیوں پوچھ رہی ہو۔ تمہیں تو کوںئ ناکامی نہیں ملی اور نہ کوںئ سزا۔


عظمیٰ :  ایسے ہی آپ بتائیں تو صحیح۔ کیا خدا ہمیں ناکام کرتا ہے یا مصیبت میں ڈالتا ہے؟


امی : نہیں ایسا تو نہیں۔ بس میرا خیال ہے کبھی تو ہمارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے ہم پر مصیبت آتی ہے یا کبھی دوسروں کی غلطی کی سزا ہمیں مل جاتی ہے۔ پھر چاہے وہ غلطیاں انجانے میں ہوں یا جان بوجھ کر۔


عظمیٰ : یہ کیسے ہو سکتا ہے؟


امی : بھئ ہو سکتا ہے۔۔۔اچھا چھوڑو آج سدرہ کو فون کر کے پوچھ لینا کہ اس نے صبح کس وقت آنا ہے۔


عظمیٰ : اوفو امی اچھا پوچھ لوں گی ابھی موڈ نہیں ہے۔


(موبائل کی گھنٹی بجتی ہے عظمیٰ فون اٹینڈ کرتی ہے)


عظمیٰ :  ہیلو۔۔۔اسلام علیکم۔۔۔۔جی آنٹی میں ہی بول رہی ہوں عظمیٰ۔۔۔ ( چونکتے ہوۓ ) کیا، کب۔۔۔اچھا ہم ابھی آتے ہیں۔ کون سے ہاسپٹل ہیں؟۔۔۔۔نہیں مجھے آنا ہے آپ بس بتایۓ کون سے ہاسپٹل ہیں۔۔۔ جی ٹھیک ہے۔ (فون بند کر دیتی ہے )


امی: (گبھراۓ ہوۓ) کیا ہوا؟ کون ہے ہاسپٹل میں؟


عظمیٰ: ( رونے کے انداز میں) ام۔۔۔امی۔۔۔وہ۔۔۔وہ منیب کو۔۔۔


امی: ہاں ہاں کیا ہوا منیب کو؟


عظمیٰ: وہ منیب دفتر سے گھر واپس جارہے تھے تبھی راستے میں دو لوگوں کی لڑاںئ ہورہی تھی پہلے تو بات ہاتھا پاںئ تک گئ پھر ان میں سے ایک نے پستول نکال لیا اور فائرنگ شروع کر دی دو راہگیروں کو گولیاں لگی ہیں جن میں منیب بھی تھے۔


( بات ختم کرتے ہی صوفے پر گر جاتی ہے۔ تیز طوفان آتا ہے اور آنگن میں ایک پھول ٹوٹ کر زمین پر بکھر جاتا ہے) 






















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات