Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 




دونوں ہی بہت گہرے دوست تھے۔ دونوں کی عمروں میں بھی معمولی سا ہی فرق تھا۔ محض ایک سال کا۔ ساجد ایک سال چھوٹا تھا، یعنی اگر ماجد کی عمر تیس سال تھی تو ساجد کی انتیس۔ دونوں اکٹھے سکول گۓ اور اکٹھے ہی سکول سے بھاگے۔ آٹھویں جماعت کے پہلے دن گھر سے سکول کے لیۓ نکلے مگر سکول نہیں گۓ۔ بلکہ سکول سے کچھ دور کھیل کے ایک میدان میں پورا دن گزارا اور چھٹی وقت گھر لوٹ گۓ۔ بس اس دن کے بعد یہ روزانہ کا معمول بن گیا، گھر سے سکول کے لیۓ نکلتے مگر کھیل کے میدان میں چھپ کر دن گزار دیتے۔ وہ میدان اس قسم کا تھا کہ اردگرد چاروں طرف سے بند تھا، باہر سے گزرنے والوں کو کچھ دکھاںئ نہ دیتا کہ اندر کون ہے، کوںئ ہے بھی یا نہیں۔ اور یہی بات دونوں کے لیۓ فائدہ مند تھی۔ بہرحال آخرکار ایک دن پکڑے گۓ۔ گھر والوں نے خوب مارا پیٹا مگر ان دونوں نے طے کر لیا تھا کہ اب اسکول نہیں جائیں گے لہذا گھر والوں نے تنگ آکر اسکول سے اٹھوا کر کام پر لگا دیا۔ ساجد کا باپ تو خود مستری تھا اس لیۓ وہ اسے اپنے ساتھ مستریوں کا کام سکھانے کے لیۓ لے جاتا جبکہ ماجد کا باپ کسی دفتر میں کلرک تھا، پہلے تو اس نے کوشش کی کہ کسی طرح صاحب سے کہہ کر اسے اپنے دفتر میں ہی کوںئ چھوٹا موٹا کام دلوا دے مگر بات نہیں بنی چنانچہ اس نے اسے پائپوں کی کسی فیکڑی میں کام دلوا دیا۔ دونوں کچھ عرصہ تک باقاعدگی سے کام پر جاتے رہے، البتہ شام کو دونوں ضرور آپس میں ملاقات کرتے اور یہاں سے بھاگنے کے منصوبے بناتے رہتے۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے کام سے ڈنڈی مارنا شروع کر دی۔ اور کسی نہ کسی بہانے دونوں اکٹھے باقاعدہ منصوبے کے مطابق کام سے فرار ہو جاتے۔ ماجد کو تو کام سے بھاگنے میں اتنی دشواری پیش نہ آتی مگر ساجد چونکہ اپنے باپ کے ساتھ کام پر جاتا آتا تھا اس لیۓ اسے بھاگنے کے لئے خاصی تگ و دو کرنا پڑتی۔ برسوں یہ سلسلہ چلتا رہا، پہلے کام سے فرار ہوتے پھر اپنے اپنے باپوں سے گالیاں سنتے یا مار کھاتے ، اس کے بعد کچھ عرصہ تک باقاعدگی سے کام پر جاتے اور پھر ایک دن وہی خرکتیں کرنا شروع ہو جاتے۔ پہلے دونوں نے چھپ کر سگریٹ پینا شروع کی اور اس کے بعد نسوار ، تمباکو والا پان اور پتہ نہیں کیا کیا، اور اب تو انہوں نے باقاعدہ نشہ کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔ کام پر جانا انہوں نے بلکل ترک کر دیا تھا اور سارا سارا دن اور آدھی رات تک پان والے کے کھوکھے کے پاس بیٹھے رہتے، وہیں پر ساتھ ہی ایک چھوٹے سے احاطے میں انہوں نے تاش اور چند ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کھیلوں کا سامان رکھ لیا جس کے باعث چند لڑکے وہاں آجاتے بلکہ رات کے وقت تو لڑکوں کا اچھا خاصا رش لگ جاتا جس سے ان کو کچھ نہ کچھ آمدن ہو جاتی، بس یہی ایک ذریعہ تھا جس سے ان کی گزر بسر ہو رہی تھی۔ گھر والے بھی مجبوری سے ہی سہی مگر خاموش ہو گۓ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خرکتیں ان کی جیسی بھی تھیں مگر انہوں نے کچھ نہ کچھ تو کمانا شروع کر دیا تھا۔


ساجد قدرے سانولے رنگ کا دپلا پتلا لڑکا تھا اور قد میں بھی تھوڑا ٹھگنا تھا مگر دکھتا اچھا تھا۔ البتہ ماجد ہٹا کٹا اور لمبا چوڑا خوبصورت شکل وصورت کا مالک تھا۔ بس اس کے دائیں گال پر جلے کا نشان تھا جو شاید بچپن میں کھیلتے ہوۓ کسی طرح جل گیا تھا۔ مگر یہ داغ اس کے گال پہ زیادہ بدھا معلوم نہیں ہوتا تھا اور کچھ زیادہ عجیب بھی نہیں لگتا تھا۔ البتہ بال اس کے بہت بدھے اور گندے تھے جو اس کے ہفتوں نہ نہانے کے باعث مزید گندے دکھاںئ دیتے تھے۔ ساجد کے بال لمبے تھے اور اس کے ساتھ اس کی گھنی اور لمبی مونچھیں بھی جسے وہ ہر وقت ہاتھ سے مڑوڑتا رہتا تھا۔ 


ہفتے کا دن تھا جب ساجد کسی کام سے کہیں گیا ہوا تھا جبکہ ماجد اکیلا ہی احاطے میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب ساجد واپس آیا تو کسی سوچ میں گم چپ چاپ آ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس وقت آس پاس  سواۓ ماجد کے اور کوںئ بھی نہیں تھا۔ اس نے حیران ہوتے ہوۓ ساجد سے پوچھا، "خیریت تو ہے کیا ہوا۔" ساجد نے جیب سے سگریٹ نکالا اور منہ میں رکھ کر ماجد سے جلانے کا اشارہ کیا ماجد نے اپنے ہاتھ میں پکڑا لائیٹر اسے تھما دیا۔ اس نے سگریٹ کا کش لگایا اور دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوا کہا، "یار آج تم جانتے ہو میری کس سے ملاقات ہوںئ ہے۔؟"


"کس سے؟" 


"وسیم اور ثقلین سے۔"


"کون وسیم اور ثقلین؟"


"وہ ہمارے ساتھ نہیں پڑھتے تھے ساتویں میں جو بہت لائق تھے اور ہمیشہ اعلی نمبروں سے پاس ہوتے تھے۔ "


"ہاں اور ہماری ان کے ساتھ بلکل نہیں بنتی تھی۔"


"ہاں وہی۔ یار آج مجھے معلوم پڑا ایک شہر کا بہت بڑا ڈاکڑ بن گیا ہے اور دوسرا انجینئر۔ شہر بھر کی عمارتوں کا ٹھیکہ اس کے پاس ہوتا ہے۔"


"تو بھاںئ پھر کیا؟" اس نے وضاحت طلب نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔ 


"یار میں نے دیکھا ہے ان کی شہر میں بڑی عزت ہے ۔ ان کے گھر والے ان سے بہت خوش ہیں۔ ان کے استاد محلے دار سب ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔"


"او دفعہ کر یارا ہمیں کیا لینا دینا ان سے۔ عزت ہے تو ہوتی پھرے۔ "


ساجد اس وقت تو خاموش ہو گیا مگر اگلے کئ دنوں تک وہ بے چین رہا۔ ماجد نے اسے کریدنے کی کوشش کی مگر اس نے کوںئ واضح بات نہ کی جس سے پتہ چلتا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ چند دن تک یہ سب چلتا رہا بالآخر ساجد نے ایک دن بول ہی دیا۔ " میں یہ سب کچھ چھوڑ رہا ہوں۔"


"کیا چھوڑ رہے ہو؟"


"یہی سب برے کام۔ سگریٹ، پان وغیرہ ہر چیز۔" 


ماجد نے قہقہہ لگایا۔" تو تم اب ان دونوں سے متاثر ہو کر اس عمر میں پڑھاںئ کرو گے؟ دوبارہ آٹھویں جماعت سے شروع کرو گے؟"


"نہیں میں صرف برے کام چھوڑنے کی اور کوںئ اچھا سا کام دھندہ شروع کرنے کی بات کر رہا یوں۔"


"او یار دفعہ کرو کن چکروں میں پڑ رہے ہو ہم ایسے بھی کوںئ خاص برے کام نہیں کرتے اور ویسے بھی کام دھندہ کون سا شروع کرو گے آج تک کچھ سیکھا بھی ہے؟"


"کچھ بھی کر لوں گا۔ پر یہ سب اب مزید نہیں۔"
ساجد اٹھ کر جانے لگا تو ماجد نے اس کی بڑی منتیں کیں مگر وہ نہ مانا۔"


"ٹھیک ہے جاؤ، شوق سے جاؤ مگر یاد رکھنا یہیں واپس آؤ گے۔ آتا جاتا کچھ ہے نہیں اور چلے کام دھندہ کرنے۔"


چند دن ایسے ہی گزر گۓ ساجد واقعی نہ آیا۔ ماجد اکیلے ہی احاطے میں جاتا اور سارا سارا دن بیٹھ کر آجاتا۔ وہ بجھا بجھا سا رہنے لگا۔ اسے سمجھ ہی نہ آتی کہ ساجد کے بغیر وہ کیا کرے۔ دوسری طرف ساجد بھی کام کی تلاش میں مارا مارا پھرتا۔ آج تک اس نے کوںئ کام ماجد کے بغیر اکیلے کیا ہی نہیں تھا۔ مگر ایک بات تھی اس نے سچ مچ سگریٹ اور نشہ وغیرہ ترک کر دیا تھا۔ چند دن بعد ماجد نے بھی آخرکار تنگ آکر سب کچھ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے اس کا خیال تھا کہ ساجد کچھ دن بعد خود ہی اکتا کر واپس آجاۓ گا مگر ایسا نہیں ہوا، دل سے وہ خود بھی چاہتا تو تھا کہ یہ سب چھوڑ دے مگر اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ مگر اب اس نے ساجد کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔


صبح جب ساجد کام کی تلاش میں نکلا تو ماجد اسے رستے میں مل گیا۔ وہ سڑک پر کھڑے ہو کر اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ دونوں دوست بغلگیر ہوۓ اور اکٹھے کام ڈھونڈنے جانے کا منصوبہ بنایا۔ کئ دنوں تک دونوں شہر کی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے مگر جہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد کو کام اتنی آسانی سے نہیں ملتا وہاں بے چارے ان دونوں کو کام کون دیتا۔ خیر ایک دن دونوں شہر بھر کی سڑکوں پر پھر پھرا کر واپس آۓ اور کچھ دیر سستانے اور چاۓ پینے کے لیۓ اسی پان والے کے کھوکھے کے پاس اسی احاطے میں جا بیٹھے۔ کافی دیر تک دونوں خاموشی سے بیٹھے نجانے کن سوچوں میں گم تھے کہ دو لڑکے احاطے میں داخل ہوۓ۔ آتے ہی ایک نے ساجد اور ماجد کو مخاطب کر کے کہا،"او یار تم دونوں یہاں بیٹھے ہو پتا بھی ہے کیا ہوا ہے؟"


"کیا ہوا ہے؟" ساجد نے بے دلی سے پوچھا۔


"لگتا ہے خبریں وغیرہ نہیں دیکھتے۔ وہ تمہارے دو دوست نہیں تھے ڈاکڑ اور انجینئر ۔ جن کے بارے میں تم کہتے تھے ہمارے ہم جماعت ہیں۔ "


اب دونوں متوجہ ہوگۓ، دونوں نے بیک وقت کہا۔ "ہاں ہاں۔ وسیم اور ثقلین۔"


"ان دونوں کو پولیس نے پکڑ لیا ہے۔معلوم ہے کیوں؟"


"کیوں؟" دونوں نے پھر بیک وقت پوچھا۔


"وہ انجینئر نے پچھلے دنوں جو عمارت بناںئ تھی وہ گر گئ ہے جس کی وجہ سے بہت سے مزدور اور دیگر بہت سے لوگ جو اس عمارت میں کام کرتے تھے مارے گۓ ہیں۔ اور کہا جا رہا ہے کہ عمارت ناقص میڑیریل استعمال کرنے سے گری ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے ٹھیکوں میں اس انجینئر نے گپلے کیۓ ہیں۔ یہ سب مال جو اس نے بنایا ہے انہی گپلوں سے بنایا ہے۔"


"اور ڈاکڑ، اسے کیوں پکڑا ہے؟" ماجد نے بے چینی  سے پوچھا۔ 


اس دفعہ دوسرا بولا، "اس پر بھی کافی سارے الزام ہیں اس نے بھی کچھ گپلے کیۓ ہیں۔اس پر کچھ مریضوں کے لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ اس نے  جان بوچھ کر ان کے مریضوں کے اپریشن کیۓ جن کی ضرورت نہیں تھی۔ اور کچھ دواؤں وغیرہ میں بھی کچھ گپلوں کا الزام ہے۔"


وہ دونوں لڑکے بات کر کے چلے گۓ تو ساجد اور ماجد کافی دیر تک خاموش بیٹھے بے مقصد کہیں گھورتے رہے۔


اگلے دن دونوں احاطے میں موجود تھے اور دوبارہ اپنی پرانیاں سرگرمیاں بحال کر چکے تھے۔






1 Comments

Thank you for your comment

Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات