Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 





مرکزی سڑک سے نیچے اتریں تو بائیں جانب ایک طویل راستہ جاتا ہے جس کے اختتام پر ایک گاؤں ڈھولے شاہ آباد ہے۔ گاؤں کا یہ نام بابا ڈھولے شاہ کے نام سے ہے جس کا مزار گاؤں کے شروع میں ہی ایک بڑے سے پیپل کے درخت کے نیچے واقع ہے۔ بابا ڈھولے شاہ کا اصل نام کیا ہے اور اس کا مزار یہاں کب سے ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ سب بس اتنا جانتے ہیں کہ اگر سخت گرمیوں کی دوپہروں میں ننگے پاؤں چل کر بابا کے مزار تک جایا جاۓ اور جو بھی منت مانی جاۓ وہ پوری ہوتی ہے۔ گاؤں کے پاس ہی ایک بڑا سا نالا گزرتا ہے جسے یہاں کے لوگ دواڑہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ دواڑہ اسے کیوں کہا جاتا ہے یہ بھی کسی کو معلوم نہیں۔ البتہ کچھ لوگ اسے نالی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس نالے یا نالی  کے متعلق یہ مشہور ہے کہ یہ ہر سال کوںئ ایک آدمی ضرور لیتی ہے یعنی ہر سال یہاں کوںئ نہ کوںئ ڈوب کر ضرور مرتا ہے۔ برسات کے موسم میں یہ نالا اپنے عروج پر ہوتا ہے تبھی گاؤں کے لڑکے نہانے یا مچھلیاں پکڑنے کی غرض سے یہاں آتے ہیں اور اپنا کوںئ نہ کوںئ ساتھی اس نالی کو دے کر جاتے ہیں۔ یہ نالی یوں تو کافی طویل اور کسی قدر وسیع ہے مگر عام دنوں میں یہ زیادہ تر خشک پڑی رہتی ہے۔ صرف مرکز میں پانی کی ایک باریک سی لہر گزرتی ہے جسے ایک بڑی چھلانگ لگا کر عبور کیا جا سکتا ہے۔ کسی زمانے میں گاؤں میں داخل ہونے کا یہ واحد راستہ تھا، یہاں آنے جانے والوں کو نالا عبور کرتے وقت کافی دقت پیش آتی تھی۔ برسات کے دنوں میں یہاں سے گزرنا ناممکن ہو جاتا اس لیۓ گاؤں کے ایک دو افراد نے روزگار کی غرض سے یہاں کشتیاں چلانا شروع کر دیں جو مسافروں سے چند دام وصول کر کے انہیں نالا پار کراتے تھے۔ پھر جب یہاں سڑک اور پل وغیرہ تعمیر ہو گیا تو کشتی بانوں کو بھی یہ پیشہ ترک کرنا پڑا۔


گاؤں میں آنے کے لیۓ بسیں اور ویگنیں وغیرہ چلتی ہیں جو مسافروں کو بڑی سڑک پر اتار دیتی ہیں اس کے بعد ایک لمبا سفر ہے جو انہیں طے کرنا پڑتا ہے۔ پہلے اس راستے پر تانگے چلا کرتے تھے جو مخصوص اوقات میں مسافروں کو گاؤں تک پہنچا دیا کرتے تھے اگر کسی مسافر کو دیر ہو جاتی تو پھر اسے مجبوراً پیدل ہی یہ راستہ طے کرنا پڑتا۔ اب تقریباً ہر ایک کے پاس موٹرسائیکل ہے۔ پھر بھی اگر کوںئ مسافر پیدل چل بھی رہا ہو تو راستے میں اسے کوںئ نہ کوںئ موٹرسائکل سوار مل ہی جاتا ہے جو اسے منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ گاؤں میں گاڑی صرف ایک شخص ملک قاسم کے پاس ہے۔ یہ ملکوں کا خاندان ہی تھا جو سب سے پہلے یہاں آکر آباد ہوا۔ اس وقت تو یہ خاندان کوںئ اتنی خیثیت نہ رکھتا تھا مگر ملک قاسم کے والد نے اپنے دونوں بڑے بیٹوں کو جیسے تیسے کر کے باہر بجھوا دیا جس سے اس خاندان کے دن بدل گۓ۔ ملک قاسم تیسرا بیٹا تھا جو یہاں ہی کاروبار اور زمینوں کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ اس کے اپنے دو بیٹے باہر ہیں ایک جرمنی میں اپنے تایا یعنی ملک قاسم کے بڑے بھاںئ کے ساتھ مقیم ہے اور وہاں ہی کوںئ کام کرتا ہے۔ دوسرا بیٹا اسپین میں ہے اور وہاں ریستوران چلاتا ہے۔ 


ملک قاسم آج کافی خوش تھا کیوں کہ اس کا بڑا بیٹا جرمنی سے لوٹ رہا تھا۔ اس کا ارادہ تو اپنے بیٹے کو شہر میں ہواںئ اڈے جا کر خود لے کر آنے کا تھا مگر اس کے بیٹے نے اسے روک دیا اور کہا کہ وہ خود آجاۓ گا کوںئ اسے لینے نہ آۓ۔ 


ملک قاسم کا بیٹا جب گاڑی سے اترا تو رات کے دو بج رہے تھے۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے رات کے اس پہر سواری مل گئ تھی۔ اس کے ساتھ والا مسافر جس سے اس کی راستے میں سلام دعا ہوںئ تھی اسی کی سمت جا رہا تھا اس نے اسے ساتھ بٹھا لیا اور گاؤں کے باہر بڑی سڑک پر اتار دیا۔ 


ارد گرد کی ہر چیز تاریکی میں ڈوبی تھی۔ جھینگروں اور ٹڈوں کی آوازوں کے سوا اور کوںئ آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی۔ اس نے کسی سے بات کرنے کے لیۓ موبائل جیب سے نکالا مگر کچھ سوچ کر دوبارہ جیب میں رکھ لیا۔ پہلے اس نے سوچا کہ گھر میں اپنے آنے کی اطلاع دی جاۓ تا کہ کوںئ آکر یہاں سے اسے لے جاۓ مگر پھر اسے خیال آیا کیوں نہ یہ راستہ پیدل طے کیا جاۓ۔ باہر جانے سے پہلے اپنے بچپن اور جوانی میں  اس نے کئ دفعہ یہ راستہ پیدل یا پھر سائیکل  پہ طے کیا تھا۔ تب وہ اور اس کے دوست اکثر شہر میں گھومنے یا سنما میں فلم دیکھنے کی غرض سے جاتے اور رات کو دیر سے لوٹتے۔ آج وہ برسوں بعد گاؤں واپس آیا تھا اور چاہتا تھا کہ اسی طرح یہ راستہ طے کرے جیسے برسوں پہلے وہ کیا کرتا تھا۔ اس کے تقریباً سارے دوست اسی کی طرح ملک سے باہر جا چکے تھے یا گاؤں چھوڑ کر شہر میں جا بسے تھے۔ صرف ایک دوست تھا جو یہیں گاؤں میں تھا۔ ایک دفعہ اس نے ارادہ کیا کہ اپنے دوست کو فون کر کے بلا لیا جاۓ مگر پھر نجانے کیا سوچ کر اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ اس کے پاس سامان زیادہ نہیں تھا۔ صرف ایک بیگ تھا جو اس نے کندے پر لٹکا رکھا تھا۔ باہر سے آنے والے بیشتر لوگوں کی طرح سامان تو اس کے پاس بھی کافی تھا مگر اس نے اپنا سامان کچھ دن پہلے ہی گھر پہنچا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اکیلے آنے کا فیصلہ کیا تھا۔


چاند کی دھیمی سی روشنی میں وہ چلا جا رہا تھا۔ ارد گرد سواۓ کھلے کھیتوں اور زمینوں کے اور کچھ بھی نہ تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا، وہی سرسبز لہلہاتی مانوس فصلیں اور وہی کہیں دور ان وسیع کھیتوں کے پرے سے آتی ہوںئ ٹھنڈی خوشگوار شناسا ہوائیں۔ سب کچھ تو وہی تھا۔ ہاں بس ایک چیز بدلی تھی ،جس راستے پر وہ چل رہا تھا پہلے یہ راستہ کچا تھا مگر اب یہاں پکی سڑک بن چکی تھی۔ ابھی تک یہی ایک تبدیلی تھی جو اس نے محسوس کی تھی۔ مگر ابھی وہ گاؤں نہیں پہنچا تھا کیا پتا وہاں کیا کچھ بدل گیا ہو۔ وہ سوچتا چلا جا رہا تھا۔ اس کا واحد دوست جو اس گاؤں میں رہ گیا تھا اس کے ذریعے اسے گاؤں کی معلومات ملتی تو رہتی تھیں مگر صحیح اندازہ تو وہ گاؤں پہنچ کر ہی لگا سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں بچپن کی بہت سی یادیں گھوم رہی تھیں۔


وہ گاؤں کے قریب پہنچا تو اسے دور سے گھروں کی روشنیاں نظر آنا شروع ہو گئیں۔ اس نے محسوس کیا کہ گاؤں کی آبادی پہلے سے بڑھ گئ تھی۔ جہاں پہلے کھلے میدان تھے اب وہاں بھی گھر نظر آرہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ مزار کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے مزار کو باہر سے گزرتے ہوۓ غور سے دیکھا۔ چند تبدیلیاں آئیں تھیں، باہر کا صحن جو تب کچا تھا، اور جہاں سے ہر وقت دھول اڑتی رہتی تھی اب پکے فرش میں بدل چکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ لوہے کے جنگلے کے پاس ایک نلکا لگا تھا مگر اب وہاں نلکے کی بجاۓ بجلی سے چلنے والا پانی کا کولر لگ چکا تھا۔ دائیں طرف ایک برآمدہ نما چھوٹی سی عمارت تھی جو نئ تعمیر کی گئ تھی جس کے نیچے صفیں بچھیں تھیں۔ قبر کا حصہ اور اس کے اوپر سبز گنبد بلکل ویسا ہی تھا جس کے اوپر جھنڈیاں اب بھی بالکل اسی طرح سجی تھیں جیسے پہلے سجتی تھیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ گاؤں میں داخل ہو کر اس نے اردگرد مکانوں کو دیکھا، جب وہ یہاں سے گیا تھا تو بے شمار گھر تھے جو کچے تھے مگر اب اسے ایک بھی گھر ایسا دکھاںئ نہیں دے رہا تھا جو پکا نہ ہو۔ بلکہ اب تو وہی مکان دو دو تین تین منزلہ ہو گۓ تھے۔ وہ گزرتے ہوۓ ایک ایک گھر کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ باؤ شفیق کا گھر آیا تو وہ کچھ دیر کے لیۓ وہیں رک گیا۔ اس نے اپنی تصور کی آنکھ سے اندر جھانک کر دیکھا کہ اس گھر کے وسیع کچے صحن میں بیٹھے وہ اور اس کے دوست مختلف کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ وہ گھر تھا جہاں وہ سکول سے آنے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ سارا سارا دن بنٹے اور دیگر کھیل کھیلتا جو اس وقت کھیلے جاتے تھے۔ پھر جیسے ہی شام کی اذان ہوتی وہ، انور اور سجاد، ظہیر کو وہیں چھوڑ کر گھروں کو بھاگ نکلتے۔ یہ گھر ظہیر کا ہی تھا جو باؤ شفیق کا بیٹا تھا جس کے کچے صحن میں وہ کھیل رہے ہوتے تھے۔ اس نے دھیان سے دیکھا تو وہاں اب وہ کھلا ڈھلا کچا صحن نہیں رہا تھا بلکہ وہاں اب کمرے بن چکے تھے۔


وہ آگے بڑھا تو اسے ایک گھر کچا نظر آیا۔ یہ ماںئ تاجو کا گھر تھا۔ ماںئ تاجو کا خاوند کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکا تھا اور اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو کسی الزام میں جیل میں تھا۔ اس نے اک نظر مائی تاجو کے گھر کی طرف ڈالی اور آگے بڑھ گیا۔


کچھ دیر کے بعد وہ گھر پہنچ گیا۔ سب سے ملنے کے بعد اس نے گھر کا معائنہ کرنا شروع کیا۔ سب کچھ بدل چکا تھا۔ وسیع و عریض صحن جہاں پر کسی زمانے میں درخت اور پودے لگے تھے اب وہاں صرف چھوٹا سا ایک باغیچے کا ٹکڑا تھا باقی ہر جگہ پر کمرے ہی کمرے تھے۔ بیٹھک کی جگہ جدید طرز کے ڈرائینگ روم نے لے لی تھی۔ سب سے ملنے اور  گھر کو اچھی طرح دیکھ لینے کے بعد وہ اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔


صبح اس کی آنکھ کافی دیر سے کھلی۔ نہا دھو کر اس نے جینز پہنی اور کمرے میں موجود آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے لگا، پھر نجانے اسے کیا خیال آیا اس نے جینز اتار کر شلوار قمیص پہن لی۔ بال بنا کر وہ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا سب گھر والوں نے اسے گھیر لیا۔ کافی دیر تک وہ ان سے باتیں کرتا رہا۔ انہیں جرمنی کے دلچسپ قصے  سناتا رہا۔ پھر کسی نے اس کی شادی کی بات چھیڑ دی۔


"اب تو آپ کو شادی کر لینی چاہیۓ بھاںئ جان۔" اس کی بہن نے کہا۔ کوئی دوسرا بولا "ہاں اب اور کتنی دیر کرو گے سرفراز بیٹا۔" کسی نے کہا "لڑکی تو میں پسند کروں گی آپ کے لئے۔" 


وہ ان سب کی باتیں سن کر ہنستا اور مسکراتا رہا۔ ماں اس کی بہت پہلے اس کے بچپن میں ہی گزر گئ تھی جبکہ اس کے باپ ملک قاسم نے بار بار اصرار کر کے یہاں اسے اسی مقصد کے لیے بلایا تھا۔ 


اس کے بعد اس کی بہن اس کے لیۓ ناشتے میں آلو کے پراٹھے اور لسی کا گلاس لے آںئ۔ وہ جب یہاں سے گیا تھا تو اس کی عمر محض بیس برس تھی اور اب وہ تقریباً پندرہ بیس سال بعد واپس لوٹا تھا۔ بہت کچھ بدل چکا تھا مگر ناشتہ کسی حد تک وہی تھا۔ جو بچپن میں اس کی ماں اس کے لیۓ بنایا کرتی تھی۔


"اب بھی یہاں ناشتے میں جیم اور بریڈ کی جگہ پراٹھے اور لسی ہی ملتی ہے۔ واہ۔ " اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ "ہاں بھاںئ جان بہت کچھ بدل گیا ہے بس چند ایک چیزیں اب بھی ویسی ہی ہیں۔" اس کی بہن نے اسے گاؤں کی طرز معاشرت کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ 


گھر والوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ باہر نکل آیا۔ اس نے اپنے واحد دوست انور کو فون کیا جو ابھی تک اسی گاؤں میں مقیم تھا۔ اس نے کہا کہ وہ کسی کام سے گاؤں سے باہر آیا ہے ابھی آدھے گھنٹے میں واپس آجاۓ گا۔ اس کے دوست انور نے ایف اے کرنے کے بعد کچھ عرصہ شہر میں ایک درزی کی دکان پر کپڑے سینے کا کام سیکھا اور گاؤں واپس آکر یہیں اپنی دکان کھول لی۔ شروع شروع میں تو سارا گاؤں اس سے کپڑے سلواتا تھا اس لیۓ اس کا کام خوب چلتا مگر اب بازار میں ڈھیر سارے سلے سلاۓ کپڑوں کے برینڈز آجانے سے اس کے کام میں  قدرے مندہ آگیا تھا۔ لیکن ابھی بھی گاؤں میں بہت سے لوگ بازار سے ان سلے کپڑے خرید کر سلواتے تھے جس سے اس کی اچھی خاصی آمدن ہو جاتی تھی۔


"کیوں نہ انور کے آنے تک گاؤں کی سیر کی جاۓ۔" اس نے سوچا اور ایک طرف چل پڑا۔ اس کا ارادہ گاؤں کے دوسری طرف جہاں اس کا سکول تھا اس طرف جانے کا تھا۔ پورے گاؤں میں اس وقت اور غالباََ ابھی بھی ایک ہی سکول تھا جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ صبح سویرے پیدل جایا کرتا تھا۔ یہ سکول مڈل تک ہی تھا اس کے بعد ہائی سکول کے لئے بڑے گاؤں جانا پڑتا تھا جو یہاں سے چند میل کے فاصلے پر تھا۔ کالج جانے کے لیۓ بڑی شاہراہ سے بس پکڑ کر شہر جانا پڑتا تھا۔ 


وہ مکانوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا گلیوں سے گزرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ کئ بار وہ راستہ بھول جاتا کیونکہ اب ارد گرد کافی مکان بن گۓ تھے، پہلے یہاں صرف کھیت اور خالی میدان تھے۔ سکول کی عمارت کے قریب پہنچنے پر یادوں کا ایک سیلاب تھا جو اس کے ذہن میں امڈ آیا تھا۔


" اوۓ سرفرازے تو نے آج پھر سبق یاد نہیں کیا تیری ہڈیاں ہیں نا میں نے توڑ دینی ہیں کسی دن۔ " ماسٹر اشرف بڑے سخت آدمی تھے۔ سکول کے سبھی بچے ان سے ڈرتے تھے۔ موٹا سا ڈنڈا ہر وقت ان کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ ڈنڈا تو وہ یونہی پکڑتے تھے حالانکہ انکی آواز ہی بچوں کو ڈرانے کے لیۓ کافی تھی۔ مگر جب کبھی وہ ڈنڈا چلاتے تھے تو اس دن یوں لگتا تھا پورا سکول خالی ہے یہاں تک کہ دوسرے استادوں کی آواز بھی سناںئ نہ دیتی تھی۔ تختیاں دھونے کے لئے سکول کے واحد نلکے پر لڑکوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا اور پہلے باری لینے کے لئے اکثر لڑائیاں ہوتیں تو ماسڑ خنیف کچھ دور دھوپ میں کرسی پر اونگتے ہوۓ اچانک سر اوپر اٹھاتے اور قدرے چلا کر بولتے "اوۓ نلیقو اپنی واری دا انتظار کرو ہاں۔ لڑدے کیوں او۔" مگر اب وہاں نہ تو نلکا تھا اور نہ ہی دھونے کے لیے تختیاں ملتی تھیں۔ 


وہ گاؤں میں دیر تک آوارہ گردی کرتا رہا اور کھیتوں میں کام کرتے لوگوں کو دیکھتے دیکھتے واپس لوٹ آیا اور سیدھا اپنے دوست کی دکان کا رخ کیا۔ اس کی دکان ڈھونڈنے میں اسے خاصی دقت پیش آئی دو تین لوگوں سے پوچھنے کے بعد وہ اس جگہ پہنچا۔


دونوں دوست کافی گرم جوشی سے ملے۔ دیر تک وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔ اتنے میں باہر سے ایک بوڑھی عورت ننگے پاؤں گزری پہلے تو سرفراز کو سمجھ نہ آںئ کہ کون پاگل عورت ہے جو اتنی سخت دھوپ میں ننگے پاؤں چل رہی ہے اور جس کو پاؤں جل جانے کی بھی پرواہ نہیں پھر جب اس نے غور سے دیکھا تو کچھ پہچان کر چونک اٹھا۔ یہ تو ماںئ تاجو ہے۔ جس کا گھر ابھی بھی کچا۔ اس نے سوچا۔ ہاں وہی مائی تاجو جس کے گھر میں بیری کا بڑا سا درخت تھا۔ جہاں وہ اور اس کے دوست اکثر بیر اتارنے جایا کرتے تھے۔ اور جب تھک جاتے تو ماںئ تاجو ان کے لئے شکر ملا کوںئ شربت پلاتی اور ساتھ ساتھ ڈانٹتی بھی جاتی تھی۔ "بے شرمو اتنی گرمی میں کیوں باہر گھومتے ہو گھروں میں چین نہیں آتا تم لوگوں کو۔" وہ سب مزے سے شربت پیتے، بیروں سے بھری جھولیاں اٹھاۓ، ہنستے کھیلتے بھاگ نکلتے۔ اب وہی ماںئ تاجو کمزور اور نادار، تھکی ماندی، بری حالت میں، سخت گرم دوپہروں میں ننگے پاؤں اپنے ہی دھیان میں چلی جا رہی تھی۔


"یہ مائی تاجو کو کیا ہوا ہے؟ " اس نے اپنے دوست سے پوچھا جو کسی کپڑے کو کاٹنے میں مصروف تھا۔ "اتنی دھوپ میں ننگے پاؤں کدھر جا رہی ہے؟ یہ مائی تاجو ہی ہے نا؟"


اس کے دوست نے ذرہ سا کھڑکی سے باہر جھانکا، مگر اب ماںئ تاجو آگے گزر چکی تھی۔ "تم نے ٹھیک پہچانا ہے میرے یار۔ یہ ماںئ تاجو ہی ہے بیچاری آج کل بڑی مجبور ہے۔ ننگے پاؤں بابا ڈھولے شاہ کے مزار تک چل کے جا رہی ہے تا کہ اس کی مراد پوری ہو سکے۔"


"کیوں کیا ہوا ہے، کیسی مراد؟" 


"تم تو جانتے ہو وہ اپنے خاوند کے ساتھ اکیلی رہتی تھی جو کچھ سال پہلے فوت ہو گیا تھا۔ اب اس کا صرف ایک ہی سہارا تھا اس کا بیٹا۔ وہ شہر میں کسی فرم میں کام کرتا تھا جہاں اس کا کسی کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ وہ لوگ بہت تگڑے تھے۔ انہوں نے کسی جھوٹے الزام میں پولیس کو کچھ دے دلا کر اندر کروا دیا۔ تب سے یہ ماںئ بیچاری اپنے بیٹے کی رہاںئ کے لیۓ ماری ماری پھرتی ہے۔"


"تو اس نے پولیس میں رپورٹ نہیں لکھواںئ یا کسی وکیل سے رابطہ نہیں کیا جو اس کے بیٹے کی ضمانت کروا دیتا؟" سرفراز نے حیرت سے پوچھا۔


"پولیس تھانے تو وہ روز جاتی تھی اور تھانے کے باہر گھنٹوں بیٹھ کر آجاتی تھی۔ مگر کسی نے بھی اسے اس کے بیٹے سے ملنے تک نہیں دیا اور رہی بات وکیل کی تو بھاںئ وکیل جتنی فیس مانگتا ہے یہ اپنا سب کچھ بھی بیچ دے تو بھی اس کی فیس ادا نہیں کر سکتی۔"


" تو پھر؟"


"پھر جب وہاں اس کی کوںئ شنواںئ نہ ہوںئ تو یہ اب بابا کے مزار تک روزانہ ننگے پاؤں چل کر جاتی ہے کہ شاید یہاں اس کی شنواںئ ہو جاۓ۔"


وہ اٹھا اور سوچتے سوچتے گھر کی طرف چل دیا۔ بہت کچھ بدل گیا ہے، پراٹھے کا شاید پیزا بن گیا ہے، بیٹھک ڈرائنگ روم میں بدل گئ ہے، دھوتی سے شلوار اور شلوار سے پتلون کا سفر بھی طے ہو گیا، نلکے سے کولر نکل آۓ یہاں تک کہ کنویں بھی بجلی کے ہو گۓ۔ مگر ننگے پاؤں ننگے ہی رہے۔




Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post