Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 




'میں آج تک سمجھ نہیں سکا کہ موسموں کا انسان سے یا انسان کا موسموں سے کیا تعلق ہے۔ اچھا موسم ہمیں خوش اور سخت موسم ہمیں بیزار کر دیتا ہے۔ سرد خطوں میں رہنے والوں کے لیۓ دھوپ کا نکلنا خوشگوار ہے جبکہ گرم علاقوں میں بادلوں کا بننا، گھٹاؤں کا چلنا اور بارش کا برسنا مسرت بخشتا ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے دراصل موسم کے خوشگوار ہونے کا تعلق ہماری اپنی ذات سے ہے، اگر میں اندر سے خوش ہوں گا تو مجھے ہر موسم ہی اچھا اور خوشگوار لگے لگا اور اگر میں طبعاً اور مزاجاً خوش نہیں تو مجھے کوںئ موسم بھی خوش نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا خوشی اور ذہنی سکون کا تعلق ہماری اپنی ذات سے ہے، انسان اگر اندر سے خوش ہے تو ارد گرد کا ماحول اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور وہ اگر اپنی ذات میں خوش نہیں یا اس کا مزاج خوشگوار نہیں تو باہر کا ماحول جیسا بھی ہو جاۓ وہ خوش نہیں ہو گا۔'


اس نے یہ اقتباس پڑھ کر کتاب بند کی تو پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا۔ لوگ اٹھ اٹھ کر اس سے ملنے، ،آٹوگراف لینے اور سیلفیاں کھچوانے لگے۔ سب اس کی تیسری کتاب پر اسے مبارک بادیں دے رہے تھے، اس کی پہلی دو کتابیں بھی ہاتھوں ہاتھ بکی تھیں اور بیسٹ سیلر رہیں تھیں۔ ارشاد احمد پورے ملک بلکہ ملک سے باہر بھی جانا جاتا تھا۔ اس آخری کتاب پر بھی لوگوں کی داد اور پزیراںئ سے وہ بہت خوش تھا۔


لوگوں سے فارغ ہو کر وہ حال سے باہر نکل آیا۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ تقریبا جھومتا ہوا وہ پارکنگ ایریا کی طرف بڑھا جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور باہر نکل آیا۔ سڑک پر پہنچ کر اس نے بہت تیز ردھم کی موسیقی نہایت بلند آواز میں لگائی اور جھومنے لگا۔ وہ سر کو زور زور سے موسیقی کے ساتھ حرکت دینے لگا اور ساتھ خود بھی گلوکار کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر بلند آواز سے گنگنانا شروع کر دیا۔ چند لمحوں بعد فون کی گھنٹی بجی۔ اس نےگانے کی آواز کم کی اور فون سننے میں مشغول ہو گیا۔ فون پر اس کی بیوی تھی۔ اس نے پرجوش انداز میں اپنی بیوی کو آج کی داستان سناںئ کہ اس کی کتاب لوگوں کو بہت پسند آںئ ہے اور اس کے اس نظریے کو بہت سراہا گیا ہے کہ ذہنی سکون اور مسرت کا تعلق انسان کی اپنی ذات کے ساتھ ہے خارجی ماحول سے بالکل نہیں۔ اس نے اپنی بیوی سے بات کرنے کے بعد جونہی فون بند کر کے نیچے رکھا ایک زور دار دھماکے کی آواز آںئ۔ ایک جھٹکے کے ساتھ گاڑی رک گئ۔ اس کا سر سامنے اسٹیئرنگ سے ٹکرایا جس سے اس کی پیشانی سے خون بہنے لگا۔ چند  لمحے اسے بلکل ہوش نہ رہا کہ کیا ہوا ہے اور وہ کہاں پر ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس کے حواس بحال ہوۓ تو وہ گاڑی سے باہر نکلا۔ باہر اردگرد ہر سو لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ لوگوں کے اعضاء ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ تارکول کی سیاہ سڑک خون میں نہا کر سرخ ہو گئی تھی۔ ہر طرف بھگڈر مچی تھی۔ آن کی آن میں یہ سب کچھ ہو گیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں نیوز چینلز کی گاڑیاں بھی پہنچ گئیں۔


"ناظرین اس علاقے میں زور دار دھماکا ہوا ہے جس سے بہت سے لوگ جاں بحق ہو گۓ ہیں۔'

Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post