Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 



 



کردار: سرفراز، شکیل، لبنیٰٰ



پہلا منظر


ایک سادہ سا کمرا جس میں ایک کرسی میز اور دو بستر لگے ہیں۔ سرفراز کرسی پر بیٹھا ہے اور شکیل اس کے پاس کھڑا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ ہے، وہ کاغذ پر دیکھ کر بلند آواز سے جملہ پڑھتا ہے۔




شکیل:  'وہ صبح جب بستر سے اٹھا تو نو بج چکے تھے۔'



یہ ایک جملہ ہے جو پچھلے تین گھنٹوں سے تم نے لکھا ہے۔ خیریت تو ہے؟



سرفراز: یار خدا کی قسم آج کل بلکل ذہن کام نہیں کر رہا۔ میں کچھ لکھ ہی نہیں پا رہا۔ سب کچھ خالی خالی سا لگ رہا ہے،  کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے کہیں کچھ ہو گیا ہے۔



شکیل :  کچھ نہیں ہوا، بس وہم ہے تمہارا، تم بھی پتہ نہیں ایک ہی جگہ گھنٹوں بیٹھ کر کیا اوٹ پٹانگ سوچتے رہتے ہو۔



سرفراز : تمہیں ایک بات بتاؤں؟ (سرگوشی کے انداز میں ) رات کے وقت اوپر کی منزل سے اکثر کچھ عجیب سی آوازیں آتی ہیں۔



شکیل :  خدا کو مانو یار، کچھ بھی نہیں ہے تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ پچھلے تین سال سے ہم اس مکان میں رہ رہے ہیں اب تک تو کچھ ایسا سنائی نہیں دیا۔ اور اوپر والی منزل میں رہتا ہی کون ہے صرف ایک لڑکی اور اس کی ماں۔۔۔ وہ بھلا کیا شور کریں گی۔



سرفراز: تمہیں لگتا ہے میرا وہم ہے تو آج رات خود سن لینا۔ 



شکیل : نہ بھاںئ میں تمہاری ان بیوقوفیوں کے چکر میں اپنی نیند نہیں خراب کرنے والا۔ اور میری مانو تو  تم بھی جلدی سو جایا کرو اور یہ بیکار کی کہانیاں لکھنا بند کرو۔ان سے تمہارا دماغ اور خراب ہوگیاہے۔



سرفراز : یار میری خاطر بس ایک دفعہ سن لو۔ بس تھوڑی دیر تک ہی تو جاگنا ہے۔ اس سے یہ بھی کنفرم ہو جاۓ گا کہ میرا وہم ہے یا حقیقت۔



شکیل : ٹھیک ہے رات آۓ گی تو دیکھیں گے۔۔۔ پر تم نے سنا کیا تھا, میرا مطلب ہے کس قسم کی آوازیں سنی تھیں؟



سرفراز: کچھ سمجھ نہیں آتی بس ایسے لگتا ہے جیسے کوںئ سرگوشیوں  میں باتیں کر رہا ہے۔



شکیل : یار مجھے تو لگتا ہے تمہارا وہم ہی ہے آدھی رات کو بھلا کون آۓ گا وہاں۔



سرفراز: یہی تو سمجھ نہیں آرہی۔ اور ویسے بھی یہ کوںئ ایک دن کی تو بات نہیں میں نے تو اکثر ایسی آوازیں سنی ہیں۔


(سرفراز بولے بغیر سر ہلاتا ہے)



دوسرا منظر


رات کا وقت۔ وہی کمرا۔ 


منظر کے کھلتے ہی دیوار پر ایک گھڑی لگی دیکھائی دیتی ہے جس پر پورے دو بجے ہیں۔ سرفراز اپنی کرسی پر بیٹھا میز پر جھکا کچھ لکھ رہا ہے۔ ایک دم سے سرگوشیوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں لیکن باتوں کی سمجھ نہیں آتی کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ سرفراز آواز سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور شکیل کو جنجھوڑ کر اٹھاتا ہے۔





سرفراز: اوۓ شکیل اٹھو اٹھو۔۔۔سنو سنو وہ آوازیں آرہی ہیں۔ وہ ادھر چھت سے غور سے سنو۔



شکیل : کہاں ہیں یار آوازیں کوںئ آواز نہیں آرہی ، تمہارے کان بج رہے ہیں، سونے دو مجھے۔ (کروٹ بدل کر منہ چادر سے ڈھانپ لیتا ہے)



سرفراز : یار اٹھو تو اٹھو گے تو سنو گے نا۔



شکیل : یار سرفراز خدا کے لیۓ چین سے سو تو لینے دیا کرو۔


(اٹھ کر بستر پر بیٹھ جاتا ہے)



سرفراز : اب خاموش رہو اور غور سے سنو۔ 



(شکیل غور سے کان لگا کر سننے کی کوشس کرتا ہے۔) 



شکیل : مجھے تو کوںئ آواز نہیں آرہی ۔ بولا تو ہے تمہارا وہم ہے۔



سرفراز : یار ایسے نہ کہو صاف آوازیں آرہی ہیں۔ دوبارہ ذرہ غور سے سنو۔



شکیل : (دوبارہ غور سے سنتا ہے) ہاں آواز تو آ رہی ہے۔ مگر باہر سے چوکیدار کی۔ ( باہر سے چوکیدار کی سیٹی کی آواز آتی ہے) بھاںئ میرے چوکیدار گزر رہا ہے اور کوںئ بھی نہیں ہے۔ 



سرفراز: تم اس چوکیدار کو جا لینے دو پھر سننا۔ غور سے سننا ( جیسے اپنے آپ سے) تمہیں ایک لڑکا اور لڑکی سرگوشیوں میں باتیں کرتیں سناںئ دیں گے۔



شکیل : مجھے نہیں سننی تمہاری آوازیں میں سونے لگا ہوں۔ 


(چادر اوپر لے کر سو جاتا ہے)۔



(اس کے بعد سرگوشیوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں جو آہستہ آہستہ بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔)

 


تیسرا منظر


رات کا وقت۔ لبنی کا گھر۔



  ایک چھوٹا سا کمرا ہے جس کے فرش پر کارپٹ بچھا ہے اور ایک دو کرسیاں پڑی ہیں۔ ایک طرف دروازے کے پاس کھڑے سرفراز اور لبنی باتیں کر رہے ہیں۔




سرفراز: بس لبنی تمہیں کیا بتاؤں میں اب ایسی کہانیاں نہیں لکھنا چاہتا جو جھوٹی ہوں جن کے کردار نقلی ہوں میں اب ایسی کہانی لکھنا چاہتا ہوں جو حقیقت ہو بلکل تمہاری طرح، جیسے تم اصلی ہو، حقیقی ہو بلکل ایسے۔



لبنی : لیکن میں تو تمہارا محض ایک خیال ہوں، ایک خواب ہوں جو تم روز رات کو دیکھتے ہو اور صبح ہوتے ہی بھول جاتے ہو۔ میں حقیقت تو نہیں ہوں۔



سرفراز: نہیں تم حقیقت میں ہو۔ اصل میں ہو۔ میرا دوست کہتا ہے کہ میرا دماغ چل گیا ہے اور مجھے وہم کی بیماری لاحق ہو گئ ہے۔ اسی لیۓ مجھے عجیب و غریب آوازیں سناںئ دیتی ہیں۔ مگر تم تو جانتی ہو ایسا نہیں ہے یہ سب کچھ سچ ہے۔ تم سچ ہو، حقیقت ہو میں بھی ایک سچ ہوں ایک حقیقت ہوں۔



لبنی : مگر میں تو تمہاری کہانی کا صرف ایک کردار ہوں، ایسا کردار جو کہانی ختم ہوجانے کے بعد کہیں دکھاںئ نہیں دے گا۔میری زندگی بس تمہاری کہانی کے اختتام تک ہے۔ جیسے ہی تمہاری کہانی ختم ہو گی میں بھی ختم ہو جاؤں گی۔



سرفراز: تو پھر میں اس کہانی کو کبھی ختم نہیں ہونے دوں گا لبنیٰ۔



لبنی : ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہر کہانی کا ایک اختتام ہوتا ہے ہر کہانی کسی نہ کسی موڑ پہ جا کر ختم ہو جاتی ہے یا ختم کرنی پڑتی ہے وہ الگ بات ہے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے اچھا یا برا۔ 



سرفراز: تو پھر میں اس کا انجام اچھا لکھوں گا۔



لبنی : نہیں سرفراز کہانی کا انجام ہم اپنی مرضی سے تھوڑا ہی لکھتے ہیں یہ تو لکھوایا جاتا ہے۔ ہم تو بس کہانی میں اپنے حصے کا کردار نبھاتے ہیں۔ اس کردار کا انجام کیا ہو گا ہم نہیں جانتے۔ 



سرفراز: لیکن دیکھنا میں اس کہانی کو ادھورا چھوڑ دوں گا۔ 



لبنی : ادھوری کہانیاں ایسی کہانیوں سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں جن کا انجام برا ہوتا ہے۔ 



(سرفراز چند قدم چل کر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو کر باہر جھانکنے لگتا ہے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد )



سرفراز: رات کتنی گہری اور تاریک ہو گئ ہے ستاروں کا دور تک کہیں نام و نشان نہیں۔ گہرے سیاہ بادل چھاۓ ہیں۔ کاش کہ یہ بادل چھٹ جائیں اور چاند نکل آۓ۔



لبنی : (گبھرا کر) خدا کے لیۓ  باہر مت دیکھو، کھڑکی بند کر دو مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔



سرفراز: (خیرت سے) کس بات کا ڈر؟



لبنی : اس تاریک رات کا۔ سنا ہے رات کی یہ سیاہی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ اپنے سحر میں جھکڑ لیتی ہے۔ جادوگرنی ہے جادوگرنی جس پر چھا جاۓ اس کا  برا حال ہو جاتا ہے۔



سرفراز: اچھا چھوڑو (کھڑکی سے ہٹ جاتا ہے) یہ بتاؤ اب آگے تمہارے کیا ارادے ہیں؟



لبنی: کس قسم کے ارادے؟



سرفراز: اپنی اگلی زندگی سے متعلق بلکہ ہماری زندگی سے متعلق۔



لبنی: تم بتاؤ تم کیا چاہتے ہو؟



سرفراز: میرے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے فرق تو اس بات سے پڑتا ہے کہ تم کیا چاہتی ہو۔ 



لبنی: (طنزیہ انداز میں ہنستی ہے) کاش میرے چاہنے سے کچھ فرق پڑتا سرفراز۔ 



سرفراز: تو کس کے چاہنے سے فرق پڑتا ہے؟



لبنی: معلوم نہیں۔(موضوع بدلتے ہوۓ) اچھا اب تمہیں چلنا چاہیۓ۔ رات بہت ہو گئ ہے۔ بہت جلد سویرا بھی ہو جاۓ گا۔



سرفراز: کاش سویرا جلد ہو جایا کرتا۔۔۔



چوتھا منظر: 


دن کا وقت۔ سرفراز کا کمرا۔


 پھر وہی پہلے والا کمرا۔ سرفراز اپنی سیٹ پر بیٹھا ہے اور شکیل اس کے پاس کھڑا کاغذ ہاتھ میں لیۓ بلند آواز سے جملہ پڑھتا ہے۔



شکیل: 'رات دیر تک سرگوشیوں کی آوازیں آتیں رہیں اور پھر اس نے کہا کہ کاش۔۔۔۔"

یہ کیا ساری رات جھاگتے بھی رہے پھر بھی تم نے  مکمل کہانی کیوں نہیں لکھی؟



سرفراز: اس لیۓ کہ میں اس کہانی کو مکمل نہیں کروں گا یہ ایسے ہی رہے گی نامکمل۔۔۔ (کچھ سوچتے ہوۓ)۔۔۔۔یا پھر۔۔۔شاید۔۔۔اسے کوںئ اور میرے لیۓ مکمل کرے۔۔۔ کیونکہ اسے مکمل کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ اس کا انجام کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔



شکیل: مگر وہ سرگوشیاں ۔۔۔(شکیل آگے کچھ کہنے لگتا ہے مگر خاموش ہو جاتا ہے۔ ) 

















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات