Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





 پہلا منظر: 


ارشد فٹ پاتھ پر چلا آرہا ہے، کندھے ہر بیگ لٹکاۓ ہوۓ ہے۔ سڑک پر ٹریفک رواں ہے ، گاڑیاں چل رہی ہیں، پیدل لوگ آجارہے ہیں، گہما گہمی ہے، رونق ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف دکانیں، ریستوران سجے ہیں۔ گاڑیوں ، موٹرسائکلوں، رکشوں وغیرہ کے چلنے کی اور ہارن بجنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ بڑی محویت سے اردگرد کے منظر سے لطف اندوز ہوتا ہوا چل رہا ہے اور خوش لگ رہا ہے۔ چلتے چلتے ایک آدمی کے پاس رک جاتا ہے جو فٹ پاتھ پر پنجرے میں قید پرندے بیچ رہا ہے۔ اس کے پاس جھکتا ہے اور اسے جیب سے کچھ پیسے نکال کر دیتا ہے اور دو پرندے خریدتا ہے۔ پرندے ہاتھ میں پکڑ کر اٹھتا ہے، دونوں کو اپنی ہتھیلیوں پر رکھتا ہے اور اڑا دیتا یے۔ پرندے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی ہونے پر فوراً اڑ جاتے ہیں اور اڑ کر ہوا میں غوطے لگانے لگتے ہیں۔ وہ کچھ دیر تک انہیں یونہی اڑتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے، مسکراتا ہے اور آگے چل پڑتا ہے۔



دوسرا منظر: 


ارسلان بھی اکیلا فٹ پاتھ پر چلتا آرہا ہے، اس کے کندھے پر بھی بیگ ہے۔ مگر ارشد کے برعکس وہ تھکا ہارا، نڈھال اور پریشان لگ رہا ہے۔ اردگرد کے منظر سے محذوز ہونے کی بجاۓ وہ دوڑتی بھاگتی گاڑیوں، ان میں بیٹھے لوگوں اور دکانوں میں سجی انواع و اقسام کی رنگ برنگی قیمتی اشیا کو بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ایک دکان کے باہر رکتا ہے اور شیشے کی دیوار کے دوسری طرف ایک ڈمی پر خوبصورت برینڈڈ لباس کو غور سے اور حسرت سے دیکھتا ہے۔ ہاتھ سے اسے چھونے کی کوشش کرتا ہے مگر درمیان میں شیشے کی دیوار خائل ہے۔ چند سیکنڈ دیکھنے کے بعد تھکے ہارے قدموں سے آگے چل پڑتا ہے۔ 


تیسرا منظر:


دروازہ کھلنے کی آواز آتی ہے ارسلان کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ کمرا تھوڑا بڑا ہے، نیچے فرش پر کارپٹ بچھا ہے، جس پر چند کتابیں اور کاغزات بکھرے پڑے ہیں، دیوار پر کھونٹی پر کپڑے ٹنگے ہیں۔ ایک طرف ایک دروازہ ہے جہاں باتھ روم ہے اور دوسری طرف ایک اور دروازہ ہے، ارسلان کندھے پر لٹکا بیگ فرش پر گراتا ہے اور دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے۔


چوتھا منظر: 


ایک چھوٹی سی بالکنی یا ٹیرس میں ارشد کرسی پر بیٹھا ہے، ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور پاس ہی ریلنگ پر تھوڑی سی خالی جگہ پر چاۓ کا کپ رکھا ہے۔ کچھ دیر کتاب پڑھتا ہے پھر اپنی شہادت کی انگلی کتاب کے اندر رکھ کر کتاب بند کرتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے چاۓ کا کپ پکڑتا ہے۔ ایک گھونٹ بھرنے کے بعد اوپر آسمان کی طرف نگاہ کرتا ہے آسمان پر تیرتے اور  اٹھکیلیاں کرتے پرندوں کو بڑی محویت سے دیکھتا ہے۔ اردگرد درختوں سے چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ ساتھ ہی ارسلان ٹیرس میں داخل ہوتا ہے۔


ارشد: آگۓ۔ اتنی دیر لگا دی یار کدھر رہ گۓ تھے؟


(ارسلان جواب دیۓ بغیر چپ چاپ آکر کرسی پر گر جاتا ہے)


ارشد: (خیرت سے) کیا ہوا خیریت تو ہے؟


ارسلان: (بیزاری سے) کچھ نہیں یار ایسے ہی۔ تم بتاؤ عثمان آیا نہیں ابھی تک۔۔۔


ارشد: (چاۓ کا گھونٹ بھر کر) آتا ہی ہو گا فون کیا تھا تھوڑی دیر پہلے، کہہ رہا تھا رستے میں ہوں۔


(عثمان چابی کا کی چین انگلی میں ڈال کر گھماتا ہوا ٹیرس میں داخل ہوتا ہے)


عثمان: ہاۓ جوانوں کیا حال ہے کیا ہو رہا؟


ارشد: بس تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا اور ہمیشہ کی طرح تم پھر دیر سے آۓ ہو۔


عثمان: (کرسی پر بیٹھتے ہوۓ) ہاں یار راستے میں ایک جگہ رک گیا تھا کام تھا چھوٹا سا۔۔۔پر اتنی دیر بھی نہیں ہوںئ یہ ارسلان بھی تو کہیں گیا ہوا تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو تم نے فون پر بتایا۔ اس کا مطلب ہے یہ بھی ابھی ابھی پہنچا ہے۔


ارسلان: ہاں پر تم سے پہلے پہنچ تو گیا۔۔۔اور تمہاری طرح میرے پاس گاڑی نہیں کہ یوں بیٹھے اور یوں پہنچ گۓ ہمیں تو پیدل آنا جانا پڑتا ہے۔


عثمان: ہے ہے۔۔۔یہ کیا بات ہوںئ؟


ارشد: آج نہ ہی اسے چھیڑو تو بہتر ہے آج اسے پھر دورہ پڑا ہوا ہے۔


عثمان: (ارسلان سے) اوہ۔۔۔تو تم پھر وہی سوچ رہے ہو؟


ارسلان: تو اور کیا کروں تمہیں سمجھ نہیں آسکتی تمہارے پاس تو سب کچھ ہے گاڑیوں میں گھومتے ہو مہنگے برینڈز کے لباس اور جوتے پہنتے ہو جبکہ ہمارے پاس ایک پھٹیچر سی موٹر سائیکل ہے جو اکثر خراب رہتی ہے اور کوںئ پسند کی چیز ہم خرید نہیں سکتے خریدنے سے پہلے ہمیں سو بار سوچنا پڑتا ہے۔


عثمان: مگر مجھے تو تم لوگوں کی زندگی پر رشک آتا ہے۔ تم تو بلکل آزاد ہو، بے شک ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہو مگر اپنی مرضی سے اٹھتے بیٹھتے ہو سوتے جاگتے ہو، جہاں چاہے گھومتے پھرتے ہو کوںئ فضول روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ جبکہ مجھے دیکھو میں اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتا یہاں آنے کے لیۓ بھی مجھے سو بہانے لگانے پڑتے ہیں۔ میرا تو کبھی کبھی دل کرتا ہے میں یہاں تم لوگوں کے پاس ہاسٹل میں شفٹ ہو جاؤں پیسے چاہے کم ہوں پر اپنی مرضی سے رہ تو سکوں گا۔


ارشد: صحیح کہا تم نے بے شک اچھا گھر، اچھا لباس، اچھا کھانا، اچھی سواری نعمتیں ہیں پر آزادی ان سب سے بڑی نعمت ہے۔ میں آزادی کے لیۓ یہ سب کچھ قربان کر سکتا ہوں مگر یہ کبھی گوارہ نہیں کر سکتا کہ ان سب چیزوں کے حصول کے لیۓ آزادی کو گروی رکھ دوں۔



ارسلان: تم تو رہنے ہی دو تم تو مادد پدر آزادی چاہتے ہو۔


عثمان: مادر پدر غلامی سے تو بہتر ہی ہے۔


ارشد: یار میں وہ سب نہیں کہہ رہا اور نہ میں اٌس بحث میں پڑنا چاہتا ہوں میں تو بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار مجھے حاصل ہو میں تو بس خود مختار ہونے کی، انڈیپنڈنٹ ہونے کی بات کر رہا ہوں۔ 


ارسلان: مجھے یہ سب نہیں معلوم مجھے تو بڑی بڑی گاڑیاں چاہییں بڑا گھر اور اچھی سہولتیں اور۔۔۔


عثمان: چلو چھوڑو یار ہم کس بحث میں پڑ گۓ پہلے ہی آدھا دن گزر گیا ہے چھٹی کا سارا دن کیا یہی گزار دینا چلو چلیں۔


ارشد: (خوش ہوتے ہوۓ) ہاں یار چلو چلیں قسم سے بور ہو گیا ہوں ایک چھٹی کا دن ہے کل سے پھر وہی کالج ، پڑھاںئ اور نوکری وغیرہ۔


ارسلان: اسے تو بس گھماتے ہی رہو تو یہ راضی ہے دو دن گزرتے نہیں کہ چلو کہیں چلیں۔


عثمان: وہ تو ٹھیک ہے پر جائیں کہاں؟


ارشد: کہیں بھی چلے چلو پر یہاں سے تو نکلو۔


عثمان: تو چلو پھر وہیں چلے چلتے ہیں آج اپنی پسندیدہ جگہ، کافی دن ہو گۓ ہیں گۓ ہوۓ۔


ارشد: (اٹھتے ہوۓ) یہ بھی ٹھیک ہے تو چلو پھر۔۔۔


عثمان: پر ایک مسئلہ ہے؟


ارسلان: کیا؟


عثمان: (منہ بناتے ہوۓ) وہ گاڑی نہیں ملی۔ میں موٹر سائیکل پہ آیا ہوں۔


(دونوں ہنستے ہیں)


ارشد: اچھا چلو موٹر سائیکل پہ ہی چلے چلتے ہیں۔۔۔ پر تینوں ایک ہی موٹر سائیکل پہ جائیں گے؟


ارسلان: تین نہیں چار وقار بھی تو ہے۔


عثمان: تو اس کے پاس تو موٹر سائیکل ہو گا۔ اس کے گھر تک ایک ہی موٹر سائیکل پہ چلے چلتے ہیں تینوں۔


ارشد: تو ٹھیک ہے چلو پھر۔


عثمان: (اٹھتے ہوۓ) ویسے یار تم لوگوں کا بائیک کدھر ہے؟


ارشد: (ہنستے ہوۓ) بائیک؟۔۔۔واہ اس بے چارے کو بائیک کہتے ہوۓ شرمندگی سی ہوتی ہے تم اسے موٹرسائیکل ہی رہنے دو نام اچھا لینے سے وہ تھوڑی اچھا ہو جاۓ گا۔


عثمان: ہاں پر وہی بائیک۔۔۔میرا مطلب ہے موٹر سائیکل ہے کہاں؟


ارسلان: کہاں ہو سکتی ہے وہیں مکینک کے پاس۔


عثمان: چلو کوںئ نہیں یہ تو روز کا ہے۔


(تینوں ہنستے ہوۓ دروازے سے اندر چلے جاتے ہیں)


پانچواں منظر:


کسی دریا،نہر یا سمندر کے کنارے وہ تینوں اور چوتھا ان کا دوست وقار پانی میں کھیل رہے ہیں۔ چاروں ایک دوسرے کو اٹھا اٹھا کر پانی میں پھینک رہے ہیں، غوطے لگا رہے ہیں، ایک بھاگتا ہے باقی تینوں اسے بھاگ کر پکڑتے ہیں اور اٹھا کر پانی میں پھینکتے ہیں پھر کوںئ دوسرا بھاگتا ہے اور باقی تین اسے پکڑ کر ایسا ہی کرتے ہیں، پورے ساحل پر ان چاروں کے سوا کوںئ نہیں، ساحل بلکل ویران ہے اور خاموش ہے، سواۓ پانی میں پھینکے جانے کی اور ان چاروں کے ہنسنے اور قہقہے لگانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ دریا کا پانی پر شور نہیں بلکہ پرسکون ہے آہستہ سے بہہ رہا ہے۔ کافی دیر تک چاروں اسی طرح کھیلتے رہتے ہیں۔ پھر ارشد دونوں ہاتھ اوپر کھڑے کر کے بولتا ہے۔


ارشد: بس یار بس اب کچھ دیر بریک لیتے ہیں (پانی سے نکلتے ہوۓ) ابھی ایک ایک سوٹا ہو جاۓ۔


( پانی سے نکل کر خشکی پر جہاں ان کے کپڑے وغیرہ رکھے ہیں آکر بیٹھ جاتا ہے۔ باقی تینوں بھی اس کے پیچھے آجاتے ہیں۔) 


چھٹا منظر: 


کچھ دیر بعد اسی جگہ پر ارسلان زمین پر سر کے پیچھے بازؤں کا تکیہ بناۓ لیٹا ہے۔ عثمان یوں لیٹا ہے کہ سر ارسلان کے پیٹ پر ہے اور ٹانگیں نیچے زمین پر پھیلاۓ ہے۔ وقار کچھ فاصلے پر ایک ٹانگ بینڈ کر کے دوسری اس کے گھٹنے پر رکھے لیٹا ہے ایک بازو سر کے نیچے ہے اور دوسرا دھوپ سے بچنے کے لیۓ آنکھوں پر رکھا ہے۔ جبکہ ارشد بیٹھا ہے اور سامنے دریا کو گھورے جا رہا ہے۔ صرف عثمان اور ارشد سگریٹ پی رہے ہیں۔ چاروں خاموش ہیں۔ دریا کے اوپر سے پرندے اڑتے دکھاںئ دیتے ہیں اور ان کی آوازیں ابھرتی ہیں۔ ارشد انہیں بڑی محویت سے دیکھتا ہے۔


ارشد: (سگریٹ کا ایک لمبا کش لگا کر دھواں فضا میں چھوڑتا ہے) یہ دریا دیکھو کتنا پرسکون ہے۔ خاموشی سے بہہ رہا ہے، ہولے ہولے اپنے آپ میں مگن، اردگرد سے  بے خبر بہے چلا جا رہا ہے۔ مجھے پر شور طغیاں دریا بالکل پسند نہیں جو بھپھرتے ہیں اور اپنے کناروں سے باہر نکل کر ہر چیز روند کر تہس نہس کر کے نکل جاتے ہیں۔۔۔ اس کے برعکس یہ کتنے سکون سے بہہ رہا ہے اپنی دونوں حدوں کے اندر اپنی مستی میں بس چلا جا رہا ہے۔ (تھوڑی دیر خاموش ہوتا ہے ایک کش لگاتا ہے، دھواں چھوڑتا ہے اور پھر بولتا ہے) میں لوگوں کو بالکل نہیں جانتا اور نہ مجھے جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے، کون کیا کر رہا ہے، کہاں جا رہا ہے، کیا کھا رہا ہے، کیا پہن رہا کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں، کس کے کیا نظریات ہیں مجھے ذرہ بھی دلچسپی نہیں۔ میں بس اپنے آپ کو جانتا ہوں، میں کیا ہوں ، مجھے کیا کرنا چاہیۓ، میری ذمہ داریاں کیا ہیں، میرے فرائض کیا ہیں اور میرے حقوق کیا ہیں۔۔۔جانتے ہو میں نے اپنے ماں باپ سے کبھی قیمتی اشیا کی فرمائش نہیں کی کیونکہ میرے نزدیک ان کی اہمیت بس اتنی ہے کہ یہ چیزیں اگر حاصل ہو گئیں تو اچھی بات ہے نہ ملیں تو بھی ٹھیک ہے۔ لیکن میں صرف یہ چاہوں گا کہ مجھے یہ نہ لگے کہ میں گھر پر نہیں بلکہ کسی فوجی میس میں رہ رہا ہوں کہ گھنٹی بجنے پر اٹھوں اور گھنٹی بجے پر سوؤں۔ ہر کام حکم کے مطابق کروں اور اگلا کام کرنے کے لیۓ اگلے حکم کا انتظار کروں۔ 



ارسلان: (اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے) تم کو نہ چاہئیں ہوں گی لیکن مجھے تو ہر چیز چاہیۓ ہر حال میں، ہر شرط پر۔ (پاس پڑے سامان میں سے کچھ نکال کر کھانے لگتا ہے) بھوک لگ گئ ہے اب کچھ کھا لیں۔


 


ارشد: ( سگریٹ پھینک کر کھڑا ہو جاتا ہے) نہیں پہلے ایک ڈبکی ہو جاۓ۔  (اس کا بازو پکڑ کر کھینچتا ہے)


ارسلان:  ٹھہرو یار پہلے کچھ کھا تو لیں۔


(عثمان اور وقار بھی اٹھتے ہیں اور اسے ٹانگوں سے پکڑ لیتے ہیں)


عثمان: کھانا بعد میں پہلے 'اشنان' تو کر لو۔


(تینوں اٹھا کر اسے پانی میں پھینک دیتے ہیں۔)


ساتواں منظر:


ارسلان اکیلا فٹ پاتھ پر چل رہا ہے منہ لٹکاۓ ہوۓ ہے۔ کندھے پر کالج بیگ ہے اور تھکا تھکا لگ رہا ہے۔ ایک جگہ ایک عامل بابا بیٹھا ہے۔ اس نے اپنے سامنے ایک بورڈ رکھا ہے جس پر لکھا ہے۔ "آیۓ اور من کی مراد پایۓ۔" بابا نے لمبا سا چولا پہن رکھا ہے، سر پر گول ٹوپی ہے جس میں سے لمبے لمبے گندھے گندھے بالوں کی جھالریں لٹک کر کندھوں تک آگئیں ہیں۔ چہرے پر بڑی سی داڑھی ہے۔ وہ آلتی پاتی مارے چھوٹی سی چٹاںئ پر بیٹھا ہے اور آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ  میں کچھ پڑھ رہا ہے۔ دیکھنے پر انتہاںئ پراسرار اور قدرے خوفناک دکھاںئ دیتا ہے۔ ارسلان اس کے پاس سے گزرتے ہوۓ ایک نظر اس کی طرف دیکھتا ہے پر رکتا نہیں۔ تھوڑی دور جانے کے بعد پیچھے سے بابا جی کی آواز سناںئ دیتی ہے۔


بابا: آجا پتر جو چاہتے ہو مل جاۓ گا۔


(ارسلان رک کر پیچھے دیکھتا ہے۔ بابا ابھی بھی آنکھیں بند کیۓ آلتی پالتی مارے منہ ہی منہ کچھ پڑھ رہا ہے۔ ارسلان چند سیکنڈ اسے دیکھتا ہے پھر پلٹنے لگتا ہے۔ جیسے ہی پلٹتا ہے بابا پھر بولتا ہے۔)


بابا: رک جا بچہ ادھر آ سب کچھ ملے گا، جو تو چاہتا ہے سب کچھ۔


ارسلان: (بابا کو دیکھ کر خیرت سے) بابا جی آپ نے مجھ سے کچھ کہا۔


بابا: (بغیر آنکھیں کھولے اسی حالت میں) ہاں بیٹا تمہی سے کہہ رہا ہوں ادھر آؤ بات سنو۔


(ارسلان پاس جا کر کھڑا ہو جاتا ہے)


ارسلان: جی فرماییۓ کیا کام ہے آپ کو؟


(بابا آنکھیں کھولتا ہے۔ آنکھیں اس قدر سرخ ہیں جیسے خون اترا ہو۔) 


بابا: کام تو تمہیں مجھ سے ہے بیٹا مجھے تو تم سے کوںئ کام نہیں۔


ارسلان: (آنکھوں کو دیکھ کر کچھ خوفزدہ ہوتا ہے) مجھے۔۔۔مجھے آپ سے کیا کام ہو سکتا ہے بلایا تو مجھے آپ نے ہے۔ 


بابا: (ہلکا سا ہنستا ہے) زندگی میں تمہیں ہی بہت کچھ چاہیۓ اس لیۓ کام بھی تو تمہیں ہی پڑے گا مجھے تو کچھ نہیں چاہیۓ لہذا مجھے کیسا کام۔


ارسلان: (خیرت سے) میں آپ کی بات سمجھا نہیں؟


بابا: اچھا بیٹھو بتاتا ہوں۔


(ارسلان نیچے بیٹھ جاتا ہے) 


بابا: تمہیں جو جو کچھ چاہیۓ میں تمہیں دلا سکتا ہوں۔ 


ارسلان: (ہنستا ہوۓ) اچھا آپ مجھے دلائیں گے آپ کے پاس تو خود کچھ نہیں۔ 


بابا: (ہنستا ہے) میرے پاس بہت کچھ ہے۔ تم بتاؤ تمہیں کیا چاہیۓ؟


ارسلان: اگر آپ کے پاس بہت کچھ ہے تو آپ خود کیوں  استعمال نہیں کرتے آپ فٹ پاتھ پر کیوں بیٹھے ہوۓ ہیں؟


بابا: اس لیۓ کہ سب کچھ جس شرط پر ملتا ہے وہ مجھے قبول نہیں۔ مگر شاید تمہیں قبول ہو۔ 


ارسلان: اچھا ایسی کون سی شرط ہے وہ۔ 


بابا: وہ شرط ہے آزادی بیچنے کی۔


ارسلان: (خیران ہوتے ہوۓ) آزادی بیچنے کی؟ کیا مطلب؟


بابا: مطلب یہ کہ اگر میں اپنی آزادی بیچ دوں ، گروی رکھ دوں تو یہ سب کچھ مجھے مل جاۓ گا۔


ارسلان: تو آپ پہلے کون سے آزاد ہیں ادھر فٹ پاتھ پر بیٹھے ہیں یہ کیسی آزادی ہے۔


بابا: (ہنستا ہوۓ) خیر وہ تم چھوڑو تم بتاؤ تمہیں سب کچھ چاہیۓ لیکن شرط وہی ہے تمہیں اپنی آزادی  گروی رکھنی پڑے گی۔


ارسلان: ہاں مجھے بہت کچھ چاہیۓ ہر قیمت پر ہر شرط پر۔ لیکن میں جانتا ہو آپ وہ نہیں دے سکتے کینوکہ آپ جیسے لوگ دھوکے باز ہوتے ہیں ، شعبدہ باز  جو لوگوں کو اس طرح چنگل میں پھنسا کر پیسے اینٹھتے ہیں۔


بابا: (ہنستے ہوۓ) ٹھیک کہا تم نے دھوکے باز ہی ہوتے ہیں شعبدہ باز ہی ہوتے ہیں پر میں تم سے اس وقت کوںئ دھوکا نہیں کر رہا نہ کوںئ شعبدہ بازی کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔۔۔ اچھا ٹھہرو (ہاتھ اپنے چولے کی جیب میں ڈال کر انگوٹھی نکالتا ہے) یہ لو یہ انگوٹھی ہے یہ پہن لو گے تو یہ تمہیں سب کچھ دے گی ہر قیمتی سے قیمتی چیز۔۔۔ پر۔۔۔(کچھ دیر رکتا ہے) شرط ایک ہی ہے کہ تمہیں اپنی آزادی اس کے حوالے کرنی پڑے گی۔ اس کی مرضی کے مطابق چلنا پڑے گا۔  اس کی پسند ، اس کی نا پسند کے مطابق۔ 


ارسلان: (خیرت سے ڈرتے ڈرتے انگوٹھی پکڑتا ہے) مگر۔۔۔یہ۔۔۔میں۔۔۔


بابا: (انگوٹھی اس کے حوالے کر کے) اور ایک بات یاد رکھنا ایک دفعہ تم نے اس کے حوالے اپنی آزادی کردی تو پھر تم چاہ کر بھی وہ واپس نہیں لے سکو گے۔ یہ تمہیں ہر آسائش مہیا کرے گی مگر چلنا تمہیں اس کی مرضی کے مطابق ہو گا اس لیۓ جو بھی فیصلہ کرنا سوچ سمجھ کر کرنا۔۔۔ٹھیک ہے اب جاؤ۔


(بابا دوبارہ آنکھیں بند کر لیتا ہے اور منہ ہی منہ کچھ پڑھنے شروع کر دہتا ہے، ارسلان کچھ خیران کچھ ہریشان کچھ سمجھنے کچھ نہ سمجھنے کی کیفیت میں اٹھتا ہے انگوٹھی مٹھی میں دبا کر چل پڑتا ہے۔ )


آٹھواں منظر:


ارشد اپنے کمرے میں نیچے کارپٹ پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے اس کے دو دوست بیٹھے ہیں۔ ایک دوست بیٹھا ہے جبکہ دوسرا کارپٹ پر ارشد کی طرف منہ کر کے لیٹا ہے۔ ارشد نے اپنے گود میں تکیا رکھا ہے۔ اس کے پاس ہی دیوار پر سوئچ بورڈ ہے جس میں چارجر لگا ہے اور ارشد کا موبائل چارجر کے ساتھ لگا نیچے لٹک رہا ہے۔ کمرے میں ارشد کی آواز گونج رہی ہے۔


ارشد: یار میرا تو یہ ماننا ہے کہ آدمی سستا کھا لے ہلکے کپڑے پہن لے پر اپنی مرضی سے رہے۔ یقین مانو بہت سے مسائل اسی وجہ سے ہیں، ہم آزاد زندگی کو پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں ، اسے کچھ اور ہی رنگ دیتے ہیں ،ہم اپنے لیۓ تو سب کچھ اپنی مرضی کا چاہتے ہیں مگر دوسروں کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا اختیار نہیں دیتے۔ ہم چاہتے ہیں ہم جیسا لباس پسند کرتے ہیں سب وہی پہنیں، ہمارے جو عقائد ہیں انہیں دوسرے بھی لازماً تسلیم کریں، ہم جو عبادت کرتے ہیں دوسروں کے لیۓ لازمی ہے کہ وہی عبادت کریں، ہم اپنے نظریات دوسروں پر زبردستی تھوپتے ہیں، ہم لوگوں کو قائل کرنے کی بجاۓ اپنی مرضی ان پر مسلط کرتے ہیں۔ اگر آدمی کو۔۔۔( اتنے میں ارسلان کمرے میں داخل ہوتا ہے) آؤ یار تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا کدھر رہ گۓ تھے؟


(ارسلان اس کی بات کا جواب نہیں دیتا ایسا جیسے اس نے سنا ہی نہیں اور نہ کسی کو دیکھا ہے چپ چاپ بیگ گراتا ہے اور باتھ روم میں گھس جاتا ہے)


(سامنے بیٹھا دوست ارشد سے پوچھتا ہے)


دوست: اسے کیا ہوا؟


(ارشد بولتا نہیں صرف سر ہلا کر اور منہ کے انداز سے ظاہر کرتا ہے کہ پتہ نہیں کیا ہوا۔)


نواں منظر:


ارسلان باتھ روم میں کھڑا ہے۔ جیب سے ڈرتے ڈرتے انگوٹھی نکالتا ہے، کچھ دیر اسے دیکھتا رہتا ہے، پھر اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہننے لگتا ہے۔ جیسے ہی انگوٹھی انگلی کو چھوتی ہے تیز روشنی ابھرتی ہے۔ اتنے میں باہر سے ارشد کی آواز سناںئ دیتی ہے۔


ارشد: ارسلان کیا کر رہے ہو یار خیریت تو ہے؟


(گبھراہٹ اور ہڑبڑی میں انگوٹھی اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے۔ چند لمحے اسی طرح گزر جاتے ہیں۔ پھر وہ ارشد کو جواب دیتا۔)


ارسلان: (آواز میں کچھ لڑکھڑاہٹ اور کپکپی ہے) کچھ نہیں یار، نکل رہا ہوں بس۔


(پھر وہ انگوٹھی اٹھاتا ہے اور اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا ہے۔)


دسواں منظر:


ارشد کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھا ہے اس کے سامنے ماریہ بیٹھی ہے۔ دونوں کھانا کھا رہے ہیں یا کافی وغیرہ پی رہے ہیں۔ اردگرد دوسری میزوں پر اور لوگ بھی بیٹھے ہیں مگر ان کی آوازیں سنائی نہیں دے رہیں۔ صرف ماریہ اور ارشد کی باتوں کی آوازیں سناںئ دے رہی ہے۔ ارشد نے جینز شرٹ پہن رکھی ہے اور بال اچھے سے بنا رکھے ہیں۔ ماریہ سیاہ لباس میں ملبوس اور سر کو اسکارف سے ڈھانپ رکھا ہے۔


ماریہ: تو تم چاہتے ہو کہ میں تم پر اپنا کوںئ حق نہ جتاؤں نہ اب نہ شادی کے بعد۔


ارشد: میں نے ایسا کب کہا؟


ماریہ: تمہاری باتوں سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ 


ارشد: تم میرا مطلب نہیں سمجھی میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حق جتانا محبت نہیں ہے بلکہ حق دینا محبت ہے۔ مثلا اگر مجھے کوںئ چیز یا کوںئ کام پسند ہے تو میں تمہیں فورس کروں یا توقع رکھوں کہ تم بھی وہی کرو یہ سوچ کر کہ میرا تم پر حق ہے اس لیۓ تم محبت کی خاطر ہر حال میں میری بات مانو اور تم بھی مجھ سے یہی توقع رکھو۔


ماریہ: تو اس میں براںئ کیا ہے؟


ارشد: یہی تو بات ہے مس ماریہ ارشاد۔ مجھے تم پر یا تمہیں مجھ پر حق جتانا نہیں بلکہ یہ حق دینا ہے کہ تم اپنی پسند اپنی چوائس کے مطابق زندگی گزارو۔ اگر مجھے کچھ پسند ہے یا میں کسی معاملے میں اپنی راۓ رکھتا ہوں تو اگر وہ تمہیں بھی پسند آجاتا ہے تو اچھی بات ہے ورنہ تمہیں پورا حق ہے کہ تم اپنی پسند ، اپنی راۓ کے مطابق چلو۔


(پانی پینے کے لیۓ رکتا ہے، جگ سے پانی گلاس میں ڈالتا ہے، آدھا گلاس ایک ہی سانس میں پی جاتا ہے، پھر کھانے کے لیۓ کوںئ چیز اٹھاتا ہے ) ۔۔۔ عام طور پر شک کرنا اور possessive ہونا اچھی بات سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوںئ کسی سے جتنی محبت کرتا ہے اس پر شک بھی اتنا ہی زیادہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی پرواہ کرتا ہے لیکن میں یہ کہہ رہا ہوں کہ کسی سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جاۓ ، اسے آزادی دی جاۓ اس پر اعتماد کیا جاۓ۔ اسے اس کی چوائس کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جاۓ، حق جتایا نہ جاۓ۔


ماریہ: تو اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ۔۔۔


ارشد: میرے کہنے کا جو مطلب ہے۔۔۔


(فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ ماریہ میز پر رکھا موبائل اٹھاتی ہے، نمبر دیکھتی ہے مگر کال اٹینڈ نہیں کرتی)


ماریہ: کافی دیر ہو گئ ہے کالز بھی آنی شروع ہو گئ ہیں مجھے راستے میں مارکیٹ بھی جانا ہے، جلدی کرو ۔۔۔


ارشد: خود چلی جاؤ گی یا میں چھوڑ دوں؟


ماریہ: (شرارت سے) تمہیں بڑی جلدی ہے چھوڑنے کی کہیںں سچ میں نہ چھوڑ دینا۔


ارشد: (شوخی سے) ہم چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں ماریہ صاحبہ ہم جس کو دل سے ایک دفعہ تھام لیتے ہیں پھر اسے چھوڑتے نہیں۔



ماریہ: (داد دینے کے انداز سے) آہاہاہا۔۔۔واہ کیا بات ہے کس فلم کا ڈائیلاگ یاد کیا ہوا اور کتنوں کو بول چکے ہو؟


ارشد: (مسکراتے ہوۓ) کافی ہیں پر اٹس پرسنل۔۔۔۔(سنجیدگی سے) ویسے سچ بتاؤں ماریہ! مجھے بلکل سمجھ نہیں آتی کتنی آسانی سے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیریئر یا کامیابی کے لیۓ کسی کو بھی چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہیۓ، move on  کر جانا چاہیۓ، کتنی لغو اور بےہودہ بات ہے یہ۔ آپ دوستوں کو، انسانی رشتوں کو جن کا تعلق آپ کے دل سے ہو، ان کو صرف ایک معمولی سی ترقی کے لیۓ باںئ پاس کر دیں۔ انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں۔ کیا یہ کامیابی ہے؟


ماریہ: (سنجیدگی سے) باتیں تو تمہاری صحیح ہیں ارشد پر ڈرتی ہوں کہیں یہ محض تمہاری باتیں ہی نہ ہوں۔ (موبائل کی گھنٹی پھر بجتی ہے، اس بار بھی اٹھاتی نہیں) او خدایا بڑی دیر ہوگئ ہے (اٹھتے ہوۓ) اچھا اب میں چلتی ہوں۔


ارشد: (اٹھتے ہوۓ) ارے ٹھہر تو جاؤ اکٹھے ہی نکلتے ہیں۔


ماریہ: (بیگ کندھے پر ڈال کر تیزی سے نکلتے ہوۓ) نہیں میں رکشہ لے لوں گی اوکے باۓ۔ خدا خافظ۔ (چلی جاتی ہے)


گیارواں منظر:


ماریہ اپنی دوست تانیا کے ساتھ کمرے میں بیٹھی ہے۔ کمرا تھوڑا کھلا ہے اور خوبصورت ہے۔ ایک طرف لکڑی کا ایک بڑا سا خوبصورت دروازہ ہے اس کے اوپر لیمپ نما لائٹ لگی ہے اس کے ایک طرف کھڑکی ہے جس کا پردہ پیچھے ہٹا ہوا ہے اس لیۓ کھڑکی کے شیسشے سے باہر کا منظر دھندلا سا دکھاںئ دے رہا ہے، صرف اتنا معلوم ہو رہا ہے کہ باہر روشنی ہے اور دن ہے۔ درمیان میں پیڑھوں کے جیسے صوفے رکھے ہیں۔ ان کے درمیاں دو شیشے کے میز ہیں جن پر پانی کی بوتل اور ایک دو گلاس پڑے ہیں۔ ایک میز پھولوں کا چھوٹا سا گلدان پڑا ہے۔ ان کے ساتھ ہی ایک لیپ ٹاپ بند پڑا جس کے اوپر موبائل اور لڑکیوں کا چھوٹا سا پرس رکھا ہوا ہے۔ دیوار پر نیلے رنگ کا پینٹ ہے ایک جگہ پر کوںئ گڑیا یا بھالو کی طرح کا کھلونا دیوار پر سجاوٹ کے لیۓ ٹنگا ہے۔ کمرا سادہ ہے لیکن کافی خوبصورت ہے۔ ماریہ نے کلاںئ میں گڑی پہن رکھی ہے۔ تانیہ کی آنکھوں پر نظر کا چشمہ ہے جسے وہ بار بار عادتاً اپنی انگلی سے دبا کر سیٹ کرتی رہتی ہے۔ منظر کھلنے پر تانیہ فون پر کسی سے باتیں کر رہی ہے۔


تانیہ: (فون پر) ہاں جی ایک لارج پیزا اور ایک بڑی والی کولڈ ڈرنک۔۔۔جی ہاں کوک ٹھیک ہے۔۔۔جی بلکل اسی پتے پر ڈلیور کرنا ہے۔۔۔ٹھیک ہے اور کب تک پہنچ جاۓ گا؟۔۔۔جی صحیح ہے۔ ٹھیک ہے۔ (فون بند کر دیتی ہے، ماریہ سے مخاطب ہوتی ہے) ہاں تو کیا بتا رہی تھی تم ارشد کے بارے میں؟


ماریہ: کیا بتاؤں تانیہ تمہیں ارشد کے بارے میں؟ (جیسے اپنے آپ سے) ارشد کبھی کبھی کچھ عجیب سا لڑکا لگتا ہے کچھ الگ سا لیکن اس کی باتوں سے سچاںئ کی خوشبو آتی ہے، اعتماد کی، بھروسے کی۔ جس پر شاید آنکھین بند کر کے یقین کیا جا سکتا ہے... مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ زندگی کو کسی خاطر میں ہی نہیں رکھتا، یوں لگتا ہے کہ زندگی اس کے لیۓ صرف ٹائم پاس ہے۔۔۔ ہاں لیکن ایسا نہیں کہ وہ مجھے یا دوسرے لوگوں کو ٹائم پاس سمجھتا ہے اور وہ میرے ساتھ صرف وقت گزار رہا ہے۔


تانیہ: تو پھر۔۔۔؟مسئلہ کیا ہے؟


ماریہ: مسئلہ۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں... یا شاید ہے؟ اصل میں بات یہ ہے کہ وہ زندگی سے کچھ بھی نہیں سیکھتا اور نہ کسی کو سکھانے کی کوشش کرتا ہے وہ بس زندگی کو جیتا ہے اور اسے گزارتا ہے۔ وہ کسی سے متاثر ہونے اور کسی کو متاثر کرنے کے چکر میں پڑتا ہی نہیں ، وہ بس جیسا ہے ویسا ہی رہتا ہے۔۔۔۔ایسے لگتا ہے کہ وہ زندگی کو سنجیدگی سے لیتا ہی نہیں اس کے نزدیک بس یہ ہے کہ وقت اچھا کٹ جاۓ۔ وہ جہاں بیٹھا ہے جہاں کھڑا ہے جہاں اس وقت چل رہا ہے وہ وقت وہ لمحہ اچھے سے گزر جاۓ۔  شاید یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہے یا غالباً نہیں۔


تانیہ: (عینک درست کرتے ہوۓ) تو تم لوگوں کا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے کب کر رہے ہو؟


ماریہ: ابھی تو معلوم نہیں ابھی تو سالانہ امتحان ہیں اس کے بعد میرے اور اس کے گھر والوں کے صلاح مشورے سے ہی کچھ ہو گا۔ شاید امتخانوں کے بعد ملازمت کے لیۓ کچھ دیر انتظار کرنا پڑے۔


(فون کی گھنٹی پھر بجتی ہے، تانیہ فون اٹھاتی ہے)


تانیہ: (فون پر) جی ٹھیک ہے میں بھیجتی ہوں کسی کو۔۔۔ (ماریہ سے مخاطب ہوتی ہے) ہاں تو اچھا ہی ہے بس پھر کچھ بھی ایسا ویسا نہ سوچو جب آدمی سچا اور قابل بھروسہ ہو، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہو، تو پھر اس سے آگے کچھ اور سوچنا فضول ہے۔۔۔دیکھو ماریہ میرے نزدیک کوںئ بھی فیصلہ دل اور دماغ دونوں سے کرنا چاہیئے۔ جس کام کو کرنے میں تمہارا دل چاہ رہا ہے، تمہاری آرزو ہے، خواہش ہے تو اس کو بس دو طریقوں سے پرکھ لو ایک تو وہ اخلاقی لحاظ سے غلط نہ ہو یعنی morally correct ہو اور دوسرا اس کا کوںئ بہت بڑا واضح نقصان نظر نہ آرہا ہو۔ باقی مستقبل کا تو کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کیا ہو جاۓ اس لیۓ کوںئ بھی فیصلہ اپنے حال کو، موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیۓ۔


ماریہ: (شرارت سے) واہ تانیہ آج تو بڑی سمجھ داری والی باتیں کر رہی ہو کن لوگوں کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا ہے۔ طبعیت تو ٹھیک ہے؟


تانیہ: (مسکراتے ہوۓ) میں تو تمہارے ساتھ ہی اٹھتی بیٹھتی ہوں۔


ماریہ: تو اس کا مطلب ہے میں سمجھ دار ہوںئ نا پھر۔۔۔


تانیہ: (عینک درست کرتے ہوۓ) ہاں جی جانتی ہوں کتنی سمجھدار ہو تم جہاں سے سمجھ شروع ہوتی ہے وہاں سے تو تم ختم ہو جاتی ہو۔


ماریہ: (منہ چڑاتے ہوۓ، طنزیہ انداز میں) ہاہاہا۔۔۔very funny.


(فون کی گھنٹی پھر بجتی ہے)


تانیہ: لگتا ہے آگیا پیزا۔ (فون اٹھاتی ہے) ہیلو۔۔۔جی جی ٹھیک ہے۔۔۔ (ماریہ سے) لو میں لے کر آتی ہوں آگیا ہے پیزا۔ (کمرے سے باہر نکل جاتی ہے۔)


بارواں منظر:


رات کا وقت ہے ارسلان ٹیرس پر اکیلا منڈیر کے اوپر دونوں ٹانگیں نیچے لٹکاۓ بیٹھا ہے اور فون پر فائزہ سے باتیں کر رہا ہے۔


ارسلان: مجھے بہت کچھ کرنا ہے ابھی فائزہ، مجھے سب کچھ چاہیۓ، سب کچھ۔ اور ان سب کو حاصل کرنے کے لیۓ مجھے ابھی بہت کچھ کرنا ہے، بہت دور تک جانا ہے، کافی فاصلہ ہے جو طے کرنا ہے۔



فائزہ: دیکھ لینا کہیں اتنا دور نہ نکل جانا کہ میں پیچھے چھوٹ جاؤں۔۔۔مجھے کبھی کبھی ارسلان تم پر شک گزرتا ہے کہ تمہیں اگر اپنے luxurious lifestyle اور آسائشوں کے لیۓ مجھے چھوڑنا پڑے تو تم چھوڑ دو گے۔ جانتے ہو مجھے اکثر بڑے ڈراؤنے خیال آتے ہیں۔


ارسلان: کیسے خیال؟


فائزہ: یہ خیال کہ ایک لمبا سا راستہ ہے، بہت طویل اتنا طویل کہ جس کی کوںئ حد نہیں جو کہیں ختم نہیں ہوتا تم اس راستے پر سرپٹ بھاگتے جارہے ہو اور اتنے دور نکل گۓ ہو کہ دکھاںئ نہیں دے رہے، میں پیچھے رہ گئ ہوں اور اکیلی کھڑی ہوں، بالکل تنہا، بے یارومددگار اور تمہیں زور زور سے آوازیں دیتی ہوں، چلاتی ہوں مگر تم تک میری آواز نہیں پہنچتی میری آواز میرے خلق میں ہی اٹک کر رہ جاتی ہے۔


ارسلان: تم ایسے ہی پریشان ہوتی رہتی ہو اس قسم کی باتیں تم سوچتی کیوں ہو؟


فائزہ: (اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ) میرے ساتھ تو جو ہو گا سو گا ارسلان، مگر ڈرتی ہوں اس راستے پر جس کا کہیں کوںئ اختتام نہیں، جس پر کہیں کوںئ موڑ نہیں آتا، اس راستے پر چلتے ہوۓ جب تم تھک کر گرو گے تو کیا ہو گا۔ اس راستے پر چلنے والے کسی کی پکار نہیں سنتے نہ کسی گرے ہوۓ کو اٹھاتے ہیں بلکہ پیچھے سے آنے والے اس کے اوپر پاؤں رکھ کر اسے روند کر گزر جاتے ہیں۔


ارسلان: میں نے ابھی اس راستے پر چلنا شروع ہی کہاں کیا ہے، تم دیکھنا فائزہ جب میں اس راستے پر چلوں گا تو اتنی تیزی سے بھاگوں کا کہ سب سے آگے نکل جاؤں گا اور اتنا آگے بڑھ جاؤں گا کہ کوںئ مجھے تک پہنچ نہیں پاۓ گا۔


فائزہ: پھر تو شاید میں بھی تم تک نہیں پہنچ پاؤں گی۔ 


ارسلان: (چلاتے ہوۓ) تم پھر وہی فضول باتیں کرنے لگ گئ۔ جب بھی تم سے بات کرو تم آگے سے یہی باتیں لے کر بیٹھ جاتی ہو۔


فائزہ: میں لے کر بیٹھتی ہوں ایسی باتیں۔۔۔تم ارسلان تم۔۔۔تم ہر وقت ایسی باتیں کرتے ہو کیونکہ تمہیں صرف چیزوں سے مطلب ہے، تم ہر وقت اپنے معیار زندگی کو، اپنے سٹیٹس کو بلند کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہو۔ تمہیں مجھ سے یا دوسرے انسانوں سے کوںئ لگاؤ نہیں تمہیں صرف اپنے آپ سے محبت ہے، تمہیں صرف قیمتی اشیا اور اپنی آسائشوں سے پیار ہے۔۔۔۔تم ارسلان صرف اور صرف چیزوں سے محبت کر سکتے ہو انسانوں سے نہیں۔


ارسلان: ( چلاتے ہوۓ) ہاں مجھے ہے چیزوں سے محبت، میں چاہتا ہوں دنیا کی ہر قیمتی سے قیمتی چیز میرے قدموں میں ہو اور میں یہ سب کچھ ہر حال میں حاصل کر کے رہوں گا کسی بھی قیمت پر کسی بھی شرط پر اور اس کے لیۓ مجھے کسی کو بھی چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دوں گا۔


(غصے سے فون زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ کچھ دیر تک ایسے ہی بیٹھے بیٹھے ٹوٹے ہوۓ فون کو گھورتا رہتا ہے پھر منڈیر سے نیچے اترتا ہے اور دوسری طرف دونوں ہاتھ منڈیر پر ٹکا کر نیچے گزرتی ٹریفک کو دیکھنے لگتا ہے۔ چند لمحوں تک ایسے ہی کھڑا رہتا ہے پھر اپنے جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے اور وہی انگوٹھی باہر نکالتا ہے۔ انگوٹھی کو پکڑ کر بڑے غور سے دیکھتا ہے پھر ڈرتے ڈرتے پہن لیتا ہے، جیسے ہی انگوٹھی پہنتا ہے تیز روشنی کا ہالہ سا نکلتا ہے اتنی تیز جس سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور دندھلا دندھلا دکھاںئ دینے لگتا ہے۔ اردگرد کی ہر چیز دندھلا جاتی ہے یہاں تک کہ ارسلان بھی دکھاںئ نہیں دیتا۔) 


تیرھواں منظر:


ارسلان ایک بڑے سے محل یا بنگلے میں پہنچ جاتا ہے۔ اپنی آنکھوں پر ابھی بھی تیز روشنی کی چبن سے بچنے کے لیۓ ہاتھ رکھے ہوۓ ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ہاتھ اٹھا کر آنکھیں کھولتا ہے اور اردگرد دیکھتا ہے۔ ایک بہت بڑا اور نہایت خوبصورت بنگلہ ہے سارے کا سارا بنگلہ قیمتی اشیا سے سجا ہے۔ ابھی وہ وہیں کھڑا خیرت سے اردگرد دیکھ رہا ہے کہ ایک آواز ابھرتی ہے آواز کہاں سے آرہی ہے معلوم نہیں ہو رہا۔


آواز: خوش آمدید۔ مبارک ہو تمہیں وہ سب کچھ مل گیا ہے جو تم چاہتے تھے۔ اب دنیا کی ہر چیز تمہارے قدموں میں ہے۔


(ارسلان خیرت سے اردگرد آواز کو تلاش کرتا ہے)


ارسلان: کون ہو تم اور کہاں سے بول رہے ہو؟


آواز: (آواز والا اس پر کوںئ دھیان نہیں دیتا اور اپنی بات جاری رکھتا ہے) اب تم جو چاہو گے، جس چیز کا بھی ارادہ کرو گے تمہارے پاس آجاۓ گی۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے۔۔۔اور وہ شرط یہ ہے کہ تمہیں اپنی آزادی مجھے دینی ہو گی۔ تمہیں زندگی میرے مطابق گزارنی ہو گی، تمہیں اپنا ہر کام جیسے میں بولوں گا کرنا ہو گا۔۔۔ اور ایک بات یاد رکھنا اگر تم نے میری بات ماننے سے انکار کیا تو تمہیں اندھیری کوٹھری میں ڈال دیا جاۓ گا۔ بولو منظور ہے؟۔۔۔(آواز خاموش ہوتی ہے لیکن ارسلان کے جواب دینے سے پہلے ہی پھر بول اٹھتی ہے) اور ہاں تمہارے پاس صرف ایک منٹ کا وقت ہے اس ایک منٹ میں تم انگوٹھی اتار کر واپس لوٹ سکتے ہو لیکن اس کے بعد تمہیں زندگی پھر یہ موقع نہیں ملے گا۔


(ارسلان ابھی بھی خیرت سے اردگرد دیکھ رہا ہے۔ وہ آواز والے کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دیتا۔ آواز آنا اب بند ہو جاتی ہے۔ ارسلان پاس رکھے قیمتی صوفوں کو پیار سے چھوتا ہے۔ پھر پردوں کو پکڑتا ہے، خوشی اس کے چہرے سے عیاں ہے۔ پھر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی منزل پر جانے لگتا ہے، لیکن پاس ہی لفٹ دیکھ کر رک جاتا ہے اور لفٹ سے اوپر کی منزل پر جاتا ہے۔ اوپر کی منزل بھی انتہاںئ خوب صورت ہے۔ کسی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو جاتا ہے۔ 


دیوار پر لگی گھڑی کافی قریب سے دکھاںئ دیتی ہے، سیکنڈ کی سوںئ چلنے کی آواز سناںئ دیتی ہے، ٹک ٹک ٹک، پھر سوںئ بارہ پر آجاتی ہے اور بلند آواز سے گھنٹہ بجنے کی آواز آتی ہے۔ ایک منٹ مکمل ہو جاتا ہے۔ )


چودھواں منظر: 


 کمرا نہایت قیمتی اور خوبصورت چیزوں سے مزین ہے ، ایک ایک چیز قرینے اور سلیقے سے رکھی ہے۔ دیواروں پر بھی خوبصورت اور مہنگی مہنگی پینٹنگز آویزاں ہیں۔ پورے کمرے کی آرائش بڑی دلکش لگ رہی ہے۔ ارسلان محویت سے ایک ایک چیز کو چھو چھو کر دیکھتا ہے۔ اسی طرح دو تین کمروں کو دیکھتا ہے، اندر سے پورے گھر کو دیکھنے کے بعد باہر آجاتا ہے۔ باہر وسیع وعریض صحن ہے اور لان ہے، پورچ میں کئ چھوٹے بڑے سائز کی مہنگی مہنگی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ایک گاڑی کے پاس جاتا ہے اس کے اوپر ہاتھ پھیرتا ہے، پھر دوسری گاڑی کے پاس جاتا ہے، پھر تیسری کے پاس جا کر رکتا ہے، اردگرد دیکھتا ہے لیکن کوںئ نظر نہیں آتا، گاڑی کا دروازہ کھولتا ہے اندر دیکھتا ہے چابی موجود ہے، گاڑی میں سوار ہوتا ہے اور سٹارٹ کر گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔



پندرھواں منظر:


ارسلان سڑک پر گاڑی گھما رہا ہے، ایسے ہی بلا مقصد کبھی ایک طرف جاتا ہے اور کبھی دوسری طرف کبھی ایک طرف مڑتا ہے کبھی دوسری طرف، کسی بہت ہی بڑے شاپنگ مال کے سامنے گاڑی روکتا ہے مگر اترتا نہیں وہیں سے چند سیکنڈ بلڈنگ کو دیکھتا ہے پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے ہی گھومتے گھومتے ایک دم فائزہ کا خیال اس کے ذہن میں آتا ہے، پھر کچھ سوچ کر گاڑی ایک طرف موڑتا ہے جیسے ہی مڑتا ہے اچانک گاڑی رک جاتی ہے۔ سٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر نہیں ہوتی۔ گاڑی سے باہر نکل آتا ہے۔ سڑک بالکل ویران اور سنسان ہے اردگرد بھی کوںئ دکان کوںئ کچھ نہیں۔ گاڑی سے نکلتے ہی وہی آواز آتی ہے۔ 


آواز: (تحکمانہ لہجے میں) تم اس طرف نہیں جا سکتے۔۔۔ واپس مڑنے کے لیۓ گاڑی سٹارٹ کرو گے تو یہ سٹارٹ ہو جاۓ گی ورنہ یہیں کھڑے رہو گے۔


ارسلان: مگر میں کیوں نہیں جا سکتا میں فائزہ سے ملنے۔۔۔(کہتے کہتے رک جاتا ہے) لیکن میں تمہیں کیوں بتاؤں میری مرضی میں جہاں مرضی جاؤں۔


آواز: یہ اختیار تم کھو چکے ہو تمہیں میں نے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا اور ایک منٹ کا وقت بھی دیا تھا، اگر ایک منٹ میں تم لوٹ جاتے ہو تو ٹھیک ورنہ تمہیں اپنے سارے اختیارات میرے حوالے کرنے پڑیں گے۔


ارسلان: لیکن ایسا کیوں۔۔۔


آواز: (بات کاٹ کر) سوال پوچھنے کا بھی اختیار اب تمہارے پاس نہیں، اب جیسا میں کہوں گا ویسا ہی تمہیں ماننا پڑے گا بغیر کسی سوال و جواب کے۔


ارسلان: اور اگر میں نہ مانوں تو؟


آواز: تو انجام سے تم اچھی طرح واقف ہو۔۔۔اب تم گاڑی یہاں سے واپس موڑو گے اور سیدھا گھر جاؤ گے۔ کیونکہ اس وقت کھانے کا وقت ہے۔


ارسلان: لیکن میں کھانا کسی ریسٹورنٹ میں کھانا چاہتا ہوں۔


آواز: نہیں اس وقت کا کھانا تمہیں گھر پر ہی کھانا پڑے گا۔


ارسلان: لیکن تم نے خود ہی کہا تھا اچھے سے اچھا کھانا اور اچھے سے اچھا لباس جو میں چاہوں گا وہ مجھے ملے گا؟


آواز: تو تمہیں کھانا اچھا ہی ملے گا لیکن تم کھانا کس  وقت کھاؤ گے اور کس جگہ کھاؤ گے اس کا انتخاب میں کروں گا۔


(ارسلان مزید کچھ کہے بغیر گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے اور گاڑی موڑ لیتا ہے۔)


سولوھواں منظر:


رات کا وقت ہے ارسلان اپنے کمرے کے باہر بالکنی میں کھڑا ہے، کسی مہنگے برانڈ کا سگریٹ پی رہا ہے اور نیچے پھیلے ہوۓ وسیع بنگلے کو دیکھ رہا ہے۔ ایک طرف سوئمنگ پول ہے اور دوسری طرف لان ہے جس میں چند کرسیاں اور میز پڑے ہیں۔ سگریٹ پی کر جیسے ہی پھینکتا ہے آواز پھر ابھرتی ہے۔


آواز: (تحکمانہ انداز میں) چلو اب تمہارا سونے کا وقت ہو گیا ہے۔


(ارسلان اپنے خیالوں میں کھویا ہوا اچانک آواز کے آنے سے ٹھٹھک جاتا یے)


ارسلان: (خیرت سے) تم۔۔۔کیا مطلب سونے کا وقت ہو گیا ہے ابھی میں سونا نہیں چاہتا۔


آواز: (اسی انداز سے) لیکن تمہیں سونا ہو گا۔ کیونکہ تمہیں میری مرضی کے مطابق چلنا ہے اپنی مرضی کے مطابق نہیں۔


ارسلان: لیکن مجھے اس وقت بالکل نیند نہیں آرہی اور نہ میں عموماً اس وقت سویا کرتا ہوں۔


آواز: میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ تمہیں سوال کرنے کی اجازت نہیں۔ اب جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا کرو۔۔۔اور ہاں صبح جب میری مرضی ہو گی میں تمہیں اس وقت اٹھاؤں گا۔ تم نہ اس سے پہلے اٹھ سکتے ہو اور نہ اس کے بعد۔


(ارسلان پریشانی کے عالم میں چپ چاپ بتیاں بھجا کر بستر پر جا لیٹتا ہے۔)


سترھواں منظر: 


دیوار پر کافی قریب سے گھڑی نظر آتی ہے جس پر دو بجنے میں دو تین سیکنڈ باقی ہیں۔ جیسے ہی سیکنڈ کی سوںئ بارہ پر جاتی ہے اونچی آواز میں گھنٹہ بجتا ہے۔ پھر بستر پر ارسلان سویا نظر آتا ہے۔ گھنٹے کی آواز سن کر ہلتا ہے اور کروٹ بدلتا ہے۔ دیوار پر لٹکی گھڑی بالکل ارسلان کے کان کے پاس آجاتی ہے اور زور زور سے بجنے لگتی ہے۔ ارسلان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ گھڑی واپس دیوار پر چلی جاتی ہے اور بجنا بند ہوجاتی ہے۔ ارسلان آنکھیں ملتا ہوا پردہ ہٹا کر کھڑکی سے باہر جھانکتا ہے باہر ابھی رات ہے۔ 


ارسلان: (خود سے بڑبڑاتے ہوۓ) یہ کیا بیہودگی ہے ابھی رات کے دو بجے ہیں۔


(پھر وہی آواز سناںئ دیتی ہے۔)


آواز: اٹھ جاؤ یہ تمہارے اٹھنے کا وقت ہے۔



ارسلان: لیکن ابھی تو رات کے دو بجے ہیں میں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو سویا تھا۔


آواز: جو بھی ہے تمہیں اٹھنا ہو گا۔ اب فوراً اٹھ جاؤ۔


ارسلان: مگر میں اس وقت اٹھ کر کیا کروں گا؟


(آواز آنا بند ہو جاتی ہے)


ارسلان: بولو۔۔۔میں اس وقت اٹھ کر کیا کروں گا؟


(کوںئ جواب نہیں آتا)


ارسلان: ہیلو۔۔۔کہاں گۓ۔۔۔میں کہہ رہا ہوں اب میں کیا کروں اٹھ کر؟


( دوسری طرف سے اب بھی خاموشی ہے)


ارسلان کچھ نہ سمجھتے ہوۓ منہ بناتا ہے اور کندے اچکاتا ہے، پھر دوبارہ سونے کے لیۓ لیٹ جاتا ہے۔ جیسے ہی لیٹ کر آنکھیں بند کرتا ہے گھڑی پھر بلند آواز سے بجنے لگتی ہے۔ دوبارہ اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ گھڑی بجنا بند ہو جاتی ہے۔ کچھ دیر ایسے ہی سر پکڑ کر بیٹھا رہتا ہے پھر ساتھ ہی میز پر سے موبائل اٹھاتا ہے۔ موبائل بھی کسی مہنگے برانڈ کا ہے اور نیا ماڈل ہے۔ بیڈ کی ٹیک کے ساھ ٹیک لگا کر کچھ دیر موبائل پر چند ویڈیوز دیکھتا ہے، ویڈیوز کی آواز مسلسل آتی رہتی ہے مگر بول سمجھ نہیں آتے۔ پھر ایک دم اچانک موبائل بند ہو جاتا ہے، خیرانی کے ساتھ اسے دوبارہ آن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی بار بار بٹن دباتا ہے کبھی ایک ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے ہاتھ پر ہلکے ہلکے مارتا ہے۔ مگر موبائل آن نہیں ہوتا۔ آواز پھر آتی ہے۔


آواز: یہ موبائل اس طرح آن نہیں ہو گا۔


ارسلان: تو پھر کیسے ہو گا؟


آواز: تم یہ چینل جو دیکھ رہے تھے یہ دیکھنے کی اجازت نہیں اگر یہ ویڈیو یا یہ چینل دیکھنے کے علاوہ کچھ اور دیکھنے کے ارادے سے موبائل آن کرو گے تو آن ہو جاۓ گا۔


ارسلان: مگر اس چینل میں ایسا کیا ہے جو میں نہیں دیکھ سکتا؟


آواز: میں بتا چکا ہوں سوال پوچھنے کا اختیار تمہارے پاس نہیں۔ تمہیں بس حکم کی تعمیل کرنا ہے۔


(ارسلان موبائل بیڈ پر ہی پرے پھینک دیتا ہے۔)


اٹھارواں منظر:


ارسلان کبٹ میں سے کپڑے نکال رہا ہے۔ ڈھیروں  سوٹوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے اور اسے بیڈ پر پھینک دیتا ہے۔ پھر دوسرے کبٹ میں سے جوتوں کا انتخاب کرتا ہے۔ تمام کے تمام کپڑے اور جوتے اعلیٰ اور مہنگے برانڈز کے ہیں۔ بیڈ پر سے کپڑے اٹھا کر پہننے لگتا ہے۔ اچانک سے آواز پھر آتی ہے۔


آواز: یہ لباس بھی تم نہیں پہن سکتے۔


ارسلان: اگر یہ پہننا ممنوع ہے تو تم نے اسے کبٹ میں رکھا ہی کیوں ہوا ہے؟


آواز: اس لیۓ کہ یہ لباس گھر کے اندر پہنا جا سکتا ہے لیکن تم باہر جا رہے ہو اس لیۓ یہ نہیں پہن سکتے۔


ارسلان: مگر اس لباس میں تو ایسا کچھ نہیں جو باہر جا کر پہننے سے معیوب لگے۔؟


(ارسلان بات کر کے جواب کا انتظار کرتا ہے مگر کوںئ جواب نہیں آتا۔ وہ خاموش ہو جاتا ہے اور دوسرے کپڑے نکالنے لگتا یے۔ کبٹ میں سے ایک نیلے رنگ کا سوٹ نہچے گرتا ہے۔ آواز پھر آتی ہے)


آواز: تم یہ پہنو گے۔


ارسلان: کیا یہ؟۔۔۔ یہ تو مجھے بلکل پسند نہیں اور خاص  کر نیلا رنگ تو میرہ سخت ناپسندیدہ ہے۔


آواز: تمہیں اپنی پسند کے حساب سے نہیں بلکہ میری پسند کے مطابق چلنا ہے۔


ارسلان: لیکن میں یہ کیسے پہنوں جو مجھے ذرہ بھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔


(دوسری طرف پھر خاموشی چھا جاتی ہے)


ارسلان: (کچھ دیر جواب کا انتظار کرنے کے بعد) کیا مصیبت ہے۔ (ہاتھ میں پکڑا سوٹ زمین پر پھینک کر بیڈ پر بیٹھ جاتا ہے) ہر کام تمہاری مرضی اور پسند کے مطابق کروں میں۔


انیسواں منظر:


ارسلان نے وہی نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ہے اور گاڑی چلا رہا ہے۔ ایک عمارت کے سامنے گاڑی روکتا ہے جیسے ہی گاڑی رکتی ہے آواز پھر آتی ہے۔


آواز: تم اس عمارت میں نہیں جا سکتے۔


ارسلان: (اکتاتے ہوۓ) یہ کیا یار تم میری ہر جگہ نگرانی کیوں کر رہے ہو۔۔۔ تم مجھے ایک ہی دفعہ بتا دو کہ مجھے کہاں جانا ہے اور کہاں نہیں جانا، کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اور مجھ پر بھروسہ رکھو میں تمہاری حکم عدولی نہیں کروں گا۔ میں کچھ ایسا نہیں کروں گا جس سے تم نے منع کر رکھا ہے لیکن یہ میری ہر وقت نگرانی کرنا اور جاسوسی کرنا چھوڑ دو۔


آواز: میں تمہاری نگرانی کرنا نہیں چھوڑ سکتا کیوں کہ تم میرے کچھ نہیں لگتے نہ مجھے تم سے محبت ہے اس لیۓ میں تم پر ہر وقت نظر رکھوں گا اور تمہیں ان کاموں سے روکوں گا جو مجھے ناپسند ہیں۔


(ارسلان سن کر خیران ہوتا یے اور کسی خیال میں کھو جاتا یے)


بیسواں منظر: (خیال میں)


ارسلان اپنے کمرے میں بیٹھا فون پر بات کر رہا ہے ارشد پاس بیٹھا کسی کام میں مصروف ہے۔ اور ساتھ ساتھ اس کی باتیں بھی سنتا جاتا ہے۔


ارسلان: (فون پر) ہاں ٹھیک ہے، سمجھ گۓ ساری بات؟۔۔۔تم نے ایک ایک بات مجھے بتانی ہے کہ وہ کہاں کہاں جاتی ہے، کیا کرتی ہے، کس سے ملتی ہے، ۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔صحیح ہے پھر بعد میں بات ہوتی ہے۔ (فون کاٹ دیتا ہے)


ارشد: یار تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ میرے بھاںئ اگر اس سے محبت کرتے ہو تو پھر اس پر بھروسہ رکھو یہ ہر جگہ اس کی جاسوسی کیوں کر رہے ہو؟


ارسلان: مجھے اس کی پرواہ ہے یار اس لیۓ میں یہ سب کر رہا ہوں۔


ارشد: (طنزیہ مسکراتا ہے) یہ کیسی پرواہ ہے جس میں تم اس کی زندگی مشکل بنا دو، ابھی تم نگرانی کر رہے ہو کل کو تم اسے ان جگہوں پر جانے سے اور ان کاموں سے روکو گے بھی جو تمہیں ناپسند ہوں گے۔


ارسلان: ظاہر سی بات ہے۔۔۔


ارشد: (پھر اسی انداز سے ہنستا ہے) تم اس کی پرواہ نہیں کرتے تم اس پر شک کرتے ہو، اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اسے آزادی دو اور اس پر بھروسہ رکھو۔ 


ارسلان: ابے چھوڑو یار تم بھی خواہ مخواہ کی باتیں لے کر بیٹھ جاتے ہو۔


اکیسواں منظر:


ارسلان اسی جگہ پر اپنی گاڑی میں بیٹھا ہے اور خیال سے باہر آنے پر ایک دم چونکتا ہے۔ پھر کچھ سوچ کر انگوٹھی کو اتارنے کی کوشش کرتا ہے مگر انگوٹھی نہیں اترتی۔ کافی دیر کوشش کرتا رہتا ہے پھر تنگ آکر چھوڑ دیتا ہے۔ غصے سے زور سے ہاتھ ڈیش بورڈ پر مارتا ہے۔ اور بلا مقصد کھڑکی سے باہر جھانکنے لگتا ہے۔


بائیسواں منظر:


رات کا وقت ہے ارسلان بستر پر سونے کے لیۓ لیٹتا ہے جیسے ہی لیٹتا ہے آواز پھر سنائئ دیتی ہے۔


آواز: تم اس وقت نہیں سو سکتے۔


ارسلان: اب کیا ہوا، روزانہ تم اس وقت مجھے سونے کا حکم دیتے ہو اور آج جب میں خود سونے لگا ہوں تو تم  پھر آگۓ۔۔۔آج تو مجھے نیند بھی آرہی ہے۔


آواز: لیکن تم اس وقت نہیں سو سکتے جب میں چاہوں گا تب تم سو گے اور تب اٹھو گے۔


(ارسلان غصے سے کوںئ چیز دیوار پر دے مارتا ہے۔)


تئیسواں منظر:


صبح کا وقت یے ارسلان کالج یونیفارم میں ہے کالج کے لیۓ نکلنے لگتا یے تبھی آواز آتی ہے۔


آواز: کہاں جا رہے ہو؟


ارسلان: کیوں تمہیں ابھی تک پتا نہیں چلا کیا، جو پوچھ رہے ہو؟۔۔۔اب یقیناً میں یہاں بھی نہیں جا سکتا ہوں گا تبھی تم آۓ ہو۔۔۔لیکن پوچھ سکتا ہوں کالج جانے میں کیا براںئ ہے؟


آواز: کوںئ براںئ نہیں لیکن تم کون سے کالج جاؤ گے اور کون سی تعلیم حاصل کرو گے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار تمہارے پاس اب نہیں رہا یہ میں کروں گا۔


ارسلان: لیکن۔۔۔


آواز: اور ہاں اس وقت عبادت کا وقت ہے تمہیں عبادت کرنی ہو گی۔


ارسلان: (گھڑی دیکھتے ہوۓ) لیکن اس وقت کون سی عبادت کا وقت ہے اس وقت تو صبح کے آٹھ بج رہے ہیں؟۔۔۔ اور ویسے بھی عبادت میں تمہاری مرضی سے کیوں کروں جب میری مرضی ہو گی تب ہی کروں گا۔ عبادت کا تب ہی تو فائدہ ہے کہ اپنے دل سے کی جاۓ ورنہ زبردستی کی عبادت کیا عبادت ہوںئ؟


آواز: تمہیں کون سی عبادت کرنی ہے اور کس وقت کرنی ہے یہ میں تمہیں بتاؤں گا، تمہارا عقیدہ کیا ہے تمہارا مذہب کون سا ہے، تم کس مسلک سے تعلق رکھتے ہو اس سے مجھے کوںئ سروکار نہیں آج سے تم وہی عقیدہ اپناؤ گے جو میں کہوں گا اور اسی کے مطابق تمہیں عبادت کرنی پڑے گی۔۔۔ اب جھک جاؤ اور جیسے میں کہتا ہوں ویسا کرو۔


ارسلان خیران اور پریشان تھوڑا سا جھکتا ہے پھر ایک دم اچانک کسی خیال کے ذہن میں آنے سے چونک اٹھتا ہے اور سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔


ارسلان: یہ میں نہیں کروں گا تم چاہے جو مرضی کر لو۔


آواز: تم اس کا انجام جانتے ہو؟


ارسلان: (تن کر) تم جو کرنا چاہتے ہو کر لو لیکن میں یہ نہیں کروں گا۔


آواز: تو ٹھیک ہے پھر بھگتو۔


(ایک دم سے تاریکی چھا جاتی ہے۔ اتنا اندھیرا ہے کہ کچھ سجھاںئ نہیں دیتا۔ ارسلان کے چیخنے کی آواز آتی ہے جیسے کوںئ بلندی سے گر رہا ہو پھر اس کے زمیںن پر گرنے کی آواز آتی ہے۔)


چوبیسواں منظر:


ایک تاریک کمرا ہے جس میں ارسلان اوندھے منہ  لیٹا ہے۔ کمرا بلکل خالی ہے سواۓ تاریکی کے اور کچھ نہیں۔ کمرے میں کوںئ کھڑکی کوںئ دروازہ اور کوںئ روشندان بھی نہیں۔ ارسلان سیدھا ہوتا ہے اور اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ اس کے بال اور دھاڑی کافی بڑھ چکے ہیں، اور کپڑے بھی پھٹے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کافی دنوں سے اسی کمرے میں بند ہے۔ تھوڑی دیر تک بیٹھا رہتا ہے پھر اٹھتا ہے اور دیوار کے پاس جا کر دیوار کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے، ساتھ ساتھ چلاتا ہے۔


ارسلان: (چلاتے ہوۓ) خدا کے لیۓ دروازہ کھولو۔ بہت گھٹن ہے یہاں، میرا دم گھٹ رہا ہے سانس بند ہو رہا ہے خدا کے لیۓ دروازہ کھولو، روشنی آنے دو اس تاریکی میں میرا دم گھٹ جاۓ گا۔


(تھک کر ادھر ہی ڈھیر ہو جاتا ہے اور سسکنے لگتا ہے۔ اچانک سےاوپر سے ایک اور آدمی کے گرنے کی آواز آتی ہے۔ چونکتا ہے اور اٹھ کر اس کے پاس جاتا ہے، اسے دیکھ کر چلا اٹھتا ہے۔)


ارسلان: ارشد تم؟۔۔۔تم یہاں کیسے؟ 


ارشد: (اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے) جیسے تم آۓ ہو۔


ارسلان: (خیرانی سے) مگر میں تو انگوٹھی۔۔۔لالچ۔۔۔۔ 


ارشد: ہاں ہاں معلوم ہے تمہیں تمہاری لالچ نے اس مقام تک پہنچایا ہے، تم اس جبر کے شکنجے میں اپنی لالچ کے باعث آۓ ہو اور میں۔۔۔۔


ارسلان: ہاں پر تم تو اس چکر میں نہیں آسکتے کیونکہ تم تو ان چیزوں سے زیادہ آزادی کو ترجیع دیتے تھے۔ 


ارشد: ترجیع دیتا تھا نہیں اب بھی دیتا ہوں مگر مجھ میں اور تم میں فرق یہ ہے کہ تم اپنی لالچ کے باعث اس گھٹن زدہ ماحول میں پھنسے ہو جبکہ مجھے جبراً یہاں پھنسایا گیا ہے۔ 


ارسلان: تو یہاں سے نکلنے کا کوںئ طریقہ ہے تمہارے پاس؟


ارشد: میرے پاس تو نہیں پر تم چاہو تو نکل سکتے ہو۔


ارسلان: (خیرانی سے) میرے پاس۔۔۔اچھا وہ کیسے؟


ارشد: وہ یہ کہ تم جس وجہ سے اس جگہ پہنچے ہو اس وجہ کو ختم کر دو، لالچ کو چھوڑ دو تو شاید تمہیں کوںئ کھڑکی نظر آجاۓ، تمہارے لیۓ کوںئ دروازہ کھل جاۓ، یا روشندان بن جاۓ۔۔۔اور رہی میری بات تو میں یہاں کب تک ہوں، نہیں جانتا، یہ یا تو خدا جانتا ہے یا وہ جو اس پر اختیار رکھتا ہے۔ 


(کسی سوچ میں گم ہو جاتا ہے)


پچیسواں منظر: 


ارشد اور ماریہ ریسٹورنٹ میں کھانے کی میز کے پاس کھڑے ہیں، بالکل اکیلے ہیں ، اردگرد کوںئ دکھاںئ نہیں دے رہا نہ کسی کی اور کی آواز آرہی ہے۔


ماریہ: میں اب کچھ نہیں کر سکتی ارشد۔۔۔ مجھے جانا ہی ہو گا میں بس آخری دفعہ تم سے ملنے آںئ ہوں۔ 


ارشد: لیکن تم ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔ خدا کے لیۓ ایک دفعہ دوبارہ سوچو اور اس کے بعد کوںئ فیصلہ کرو۔


ماریہ: یہ فیصلہ میں نہیں کر سکتی ارشد۔۔۔


ارشد: لیکن تمہیں فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔


ماریہ: حق ہے مگر اختیار نہیں ہے۔ میرا فیصلہ ہو چکا ہے۔۔۔اور تم۔۔۔ تم خود بھی تو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔


ارشد: ہاں نہیں رکھتا مگر میں کوشش تو کر رہا ہوں پر تم تو۔۔۔


ماریہ: میں کوشش کرکے دیکھ چکی ہوں اب کوںئ فائدہ نہیں۔۔۔۔(چلتے ہوۓ) اچھا خدا خافظ اب مجھے جانے دو۔


(اسے پیچھے سے روکنے کے انداز سے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے اور آواز دیتا ہے)


ارشد: لیکن ماریہ۔۔۔


(ماریہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی اور اپنے ہاتھ کی پشت کے ساتھ آنکھ کی نمی صاف کرتی یے اور باہر نکل جاتی ہے۔)


چھبیسواں منظر:


ارشد اور ارسلان اسی تاریک کمرے میں اسی پوزیشنز میں بیٹھے ہیں۔ پھر ارشد اٹھتا ہے اور ایک طرف کو چلتا ہے دیوار کے ساتھ جا کر دیوار کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوتا ہے یوں کہ پشت ارسلان کی طرف ہے۔ پھر ہاتھ سے آنکھوں کو صاف کرتا ہے اور مڑ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگاتا ہے۔ فضا میں کہیں گھورتے ہوۓ یہ شعر پڑھتا ہے،


نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں، نہ شکایتیں 

تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گۓ

































 





























۔

Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات